بر ِصغیرمیں اَوّلین معمارِ کلیساکون؟ ایک جائزہ
'اَکال الامم'سے موسوم ہندو مت کی سر زمین برصغیر پاک و ہند میں مسیحیت کی تاریخ کافی قدیم ہے،تاہم اس کی یہاں پرابتدا کا تعین مشکل امر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی بھی باوثوق اور مستند تاریخی مصادر ومآخذ دستیاب نہیں جن سے ہندوستان میں عیسائیت کی ابتدائی آمد اور اوّلین بانی کلیسا کا قطعی تعین ہو سکے ۔ تا ہم مختلف فیہ آرا __ جن کی حیثیت محض دعویٰ کی ہی ہے __ میں ذیل کی مقدس ہستیوں کی آمد کو برصغیر میں مسیحیت کے ابتدائی نقوش گردانا گیاہے :
A سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام B سیدنا مریم علیہا السلام
C برتلمائی حواری سیدنا عیسیٰ علیہ السلام D توما حواری سیدنا عیسیٰ علیہ السلام
A سیدنا عیسیٰ ابن مریم ؑکی ہندوستان آمد کا دعویٰ
مسیحی عقیدہ کے مطابق ابن اللہ ٹھہرائے جانے والے حضرت عیسیٰ کو ان کے عہد کی یہودی مذہبی عدالت سینہڈرین(Sanhedrin)نے جھوٹا نبی قرار دے کر موت کی سزا تجویز کی اور آپ کومصلوب کر دیاگیا۔ تدفین کے تیسرے دن آپ کی قبر کھلی ہوئی اور خالی نظر آئی ۔ بعد اَزاں مختلف جگہوں پر حواریوں اور پیروکاروں کے سامنے آپ کا ظہور ہوا (جن کی تعداد مختلف فیہ ہے)۔ انجیلی روایت کے مطابق آپ چالیس روز کے بعداپنے شاگردوں کو برکت دیتے ہوئے آسمانوں پر اُٹھا لیے گئے۔ اس وقت سے آپ خداے قادر و مطلق کی دائیں جانب عرش پر تشریف فرما ہیں ۔
جب کہ جمہوراسلامی عقیدہ کے مطابق آپ تیس برس کی عمر میں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔(یہودی عقیدئہ قتل اور مسیحی عقیدئہ تصلیب کے برعکس){وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ} (النسائ:۱۵۷) ''نہ تو آپ کو قتل کیا گیا اور نہ ہی آپ مصلوب ہوئے، بلکہ{بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ}(النسائ:۱۵۸) کے مطابق آپ کو جسمانی طور پر زندہ آسمانوں پراُٹھا لیاگیااور{وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ} (الزخرف :۶۱) کے مطابق قیامت سے قبل آپ کی آمد ِثانی ہو گی ۔
اس جمہورمسلم عقیدہ __جو قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے__ کے برعکس، ایک متاخر رائے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ بچ نکلنے کے بعدیروشلم سے ہجرت کر گئے اور ترکی، مشرقی یورپ(ممکنہ حد تک) انگلینڈ ، ایران،افغانستان اور نیپال کا سولہ برس پر محیط سفر طے کرتے ہوئے ہندوستان آن وارد ہوئے اور یوزآسف کے نام سے کشمیر میں سکونت اختیار کی۔ یہیں شادی کرنے کے بعد ۱۲۰سال کی عمر میں وفات پائی ۔ آپ کی قبر سرینگر کے علاقہ روضہ بل میں ہے۔یہاں لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے آپ سے بعض تعلیمات منسوب کی جاتی ہیں جو کہ متداول انجیل کے سوا ہیں۔ ایک روسی سیاح اور مسیحی عالم نکولس نوٹو وچ (Nicolas Notovich) ۱۸۸۷ء میں سفر کشمیر کے بعداپنی تصنیفThe Unknown Life of Christ میں پہلی بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کشمیرمیں مفروضہ آمداور ان سے منسوب ہندوستانی انجیل کا معاملہ منظرعام پر لایا۔یہاں پرآپ کی تعلیمات کو 'ہندی انجیل' کے نام سے پیش کیا جاتا ہے جسے پیام شاہجہان پوری نے اپنی تحقیق کے ساتھ 'مسیح کی ہندی انجیل' کے نام سے اُردو میں شائع کیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مزعومہ کشمیر آمد کے اس مفروضہ کو ہندوستان میں سب سے زیادہ شد و مد کے ساتھ بانی جماعت ِاحمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی (۱۸۳۵۔۱۹۰۸ئ)نے اُچھالااوراس موضوع پر۱۸۹۹ئمیں ایک مستقل تصنیف'مسیح؛ ہندوستان میں'لکھی،جوکہ قادیان سے ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔اس کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کشمیر آمد کے حوالے سے قلم اُٹھایا۔تاہم یہ مفروضہ تحقیق کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا اوراسے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہل کلیسا کے ہاں بھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔
سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی جاپان آمد کا دعوی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان مختلف فیہ دعوؤںکے ضمن میں ایک دلچسپ روایت یہ بھی ہے کہ آپ ہندوستان ٹھہرنے کی بجائے یہاں سے جاپان تشریف لے گئے تھے۔
Jheaoouba Prophecy نامی کتاب کے مطابق۱۹۳۵ء میں Kiyomara Takeuchi نامی شخص کو جاپانی علاقہ Ibarahسے ۱۹۰۰ سال قدیم ایک دستاویز ملی۔ اس دستاویز کے مطابق حضرت عیسیٰ نے چودہ سال کی عمر میں اپنے والدین کو چھوڑا اور اپنے۱۲ سالہ بھائی Ourikiکو لے کر برما، ہند اور چین کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔پھرتے پھراتے ۵۰سال کی عمر میں اتفاقاً جاپان آ نکلے جہاں مزید ۴۵سال قیام کیا اور یہاں شادی کے بعد تین بچیوں کے باپ بنے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جاپانی علاقہAmoriکے گاؤں Herai میں وفات پائی اور یہیں آپ کا مزار ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ آپ کے بھائی Ourikiکی بھی قبر ہے ۔
B حضرت مریم علیہاالسلام
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہاالسلام کے متعلق کوئی باوثوق مسیحی روایت نہیں ملتی کہ وہ واقعہ تصلیب کے بعد کہاں تشریف لے گئیں۔اس بارے میں مستند کلیسائی روایات اورتاریخ کے اَوراق مکمل طور پر خاموش ہیں۔ عام طورپر باور کیا جاتا ہے کہ آپ نے یروشلم میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئیں۔ہندوستان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی متذکرہ روایت میں بطور تائیدی استشہاد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس مزعومہ سفر ہند میں ان کے ہمراہ تھیں اور کشمیر جاتے ہوئے راستے میں مری کے مقام پر وفات پا گئیں۔ اس دعویٰ کے مطابق انگریزوں کی طرف سے ۱۸۵۰ء میں بسائے جانے والی اس جگہ کا نام مری آپ کی نسبت سے پڑا ہے۔یہ مریم سے میری(Mary)اور پھر مری بن گیا۔یہاں پنڈی پوائنٹ کے مقام پر ایک قبر آپ سے منسوب ہے، جسے مقامی طورپر 'مائی مری دا آستانہ'کہا جاتا ہے ۔
Uzanne Merie Olsson نامی خاتون نے اپنی کتاب Jesus the King of Kashmir میں اس قبر کو حضرت مریم علیہا السلام کی قبر قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیل اور تصاویر بھی شائع کی ہیں۔راقم الحروف نے بچشم خود اس جگہ کا معائنہ کیا ہے۔ البتہ اسے ٹھوس تاریخی شہادتوںکے بغیر محض قیاسات سے حضرت مریم علیہا السلام کی قبر قرار دینا غلو و تعلّی کے سوا کچھ نہیں۔
یہ بات مد نظر رہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی قبر کا دعویٰ بیت المقدس کی بجائے صرف یہاں مری میں ہی نہیں کیا جاتابلکہ مختلف دعوؤں میں ترکی، فرانس اور بعض کے نزدیک انگلینڈ تک میں فرضی قبریں حضرت مریم کی طرف منسوب کی گئی ہیں ۔
ان زبانی یا سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کو ثابت کرنا انتہائی مشکل امرہے۔علم تاریخ کے جدید رجحانات میں سے آج کل 'اَورل ہسٹری' (Oral History)یعنی 'معاشرے میں رواج پانے والی زبانی تاریخ'کو قبول کرنے کے بارے بحثیں جاری ہیں۔ مذکورہ بالا شاذ روایات بھی اس تناظر میں بیان کی گئی ہیں۔
C برتلمائی حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہند آمد کی روایت
برصغیر کی تاریخ مسیحیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری برتلمائی کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس روایت کے مطابق وہ ہندوستان میں مالا بار یابمبئی کے پاس کلیان میں سے کسی جگہ آئے۔v اُنہوں نے یہاں مسیحیت کی تبلیغ کی اور جاتے ہوئے انجیل متی کا ایک آرامی نسخہ چھوڑ گئے۔
معروف مستشرق پادری الفانسو منگانا اور دیگر مسیحی مؤرخین اس روایت کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق برتلمائی موجودہ ہندوستان نہیں بلکہ یمن کے علاقہ میں آیا تھا،کیونکہ اس دور میں جغرافیائی طورپر ہندوستان سے مراد موجودہ ہند نہیں بلکہ بقول پادری برکت اللہ''لفظ ہندوستان کا کوئی خاص مفہوم متعین نہیں تھا۔ افریقہ کے مشرقی ساحل سے جاپان تک کے خطہ زمین کو بعض اوقات ہندوستان''کہا جاتا تھا ۔
اس کے برعکس معروف مسلم تاریخ دان ابن خلدون(م ۱۴۰۶ھ)کے مطابق اسے عرب اور حجاز کے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔
''إن برتلمائي بعث إلی الأرض العرب والحجاز''
''برتلمائی رسول کو عرب اور حجاز کی سرزمین کی طرف بھیجا گیا۔''
مسیحی مؤرخین ہندوستانی کلیسا کی برتلمائی رسول کی آمد پر بنیاد رکھنے سے احتراز کرتے ہیں۔
D توما حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہند آمد کی روایت
مذکورہ بالا تمام بیانات کے برعکس مسیحی مؤرخین کی طرف سے ہندوستان میں مسیحیت کے اوّلین نقوش کے ضمن میں سب سے زیادہ شدومد کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری توماکا نام لیا جاتا ہے۔ توما نامی اس حواری کااصل نام یہودا تھا، جس کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توما بمعنی توام رکھا۔اس کی طرف پانچ جعلی(اپوکریفا)کتب بھی منسوب ہیں ۔ اکثر مسیحی تاریخی مآخذمیں ہندوستانی کلیسا کی خشت ِاوّل توما حواری کی یہاں آمد کی روایت پر رکھی گئی ہے، اس لئے اس کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔
توماحواری کی ہندوستان آمد کی بنیاد'توما کے اعمال'نامی کتاب میں مذکور اُسطورہ پر رکھی گئی ہے۔خود مسیحی حلقوں میں اس کتاب پر نقدکرتے ہوئے اسے جعلی ،بدعتی،تخیلاتی ،وضعی، غیر معتبر و غیر ثقہ، افسانوی حیثیت کی حامل اور غلطیوں سے بھر مار گردانا گیا ہے ۔
'توما کے اَعمال' نامی اس کتاب میں مذکور قصہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے بعد ان کے حواریوں کو تمام دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی تو ہندوستان میں تبلیغ کی ذمہ داری توما حواری کے حصہ آئی، جس سے اُنہوں نے پہلو تہی کی کوشش کی اور اپنے خدشات کا اظہارکیا کہ میں ایک نحیف و ضعیف جسم کا مالک کمزور شخص اور صرف عبرانی جاننے والا ہوں،میں ہندوستانیوں میں کیسے سچائی کی تبلیغ کروں گا،لیکن رات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کے سامنے ظاہر ہوئے اور اسے ہند جانے کا حکم دیا۔ اس وقت اتفاقاً یروشلم میں ہندوستان کے راجہ گونڈوفاس کی طرف سے 'ہین'نامی تاجر کسی ماہر معمار کو ہندوستان لے جانے کے لیے آیا ہوا تھا ۔حضرت عیسیٰ اس کے سامنے ظاہر ہوئے اور توما کو اپنا غلام ظاہر کرتے ہوئے اسے ڈیڑھ سیر چاندی کے عوض بیچ دیا۔اس فروخت کی رسید ان الفاظ میں درج کی گئی ہے۔
باعث تحریر آنکہ :میں اپنا ایک خادم مسمّی توما جو فلسطین کا باشندہ ہے، بھارت کے را جہ گنڈو فاس کے لیے بوساطت مسمی ہین سوداگر فروخت کرتا ہوں۔
فروخت کنندہ : یسوع پسریوسف نجار سکنہ ناصرت ملک فلسطینی
توماکوخریدکر ہین اسکندریہ کے بحری راستے سے ہندوستان روانہ ہوا اور غالباً بھادوں (بکرمی جیت، تقویمی ماہ)میں اَٹک پہنچ کر وہاں سے چالیس میل جنوب مشرق میں ٹیکسلا راجہ گونڈوفاس کے پاس پہنچ گیا۔راجہ مذکور نے توما کو ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی اور اس کے لیے رقم بھی توما کے حوالے کر دی، اس نے وہ رقم غربا میں تقسیم کر دی۔ راجہ نے اس پر غضب ناک ہو کر اسے قید کر دیا تاکہ اسے آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ اتفاقاً اسی رات راجہ کا بھائی فوت ہو گیا اور مرنے کے بعد اس نے ایک عالی شان محل دیکھا جو توما نے اس کے بھائی کے لیے تعمیر کیا تھا(غربا میں دولت تقسیم کرنے کے بدلے میں یہ محل بنایا گیاتھا) اس میت نے دوبارہ زندہ ہو کر راجہ کو تمام قصہ سنایا تو راجہ اور اس کی تمام رعایا نے عیسائیت قبول کر لی۔
یہ واقعہ۴۸ء میں پیش آنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔بعد اَزاں جنوبی ہندسے توما کے پاس سفور نامی ایک قاصدکی آمد کا تذکرہ ہے جسے مائلاپور کے مزدے راجہ نے بھیجا تھا۔ توما اس کے ساتھ ہو لیااور جا کر راجہ کی بیوی اور اس کی بیٹی سے بدروحوں کو نکالا۔اس پرمزدے کے شاہی خاندان نے مسیحیت قبول کر لی۔ راجہ اس کی شہرت اور مقبولیت سے خائف ہو گیا اور اس نے سازش کے ذریعے شہر سے دور ایک پہاڑی پر لے جا کر اسے قتل کرنے کا کہا۔ راجہ کے سپاہیوں نے اسے پہاڑی پر لے جا کر بھالوں سے قتل کر دیا ۔مدراس کے اس مقام پر دوسری یا تیسری صدی کے آغاز میں 'ویر توما'یعنی توما کی خانقاہ بنا دی گئی ۔
دوسری اور تیسری صدی میں مختلف مقامات کے کلیساؤں میں مسیحی مشاہیر کے مزاروں پر جانا ایک عام بات تھی۔جن میں کچھ مقدسین کے مزار زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔جیسے انطاکیہ شہر میں بشپ اگنیش نس(۱۲۰ئ)کی ہڈیاں لا کر دفنا دی گئیں تھیں اور وہاں اس کا'روزِ ولادت' منایا جاتا، اسی طرح سمرنا کے کلیسا کے مقتول بشپ پولی کارپ کی ہڈیاں سمرنا میں دفن تھیں جہاں اس کا عرس منایا جاتا۔ اڑیسہ کے کلیسا کے ارد گرد ان مزاروں کی موجودگی میں اس کے نمائندے مائلاپور میں توما کے عرس میں شریک ہوتے۔اڑیسہ کے کلیسا کی یہ بڑی خواہش تھی کہ مقدس توما حواری کی ہڈیاں یہاں لا کر اس کا عرس منایا جائے۔ چنانچہ کلیسا کے چند شرکا میں مائلاپور پہنچے اور رات کی خاموشی میں مزار کھود کریہاں سے باقیات اپنے ساتھ اڑیسہ لے گئے۔یہ ہڈیاں اگست کو اڑیسہ پہنچیں اور وہاں دفنا دی گئیں۔ جہاں سے اٹلی کے شہر اورٹونا کے کیتھڈرل میں منتقل کر دی گئیں۔
یہاں لاش اور ہڈیوں کی کہانی سے قطع نظر، تاریخ کا ایک اہم پیغام پنہاں ہے کہ جو شکست خوردہ قوم تنزل کا شکار ہوتی ہے تو مایوسی کے عالم میں وہ اسلاف کی پرستش و تعظیم میں لگ جاتی ہے یا پھران کی استخوان فروشی میں۔
یہ روایت خام خیال فرضی قصہ پر مبنی ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہے ؟ اس سے قطع نظر اگر واقعتا تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ حواری توما پہلی صدی میںہندوستان آئے تھے تو یہ اہل ہند کی خوش بختی ہو گی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نازل شدہ پیغامِ الٰہی اصلی اور غیرمحرفہ شکل میں'عالی سند'کے ساتھ یہاں پہنچ گیا، لیکن اس کا انحصار مذکورہ روایت کے صحیح ثابت ہونے پر ہے ،نہ کہ عقیدت اور احساسِ تفاخر کے جوش میں اس قصہ کو حقیقت قرار دیتے ہوئے اسے بنیاد بنا کراس پر خوش خیالی اور شاندار منظر کشی سے کلیسائے ہند کی عالی شان عمارت تعمیر کرنے پر ۔
مذکورہ بالا روایت مذکور چند دیگر اُمور کا تحلیلی جائزہ لینے سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
éگونڈوفاس بادشاہ اُنیسویں صدی تک گمنام رہا۔۱۸۷۵ء میں پشاور سے ۲۸ کلو میٹر دور تخت بائی کی پہاڑی پر چھ سطروں پر مشتمل ۱۴۱۷ء کا کتبہ ملا جس میں بادشاہ گونڈوفاس لکھا پایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تاریخ جو ایک عہد کی جزئیات تک محفوظ کر لیتی ہے، اس کتبہ سے قبل مذکوربادشاہ، اس کے خاندان اور اس کے عہد میں ٹیکسلا کے تذکرہ سے یکسر بے نیازی دکھا رہی ہے اور ہم صرف 'توما کے اعمال' نامی ایک فرضی اور تخیلاتی کردار کی حامل داستان سے اس بادشاہ کے کردار کو لے کر اس پر تاریخ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
é قدیم ٹیکسلا میں مسیحیت سے متعلقہ کوئی تاریخییا ثقافتی آثار نہیں ملتے۔مذہبی حوالے سے بھی ۱۹۳۵ء تک یہاں کی وادیاں کوئی شواہد پیش نہیں کرتیں تاآنکہ ٹیکسلا کے قریب سرکاپ کے کھنڈرات میں ایک کسان کو ہل چلاتے ہوئے ایک صلیب نظر آئی جسے مارشل نامی انگریز نے لے لیا۔ اس صلیب سے فرض کر لیا گیا کہ یہ پہلی صدی کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اس علاقے میں مسیحی کلیسا پہلی صدی سے رائج ہے۔ یہ صلیب اس وقت ٹیکسلا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس صلیب کا جدید سائنسی آلات کی روشنی میں میٹرولوجی تجزیہ کیا جاسکتا ہے جس سے اس کی قدامت کا تعین ہو سکتا ہے کہ کیا واقعی یہ پہلی صدی کی صلیب ہے۔نیز یہ بھی اَمر مسلمہ ہے کہ صلیب کی علامت قبل مسیح کئی مذاہب کا شعار تھی۔نجانے یہ کس مذہب کی باقیات سے متعلق ہو۔
é تاجرہین عام بحر ی راستے سے ہٹ کر ایک معمار کی تلاش میں یروشلم کیسے جا پہنچا۔ کیا اس دور میں شمالی ہندوستان اور یروشلم کے درمیان کوئی تجارتی رابطے تھے بھی یا نہیں؟ پھراس سے بھی اہم بات کہ اتنی دور جا کر ہین کسی معمار کی بجائے ایک ایسے شخص کو کیونکر خرید لیتا ہے جو اپنے آپ کو بڑھئی ظاہر کرتا ہے اور کاشتکاری کے لیے ہل جوئے نیز کشتیاں اور اس کے پتوار بنانے کا ماہر بتاتا ہے۔جب کہ مستند مسیحی تاریخی ماخذ اسے ایک بڑھئی کی بجائے مچھیرا ظاہر کرتے ہیں جو جال بنانے اور مچھلیاں پکڑنے کا ماہر ہے۔
é گونڈوفاس کی مجہول شخصیت کے حوالے سے بھی بعض سوالات سامنے آتے ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ مسیحی مذہب کا علم بردار ہو گیا تھا اور اس نے اپنی مملکت میں مسیحی مذہب عام کر دیا تھا اور جبکہ دوسری رائے کے مطابق وہ مسیحی نہیں بنا، لیکن مسیحیت کو رواداری عزت اور ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا تھا، نیزاس کے مسیحی ہونے کے بھی سال وایام متضاد بتائے جاتے ہیں ایک میں اگر۴۸ء ہے تو دوسری میں۶۱ئ۔
é ٹیکسلا سے مسیحی روایت کا رخ جنوبی ہند میں مالا بار اور کورو منڈل کے ساحلی علاقوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ توما کے ذکر پرمشتمل مقامی دہقانی گیتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ توما حواری نے اُنہیں مسیحی بنایا ۔توما کے ذکر پر مبنی مالم زبان میں ساڑھے چار سو اشعار پر مشتمل ٹامس رمبان نامی مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پادری برکت اللہ لکھتے ہیں:
''جب ہم ٹامس رمبان کے مجموعہ کو پڑھتے ہیں تو اس میں ہم چند ایک باتیں دیکھتے ہیں جن کی وجہ سے تمام مجموعہ تاریخی نکتہ نگاہ سے مشکوک ہو جاتا ہے۔مثلا'توما کے اعمال'کی اندر اپولس کی حکایت کو لے کر کہا گیا ہے کہ یہ کرنگا نور میں واقع ہوئیں۔ ٹیکسلا میں محل بنانے کی حکایت لے کر کہا گیا کہ یہ باتیں مائلاپور میں واقع ہوئیں، حالانکہ دونوں مقامات میں قریبا ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ ہے۔علیٰ ہذا القیاس جنوبی ہند کے تمام گیت اور مجموعے 'توما کے اعمال'کی تمام حکایت کو شمال مغربی ہندوستان سے ألف لیلۃ کے چراغ کی مدد سے جنوبی ہندوستان لا منتقل کر دیتے ہیں۔''
é جنوبی ہند میں توما کی آمد کے تعین میں خاصا اختلاف ہے۔اس کی آمد دسمبر۵۰ء ، ۵۲ء ، ۶۵ء یا ۷۲ء بتائی جاتی ہے۔
é اس روایت میں جنوبی ہندمیں لوگوں کے معروف مستعمل ناموں میں سے ایک بھی نام نہیں ملتا۔ ملکہ کا نام لاطینی (طری پطیہ)،ملکہ کی خادمہ(سن ٹیکسس)، بادشاہ کے رشتہ دار (کارٹیس، سمفورس ،مگدونیہ)یونانی اور باقی تمام ایرانی اور سامی ہیں۔ممکن ہے مصنف کا خیال ہو کہ چونکہ شاہ گونڈافاس کی ریاست میں ایرانی، سامی یونانی لوگ بستے تھے لہٰذا تمام ہندوستان میں اِنہی ناموں کے لوگ رہتے ہوں گے، لیکن یہ اسما ضعف ِروایت پر دلالت کرتے ہیں۔نیزتادمِ تحریر تاریخ اور آ ثارِ قدیمہ ہر دو میں بادشاہ 'مزدئے' مجہول الاسم ہے ۔
é یہ روایت ایک اور پہلو سے بھی مشکوک ہے کہ بادشاہ مزدئے اپنے بیٹے کی شفا کی خاطر مبارک ہڈیاں لینے گیا تو اُنہیں قبر میں نہ پایا ۔ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آیا عہد ِمذکور میں ہندوستان میں قبور سے ہڈیاں لینے کا رواج بھی تھا، کیونکہ ہندو مذہب میں تو مردوں کو جلانے کا رواج تھا۔ ایک ہندو راجہ کیسے ہڈیوں کو لینے آن پہنچا جب ان کے ہاں ہڈیوں سے شفا کا تصور ہی نہ تھااور دوسری طرف مسیحی عموماً مردوں کی ہڈیوں سے برکت یاشفا حاصل کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقام سے سالہا سال بعد مقدس ہڈیاں اڑیسہ منتقل کی گئیں تھیں ۔
é توما کی موت کے متعلق بھی متضاد آرا ہیں۔ ایک رائے کہ وہ راجہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور دوسری یہ کہ مالا بار کے کالی دیوی کے مندر کے پاس پروہتوں کے اصرار کے باوجود توما نے کالی دیوی کو دیوتا ماننے اور چڑھاوا چڑھانے سے انکار دیاجس کے نتیجہ میں مندر کے پجاریوں نے توما کو مار ڈالا۔ تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ توما جنگل میں مور کا شکار کرتے شکاریوں کے تیر سے مرا ۔
é خود مسیحی مؤرخین ہی توما کے مقتول ہونے کی نفی کرتے ہیں:
''ہیرکلون ایک قدیم مصنف کا قول کلیمنٹ(۲۰۰ئ)نے نقل کیا ہے لکھتا ہے کہ تھامس(توما رسول)شہید ہوا ہی نہیں۔''
é اس سے قطع نظر توما رسول کے برازیل (لاطینی امریکہ) جانے کا دعویٰ بھی پایا جاتا ہے ۔
é ولیم جی ینگ کے بقول:
" یوسی بس (Eusebius)مؤرخ نے قریباً ۳۲۵ء میں لکھا کہ توما رسول کو مسیح نے پارتھیہ بھیجا۔ ہو سکتا ہے کہ یوسی بس نے اورغین سے اقتباس لیا ہو،اور یہ شہادت قریباً ۲۲۵ء کی ہو۔''
چونکہ ہندوستانی کلیسا کی بنیاد توما رسول پر رکھی جاتی ہے، اس لیے ان کی آمدِہند کی روایت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ناکافی تاریخی معلومات اور شواہد کی بنا پر توما کو ہندوستانی کلیسا کا بانی ثابت کرنا مشکل امر ہے۔ چنانچہ اسٹیفن نیل اس 'بھاری پتھر'کو یہ کہہ کر رکھ دیتا ہے کہ
"There is really no evidence in favour of the foundation of Indian Christianity by Thomas expect the persistent strength of the tradition .unless further archaeological evidence confirms the tradition , the critical historian must leave the matter with the simple We Do Not Know"
اس سب کے برعکس دوسری صدی عیسوی میں توما نامی ایک شخص کامبہم تذکرہ ملتا ہے جو اس وقت مروّجہ غالب مسیحی عقائد کی بجائے 'بدعتی عقائد'کا حامل تھا اور اس نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ سترھویں صدی کے معروف مستشرق ڈاکٹر برنل کے مطابق یہی وہ توما تھا جو سب سے پہلے ہندوستان میں مسیحی عقائد لے کر آیاتھا ، نہ کہ پہلی صدی کا توما رسول:
"This must be the Thomas who first brought Christianity to India"
ان معروضات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ کلیسا ہند کی بنیادنہ تو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں پڑی، نہ ہی ان کے شاگردوں کے ۔بلکہ دوسری صدی میں کسی توما نامی مجہول الحال آدمی کی ہندوستان آمد پر کلیسا کی بنیاد ہے۔
حوالہ جات
a ''گو ہندوستان میں مسیحی تاریخ کی ابتدا کا سراغ لگانا کچھ آسان نہیں، تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان میں مسیحی تاریخ بہت پرانی ہے''۔ ولیم بارکلے ، یسوع کے حواری (مترجم: فادر رفیق مائیکل)(کٹیک ٹیکل سنٹر ۱۰۴ ، موہن ٹیرس ، بار اسٹریٹ ، صدر کراچی،۱۹۸۴ئ، ص۶۳)
b Encyclopedia Britannica, (London 1970),Vol.22, p.228
c اس عدالتی حکم کی تفصیلات اناجیل میں مرقوم نہیں۔میں قدیم رومی سلطنت کے علاقہ اقیلا (Aqulia)، جو موجودہ نیپلز(اٹلی)کا حصہ ہے ، میں کھدائی کرتے ہوئے فرانسیسی ماہرین کو ایک لوح ملی جس پر قدیم عبرانی زبان میں کلمات کندہ تھے۔ماہرین نے اسے حضرت عیسیٰ کی موت کا عدالتی پروانہ گردانا ہے جس کے مضمون کے مطابق 'پنطس پیلاطوس'حاکم گلیل زیریں یہ حکم جاری کرتا ہے کہ ناصرت کے یسوع کو اپنی موت تک صلیب پرلٹکنا ہو گا...اِس نے غلط نبوت کرتے ہوئے خود کو خدا کا بیٹا کہا ہے۔'' "(The Crucifixion by An Eye Witness, ( Indo American Book Company, Chicago1911, p10)
d لوقا(۶۶:۲۲)، متی(۳۲:۴۷،۴۶)،مرقس(۱۵:۱۶ تا۲۶) ، لوقا(۲۶:۲۳ تا۳۸)، یوحنا(۱۹:۱تا۲۴)، متی(۴۶:۲۷)، مرقس(۱۵:۳۴)،لوقا(۲۳:۴۳ تا ۵۱،۴۶:۱ تا ۶)، اعمال(۱ تا۴) ایک نظم میں یہ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے۔تڑکے وہ باندھے گئے ، علیٰ الصباح ان کو گالیاں دی گئیں، صبح ۹بجے ان پر موت کا فتویٰ ہوا ۔۱۲ بجے ان کو کیلوں سے صلیب پر جکڑا ،۱۲ بجے ان کی مبارک پسلی چھیدی گئی۔ شام کے وقت اُن کو صلیب سے اتارا اور رات کو وہ قبر میں مدفون ہوئے۔(جے علی بخش، پادری،تفسیر قرآن (مرکنٹائل پریس، لاہور۱۹۳۵ئ، ص۲۱)
e تفسیر ابن کثیر:۷؍۲۳۶
f ان روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوجمعہ کے دن صلیب پر لٹکایا گیا ۔اگلے دن ہفتہ تھا اور یہودی عقائد کے مطابق سبت (ہفتے)کو پھانسی نہیں دی جا سکتی ، چنانچہ آپ کو رات سے قبل اُتار لیا گیا ۔ اس وقت آپ حقیقت میں زندہ تھے۔ آپ کے شاگردوں نے آپ کے زخموں پر ایک مرہم،جو آج بھی'مرہم عیسیٰ'کے نام سے مشہور اور متداول ہے، لگائی تو آپ بالکل ٹھیک ہو گئے۔ مرزاغلام احمد قادیانی(۱۸۳۵ء تا۱۹۰۸ئ)نے اس کے اجزا و ترکیب تک درج کرتے ہوئے اس مجوزہ مرہم کو الہامی قرار دیا۔ (مسیح ہندوستان میں از غلام احمد،ص۵۷ ،مطبع انوارِ احمدیہ مشن پریس ، قادیان۱۹۰۸ئ)
g Holger Kersten, Jesus Lived in India, Element Book Ltd. Shaftsbury,England 1983. p.150
h تاریخ کشمیر ازمحی الدین ، مطبوعہ امرتسر، میں یوزآسف کے بارے بحث کرتے ہوئے اس کی سات ممکنہ حیثیتیںبیان کی گئی ہیں:۱۔یوزآسف ایک پیغمبر تھے۔۲۔ ایک شہزادے تھے۔۳۔ احفادِ موسی میں سے تھے۔۴۔ امام باقر کی نسل میں سے تھے۔ ۵۔ مصر سے آمدہ ایک سفیر کا نام تھا۔۶۔ حضرت عیسیٰ کے خلیفہ تھے۔۷ ۔ بعینہٖ حضرت عیسی روح اللہ تھے۔ (بحوالہ' مسیح کی ہندی انجیل'، ص۲۵ از پیام شاہجہان پوری ،ادارہ تاریخ و تحقیق ، لاہور۱۹۹۴ئ،)
i مسیح ہندوستان ، ص۱۴
j ایضاً
k کشمیری زبان میں روضہ بل کا مطلب ہے : 'پیغمبر کا روضہ '
l کشمیر میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی نہیں بلکہ مختلف دعوؤں میں بانڈی پورہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ، ارہان میں حضرت ہارون اور تخت ِسلیمان کے علاقہ میں حضرت سلیمان علیہم السلام کی مزعومہ قبور کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے۔
m Holger Kersten , Jesus Lived in India, p.14
n Ibid, p.15
o اس کتاب کے مقدمہ میں مرزا صاحب نے اپنی مجوزہ تحقیق کی تفصیلات سمیت محتویات کو دس اَبواب میں شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔(مقدمہ مسیح ہندوستان میں،ص۱۸)جبکہ مطبوعہ کتاب صرف چار اَبواب پر مشتمل ہے، اس پر سن تالیف ۱۸۹۹ء درج ہے ۔ مرزا صاحب کی وفات سے آٹھ سال قبل کی محررہ یہ تحقیق کسی اشاعت میں بھی ان کے دعویٰ کے مطابق دس ابواب میں شائع نہیں ہوئی۔
p Michel Desmaquet, Jheaoouba Prophecy,Tohuma Shorten, Japan
q جاپانی زبان میں محررہ یہ دستاویز اس وقت کی حکومت نے ممنوع قرار دے کر ٹوکیو میوزیم میں مقفل کر دی تھی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی بمباری کی نذر ہو گئی۔ تاہم Takeuchiخاندان نے حکومتی تحویل سے قبل اس کی نقل تیار کر لی تھی جو حضرت عیسیٰ سے منسوب قبر کے ساتھ چھوٹے سے میوزیم میں موجود ہے۔
r یہ ساری معلومات www.Jheaoouba.com/tomb.htmlسے لی گئی ہیں ۔
s اب اس جگہ پر پی ٹی وی ٹاور ہے۔ راقم نے وہاں ٹاور کے گرد خاردار تاروں کے متصل باہر زمین پرتقریباً ایک فٹ اونچی پتھر وں کی گول منڈیر پائی جس کی شمالی سمت میں تقریباً تین فٹ اونچی لوحِ مزار جیسی دیوار ہے۔دیوار اور اس منڈیر کے درمیان خار دار تار حائل ہے، اسے کسی طور بھی قبر نہیں کہا جاسکتا ہے۔
t www.jesus-kashmir-tomb.com
u www.jesus-kashmir-tomb.com
v مقدس توما ازوالڈ ،ایس این ، ص ۱۶۷ ،عباسی لیتھو آرٹ پریس ، کراچی۱۹۷۷ء
w اس روایت کا دارومدار یونانی نژاد مسیحی مبشر پینٹ ینس(۱۲۰ئ)کی ہندوستان یاترا پر موقوف ہے جس کے مطابق وہ جن لوگوں کے پاس آیا تھا، وہ برتلمائی رسول کے پیروکار تھے۔اس نے ان لوگوں سے مذکورہ نسخہ حاصل کیا اوراپنے ساتھ واپس (اسکندریہ)لے گیا۔(صلیب کے ہراول ازبرکت اللہ پادری، دلی پرنٹنگ ورکس،دہلی۱۹۴۹ئ،طبع اوّل:ص۱۸)لیکن اسکے برعکس مولانا رحمت اللہ کیرانوی (م۱۸۹۱ئ) رقم طراز ہیں:''یوسی بیس کہتا ہے کہ پین ٹی نس جب انڈیا (حبش)میں آیا اوراس نے وہاں ایک نسخہ عبری متی کے انجیل کا پایا جو وہاں کے لوگوں کو برتلماحواری سے پہنچا تھا اور اس وقت سے ان کے پاس محفوظ تھااور جیروم پین ٹی نس اس نسخہ کو وہاں سے اسکندریہ میں لایا۔''ازال الشکوک ازمولانا رحمت اللہ کیرانوی ، انگپانایک اسٹریٹ نمبر ۱۵۶، مدراس ۱۲۸۸ھ ، ج۲ ؍، ص۱۲۹)
x صلیب کے ہراول ازبرکت اللہ ، ص۲۲
y ابن خلدون ، تاریخ خلدون،(القاہرہ ۱۳۲۹ھ)، ج۲؍ ص۵۰؛ پال، سلطان محمدپادری، عربستان میں مسیحیت (پنجاب ریلجیس بک سوسائٹی،لاہور ، بار اوّل۱۹۴۵ئ) ص ۱۴
z توام یعنی جڑواں کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی ایک جڑواں بہن تھی جس کا نام لوسیاہ تھا۔ [ توما ہند و پاک میں ازیوسف مسیح یاد، ص۲۰ ،پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈز، پشاور،۱۹۹۶]کچھ علما کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کے بھائی یہودا تھے جن کا ذکرانجیل میں ہے ۔ (مرقس ۶:۳، متی :۱۲:۵۵)
م انجیل توما ، اعمال توما ، انجیل طفولیت ِمسیح ، مشاہداتِ توما ، کتاب خانہ بدوشی توما ( ازال الشکوک:۲ ؍۲۳۰)
ن بشپ ولیم جی ینگ اپنی کتاب 'رسولوں کے نقش قدم پر'میں رقم طراز ہیں:''یہ ایک بدعتی اور جعلی قصہ ہے جو کہ اڈیسہ میں ۱۸۰اور۲۳۰ء کے درمیان تحریر ہوا ۔ اس کا مصنف ایک ناستک معلوم ہوتا ہے ۔اس میں بہت سی لغو اوربے بنیاد کہانیاں ہیں جو موجودہ شکل میں قابل اعتبار نہیں۔''[رسولوں کے نقش قدم پر ، ص۳۹،مسیحی اشاعت خانہ ، لاہور۱۹۹۸ء بار ششم]پادری برکت اللہ نے اس کے بارے تفصیلی بحث کی ہے اور بہت سے لوگوں کی آرا و نقد و تبصرہ نقل کیا ہے۔ ان کے بقول:''توما کے اعمال' کے مصنف نے چند تاریخی ناموں اور معتبر روایتوں کو لے کر ایک فسانہ گھڑا ہے جس کے ذریعے وہ ایسے ناستک اور بدعتی خیالات کا پرچار کرنا چاہتا ہے ... اس کتاب کے مصنف کو نہ تاریخ سے دلچسپی ہے اور نہ جغرافیہ سے دل بستگی، بس اس کو ایک ہی دھن ہے کہ وہ ناستک خیالات کی مقدس توما کی زبان سے تبلیغ کروائے... وہ بسا اوقات ایسی فاش غلطیاں کرتا ہے جو مبتدیوں سے بھی چھپی نہیںرہ سکتیں ... یہ کتاب ایک ناول ہے جس میں صرف چند نام تاریخی اور دو ایک واقعات قابل اعتبار ہیں اور بس اس لحاظ سے وہ الف لیلہ کے قصوں کی مانند ہے جس میں خلیفہ ہارون الرشید ، جعفر برمکی وغیرہ چند نام اور بغداد و موصل وغیرہ چند مقام تاریخی ہیں باقی کتاب محض افسانہ ہے۔اس کے مصنف نے عجیب خوش اعتقادیاں پیدا کر دی ہیں ...'توماکے اعمال'کی کتاب میں اور انجیلی مجموعہ کے 'رسولوں کے اعمال'کی کتاب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔'توما کے اعمال'اس مصنف کے باطل خیالات اور اس کی قوتِ متخیلہ کی مرہون منت ہے... پس لازم ہے کہ ہم اس کو ان معیاروں کی کسوٹی پر پرکھیں جو علم التاریخ نے سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لیے مقرر کر رکھے ہیں ۔ بالخصوص جب ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب'مقدس توما کے اعمال' غلط ناستک تعلیم اور خارقِ عادت فضول قصوں سے بھری پڑی ہے تو گمان اور بھی غالب ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب از سر تا پا ایک افسانہ ہے جس میں صداقت کی جھلک بھی نہیں پائی جاتی۔ پچاس سال ہوئے مغرب کے علما اور مؤرخین اس نتیجہ پر متفق تھے کہ تاریخی لحاظ سے اس کتاب کی قیمت صفر سے بھی کم ہے۔'' [مقدس توما رسولِ ہند، ص۲۶ تا۳۶ ،پنجاب ریلیجیئس بک سوسائٹی ، لاہور)
ه مقدس توما، ص۵۶ ، توما ہندو پاک میں، ص۷۰، اس رسید کی محتویات اور طرزِ تحریر دوسری صدی کی تحریروں سے میل نہیں کھاتے۔
‚ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو : برکت اللہ ، مقدس توما رسولِ ہند ؛ ایس این والڈ ، مقدس توما
ƒ توما رسولِ ہند ، ص ۸۱،۸۲
„ ایضاً ، ص۸۷
... ایضاً
† Thomas P.Christians and Christianity in India and Pakistan, (London 1954), p. 17
‡ قدیم تاریخ ہندازسمتھ،ونسٹ اے[مترجم:محمد جمیل الرحمن]ص ۳۶۸،دارالطبع جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد دکن۱۹۲۲ئ)
ˆ American Ethnologist ,(From Tupa to the Land without evil: The Christianization of Tupi Guarani Cormology,(Vol. 14, No.1, p.127-128, 1987)
‰ رسولوں کے نقش قدم پر ، ص۳۸
ٹ Keay ,F.E., History of Syrian Church in India, SPCK, Madrass 1938), p16