اسلامی مدارس اور تعلیم و تربیت کی خشت اول
عربی زبان دین اسلام کی پہچان اور شعار ہے کیونکہ اس میں ہماری آخری اور ابدی کتاب 'قرآنِ کریم' نازل ہوئی، اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی زبان یہی تھی۔ آپ اور ان کے صحابہ عرب تھے۔ قرآنِ کریم کی طرح ان کی تمام احادیث کا ذخیرہ اور آپ کی سیرتِ مبارکہ اسی زبان میں ہے۔ یوں ہمارے دین اسلام کی تمام تعلیمات کی اصل زبان یہی ہے اور ہماری عبادات کے تمام اذکار، دعائیں اور آداب بھی اسی عربی زبان میں ہیں۔
ہر مسلمان عربی سیکھتا ہے!
عربی زبان کی اس دینی اور شرعی اہمیت کی وجہ سے ہر باشعور مسلمان اسے دیکھتا ہے، اور کسی نہ کسی شکل میں اسے بولتا بھی ہے۔ ہمارے اس خطے کے مسلمان خاندانوں میں ایک اچھی روایت نسلوں سے چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے ننھے بچوں کو شعوری عمر کو پہنچتے ہی ان کی خواندگی کا آغاز قرآنِ کریم کی تعلیم دینے سے کرتے ہیں، جس کی ابتدا تعلیم قرآن کے ابتدائی اور تمہیدی قاعدے ۔۔۔۔ بغدادی قاعدے یا قاعدہ ۔۔۔۔۔ یا نورانی قاعدے ۔۔۔ کی تدریس سے ہوتی ہے۔
بچہ اس تمہیدی قاعدے کو دو یا تین سال مسلسل محنت سے پڑھتا رہتا ہے اور عربی حرفوں کی مفرد اور مرکب شکلوں نیز ان کی حرکات کی متنوع صورتوں اور استعمالات کی مشق کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے الفاظ، مرکبات، جملوں اور آیات کی قرأت سیکھتا ہے اور وقف اور وصل کے اُصولوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ یوں ہمارے بچے تین یا چار سال کی عمر کو پہنچتے ہی قرآنِ کریم کی عربی زبان کو سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ اسے صحیح پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔
اس تمہیدی قاعدے کو پڑھنے کے بعد یہ خوش نصیب بچے قرات کے انہی اصولوں کے مطابق قرآنِ کریم کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کی مشق اور تربیت لیتے ہیں جسے ناظرہ قرآنِ کریم کی خواندگی کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ ایک یا دو سال مسلسل محنت کرتے ہیں۔
اس ناظرہ قرآنِ کریم کورس کے دوران وہ کئی منتخب سورتوں کو زبانی بھی یاد کرتے ہیں، نیز وہ مکمل نماز کے اذکار، اذان اور دیگر مواقع پر پڑھے جانے والے اذکار اور دعاؤں کو بھی از بر کر لیتے ہیں۔ اس مدت میں بچے قرآن کریم کی آسان اور سلیس عربی زبان میں جب اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور آیات کو بار بار اور تکرار سے پڑھتے اور دہراتے رہتے ہیں، تو ان کے دلوں اور ذہنوں میں قرآن الفاظ، مرکبات، محاورے اور جملے بلکہ پوری پوری آیات پختہ اور محفوظ ہو جاتی ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ تیس پاروں پر مشتمل قرآنِ کریم کی لغت عربی کے عظیم اور وسیع ذخیرے سے اچھی طرح مانوس اور واقف ہو چکے ہوتے ہیں۔
اسلامی تعلیم و تربیت کا اچھا آغاز:
مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا یہ پہلا کورس جو بغدادی قاعدے اور ناظرہ قرآنِ کریم پر مشتمل ہے، ایک جامع اور مفید کورس ہے کیونکہ اس میں ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا ایسا عمدہ اور جامع پروگرام دیا گیا ہے جو درج ذیل بنیادی اور ضروری نکات کو شامل ہوتا ہے:
- کتاب اللہ کی قرأت کے ضروری قاعدوں کی تعلیم اور مشق
- کتاب اللہ کی صحیح اور پختہ تلاوت کی نظری او عملی تربیت
- اسلام کے پہلے دو بنیادی ارکان: شہادتیں اور نماز کی تعلیم اور عملی تربیت
- بنیادی اسلامی آداب کی تعلیم و تربیت
- عربی زبان کے بنیادی الفاظ، ترکیبوں، محاوروں اور جملوں کو پڑھنے، بولنے کی پختہ تربیت اور پھر بچے اسے جس یکسوئی، شوق اور توجہ سے پڑھتے ہیں اور فر فر سناتے ہیں، اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تین چار سال کی مسلسل محنت اور ریاضت کے نتیجے میں اسلامی تعلیم و تربیت کے مذکورہ بالا مضامین میں ایسی اچھی استعداد اور صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں جسے بنیاد بنا کر اگلے تعلیمی مرحلے میں ان کی بہتر اور معیاری تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
سالِ اوّل کے پہلے مضمون میں جمود:
اس کے بعد بچوں کی ایک بڑی تعداد عربی زبان سیکھنے اور اسلامی تعلیم کے حصول کی غرض سے اسلامی مدارس میں داخل ہوتی ہے جہاں وہ سالِ اوّل کا تعلیمی نصاب پڑھتے ہیں۔ جس کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ترجمہ قرآنِ کریم کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ سبق کے آغاز پر ایک طالب علم مقررہ آیاتِ کریمہ تلاوت کرتا ہے، پھر معلم ان کا مقامی زبان میں ترجمہ سکھاتا ہے۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکورہ مشکل الفاظ اور ترکیبوں کی حسبِ ضرورت تشریح بھی کرتا جاتا ہے۔ طلبہ اس ترجمہ اور تشریح کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے اور یاد کر لیتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کے اس نہج سے اُنہیں متعدد علیمی و تربیتی فوائد حاصل ہوتے ہیں:
- وہ قرآنِ کریم کی آیات کا معنی اور ترجمہ سیکھ لیتے ہیں۔
- وہ قرآنِ کریم کے فہم و مطالعہ کی قدرت حاصل کر کے اس کے ارشادات اور احکام کو خود سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے اہل ہوتے ہیں۔
- وہ قرآن حکیم کے الفاظ اور تراکیب کی لغوی اور صرفی و نحوی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔
ترجمہ قرآنِ کریم کی ایسی تدریس سے ہمارے بچوں، نوجوانوں اور علماء کو مذکورہ بالا فوائد اور نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ فوائد محدود اور ناکافی ہیںِ اور ہمارے عزیز بچوں کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم و تربیت کے تمام اہداف اور مقاصد کا احاطہ نہیں کرے۔ اس لئے یہ طریقۂ تدریس کچھ مفید ہونے کے باوجود ناقص ہے۔ اور اس ناقص اور جامد طریقۂ تدریس کا تسلسل زیرِ تعلیم طلبہ میں جمود پیدا کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری درسگاہوں میں تعلیم قرآنِ کریم کا یہ عظیم ترین مضمون اس کی آیاتِ کریمہ کی لفظی ترجمہ رٹنے اور رٹانے تک محدود رہتا ہے اور تین چار سال تک کسی تبدیلی یا ترقی کے بغیر اسی نہج پر چلتا رہتا ہے، اور ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ اس کی تدریس کے دوسرے یا اگلے سالوں میں، جب زیر تعلیم طلبہ کی تعلیمی صلایت اور فکری و علمی معیار بڑھ جاتے ہیں اس کے تدریسی نہج کو ترقی دیتے ہوئے اس میں مزید تعلیمی و تربیتی مقاصد کو شامل کر لیا جائے۔
ترجمے نے سب کو عربی زبان سے لا تعلق کر دیا!
اس جامد طریقہ تدریس نے ہمارے پورے تعلیمی ڈھانچے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ درسِ نظامی کے تمام مضامین کی تدریس، شروع سے لے کے آخر تک اسی نہج پر ہوتی ہے۔ اس نے ہمارے تمام طلبہ، طالبات، مدرسین اور علماء کو قرآنِ کریم کی زبان لسانِ عربی مبین سے لا تعلق کیا ہوا ہے۔ وہ اس کے فہم و مطالعہ سے محروم رہتے ہیں اور اُنہیں قرآن کریم کے الفاظ، ترکیبوں، محاوروں اور استعمالات میں تدبر اور غور و فکر کی تربیت دی جاتی ہے، نہ ان کے لکھنے اور بولنے اور متنوع استعمالات کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ کتاب اللہ کے حافظ اور عالم ہونے کے باوجود عربی زبان میں کوئی صلاحیت حاصل نہیں کر پاتے۔ یوں قرآنِ کریم کی تعلیم و تدریس میں اس جمود اور کاہلی نے عرصہ دراز سے ہمارے عزیز بچوں، نوجوانوں، مدرّسین، علماء، مفکرین اور تمام تعلیم یافتہ طبقوں کو عربی زبان سے لا تعلق اور محروم رکھا ہے۔ اس لئے یہ طریقۂ تدریس، جو ہمارے ملک اور خطے کے تمام ممالک کے اسلامی مدارس میں جاری و ساری ہے ناقص اور مضر ہے۔ ضرہ أکبر من نفعه! اس کے دیگر مضر اثرات کی مزید تفصیل دوسری جگہ ملاحظہ کریں:
چنانچہ سال اوّل کا یہ نقص اگلے تعلیمی مراحل میں بھی تعلیم و تربیت کے مقاصد کو متاثر کرتا ہے اور پورے درسِ نظامی کو سال اوّل سے لے کر سالِ ہشتم تک عربی زبان و ادب سے لا تعلق رکھتا ہے، اور اس پر عظیم مفکر شیخ سعدی رحمہ اللہ کا یہ شعر صادق آتا ہے: ؎
خشتِ اوّل چونہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
خشتِ اوّل کو سیدھا کریں:
یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے کہ قرآنِ کریم کی عربی زبان نہایت آسان اور سلیس ہے اور اس کی آیاتِ کریمہ میں آسان اور مشہورلفظوں، مختصر اور عام فہم محاوروں، ترکیبوں اور جملوں کا استعمال بکثرت ہوا ہے۔ ہم زیر تعلیم بچوں کے مرحلے اور معیار کے مطابق ان سے ایسا انتخاب کر سکتے ہیں جو اُنہیں قرآنی عربی زبان کے فہم، نطق، تحریر اور سماع کی اچھی تربیت دے اور اُنہیں گرامر کی بھول بھلیوں میں نہ ڈالے۔ اس طرح بچے قرآن کریم کے ترجمہ یا فہم و مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس کے عربی لغت کے فہم و مطالعہ، بول چال اور تحریر کی تربیت پائیں گے اور سال اوّل ہی سے عربی زبان کے پڑھنے بولنے اور لکھنے کی مشق کرنے لگیں گے جو ان کے ذہنوں اور دلوں میں عربی زبان و ادب کے اچھے ذوق کی بنیاد بنے گی۔
یہ ہمارے مدارس میں اسلامی تعلیم کا پہلا سال ہے۔ کمسن بچے بڑے شوق سے اور اچھے اچھے جذبوں کے ساتھ عربی زبان سیکھنے اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے اور اپنا تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں۔ یہ ان کی بہتر تعلیم اور عمدہ تربیت کی بنیاد رکھنے کا سنہری وقت ہوتا ہے۔ آئیے ہم اس کا آغاز قرآن کریم کی معیاری اور مثالی تعلیم سے کریں۔
بچے خواہ مدارس کے عربی کورس میں داخلہ لیں یا تجوید القرآن الکریم کورس یا تحفیظ القرآن الکریم کورس میں داخل ہوں ان سب کو ان کے اپنے اپنے مضمون ترجمہ قرآنِ کریم ؍ تجوید ؍ تحفیظ کے ساتھ ساتھ لغتِ قرآن کریم کی تعلیم و تربیت ضرور دی جائے۔
کمسن بچوں کو قرآنی عربی زبان کی تعلیم دینا آسان ہے:
ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی مدارس کے طلبہ خواہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتے ہوں یا اسے حفظ کرتے ہوں یا اس کی تجوید و قرأت کی علیم و تربیت پا رہے ہوں، وہ سب قرآنی آیات اور سورتوں کو بار بار اور تکرار سے پڑھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اُنہیں قرآنِ کریم کے الفاظ، ترکیبات، استعمالات اور جملے زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ یوں اس تعلیمی مشق کے دوران ان کے ذہنوں میں عربی زبان کا 'نہایت وسیع او عمدہ ذخیرۂ لغت' محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ محفوظ ذخیرۂ لغت ان بچوں کو عربی زبان کی تعلیم و تربیت دینے کی اچھی بنیاد بن سکتا ہے۔
اس 'وسیع اور عمدہ ذخیرۂ لغت' کو محفوظ کرنے والے ان طلبہ کے فکری پہلو پر بھی غور کریں۔ وہ دین اسلام کے طلبہ ہیں اور اس کے سچے عقائد اور پختہ احکام و آداب کی تعلیم پا رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ وسیع فکر و نظر کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ الغرض وہ لسانی اور فکری دونوں پہلوؤں سے عمدہ تعلیم و تربیت لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ اُنہیں عربی زبان کی عمدہ اور مؤثر تعلیم و تربیت دینے کا بہت سنہری موقع ہوتا ہے۔
عربی زبان کی تدریس کا موزوں ترین موقع:
بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بغدادی قاعدہ رٹنے کے بعد قرآنِ کریم حفظ کرنے والے بچوں کے لئے عربی زبان کی تدریس کا یہ ایسا آسان اور عمدہ موقع ہوتا ہے جس کی مثال دوسری زبانوں کے تدریسی پروگراموں میں نہ ملے گی۔ اب یہ ہمارے تعلیمی نظام، مدارس اور معلّمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آسان، مثالی اور عمدہ موقع سے استفادہ کرتے ہوئے اُن کے لئے عربی زبان کی اچھی اور عمدہ تدریس کا اہتمام کریں۔
قرآنی عربی زبان کی تعلیم کیسے دی جائے؟!
میں اپنی تجاویز کے مطابق پہلے سورہ فاتحہ کی تدریس کی مثال
1بیان کر چکا ہوں، اب یہاں سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیاتِ کریمہ کی تدریس کی مثال پیش کرتا ہوں:
1. شرح الکلمات
معلم ہر سبق کے شروع میں مقررہ آیاتِ کریمہ کے الفاظ اور ترکیبوں کی لغوی تشریح کو تختۂ سیاہ پر لکھے تاکہ بچے اسے یاد کریں اور اپنی کاپیوں میں درج کریں:
سُورة سورت سُوَر الصَّلوٰة نماز صَلَوات
ذٰلِکَ وہ أُولٰئک رَزَقْنٰھُمْ ہم نے اُنہیں دیا
الْکِتٰبُ کتاب کُتُب رَزَق یَرْزُق رِزْقًا دینا
ھُدًی ہدایت ھَدٰی یَھْدِی ھُدًی یُنْفِقُوْنَ وہ خرچ کرتے ہیں
لِّلْمُتَّقِیْنَ پرہیزگار مُتَّقِی أنفَقَ یُنفِق اِنفاقًا خرچ کرنا
یُؤْمِنُوْنَ وہ ایمان لاتے ہیں یُوْقِنُوْنَ وہ یقین کرتے ہیں
آمَنَ یُؤْمِن اِیْمانًا (ب) ایمان لانا أیقَن یُوقِن اِیقانا یقین کرنا
یُقِیْمُوْنَ وہ قائم کرتے ہیں الْمُفْلِحُوْنَ فلاح پانے والے
أَقَامَ یُقِیْمُ اقامة قائم کرنا مُفلِح
2. ترجمة الآیات و شرحھا:
اس کے بعد معلم ان آیاتِ کریمہ کا مقامی زبان میں ترجمہ کرے گا اور بچوں کے معیار کے مطابق ان کی تشریح کرے گا۔
3. التمرینات المتنوعة:
اب معلم ان آیات کریمہ پر متنوع سوالات کو حل کرنے کی مشقیں زبانی اور تحریری دونوں طرح حل کرائے:
1) اکتب أضداد الکلمات الآتية ویکون الجواب
مدنية ضدھا مكية
الكافر ضده المؤمن
الدنيا ضدھا الآخرة
الغيب ضده الشھادة
السماء ضدھا الأرض
أمام ضده خَلف
قبل ضده بعد
2) املإ الفراغ بكلمة مناسبة فما يأتي:
1. سورة الفاتحة ۔۔۔۔۔۔۔۔ وسورة البقرة مدنية
2. المؤمنون يؤمنون۔۔۔۔۔۔۔۔
3. ويُقيمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4. ويُنفقون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أموالھم
5. ويُؤمنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أنزل علي محمد ﷺ
6. ويُؤمنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أنزل من قبله
3) املإ الفراغ بكلمة مناسبة فيما يأتي:
1) ھو آمَنَ بالله 2) ھما۔۔۔۔۔ بالله
3) م ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 4) ھِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5) ھُمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6) ھُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7) أَنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8) نَحْنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4) أجب عما يأتي:
1۔ من خَلَقَنا؟ 2۔ من خَلَق السماء؟
3۔ من خَلَق الأرض؟ 4۔ من خَلَق العالم؟
5۔ من أنزَل القرآن الكريم؟ 6۔ علي مَن أُنزِل القرآن؟
5) لَخِّص معني ھذه الآيات الكريمة بعبارتك:
الجواب: ذكر الله سبحانه وتعالي في ھذه الآيات الكريمة أنه أَنزل ھذا القرآن ليھدي الناس إلي الراط المستقيم، وذكر خمس صفات لعباده المؤمنين، وھي:
1) أنھم يؤمنون بالغيب، 2) ويقيمون الصلاة،
3) وينفقون من أموالھم في سبيل الله، 4) ويؤمنون بالآخرة،
5) ويؤمنون بما أنزل علي محمد ﷺ وما أنزل قبله
وھؤلاءھم علي الحق وھم المفلحون ۔۔۔۔ اللھم اجعلنا منھم، آمين!
فوائد:
آپ دیکھتے ہیں کہ اس طریقۂ تدریس میں زیر تعلیم بچے ترجمہ قرآن کے ساتھ ساتھ پہلے مقررہ آیاتِ کریمہ میں مستعمل الفاظ کی اچھی لغوی تشریح لکھتے اور یاد کرتے ہیں اور پھر قرآنِ کریم کی لغت کو لکھنے، بولنے اور سننے کی متنوع اور عمدہ مشقیں کرتے ہیں جو ان کے ذہنوں میں عربی زبان و ادب کی اچھی بنیاد بنے گی، اور کتاب اللہ کے اعلیٰ فہم و تدبر کی اہلیت پیدا ہو گی جو مستقبل میں ان کی تعلیمی اور علمی ترقی کا ذریعہ ہو گی۔
شعبۂ تجوید اور تحفیظ میں تین پاروں کی تدریس کرائی جائے:
ہماری درسگاہوں میں اس وقت شعبہ تحفیظ القرآن الکریم او شعبہ تجوید القرآن الکریم کے طلبہ کو کسی طرح کے فہم کے بغیر قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ عمر بھر اس کے فہم سے محروم رہتے ہیں اور امام اور 'مقری' مقرر ہونے کے بعد بھی اس کی لغت اور معانی کو سمجھے بغیر پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ تمام علماء او معلّمین تسلیم کرتے ہیں، یہ امر کسی طرح بھی مستحسن نہیں ہے۔ اس لئے ان دونوں شعبوں کے طلبہ کو بھی کم از کم تین پاروں کی تدریس ضرور کرائی جائے۔
میرے اس مجوزہ طریقۂ تدریس پر عمل کرنے سے ان کے ذہنوں میں قرآنِ کریم کے اچھے فہم و مطالعہ کی راہ ہموار ہو گی جس سے اُنہیں ان مضامین یعنی تجوید اور حفظ میں بھی بڑی آسانی ہو جائے گی کہ وہ اب قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھیں گے تو نسبتاً کم مدت میں حفظ کر سکیں گے اور فراغت کے بعد مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں کو فہم و بصیرت کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہونگے، اور ضرورت کے وقت آسانی سے علوم اسلامیہ کے شعبوں میں داخلہ لے کر مزید ترقی کر سکیں گے۔
میں اپنے طویل غور و فکر وا تجربات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کی یہ تجویز اسلامی مدارس کے اربابِ اختیار، مدرّسین، علماء اور وفاقوں کے افسرانِ بالا کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ تجویز آسان اور قابل عمل ہے۔ اس کے نفاذ سے ہمارے اداروں کے تعلیمی نظام میں ایسا انقلاب آئے گا جو ان کی ترقی کا ذریعہ بنے گا اور ہمارے فاضل اساتذہ اور معلّمین بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ إن شاء اللہ تعالٰی وھو الموفق والمستعان!
کیا یہ طریقۂ تدریس قابل عمل ہے؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اسلامی مدارس اور جامعات کے موجودہ حالات میں، جب ہمارے معلّمین اور طلبہ میں بالعموم عربی زبان بولنے اور لکھنے کا ذوق ناپید ہے اور ہمارے ملک اور ماحول میں ایسی کتابیں اور گائیڈز بھی موجود نہیں ہیں جو تعلیم و تدریس کے اس جدید طریقے میں معاون اور مفید ہوں، تو ہم اس طریقۂ تدریس پر عمل کیسے کریں؟
اُصولی طور پر یہ طریقۂ تدریس آسان، فطری وار قابل عمل ہے۔ پہلے ہمیں اپنے فاضل اور محنتی معلّمین اور طلبہ کو اس کے فوائد اور دور رس نتائج اور ثمرات سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے نفاذ اور ترویج کی اہمیت کو واضح کرنا چاہئے۔ معلّمین کو دعوت دی جائے بلکہ اُنہیں شوق اور ترغیب دی جائے کہ وہ اپنی عظیم درسگاہوں، اور اپنے عزیز بچوں کی ترقی کے اس پروگرام پر عمل کرنے کی تیاری کریں اور اپنے ماحول اور ادارے میں عربی زبان کو بولنے اور لکھنے کی روایت اور صلاحیت کو بیدار کریں۔ ان میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن کبھی استعمال نہ کرنے سے خوابیدہ رہتی ہے۔ اُصولی طور پر تو یہ حضرات قرآنِ کریم کے وسیع ذخیرۂ لغت کے حافظ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وہ حدیثِ شریف کی صحاحِ ستہ، عظیم فقہی متون، عربی زبان و ادب کی متنوع کتابوں کے سمندر ناپیدا کنار کے عالم و فاضل ہوتے ہیں اور اُنہیں اس سمندر کے ہیروں ایسے بے شمار محاورے، استعمالات، جملے، اصطلاحات، لطیفے اور اشعار اور عبارتیں ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی اس عظیم لسانی اور فکری اہلیت و صلاحیت کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس بارے میں ہمارے اداروں، منتظمین اور اساتذہ کو خواہ مخواہ احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ پورے شوق اور عزم کے ساتھ محنت سے اس نقص کا ازالہ کرنا چاہئے۔ اس بارے میں مزید تجاویز یہ ہو سکتی ہیں:
1. اپنے ادارے میں ایک دو گھنٹے کا ایسا وقت مقرر کر دیں جس میں تمام معلّمین اور زیر تعلیم بچے صرف عربی زبان میں ہی بات کریں مثلاً بعد صلاة المغرب حتی صلاة العشاء یا صبح من بعد صلاة الفجر حتی الساعة الثامنة۔ منتظمین ایسے کسی پروگرام کی سرپرستی کریں اور معلّمین اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُنہیں معاون کتابیں اور گائیڈز فراہم کریں۔ اس بارے میں ہمارا رسالہ کلمات مستعملة فی بیئة مدرسية (درسگاہ کے ماحول میں مستعمل عربی الفاظ اور محاوروں کا انتخاب) للبنین یا للبنات مفید رہے گا۔
2. قرآنِ کریم کی تعلیم کے سبق میں اس طریقۂ تدریس کو فوراً شروع کر دیں۔ اس کی تدریس کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور دلچسپ بنانے کے لئے اس کی ایک دن پہلے تیاری کر کے آئیں۔ شروع میں کافی دقت پیش آئے گی اور کچھ غلطیاں ہوں گی۔ ان سے بد دل نہ ہوں۔ راہنمائی کے لئے ہماری کئی مطبوعات مثلاً مفتاح الإنشاء: الجزء الأول والجزء الثانی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان شاء اللہ!
3. ہر معلم سے درخواست کریں کہ وہ کم از کم اپنا ایک سبق عربی زبان میں ضرور پڑھائے جس سے ان کی اپنی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور بچوں کی تربیت اور مشق ہو گی۔
مرشد تدریس القرآن کی تیاری:
آخر میں یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے معھد اللغة العربية میں کئی سال سے اسی طریقۂ تدریس کے مطابق قرآن کریم کی تدریس کر رہے ہیں اور معلّمین کے لئے اس کی گائیڈ 'مرشد تدریس القرآن الکریم' کی تیاری کا کام ہو رہا ہے جس کے پہلے اجزاء آئندہ چار پانچ ماہ تک طبع ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وبیدہ التوفیق!
حوالہ جات
1. موصوف کا اسی موضوع پر ایک مضمون اس سے قبل 'محدث' کے جولائی 2008ء کے شمارے میں بعنوان 'دینی مدارس میں تعلیم قرآن کا جامع اور صحیح طریقہ' شائع ہو چکا ہے جس میں اسی اُسلوبِ دریس کی تلقین کرتے ہوئے سورة الفاتحہ کی دریس کی عملی مشق دی گئی تھی۔ اسی کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے، مزید تفصیل کے لئے محولہ بالا شمارے کا مضمون ملاحظہ کریں۔ عربی زبان کی بہتر تدریس اور فہم قرآن کے ایک نئے طریقے کی تربیت کے لئے اس سے قبل بھی ماہنامہ 'محدث' کے شمارہ جنوری 2005ء میں ڈاکٹر عبد الکبیر محسن، اسلام آباد کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہو چکا ہے جسے بعد میں ایک کتابچہ میں مکتبہ اسلامیہ، اردو بازار لاہور نے بعنوان: 'عربی آسان ہے' شائع بھی کر دیا ہے۔ مدیر