کیا دینی مدارس کو بند کردیا جائے؟



لاہور میں قادیانیوں کے خلاف دہشت گردی کے تازہ واقعات کے بعد، گذشتہ چند ہفتوں سے ہمارے سیکولر کالم نگار اور لبرل دانشور تواتر سے دینی مدارس کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بالخصوص انگریزی اخبارات میںاس طرح کے کالم اور مضامین تسلسل سے شائع ہو رہے ہیں۔یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مضامین 'رینڈ کارپوریشن' جیسے امریکی تھنک ٹینکس کی کسی تازہ رپورٹ اور سفارشات کی تائید میںلکھے جارہے ہیں یا دہشت گردی کی حالیہ گھناؤنی وارداتوں کا ردّ عمل ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کی واضح مذمت سے گریز کی پالیسی جس طرح غلط ہے، اسی طرح کسی بھی ایک طبقہ کو بلا وجہ اور بغیر کسی ثبوت کے تنقید کانشانہ بنانا اوراُس کے وجود کو مٹانے کی تجاویز پیش کرنا بھی حد درجہ نامناسب بات ہے۔جدیداُصولِ قانون کی رو سے کہا جاتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ سو مجرموں کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا جائے۔

ہمارے روشن خیال دانشور اس اُصول کو جدید ریاستوں کے عدل و انصاف کے ضابطوں میں ایک روشن مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر یہی دانشور جب مذہبی طبقات اور دینی مدارس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں توعدل وانصاف کے ان روشن اُصولوں کویکسر فراموش کردیتے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں دینی مدارس پرجو تنقید کی جارہی ہے، وہ بالکل یکطرفہ ہے اور اس اعتبار سے غیر منصفانہ ہے۔ انگریزی اخبارات میں توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر اُردو اخبارات میں بھی دینی مدارس کے ذمہ داران کا موقف شائع نہیں کیا جاتا،نہ ہی ہمارے وہ کالم نگار جو دینی مدارس کے بارے میں صحیح معلومات رکھتے ہیں، اپنے کالموں میںاس کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہیں۔

جناب شفقت محمود، ایک روشن خیال اور ترقی پسند دانشور ہیں۔ بیوروکریسی کو چھوڑ کر اُنہوں نے پہلے سیاست اور اب صحافت کو اختیار کیاہے۔ بلا شبہ اہل دانش ان کی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اُنہوں نے اپنے حالیہ کالم میںدینی مدارس کو ابھی تک بند نہ کرنے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ شفقت محمود صاحب فرماتے ہیں:

''ہم اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک ہم دہشت گردو ں کے سیلاب کے اَصل سرچشمے اور منبع کوبندنہیںکریں گے، اس وقت تک ان کے ساتھ یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔ یہ دینی اور مذہبی مدرسے دراصل دہشت گردوں کو تیار کرنے کے ذمہ دار ہیں، اُنہیں بند کردینا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ '' (جنگ، ۱۳ ؍جون ۲۰۱۰ئ)

کچھ اسی طرح کے خیالات کا اِظہار چند دیگر کالم نگاروں نے بھی کیا ہے۔ان تمام میں ایک بات البتہ مشترک ہے کہ یہ سب سیکولر فکر کے حامل ہیں اور مذہب اور ریاست کی تفریق کے قائل ہیں۔جس طرح مذکورہ دانشور آزادئ اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنی آرا کو پیش کرنے پر اصرار کرتے ہیں، اس طرح امید ہے کہ وہ یہ حق دوسرے لوگوں کو بھی دیں گے کہ وہ ان کی آرا کے متعلق ریمارکس دے سکیں۔ ہم نہایت دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ شفقت محمود صاحب نے نہ تو مرض کی صحیح تشخیص کی ہے اور نہ ہی ان کاتجویز کردہ علاج درست ہے۔ ان کی رائے معروضی تجزیے کے زمرے میں نہیں آتی۔ اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ دینی مدارس دہشت گردی کا 'سرچشمہ اور منبع' ہیں۔ کسی سچے اور حقیقی دانشور کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے ہزاروں دینی مدارس کے بارے میں اس قدر مغالطہ آمیز خیالات کااظہار کرے۔ جب تک کسی الزام کی تصدیق کے لیے ثبوت فراہم نہ کئے جائیں، وہ ایک الزام اور بہتان ہی رہتا ہے۔اس طرح کی بہتان تراشی کسی بھی اعتبار سے تائید کے قابل نہیں ہے۔

آخریہ کیونکر فرض کرلیا گیا ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کا سرچشمہ ہیں؟اس بات کی وضاحت ہر اس دانشور اور کالم نگار کی ذمہ داری ہے جو دینی مدارس پر اس طرح کا الزام عائد کرتا ہے۔ان کا اخلاقی فرض ہے کہ اگر ان کے نتائج فکر یہی ہیں تو ان دینی مدارس کی فہرست پیش کریں جو دہشت گردی کا منبع بنے ہوئے ہیں؟ اگر واقعی کسی بھی دینی مدرسے کے متعلق اس طرح کی شہادت میسر آجاتی ہے، تو پھر اس کی سزا صرف یہی نہیں ہونی چاہئے کہ اُسے بند کردیا جائے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس کے ذمہ داران کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر مقدمات قائم کئے جائیں اور قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے اُنہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں۔

گذشتہ چند برسوں میں ہماری صحافت میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ چند ہم خیال صحافی کسی موضوع پر تکرار کے ساتھ اظہار خیال کرکے hype پیدا کرکے جذباتی فضا بنا دیتے ہیں۔لال مسجد کے معاملے میں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔جامعہ حفصہ کی طالبات کی سرگرمیوں کو مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کرکے ریاست کی رِٹ کو شدید خطرات سے دوچار ہوتے دکھایاگیا۔ وہ حکومت اور قوم کو بتا رہے تھے کہ اگران طالبات پر قابو نہ پایاگیاتو ریاست سیکورٹی کے شدید مسائل کا سامنا کرسکتی ہے۔ بعد میں جب سوات کے طالبان کے ایک مختصر گروہ نے بونیر پر قبضہ کرلیا تو ہاہاکار مچا دی گئی کہ تھوڑے دنوں میں یہ اسلام آباد پر قابض ہوجائیں گے، حالانکہ یہ ناممکن تھا۔ دینی مدارس کے متعلق بھی یہی حکمت ِعملی کارفرما نظر آتی ہے۔پاکستان کے دینی مدارس کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد کئی لاکھ ہے۔ پاکستان کے عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ ان مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد کتنی ہے جنہیں دہشت گردی میںملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا؟ ان کا تعلق کن دینی مدارس سے ہے؟ ان کو گمراہ کرنے والے اَساتذہ کے نام کیا ہیں؟ کیا پاکستان کے کوئی ایسے مدارس بھی ہیں جہاں اس طرح کے دہشت گردوں کو تربیتی کیمپ قائم ہیں؟کیا کسی ایسے تربیتی کیمپ پر چھاپہ مار کر اس میں ملوث افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے جیسا کہ راولپنڈی کے نزدیک ایک غیر ملکی فرم کے تربیتی کیمپ پر چھاپہ مار کر اسے بند کروایا گیا؟

مزید برآں اب تک دینی مدارس کے کتنے طلبا ہیں جنہیں دہشت گردی کے جرم کے ثابت ہونے پر عدالتوں نے سزا سنائی؟اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو ذہنوں میںجنم لیتے ہیں۔ قلم کی معمولی جنبش سے دینی مدارس کو دہشت گردی کا 'اصل سرچشمہ' قرار دیا جاسکتا ہے مگران سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے کی ذمہ داری پوری کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہے؟ امریکیوں نے کئی برس سے سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کرکے گوانتا نا موبے میںقید کررکھا ہے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ ان کی کثیر تعداد پر ابھی تک جرم ثابت نہیںکیا جاسکا ہے۔

فرض کیجئے کہ دینی مدارس کے موجودہ یاسابقہ طلبا میں سے کچھ نوجوان تشدد اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کو 'جہاد' سمجھ بیٹھے ہیں اور اس میں عملی طور پر ملوث ہیں تو کیا ان کے جرائم کی سزا ہزاروں دینی مدارس کو دی جاسکتی ہے اور ان میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبا کو دینی تعلیم کے حق سے یوں محروم کیا جاسکتا ہے؟اگر معاشرے کے دیگر طبقات میں صرف انہی افراد کو سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے جو فی الواقع قانون شکنی کرتے ہیں تو آخر دینی طبقے کو اس سہولت سے کیونکر محروم کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟کیا اُنہیں اپنے اوپر عائد کئے جانے والے سنگین الزامات کا دفاع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟آخر ہمارے' روشن خیال دانشوروں' نے یہ سب اندھیر نگری دینی طبقے کے لیے ہی روا کیوں رکھی ہوئی ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی اور حالیہ خود کش دھماکوں کے سٹائل کی دہشت گردی میں ملوث گمراہ نوجوانوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو دینی مدارس میں کبھی زیر تعلیم نہیں رہے۔ حقائق اور اعدادوشمار کے ذریعے اس دعوے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ وہ دہشت گردی جیسے گھناؤنے کاروبار کی طرف مائل کیوں ہوئے،اس کے حقیقی محرکات اور اسباب جاننے کی ضرورت ہے۔امریکہ نے نائن الیون کی دہشت گردی کے محرکات کا کھوج لگانے کے لیے کئی کمیشن قائم کئے تھے، ان کی رپورٹیں باقاعدہ شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح کے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے،اس امر کی طرف سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیکولر دانشور ان محرکات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں مگر ان میں معروضیت کی کمی واضح دکھائی دیتی ہے۔ چند دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے دینی مدارس کے پورے نظام کو لپیٹ دینے کی تجویز کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں ہے۔

۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور میں قادیانی جماعت کی عبادت گاہوں کو جن لوگوںنے نشانہ بنایا، ان میں سے صرف دو زندہ گرفتار کئے جاسکے، باقی خود بھی مارے گئے۔گرفتار ہونے والوں میں سے ایک کا تعلق رحیم یار خان سے بتایا جاتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ماضی میں کراچی کے ایک دینی مدرسہ میں پڑھتا رہا ہے۔ اس خبر کے متعلق شک کااظہار کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، پھر بھی اس سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دینی مدرسہ دہشت گردی کی نرسری ہے یا اس دہشت گرد نے اُسی مدرسہ سے تربیت حاصل کی۔ اس طرح کی مثالوں میں ہوتا یوں ہے کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس سے بھاگنے والے یا وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے بعض نوجوان شدت پسندوں کے ہتّھے چڑھ جاتے ہیں، وہ ان کی 'برین واشنگ' کرکے اس طرح کی وارداتوں کے لیے اُنہیں تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

کیا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں صرف مذہبی انتہا پسند ملوث ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کراچی میں آئے دن ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے ہیں۔ کراچی کے ڈی آئی جی پولیس نے پریس کانفرنس میں واضح طور پرکہا کہ ہر جماعت کا ایک عسکری ونگ ہے جو مسلح نوجوانوںپرمشتمل ہے۔جب تک یہ باقی رہتے ہیں،ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی میںبھی مذہبی انتہا پسند شامل نہیں ہیں۔ کوئٹہ میں یہ گروہ پنجابیوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ان کے محرکات بھی مذہبی نہیں ہیں۔ بلوچستان کے بہت سے سکولوں میں پاکستان کا پرچم تک نہیں لہرایاجاتا۔ وہاں وفاقِ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ ہمارے دانشور جو بے حد جذباتی انداز میں دینی مدارس کو بند کرانے کی مہم برپا کئے ہوئے ہیں، ان کی طرف سے ان سیکولر انتہا پسند گروہوںپرپابندی کامطالبہ کبھی سامنے نہیں آیا،اس منتخب اخلاقیات کاکوئی جواز نہیں؟اگر کوئی مذہب کے نام پر دہشت گردی کرتا ہے یا لسانی عصبیت اور صوبائیت کی بنیاد پر خون خرابہ کرتا ہے، دونوں برابر کے مجرم ہیں۔ ان میں سے کسی کے بارے میں نرم گوشہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ قومی جسد کے لیے بلا شبہ ناسور ہیں۔

فرض کیجئے کہ کسی کالج کا طالب علم شرپسندوں کی 'برین واشنگ' یا امریکہ مخالف جذبات کی شدت میں دہشت گردوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ کیا اس کے اس ذاتی جرم کی بنا پر کہا جائے گا کہ اس کالج کا نصاب اور اس کااَساتذہ اس کے عمل کے ذمہ دار ہیں؟ کوئی دانش مند ایک طالب علم کی وجہ سے کسی کالج کو نہ تو ذمہ دار ٹھہرائے گا اور نہ ہی اس کالج کو اس بنا پر بند کرنے کی تجویز دے گا، کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ اس نوجوان کاذاتی عمل ہے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ دینی مدارس کے متعلق اس اُصول کو قابل اطلاق نہیں سمجھا جاتا۔ کیا یہ امتیاز اور تعصب عقلی دیانت کے منافی نہیں ہے؟ایک انصاف پسند ضمیر اس واضح امتیاز کی پالیسی کو کیونکر گوارا کرسکتا ہے۔

جناب شفقت محمود دینی مدارس کی بندش کو دہشت گردی کے مسئلے کا حل بتانے کے فوراً بعد لکھتے ہیں:

''یہی مناسب ترین وقت ہے کہ ان دینی،مذہبی مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے اور ان کے لیے ایک ایسا نصابِ تعلیم تجویز کیا جائے جس میں اِسلامی تعلیمات اور ہدایات پر زور دینے کے ساتھ ساتھ دیگر مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان دینی اور مذہبی درس گاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکیں گے بلکہ اُنہیں اس دنیا کے بارے میں بھی وسیع معلومات حاصل ہوں گی جس میں ہم سب اپنی اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔اس طرح کی مخلوط تعلیم کا بہترین نمونہ جاوید احمد غامدی ہیں۔''

ہردوسرا دانشور یہ پیش پا افتادہ تجویز پیش کرتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ اگر یہ دانشور دینی مدارس کا نصاب کبھی غور سے دیکھ لیتے اور پھر اس کے متعلق سفارشات پیش کرتے۔ یہ'دیگر مضامین' کیا ہیں جنہیں وہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی طرف سے کبھی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ شفقت صاحب کے ذہن میں نجانے وہ کون سی'وسیع معلومات'ہیںجو ان کے خیال میں دینی مدارس کے طلبا کو جاننا چاہئے۔اُنہیں چاہئے کہ کبھی وہ کسی میڈیکل کالج کادورہ کریں اور ان کے طلباء سے 'حالاتِ حاضرہ'اور دنیا کے بارے میں 'وسیع معلومات' جاننے کی کوشش کریں،انہیں بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ میڈیسن کے علاوہ وہ دیگر معلومات کس حد تک رکھتے ہیں۔ہم نے تو بارہا یہ مشاہدہ کیا ہے کہ انہیں یہ 'معلومات' جاننے کا شوق ہے، نہ ان کے پاس وقت ہے۔ اصل میں یہ ساری سطحی باتیں ہیں۔نائن الیون کے واقعہ کے ذمہ دار جن ۱۹ عرب نوجوانوں کے نام سامنے آئے تھے، ان میں سے کئی ایک انجینئر اور ڈاکٹر تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی دینی مدارس سے فارغ التحصیل نہیں تھا۔ وہ دنیا کے بارے میں شاید ایک عام پاکستانی سے بھی زیادہ جانتے تھے۔یہ ہمارے دانشور ہی اس کی تاویل پیش کریںکہ وہ دہشت گردی کی طرف مائل کیوں ہوئے؟

نجانے شفقت محمود صاحب نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ جاوید احمدغامدی اُسی 'مخلوط تعلیم' کا بہترین نمونہ ہیں، جس کا نقشہ ان کے ذہن میں ہے۔ہمارے خیال میں انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔جاوید غامدی صاحب تو گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجویٹ ہیں، وہ کبھی کسی دینی مدرسے میں داخل نہیں ہوئے۔ دین کے بارے میں ان کا مبلغ علم ان کے ذاتی مطالعے اور مولانا امین احسن اصلاحی سے جزوقتی استفادے کانتیجہ ہے۔ شفقت صاحب سے ہماری گذارش ہے کہ اپنے کالموں میںاس طرح بے پر کی اُڑا کر اپنے بارے میں تاثر کو خراب نہ کریں۔

ہمارے سیکولر دانشور طبقہ علما کے بارے میں شدید نفرت کے جذبات رکھتے ہیں۔اُنہوں نے ہمیشہ ڈرائنگ روم اور کانفرنسوں میں دینی مدارس کو تنقید کانشانہ بنایا ہے۔اُنہوں نے کبھی کسی دینی مدرسے کو قریب سے جاننے کی زحمت گوارانہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس نے اپنے نصاب اور طریقۂ تعلیم میں خود ہی کافی تبدیلیاں کی ہیں۔ ان میں سے کثیر تعداد ایسے دینی مدارس کی ہے جہاں جدید مضامین بشمول انگریزی پڑھائے جاتے ہیں۔ راقم الحروف کو لاہور کے چند معروف دینی مدارس اور ان کے نظامِ تعلیم کے مشاہدے کا بارہا موقع ملا ہے۔ لاہور میں جامعہ اشرفیہ دیوبندی مسلک کا سب سے بڑاادارہ ہے۔ اسی طرح گارڈن ٹاؤن لاہور میں واقع جامعہ لاہور الاسلامیہ، اہل حدیث مکتب ِفکر کا سب سے بڑا مدرسہ ہے۔ بریلوی مکتب فکر میں جامعہ نعیمیہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان مدارس میں جدیدیت کو متعارف کرایا گیا ہے۔ مثلاً جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ایک وسیع کمپیوٹر لیب قائم ہے، انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں۔ یہاں طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ میٹرک کانصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سٹاف کالج اور نیپا میں گریڈ ۱۹ اور گریڈ۲۰ کے زیرتربیت افسروں کے گروپ متعدد مرتبہ اس معروف دینی درسگاہ کا وزٹ کرچکے ہیں۔ ان وفود کو ملٹی میڈیا پرجدید طریقے سے بریفنگ دی گئی۔ سرکاری افسر مدارس کے ایسے جدید نظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ اس طرح جامعہ اشرفیہ میں بھی زیرتربیت افسروں کے گروہ جاتے رہے ہیں۔

شفقت محمود صاحب خود بھی ڈی ایم جی افسر رہے ہیں۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ ان افسروں کی مرتب کردہ رپورٹ ضرور دیکھیں۔ جنرل (ر) جاوید حسن صاحب جوسٹاف کالج (اب سکول آف پبلک پالیسی) کے پرنسپل ہیں، اگر وہ دینی مدارس کے متعلق ان رپورٹوں کو شائع کرا دیں تو دانشور اور عوام دونوں کو اس کافائدہ ہوگا۔

ہم شفقت محمود صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ خود مذکورہ بالا مدارس میں دانشوروں کا وفد لے کر جائیں اور ان سے بریفنگ لیں۔ اس کے بعد پھر معروضی انداز میں اپنے نتائج فکر نئے سرے سے مرتب کریں۔ ان کاموجودہ تجزیہ ساقط الاعتبار ہے۔