قادیانیوں کا' مسلمان' کہلانے پر اصرار!
قادیانی جماعت کی سپریم کونسل کے ڈائریکٹر مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہ1کو آخری نبی مانتے ہیں اور قرآن و حدیث پر عمل کو اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن ۱۹۷۴ء میں نام نہاد پارلیمنٹ اور نام نہاد صدر نے ہمیں آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے کر بڑی زیادتی کی۔ بھٹو نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا جبکہ ضیاء الحق نے۱۹۸۴ء میںپابندی لگا کر اسے عروج تک پہنچا دیا۔ گڑھی شاہو کی عبادت گاہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ
''کوئی مانے، نہ مانے، ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور یہ حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تمام احمدی محب ِوطن ہیں اور اُنہوں نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دوسری طرف کلمہ طیبہ پڑھنے اور السلام علیکم کہنے پر ہمیں سالوں کی سزائیں سنائی گئیں۔مرزا غلام احمدنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان دینے نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ قرآنِ مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اقلیت نہیںبلکہ مسلمان ہیں اور حضرت محمد1 کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیںکہ وہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔'' (نوائے وقت:۳۱؍ مئی ۲۰۱۰ئ)
نوائے وقت نے بجا طور پر قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کے اس بیان کو 'عجیب و غریب دعویٰ ' قرار دیا ہے۔ یہ بیان ایک آئینہ ہے جس میں قادیانیوں کی حقیقی سوچ کا واضح عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ قادیانی کی اقلیت کی یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ان کے لیے مسائل پیدا کئے ہیں اور وہ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیںکرسکے۔ان کی اس غلط اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ نے پاکستان کے مسلمانوں اور حکومت کو بھی شدید آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ جب تک وہ اس سوچ کو نہیں بدلتے، موجودہ صورتِ حال میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس صور ت حال کے پیدا ہونے میں زیادہ تر کردار قادیانیوں نے ادا کیا ہے، لیکن وہ ہمیشہ سے مسلمانوں کو الزام دیتے آئے ہیں کہ وہ ان پربہت ظلم کررہے ہیں۔
؎ ایں ہمہ آوردۂ تست
۱۹۷۴ء میںپارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا، قادیانی اسے 'بڑی زیادتی' سمجھتے ہیں۔ ہماری رائے میںاس فیصلے کو 'زیادتی' قرار دینا ہی سب سے بڑی زیادتی ہے۔ قادیانی ملت کے بانی مرزا غلام احمد کی تحریریں، کتابیں، اِلہامات، بیانات، اِلزامات اور دعوے اور پھر اُس کے نام نہاد خلفا کے عقائد و بیانات اگر جعلی اور خود ساختہ نہیں ہیں، تو پھر تو قادیانیوں کو 'مسلمان' سمجھنے والوں کو اپنے آپ کو 'غیر مسلم' قرار دیئے بغیر چارہ نہیں تھا۔یا تو قادیانی 'مسلمان' ہیں یا پھر وہ لوگ جو مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت پر یقین نہیںرکھتے، وہ مسلمان ہیں۔ یہ دونوں بیک وقت مسلمان نہیں ہوسکتے۔ آخر دنیا کی کون سی منطق اور عقلی دلیل ہے جو اسلام کی اصل تعلیمات اور قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے اربوں مسلمانوں کو محض اس بنا پر 'غیر مسلم' قرار دے کہ وہ ایک جھوٹی نبوت کے دعویدار کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ کیا یورپ کے عیسائیوں نے نئے فرقے' ہارمن' کے اس دعوے کو تسلیم کرلیاتھاکہ ''جوزف سمتھ کوبھی نبی ماننے والے تو حق پر ہیں اور صحیح معنوں میں عیسائی ہیں، مگر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سچے عیسائی نہیںہیں کیونکہ وہ جوزف سمتھ کو نبی نہیں مانتے، نہ ہی اس کی تعلیمات پرایمان رکھتے ہیں۔''
پریس کانفرنس میں عجیب وغریب دعوے کرنے والے قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کیا اس بات کی تردید کرسکتے ہیں کہ ان کے 'مسیح موعود' اور' ظلّی بروزی نبوت کے مدعی' کاذب نے بارہا تحریر کیا تھا کہ ان کو نہ ماننے والے 'کنجریوں کی اولاد' ہیں۔ (نقل کفر، کفر نہ باشد)
جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی 'بڑی زیادتی' کا رونا روتے ہیں اوراپنے آپ کو بہت بڑا مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں تو اُنہیں ان ننگے اور ناقابل تردید حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کے مرزا غلام احمد جس پارلیمنٹ کو 'نام نہاد' کہتے ہیں، وہ مذہبی جماعتوں کے ارکان پر مبنی نہیں تھی۔اس پارلیمنٹ میںاکثریت پیپلزپارٹی سے وابستہ ارکان کی تھی جنہوں نے سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دے رکھا تھا۔ اِن میں سے بہت سے تو ایسے ارکان تھے جو جانے پہچانے مارکسسٹ اورکیمونسٹ تھے۔پیپلزپارٹی کی قیادت بشمول ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر ارکانِ اسمبلی، سب کادعویٰ تھاکہ وہ لبرل، ترقی پسند اور سیکولر ہیں۔
حکومت کی طرف سے اُس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے پارلیمنٹ کے سامنے دلائل دیئے تھے۔ یہ معاملہ کئی ہفتے جاری رہا تھا۔ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد اور اس کے تین دیگر ساتھیوں کوبھرپور موقع دیا گیا کہ وہ اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کریں۔مرزا ناصر احمد نے بہت پہلو بچانے کی کوشش کی مگر وہ اس سوال کاجواب پیش نہ کرسکے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نہ ماننے والے 'کافر' کیونکر ہیں؟ آج کے قادیانیوں کو یہ بات پیش نظر ضرور رکھنی چاہئے کہ کوئی کتنا بھی لبرل یاگناہگار مسلمان ہو، وہ یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ ایک قادیانی تو بزعم خویش 'مسلمان' ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرے مسلمانوں کو 'مسلمان' تسلیم نہ کرے۔
مرزا غلام احمد نے پریس کانفرنس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کو اس لیے 'بڑی زیادتی' کہا ہے کہ قادیانی قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہ1 کو آخری نبی مانتے ہیں۔ بادی النظر یہ دلیل بڑی وزنی دکھائی دیتی ہے۔اگر قادیانیوں کی اس دلیل اور دعویٰ کا اعتبار کرلیا جائے تو پھر یقین کرنا پڑے گا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کے ارکان انتہائی متعصب، ظالم اور جھوٹے لوگ تھے۔ عام آدمی یہی سمجھے گا کہ اُنہوں نے''قرآن کو آخری کتاب اور نبی اکرم1 کو آخری نبی ماننے والوں'' کو خوا مخواہ غیر مسلم قرار دے دیا۔ اگر حقیقت یہی کچھ ہوتی تو آج ہم بھی مان لیتے، مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔
یہ محض تلبیس کوشی، دھوکہ، فریب اور لفظی بازی گری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی حضرت محمد1 کو اس طرح آخری نبی نہیںمانتے جس طرح کہ عام مسلمان ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔ قادیانی مرزاغلام احمد آف قادیان کو بھی 'محمد' اور'احمد' سمجھتے ہیں اور اس کی 'نبوت' کو حضرت محمد 1 کی نبوت کا ظل و بروز (سایہ اور عکس) قرار دیتے ہیں۔مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق خاتم الانبیا حضرت محمد1 کے بعد کوئی بھی شخص 'ان کی طرح' ہوسکتا ہے، نہ ان کی نبوت کا 'ظل وبروز' ہونے کادعویٰ کرسکتا ہے۔ ایسا دعویٰ اگر کوئی کرے گا تو اس کے جھوٹا اور مرتد ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ڈائریکٹر بتائیں کہ کیا وہ مرزا غلام احمد آف قادیان کی ظلی و بروزی نبوت پر ایمان نہیںرکھتے؟ مزید برآں ہمیں وہ سمجھائیں کہ ایک قادیانی شاعر کے ان اشعار کا مطلب کیا ہے؟
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
رہی بات قرآنِ مجید کو آخری کتاب ماننے کی۔ یہ دعویٰ بھی ناقابل اعتبار ہے، کیونکہ قادیانیوں نے قرآنِ مجید کی آیاتِ مبارکہ کی تفسیر کرنے میں جس طرح کی تحریف سے کام لیا ہے ، وہ ان کے کافر ہونے کے لیے کافی دلیل ہے۔ لہٰذا قادیانیوں کا قرآنِ مجید کو آخری کتاب ماننے کا دعویٰ بے معنی ہے، جب تک وہ مرزاغلام احمد کی خرافات اور گمراہ کن تعلیمات سے انکار نہیںکرتے، یہ تعلیمات صریحاً کفر پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاںبہت سارے لوگ قادیانیوں کی اس تلبیس کوشی کا شکار ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں سے ہمدردی جتانا شروع کردیتے ہیں۔جس شخص نے قادیانیوں کی کتابوں اور ان کے لٹریچر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو، وہ اس طرح کی غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا۔ کوئی آدمی اگر قرآن مجید کو آخری کتاب اور سید الانبیا حضرت محمد1کو آخری نبی مانتا ہے، تو یہ ممکن نہیںہے کہ وہ مرزا غلام احمد کو مسیح موعود یا ظل و بروزی نبی سمجھے۔ یہ دونوںدعوے ایک وقت میں نہیں کئے جاسکتے!!
لہٰذا یہ بات مسلّم ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیئے جانے کا آئینی فیصلہ ہر اعتبار سے درست تھا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کوبہت پہلے کردینا چاہئے تھا۔ علامہ اقبال نے تو ۱۹۳۵ء میں اپنے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ اُنہوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ قادیانیوں کو بھی سکھوں کی طرح الگ گروہ قرار دے۔ علامہ اقبال نے دو مفصل مضامین تحریر کئے تھے اور بھرپور استدلال کے ذریعے اور فلسفیانہ اُصولوں کی روشنی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ قادیانی تو پہلے دن سے غیرمسلم تھے، ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے تو محض رسمی کارروائی کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مخالف بھی اُن کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں اور اُنہیںخراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
قادیانی ڈائریکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کوئی مانے، نہ مانے، ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم بھی اپنی رائے کے اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی قادیانی مانے یا نہ مانے، وہ مسلمان نہیںہوسکتا جب تک کہ ان عقائد اور تعلیمات کو نہ اپنا لے جو کسی کے مسلمان ہونے کے لیے بنیادی شرائط کا درجہ رکھتے ہیں۔ قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کاظلی و بروزی نبوت کانظریہ ایک گورکھ دھندہ ہے اور خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر وہ واقعی خلوصِ دل سے مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو اُنہیں دین اسلام میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا اور قادیانیت کی عینک اتار کر قرآن و سنت کی تعلیمات کامطالعہ کرنا ہوگا۔ یہ 'خدائی حق' کا خود ساختہ تصور اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قرونِ وسطیٰ کی پاپائیت اور بادشاہوں کے 'خدائی حقوق' کا تصور۔ یہ محض طفل تسلی ہے اور حقائق سے فرار کی ایک صورت، ورنہ اس طریقہ سے زبردستی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے، عیسائی نہ یہودی۔ کسی بھی الہامی مذہب کاپیروکار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب کی مکمل تعلیمات پرایمان لایاجائے۔ ابھی چند ماہ پہلے مرزا ناصر احمد کے ایک پوتے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام لے آئے ہیں۔ دیگر قادیانی بھی اگر'مسلمان' کہلانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے۔ خود ساختہ و مزعومہ 'خدائی حقوق' کی سرنگ Tunnel سے گزر کر وہ اسلام کے صراطِ مستقیم تک نہیں آسکتے۔
مرزا غلام احمد کے بیان کا وہ حصہ سخت قابل اعتراض ہے جس میں اُنہوں نے کہا:
''ہم اقلیت نہیں، مسلمان ہیں۔ حضرت محمد1 کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔''
یہ بیان آئین پاکستان سے صریحاً بغاوت ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اگر آج کوئی قادیانی یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اقلیتی کمیونٹی کارکن نہیں، بلکہ اکثریتی جماعت یعنی مسلمانوں کی جماعت میںسے ہے، تو اس کا اعلان غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے۔ قادیانیوں کی سوچ اور طرزِ عمل بے حد افسوس ناک ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی ہے۔ قادیانیوں کی یہی وہ ضد ہے جوبالآخر فساد اور تصادم پر منتج ہوتی ہے۔ جب ان کے بارے میں مسلمانوں کی یہ متفقہ اور سوچی سمجھی رائے کہ وہ 'مسلمان ' نہیں ہیں تو پھر وہ ' مسلمان' کہلانے پربضد کیوں ہیں؟ جومسلمان اس معاملے کے متعلق شدید حساس واقع ہوئے ہیں، اس طرح کی باتیں سن کر ان کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی قادیانیوں کو یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ 'مسلمان' ہونے کا اس طرح علیٰ الاعلان ڈھنڈورا پیٹیں۔ جب ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ''کسی کی مجال نہیں'' تو فریقِ مخالف بھی رد عمل ظاہرکرسکتا ہے، اچھا تو مجال کی بات کرتے ہو، تم مسلمان ہو کے دکھاؤ۔'' قادیانی ڈائریکٹر کا یہ لب و لہجہ کسی 'مظلوم اقلیت' کے نمائندے کا اُسلوب نہیں ہوسکتا۔
حضرت محمد1کے غلام ہونے کادعویٰ بھی محل نظر ہے۔ قادیانی کے مرزا غلام احمد کا غلام کبھی بھی والی ٔمدینہ کا غلام نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایک مسلمان مرزا غلام احمد کاغلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح کوئی قادیانی محمدعربی1 کا سچا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ محض سخن سازی اور فریب دہی ہے اور کوئی مسلمان یہ فریب کھانے کو تیار نہیں ہے۔ جب یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں تو پھر قادیانی کس کو دھوکہ دیتے ہیں۔اپنے آپ کو یا کسی اور کو؟ اُنہیں ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا چاہیے۔
جہاں تک ان سے حق چھین لینے کی بات ہے، یہ بھی مغالطہ آمیز ہے۔ جب اُنہوں نے اپنی مرضی اور خوش دلی سے مرزا غلام احمد کاغلام بننا قبول کرلیاہے، تو پھر ان کے پاس کوئی مسلمانیت کا'حق' رہ ہی نہیں جاتا جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ محمد1 عربی کے غلام ہونے کا دعویٰ کرسکیں۔حق بغیر استحقاق کے متعین نہیںہوتا۔ قادیانی اس طرح کا کوئی استحقاق سرے سے رکھتے ہی نہیں ہیںتو پھر یہ مبارزتِ طلبی کا انداز کیونکر اپناتے ہیں؟
وہ پاکستان کے شہری ہیں اوربطورِ شہری اُنہیںتمام حقوق حاصل ہیں۔مگر محمد1 عربی کی غلامی کا حق حاصل کرنے کے لیے ریاست کی شہریت کا حصول ہی کافی نہیںہے۔ یہ ایمان و یقین اور عقیدے کا معاملہ ہے، اس کا فیصلہ شہری حقوق کی میزان میں نہیں، بلکہ ایمان بالرسالت اور ختم نبوت کے معروف معیاراور میزان کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ قادیانی اطمینان رکھیں کہ وہ اقلیت تھے، اقلیت ہیں اور اقلیت رہیں گے۔ وہ خوامخواہ 'مسلمان' ہونے کی ضد نہ کریں، کیونکہ اس طرح کی باتوں کا فائدہ کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ اس طرح کے دعوے کرتے رہیںگے تو صورتِ حال کے بگڑنے کے خدشات ہیں۔ ہمارے دانشور جو قادیانیوں کے مظلوم ہونے کے پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہیں، اُنہیں مرزا غلام احمد کے مذکورہ بالا بیان کے اُسلوب پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
مرزا غلام احمدنے شکایت کی ہے کہ قادیانی مسجد کو مسجدنہیں کہہ سکتے، اُنہیں اذان دینے نہیں دی جاتی۔حتیٰ کہ قرآنِ مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہیں توپھر یہ سب شکایتیں بلا جواز ہیں۔مساجد اور اذان تو شعائر ِاسلام ہیں۔یہ مسلمانوں کی ثقافت اور دین کی پہچان ہیں۔ قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہون کو 'مساجد' کہنے اور 'اذان' دینے کی اجازت نہیں دی جاتی تو اس میں احتجاج کی کیا گنجائش ہے۔ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ اپنی عبادت گاہوں کو 'مساجد' کہیں اور ان میںمسلمانوں کی طرح 'اذانیں' دیں۔ وہ ایسا اس لیے چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کودھوکے میںمبتلا کرسکیں۔ وہ پوری دنیا میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر تبلیغ کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر'اسلام' بھی لے آتے ہیں مگر اُنہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ 'قادیانیت' کو اسلام سمجھ کر اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے جو وہ اسلام کانام استعمال کرکے انسانیت کو دے رہے ہیں۔
جب قادیانی ملت نے مسلمانوں سے اپنے جنازے تک الگ کرلیے تو اب وہ مسلمانوں کی طرح اذانیں دینے کی ضد کیوں کرتے ہیں۔ چوہدری ظفر اللہ قادیانی نے محمد علی جناح جیسے معتدل مزاج اور روشن خیال مسلمان کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھی تھی۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اُنہوں نے جواب دیا: ''آپ مجھے ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیر یا ایک غیر مسلم ریاست کامسلم وزیر سمجھ لیں۔''
اس طرح قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود سے ان کے ایک مرید نے سوال کیا کہ کسی غیر احمدی کااگر کوئی بچہ انتقال کرجائے توکیااس کی نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ اس کے جواب میں مرزا بشیرالدین محمود نے کہا: ''میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی یا ہندو کا بچہ فوت ہوجائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔'' اس طرح کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جب معروضی حقائق اس طرح کے ہوں تو 'مساجد' اور 'اذان' جیسے شعائر ِاسلام کو اپنانے کی خواہش رکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۱ء کے کالم میں تحریر کیا:
'''احمدی' اور مسلمانوں میںجو چیز وجۂ نزاع بنی وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی 'نبوت' کے علاوہ اس نومولود مذہب کی طرف سے مسلمانوں کی اس تمام 'ٹرمینالوجی' پر قبضہ تھا جوبزرگانِ دین اور مقاماتِ مقدسہ کے لیے مخصوص تھی۔ اپنے اصل مقاصد پرپردہ ڈالنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو ایسا 'نبی' قرار دیا جو اپنی شریعت نہیں لایا تھا، بلکہ حضور1 ہی کی شریعت کو نافذ کرنے کا دعویدار تھا۔چنانچہ موصوف نے ظلی بروزی کی بحث بھی چھیڑی، خود کو احمد (1) کا غلام ہی قرار دیا۔ لیکن ان کے 'صحابی' اس قسم کے شعر بھی کہتے رہے:
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
مرزا غلام احمد نے کہا ہے کہ ''تمام احمدی محب وطن ہیں''۔ نجانے 'محب ِوطن' ہونے سے ان کی مراد کیا ہے؟ آخر یہ کیسی 'حب الوطنی' ہے جو قادیانیوں کو اسرائیل میں اپنا مشن قائم کرنے سے باز نہیں رکھتی۔ کیا قادیانی ڈائریکٹر اسرائیل میں قادیانی مشن کی موجودگی کی تردید کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس 'حب الوطنی' کاڈھنڈور ا پیٹنے کا کیا فائدہ ہے؟
مرزا غلام احمد کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ طیبہ پڑھنے اور 'السلام علیکم' کہنے پر قادیانیوں کو سالوں کی سزائیں سنائی گئیں۔ ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ وہ غیر مسلم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے کلمہ طیبہ پڑھنے اور 'السلام علیکم' کہنے میں اس قدر دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟ اگر ان کے'نبی' نے اپنی 'امت' کے لیے کوئی کلمہ ایجاد نہیں کیاتھا تو وہ خود اسے ایجاد کرلیں۔ ہمارے بعض مسلمان بھی جو قادیانی ذہنیت سے کماحقہ آگاہ نہیںہیں، وہ بھی خیال کرتے ہیں کہ اگر قادیانی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو پڑھنے دیں۔ وہ دراصل بہت سادہ لوح واقع ہوئے ہیں۔ اُنہیں جان لینے کی ضرورت ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی ظلی و بروزی نبوت پر ایمان لانے کے بعد ان کے پیروکار'محمدرسول اللہ' میں ظلی و بروزی نبی کا تصور ذہن میں رکھتے ہیں۔ کیا اس بد خیالی کے ساتھ قادیانیوں کو مسلمانوں کا کلمہ پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
قادیانی ڈائریکٹر کی پریس کانفرنس کی تفصیلات پڑھ کر ایک عام مسلمان پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء کو قادیانیوں کی عبادت گاہوں میںہونے والی دہشت گردی کو قادیانی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔بلا شبہ یہ انتہائی گھناؤنی واردات تھی۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کو 'جہاد' کا نام دیتا ہے تو اس کا دعویٰ اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قادیانیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ مسلمان ہیں، اقلیت نہیں۔ اسلامی شریعت کی رو سے مسلم ریاست مسلمان اور غیر مسلم اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔اس بارے میں کسی تفریق اور امتیاز کو روا رکھنا درست نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے قادیانیوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو ہولناک دہشت گردی اور انہیں عمومی ہلاکت کانشانہ بنایا جائے۔
یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہئے کہ علماے دین نے قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرکے ان کو جان سے مار دینے کی حمایت کبھی نہیںکی۔ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں اپنی فطری موت مرا، حالانکہ ۱۸۹۲ء میں دو سو علماے کرام نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا تھا۔ اس کے بعد اس کے خلفا بھی اپنی موت مرے، اُنہیں کسی نے قتل نہیں کیا۔پرویز مشرف کے دورمیں قادیانیوں کو بے جا مراعات حاصل رہیں مگر ان کی عبادت گاہوں پرایسے حملے نہ ہوئے۔ غرض اس طرح کی کارروائی قابل مذمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی ہے۔ مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ قادیانی اس ہمدردی کی لہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کو واپس لینے کی تحریک شروع کردیں اور اپنے 'مسلمان' ہونے کا اعلان کرتے پھریں۔ اس کا ردّعمل سامنے آسکتاہے اور ممکن ہے کہ قادیانی اس ہمدردی سے بھی اپنے آپ کو محروم کردیں جو اُنہیں مظلوم ہونے کے ناطے آج ہرطرف سے مل رہی ہے!!
(محمد عطاء اللہ صدیقی)