توہین رسالت کے خلاف ردِعمل کو مؤثرکیسے بنایا جائے ؟



اس حقیقت سے ہر مسلمان اور ہر پاکستانی واقف ہے کہ امریکہ اور یورپ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اگرچہ ہم مغرب کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر، اس کی غالب فکر و تہذیب سے مرعوب ہوکر، اس کی زبردست پروپیگنڈا مشینری سے متاثرہو کر، بین الاقوامی سطح کے سیاسی پلیٹ فارموںپر 'ڈپلومیٹک' (یعنی منافقانہ) انداز اختیار کرتے ہوئے اور گلوبلائیزیشن اور مذاہب و تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے علمی پلیٹ فارموں پر معروضی انداز اختیار کرنے کے زعم میں بالعموم اس کا اظہار نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے۔

اور یہ بات آج کی نہیں، صدیوں پرانی ہے بلکہ مغربی تہذیب کا خمار اُٹھا ہی اسلام اور مسلمان دشمنی پر ہے۔ جب ۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر لیا اور مشرقی رومن کیتھولک ہیڈ کوارٹر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو وہاں سے نکلنے والے عیسائی پادریوں نے سارے یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں سے آگ لگا دی اور اس سے یورپ کی نشأۃِ ثانیہ نے تحریک پکڑی۔ متحدہ یورپ کی طرف سے شروع کردہ صلیبی جنگیں بھی اسی کا مظہر تھیںاور یہ بھی اسی کا شاخسانہ تھا کہ یورپ نے مسلمانوں کو باہم لڑانے کے لئے سازشیں کیں اور اُنہیں کمزور کر کے اپنی برتر فوجی قوت سے بہیمیت سے کچلا اوراُن کے ملکوں پر قبضہ کرلیا۔ پھر مسلم تہذیب کی ایک ہزار سالہ خوشحالی سے جمع کردہ مسلمانوں کی دولت اور مادی وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور ان سے سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دے کراپنے رخساروں کی لالی میں اضافہ کیا۔

بیسویں صدی کے وسط میں باہم دو عظیم جنگوں سے جب یورپ کمزور ہوگیا تو اسے مجبوراً مسلم ملکوں کو آزادی دینا پڑی۔ اس ادھوری اور نام نہاد آزادی کے بعد بھی امریکہ و یورپ کی مسلمان ملکوں کے خلاف پُر امن سازشیں اور پلاننگ جاری رہی اور وہ اُنہیں سیاسی، معاشی، دفاعی، تعلیمی غرض ہر لحاظ سے پیچھے رکھنے کے لئے کامیاب کوششیں کرتے رہے۔ان سازشوں کے باوجود جب چند مسلم ممالک بطورِ استثنیٰ کچھ بہتر حالت میں آگئے (جیسے پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا، ملائشیا اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا، عراق دفاعی طور پر مضبوط ہوگیا، افغانستان نے اسلامی حکومت کی طرف پیش قدمی کی) تو امریکہ نے یورپ کو ساتھ ملاکر حیلے بہانے سے پہلے عراق کو برباد کیا، پھر افغانستان کو تہہ و بالا کیا اور اب پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں اور ایران پر بھی مستقل دبائو جاری ہے۔

اس ساری صورتِ حال کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے سوائے اس کے کہ امریکہ و یورپ اسلام کے بدخواہ اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔نائن الیون کا واقعہ سی آئی اے اور موساد کی ایک وسیع الاطراف سازش تھی جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ مسلمان ممالک پر حملہ کر دیا جائے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ مغربی رائے عامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کردیا جائے تاکہ اہل مغرب ان مسلمانوں سے اور ان کے دین سے نفرت کرنے لگیں جو وہاںمقیم ہیں۔ اوریوں اُنہیں اسلام اور مسلمانوں سے دور رکھا جاسکے تاکہ وہ اسلام قبول نہ کریں۔ اِس مہم کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے کم نظراَدیبوں، صحافیوںاور دانشوروں نے اسلام اور مسلم دشمن کاروائیاں شروع کردیں۔ نبی کریم 1 کے خلاف ہرزہ سرائی اور آپؐ کی سیرت کو بگاڑ کر پیش کرنے کا کام تو وہ صدیوں سے کرتے آرہے تھے۔ اب تازہ حالات میں اُنہیں نئی کمک ملی تو وہ پیغمبر اسلام(1) کے اخبارات و انٹر نیٹ پر کارٹون بنانے لگے، فلمیںبنانے اور مضامین لکھنے لگے اوریوں مسلمانوں کو مشتعل کرکے اور اُن کا مذاق اُڑا کر اپنی حسِ باطل کو تسکین دینے لگے۔

اس کے ساتھ ساتھ مغربی حکومتوں نے اپنے اسلام دشمن اقدامات الگ جاری رکھے جیسے فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابندی اور سوئٹزرلینڈمیں مسجد کے میناروں پر پابندی ...وغیرہ

سوال یہ ہے کہ مسلمان اس صورتِ حال سے کس طرح مؤثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں کہ اہل مغرب اپنی کمینی حرکتوں سے باز آجائیںاور اُنہیں احساس ہو جائے کہ وہ غلط کر رہے ہیںاور ان کے اقدام سے کروڑوں مسلمانوں کے دل چھلنی ہور ہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم عرض کریں گے کہ مسلمان اہل مغرب کی طرف سے توہین رسالتؐ کا جواب دینے کے لئے دو طرح کے اقدامات کر سکتے ہیں: ایک فوری نوعیت کے اقدامات اور دوسرے دیرپا اور دور رَس اثرات رکھنے والے اقدامات۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدامات اس مخصوص تناظراور ماحول میں ہی تجویز کئے جا رہے ہیں جس کی جدید ریاستوں میں مسلمانوں کے پاس گنجائش موجود ہے، باقی اقدامات علمی یا نظریاتی حیثیت رکھتے ہیں۔ [درحقیقت اس صورتحال کا کلی خاتمہ تواس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اُمت ِمسلمہ اپنی ہمہ جہتی قوت سے اپنے مخالفوں کے دل میں رعب طاری نہ کردے۔ دنیا میں پر امن بقاے باہمی ملی قوت اور زورِ بازو سے ہی مل سکتی ہے اور جرمِ ضعیفی کی سزا یہی ہے جو ملت ِ اسلامیہ آج بھگت رہی ہے۔]

فوری سد ِباب کے مراحل:فوری اقدام کے طور پر جو احتجاج کیا جائے، اس کے خدو خال یہ ہونے چاہئیں:a عوامی احتجاج، جس میں تین خصوصیات ہوں:

احتجاج میں لاکھوں افراد شریک ہوں یہ پُرامن ہو  یہ عالمی سطح کاہو

b حکومتی سطح پر احتجاج c استغفار

Aعوامی احتجاج

مغرب کی طر ف سے توہین رسالت کے جواب میں بھرپور عوامی احتجاج ہونا چاہئے، لیکن اس احتجاج کے مؤثر ہونے کی تین شرائط ہیں:

a اہل مغرب کی طرف سے توہین رسالتؐ کے اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے عوامی سطح پر بڑے بڑے اور پُر امن مظاہرے ہونے چاہئیںجن میں لاکھوں افراد شریک ہوںاور جن کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر پبلسٹی کا بھرپور انتظام ہو۔پاکستان میں اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ سارے دینی عناصریکجا اور متحد ہوجائیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر جماعت اور تنظیم اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے چند سو کی تعداد میں سڑکوں پر نکلتی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی ریلیاں ایک طرف عالمی سطح پر (یاد ر ہے کہ یہ کوئی مقامی مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کامسئلہ ہے اور ہمیں اس طرح سے احتجاج کرنا ہے جس کے اثرات یورپ و امریکہ تک پہنچیں) کوئی اچھاتاثر نہیں چھوڑتیں۔(اگرچہ نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہیں، لیکن یورپ و امریکہ میں دیکھئے، مثلاً عراق پر امریکی حملے کے خلاف وہاں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے) دوسری طرف یہ ہمارا پول کھولتی ہیں کہ ہم اپنے نبی مکرم(1) کے ناموس کے لئے بھی متحد نہیں ہوسکتے اور ہر چھوٹی بڑی جماعت کو اپنا تشخص اور اپنا نام اتنا عزیزہے (یعنی ناموسِ رسالت سے بڑھ کر عزیزہے) کہ وہ اس مقصد کے لئے بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے اوّلاً تو یہ ضروری ہے کہ ساری قوم اور ساری تنظیمیں؍ جماعتیں ؍ تحریکیں اور اِدارے مل کراس مقصد سے ایک مشترکہ تنظیم بنا لیں اور اس مقصد سے بنائی گئی موجودہ تنظیمیں باہم مدغم ہو کر ایک بڑی تنظیم بن جائیں یا کم از کم وہ اشتراکِ عمل ہی کرلیں۔ لیکن اگر ہم یہ نہیں کرتے تو اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہمیں ناموسِ رسالت کے مقابلے میںاپنی تنظیم، جماعت اور اپنے مسلک کا تشخص زیادہ عزیز ہے۔ العیاذ باللہ!

ہمیں یادہے کہ ماضی میں بعض سیاسی جماعتوں کی دیکھا دیکھی بعض دینی جماعتوں نے بھی اپنی قوت کے اظہار کے لئے ملین مارچ کئے تھے۔ ہم کہتے ہیںکہ ہمیں اس سوال کا سامنا کرنا چاہئے کہ کیا ہمیں اپنی جماعت کی ساکھ نبی کریم 1 کی حرمت سے بھی زیادہ عزیز ہے کہ ہم اپنی سیاسی ساکھ کے لئے تو ملین مارچ کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن اس پیغمبر کی بے حرمتی ہو جس سے محبت ہمارا جزوِ ایمان ہے تو اس کے لئے ہم چند سو افراد کی ریلی نکال کر مطمئن ہوجائیں؟ ہم تو کہتے ہیں کہ اس کے لئے ساری قوم کو متحد ہو کر نکلنا چاہئے جس طرح کہ ماضی میں شانِ اسلام کا جلوس نکلا تھا۔

b یہ بھی ضروری ہے کہ یہ احتجاج پُر اَمن ہو۔ ٹریفک کے اشارے توڑنا، گاڑیوں پر پتھرائو کرنا، دکانوں، بنکوں اور اقوامِ متحدہ و مغربی ممالک سے متعلق دیگر عمارات کو آگ لگانایا متعلقہ ممالک کے پرچم یا پتلے جلانا... جیسے اقدامات احمقانہ ہیں کیوں کہ ہم ان سے نہ صرف اپنا مالی نقصان کرتے ہیں بلکہ اہل مغرب کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ہم واقعی تشدد پسند ہیں۔ پھر ہر صاحب ِنظر جانتا ہے کہ عوامی تحریکیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیںجب وہ پُر امن ہوں۔ جو تحریک تشدد پر اُتر آئے وہ ناکام ہوجاتی ہے، کیونکہ ریاست کو اسے کچلنے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔پاکستان میں حال ہی میں کامیاب ہونے والی وکلا تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

c اہل مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف احتجاج مقامی یا ملکی سطح کا نہیں بلکہ عالمی سطح کا ہونا چاہئے۔ یہ عالم اسلام کے ہر ملک میں ہونا چاہئے اور ان ملکوں میں بھی ہونا چاہئے جہاں مسلمان اقلیت میںہیں، کیونکہ ایک مسلمان جہاں بھی ہوجب اس کے رسول مکرم (1) کی توہین ہوگی تو اس کا دل دکھے گا۔ کسی ایک یا دو ملکوں میں احتجاج ہونا بے معنی بھی ہے اور بے تکا بھی جسے غیر مسلم دنیا نہیں سمجھ سکے گی، کیونکہ اگر مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین ہوئی ہو تو یہ ہر مسلمان کا اور ہر مسلمان ملک کا مسئلہ ہونا چاہئے نہ کہ محض کسی ایک یا دو ملکوں کا۔ مثلاً حال ہی میں فیس بک پر کارٹون بنانے کے مقابلے کا اعلان ہوا تو احتجاج صرف پاکستان میں ہوا یا تھوڑا بہت بنگلہ دیش میں، عالمی سطح پر یہ احتجاج بہرحال اپنے اثرات کے حوالے سے زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا، کیونکہ دوسرے مسلم ممالک اس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ بلکہ اس سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر لازماً دنیا تک پہنچا ہوگاکہ یہاں کے عوام دوسروںسے زیادہ جذباتی اور' انتہا پسند' ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عالم اسلام میں عوامی سطح پر رابطے اور تعاون کی جو دو تنظیمیں تھیں، وہ دونوں غیر فعال ہوچکی ہیں۔ ہماری مراد مؤتمر عالم اسلامی اور رابطہ عالم اسلامی سے ہے۔ لہٰذا اب مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہا کہ وہ ایک نئی تنظیم بنائیں۔ اس کی فطری صورت تو یہی ہے کہ پہلے پاکستان میں ایک ایسی 'تحریک حرمت ِرسول1' بنے جس میں یہاں کے سارے دینی اور شہری عناصر شریک ہوں۔ پھر یہ تحریک دوسرے مسلم ممالک کی دینی تحریکوں اور اسلامی عناصر سے رابطہ کرے اور اس طرح ہر مسلمان ملک میں ایک تحریک حرمت ِرسول1 وجود میں آجائے۔ پھر ان ساری حرمت تحریکوں کا ایک ہیڈ آفس بنا دیا جائے۔ اس طرح سارے مسلم ممالک کی تحریک ہائے حرمت رسول1 کا ایک نیٹ ورک وجود میں آجائے۔ اس نیٹ ورک کو ان ممالک میں بھی پھیلا دیا جائے جہاں مسلمان بڑی اقلیتوں کی صورت میں ہیں۔ یہ نیٹ ورک اگر بن جائے اور ایک عالمی تحریک حرمت ِرسول1 وجود میں آجائے جس کی ایک کال پر ساری دنیا میں توہین رسالت کے خلاف احتجاج منظم ہوجائے تو پھر یہ احتجاج ان شاء اللہ مؤثر بھی ہوگا۔

Bحکومتی سطح پر احتجاج

مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج کافی نہیں بلکہ مسلم حکومتوں کو بھی اس پر احتجاج کرنا چاہئے۔ مسلمان حکومتوں کی تنظیم او آئی سی کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے حالات میں فوراً حرکت میں آئے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ مسئلہ اُٹھائے۔ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلوائے اور اس سے پہلے دبائو بڑھانے کے لئے عالم اسلام کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلائے۔ اس کے سربراہی اجلاس میں اس مسئلے کو فوقیت دے۔ اُصولاً تو یہ سب ہوناچاہئے، لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ او آئی سی غیر فعال ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ گہری نیند میں ہے۔

اس کا سبب بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ کم وبیش تمام اسلامی ملکوں کے حکمران امریکہ و یورپ کے لے پالک اور گماشتے ہیں۔ ان کی حیثیت غلاموں کی سی ہے جو اپنے مالک کی مرضی کے خلاف گردن بھی نہیں ہلاسکتے۔ اس غلامی نے اُنہیں دینی حوالے سے بھی بے حمیت بنا دیاہے یہاں تک کہ وہ جس نبی 1 کا کلمہ پڑھتے ہیں اس کی توہین پر بھی امریکہ و یورپ سے شکایت نہیں کر سکتے۔ اسی ذہنی و سیاسی غلامی کا یہ بھی شاخسانہ ہے کہ اقوامِ متحدہ میں دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کی اور ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہاں تک کہ وہ سلامتی کونسل کے رکن بھی نہیں۔ ان حالات میںاب اس کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ ان مسلمان ملکوں کی دینی جماعتیں اور تنظیمیں متحد ہو کر اور بڑے بڑے مظاہرے کرتے ہوئے اپنی اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ متعلقہ مغربی ممالک سے اور اقوامِ متحدہ سے رسمی طور پر اور سرکاری سطح پر شدید احتجاج کریں۔

اُمت کے اہل فکر و تدبر اور دانشوروں کو اس پر بھی سوچنا چاہئے کہ مسلم اُمت میں عوام اور ان کے حکمرانوں کے درمیان بُعد کو کیسے ختم کیا جائے اور مسلم عوام اور حکمرانوں کو مغرب کی ذہنی، فکری، سیاسی اور معاشی غلامی سے کیسے نجات دلائی جائے؟ اس غرض سے مسلم اُمہ کو اپنے ہاں تحقیقی اِدارے اور تھنک ٹینک قائم کرنے چاہئیں تاکہ اُمت ِمسلمہ کے زوال سے نکلنے اور سر اُٹھا کر جینے کی حکمت ِعملی پر بحث و تحقیق اور منصوبہ بندی کا آغاز ہو سکے اور اس کے لئے ٹھوس لائحۂ عمل تیار کیا جا سکے۔

Cاستغفار و توبہ

نبی مکرم1 کی اِہانت ہم مسلمانوں کے لئے کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ بہت بڑا سانحہ اور مصیبت ہے اور یہ ہمارے گناہوں اور اللہ و رسول1 کے اَحکام کی نافرمانی اور معصیت کا نتیجہ ہے لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور کثرت سے استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے، توبہ کرنی چاہئے اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنی چاہئے۔جو دینی تحریکیں اور تنظیمیں حرمت ِرسول1 کے سلسلے میں جلسے جلوس نکالتی ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ جلسے جلوسوں میں درود شریف پڑھنے کے ساتھ استغفارکی رغبت بھی دلائیں اور احساسِ توبہ کو اُجاگر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو احساس ہو کہ ان کی اس مصیبت کا اصل سبب ان کی دین سے دوری اور اللہ و رسول1 کی نافرمانی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دشمن ان کے پیغمبر کا مضحکہ اُڑانے کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور آئے روز یہ کام کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اُصولی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کر نی چاہئے تاکہ دنیا میں بھی ان کی عزت و وقار ہو اور آخرت میں بھی وہ سرخرو ہوں۔

دور رَس اقدامات

یہ تھے وہ چند اقدامات جو ہماری رائے میں مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے کسی اقدام کے نتیجے میں مسلمانوں کو فوراً روبہ عمل لانے چاہئیں۔ اب آئیے ان دور رَس اقدامات کی طرف جو مسلمانوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر اور منصوبہ بندی سے کرنے چاہئیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ اس غرض سے مسلمانوں کو اہل مغرب کی دشمنی کے پیچھے پوشیدہ ان غیر اعلانیہ اور غیر تحریری مقاصد و اَہداف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ ہیں:

a مغربی منصوبہ سازوں کی خواہش یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کو پھیلنے سے روکاجائے۔ اس غرض سے وہ مسلمانوں اور ان کے دین و پیغمبر کو دہشت گرد اور دہشت گردی کا حامی اور علمبردار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ مغربی عوام اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ہو جائیں، اسلام کا ہمدردانہ مطالعہ نہ کر سکیںاور یوں ان کے اسلام قبول کرنے کے مواقع کم ہوجائیں۔

b مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے اقدامات کے جواب میں اگر مسلمان ردعمل کا شکار ہو کر مشتعل ہوجائیں تو اُنہیں انتہاپسند اور دہشت گرد قرار دیا جائے اور ان پر معاشی پابندیاں لگا کر ان کی اقتصادی حالت کو تباہ کیا جاسکے اور ان پر حملے کر کے ان کا سارا ترقیاتی ڈھانچہ تباہ کر دیا جائے تاکہ وہ ترقی کر کے اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہوسکیں اور اپنی اقدار کے مطابق زندگی نہ گزار سکیں اور مغرب کو ایسے پُر امن اقدامات (مثلاً تعلیم و میڈیاکے ذریعے) کامزید موقع مل جائے جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کی ذہن سازی کر سکے اور ان کے دل و دماغ فتح کرسکے تاکہ مسلمان مغربی فکر وتہذیب کے شائق و پرستار بن جائیں اورفکری و عملی لحاظ سے مغرب کے غلام بنے رہیںاور اسلام کی طرف لوٹنے کے خواب بھی نہ دیکھ سکیں۔

 اہل مغرب کے مقاصد کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی طریق کار کو بھی سمجھنا چاہئے تاکہ ہم ان کا مؤثر تدارک کرسکیں۔ اس حوالے سے دو باتیں اہم ہیں:

a اہل مغرب کی دلیل یا ادعا یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے ہر آدمی کا بنیادی حق ہے لہٰذا ہمارا رویہ تو صحیح ہے اور غلط رویہ خود مسلمانوں کا ہے جو اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ موقف محض کٹ جحتی پر مبنی ہے اور دنیابھر کے اہل علم و عقل جانتے اور مانتے ہیں کہ دوسرے تصورات کی طرح آزادی بھی کبھی لامحدود نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ بعض قیود و استثناء ات سے گھری ہوتی ہے(جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہوتا ہے اور ٹریفک قوانین سے لے کر پارلیمنٹ میں اہم اُمور میں قانون سازی تک ہم سب کا روزمرہ کا مشاہدہ ہے)۔ لہٰذا ایک آدمی کو ایسے اظہار کی آزادی کیسے دی جا سکتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کے دل دکھیں اور اُنہیں تکلیف پہنچے۔ لہٰذا اہل مغرب کا لا محدود اور مادر پدر آزادی کا تصور عقلی و منطقی لحاظ سے بھی غیر معقول ہے اور یہ کوئی جینوئن 'حق' نہیں جس کی حمایت کی جائے۔

b اہل مغرب کی تکنیک اور نفسیاتی حربہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوڑا دوڑا کر اور تھکا کر نڈھال کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس امت کی بقا اور اتحاد کا ایک بڑا سبب محبت رسول1 ہے تو اب وہ وقفے وقفے سے توہین رسالت کرتا رہتا ہے تاکہ مسلمانوں کے اندر سے ان کے الفاظ میں محبت ِرسول کا 'بخار' بتدریج اُتر جائے۔ پہلی دفعہ مسلم دنیا کا ردعمل بہت شدید تھا۔ سارے عالم اسلام میںہنگامے ہوئے، متعلقہ ملکوں کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک چلی اور بہت سے لوگ شہید ہوئے۔ پھر دوسرے موقعہ پر کم شدید رد عمل ہوا مثلاً اِس دفعہ دیکھئے توتحریک کا زور صرف پاکستان میں ہے، بنگلہ دیش دوسرا ملک ہے جس نے فیس بک پر پابندی لگائی۔ باقی مسلم ممالک سوئے پڑے ہیں۔ حکومتی سطح پر رد عمل بھی ڈھیلا ڈھالااوربرائے نام ہے۔ نہ اقوامِ متحدہ میں احتجاج ہوا، نہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ خود پاکستان کے اندر پچھلی دفعہ احتجاجی مظاہرے اور جلوس ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتے تھے، اب سو دو سو افراد کی ریلیاں نکلتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات اگر خوانخواستہ وقتاً فوقتاً جاری رہے تو ایک وقت آئے گا کہ یہ معمول بن جائیں گے اور ہمارا ردعمل بتدریج ختم ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ یہ سلسلہ بعض دینی رہنمائوں کے اخباری بیانات تک محدودرہ جائے گا۔

 اہل مغرب کے ان مقاصد اور طریق کار کے جواب میں ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے ؟ چند تجاویز درج ذیل ہیں :

a ابلاغی و فکری مزاحمت: مغرب کے اس طرح کے حملے کی بھر پور مزاحمت کی جائے خصوصاً الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاپر۔ بدقسمتی سے اس وقت حالت یہ ہے کہ مسلمان ابلاغ عامہ اور پروپیگنڈے کے میدان میں اہل مغرب سے بہت پیچھے ہیں۔ اوّل تو ان کے پاس طاقتورمیڈیا نہیں اور جو برا بھلا ہے، وہ زیادہ تر ان افراد کے ہاتھ میں ہے جو فکری اور تہذیبی طور پر مغرب سے مرعوب و متاثر بلکہ ان کے نقال اور گماشتے ہیں۔ ان سے کیا توقع کی جائے کہ وہ مغرب کا بھرپور جواب دیں گے اور دینی حمیت کا ثبوت دیں گے؟

دینی چینل اوّل تو ہیں نہیں اور جو ہیں وہ فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہیں۔ لہٰذا ایک ایسے چینل کی ضرورت ہے جو اسلام کا ہو، کسی خاص فرقے یا مسلک کا نہ ہو۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں ہمارا رویہ جارحانہ ہو اور ہم حکمت و تدبر کے ساتھ ان کو منہ توڑ جواب دیں اور ان کے خبث ِباطن کو دنیا پر عیاں کریں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں تعلیم، معیشت، معاشرت، سیاست غرض سارے شعبہ ہائے حیات میں ان کی فکری اور تہذیبی مزاحمت کرنی چاہئے اور اس کا مؤثر اظہار بھی میڈیا کے ذریعے ہونا چاہئے۔

b دعوت کے مواقع: اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کے ابلاغی و عسکری حملوں کو وہاں کے سارے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے یہ بعض متعصب حکمرانوں، دانشوروں، صہیوینوں اور شدت پسند عیسائیوں کی حکمت ِعملی کا نتیجہ ہے اور مغربی حملوں اور مسلم ممالک میں اس کے رد عمل کے نتیجے میں مغربی عوام میں حقائق جاننے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صحیح، مصدقہ اور براہِ راست (فرسٹ ہینڈ) معلومات حاصل کرنے کی ایک طلب اُبھر آئی ہے۔ اب یہ مسلمان حکمرانوں، دانشوروںاور علماے کرام کا کام ہے کہ وہ ان کے سامنے اسلام کی اصل حقیقت اور اس کا اصل چہرہ خصوصاً قرآنِ حکیم کی تعلیمات اور نبی پاک1 کی سیرت مؤثر انداز میں تحریر و تقریر کے ذریعے پیش کریں۔ اگرمسلمان دعوت کے اس سنہری موقع کو ضائع نہ کریں تو وہ مغربی عوام میں سے بہت سوں کے دل و دماغ جیت سکتے ہیں اوراس کے لئے توپ و تفنگ کی نہیں، حکمت و تدبر،خاموشی اور سمجھ داری کے ساتھ پلاننگ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

c معاشی بائیکاٹ: مادہ پرست مغرب اگر روحانی اقدار کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تو مادی مفادات اور اَقدار کی تو اسے خوب سمجھ ہے، لہٰذا اسے اُسی اُسلوب میں جواب دینا چاہئے جسے وہ سمجھ سکے۔ مسلمان اگرچہ معاشی لحاظ سے کمزور ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بحیثیت ِاُمت متحد ہوجائیں اور اس ملک کا معاشی مقاطعہ کردیں اور متعلقہ ملک کے ساتھ برآمدی و درآمدی تجارت ختم کر دیں تو اس کا خاطر خواہ اثر پڑے گا، لیکن یہ حربہ اسی وقت مؤثر ہوسکتا ہے جب اُمت حقیقی طور پر متحد ہو اور جذبۂ شجاعت اور ایثار و قربانی سے کام لے اور دبائو میں نہ آئے جیساکہ شاہ فیصل مرحوم نے تیل کی برآمد پر پابندی لگا کر دکھا دی تھی۔

d بین الاقوامی قانون سازی: مسلم اُمت اگر متحد ہوجاے تو آسانی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایسا ریزولیوشن منظور کروایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مذہب یا تہذیب کے ان رہنمائوں کی توہین جرم تصور ہوگی جنہیں کروڑوں افراد محترم و مقدس گردانتے ہیں۔اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں ترمیم بھی ہونی چاہئے اور اس اُصول کی خلاف ورزی کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کی راہ بھی ہموار ہونی چاہئے۔

e فروغِ اتحاد:مسلم دانشوروں، رہنمائوں اور علماے کرام کو اس طرح کے مواقع کو اُمت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے کا وسیلہ اور نادر موقع سمجھ کر استعمال کرناچاہئے۔ مسلمانوں میں باہم بہت سے اختلافات ہوسکتے ہیں اور ہیں، لیکن نبی مکرم1 کی حرمت و تقدس کے حوالے سے ان میں بہرحال کوئی اختلاف نہیں اور آپؐ کی محبت سب مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ لہٰذا محبت ِرسولؐ کو مسلمانوں میں بنائے اتحاد بنا کر اس اتحادکو مزید مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور فرقہ وارانہ اختلافات، تعصبات اور انتشار کو ہوا دینے والے اقدامات کے خلاف مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔

f مغربی فکر و تہذیب کا ردّ: مسلمانوں کا اس وقت حقیقی اور بڑا مسئلہ مغربی فکرسے مرعوبیت کے خاتمے اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات کا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حرمت ِرسول کی تحریک چلانے والے رہنما اور علماے کرام تدبر و حکمت سے اس تحریک کا رخ مغرب کی ملحدانہ فکر اور تہذیبی مظاہر سے تنفر کی طرف موڑ دیں مثلاً مغربی لباس کیوں پہناجائے؟ سکول انگلش میڈیم کیوں ہوں؟ تعلیم مخلوط کیوںہو؟... وغیرہ۔ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجے میں مسلمانوں میں امریکہ و یورپ دشمنی کے جذبات میں خود بخود اضافہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ ایساہو بھی تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں مغرب کی فکری و ذہنی غلامی سے نکلنا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے خلاف سیاسی طور پر مردہ باد کے نعرے لگاتے رہیں، لیکن ہماری معیشت، معاشرت، تعلیم غرض ہر جگہ مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ ہو تو اس مردہ باد کے نعرے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے اس امر پر بہت سنجیدگی سے سوچا جائے کہ آج کے مسلمانوں خصوصاً پڑھے لکھے افراد کو مغرب کی فکری و تہذیبی غلامی سے نکالنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے حکومتی مدد کے بغیر دینی عناصر کے لئے کام کا وسیع میدان موجود ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ مغربی فکر و تہذیب کو ردّ کر دیا جائے اور اس کی جگہ اسلامی اُصول و اقدار کو فروغ دیا جائے۔

g اسبابِ ضعف کا خاتمہ: اور آخری بات یہ کہ مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیںاور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیںہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبر1 کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں، اپنی کمزوریاں دور کریںاور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیںتاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں۔