اسلام کا تصور تعلیم
فرد کی تربیت کی جب بھی بات ہوئی ہے تو ایک سوال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ فرد کی تربیت کا مقصود اصلی کیا ہے؟ مسلمان کی نظر میں تو مقصود اصلی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس لیے کہ جہاں یہ ایمان ہوکہ یہ زندگی عارضی ہے اور بالآخر ایک نئی زندگی آنی ہے جہاں کامیابی اور ناکامی کے نتائج سامنے آئیں گے وہاں منزل مقصود کاسوال متعین ہے اور واضح ہے۔ لیکن جن اقوام میں آخرت کاکوئی تصور نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ فرد کی تربیت کا محرک کیا ہو؟
یونانیوں نے اس کے لیے جو اصطلاح استعمال کی اس کا انگریزی ترجمہ happiness یعنی 'خوشی' ہے۔ مجھے نہیں پتا، اس لیے کہ میں یونانی نہیں جانتا، کہ اصل یونانی لفظ کیا ہے اور اس کا حقیقی ترجمہ کیا ہے؟لیکن حکیم ارسطاطالیس اور دوسرے یونانی مفکرین نے happiness یعنی 'خوشی' اور مسرت کو انسانی زندگی کا منزلِ مقصود قراردیا۔ ان کے خیال میں ہر انسان خوشی اور مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن خود مسرت کیا ہے؟ اس پر جب یونانیوں نے غور کیا تو ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ جب انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے تبھی اس کو مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لذیذ کھانے کھاتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اچھا لباس پہنتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسری بہت سی لذتیں ، جسمانی و مادی لذتیں ، ایسی ہیں کہ جب وہ حاصل ہوتی ہیں تو انسان خوش ہوتا ہے۔ لہٰذا لذت اورمسرت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزم قرار پاگئے۔
اگر لذت ہی کو انسان کا ہدف قرار دے دیا جائے تو اس سے جو اخلاقی قباحتیں اور تباہیاں پیدا ہوتی ہیں ، ان کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔شاید اسی لیے متکلمین اسلام اور صوفیا نے بالخصوص اور مسلم فلاسفہ نے بالعموم اس کے لیے 'سعادت' کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ سعادت کا لفظ قرآنِ پاک میں متعدد بار استعمال ہوا ہے ۔ قرآنِ مجید نے کامیاب انسان کو سعید قرار دیا ہے۔ فمنھم شقی وسعید انسان دوقسم کے ہیں ۔ ایک وہ ہے جن کو سعادت اور نیک بختی حاصل ہے۔ دوسرے وہ ہیں جن کو نیک بختی حاصل نہیں ہے۔ وہ بدبخت ہیں ۔ سعادت کے لفظ میں وہ تمام خوبیاں شامل ہیں جو قرآنِ پاک اور سنت ِرسولؐ کا ہدف ہیں اور جو انسان کو اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہیں ۔ سعادت حقیقی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ وہ تدابیر اختیار کی جائیں جو انسان کو بہیمیت کے منفی نتائج سے محفوظ رکھیں ، انسانیت کے ملکوتی پہلو کو ترقی دیں اور اس دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح کے لیے انسانوں کو کامیاب اورمستحق بنائیں ۔
یہ خلاصہ ہے اس مفہوم کا جو سعادت کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اما م غزالی، فارابی، ابن سینا اور بہت سے مفکرین اسلام نے بیان کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سعادت کے حصول کے ضمن میں انسانوں کے چار درجے ہوسکتے ہیں ۔ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ہر دور میں یہ چاروں طبقے سعادت کے حوالے سے موجود رہتے ہیں ۔
کچھ لوگ تو وہ ہیں کہ جن کو نہ سعادت حاصل ہے اور نہ اُمید ہے کہ ان کو کبھی سعادت حاصل ہوگی۔ یعنی اُنہوں نے اپنی بہیمیت کو اتنا قوی اور ناقابل شکست بنا دیا ہے کہ اب ان میں ملکوتی عناصر یا ختم ہوگئے ہیں یا بہت کمزور ہوگئے ہیں ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے بارہ میں قرآن مجید میں کہاگیا ہے:
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ...﴿
١٨﴾...سورة البقرة
''یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔''
ایک طبقہ وہ ہے جو خاصی بڑی تعداد میں ہوتا ہے جس کو فی الوقت تو سعادت حاصل نہیں ہے، لیکن اُمید ہے کہ سعادت حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ اس کے اندر کی بہیمیت ابھی پورے طور پر زور آور نہیں ہوئی، اور ملکوتیت بھی پورے طور پر ختم نہیں ہوئی۔
ایک تیسرا طبقہ ہے جو نسبتاً کم ہوتا ہے۔ یہ وہ ہے جو پیدائشی طورپر یا اپنی جبلت کے لحاظ سے، اپنے مزاج اور تربیت کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اس نے ازخود اپنے اندر ملکوتی عناصر کو ترقی دے رکھی ہے اور اپنے اندر کی بہیمیت کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر زمانے میں 'سابقین اولین' ہوئے۔ صحابہ کرام میں کثرت سے ایسے لوگوں کی مثالیں ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ
خیارکم في الجاھلیة خیارکم في الإسلام1 ''جو جاہلیت میں اچھے اور سعید تھے وہ اسلام میں بھی اچھے اور سعید؍ نیک بخت ہیں ۔''
ایک طبقہ وہ ہے کہ جس میں نہ صرف فی الوقت سعادت موجود ہے بلکہ مزید سعادت کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ کو یہ صلاحیت اور ہمت دی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی سعادت اور خیر کی طرف لاسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے 'والسابقون السابقون' کہا ہے کہ سابقین اولین کے بھی وہ سابقین اوّلین ہیں ۔ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ اُوْلئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَ!یہ وہ مقربان بارگاہ الٰہی ہیں جو ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں اور انسانیت کے لیے عزت وتکریم کا باعث ہوتے ہیں ۔
جب انسان اس سعادت کے حصول کے لیے پیش قدمی کرتا ہے تو اس کو دوقسم کے کام کرنے ہوتے ہیں ۔ کچھ کام تو وہ ہیں جو کہ ظاہری اعتبار سے اس لیے کرنے چاہئیں کہ انسان اپنے ظاہر کوسعادتِ حقیقیہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔ یہ شاہ ولی اللہ کے الفاظ ہیں ۔ ''انسان اپنے ظاہر کو سعادت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں ۔'' شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ شریعت نے جتنے احکام دیے ہیں ، عبادتیں مقرر کی ہیں ، معاملات کے بارہ میں ہدایات دی ہیں ۔ یہ سب کا سب اسی لیے ہے کہ انسان کاظاہر اس کی سعادت ِحقیقیہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہم کنار ہو جائے۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جس کا تعلق اندر کی اصلاح سے ہوتا ہے۔ بظاہر وہ اصلاح نظر نہیں آتی، بظاہر انسان کے ظواہر پر اس کا اثر نہیں پڑتا، لیکن اندر ایک ایسا جذبہ خدا ترسی اور خوفِ الٰہی کا پیدا ہوجاتا ہے کہ انسان ایک خاص انداز میں خودبخود چلنے لگتا ہے۔ شریعت اس کے لیے فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ شریعت پر وہ عمل درآمد اس طرح کرنے لگتا ہے کہ جس طرح حدیث میں ہے کہ ''اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ رہے تو یہ یقین رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔''
2جب یہ سعادتِ حقیقیہ حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے چار نتائج انسان کے طرزِعمل میں سامنے آتے ہیں :
پہلا نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر جو منفی رجحانات ہیں ، جن کے لیے بہیمیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، یہ انسان کے مثبت ؍ملکوتی رجحانات کے تابع ہو جاتے ہیں ۔
جب ایسا ہو جائے توپھر انسان کی خواہشات اور اَہواء انسان کی عقل کے تابع ہو جاتی ہیں ۔ عقل اہواء کے تابع نہیں ہوتی بلکہ اہواء اور خواہشات عقل کے تابع ہو جاتی ہیں ۔
تیسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کا نفس ناطقہ، انسان کی حقیقت، اندر سے خوبخود اس عمل کے نتیجے میں شریعت کے احکام اور عقائد سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے شریعت فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ دوسرے انسان جس پر بہ تکلف عمل کرتے ہیں ، وہ ایک تربیت یافتہ فرد کے لیے فطرتِ ثانیہ کی بات ہوجاتی ہے اور اس سے خود بخود شریعت کے احکام پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اور آخری چیز یہ کہ اس کو حضوری کی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے، جس کو حدیث میں 'احسان' کے لفظ سے یا د کیا گیاہے۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے دوطرح کی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں ۔ کچھ تدابیرتو وہ ہیں جو علمی تدابیرکہلاتی ہیں اور کچھ تدابیر عملی تدابیر ہیں ۔ علمی تدابیر میں دنیاوی علم بھی شامل ہے اور شریعت کا علم بھی۔ دنیاوی تدابیر میں تربیت بھی شامل ہے اور انسان کی ظاہری تہذیب ِنفس بھی شامل ہے ۔ یہ سب علمی تدابیر ہیں ۔ عملی تدابیر سے مراد انسان کو ایک ایسے معاشرے کا فراہم ہونا اور ایک ایسے ماحول کا دستیاب ہوناہے جہاں اس کے لیے ان چیزوں پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔
علم کی اہمیت وحیثیت
اب چونکہ علم کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر تربیت مکمل نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے بغیر فرد معیاری فرد نہیں بن سکتا۔ معیاری فرد کے بغیر معیاری خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔ معیاری خاندان کے بغیر معیاری امت وجود میں نہیں آسکتی۔ امت کے بغیر ا نسانیت کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ امت کے بغیر ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ ریاست کی مدد اور وسائل کے بغیر شریعت کے بہت سے احکام پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اصل الاصول بنیادی طورپر علم ٹھہرتا ہے۔ اب علم بھی ایک وحدت ہے۔ دینی علم ہو یا دنیاوی علم، دونوں ایک ہی حقیقت کبریٰ کے مختلف مظاہر ہیں ۔ حقیقت ایک ہے اورحقیت کبریٰ ایک۔ اس لیے جس علم کا تعلق اس حقیقت سے جتنا قریبی ہے وہ علم اتنا ناگزیر ہے۔ جتنا دُور ہے اتنا ہی ناگزیر نہیں ہے۔
فرضِ عین ' علم'
ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ علم کی حیثیت فرض عین کی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک مرحلہ ایساآتا ہے کہ علم کی حیثیت فرضِ کفایہ کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک درجہ ہوتا ہے کہ علم کی کیفیت محض ایک ایسے نکتے کی ہوتی ہے جس کو برصغیر کے بعض اہل علم نے دسترخوان کی چٹنی سے تشبیہ دی ہے۔ دسترخوان میں چٹنیاں بھی ہوتی ہیں ، لیکن وہ مرکزی کھانے کا حصہ تو نہیں ہوتیں اور ہوبھی نہیں سکتیں ، لیکن چٹنی کے بغیر دسترخوان کی تکمیل بھی نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح سے علم کا ایک درجہ ہے جس کو امام شاطبی رحمة اللہ علیہ نے ملح العلم کے نام سے یاد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک علم کا صلب یعنیcore ہے، اور ایک وہ ہے کہ جو علم کااصل تو نہیں ہے لیکن اس کی حدود پر ہے اور ایک وہ ہے جو ملح العلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے اس کا علم سے تعلق نہیں ہے اور وہ علم ٗغیر نافع ہے۔ یہ استدلال اُنہوں نے اس حدیث سے کیا جس میں حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ
اللّٰھم إني أعوذ بك من علم لاینفع3 ''اے اللہ میں علم غیر نافع سے تیری پناہ مانگتا ہوں ''۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم کا ایک درجہ یا ایک سطح ایسی ہوسکتی ہے کہ وہ غیرنافع ہو، اس کو علم کہا جاسکتا ہے اور وہ حقیقت سے کسی نہ کسی حد تک تعلق بھی رکھتا ہے۔ لیکن اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا اس کے حصول میں وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جو علم حصول کا مستحق ہے وہ ہے جو حقیقت کی صلب (یعنی core of reality) سے تعلق رکھتا ہو۔ یہی علم فرضِ عین ہے جو علم اس کے بعد والے دائرے سے تعلق رکھتا ہو،وہ فرضِ کفایہ ہو گا۔ علم و دانش اور ادب کا جو درجہ اس کے بھی بعد والے دائرے سے تعلق رکھتا ہو گا وہ مِلح العلم کہلائے گا۔
جو علم فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
ایک وہ ہے جس علم کے ذریعے انسان کاعقیدہ درست ہو جائے: ما تصح به العقیدة یعنی اسلام کے عقائد کا وہ کم سے کم علم جس کے نتیجے میں انسان کا عقیدہ اور طرزِعمل درست ہو جائے۔ یعنی جدید مغربی اصطلاح (جرمن زبان) میں اسلام کا weltanschauungاس کے سامنے آجائے۔ یہ علم ضروری کا سب سے پہلا درجہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں ، کیوں آیا ہوں ، مجھے کہاں جانا ہے، میں اس دنیا میں کس کام کے لیے آیا ہوں ؟ ان سوالات کے جوابات انسان کے پاس ہونے چاہئیں ۔ اگر انسان کسی ذمہ داری پر یہاں بھیجا گیا ہے تو ذمہ داری کے تعین کے لیے ان بنیادی سوالات کا جواب ناگزیر ہے۔
دنیا میں انسان کی ذمہ داری: واضح رہے کہ قرآنِ مجید کی رُو سے انسان کو ایک ذمہ داری کے ساتھ روئے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں آدم کو روے زمین پر اتارنے کا ذکر ہے وہاں ھُبوط کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ ھُبوط کے لفظ کو کچھ لوگوں نے fallکے لفظ سے تعبیر کیا ہے، جو صحیح نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت نوحؑ کے نزول کے سلسلہ میں کہا گیا ہے: اھبط بسلام منا وبرکٰت علیك یعنی ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ کشتی سے اُترو۔ گویا ھبوط ہورہا ہے اور پوری عزت کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ھبوط کے مفہوم میں سزا کا کوئی تصور نہیں ہے۔
اُترنے کے لفظ کا ترجمہ بعض مغربی مصنّفین نے fall کے نام سے کیا ہے۔ اُنہوں نے بائبل اور توریت کے تصورات کی روشنی میں اس کو دیکھا اور یہ سمجھا، گویا سزا کے طورپر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو جنت سے نکالا تھا۔ قرآنِ مجید میں کہیں بھی سزا کا ذکر نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں تخلیق آدم سے پہلے ہی یہ کہا گیا تھا کہ زمین میں ایک جانشین بنانا مقصود ہے:
إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ...﴿
٣٠﴾...سورة البقرة
لہٰذا زمین میں خلافت تو پیدائش سے پہلے سے متعین تھی۔ اس کے بعد کہا گیا کہ اھبطوا ''اُترو۔''
ڈاکٹر حمیداللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب انسان کہیں پہنچتا ہے تو اس کو بھی اُترنا کہتے ہیں ۔ کراچی جاکر اُترے، لندن جاکر اُترے، مکہ مکرمہ جاکر اُترے۔ کئی جگہ قرآنِ مجید میں ھُبوط کا لفظ کسی ذمہ داری کو انجام دینے کی غرض سے، چارج لینے کے سیاق وسباق میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہودیوں نے جب دعا کی کہ اللہ تعالیٰ! ارضِ مقدس کی حکومت ہمیں عطا فرما تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاقبول فرمائی اور یہودیوں کو ہدایت کی کہ
ٱهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ...﴿
٦١﴾...سورة البقرة
''اس شہر میں چلے جائو ،جو مانگو گے ملے گا۔''
یہاں بھی ھُبوط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ ھُبوط کا لفظ کسی سزا کے طور پرکہیں بلندی سے پستی میں پھینکے جانے کے لیے نہیں ، بلکہ ایک قسم کی تشریف و تکریم کے ساتھ ذمہ داری سنبھالنے کے لیے پہنچ جانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے قرآنِ مجید میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا وجود خود ایک جرم اور ایک سزا کی نوعیت رکھتا ہو۔ یہ حقائق ہر انسان کو معلوم ہونے چاہئیں اور یہ اس کے عقیدے کا لازمی حصہ ہیں ۔ یہ سب ماتصح بہ العقیدة کا حصہ ہے۔
فرضِ عین علم کا دوسرا درجہ ہے: ماتصح به العبادة، یعنی علم کا اتنا حصہ جس کی مدد سے عبادت درست طورپرادا ہوسکے۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ عبادات کا مکلف ہے۔ نماز ہر ایک پر فرض ہے۔ روزہ ہر صحت مند بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ زکوٰة فرض ہے صاحب ِنصاب پر وغیرہ ۔ لہٰذا شریعت کے احکام کا اتنا علم کہ انسان کی عبادات درست طریقے سے انجام پاجائیں ، یہ فرض عین ہے۔
اس کے بعد ہے ماتصح به المعیشة ، یعنی انسان جو زندگی گزارتا ہے، اس زندگی گزارنے کا شریعت کے مطابق جو کم سے کم ڈھنگ ہے، وہ اس کو آجائے۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ مختلف میدانوں میں مختلف ہوتا ہے۔ تاجر کا ڈھنگ اور ہے، کاشتکار کا ڈھنگ اور ہے، اُستاد اور معلم کا ڈھنگ اور ہے۔ جو شخص جس میدان میں کارفرما ہے، اس کو نہ صرف اس میدان سے متعلق شریعت کے بنیادی احکام سے باخبر ہونا چاہیے بلکہ خود اس فن کے احکام بھی اس کو آنے چاہئیں ۔
یہ سمجھنا کہ میں اگرمسلمان میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو شریعت کے احکامات کا تو پابند ہوں ، لیکن میڈیکل فن کے قواعد کا پابند نہیں ہوں ،یہ درست نہیں ہے ۔ یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ میڈیکل پیشہ کے رائج الوقت معروف احکام اور قواعد کی پابندی شریعت کا حکم نہیں ہے۔ شریعت یہ بھی حکم دیتی ہے کہ اگر میں فن طب کو بطورِ پیشہ اختیار کروں تو مجھے اس میدان کے قواعد کا علم ہونا چاہیے اور اس زمانہ کے لحاظ سے ہونا چاہیے جس زمانے میں میں میڈیکل سائنس کو پریکٹس کر رہا ہوں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ
''اگر کسی شخص نے علم طب سیکھے بغیر کسی کا علاج کیا ، اور اس کو کوئی نقصان ہوگیا تو اس نقصان کا یہ علاج کرنے والا شخص ذمہ دار ہو گا۔''
یہ اس نقصان کا تاوان ادا کرے گا۔ بعض فقہا نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عطائی کے ہاتھوں غلط علاج کے نتیجہ میں معذور ہو جائے یا مر جائے تو عطائی کو دیت ادا کرنی پڑے گی۔ اس سے پتا چلا کہ اس فن کے فنی احکام کو جاننا بھی اس فن کو اختیار کرنے والے پر فرضِ عین ہے اور اس فن سے متعلق شریعت کے احکام کو جاننا بھی اس فن کے مدعی پر فرضِ عین ہے۔
فرضِ کفایہ 'علم'
یہ تو علم کا وہ کم سے کم دائرہ ہے جو ہرشخص کو حاصل ہونا چاہیے۔ دوسرا دائرہ فرضِ کفایہ کا ہے جس کے بارے میں فقہاے اسلام نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ، امام غزالی رحمة اللہ علیہ اور کئی دوسرے حضرات نے یہ بات لکھی ہے کہ ان تمام علوم وفنون سے واقفیت مسلمانوں کے لیے فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتی ہے جو امت مسلمہ کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ چنانچہ ان تمام صنعتوں کا علم اور ان فنون کاعلم جن کی مسلمانوں کو ضرورت ہے، فرضِ کفایہ ہے۔ مسلمان کو اپنی تجارت میں ، اپنے دفاع میں ، اپنی آزادی اور استقلال کو برقرار رکھنے میں جس جس فن اور مہارت کی ضرورت ہو، اس کا حصول فرضِ کفایہ ہے۔ پھر امام غزالی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان علوم میں دلچسپی لینا کم کردی ہے۔ امام غزالی کا حوالہ میں باربار اس لیے دے رہا ہوں کہ ان کو کسی دنیادار آدمی کے طورپر نہیں جانا جاتا، بلکہ ایک خاصے شدت پسند مذہبی انسان کے طورپر ان کا تعارف ہے، بلکہ خود بہت سے اہل علم نے، یہاں تک کہ اسلام کے بعض ذمہ دار ترجمانوں اور مستند شارحین نے بھی امام غزالی کے خیالات کو قدرے انتہاپسندانہ قرار دیا ہے۔
امام غزالی کا کہنا یہ ہے کہ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر شخص نے سمجھا کہ دوسرے لوگ یہ علم حاصل کرلیں گے اور میں اس سے بری الذمہ ہو جائوں گا۔ چنانچہ لوگ فقہ کا علم حاصل کرنے پر تو توجہ دیتے ہیں ۔ طب کا علم حاصل کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ لوگ شریعت کا علم تو ذوق وشوق سے حاصل کرتے ہیں ، لیکن انڈسٹری کا علم حاصل نہیں کرتے۔ اس لیے کہ شریعت اور فقہ کا علم حاصل کرنے سے بڑے بڑے مناصب ملتے ہیں ۔ قاضی کا عہدہ ملتا ہے، مفتی کا عہدہ ملتا ہے۔ شاید اس زمانے میں لوگ کثرت سے علومِ شرعیہ کی طرف آتے ہوں گے۔ آج ہمارے یہاں اسلامک یونیورسٹی کی فیکلٹی آف شریعہ میں داخلے کے لیے اگر سوطلبہ آتے ہیں تو مینجمنٹ سائنسز میں داخلے کے لیے پانچ ہزار درخواست گزار آتے ہیں ۔ اس لیے کہ ایم بی اے کرنے سے اچھی نوکری ملتی ہے۔ شریعت اور اُصول الدین پڑھنے سے نوکری نہیں ملتی۔
اسلامی معاشروں میں اس کے بر عکس ہوتا تھا کہ علم دین پڑھنے والے کو اچھی نوکریاں ملتی تھیں ۔ قضا، فتویٰ اور فقہ کی تربیت کے لیے طالبانِ علم بڑی تعداد میں امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ میں آتے تھے۔ طب پڑھنے کے لیے نہیں آتے تھے، اس لیے کہ طب کی بنیاد پر وزارت بھی نہیں ملتی تھی ، قضا بھی نہیں ملتی تھی اور مفتی کا عہدہ بھی نہیں ملتا تھا۔
بہرحال اس سے یہ پتہ چلا کہ وہ تمام تخصّصات حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے دفاع اور وجود و استقلال کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ان دو درجات کے تحت آنے والے علوم و فنون کے علاوہ جتنے بھی علوم ہیں وہ ملح العلوم یا علمی نکتے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر معاشرے میں کچھ لوگ ان علوم کو حاصل کریں تو اچھی بات ہے، تہذیبی اور تمدنی ترقیاں اس سے حاصل ہوتی ہیں ۔ بہت سے سوشل سائنسز ہیں ، ہیومنیٹیز کے معاملات ہیں ۔ اگر کچھ لوگ معاشرے میں خطاطی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں ، کچھ لوگ معاشرے میں اس طرح کے کچھ اور پیشے اختیار کرلیں تو اس سے تہذیب وتمدن میں وسعت پیدا ہوگی۔ تہذیب و تمدن میں مزید ترقی ہوگی۔ لیکن اگر پوری قوم خطاطی یا فنونِ لطیفہ اور شعرو شاعری میں لگ جائے تو پھر بقیہ معاملات متاثر ہوں گے اور اُمت ِمسلمہ غیر مسلموں کی محتاج ہوجائے گی۔ اس لیے امام غزالی نے اس پر بہت تفصیل سے اظہارِخیال بلکہ اظہارِ افسوس کیا ہے کہ مسلمانوں نے فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی اس تقسیم کو نظرانداز کر دیا ہے۔
حوالہ جات