ڈاکٹرطاہر القادری اور موضوع روایات کی ترویج
یہ بات بالکل سچ اور حق ہے کہ رسول اللہ1نے فرمایا:
0لا تکذبوا عليّ فإنه من کذَب عليّ فلیلِج النار9
''مجھ پر جھوٹ نہ بولو،کیونکہ بیشک جس نے مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گا۔ ''( صحیح بخاری ، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبي ﷺ ح ۱۰۶، صحیح مسلم : ۱)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ1 نے فرمایا:
0 من حدّث عني بحدیث یرٰی أنه کذب فھو أحد الکاذبین 9
''جس نے مجھ سے ایسی حدیث بیان کی جس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو ، تو وہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ( یعنی جھوٹا) ہے۔ '' ( صحیح مسلم قبل ح ۱، ترقیم دارالسلام : ۱)
ان احادیث اور دیگر دلائل کو مدنظر رکھ کر علماے کرام نے فرمایا کہ موضوع (یعنی جھوٹی، من گھڑت )روایت کا بیان کرنا حلال نہیں ہے۔ حافظ ابن الصلاح نے فرمایا :
''اعلم أن الحدیث الموضوع شر الأحادیث الضعیفة ولا تحل روایته لأحد عَلِم حاله في أي معنی کان إلا مقرونًا بِبَیان وضعه '' ( مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح ص ۱۳۰، ۱۳۱، دوسرا نسخہ ص ۲۰۱)
''جان لو کہ بے شک موضوع حدیث ضعیف اَحادیث میں سب سے بری ہوتی ہے اور حال معلوم ہونے کے بعد کسی شخص کے لئے اس کی روایت حلال نہیں ہے، چاہے جس معنی میں (بھی ) ہو ، سوائے اس کے کہ اُس کے موضوع ہونے کا ذکر ساتھ بیان کر دیا جائے۔''
مگر افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اَحادیث نبویہ اور آثارِ صحیحہ کے باوجود جھوٹی اور بے اصل روایتیں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور آخرت کی پکڑ سے ذرّہ بھر بھی نہیں ڈرتے۔
ایک طویل حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم1 نے خواب میں دیکھا: ایک شخص کی باچھیں چیری جا رہی ہیں۔ ( دیکھئے صحیح بخاری : ۱۳۸۶) یہ عذاب اس لئے ہو رہا تھا کہ وہ شخص جھوٹ بولتا تھا، لہٰذا آپ غور کریں کہ رسول اللہ 1 پر جھوٹ بولنے یا جھوٹ پھیلانے والے کو کتنا بڑا عذاب ہو گا!؟
رسول1نے فرمایا: 0وإیاکم والکذب9(صحیح مسلم: ۲۶۰۷، ترقیم دارالسلام : ۶۶۳۹)
''اور(تم سب ) جھوٹ سے بچ جائو۔ ''
حافظ ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی(متوفی ۴۵۶ھ)نے لکھا ہے:
''وأما الوضع في الحدیث فباقٍ ما دام إبلیس وأتباعه في الأرض ''
''اور اس وقت تک وضع ِ حدیث ( کا فتنہ ) باقی رہے گا، جب تک ابلیس اور اُس کے پیروکار رُوئے زمین پر موجود ہیں۔ '' ( المحلی:۹؍ ۱۳ مسئلہ : ۱۵۱۴)
معلوم ہوا کہ شیطان اور اُس کے چیلوں کی وجہ سے جھوٹی روایات گھڑنے اور ان کے پھیلانے کا فتنہ قیامت تک باقی رہے گا، لہٰذا ہر انسان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور اپنی خیر منانی چاہئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹھکانا جہنم مقرر کر دیا گیا ہو اور بندہ اپنے آپ کو بڑا نیک ، جنتی ، مبلغ اور عظیم سکالر سمجھتا رہے!
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ جھوٹی روایات پھیلانے اور غلط بیانیاں لکھنے میں پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری٭ بھی کسی سے پیچھے نہیںہیں، جس کی فی الحال دس (۱۰) مثالیں مع ثبوتِ وضع پیشِ خدمت ہیں:
A سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ1کے پاس سفید ٹوپی تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے ، وہ آپ کے سر اَقدس پر جمی رہتی تھی۔
( المنہاج السوي ص ۷۷۰ ح ۹۸۵ بحوالہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۴؍ ۱۹۳ [ دوسرا نسخہ ۴؍ ۳۳۳] کنز العمّال ۷؍۱۲۱ ح ۱۸۲۸۵)
اس روایت کوطاہر القادری صاحب نے بطورِ حجت اپنی کتاب میں پیش کیا ہے، حالانکہ اسکی سند میں عاصم بن سلیمان کوزی راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن عدی نے فرمایا:
'' یعدّ فیمن یضع الحدیث '' ( الکامل لابن عدي ۵؍ ۱۸۷۷، دوسرا نسخہ ۶؍ ۴۱۲)
''اُس کا شمار اُن لوگوں میں ہے جو حدیث گھڑتے تھے۔''
امام دارقطنی نے فرمایا:''بصري کذاب عن ہشام وغیرہ''
''ہشام ( بن عروہ ) وغیرہ سے روایت کرنے والا بصری جھوٹا ہے۔''(الضعفاء والمتروکین: ۴۱۲)
B کئی مجہول راویوں کی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی1 نے فرمایا:
''إذا کان یوم القیامة نادٰی منادٍ یا محمد! قُم فادخل الجنة بغیر حساب، فیقوم کل من اسمه محمّد فیتوھم أن النداء له فلکرامة محمد لایُمنعون'' (اللآلی المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي :۱؍ ۱۰۵)
''جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی پکارے گا:اے محمد! اُٹھ کر جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائو، تو ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہو گا یہ سمجھتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہو گا کہ یہ نداء اُس کے لئے ہے، پس محمد1 کی کرامت ( بزرگی ) کے سبب انھیں منع نہیں کیا جائے گا۔ ''
یہ روایت بیان کر کے جلال الدین سیوطی نے فرمایا:
'' ھذا معضل،سقط منه عدة رجال، واﷲ أعلم '' ( ایضاً: ص ۱۰۵، ۱۰۶)
''یہ معضل ( یعنی شدید منقطع) ہے، اس سے کئی راوی گر گئے ہیں۔ واللہ اعلم ''
محدثین کی اصطلاح میں ' معضل' اُس روایت کو کہتے ہیں جس کے '' درمیان سند سے دو متوالی راویوں کو چھوڑ دیا جائے۔'' ( دیکھئے تذکرۃ المحدثین از غلام رسول سعیدی، ص ۳۴)
متوالی کا مطلب ہے: اوپر نیچے، پے در پے ، لگاتار۔
سیوطی کی بیان کردہ اس موضوع اور معضل روایت کو علی بن برہان الدین حلبی شافعی (متوفی۱۰۴۴ھ)نے اپنی کتاب 'انسان العیون' یعنی السیرۃ الحلبیۃ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے:
''وفي حدیثٍ معضلٍ: إذا کان یوم القیامة ۔ ۔ ۔ '' (۱؍ ۸۳، دوسرا نسخہ :۱؍ ۱۳۵)
اس روایت کو طاہر القادری صاحب نے اپنی علمیت کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:'' مُعضل سے مروی حدیث ِمبارکہ میں ہے: إذا کان یوم القیامۃ ۔۔۔ '' ( تبرک کی شرعی حیثیت، ص ۵۸، اشاعت سوم، ستمبر ۲۰۰۸ئ)
گویا کہ طاہر القادری صاحب کے نزدیک معضل نامی کوئی راوی تھا ، جس سے یہ موضوع حدیث مروی ہے۔ سبحان اللہ !!
اُصولِ حدیث کی اِصطلاح معضل( یعنی منقطع) کو راوی بنا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی طاہر القادری صاحب بہت بڑے ' ڈاکٹر ' اور ' پروفیسر' ہیں۔ سبحان اللہ !
C ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم !(اے نبی کریم1) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر (یعنی محمد ) ہو گا۔ (إنسان العیون یعنی السیرۃ الحلبیۃ:۱؍ ۸۳، دوسرا نسخہ :۱؍ ۱۳۵)
اس روایت کو طاہر القادری صاحب نے روایت نمبر ۱ قرار دے کر بحوالہ انسان العیون بطورِ حجت پیش کیا ہے، حالانکہ انسان العیون (السیرۃ الحلبیۃ) نامی کتاب میں اس کی کوئی سند یا حوالہ موجود نہیں ہے۔
علامہ عجلونی حنفی اور ملا علی قاری نے بتایا کہ اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ (دیکھئے: کشف الخفاء ومُزیل الإلباس:۱؍۳۹۰ح ۱۲۴۵،الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ : ص ۲۰۱ رقم ۱۹۲)
ابو نعیم والی روایت کی سند سیوطی کی کتاب ذیل اللآلي المصنوعۃ(ص ۲۰۱) میں موجود ہے اور ابو نعیم کی سند سے ہی اسے مسند الفردوس میں نقل کیا گیا ہے۔ دیکھئے مسند الفردوس اور اس کا حاشیہ (۳؍ ۲۲۰ ح ۴۴۹۱ وقال في الأصل:نبیط بن شریط)
اس کے راوی احمد بن اسحق بن ابراہیم بن نبیط بن شریط کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا :''لا یحل الاحتجاج به فإنه کذاب'' ''اس سے حجت پکڑنا حلال نہیں،کیونکہ وہ کذاب ( جھوٹا )ہے۔ '' (میزان الاعتدال:۱؍ ۸۳ ت ۲۹۶، لسان المیزان: ۱؍ ۱۳۶)
کذاب کے موضوع نسخے سے روایت کو ' مشہور حدیث ِمبارکہ' کہہ کر بطورِ حجت نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیان کرنیوالاڈاکٹر طاہر القادری ترویج اکاذیب میں مصروف ہے۔
D ایک روایت میں آیا ہے کہ آدمؑ نے (سیدنا) محمد رسول اللہ1 کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ طاہر القادری صاحب نے اس روایت کو بحوالہ المستدرک للحاکم ( ۲؍ ۶۱۵) نقل کر کے لکھا ہے:
'' اس حدیث پاک کو جن اجل علماء اور ائمہ و حفاظ حدیث نے اپنی کتب میں نقل کر کے صحیح قرار دیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:
a البیہقي في الدلائل، ۵:۴۸۹ b ابو نعیم فی الحلیۃ ، ۹: ۵۳
c التاریخ الکبیر ، ۷: ۳۷۴ d المعجم الصغیر للطبراني، ۲: ۸۲
e الہیثمي في مجمع الزوائد، ۸: ۱۵۳ f ابن عدي في الکامل ، ۴: ۱۵۸۵
g الدر المنثور، ۱: ۶۰ h الآجري في الشریعۃ ۴۴۲۔ ۴۲۵
i فتاوٰی ابن تیمیہ ، ۲: ۱۵۰ ''
( عقیدئہ توحید اور حقیقت ِشرک، ص ۲۶۶، اشاعت ہفتم ،جون ۲۰۰۵ئ)
اس عبارت میں طاہر القادری صاحب نے نو(۹) مذکورہ کتابوں اور علماء کے بارے میں نو (۹) عدد غلط بیانیاں کی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
a امام بیہقی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا، بلکہ فرمایا:
''تفرّد به عبدالرحمٰن بن زید ابن أسلم من ھذا الوجه عنه وھو ضعیف (واﷲ أعلم)''
( دلائل النبوۃ :۵؍ ۴۸۹ ،طبع دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان )
''اس سند کے ساتھ عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہوا، اور وہ ضعیف ہے۔ ''( واللہ اعلم )
امام بیہقی نے توراوی کو ضعیف قرار دیا ہے اور قادری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ سبحان اللہ!
b حافظ ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب حلیۃ الأولیاء ( ۹؍ ۵۳) میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ اسے ابو نعیم کا صحیح قرار دینا ثابت ہے۔
c التاریخ الکبیرسے مراد اگر امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیرہے تو یہ روایت وہاں نہیں ملی اور نہ امام بخاری سے اسے صحیح قرار دینا ثابت ہے۔اگر التاریخ الکبیرسے مراد کوئی دوسری کتاب ہے تو اس کی صراحت کیوں نہیں کی گئی بلکہ یہ تو صریح تدلیس ہے۔
d المعجم الصغیر للطبراني (۲؍ ۸۲، ۸۳ ح ۱۰۰۵، بترقیمی) میں یہ روایت موجود ہے لیکن امام طبرانی نے اسے صحیح قرار نہیں دیابلکہ فرمایا:یہ (سیدنا) عمرؓسے صرف اسی اسناد (سند ) کے ساتھ مروی ہے، احمد بن سعید نے اس کے ساتھ تفرد کیا ہے۔
e حافظ ہیثمی نے اس روایت کو صحیح قرار نہیں دیا، بلکہ لکھا ہے:
''رواہ الطبراني في الأوسط والصغیر وفیه من لم أعرفھم ''
'' اسے طبرانی نے الأوسط اورالصغیرمیں روایت کیا اور اس میں ایسے راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا ۔'' ( مجمع الزوائد: ۸؍ ۲۵۳)
f ابن عدی کی کتاب الکاملکے محولہ صفحے بلکہ ساری کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔
g درّمنثور(۱؍ ۵۸، دوسرا نسخہ ۱؍ ۱۳۱)میں یہ روایت بحوالہ المعجم الصغیر للطبراني، حاکم،الدلائل لأبي نعیم، الدلائل للبیہقي اور ابن عساکر موجود ہے، لیکن اسے صحیح قرار نہیں دیا گیا۔
h الآجري نے اسے صحیح قرار نہیں دیا۔ (الشریعہ: ص ۴۲۷، ۴۲۸ ح ۹۵۶، دوسرا نسخہ :۳؍ ۱۴۱۵)
i حافظ ابن تیمیہ ؒ نے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم في دلائل النبوۃ نقل توکیا ہے مگر صحیح قرار نہیں دیا،بلکہ عرش کے بارے میں صحیح اَحادیث کی تفسیر کے طور پر نقل کیا۔ (دیکھئے: مجموع فتاویٰ : ۲؍ ۱۵۰، ۱۵۱)بلکہ ابن تیمیہؒ نے بذاتِ خود اس روایت پر جرح کی ، فرمایا:
''اس حدیث کی روایت پر حاکم پر انکار کیا گیا ہے،کیونکہ اُنہوں نے خود (اپنی)کتاب المدخل میں کہا: عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کیں۔۔۔( قاعدة جلیلة في التوسل والوسیلة ص ۸۵، مجموع فتاویٰ ج۱ص ۲۵۴۔ ۲۵۵)
فائدہ: مجھے عبدالاول بن حماد بن محمد انصاری مدنی نے خبر دی کہ میں نے اپنے والد (شیخ حماد الانصاری رحمہ اللہ)کو فرماتے ہوئے سنا:
''إن الاعتماد علی الفتاوٰی التي في خمسة ثلاثین مجلدًا لا ینبغي وتحتاج إلی إعادة النظر وقد وجدّتُ فیھا تصحیفًا وتحریفًا ''
''بے شک پینتیس (۳۵) جلدوں والے فتاویٰ پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور ( اس میں)نظر ثانی کی ضرورت ہے،میں نے اس میں تصحیف اور تحریف پائی ہے۔''
( نیز دیکھئے المجموع في ترجمۃ حماد الانصاري :۲؍ ۷۲۳ فقرہ نمبر ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ فتاویٰ ابن تیمیہ مطبوعہ پر اندھا دھند اعتماد صحیح نہیں بلکہ اس کی عبارات کو حافظ ابن تیمیہ ؒکی دوسری عبارات پر پیش کرنا چاہئے۔
قادری صاحب کی نو( ۹) غلط بیانیوں کے تذکرے کے بعد عرض ہے کہ مستدرک الحاکم وغیرہ کی روایتِ مذکورہ موضوع ہے۔ اسے حافظ ذہبی نے موضوع کہا اور باطل خبر قرار دیا۔ حافظ ابن حجر نے 'خبرًا باطلا' والی جرح نقل کر کے کوئی تردید نہیں کی یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان :۳؍ ۳۶۰، دوسرا نسخہ :۴؍ ۱۶۲)
اگر کوئی کہے کہ حاکم نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصحیح کئی وجہ سے غلط ہے۔مثلاً:
a خود حاکم نے اس روایت کے ایک راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرمایا: ''روٰی عن أبیه أحادیث موضوعة۔ ۔ ۔'' ( المدخل إلی الصحیح ص ۱۵۴ت ۹۷)
''اُس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیاں کیں ۔''
گویا وہ اپنی شدید جرح بھول گئے تھے۔
b حاکم کی یہ جرح جمہور علماء مثلاً حافظ ذہبی وغیرہ کی جرح سے معارض ہے۔
ٌc حاکم اپنی کتاب المستدرک میں متساہل تھے۔
d اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ اس کا عبداللہ بن مسلم بن رشید ہونا میرے نزدیک بعید نہیں ہے۔ ( لسان المیزان ۳؍ ۳۶۰)
اس ابن رشید کے بارے میں حافظ ابن حبان نے فرمایا:'یضع'وہ ( حدیثیں) گھڑتا تھا۔
( المجروحین:۲؍ ۴۴، لسان المیزان:۳؍ ۳۵۹)
E ایک روایت میں آیا ہے کہ '' کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیںہو گی۔'' (موضح أوھام الجمع والتفریق للخطیب:۱؍ ۴۲۹،دوسرا نسخہ ۱؍ ۴۴۶ ذکر أحمد بن حفص الجزري )
یہ روایت نقل کر کے طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ
'' حلبی نے إنسان العیون (۱:۱۳۵) میں کہا ہے کہ حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔ '' ( تبرک کی شرعی حیثیت ،ص ۶۰ حاشیہ ۲)
عرض ہے کہ نہ تو حلبی نے انسان العیون ( ۱؍ ۱۳۵، دوسرا نسخہ ۱؍ ۸۳) میں یہ بات کہی ہے اور نہ حفاظِ حدیث نے اس کی صحت کا اقرار کیا ہے بلکہ حلبی نے روی کہہ کر اس روایت کو بغیر سند اوربغیر حوالے کے ذکر کیاہے جبکہ حافظ ذہبی نے اس روایت کے راوی احمد بن کنانہ شامی پر ابن عدی کی جرح نقل کی، اور یہ حدیث مع دیگر اَحادیث نقل کر کے فرمایا:
''قلت:وھٰذہ أحادیث مکذوبة'' ''میں نے کہا: اور یہ حدیثیں جھوٹی ہیں۔ '' ( میزان الاعتدال :۱؍ ۱۲۹ ت ۵۲۲)
حافظ ابن حجر نے اس جرح کو نقل کر کے برقرار رکھا اور کوئی تردید نہیں کی۔ (دیکھئے :لسان المیزان :۱؍ ۲۵۰، دوسرا نسخہ :۱؍ ۳۷۷)
حفاظِ حدیث نے تو اس روایت کو مکذوب(جھوٹی) قرار دیا ہے، لیکن طاہر القادری صاحب اسے صحیح باور کرانے کی فکر میں ہیں ۔
F طاہر القادری صاحب نے امام ابو حنیفہ سے ایک روایت نقل کی :
'' میں نے حضرت انس بن مالکؒسے سنا، اُنھوںنے حضور نبی اکرم 1 کو فرماتے ہوئے سنا:طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَة عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ
''علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔ '' ( امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث :۱؍ ۷۸۷، ۷۸۶)
قادری صاحب نے اس کے لئے تین حوالے دیئے:
'' aابو نعیم الاصبہانی ، مسند الامام ابی حنیفہ : ۱۷۶ ( ہمارا نسخہ ص ۲۴)
bخطیب بغدادی ، تاریخ بغداد ، ۴: ۲۰۸، ۹: ۱۱۱
c موفق ، مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ ، ۱: ۲۸ ''
اس کے بعد قادری صاحب نے دیگر محدثین کے حوالے دیئے ، جن کی روایات میں إمام أبو حنیفۃ قال:سمعت أنس بن مالک رضي اﷲ عنہ یقول:'' کا نام و نشان تک نہیں لہٰذا اُن کا یہاں ذکر صحیح نہیں ہے۔
روایت ِ مذکورہ کی تینوں سندوں میں احمد بن صلت حمانی راوی ہے، جسے امام ابن عدی، حافظ ابن حبان اور امام دارقطنی وغیرہم نے کذاب قرار دیا اور حافظ ذہبی نے فرمایا:
'' کذاب وضّاع''( میزان الاعتدال:۱؍ ۱۴۰) ''وہ جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا ہے۔الخ ''
تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ 'الحدیث' حضرو ( عدد ۷۲ ص ۱۲۔۱۳)
قادری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کذاب راوی کی منفرد روایت موضوع ہوتی ہے اور روایتِ مذکورہ کو کسی ثقہ و صدوق راوی کا امام ابو حنیفہ سے'' قال سمعت أنس ابن مالک رضي اﷲ عنہ''کی سند سے بیان کرنا کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔موٹی موٹی کتابیں لکھنے کے بجائے اگر چھوٹی سی مختصر اور صحیح احادیث والی کتاب ہو تو دنیا اور آخرت دونوں کے لئے مفید ہو سکتی ہے بشرطیکہ آدمی کا عقیدہ صحیح ہو اور کتاب سلف صالحین کے فہم و منہج پر ہو۔
تنبیہ: روایتِ مذکورہ پر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے درج ذیل جرح فرمائی ہے:
اسے بشر ( بن الولید ) سے احمدبن صلت کے سوا کسی نے روایت نہیں کیا اور یہ ابو یوسف سے محفوظ( یعنی صحیح ثابت ) نہیں ہے اور انس بن مالک ؓسے امام ابو حنیفہ کا سماع ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم (تاریخ بغداد :۴؍ ۲۰۸)
دوسرے حوالے میں اس روایت کے بارے میں خطیب بغدادی نے فرمایا:
''لا یصح لأبي حنیفة سماع من أنس بن مالك وھذا الحدیث باطل بھٰذا الإسناد ۔ ۔ ۔ '' (تاریخ بغداد ۹؍ ۱۱۱ ت ۴۷۱۹)
''انس بن مالکؓ سے ابو حنیفہ کا سماع صحیح نہیں ہے اور یہ حدیث اس سند سے باطل ہے۔۔۔ ''
تاریخ بغداد کے مذکورہ حوالے پیش کرنا اور اس جرح کو چھپانا اگر خیانت نہیں تو پھر کیا ہے؟
G طاہر القادری صاحب نے امام ابو حنیفہ سے ذکر کیا کہ '' میں نے حضرت عبداللہ بن اُنیسؓ سے سنا:اُنہوں نے حضور نبی اکرم 1سے سنا: تیری کسی چیز سے محبت تجھے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ ''
( المنہاج السوي ص ۸۰۸ ح ۱۰۴۶ بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي:۱؍ ۷۸)
عرض ہے کہ مسند الخوارزمی کی اس روایت کا دارومدار أبو علی الحسن بن علی بن محمد بن إسحق دمشقی التمار پر ہے، جس نے اسے علی بن بابویہ اسواری عن جعفر بن محمد بن علی بن الحسن عن یونس بن حبیب عن أبی داود طیالسیکی سند سے روایت کیا ہے۔ (جامع المسانید:۱؍ ۷۸۔ ۷۹)
اس الحسن بن علی کے بارے میں امام ابن عساکر نے فرمایا:
''حدّث عن علي بن بابویه الأسواري عن أبي داود الطیالسي بخبر کذب والحمل فیه علیه أو علیٰ شیخه فإنما مجھولان''
''اس نے علی بن بابویہ اسواری عن ابی داود الطیالسی کی سند سے جھوٹی روایت بیان کی جس کا ذمہ دار وہ یا اُس کااستاد ہیں کیونکہ یہ دونوں مجہول ہیں۔ ''
( لسان المیزان:۲؍ ۲۴۰، ۲۴۱ ، نیز دیکھئے :لسان المیزان :۲؍ ۲۳۶)
سیدنا عبداللہ بن اُنیسؓ چون (۵۴) ہجری میں فوت ہوئے تھے اور امام ابو حنیفہ اَسّی ( ۸۰) ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے: تقریب التہذیب (۳۲۱۶ ، ۷۱۵۳)
اپنی پیدائش سے چھبیس ( ۲۶) سال پہلے فوت ہو جانے والے صحابی سے امام ابو حنیفہ کس طرح حدیث سن سکتے تھے؟ کیا انہی ' تحقیقات ' کی بنا پر انہوں نے 'شیخ الاسلام' کا لقب اختیار کیا ہے؟!
H طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں:
'' حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوا اور میں نے اپنے والد کے ساتھ ۹۶ ہجری میں ۱۶ سال کی عمر میں حج کیا پس جب میں مسجد ِحرام میں داخل ہوا میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کس کا حلقہ ہے؟تو اُنہوںنے فرمایا: یہ عبداللہ بن جَزء زبیدی کا حلقہ ہے۔ پس میں آگے بڑھا اور ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے غموں کو کافی ہو جاتا ہے اور اسے وہاں وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔'' ( المنہاج السوي ص ۸۰۹ ح ۱۰۴۸، بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي ۱؍۸۰، تاریخ بغداد للخطیب البغدادي۳؍ ۳۲ رقم ۹۵۶)
اس روایت کی دو سندیں ہیں:
a ایک میں احمد بن صلت حمانی ہے جو کہ بہت بڑا کذاب تھا۔ (دیکھئے مضمون ہذا ،روایت نمبر ۶)
b الحسن بن علی دمشقی کذاب ہے ۔ (دیکھئے روایت نمبر ۷)
اسکے باقی کئی راوی مجہول ہیں اور سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدیؓاس جھوٹی روایت کے برعکس ۸۵، ۸۶، ۸۷ یا ۸۸ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ (دیکھئے: تقریب التہذیب: ۳۲۶۲)
I طاہر القادری صاحب نے سیدنا ابو ہریرہؓکی طرف منسوب سند سے نقل کیا کہ رسول اللہ1کے پاس ایک شامی سفید ٹوپی تھی۔
( المنہاج السوي ص ۷۶۹ ح ۹۸۳ ، بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي ۱؍ ۱۹۸)
اس روایت کا پہلا راوی ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب البخاری الحارثی کذاب ہے۔ اس کے بارے میں امام ابو احمد الحاکم الکبیر اور حاکم نیشاپوری صاحب المستدرک دونوں نے فرمایا: ''وہ حدیث بناتا تھا۔'' ( کتاب القراء ۃ للبیہقي ص ۱۵۴، دوسرا نسخہ ص ۱۷۸ ح ۳۸۸ وسندہ صحیح إلیہما)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الکشف الحثیث عمن رُمي بوضع الحدیث (ص ۲۴۸) لسان المیزان ( ۳؍ ۳۴۸۔ ۳۴۹) اور میری کتاب نُور العینین (ص ۴۳)
نیز اس روایت میں کئی راوی نامعلوم ہیں۔
J طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے:
'' اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔ ''
a حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إذا مَشٰی عَلَی الصَّخر غَاصَتْ قَدَمَاہُ فِیْه وَ أَثرت (تبرک کی شرعی حیثیت ،ص۷۶، اشاعت سوم ستمبر ۲۰۰۸ئ)
(زرقانی ، شرح المواھب اللدنیہ ،۵:۴۸۲... سیوطی ، الجامع الصغیر،۱:۲۷،رقم:۹)
'' حضور نبی اکرم1 جب پتھر وں پر چلتے تو آپ1 کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدمِ مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔''
حالانکہ یہ روایت ذکر کرنے کے بعد زرقانی (متوفی ۱۱۲۲ھ) نے لکھاتھا :
'' وأنکرہ السیوطي وقال: لم أقف له علیٰ أصل ولا سند ولا رأیت من خرجه في شيء من کتب الحدیث وکذا أنکرہ غیرُہ لکن ۔۔۔ ''
''اور سیوطی نے اس ( روایت ) پر انکار کیا اور کہا: مجھے اس کی کوئی اصل یا سند نہیں ملی اور نہ میں نے دیکھا کہ حدیث کی کتابوں میں کسی نے اسے روایت کیا ہے، اور اس طرح دوسروں نے بھی اس (روایت) کا انکار کیا لیکن ۔۔۔ '' ( المواہب اللدنیۃ :۵؍ ۴۸۲)
'لیکن' والی بات تو بے دلیل ہے اور سیوطی کی کتاب الجامع الصغیرمیں یہ روایت قطعاً موجود نہیں بلکہ عبدالرؤف المناوی نے اسے الجامع الصغیرکی شرح میں ذکر کیا اور کہا: ''ولم أقف له علیٰ أصل'' مجھے اس کی کوئی اصل نہیں ملی۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:۵؍ ۹۱ح ۶۴۷۸)
مناوی کی اس شرح کے شمائل والے حصے کو حسن بن عبید باحبشی (مجہول)نے الشمائل الشریفۃ کے نام سے دار طائر العلم سے شائع کیا اور اس کی ج۱؍ص ۹، رقم ۹ (الشاملہ) پر یہ روایت مناوی کی جرح کے ساتھ موجود ہے۔
محمد بن یوسف صالحی شامی نے کہا:
''ولا وجود لذٰلك في کتب الحدیث البتة''
( سبل الھدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ۲؍ ۷۹، مکتبہ شاملہ)
''اور اس ( روایت ) کا کتب ِ حدیث میں کوئی وجود نہیںہے۔''
خلاصہ یہ کہ اس بے سند اوربے اصل (موضوع) روایت کو طاہر القادری نے حدیثِ رسول قرار دے کر عام لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
نوٹ :حال ہی میں دھرابی(چکوال) میں ایک بریلوی نے زمین پر پانچ فٹ سے زیادہ نشان کو نبی1کے قدمِ مبارک کا نشان قرار دیا تھا، جس کی ' زیارت'کے لئے بہت سے لوگ ٹوٹ پڑے تھے مگر بعدمیں وقت ٹی وی والوں نے اس فتنے کی بروقت سرکوبی کر کے لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کر دیا کہ یہ حلوہ پکانے کیء لئے استعمال ہونے والے چولہے کا نشان ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ سب فراڈ اور دھوکہ تھا۔ è è è