چہرے کاپردہ، اَحادیث کی روشنی میں




( بعض اہم اعتراضات کے جوابات)

ان روایت کو ہم نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے بعض وہ روایت ہیں جو کہ صراحتاًازواج مطہرات اور عام مسلمان عورتوں کے لیے چہرے کے پردے پر دلالت کر رہی ہیں اور بعض وہ ہیں جو کہ اشارتاً چہرے کے پردے پر دلالت کرتی ہیں۔پہلے ہم ان روایت کو بیان کر رہے ہیں جو کہ اس مسئلے میں صریح ہیں ۔

صراحتاً دلالت والی اَحادیث

a عَنْ عَائِشَة رَضِیَ اﷲُ عَنْها قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ فَاِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَأْسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا فَاِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ (سنن ابی داود:۱۸۳۳)

''حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے'وہ فرماتی ہیں کہ(حج کے دوران) قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم اللہ کے رسول1 کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں، پس جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے اپنے چہرے پر لٹکالیتی تھیں اور جب وہ قافلے آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کو کھول دیتی تھیں۔''

اعتراض:بعض لوگوں نے اس حدیث کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کیا ہے ۔

جواب:اس حکم کو ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں،کیونکہ حضرت عائشہؓ نے حدیث میں صرف اپنا طرزِ عمل بیان نہیں کیا،بلکہ رسول اللہ1 کے ساتھ سفرِ حج کے دوران جتنی بھی خواتین ہوتی تھیں ان سب کے بارے میں بتلایا ہے کہ قافلوں کے قریب سے گزرنے پر وہ اپنے چہرے اپنی چادروں سے ڈھانپ لیتی تھیں۔ یہ حدیث عام ہے اور اس کی عمومیت کی تائید اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔

اعتراض:یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔

جواب: ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں علامہ البانی کے اقوال متناقض ہیں، علامہ نے اس حدیث کو ضعیف ابو داؤد(رقم:۱۸۳۳)میں 'ضعیف' کہا ہے جبکہ حجاب المرأۃ المسلمۃ (ص۳۲) اور مشکوۃ المصابیح (رقم:۲۶۹۰)میں اس کو'صحیح' کہا ہے اسی طرح علامہ نے جلباب المرأۃ المسلمۃ (ص۱۰۸)میں اس کو 'حسن فی الشواہد'کہا ہے اور صحیح بات یہی ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، کیونکہ ایک حدیث' سند میں کسی راوی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے فی نفسہ ضعیف ہوتی ہے، لیکن اپنے جیسی بعض ہم معنی احادیث کی تائیدکی صورت میں حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔چونکہ اس روایت کی تائید دیگر شواہد سے ہوتی ہے جیسا کہ علامہ البانیؒ نے لکھا ہے اس لیے یہ روایت حسن ہے۔

اس حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن ابی زیاد مختلف فیہ راوی ہے،جس کی وجہ سے بعض محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس راوی کا ضعیف ہونا ائمہ محدثین کے نزدیک اتفاقی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اس سے حدیث نقل کی ہے اور امام ذھبی نے اسے صدوق کہا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ علامہ البانیؒ نے اس روایت کو اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔

b اللہ کے رسول1 کا ارشاد ہے :

وَلَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَهُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَیْنِ(صحیح بخاری:۱۸۳۸)

''اورحالتِ احرام میں کوئی عورت نقاب نہ اوڑھے اور نہ ہی دستانے پہنے۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

''وھذا مما یدل علی أن النقاب والقفازین کانا معروفین في النساء اللاتي لم یحرمن وذلك یقتضي ستر وجوھھن وأیدیھن '' (مجموعة رسائل في الحجاب والسفور' جماعة من العلماء،ص ۸۰)

''یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نقاب اور دستانے پہننا ان عورتوں میں معروف تھا جو کہ حالتِ احرام میں نہ ہوتی تھیں 'اور یہ فعل اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو ڈھانپیں۔''

جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ1نے حالت احرام میں نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا۔گویا کہ جب عورتیں حالت احرام میں نہ ہوں تو اُس وقت وہ نقاب اور دستانے پہنیں گی۔

اعتراض: بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلی اور دوسری روایت آپس میں متضاد ہیں ۔پہلی روایت میں حالت احرا م میں چہرہ چھپانے کا ذکر ہے جبکہ دوسری روایت میں حالت احرام میں نقاب کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

جواب:ہم یہ کہتے ہیں کہ حالت احرام میں عورت کو نقاب کرنے سے منع کیا گیا نہ کہ چہرہ چھپانے سے اور نقاب اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کہ خاص طور پر چہرہ چھپانے کے لیے سلوایا گیا ہو۔دوسری حدیث میں عورت کو حالت احرام میں چہرہ چھپانے کے لیے سلا ہوا کپڑا استعمال کرنے سے منع کیاگیا ہے مثلا برقع وغیرہ، ہاں اگر عورت کسی ایسے کپڑے سے اپنا چہرہ حالت احرام میں چھپا لے کہ جو اس مقصد کے لیے نہ سلوایا گیا ہو تو جائز ہے چاہے یہ کپڑا اس کے چہرے سے بھی مس کر رہا ہو۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :

''ولو غطت المرأة وجھھا بشيء لا یمس الوجه جاز بالاتفاق وإن کان یمسه فالصحیح أنه یجوز أیضا ولا تکلف المرأة أن تجافي سترتھا عن الوجه لا بعود ولا بید ولا غیر ذلك فإن النبي ﷺ سوی بین وجھھا ویدیھا وکلاھما کبدن الرجل لا کرأسه و وأزواجه کن یسدلن علی وجوھھن من غیر مراعاة المجافاة ولم ینقل أحد من أھل العلم عن النبي ﷺ أنه قال: إحرام المرأة في وجھھا وإنما ھذا قول بعض السلف لکن النبي ﷺ نھاھا أن تنتقب أو تلبس القفازین کما نھی المحرم أن یلبس القمیص والخف مع أنه یجوز له أن یستر یدیه ورجلیه باتفاق الأئمة و البرقع أقوی من النقاب فلھذا ینھی عنه باتفاقھم ولھذا کانت المحرمة لا تلبس مایصنع لستر الوجه کالبرقع ونحوہ فإنه کالنقاب'' (فتاوی ابن تیمیہ:۲۶؍ ۱۱۲- ۱۱۳)

''اگر عورت حالت احرام میں اپنا چہرہ کسی ایسی چیز سے چھپا لے جو اس کے چہرے کو مس نہ کرے تو علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اگر وہ ایسی چیز سے اپنا چہرہ چھپائے کہ جس اس کے چہرے کو مس کر رہی ہو تو صحیح قول یہ ہے یہ بھی جائز ہے عورت کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ چہرہ چھپانے والے کپڑے کو اپنے چہرے سے کسی لکڑی یا ہاتھ یا کسی اور چیز کے ذریعے دور رکھے، کیونکہ نبی 1 نے عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو برابر قرار دیا ہے اور ان دونوں کا حکم وہی ہے جو کہ مرد کے بدن کا حکم ہے اور ان دونوں کو مرد کے سر کے ساتھ تشبیہ دینا جائز نہیں ہے۔آپ کی بیویاں اپنے چہروں پر کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں اور اس بات کا لحاظ نہیں کرتی تھیں کہ وہ ان کے چہرے سے علیحدہ رہے اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے آپ ؐ سے یہ نقل کیا ہے کہ'' عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے '' ۔یہ بعض سلف کا قول ہے۔البتہ آپ نے عورت کے نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا ہے جیساکہ مرد کو قمیص اور موزے پہننے سے اور مرد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں حالت احرام میں چھپا سکتا ہے اور اس پر علماء کا اتفاق ہے۔برقع 'نقاب کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے اس لیے اس کی ممانعت پر علماء کا اتفاق ہے۔اس لیے حالت احرام میں عورت ایسا لباس نہیں پہنے گی جو کہ چہرہ چھپانے کے لیے ہی بنایا گیا ہوجیسا کہ برقع وغیرہ ہے جو کہ نقاب ہی کی ایک شکل ہے ۔''

اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول 1 کے زمانے میں عورتیں حالت احرام کے بغیر بھی پردہ کرتی تھیں ۔

صحابیات کے اس عمل سے معلوم ہوتاہے کہ چہرے کے پردہ کا درجہ وجوب کاہے، کیونکہ صحابیات کا اپنے چہرے کو چھپانادرحقیقت آیت حجاب،آیت زینت، آیت جلباب وغیرہ پر عمل تھا۔

c حضرت عائشہؓ 'قصۃ الإفک' والی روایت میں حضرت صفوان ؓکے بارے میںبیان فرماتی ہیں کہ

''وَکَانَ رَآنِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَیْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِه حِیْنَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْھِیْ بِجِلْبَابِي '' (صحیح بخاری:۴۱۴۱)

''اور انہوں نے مجھے حجاب (کے حکم کے نزول) سے پہلے دیکھا تھا' ان کے''اِنَّاﷲِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ'' کہنے کی وجہ سے میں بیدار ہو گئی، جبکہ انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا،پس میں نے اپنا چہرہ اپنے جلباب سے ڈھانپ لیا۔''

یہ حدیث بھی عام ہے اس حدیث کو 'آیۃ الجلباب' یعنی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ کی روشنی میں سمجھا جائے تو اس حدیث کی عمومیت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔

d عَنْ عَائِشَةرَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْها قَالَتْ:یَرْحَمُ اﷲُ نِسَاء الْمُھَاجِرَاتِ الْاُوَلَ لَمَّا اَنْزَلَ اﷲُ{وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ} شَقَّقْنَ مُرُوْطَھُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِھَا (صحیح بخاری،کتاب تفسیر القرآن،باب ولیضربن بخمرهن علی جیوبهن)

''اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے پہل ہجرت کرنے والی مہاجر عورتوں پر رحم کرے! جب یہ آیت {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ} نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اُن کے دوپٹے بنا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا۔''

ابن حجرؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں :

''(فاختمرن أي غطین) وجوھھن یعنی حضرت عائشہ ؓکے قول:فَاخْتَمَرْنَ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا۔

اعتراض:بعض منکرین حجاب نے لغت عربی سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ لکھاہے کہ ابن حجر کا یہ ترجمہ ان کی منفرد رائے ہے اور لغت عربی میں خمار کا لفظ چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔

جواب:ہم ان منکرین حجاب کے جواب میں کہتے ہیں کہ خمار کا لفظ عربی زبان میں چہرہ ڈھانپنے کے لیے مستعمل ہے اور اس کے درج ذیل دلائل ہیں :

è حضرت فاطمہ بنت منذرؓ بیان کرتی ہیں :

''کُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوْھَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ وَنَحْنُ مَعَ اَسْمَاء بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ'' (موطا امام مالک،کتاب الحج،باب تخمیر المحرم وجهه،رقم:۷۲۴)

''ہم اپنے چہروں کو خمار (چادر) سے ڈھانپتی تھیں اس حال میں کہ ہم حالتِ احرام میں ہوتیں اور حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ ہمارے ساتھ ہوتی تھیں''۔

è اسماعیل بن ابی خالد اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

''کنا ندخل علی اُم المؤمنین یوم الترویة فقلت لھا یا أم المؤمنین ھنا امرأة تأبی أن تغطي وجھھا وھي محرمة فرفعت عائشة خمارھا من صدرھا فغطت به وجھھا '' (التلخیص الحبیر:۲؍ ۲۷۲)

''ہم ۸؍ ذی الحجہ کو اُمّ المؤمنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو میں نے کہا اے اُمّ المؤمنین! یہاں ایک عورت ایسی ہے جو کہ حالت احرام میں اپنے چہرے کو چھپانے سے انکار کرتی ہے تو حضرت عائشہؓ نے اس کا خمار (چادر) اس کے سینے سے اٹھایا اور اس سے اس کا چہرہ ڈھانپ دیا۔''

وہ عورت حالت احرام میں چہرہ ڈھانپنے کو اللہ کے رسول1کے بعض فرامین کی وجہ سے ناجائز سمجھ رہی تھی، جبکہ حضرت عائشہؓ نے اس کا چہرہ ڈھانپ کر اسے یہ بتلایا کہ حالتِ احرام میں چہرہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔

èخود علامہ البانیؒ نے بھیحجاب المرأۃ المسلمۃمیں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ خمار چہرے کو ڈھانپنے کے لیے بھی بعض اَوقات استعمال ہوجاتا تھا۔ علامہ البانیؒ ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

قل للملیحة في الخمار المذهب

أفسدت نسك أخي التقي المذهب

نور الخمار ونور خدك تحته

عجبا لوجھك کیف لم یتلهب

فقد وصفھا بأن خمارھا کان علی وجھھا أیضاً

(حجاب المرأۃ المسلمۃص ۳۳)

''تو ملیحہ سے جا کر کہہ دے کہ تو نے اپنے سنہری خمار (چادر) کی وجہ سے میر ے درویش صفت بھائی کے تقویٰ اور مذہب کو خراب کر دیا ہے۔ خمار (چادر) کا نور اور پھر اُس کے نیچے تیرے رخساروں کا نور ہے ۔مجھے تیرے چہرے پر تعجب ہے کہ وہ (اتنے نور کے باوجود) ابھی تک شعلہ کیوں نہیں مار رہا! شاعر نے اپنی محبوبہ کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اُس کا خمار اُس کے چہرے پر بھی تھا۔'' علامہ البانی کا کلام ختم ہوا۔

محل استشہاد نور الخمار ونور خدك تحته ہے۔

پس ثابت ہوا کہ صحابہ کرام اور تابعین کی اپنی لغت میں 'خمار' کا لفظ چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے تھے اب اس کے بعد کوئی اگر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے لسان العرب، القاموس المحیط اور مقاییس اللغۃ جیسی لغت عربی کی کتب سے یہ نکال کر دکھاؤ کہ لفظ 'خمار' چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے بارے میں ہم یہی کہیں گے :{وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا}

d عَنْ عَائِشَة اَنَّ اَفْلَحَ اَخَا اَبِي الْعُقَیْسِ جَاء یَسْتَاْذِنُ عَلَیْھَا وَھُوَ عَمُّھَا مِنَ الرَّضَاعَة بَعْدَ اَنْ نَزَلَ الْحِجَابُ فَاَبَیْتُ اَنْ آذَنَ لَه فَلَمَّا جَآء رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اَخْبَرْتُه بِالَّذِیْ صَنَعْتُ فَأَمَرَنِي أَنْ آذَنَ لَه (صحیح بخاری:۵۱۰۳)

''حضرت عائشہؓ اپنے رضاعی چچا أفلح کے بارے میں بیان کرتی ہیں جو کہ ابوعقیس کے بھائی تھے'کہ انہوں نے مجھ سے حجاب کی آیات نازل ہونے کے بعد گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔جب رسول اللہ1 تشریف لائے اور میں نے آپؐ' کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپؐ نے مجھے حکم دیا کہ میں افلح کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دوں۔''

حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی تشریح میں بیان کرتے ہیں:

''وفیه وجوب احتجاب المرأة من الرجال الأجانب''

''یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے''۔

حضرت عائشہؓ کا پہلے یہی خیال تھا کہ اپنے رضاعی چچا سے بھی پردہ ہے،اس لیے انہوں نے اپنے رضاعی چچا کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ بعد میں رسول اللہ1 کے بتانے پر کہ رضاعی چچا سے عورت کا پردہ نہیں ہے' آپؓ نے اپنے چچا کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:

'' عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَة اَنَّھَا اَخْبَرَتْه اَنَّ عَمَّھَا مِنَ الرَّضَاعَة یُسَمّٰی اَفْلَحَ اسْتَأْذَنَ عَلَیْھَا فَحَجَبَتْه فَاَخْبَرَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ لَھَا :لَا تَحْتَجِبِیْ مِنْهُ'' (صحیح مسلم:۱۴۴۵)

''حضرت عروہ حضرت عائشہؓسے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے خبر دی کہ ان کے رضاعی چچا افلح نے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو حضرت عائشہؓنے ان سے پردہ کر لیا ۔پھر رسول اللہ1 کو اس معاملے کی خبر دی تو آپؐ نے فرمایا: '' اس سے پردہ نہ کرو۔''

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْه قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِیِّﷺ مَقْفَلَه مِنْ عُسْفَانَ وَرَسُوْلُ اﷲِ ﷺ عَلٰی رَاحِلَتِه وَقَدْ أرْدَفَ صَفِیَّة بِنْتَ حُیَیٍّ فَعَثَرَتْ نَاقَتُه فَصُرِعَا جَمِیْعًا فَاقْتَحَمَ اَبُوْ طَلْحَة فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اﷲِ! جَعَلَنِي اﷲُ فِدَا کَ قَالَ: عَلَیْکَ الْمَرْأَةَ فَقَلَبَ ثَوْبًا عَلٰی وَجْھِه وَأَتَاھَا فَأَلْقَاہُ عَلَیْھَا وَاَصْلَحَ لَھُمَا مَرْکَبَھُمَا فَرَکِبَا وَاکْتَنَفْنَا رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ فَلَمَّا اَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِیْنَةِ قَالَ:آیِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ فَلَمْ یَزَلْ یَقُوْلُ ذٰلِکَ حَتّٰی دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ (صحیح بخاری:۳۰۸۵)

''حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہم عسفان سے واپسی کے وقت نبی اکرم1 کے ساتھ تھے جبکہ آپؐ اونٹنی پر سوار تھے اور آپؐ کے پیچھے حضرت صفیہؓ تھیں۔ اچانک اونٹنی نے ٹھوکر کھائی اور اللہ کے رسول1 حضرت صفیہؓ' سمیت نیچے گر گئے۔ حضرت ابوطلحہؓ' فوراً آپؐ کی خدمت میں پہنچے اور کہا :اے اللہ کے رسول1! اللہ مجھے آپؐ پر فدا کرے! آپؐ نے فرمایا :''عورت کی خبر لو''۔ حضرت ابوطلحہؓ نے کپڑا اپنے منہ پرڈالا اور حضرت صفیہؓ کے پاس آئے 'پھراپنا کپڑا اُن پر ڈال دیااور آپؐ اور حضرت صفیہؓ، کی سواری کو درست کیا تو وہ دونوں سوار ہو گئے۔ اس کے بعد ہم آپؐ کے آس پاس رہے،جب ہم مدینہ کے پاس پہنچے توآپؐ نے فرمایا: آیِبُوْنَ' تَائِبُوْنَ' عَابِدُوْنَ' لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ اور مدینہ میں داخل ہونے کے وقت تک آپؐ برابر یہی دعا پڑھتے رہے۔''

ایک اور روایت میں الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول1 نے حضرت صفیہؓ کو جب اپنے ساتھ سوار کیا تھا تو ان کے چہرے پر ایک چادر ڈال دی تھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

''وَسَتَرَھَا رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ وَحَمَلَھَا وَرَاء ہٗ وَجَعَلَ رِدَاء ہٗ عَلٰی ظَھْرِھَا وَوَجْھِھَا''(اخرجہ ابن سعد بحوالہ حجاب المرأۃ المسلمۃ، ص ۴۹،۵۰)

''اور اللہ کے رسول1 نے حضرت صفیہؓ' کو ڈھانپا اور انہیں اپنے پیچھے (اونٹ پر) سوار کیا اور اپنی چادر حضرت صفیہ کی کمر اور چہرے پر ڈال دی۔''

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ1 نے جب خیبر اور مدینہ کے درمیان تین دن حضرت صفیہؓ کے ساتھ قیام فرمایا تو مسلمانوں میں اختلاف ہو گیا کہ آپ1 نے حضرت صفیہؓ کے ساتھ نکاح کیا ہے یا ان کو لونڈی بنا کر رکھا ہے' تو بعض صحابہ کرامؓکہنے لگے:

''اِنْ حَجَبَھَا فَھِیَ اِحْدٰی اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِنْ لَّمْ یَحْجُبْھَا فَھِیَ مِمَّا مَلَکَتْ یَمِیْنُه فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَھَا خَلْفَه وَمَدَّ الْحِجَابَ'' (صحیح بخاری:۴۲۱۳)

''اگر آپؐ نے ان سے پردہ کروایا تو وہ اُمّہات المؤمنین میں سے ہوں گی اور اگر آپؐ نے ان سے پردہ نہ کروایا تو وہ آپؐ کی لونڈی ہوں گی۔ پس جب آپؐ نے وہاں سے کوچ کیا تو حضرت صفیہؓ' کو پیچھے بٹھا لیا اور پردہ کھینچ دیا ۔''

یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ کے زمانے میں حرائر (آزاد عورتوں) کے لیے پردہ تھا 'جبکہ لونڈیوں کے لیے پردہ نہ تھا۔

f حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ غزوئہ طائف کے موقع پر رسول اللہ1نے مدینہ اور مکہ کے درمیان مقام جعرانہ پر پڑائو ڈالا اور آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓبھی تھے۔ آپؐ نے ایک پیالے میں پانی منگوا کر اس سے دونوں ہاتھ اور منہ دھوئے اور اس میں کلی بھی کی۔ پھر آپؐ نے ہم دونوں سے کہا کہ اس پانی کو پی لو' اپنے منہ اور سینے پر ڈا لو اور خوشخبری حاصل کرو' تو ہم نے ایسے ہی کیا۔

فَنَادَتْ اُمُّ سَلَمَة مِنْ وَّرَاء السِّتْرِ اَنْ اَفْضِلَا لِاُمِّکُمَا فَاَفْضَلَا لَھَا مِنْهُ طَائِفَة(صحیح بخاری:۴۳۲۸)

''تو حضرت اُمّ سلمہؓ نے پردے کے پیچھے سے کہا کہ اپنی ماں کے لیے بھی کچھ پانی چھوڑ دینا تو انہوں نے اس میں سے کچھ پانی ان کے لیے چھوڑ دیا۔''

یہ حدیث بھی عام ہے اور اس کی عمومیت کی دلیل اگلی حدیث ہے ۔

عَنْ عَائِشَة رَضِیَ اﷲ عَنْھَا قَالَتْ: اَوْمَتِ امْرَأَة مِنْ وَرَاء سِتْرٍ بِیَدِھَا کِتَابٌ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَقَبَضَ النَّبِیُّ ﷺ یَدَہٗ فَقَالَ: مَا اَدْرِیْ اَیَدُ رَجُلٍ اَمْ یَدُ امْرَأَةقَالَتْ:بَلِ امْرَأَ ة قَالَ:لَوْ کُنْتِ امْرَأَة لَغَیَّرْتِ اَظْفَارَکِ یَعْنِي بِالْحِنَّاء(سنن ابی داود:۱۳۷)

''حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اپنے ہاتھ سے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف اشارہ کیا اس حال میں کہ اس عورت کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور فرمایا :''مجھے معلوم نہیں کہ یہ مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا ہاتھ ہے ''تو اس عورت نے کہا کہ میں عورت ہوں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا :''اگر تو عورت ہے تو اپنے ناخنوں کو مہندی لگا کر تبدیل کرو(تاکہ مرد اور عورت میں فرق ہو سکے)۔''

اس حدیث میں عورت کا پردے کے پیچھے سے آپؐ کو خط دینا یہ واضح کررہا ہے کہ عورتیں آپؐ کے زمانے میں جب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو پردے میں ہوتی تھیں۔

یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عورت کے لیے اپنے ہاتھ اور اس کی زینت مثلا مہندی وغیرہ کا اظہار اجنبی افراد کے سامنے جائز ہے ۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں آپ کے زمانے میں اجنبی افراد سے پردہ کرتی تھیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ پردہ واجب تھا یا سنت ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پردہ واجب تھا۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کے واجب ہونے کی دلیل کیاہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ صحابیات کا یہ پردہ کرنا قرآنی آیات و احکام حجاب پر عمل تھا اور قرآنی آیات و احکام حجاب سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے۔

اِشارتاً دلالت والی اَحادیث

اب ہم چند ان روایت کا تذکرہ کریں گے جو کہ چہرے کے پردے پر اشارتا دلالت کرتی ہیں :

h عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ ﷺ مَنْ جَرَّ ثَوْبَه خُیَلَاء لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةفَقَالَتْ اُمُّ سَلْمَة : فَکَیْفَ یَصْنَعْنَ النِّسَاء بِذُیُوْلِھِنَّ؟ قَالَ:یُرْخِیْنَ شِبْرًافَقَالَتْ:اِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُھُنَّ قَالَ: فَیُرْخِیْنَه ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْهِ(سنن ترمذی:۱۷۳۱)

''حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ1نے فرمایا :'' جو بھی اپنے کپڑے کو تکبر کے باعث کھینچے (یعنی لٹکائے )گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ کرم نہ کرے گا'' تو حضرت اُم سلمہؓنے سوال کیا :عورتیں اپنے پلو کا کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ''اسے ایک بالشت لٹکا لیں''۔ حضرت اُم سلمہؓنے عرض کی: تب تو ان کے پائوں ننگے رہ جائیںگے۔ آپؐ نے فرمایا :''تو وہ ایک ہاتھ لٹکا لیں' لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔''

یہ حدیث واضح طو رپربیان کر رہی ہے کہ عورت کے لیے اپنے قدم یعنی پائوں کا ڈھانپنا واجب ہے۔ توجب پائوں کا ڈھانپنا واجب ہے تو چہرے کا ڈھانپنا بالاولیٰ واجب ہے،کیونکہ چہرے کو کھلا رکھنے میں پائوں کی نسبت زیادہ فتنے کا اندیشہ ہے۔

i وَعَنْ عُقْبَة بْنِ عَامِرٍ الْجُھَنِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ:اِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَآء فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ!اَفَرَاَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ (صحیح بخاری:۵۳۳۲)

''حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ1 نے فرمایا : ''عورتوں پر داخل ہونے سے بچو (یعنی مردوں کا عورتوں کی محفلوں میں جانا ممنوع ہے)'' تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول1 !آپؐ کا شوہر کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا :''شوہر کے قریبی رشتہ دار تو موت ہیں۔''

اس حدیث میں رسول اللہ1 نے مردوں کو عورتوں سے معاملہ کرتے وقت اُن کے سامنے آنے سے منع فرمایا ۔ یعنی اگر کوئی معاملہ کرنا ہے تو آیت قرآنی {فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ}کے مصداق پردے کے پیچھے سے ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث اختلاطِ مرد و زن کی ممانعت کی بھی واضح دلیل ہے۔

j عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺقَالَ:اَلْمَرْأَة عَوْرَةُ فَاِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ (سنن ترمذی:۱۱۷۳)

''حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ1نے فرمایا: ''عورت تو چھپانے کی چیز ہے ۔جب یہ (گھر سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔''

اس حدیث میں عورت کو'عـورۃ' کہا گیا ہے 'یعنی چھپانے کی شے۔ اس سے مراد ہے کہ عورت کا سارا جسم'عورۃ'ہے جس کو چھپانا چاہیے،اس سے مستثنیٰ وہی ہے جس کو قرآن نے 'إلا ما ظھر منھا' کے الفاظ میں بیان کر دیا ہے یعنی جن کے چھپانے میں مشقت ہواور وہ عورت کے ہاتھ،کپڑے،آنکھیں اور ان کی زینت وغیرہ ہے ۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کواسلام پسند نہیں کرتا،اس سے ملتی جلتی بعض روایات میں الفاظ ہیں :

''إن المرأة عورة فإذا خرجت استشرفھا الشیطان وأقرب ما تکون من وجه ربھا و ھي في قعر بیتھا''(عارضۃ الأحوذی شرح سنن ترمذی:ج۳؍ص۹۲)

''عورت تو چھپانے کی چیز ہے ۔جب یہ (گھر سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔اور عورت اپنے رب کی رضا سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہی گوشہ نشین ہو جائے۔''

ابن العربی نے'عارضۃ الأحوذی :۳؍۹۲'میں،ابن القطان نے'أحکام النظر: ۱۳۷'میں جبکہ علامہ ا لبانی نے'صحیح الترغیب:۳۴۶'میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔امام ترمذی نے اس حدیث کو 'حسن غریب 'کہا ہے۔ ابن حزم نے 'المحلی :۴؍۲۰۱'میں اسے قابل احتجاج کہا ہے ۔

k حضرت مغیرہ بن شعبہؓسے روایت ہے کہ

أَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ فَذَکَرْتُ لَه امْرَأَة اَخْطُبُھَا فَقَالَ:اِذْھَبْ فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّهُ اَجْدَرُ اَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا فَأَتَیْتُ امْرَأَة مِنَ الْاَنْصَارِ فَخَطَبْتُھَا اِلٰی اَبَوَیْھَا وَاَخْبَرْتُھُمَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ ﷺ فَکَاَنَّھُمَا کَرِھَا ذٰلِکَ' قَالَ فَسَمِعَتْ ذٰلِکَ الْمَرْأَةُ وَھِیَ فِي خِدْرِھَا فَقَالَتْ: اِنْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اَمَرَکَ اَنْ تَنْظُرَ فَانْظُرْ وَاِلَّا فَاَنْشُدُکَ کَاَنَّھَا اَعْظَمَتْ ذٰلِکَ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْھَا فَتَزَوَّجْتُھَا (سنن ابن ماجہ:۱۸۶۶)

''میں اللہ کے رسول1 کے پاس آیا اور میں نے آپؐ کے سامنے ایک عورت کا تذکرہ کیا جس سے میں منگنی کرنا چاہتا تھا تو آپؐ نے فرمایا: ''جا کرپہلے اس کو (ایک نظر) دیکھ لو، یہ بات تمہارے مابین محبت کا باعث ہو گی۔'' میں انصار کی ایک عورت کے پاس آیا تو میں نے اس کے والدین سے نکاح کی بات کی اور انہیں اللہ کے رسول1 کے قول کے بارے میں بتایا۔ والدین نے لڑکی کے دیکھنے کو ناپسند کیا۔ حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے میری بات سن لی اور وہ پردے میں کھڑی تھی۔ اس لڑکی نے کہا کہ اگر اللہ کے رسول1 نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دیکھ لو' اور اگر ایسا نہیں ہے تو میں اللہ کی قسم کھاتی ہوں کہ ایسا نہ کرنا۔ گویا اس عورت نے اللہ کے رسول1 کے فرمان کو بڑا جانا۔ حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو دیکھا اور پھر بعد میں اس سے نکاح کر لیا۔ ''

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتیں رسول اللہ1کے زمانے میں حجاب کرتی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ جب ایک مرد ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجتا تھا تو اس کے باوجود بھی دیکھ نہ سکتاتھا۔

اس روایت کو امام ترمذی نے' سنن الترمذي :۱۰۸۷'میں جبکہ امام بغوی نے 'شرح السنۃ :۵؍۱۴''میں 'حسن 'کہا ہے ۔ابن القطان نے اس روایت کو 'أحکام النظر :۳۸۷'میں 'ابن الملقن نے'البد رالمنیر :۷؍۵۰۳'میں جبکہ علامہ البانی نے' صحیح ابن ماجہ :۱۵۲۴'میں اسے صحیح کہا ہے ۔

ابن فارس نے مقاییس اللغۃ میں لفظ خدرکے چار بنیادی معنوں کا تذکرہ کیا ہے:اندھیرا،پردہ،دیر لگانا اور ٹھہرانا۔ہم نے اس حدیث کے ترجمے میں خدر کا ترجمہ'پردہ ' کیا ہے۔ ہمارایہ ترجمہ لغت کے ساتھ ساتھ حدیث سے بھی ثابت ہے۔ علامہ سند ی نے ابن ماجہ کی شرح میں خدرھا کا ترجمہ سترھا کیا ہے، کیونکہ بعض احادیث میں یہ لفظ 'پردے'کے معنی میں استعمال ہوا ہے مثلا ایک حدیث کے الفاظ ہیں :

''مر بامرأة وھي في خدرھا معھا صبي فقالت ألھذا حج قال نعم ولك أجر ''

''اللہ کے رسول1 کا ایک عورت کے پاس سے گزر ہوا جو کہ پردہ بھی تھااور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا تو اس نے سوال کیا، کیا اس کے لیے بھی حج ہے تو آپ نے فرمایا ہاں' اور تیرے لیے اس کا اجر ہے ۔ ''

l عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَة قَالَ:خَطَبْتُ امْرَأَة فَجَعَلْتُ اَتَخَبَّأُ لَھَا حَتّٰی نَظَرْتُ اِلَیْھَا فِیْ نَخْلٍ لَھَا فَقِیْلَ لَه اَتَفْعَلُ ھٰذَا وَاَنْتَ صَاحِبُ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ؟ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَقُوْلُ:اِذَا اَلْقَی اللّٰہُ فِي قَلْبِ امْرِیٍٔ خِطْبَة امْرَأَة فَلَا بَأْسَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْھَا (سنن ابن ماجہ:۱۸۶۴)

''حضرت محمد بن مسلمہ ؓسے مروی ہے کہ میں نے ایک عورت کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا اور میں اس کو چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرنے لگ گیا'حتیٰ کہ ایک دن وہ عورت اپنے باغ میں گئی تو میں نے (موقع پا کر) اس کو دیکھ لیا تو مجھ سے لوگوں نے کہا:آپ اللہ کے رسول1 کے صحابی ہو کر ایسا کرتے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول1 سے سنا ہے ''جب کسی مرد کا کسی عورت سے شادی کا ارادہ ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے''۔

اللہ کے رسول1 کے یہ الفاظ کہ فَلَا بَاْسَ اَنْ یَنْظُرَ اِلَیْھَا اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر کسی عورت سے نکاح کی خواہش ہو تو اس کو دیکھنے کی رخصت ہے، اس کے علاوہ نہیں۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کا تکلف کر کے اس عورت کو دیکھنے کی کوشش کرنا اور اس کے باجود نہ دیکھ پانابھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورتیں اس زمانے میں حجاب کرتی تھیں۔اسی طرح اگر وہ عورت بھی حجاب نہ کرتی ہوتی تو حضرت محمد بن مسلمہؓ کو چوری چھپے تکلف کر کے اس خاتون کو دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟

اعتراض: بعض ناقدین نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ اس میں ایک راوی 'حجاج بن ارطاۃ' ضعیف ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔

جواب:

ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو علامہ البانی نے( إرواء الغلیل :۱۷۹۱) میں اور( صحیح ابو داؤد :۲۰۸۲) میں 'حسن'کہا ہے۔

علاوہ ازیں یہ حدیث سنن ابن ماجه:کتاب النکاح 'باب في الرجل ینظر إلی المرأة میں بھی ایک دوسری سندکے ساتھ موجود ہے اور اس کی اس سند میں حجاج بن ارطاۃ راوی نہیں ہے۔ اس حدیث کو اس سند کے ساتھ علامہ البانی نے 'صحیح ابن ماجہ :۱۵۲۲'میں 'صحیح 'کہا ہے۔

m عَنْ اُمِّ عَطِیَّة رَضِیَ اﷲُ عَنْھَا قَالَتْ:اُمِرْنَا اَنْ نُخْرِجَ الْحُیَّضَ یَوْمَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَة الْمُسْلِمِیْنَ وَدَعْوَتَھُمْ وَیَعْتَزِلُ الْحُیَّضُ عَنْ مُصَلَّاھُنَّ،قَالَتِ امْرَأَة یَارَسُوْلَ اﷲِ اِحْدَانَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ :لِتُلْبِسْھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا (صحیح بخاری:۳۵۱)

''حضرت اُمّ عطیہؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم حیض والی اور پردہ نشین عورتوں کو عیدین کے دن نکالیں،وہ مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں حاضر ہوں، اور حیض والی عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول1 ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو؟ آپؐ نے فرمایا :'' اس کی سہیلی اس کو اپنی چادر میں شریک کرے۔''

اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کے رسول1 کے زمانے میں بغیر چادر باہر نکلنے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ چادر کے لیے اس حدیث میں 'جلباب' کا ذکر آیا ہے۔ جلباب وہ چادر ہے جو کہ آپؐ کے زمانے میں ازواج مطہرات اور مؤمن عورتیں گھر میں بھی اور گھر کے باہر بھی استعمال کرتی تھیں ۔گھر میں یہ چادر نماز وغیرہ کے لیے استعمال ہوتی تھی اس لیے عورتیں اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ جسم کو ڈھانپتی تھیں، لیکن گھر سے باہرنکلتے وقت اُمہات المؤمنین اور عام مؤمن عورتیں اسی چادر سے اپنے جسم کے علاوہ اپنے چہرے کو بھی چھپا لیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓکی بخاری کی روایت فخمرت وجھي بجلبابي سے ظاہر ہے۔

اِعتذار

ماہنامہ'محدث' جون ۲۰۱۰ئ،ص۴۶پرمضمون 'وجودِ باری تعالیٰ؛سائنس کی نظر میں'کے مصنف ڈاکٹر کریسی موریسن کاتعارف غلطی سے(پروفیسر کلیة الدراسات الإسلامیة، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) شائع کر دیا گیا جب کہ موصوف کا تعارف یوں پڑھا جائے:(سابق صدر نیو یارک اکیڈمی آف سائنس، امریکہ)قارئین تصحیح فرما لیں!