دینی تعلیم اور معاشرے کی اسلامی تشکیل
رمضان المبارک سے قبل دینی مدارس کا تعلیمی سال مکمل ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہر سال دینی مدارس سے سینکڑوں فضلا فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن آگے معاشرے میں مدارس کے ان فضلا کے لئے مناسب گنجائش موجود نہیں ہوتی، اس لئے مدارس کو اپنی تعلیم کی نوعیت میں تبدیلی کر کے اپنے نصاب کو دین و دنیا کا اس طرح جامع بنانا چاہئے کہ اس کے فضلا تحصیل علم کے بعد محض مسندِ علم و ارشاد سنبھالنے کی بجائے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی کھپ سکیں۔ بعض لوگ آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ مدارس کے یہ ضرورت سے زائد فضلا اپنے اپنے حلقے میں تعصّبات کے پھیلاؤ اور ان کی بنا پر غیر ضروری مراکز و مساجد کے قیام کا سبب بنتے ہیں اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بسا اوقات تشدد پسندی میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف اس طرح کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں تو دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مدارس کے فضلا کی مزعومہ کثرت اپنی جگہ لیکن معاشرے میں مطلوبہ دینی رہنمائی کے لئے خلا بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور مختلف دینی مناصب پر کام کرنے کے لئے موزوں افراد کے حصول میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات وہ سرے سے دستیاب ہی نہیں ہو پاتے۔ ایسے لوگ جو مدارسِ دینیہ کے تعلیم یافتہ ہیں، ان کی تعداد تو کافی ہے لیکن ان میں موزوں طور پر دینی خدمات انجام دنے والے اور معاشرے کے دینی تقاضے پورے کرنے والے لوگ خال خال دکھائی دیتے ہیں، البتہ اس قلت کا احساس وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اللہ نے فکر و بصیرت اور اسلام سے گہری وابستگی کی نعمت سے بہرہ مند کیا ہے۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مدارس میں مطلوبہ تربیت نہیں ہو پاتی یا مدارس کے ذہین طلبہ دینی رہنمائی کے بجائے دیگر شعبوں کا رُخ کر لیتے ہیں اور اس نظام میں بچے کھچے طلبہ رہ جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے فضلا کے کردار کی توسیع دیئے بغیر بھی معاشرے کے جملہ دینی تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ تفصیل اس اجمال کی حسب ذیل ہے:
تعلیم اور معاشرہ کا باہمی تعلق:
واضح رہنا چاہئے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے یا نظامِ تعلیم کے لئے محض ایک مثالی نظامِ تعلیم و تربیت دے دینا ہی کافی نہیں اور کسی ادارے میں تعلیم و تربیت کے مثالی ہو جانے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگ مستقبل میں اپنے تحصیل علم کے اہداف و مقاصد پورے کر پائیں گے بلکہ فی زمانہ بعد از فراغت، معاشرے میں ان کے لئے مجوزہ کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ بہت سے تعلیمی ادارے محض اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے کہ ان کے بیش قیمت فضلا کی خدمات کی معاشرے میں گنجائش نہیں ہوتی۔
تعلیم کا معاشرے سے بڑا گہرا اور براہِ راست تعلق ہے جو مختصراً یہ ہے کہ تعلیم معاشرے کو مطلوبہ سمت میں نشوونما کے لئے درکار افراد فراہم کرتی ہے۔ افراد سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ان میں تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد اپنے معاشرہ کو مخصوص سمت ترقی دیتے ہیں۔ لوگ مخصوص پہلو پر اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے اور بعد میں معاشرے میں اپنی خدمات انجام دے کر معاشرتی عمل میں جذب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی معاشرہ سائنس و ٹیکنالوجی کی سمت پیش قدمی کرنا چاہتا ہے تو وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم کے ماہرین کی بڑی ضرورت موجود ہو جانے کے سبب بڑی آسانی سے کھپت ہو جاتی ہے اور یہ معاشرہ ایسے ماہرین کو تحصیل علم کے بعد مصروفیت، عزت اور شخصی و علمی ارتقاء کے امکانات فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس رخ پر معاشرے کی ترقی ہونا ممکن ہو جاتی ہے۔ ایسا معاشرہ جو دینی اہداف و مقاصد کی بجائے خالصتاً مادی ترقی پر کار بند ہو، تو ایسے معاشروں میں دینی علوم کے ماہرین کی کھپت تو دور کی بات، ان کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی نہیں کیا جاتا، یوں اس مخصوص میدان میں ان کی صلاحیتیں پروان چڑھنے سے بھی محروم رہ جاتی ہیں اور معاشرہ اس سمت تنزل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دینی تعلیم یافتہ حضرات کو حالات پر انحصار کرنے کی بجائے دو میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے، دینی اہداف کی تکمیل کے لئے دینی خدمات اور اپنے معاش کے لئے ایک ایسی متوازی مصروفیت جس کی معاشرہ کفالت مہیا کرتا ہو۔
ایک طرف درسگاہ سے سندِ فضیلت کے بعد معاشرہ میں اس کی ضرورت اور گنجائش کا پہلو قابلِ غور ہے تو دوسری طرف کسی بھی علم کی تکمیل اور اس میں مہارت بھی عملی زندگی میں اسے اختیار کرنے سے مشروط ہے۔ درسگاہیں تو محض اپنے طلبہ کو کسی علم کا دروازہ کھولنے اور اس فن کے ماہرین کے خیالات سے استفادہ کرنے کی بنیادی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ درسگاہوں میں حاصل کی جانے والی تعلیم کسی بھی تعلیم کی مسلمہ معلومات کا نچوڑ ہوتی ہے جس کو عملی زندگی میں اختیار کرنے کے بعد ہی انسان اس کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتا، اپنی ذاتی کاوش سے اس میں پختگی لاتا اور حالات کی ضرورت کے مطابق اس میں مزید ارتقائی منزلیں طے کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اگر سائنس کا علم نہ صرف یہیں تک رُک جائے گا بلکہ روز بروز نظر انداز ہوتاجائے گا، یہی صورتحال دینی تعلیم کی بھی ہے۔ تاہم دینی تعلیم کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے سے بڑھ کر کہیں سنگین مسئلہ اس تعلیم کا معاشرتی دھارے میں استعمال ہے۔ سینکڑوں لوگ دینی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن بعد از فراغتِ علم ان کی کاوشوں کا محور کیا ہو گا؟ اس صورتحال سے حیران و پریشان ہو کر آغاز میں ہی لوگ یہ بھاری پتھر اُٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ الغرض دینی مدارس کو اس وقت تحصیل علم اور اس میں مطلوبہ مہارت سے بڑھ کر اپنے فضلا کے مستقبل کی مفید مصروفیت کا سنگین مسئلہ در پیش ہے!!
تعلیم پر معاشرہ کا یہ جبر دورِ حاضر کا یک مسلمہ ہے۔ ماضی کے سادہ معاشروں میں کسی میدان میں قابل افراد کی تیاری ان کے لئے اس میدان میں ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر اپنا راستہ آپ بنانے کا امکان پیدا کر دیتی تھی، لیکن جب سے معاشروں کی تشکیل اور رجحانات پر جدید ریاستی اداروں نے غلبہ جمایا ہے اور افرادِ معاشرہ کی چند بنیادی ضروریات کی کفالت کے نام پر تشکیل پانے والا ادارۂ ریاست، اپنے عوام کے ہر مرحلہ زندگی میں دخل اندازی کر کے، حکومتی اقتدار و اختیار کے بل بوتے پر، معاشرے کے ہر پہلو میں اپنا تسلط گہرا کر رہا ہے، تب سے معاشرے پر مخصوص نوعیّتوں کے تعلیم یافتہ افراد کو اپنا مطلوبہ معاشرہ خود سے تشکیل دے لینے میں شدید دقت پیش آرہی ہے۔ اور یہ مشکل اس وقت مزید دو چند ہو جاتی ہے جب بین الاقوامی جبر و استعمار اور علاقائی حکومت دونوں کا براہِ راست نشانہ ہمارا دین بن جائے اور اُن کا ہر وار براہِ راست ہماری اساسات پر ہو تو ایسے حالات میں مسلمانوں کے معاشرے میں دین کی شدید ضرورت کا احساس ہونے کے باوجود دینی علوم کے ماہرین کے لئے مطلوبہ تقاضوں کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا مشکل تر بن جاتا ہے۔
معاشرہ کی تشکیل میں باصلاحیت اور صاحبِ علم حضرات اساسی کردار رکھتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ دراصل انہی لوگوں کا نام ہے اور انہی کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ البتہ ریاستی ادارے کی ترقی واستحکام کے بعد قابل افراد کی یہ تیاری فطرت ضروریات اور دینی تقاضوں پر منحصر ہونے کی بجائے زیادہ تر ریاستی اقدامات کی ہی مرہونِ منت ہو گئی ہے۔ ریاست پر قابض طبقہ اپنے مخصوص اہداف کے لئے تعلیمی ادارے پروان چڑھاتا اور ایسے فضلا کے لئے ترقی کے امکانات فراہم کرتا ہے جو اس کے مفادات، ضروریات یا نظریات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس مقصد کے لئے وہ مقابل میں ایسے بہت سے فضلا کی کھیپ میسر کر دیتا ہے جو ریاستی سرپرستی سے بھرپور طور پر متمتع ہوں جس کی وجہ سے ریاست کو قابل اَذہان بڑی تعداد میں میسر آجاتے ہیں۔ اور فطری و دینی ضروریات کے تحت معاشرہ کی تشکیل کرنے والے محبِ دین و ملت فضلائے مدارس کے بالمقابل ایسے فضلاء زیادہ دُنیوی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ الغرض ہر دو قسم کے فضلائے مابین مخصوص نوعیت کے معاشرہ کی تشکیل کے لئے لگاتار کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور دونوں باہم نبرد آزما رہتے ہیں۔
مسلم معاشروں پر سیکولر اثرات:
جوں جوں کسی بھی مادی طور پر ترقی یافتہ یا دوسرے الفاظ میں سیکولر معاشرے میں نظم و ضبط اور استقرار و استحکام بڑھتا جائے گا، توں توں اس معاشرے میں دین کا کام کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ دیہاتی (جدید اصطلاح میں 'غیر متمدن') معاشرے جدید شہروں کے مقابلے میں دینی سرگرمیوں کو وسیع تر گنجائش فراہم کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ لاہور اور فیصل آباد یا گوجرانوالہ جیسے شہروں میں دینی سرگرمیوں کا تقابل کرنے پر بخوبی واضح ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی لا دین معاشرے میں اہل دین سے توقع رکھے جانے والے تقاضے بھی روز افزوں ہوتے ہیں۔ ان کے لئے اصلاحِ احوال کے اہداف تو روز بروز بڑھتے جاتے ہیں لیکن ان کے پیش نظر مشن میں آگے بڑھنا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل سادہ یا اسلامی معاشروں میں اہل دین کا اعزاز و وقار اور ان کے لئے کام کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور معاشرے کے دیگر عناصر نہ صرف ان کی خدمات کی معاونت کرتے ہیں بلکہ ان عناصر کی بنا پر دینی کام کے تقاضے بھی قابل عمل ہوتے جاتے ہیں۔
اگر آپ معمولی غور و فکر سے کام لیں تو تعلیم اور معاشرے کے بارے میں پیش کردہ ان نظریات کی پاکستانی معاشرے میں کار فرمائی آپ بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ چند برسوں سے دین اور اہل دین کے لئے روز بروز اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی اقتدار کے بل بوتے پر گذشتہ برسوں میں اہل دین کو لگاتار اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس کے پورے معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں: ایک طرف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے تو دوسری طرف ممتاز و مخلص علما ہمارے معاشرے سے روز بروز عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ علم و ارشاد کی مسندیں ویران ہیں اور چند برس قبل پائے جانے والے عظیم اساطینِ علم کا شدید فقدان ہے۔ معاشرے کی سیکولرائزیشن کے سبب جوں جوں معاشرے کی حقیقی دینی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے، توں توں مخلص اہل دین ناپید ہو رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اہل دین کے لئے معاشرے میں مطلوبہ کردار کو پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔
اگر مسلم دنیا کے معاشروں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان سمیت اس وقت تمام مسلم دنیا کے معاشرے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں اور سعودی عرب ہی وہ واحد سرزمین ہے جہاں اسلامی معاشرت کی بہترین 'میسر مثال' موجود ہے جو عراق میں امریکی تسلط اور شدید عالمی دباؤ کے بعد بڑی تیزی سے رو بہ تنزل ہے۔ مذکورہ بالا اندیشے سعودی عرب میں تاحال شدید نہیں ہوئے اور وہاں کے علمائے کرام نہ صرف معاشرے کی مطلوبہ رہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں بلکہ ان کی قدر و منزلت بھی غیر معمولی طور پر مستحکم ہے اور وہ اپنے معاشروں کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل دیگر مسلم دنیا میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دینی صورتحال انتہائی ابتر ہے جس میں اُمید کی واحد کرن ان معاشروں کے افراد بالخصوص نوجوانوں کا ذاتی طور پر دین کی طرف روز بروز بڑھنے والا رجوع ہے۔
فضلائے مدارس کا مطلوبہ معاشرتی کردار:
معاشروں کی ہمہ جہتی اصلاح ایک عظیم کام ہے، لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک علمائے کرام کے مطلوبہ معاشرتی کردار کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر نہ کیا جائے۔ ماضی میں مسلم سر زمین پر قبضہ کر لینے والے استعمار نے بزورِ قوت ترقی کے نام پر ہمارے معاشروں کو ان کی دینی اساس سے محروم کر کے خالصتاً اِلحادی بنیادوں پر قائم اور جاری و ساری کر دیا اور معاشرتی میدانوں میں اسلامی تقاضوں کو معطل کر دیا۔ نتیجتاً مقبوضہ علاقوں کے مسلمان باشندوں نے بھی ان موضوعات پر اپنے دین سے رہنمائی لینا ترک کر دی اور یہاں کے علمائے کرام بھی اپنے اس محدود کردار پر ہی انحصار کر گئے۔ مسلم ممالک کی آزادی کے ساتھ اس صورتحال میں تبدیلی آنا انتہائی ضروری تھا لیکن دورانِ غلامی ایسا طبقہ وجود میں لایا گیا تھا جو مغربی نظریات کا تربیت یافتہ اور فکرِ الحاد کا اسیر تھا، مزید برآں یہاں سے ظاہری روانگی سے قبل سامراج اپنے ایجنٹوں کو یہاں مسلط کر گیا اور مسلم معاشروں میں مطلوبہ تبدیلی واقع نہ ہو سکی!!
جہاں تک اسلام کی معاشرتی ہدایات کا تعلق ہے تو قرآن و سنت میں فرد کی تربیت و اصلاح کے ساتھ معاشرے کو دین پر قائم کرنے کی ضرورت کو بھی بڑی شدت سے اُجاگر کیا گیا ہے اور اس کے تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ مسلمانوں کی سیاست و عدالت، معیشت و معاشرت اور تعلیم و ابلاغ کا کیا منہج ہونا چاہئے، اس کی تفصیلات پر کتبِ حدیث و فقہ میں براہِ راست بیسیوں اَبواب موجود ہیںِ اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ اسلام کا حقیقی امتیاز اور مروّجہ تہذیب و معاشرت سے برتری سماجیات (سوشل سائنسز) کے انہی میدانوں میں ہے جس کو مسلم معاشروں میں نسیاً منسیاً کیا جا چکا ہے۔ اسلامی احکامات میں فرد سے ادائیگیٔ فرض کا تقاضا کیا جاتا ہے لیکن اس کی برکات مسلم اجتماعیت و معاشرت بحال ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہوتی ہیں۔ بطورِ مثال صلوٰة وزکوٰة ایک انفرادی حکم ہے لیکن ان احکامات کی بجا آوری مسلم معاشرے کو ہمدردی، حسن تعلق اور باہمی کفالت کے کیسے قیمتی رویوں سے روشناس کراتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلم اُخوت کس طرح پروان چڑھتی ہے، ایسا مسلم معاشرت کے نافذ العمل ہو جانے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔ سود، انشورنس اور جوئے کی حرمت یا اسلامی عقوبات بظاہر کڑی پابندیاں لگتی ہیں، لیکن اس کے معاشرے پر مثبت اَثرات اہل نظر سے مخفی نہیں!
افسوس کہ ہمارے اہل علم و دین حضرات اس وقت اسی رُشد و ہدایت پر قانع ہوئے بیٹھے ہیں جس کی اجازت ہمارے سیکولر معاشروں نے ہمیں دے رکھی ہے۔ اُنہوں نے اسی کردار پر اکتفاء کر رکھا ہے جو دو رکعت کی امامت کا کردار ان کو ان سیکولر حکومتوں نے عطا کر دیا ہے۔ محمد عربی ﷺ کی وراثتِ علمی کے دعوےداروں کو تو معاشرے کا قائد بننا تھا، اور یہ قیادت عبادات و عقائد سمیت جملہ معاشرتی میدانوں میں بھی اسلامی احکامات کو زندہ و تابندہ کئے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ رحمة للعالمین ﷺ مکہ و مدینہ میں مسلمانوں کی عبادات کے ہی امام نہیں تھے اور مسلمانوں کے خاندانی معاملات کے فتوؤں تک ہی ان کا کردار محدود نہیں تھا، بلکہ آپ ﷺ کا اصل کارنامہ اس بندگی کے نتیجے میں ایک مسلم معاشرہ کا بھرپور قیام تھا جس کے آپ ﷺ سیاسی، عسکری اور عدالتی سربراہ بھی تھے۔ مسلمانوں کی معیشت اور تعلیم بھی آپ کی ہدایات کے تحت ہوتی تھی، تبھی وہ معاشرے اقامتِ دین کے سبب اللہ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ استعماری اقدامات ک نتیجے میں اہل دین کا اس کردار تک محدود ہو جانا جس قدر سیکولرازم میں گوارا ہے، درحقیقت ان اہل دین کا بھی اسلام کی بجائے سیکولر تصورات پر عمل درآمد کرنے اور اس پر اکتفاء کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہم لوگ سیکولرازم پر تنقید کرتے نہیں تھکتے لیکن خود اسی 'سیکولر رویہ' پر عامل اور کار بند ہیں۔
سیکولرازم کے دیئے ہوئے نظامِ تعلیم کے فی الوقت دو اساسی دھارے ہیں: ایک سکول سسٹم اور دوسرا مدرسہ نظامِ تعلیم، اور دونوں کے تیار شدہ فضلاء جس جس دائرۂ عمل میں کام کر رہے ہیں وہ سیکولر نظام معاشرہ کے ہی عطا کردہ ہیں۔ یہ دونوں نظامِ تعلیم اس وقت دین و دنیا کی تفریق پر کار بند ہیں۔ اگر کوئی جدید تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ معاشرہ کے دنیوی تقاضے پورے کرنے اور اپنی دنیا سنوارنے میں مگن ہو جاتا ہے، اور اگر کسی کو دینی علم حاصل کرنے کی توفیق ارزانی ہو جائے تو وہ مساجد کی امامت و خطابت کے علاوہ، اس حد تک لوگوں کی دینی رہنمائی کا منصب سنبھال لیتا ہے جہاں تک سیکولر و ملحد معاشرت نے دنیا بھر میں اجازت دے رکھی ہے اور وہ ہے زندگی کی اہم رسوم و رواج اور عبادات (پرائیویٹ لائف) کو اپنے دینِ میں کے مطابق گزارنا۔ گویا ایک گروہ فرنگی معاشرت میں کھو گیا اور دوسرا تہ محرابِ مسجد سو گیا۔ اگر چند بچے کھچے لوگ نظام معاشرت میں اصلاح کی کوشش کرتے بھی ہیں تو حکومتی و ریاستی مشینری اور جابرانہ اِقدامات سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ سوات میں نفاذِ عدل کی تحریک کا انجام ہمارے سامنے ہے!
مسلم حکومتوں کا ظالمانہ رویہ
افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اسلام جو مسلمانوں میں عمل و اقدام کی قوی ترین تحریک ہے، اور جوہر معاملے کو عمل سے منسلک کر کے ہمیں بہترین نتائج کا وعدہ دیتا ہے، اسے ہمارے 'مسلم معاشرے' میں محض تعلیم و تعلّم کا پیشہ بنا دینے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ دینی مدارس کے فضلا ہوں یا سرکاری تعلیمی اداروں کے شعبہ ہائے علومِ اسلامیہ کے سند یافتگاں، ہر دو کے فضلا کی علمی کاوشوں کا کل ارتکاز ان علوم کی مزید تعلیم تک ہی منحصر ہے اور دیگر مغربی علوم کے بالمقابل عملی میدان میں اُنہیں کھپانے کی کوئی گنجائش میسر نہیں ہوتی۔ قانون و معیشت کی جدید تعلیم حاصل کرنے والے فضلا تو نہ صرف عملی زنگی میں اس علمی صلاحیت کی بنا پر متعدد مصروفیات اختیار کر سکتے ہیں بلکہ مزید تعلیم کے لئے تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہو جاتے ہیں، اس کے بالمقابل مدارس کو تو ایک طرف چھوڑئیے، یونیورسٹی یا کسی سرکاری کالج کا علوم اسلامیہ کا سند یافتہ علوم اسلامیہ کے ہر پہلو پر حاصل کردہ اپنے علم کا مصروف اس سے زیادہ نہیں پاتا کہ وہ ان کی آگے مزید تدریس کر سکے۔ کسی علم کو تدریس تک ہی محدود کر دینا اور معاشرتی عمل میں استعمال میں نہ لانا اس رویہ کا غماز ہے کہ اربابِ اختیار کے پیش نظر محض اس کا تحفظ و وجود ہی مطلوب ہے، نہ کہ اس کی بنا پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگیوں کی تشکیل کرنا؛ یہی وجہ ہے کہ اس حد تک علوم اسلامیہ غیر مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ اسلام کو عملی و معاشرتی تشکیل سے نکال کر محض تعلیم و تعلّم تک محدود کر دینا انتہائی ظالمانہ رویہ ہے!!
آج دین و دنیا کی جس تفریق کا رونا رویا جاتا ہے اور اس کی وجہ دو نام ہائے تعلیم کو قرار دے کر، اُنہیں باہم متصادم باور کیا جاتا ہے، در حقیقت اس کی وجہ ان نظام ہائے تعلیم سے کہیں زیادہ ان ریاستی اقدامات میں پوشیدہ ہے جو طبقہ اختیار نے سیکولر تصورات کی بنا پر بزورِ جبر لاگو کر رکھے ہیں۔ دین و دنیا کے یہ دو واضح دائرے نہ تو ہمارے علمی اداروں کا فیض ہیں اور نہ ہی ہمارے دین کی عطا بلکہ ہمارا دین تو اسلام کی بنا پر زندگی کے ہر مرحلے کو تشکیل دینے کا پرزور داعی ہے جس کے نتیجے میں کسی مسلمان کا دین کی روشنی میں دُنیوی زندگی کی اصلاح کے لئے اُٹھایا جانے والا ہر قدم بھی آخر کار دین ہی ٹھہرتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے سنجیدہ فکر حضرات کو ظاہری علامتوں کی بجائے نام نہاد مسلم معاشروں کی عمرانی ساخت اور اس کو قائم کرنے کے لئے حکومتی اقدامات پر توبہ دینے کی ضرورت ہے۔
نصاب میں ترمیم یا معاشرہ کی اسلامی تشکیل:
اس سلسلے میں محض دینی مدارس میں سماجیات کی تعلیم ہی مسئلہ کا حل نہیں جیسا کہ بعض اہل دانش کا خیال ہے بلکہ موجودہ منظم و منضبط معاشرہ کی اسلامی تشکیل اور اس کو اسلامی تقاضوں کے مطابق اُستوار کرنا ہو گا۔ کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ کو جدید و سماجی علوم کی تربیت دے بھی دی جائے تو اس کے باوجود اُنہیں ان نئے میدانوں میں اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے اور اُن کی تمام تر کاوش نظریاتی میدان سے آگے نہیں بڑھ پاتی کیونکہ معاشرے میں اس کے بالمقابل متوازی ملحد تصورات کار فرما ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف دینی مدارس کا نہیں بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں سے اسلامیات پڑھنے والے فضلا بھی اسی صورتحال سے دو چار ہیں کہ وہ پہلے سے طے کردہ ایک مخصوص کردار کے ہی اَسیر بن کر رہ جاتے ہیں۔ معاشرہ کی اس سیکولر تشکیل کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی اسلامی یونیورسٹیاں ہو یا دورِ حاضر کی، آخر کار اسلامی کورسز کو چھوڑ کر وہ بھی مادی ترقی کے مغربی علوم میں پناہ حاصل کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ کیونکہ فضلائے علومِ دینیہ کے لئے معاشرے میں انتہائی محدود کردار تجویز کیا گیا ہے۔
ان حالات میں محض تعلیم دے کر فضلا سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنا راستہ خود تشکیل دے لیں گے، ایک مشکل امر ہے۔ بلکہ ایسی امتزاجی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ہر دو مروّجہ نظام ہائے تعلیم کے فضلا سے بھی اجنبیت کا عذاب سہتے ہیں اور اکثر و بیشتر مطلوبہ راستہ آخر کار ترک کے دیتے ہیں۔ اپنا راستہ خود بنانے والے اور اس پر جم جانے والے لوگ ہزاروں میں کہیں ایک دو ہوتے ہیں جو اپنی داخلی صلاحیتوں کے با وصف دین و دنیا میں امتزاج کی تکلّفانہ مساعی کو بروئے کار لاتے ہیں، وگرنہ معاشرے میں اس کے حقیقی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ سکول و کالج کے فضلاء کی اپنے میدان میں کھپت اور مسجد و مدرسہ کی اپنے مخصوص میدان میں کھپت کے امکانات تو بہت واضح ہیں۔ لیکن دونوں میں جامعیت جو ہمارے معاشروں کی اصل ضرورت ہے، اس کے حامل لوگ حالات کے جبر کے تحت آخر کار پھر کسی مروّج سماجی ڈھانچے میں ہی جذب ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس سیکولر تقسیم کے سبب اوّل الذکر نظامِ تعلیم کا دائرۂ عمل پورا معاشرہ ہے، نتیجتاً فضلا کی ایک بہت بڑی ضرورت ہر میدان میں موجود رہتی ہے، جبکہ ثانی الذکر کے لئے بچا کھچا عوام کا پرائیویٹ مذہبی خانہ ہے، جس میں اُنہیں اپنی تمام مساعی بروئے کار لانا ہوتی ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں دین و دنیا کی ثنویت بھی مستحکم و برقرار ہی رہتی ہے۔ اگر آج ہمارے معاشروں میں اسلام کو اختیار کر لیا جائے یا لوگوں میں الحادی معاشرے کی اساسات کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو مسلم معاشرت کے ہر میدان میں علومِ اسلامیہ کے فضلا کی ضرورت اس قدرر وز افزوں ہو جائے کہ ملک میں موجود تمام تعلیمی ادارے بھی اس ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے پر قادر نہ ہوں جیسا کہ سعودی معاشرے میں علوم اسلامیہ کی یونیورسٹیاں پورے ملکی یونیورسٹیوں کا نصف سے بھی زائد ہیں اور ان کے فضلا کی کھپت کا کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں بلکہ لگاتار مزید کی ضرورت برقرار ہے۔
مدارس کے فضلا کے کردار کی محدودیت کا آج رونا پیٹا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ہر سال فارغ ہونے والے اتنے سارے فضلا کیونکر معاشرے میں جذب ہو سکیں گے اور اس کے نتیجے میں ان کی دینی تعلیم کو محدود کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، تو یہ بھی دراصل اسی سیکولرازم پر اعتماد اور درپیش حالات پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کی تلقین ہے۔ یہ بات درست ہے کہ متروک راستوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور اُسوۂ حسنہ سے روشنی پا کر اپنا کردار متعین کرنا ایک محنت طلب کام ہے، لیکن اس کے بغیر مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس میں عبادات، باہمی اختلافات اور مذہبی رسوم و رواج کی تعلیم پر اکتفا کرنے کی بجائے پورے اسلام کی تعلیم دی جائے اور یہاں کے فضلا کو نبی اکرم ﷺ کے مکمل شخص اور اجتماعی کردار سے روشناس کرایا جائے، ان ﷺ کے منہج اصلاح کی تربیت دی جائے، دعوت و اصلاح کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرنے کی مشق کرائی جائے۔ یہ گھمبیر مسئلہ دینی تحریکوں اور مسلم حکومتوں ہر دو کی توہ اور اصلاح کا متقاضی ہے۔ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی تعلیم و تربیت کو ہمہ گیر کرنا ہو گا اور مسلم حکومتوں کو بھی کافرانہ معاشرت سے ممتاز ہو کر اسلامی معاشروں کو قائم کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
جہاں تک اس مسئلہ کا شرعی پہلو ہے تو اس کی رو سے بھی علماء کی ضرورت اس وقت تک شرعاً محدود نہیں کی جا سکتی جب تک معاشرے میں غلبہ دین حاصل نہیں ہو جاتا۔ مسلم معاشرے کی دینی ضروریات کی کفالت اور تکمیل پوری مسلم اُمہ پر اصلاً فرضِ عین ہے۔ یہ فرض چند ایسے اہل افراد کی اس مشن پر کار فرمائی کے بعد رفع ہو کر فرضِ کفایہ بن جاتا ہے جو اُمت کو مطلوب رہنمائی دے لیں، بصورتِ دیگر یہ فرض تمام اُمت پر قائم رہتا ہے۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے معاشرے دین کے مطلوبہ معیار کو پہنچنا تو درکنار، روز بروز بڑی تیزی سے تنزل کی طرف گامزن ہیں، ایسے میں فضلائے مدارس کی تعداد کم کرنے کی تلقین کی بجائے، ان کی اہلیت کو بہتر کرنے اور معاشرہ کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ دین و دنیا کی یہ تفریق ہی ہمارا مقدر رہے گی اور ذلت و اِدبار کے سوا مسلم معاشروں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
عزمِ مصمم اور جہدِ مسلسل:
'اِلحادی معاشروں' سے اہل دین کو اَز خود کچھ نہیں مل جایا کرتا اور نہ ہی اس کی توقع رکھنےکی ضرورت ہے۔ علومِ اسلامیہ کے فضلا کو ہرم دیاد رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی معاشرہ ٹھنڈے پیٹوں اسلامی نظام پر استوار نہیں ہو جاتا، دوسرے لفظوں میں حکمرانی سے متمع ہونے والا طبقہ بہ سہولت یہ اقتدار اپنے ہاتھ سے نکال کر اللہ اور اس کی شریعت کا استحقاق ٹھہرتی ہے اور جس کے فیصلے بھی حکمرانوں کے قانون کی بجائے اللہ کی طے کردہ میزان پر ہوتے ہیں بلکہ اس کے لئے آغاز میں ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے اور خونِ جگر سے قربانیوں کی داستان رقم کرنا پڑتی ہے۔
نبی اُمی ﷺ کے علمی و عملی ورثا کو دعوتِ نبوی ﷺ کے مراحل کو ہر دم تازہ رکھنا چاہئے جب مکہ کے گرد و پیش میں آپ ﷺ نے اس دعوت کا علم لہرایا تو طبقہ حکمران نے لالچ و اقتدار سے لے کر قہر و جبر کا سخت سے سخت رویہ اختیار کیا، طائف سے مظلومانہ در بدری ہو یا مکہ میں شعب ابی طالب کی گھاٹیاں، قتل کی سازشیں ہوں یا طعن و اَذیت کے نت نئے طور طریقے، اس عظیم مقصد کو پانے اور اللہ کے دین کو خود اور اپنے معاشرے پر نافذ کرنے کا عزم لے کر اُٹھنے والے صحابہ کرامؓ کو وطنِ مالوف سے ہجرتیں کرنا پڑیں، اپنے مولد و وطن، کاروبار اور خویش و اَقارب چھوڑ کر اللہ کی آس پر نئی دنیا تخلیق کرنا پڑی، تب پہلی بار تاریخ میں لاکھوں قربانیوں کے بعد اسلام زندگی کے ہر میدان میں نافذ ہوا۔ بعد ازاں تیرہ صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں، کم و بیش اس کا نفاذ برقرار رہا، جسے جدید تہذیب و استعمار نے سیاسی جبر کی قوت پر اپنی اساسات سے اُکھیڑنے میں کامیابی حاصل کی اور ذلت و رسوائی مسلمانوں کے مقدر میں لکھ دی۔ ادارۂ خلافت کا سقوط ہو یا اسلام کے نظامِ عدل کا کلی خاتمہ، ایسا سنگین مرحلہ مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار آیا۔
اب پورے دین کو نافذ کرنے کے لئے عزم پیہم اور جہدِ مسلسل سے گزرنا ہو گا۔ یہ داستانِ عزم و وفا بڑی دشوار گزار اور قربانیوں کی متقاضی ہے، جب تک اس مشن کے حامل و وارث علم و عمل سے مزین ہو کر مخلصانہ اور مشترکہ مساعی بروئے کار نہیں لائیں گے، اس وقت تک اُنہیں مطلوبہ نائج کی توقع بھی نہیں رکھنا چاہئے۔ معاشرتی میدانوں میں مدارس دینیہ کی شکل میں اسلامی تعلیم کا مضمحل ادارہ ہو، یا بہاوی تحریکوں کی شکل میں جہاد کی بچی کھچی صورتیں، یہ دونوں معاشرتی مظاہر اس وقت عالم کفر کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں اور اِنہی سے مسلم اُمہ کے احیاء کی تحریک پھر سے زندہ ہو سکتی ہے۔ کتاب و سنت کو سیکھنے سکھانے والے کسی وقت اُمت کے رجوع الیٰ القرآن کا سبب بن سکتے ہیں اور کفر کے سامنے مزاحمت کرنے والے کسی وقت اُمہ کی سوئی ہوئی غیرت و حمیت کو جگا کر اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
مغرب کا اساسی نظریہ؛ دین و دنیا کی تفریق:
اس موضوع کے اختتام سے قبل یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ معاشرے کی دو سب سے بنیادی طاقتیں ہیں، ایک مذہب اور دوسری ریاست۔ مذہب کو دیگر علوم کے مساوی ایک معمولی حیثیت دینا اس کے مقام سے انحراف ہے بلکہ مذہب انسان کا پہلا حوالہ اور اس کی ہر لمحہ کی شناخت ہے۔ یہی کسی قوم کا بنیادی تعارف ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ سے عسکری جارحیتیں ہوتی رہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ مذہب ہی دین و دنیا کی کامرانی کا محور ہے۔ اس بنا پر مذہب کو محض ایک علمی حولاہ بنا دینا یا معاشرے میں دیگر میدانوں کی طرح اس کو بھی ایک دائرۂ کار تک محدود کر دینا الحادی معاشرہ کی سنگین زیادتی ہے۔ مغرب کی نام نہاد 'احیائے علوم کی تحریک' دراصل مذہب سے اِنحراف کی تحریک ہے جس کی اساس علوم کو وحی و اِلہام سے منقطع کر کے تجربہ و مشاہدہ پر قائم و دائم کرنا (سائنس و مذہب کا معرکہ) اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر انسانوں کو اللہ کی بندگی سے نکال کر ذاتی خواہشات و مفادات کا اَسیر بنانا ہے۔ مغرب میں اس تحریک کی منطقی ضروریات اور اَسباب ایک علیحدہ موضوع ہیں، لیکن اس کے لازمی نتیجے کے طور پر مذہب کو اجتماعی دائرووں سے نکال باہر کیا گیا، تاہم مذہب کی اس غیر معمولی اہمیت کی بنا پر جدید تہذیب کے فکری کار پردازان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اس کو کلی طور پر انسانوں کی زندگی سے خارج کر دیا جاتا کیونکہ نہ صرف یہ ہر انسان کی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ اس سے انسان کا عمرانی رشتہ بھی صدیوں پرانا ہے۔ اس بنا پر مذہب و ریاست میں مفاہمت کا یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی کی حد تک اختیار کرنے کو گوارا کیا جائے جہاں وہ دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات میں مخل نہ ہو اور معاشرتی میدان میں اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے کیونکہ یہ ریاست کا دائرۂ عمل ہے۔ یہی دین و دنیا کی تفریق (سٹیٹ اور چرچ میں جدائی) ہے جس کا طعنہ دینی مدارس کو دیا جاتا ہے جبکہ درحقیقت یہ سیکولرازم کا اساسی نظریہ ہے۔ اس طرح انسانوں کی حاکمیت اور اللہ کی حاکمیت کے مابین ایک حد فاصل اور اپنے تئیں مفاہمت کرا دی گئی اور اس کے بعد سے مغری فکر و نظریہ کی بنا پر قائم ہونے والی تمام دنیا اسی نظریے کی عملی تطبیق بن گئی۔
یہ نظریہ مغرب کا اساسی اور مستحکم ترین نظریہ ہے جس کی داخلی ضرورت یہ ہے کہ اس طرح حکمران طبقہ کی حاکمیت بھی برقرار رہتی ہے اور مذہب کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کر کے اللہ کی حاکمیت کو محدود کرنے کا موقع بھی اُنہیں مل جاتا ہے۔ دنیا بھر حتیٰ کہ مسلم دنیا میں بھی مذہب کی بنا پر مسلم معاشرت کو جاری و ساری کیوں نہیں کیا جاتا، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس سے انسانوں کی حاکمیت پر قدغنیں لگ جاتی ہیں اور اُنہیں بھی اللہ کے احکامات کے تابع ہونا پڑتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنی من مانی اور حکومت کے تحفظ کے لئے کسی بھی مسلم معاشرے میں اسلامی اساسات کو استحکام دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اگر سعودی معاشرہ میں آج کے برعکس ایک مثال موجود ہے تو اس کا ایک طویل تاریخی پس منظر اور ان پر یہ اللہ کی خاص رحمت ہے جبکہ سعودی حکمران معاشرے میں شریعت کی عملداری اور علماء کی قدر و منزلت سے خائف رہتے اور اس بنا پر عوامی عتا کا نشانہ بھی بنے رہتے ہیں کیونکہ اسلامی معاشرے کا محور ایک انسان (حکمران ؍ بادشاہ) یا متعدد انسانوں (جمہوریت) کی حاکمیت کی بجائے فقط ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی ہے جس کا حکمران (خلیفہ) بھی پابند ہوتا ہے۔
الغرض سیکولرازم مغربی تہذیب کا سب سے خطرناک وار ہے جس میں حد بندی کے نام پر زندگی کے سیع تر دائرے کو مذہب کی حاکمیت سے نکال کر ریاست کے نام پر انسانوں کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم بھی اسی ریاستی جبر و اسبداد کا شکار ہیں اور ان کے فلا اسی ریاست کے طے کردہ ڈھانچوں کے رہین و اسیر ہیں۔
دنیا آج سیکولرزم کے نظریے کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے، اور اس کو ایک بڑا متوازن و مہذب اور رواداری و مفاہمت پر مبنی توازن قرار دیتی ہے۔ اگر تو دنیوی سہولت اور عیش پرستی مطمح نظر ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولرزم دنیوی مسائل میں کمی کر سکے، البتہ اگر دنیا میں آمد کا مقصد اللہ کی بندگی اور آخرت کی تیاری ہو، تب سیکولرزم دنیوی تعیش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں بھی دنیا کے لاکھ دعوے کے باوجود آج بھی انسایت مذہب کی بنا پر ہی عالمی طور پر منقسم اور باہم نبرد آزما ہے۔ الکفر ملة واحدة آج بھی دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت بن کر اُمتِ مسلمہ اور اس کے وسائل کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔ ان حالات میں اس بودے دعوے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ یوں بھی سیکولرازم مسلم اُمہ کو کبھی راس نہیں آیا، چودہ صد سالہ تاریخ اس کے خلاف ایک مستحکم دلیل ہے کہ کامیابی نے ہمیشہ اس وقت مسلمانوں کے قدم چومے ہیں، جب اُنہوں نے ہر میدان میں اپنے دین کو گلے لایا، نظریۂ جہاد کو اپنایا اور اللہ کی بندگی اختیار کی۔ مسلمانوں کی بہترین اور فلاحی ریاستیں آج اور ماضی میں بھی اللہ کی بندگی پر کار فرما ہو کر ہی مثالی ریاستیں قرار پائیں، آج انہی خلافتوں کے احیاء کو ہر مسلمان تڑپتا ہے۔ جبکہ کفار نے اپنےمنحرفہ مذاہب پر عمل کر کے، جو الہامی کتابوں میں تحریف کے بعد دراصل ان کے اَحبار و رہبان کی خواہشات تھیں، تاریخ کے ہر موڑ پر ذلت و ُسوائی اُٹھائی ہے اور آج بھی ایسے مذہب سے جان چھڑا کر یہودی و عیسائیایک محدود دیوی غلبہ اور کامیابی سے متمتع ہو رہے ہیں اور ہم اپنے مذہب کو ترک کر کے ذلیل و رسوا ہیں۔ صدیوں کی اس مستحکم شہادت کے باوجود بھی کوئی مسلمان کیونکر سیکولرزم کا شیدائی ہو سکا ہے۔ ہمارا ماضی اور حالِ دین اسلام کے عین منزل من اللہ ہونے کی اہم ترین دلیل ہے!!
جدید دنیا کا یہ عظیم 'نعرۂ سیکولرزم' آج ہمارے معاشروں کا اہم ترین مسئلہ ہے، جو مذہب کی نفی کی بجائے مذہب کو انتہائی محدود تر کر دینے کا فلسفہ ہے، نہ صرف اسلام بلکہ تمام مذاہب کو ایک مخصوص دائرہ میں مساوی مقام و حیثیت دینے کا نظریہ ہے۔ معاشروں کی تعمیر معاشروں کے اہل علم و فضل کرتے ہیں، اسی لئے آج اس نظریہ کے خلاف کام کرنے والی درسگاہیں اور ان کے فضلاء پریشان ہیں، لیکن آخر کار محمد عربی ﷺ کے ورثا کو کتاب و سنت کی الہامی ہدایت اور روحانی قوت کو ہاتھ میں لے کر معاشروں کو اپنی اساسات پر لانے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی، ان چیزوں کو دیکھ کر مسلم عوام کو اس کی تلقین کرنا اور اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔ یہ منزل اجتماعی کاوش سے آسان تر ہو جائے گی، وگرنہ راستہ یونہی دشوار گزار اور کٹھن رہے گا اور ہماری بہترین مساعی کے باوجود معاشرہ روز بروز گمراہیوں کے اندھیرے غار میں اُترتا جائے گا۔
پس چہ باید کرد؟
مسلم معاشرہ کو اس کی اصل اساسات پر جن پر نبی کریم ﷺ قائم کر گئے تھے اور جسے مغربی تہذیب سے قبل کوئی فکری، نظریاتی یا عسکری قوت تہ و بالا نہ کر سکی تھی، لوٹانے کے لئے صرف علمی تحریک ہی کافی نہیں۔ اسی مقصد کے لئے معاشرے میں اصلاحی، سیاسی اور جہادی قوتیں بھی کار فرما ہیں۔ جن کا نظریہ ہے کہ مطلوبہ معاشرہ کی تشکیل اس دور میں فکر و نظر، تعلیم و تلقین اور بحث و مباحثہ کی بجائے مرکزِ قوت کی اصلاح اور ان پر قبضہ و اقتدار جمانے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔ اس باب میں متعدد نظریات موجود ہیں لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نوعیت کے اقدام سے قبل تحقیق و تعلیم کا مرحلہ آتا ہے۔ جس طریقے سے بھی یہ مقصد حاصل ہو جائے، حالات کے تحت وہی اُسلوب اس کے لئے موزوں تر ہے۔ البتہ بزورِ جبر اس کو تمام لوگوں پر نافذ کرنے کی بجائے مخلص اور متدین حضرات پر مبنی محدود و معاشرے کا قیام اس کا محتاط ترین طریقہ ہے اور فی الوقت یہی طریقہ دنیا بھر میں مختلف نظریاتی گروہوں نے اختیار کر رکھا ہے لیکن اس کے لئے آغاز میں جہدِ مسلسل اور بے دریغ قربانیوں کی ضرورت ہے۔ جوں جوں یہ معاشرہ وسیع تر ہوتا جائے گا، اس کو برقرار رکھنا آسان اور اس کے فوائد وسیع تر ہوتے جائیں اور اس معاشرے کی تشکیل کتاب و سنت کے حاملین کے ہاتھوں ہی ہوں گی جس میں دین کی تعلیم اور نبی ﷺ کی وراثتِ علمی کی حفاظت اعلیٰ ترین اعزاز ٹھہرے گی۔
دینی مدارس تو نہ عام درسگاہوں کی مثل ہیں اور نہ ہی مستقبل کا کوئی وظیفہ ان کا مطمح نظر ہے جو معاشرہ اُنہیں فراہم کرے۔ یوں بھی کوئی شخص محض تعلیم سے ہی انبیاء کی وراثت پر فائز نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کیلئے خصوصی مجاہدہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے فضلائے مدارس کو عام فضلا کی طرح معاشرہ سے توقعات وابستہ رکھنے کی بجائے اپنی اعلیٰ ترین منزل کیلئے بہترین مساعی بروئے کار لانا چاہئیں، اپنے علم و شعور کو بہتر سے بہترین کرنا چاہئے اور اس جادۂ حق کے 'سابقون اوّلون' بن کر عظیم ترین منزل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہئے۔