آدابِ نماز اور خشوع وخضوع کی اہمیت و وجوب
[شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے فتاویٰ کی روشنی میں]
اسلامی عبادات میں ایک اہم مسئلہ نماز پڑھنے کے طریقے کا ہے کہ نماز کس طرح پڑھی جائے، اس کے آداب کیا ہیں اور خشوع وخضوع کی اہمیت اور اس کامطلب کیا ہے؟ نیز خشوع وخضوع کے بغیر پڑھی گئی نماز کی حیثیت کیا ہے؟
اس کاجواب واضح ہے اور وہ یہ کہ نماز سنت ِنبویؐ کے مطابق اَدا کی جائے جیسا کہ نبی1 نے بھی فرمایا:0صلُّوا کما رأیتموني اُصلي9 (صحیح بخاری:۶۳۱)
''تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔''
نبی 1 کے اس فرمان سے مذکورہ سوالوں کا جواب سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ کہ
ç نماز کے آداب، نماز کوسنت ِنبویؐ کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔
ç آپ نماز نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔
ç خشوع وخضوع کا مطلب، نماز کے ہر رکن کو پورے اطمینان اور سکون سے اَدا کرنا ہے جسے 'تعدیل اَرکان' کہا جاتاہے یعنی تعدیل اَرکان بھی نہایت ضروری ہے۔
ç جو نماز تعدیل اَرکان یعنی خشوع وخضوع کے بغیر پڑھی جائے گی، وہ نبی1 کے طریقے اور اُسوۂ حسنہ کے خلاف ہوگی، لہٰذا وہ نامقبول ہوگی۔
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
ç اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی نوید انہی اہل ایمان کے لیے بیان کی ہے جواپنی نمازوں میں خشوع وخضوع کا اہتمام کرتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ é اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ} (المؤمنون:۱،۲)
''مومن یقینا فلاح پاگئے وہ جو اپنی نماز میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں۔''
اس کے برعکس سستی سے نماز پڑھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَéاَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَéاَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَائُ وْنَ}
(الماعون:۴تا۶)
''تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت کرتے ہیں، وہ جودکھاوا کرتے ہیں۔''
منافقین کی صفات بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے:
{وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلَایَذْکُرُوْنَ اﷲَ اِلَّا قَلِیْلًا}
''جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو دل سے نہ چاہتے ہوئے، لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کو بس تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔'' (النسائ:۱۴۲)
گویا خشوع وخضوع کے بغیر نماز، جس میں اللہ کا ذکر برائے نام ہو، مسلمان کی نماز نہیں، منافق کی نماز ہے، ایسی نماز عنداللہ کس طرح قبول ہوسکتی ہے؟
خشوع ہی سے نماز کے ثمرات وفوائد حاصل ہوتے ہیں:
علاوہ اَزیں نماز کے وہ ثمرات و فوائد، جو قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ میں بیان کئے گئے ہیں،اس وقت ملتے اور مل سکتے ہیں جب نماز کو سنت ِنبویؐ کے مطابق اطمینان و سکون کے ساتھ اَدا کیا جائے۔جیسے اللہ تعالیٰ نے نماز کا ایک نہایت اہم فائدہ یہ بیان فرمایا ہے :
{إنَّ الصَّلَاۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ} (العنکبوت:۴۵)
''بے شک نماز بے حیائی (کے کاموں) سے اور منکرات سے روکتی ہے۔''
لیکن اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، لیکن بے حیائی کے کاموں اورمنکرات کاارتکاب بھی کرتے ہیں حالانکہ اللہ کافرمان جھوٹا نہیںہوسکتا :
{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اﷲِ قِیْلًا} (النسائ:۱۲۲)
''اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے۔''
اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری نمازوں میں رسول اللہ1 کی سنتوں کا اہتمام نہیںہے، خشوع وخضوع کا فقدان ہے اور إنابت إلی اﷲ کی کمی ہے، گویا ہمارا حال علامہ اقبالؒ کے اس شعر کامصداق ہے ؎
جو میں سربہ سجدہ ہوا کبھی توزمین سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیاملے گا نماز میں
(بانگ درا)
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
(بالِ جبریل)
قرآن و حدیث کے اتباع کا حکم اور اس کی اہمیت
بنا بریں ضروری ہے کہ ہم ہرمعاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو سامنے رکھیں اور انہی کے مطابق سارے کام انجام دیں، ورنہ محنت اور عمل کے باوجود ان کے ضائع ہونے کا شدید خدشہ ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ}( محمد:۳۳)
''ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو باطل نہ کرو۔''
اس سے معلوم ہواکہ جس عمل میں اللہ و رسول کی اطاعت نہیں ہوگی، وہ عمل باطل ہے۔ اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، عمل کرنے والا اس کی بابت چاہے کتنابھی خوش گمان ہو، محض خوش گمانی سے کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میںمقبول نہیںہوسکتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاé اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِيْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا} (الکہف:۱۰۳،۱۰۴)
''کہہ دیجئے! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال میں سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ جس کی کوشش دنیاوی زندگی میں اکارت گئی، جب کہ وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں۔''
یہ فرمانِ الٰہی ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ رسول کو مانتے ہی نہیں، یامانتے تو ہیں، لیکن صرف زبان کی حد تک، اَعمال میں وہ ان کی اطاعت کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنے من مانے طریقے سے عمل کرتے ہیں۔ نتیجے کے اعتبار سے ان دونوںمیں فرق نہیں۔ اس لیے رسول اللہ1 نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میںفرمایا:
0ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اﷲ وسنۃ نبیہ9 (موطا امام مالک،کتاب الجامع، باب النہی عن القول بالقدر)
''میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم اُنہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے (اور وہ ہیں) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔''
ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول1 نے اس بات کو اس طرح واضح فرمایا:
0کل أمتي یدخلون الجنۃ إلامن أبٰی9 قالوا: یارسول اﷲ ومن یأبٰی؟ قال: 0من أطاعني دخل الجنۃ ومن عصاني فقد أبٰی9 (صحیح بخاری: ۷۲۸۰)
''میری ساری اُمت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا، صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول1! انکار کرنے والاکون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔''
نماز میں اطمینان اور خشوع خضوع کی اہمیت،اَحادیث کی روشنی میں
نمازاسلام کا اہم ترین فریضہ ہے۔ اگر یہی سنت نبوی کے مطابق نہ ہوئی جس کی بابت روزِقیامت سب سے پہلے باز پرس ہوگی، تو دوسرے عملوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جیسے ایک صحابی رسول حضرت حذیفہؓ کا واقعہ آتا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع سجود اطمینان سے نہیں کررہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت حذیفہؓ نے اس سے کہا ما صلَّیت''تو نے نماز ہی نہیں پڑھی۔'' راوی کابیان ہے کہ میرے خیال میں حضرت حذیفہؓ نے اس کو یہ بھی کہا:''لو مُتَّ مت علیٰ غیرسنۃ محمد'' (صحیح بخاری:۳۸۹)
''اگر تجھے (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے) موت آگئی تو محمد1 کے طریقے پر تجھے موت نہیں آئے گی۔''
بلکہ اسی طرح کا ایک واقعہ نبی کریم1 کی مبارک زندگی کا بھی ہے جس میں ہمارے لیے بڑی عبرت ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ ایک شخص مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کے لیے آیا، نبی کریم1 مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس شخص نے نماز پڑھی، آپ اس کو دیکھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہوکر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، آپ نے سلام کاجواب دیا اور فرمایا: 0ارجع فصَلِّ فإنک لم تُصَلِّ9
''واپس جااور پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔''
وہ گیا اور جاکر دوبارہ نماز پڑھی، پھر رسالت مآب 1 کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ آپ1 نے سلام کاجواب دے کر پھر فرمایا: 0ارجع فصل فإنک لم تصل9
''واپس جااور پھر نماز پڑھ، یقینا تو نے نماز نہیں پڑھی۔''
اس نے جاکرپھر نماز پڑھی اور پھر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، آپ نے سلام کاجواب دے کر پھر وہی فرمایا: 0ارجع فصل فإنک لم تصل9
''واپس جااور پھر نماز پڑھ، بلا شبہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔''
تین مرتبہ جب اس طرح ہوا تو اس شخص نے کہا:
''والذي بعثک بالحق ما أُحْسِنَ غیرہ فعلِّمْني''
''اس ذات کی قسم جس نے آپکو حق کے ساتھ (نبی بناکر) بھیجا (مجھے تو اس طرح ہی نماز آتی ہے) اس سے بہتر انداز سے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، پس آپ مجھے طریقۂ نماز سکھا دیجئے!''
نبی1نے اس سے فرمایا:
0إذا قُمتَ إلی الصلاۃ فکبر ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن،ثم ارکع حتی تطمئن راکعًا،ثم ارفع حتی تعتدل قائمًا،ثم اسجد حتی تطمئن ساجدًا،ثم ارفع حتی تطمئن جالسًا،ثم اسجد حتی تطمئن ساجدًا، ثم افعل ذلک في صلاتک کلھا9 (وفي روایۃ اُخریٰ،ثم ارفع حتی تطمئن جالسًا) (صحیح بخاری:۷۹۳،۶۲۵۱)
''جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کہہ۔ پھر تیرے لیے جو آسان ہو قرآنِ کریم کا کچھ حصہ(سورہ فاتحہ وغیرہ) پڑھ، پھر رکوع کر اور خوب اطمینان سے رکوع کر، پھر رکوع سے سر اُٹھا اور سیدھا کھڑا ہوجا۔ پھر سجدہ کر اور نہایت اطمینان سے سجدہ کر، پھر سجدے سے سر اٹھا اورخوب اطمینان سے بیٹھ جا،پھر دوسرا سجدہ کر اور پورے اطمینان سے سجدہ کر۔ (ایک دوسرے مقام پراس کے بعد یہ الفاظ ہیںکہ دوسرے سجدے کے بعد پھر اطمینان سے بیٹھ جا، یعنی جلسۂ استراحت کر اور پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو اور پھراپنی ساری نماز (ہر رکعت میں) اسی طرح کر۔''
نبی کریم1 کے اس موقع پرمذکورہ طریقۂ نماز کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص نماز اطمینان سے نہیں پڑھتا تھا اور باربار کہنے کے باوجود اس کی نماز اطمینان سے خالی تھی۔ نہ قیام و قراء ت میںاطمینان تھا،نہ رکوع اور قومے میں اطمینان تھا،نہ سجدوں میں اور ان کے درمیان وقفے میں اطمینان تھا۔ آپ نے ایسی نماز کو تین مرتبہ کالعدم قرار دیا (تو نے نماز ہی نہیں پڑھی)حالانکہ وہ بار بار نماز پڑھ کر آرہا تھا لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ تو نے نماز ہی نہیںپڑھی۔
اس سے معلوم ہواکہ جس نماز میں سنت ِرسول کے مطابق اطمینان اور اعتدالِ ارکان نہیںہوگا، وہ نماز، نماز ہی نہیں، محض اُٹھک بیٹھے ہے یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا ہے۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ1نے فرمایا:
0لاتجزي صلاۃ الرجل حتی یقیم ظھرہ في الرکوع والسجود9
''آدمی کی نماز اس وقت تک کافی نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی پیٹھ رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہ کرے۔''(سنن ابی داؤد:۸۵۵)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، ہم اس کاضروری خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ امام صاحب یہ حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں:
''ھذا الحدیث نص صریح في وجوب الاعتدال، فإذا وجب الاعتدال لإتمام الرکوع والسجود فالطمانینۃ فیھما أوجب''
''یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ َارکان میں اعتدال واجب ہے اور جب رکوع اور سجود کے پورا کرنے کے لیے اعتدال واجب ہے تو رکوع اور سجدے کو اطمینان کے ساتھ کرنا زیادہ بڑا واجب ہے۔''
پھر امام صاحب حدیث کے الفاظ کہ وہ ''اپنی پیٹھ رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی کرے'' کامفہوم واضح کرتے ہیں :
''اس کا مطلب یہ ہے کہ جب رکوع سے سراُٹھائے اور اسی طرح جب سجدے سے سراٹھائے تو اپنی پیٹھ کو بالکل سیدھا کرلے، اس لیے کہ پیٹھ کا سیدھا کرنا، رکوع اور سجدے کو پورا کرنے کا حصہ ہے۔کیونکہ جب وہ رکوع کرتا ہے تو رکوع نام ہے جھکنے کا، پھر سراُٹھانے کا اور پھر سیدھے کھڑے ہوجانے کا اور سجدہ نام ہے قیام سے جھکنے کے وقت سے یا قعود سے ایک وقت (تک رہنے کے بعد) لوٹنا اور اعتدال اختیار کرنا۔ پس جھکنا اور اُٹھنا دونوں رکوع اور سجود کے اطراف اور ان کو پورا کرنا ہیں،اسی لیے حدیث کے الفاظ ہیں:''اپنی پیٹھ کو رکوع اور سجود میںپوری طرح سیدھا کرے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ رکوع سے سراُٹھاکر اطمینان سے کھڑے رہنا اور اسی طرح سجدے سے سراٹھا کر اطمینان سے بیٹھنا اسی طرح واجب ہے جس طرح رکوع اور سجدے کو پورا کرنا واجب ہے۔''
امام صاحبؒ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے آگے مسنداحمد کے حوالے سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ علی بن شیبانؓبیان کرتے ہیںکہ ہم رسول اللہ1کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز صحیح طریقے سے اَدا نہیں کررہا یعنی اپنی پیٹھ،رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہیں کرتا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
0یا معشر المسلمین! لا صلاۃ لمن لا یقیم صلبہ في الرکوع والسجود9 وفي روایۃ للإمام أحمد 0لا ینظر اﷲ إلی رجل لا یقیم صلبہ بین رکوعہٖ وسجودہ9 (سنن ابن ماجہ:۸۶۱،مسند احمد:۲؍۵۲۵)
''اے مسلمانوں کی جماعت! اس شخص کی نماز نہیںجو اپنی پشت رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہیں کرتا۔'' اور ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں، فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی پشت پوری طرح سیدھی نہیںکرتا۔''
اس سے واضح ہے کہ پشت کو پوری طرح سیدھا کرنا، اسی کا نام 'اعتدال فی الرکوع' ہے۔ مسنداحمد کی ایک اور روایت ہے۔ رسول اللہ1نے فرمایا:
0أسوأ الناس سرقۃ الذي یسرق من صلاتہ، قالوا: یارسول اﷲ! کیف یسرق من صلاتہ؟ قال: 0لا یتم رکوعھا ولا سجودھا9 أو قال: 0لا یقیم صلبہ في الرکوع والسجود9 (مسند احمد:۴؍۲۳)
''سب سے بدتر چور وہ ہے جو اپنی نماز سے چوری کرتاہے۔صحابہ نے پوچھا:اپنی نماز سے چوری کس طرح کرتا ہے؟آپ نے فرمایا: نماز میں رکوع اور سجدہ پورا نہیںکرتا، یافرمایا: رکوع اور سجدوں میں اپنی پشت پوری طرح سیدھی نہیںکرتا۔''
نیز سنن ابوداؤد، نسائی اور ابن ما جہ میںحدیث ہے:
''نھٰی رسول اﷲ ﷺ عن نقرۃ الغراب وافتراش السَّبُع وأن یوطن الرجل المکان في المسجد کما یوطن البعیر''( ابوداؤد:۸۶۲، نسائی:۱۱۱۲، ابن ماجہ:۱۴۱۹)
''رسول1نے منع فرمایا:کوے کی طرح ٹھونگے مارنے سے، درندوں کی طرح پیر بچھاکر بیٹھنے سے اور یہ کہ آدمی مسجد میں (مستقل طور پر) اسطرح جگہ مقرر کرلے جیسے اونٹ کرلیتا ہے۔''
یہ تینوں چیزیں اگرچہ باہم مختلف ہیں، لیکن رسول اللہ1نے ان تینوں کو جمع فرما دیا ہے کیونکہ ان تینوں میں نماز کی حالت میں بَہائم(چوپایوں) کے ساتھ مشابہت میں اشتراک ہے، پس آپ نے کوے کے فعل کی مشابہت سے، درندوں کے مشابہ فعل اور اونٹ کے فعل کی مشابہت سے منع فرما دیا، اگرچہ کوے کاٹھونگے مارنا باقی دونوں فعلوں سے زیادہ سخت ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بابت اور بھی احادیث ہیں، جیسے صحیحین میں حضرت انسؓ سے مروی روایت میںرسول اللہ1نے فرمایا:
0اعتدلوا فيالسجود ولا یبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب9 (صحیح بخاری:۸۲۲،صحیح مسلم:۱۱۱۰)
''سجود میں اعتدال اختیار کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے بازو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔''
بالخصوص دوسری حدیث میں اسے صَلاۃ المنافقین (منافقین کی نماز) قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ وہ منافقین کا عمل ہرگز قبول نہیں کرے گا۔چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث ہے، رسول اللہ1نے فرمایا:
0تلک صلاۃ المنافق یجلس یرقب حتی إذا کانت الشمس بین قرني شیطان قام فنقرہا أربعًا،لا یذکر اﷲ فیھا إلا قلیلًا9 (رقم الحدیث:۶۲۲)
''یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ (نمازِ عصر میں) دیر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج (غروب ہونے کے قریب) شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو کھڑا ہوجاتا ہے اور چار ٹھونگے مارلیتا ہے، اس میں اللہ کاذکر برائے نام کرتا ہے۔''
اس حدیث میں اللہ کے رسول نے بتلایا کہ منافق فرض نماز کا وقت ضائع کردیتا ہے اور اپنا فعل(نماز کا پڑھنا) بھی ضائع کردیتا ہے اور صرف ٹھونگیں مارتا ہے۔ اس سے یہ رہنمائی حاصل ہوئی کہ یہ دونوں فعل مذموم ہیں (نماز کا اصل وقت ضائع کرنا اور پھر نماز کو کوّے کی طرح ٹھونگے مار کر پڑھنا) حالانکہ یہ دونوں چیزیں (وقت پر نماز پڑھنا اور اعتدال کے ساتھ پڑھنا) واجب ہیں، یہ منافق دونوں واجبات کا تارک ہے۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز کوٹھونگے مار کر پڑھنا ناجائز ہے اور یہ اس شخص کا فعل ہے جس میں نفاق ہے اور نفاق سب کا سب حرام ہے۔یہ حدیث بجائے خود ایک مستقل دلیل ہے اور ماقبل کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اﷲَ اِلَّا قَلِیْلًا} (النساء :۱۴۲)
''منافقین اللہ کو دھوکہ دیتے ہیںمگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اُنہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو دل سے نہ چاہتے ہوئے، لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کو بس تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔''
اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو اپنی نمازوںمیں ٹھونگے مارتے ہیں اور اِعتدال واطمینان سے پوری طرح نہ رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ کرتے ہیں۔
اور نبی 1نے جو (منافق)کی مثال بیان فرمائی ہے، وہ بہترین مثال ہے، اس لیے کہ نماز دلوں کی خوراک ہے جس طرح کہ غذا جسم کی خوراک ہے، پس جب جسم تھوڑے سے کھانے سے (پورح طرح) غذا حاصل نہیں کرپاتا (اس لیے اس میں قوت وتوانائی نہیں آتی) تو دل بھی ٹھونگے مار نماز سے خوراک حاصل نہیںکرپاتا، اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے کامل اَنداز سے نماز پڑھی جائے جس سے دلوںکو پوری خوراک حاصل ہو۔
حدیث میں ایک اور واقعہ آتا ہے جو صحیح ابن خزیمہ میںموجود ہے۔ حضرت ابوعبداللہ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ1نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، پھر ان کے ایک گروہ میں بیٹھ گئے، اتنے میں ایک شخص آیا اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، رکوع کرتا اور سجدے میں ٹھونگے مارتا، رسول اللہ1اس کو دیکھ رہے تھے، آپ نے فرمایا:
''اس کو دیکھتے ہو؟ اگر اس کو (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے)موت آگئی تو محمد (1 ) کی ملت کے علاوہ کسی اور ملت پراس کو موت آئے گی۔یہ اپنی نماز میں اس طرح ٹھونگے مارتا ہے جیسے کوا خون (یا مٹی) میں ٹھونگے مارتا ہے۔ یادرکھو اس شخص کی مثال جو نماز پڑھتا ہے اور رکوع پوری طرح نہیں کرتا اور اپنے سجدے میں ٹھونگے مارتا ہے، اس بھوکے کی طرح ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتاہے جو اس کی بھوک کے لیے یکسر ناکافی ہوتی ہیں۔ اسلئے (سب سے پہلے) کامل طریقے سے وضو کرو۔ ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے اور آگ کی وعید ہے جن کی ایڑیاں خشک رہیں اور رکوع اور سجود پوری طرح کرو۔'' (صحیح ابن خزیمہ: ۱؍۳۵۵، رقم۶۶۵)
صحیح بخاری کے حوالے سے حضرت حذیفہؓ کا واقعہ بھی گزر چکا ہے جس میں اُنہوں نے بھی بغیر اعتدالِ اَرکان نماز پڑھنے والے کی موت کی بابت اس قسم کا اندیشہ ظاہرفرمایا تھا جو نبی کریم1نے فرمایا کہ
''تیری موت اس فطرت پر نہیں ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد1 کو پیدا فرمایا ۔''
سنت سے مراد ایک تو وہ فعل ہوتا ہے جو فرض نہیں ہوتا، لیکن یہاں سنت سے مراد دین وشریعت ہے، اس لیے غیر الفطرۃ اور غیر السنۃ دونوں سے یہاں مراد ایک ہی ہے یعنی دین اور شریعت۔ مستحبات مراد نہیں ہے اس لیے کہ مستحبات کے ترک پر اتنی مذمت اور وعید نہیں ہوتی، بنا بریں جب یہ کہا جائے کہ تیری موت سنت پر یا فطرت پر نہیں آئے گی تو اس کامطلب ہے کہ دین اسلام اور شریعت ِمحمدیہ پرنہیں آئے گی۔
(ملخص از فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ: ۲۲؍۵۲۶تا۵۴۷)
عدمِ اطمینان کی صورت میں نماز کا دوبارہ پڑھناواجب ہے!
امام ابن تیمیہ ؒ سے سوال کیا گیا، اگر کوئی شخص اطمینان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو اس کی نماز کیسی ہوگی؟ امام صاحب نے فرمایا:
''نماز کو اطمینان کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اور اطمینان سے نہ پڑھنے والانماز کو بگاڑنے والا ہے، وہ مسیئ الصلاۃہے، مُحسن الصلاۃ نہیں،بلکہ وہ گناہگار اور واجب کا تارک ہے۔ جمہور ائمۂ اِسلام، امام مالک، شافعی، احمد، اسحق، ابویوسف، محمد(اصحابِ ابی حنیفہ) اور خود امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے۔
ان کے علاوہ دیگر ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے اور اس کی دلیل وہ اَحادیث ہیں جو صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر کتب ِحدیث میں ہیں (اس کے بعد امام صاحب نے حدیث مسیئ الصلاۃ سمیت وہ اَحادیث بیان فرمائی ہیں جو گزشتہ صفحات میں بیان ہوئی ہیں۔ (دیکھئے مجموع الفتاوٰی:۲۲؍۶۰۱ تا۶۰۳)
وجوبِ اطمینان، قرآنِ کریم کی روشنی میں
گزشتہ صفحات میں اَحادیث کی رُو سے نماز میں اطمینان اور اعتدالِ اَرکان کا وجوب ثابت کیاگیا ہے، اس کے بعد امام ابن تیمیہؒ نے دسیوں آیاتِ قرآنیہ سے نماز میں وجوبِ اطمینان کا اِثبات کیا ہے جو ان کے غزارتِ علم، و فورِ دلائل اورقوتِ استنباط و استخراج کی دلیل ہیں۔ یہ صفحات ان کی مکمل بحث کو نقل کرنے کے متحمل نہیں، تاہم ہم ایک دو مقامات کا خلاصہ ذیل میںپیش کرتے ہیں تاکہ مسئلہ زیر بحث کے کچھ قرآنی دلائل بھی سامنے آجائیں۔
aامام صاحب ؒقرآنِ کریم کی آیت :
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ} (البقرہ:۴۵)
''نماز اور صبر سے مدد طلب کرو اور یہ نماز بڑی بھاری ہے ، البتہ خشوع کرنے والوں پر بھاری نہیںہے۔''
بیان کرکے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت کا اقتضا یہ ہے کہ جو نماز میں خشوع کرنے والے نہیں ہیں، وہ قابل مذمت ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کے حکم کے وقت فرمایا تھا: {وَإنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃ؟؟ٌ اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اﷲُ} (البقرۃ:۱۴۳)
''یہ حکم یقینا بڑا بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے ہدایت سے نواز دیا ہے۔''
یا جیسے اللہ کا فرمان ہے : {کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ} (الشوریٰ:۱۳)
''مشرکین پر وہ بات بہت بھاری(گراں) ہے جس کی طرف (اے پیغمبر!) آپ انکو بلاتے ہیں۔''
پس اللہ عزوجل کی کتاب ایسے افراد کی نشاندہی کررہی ہے جن پر وہ بات گراں گزرتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہے اور جس کی وجہ سے ایسے لوگ دین میں قابل مذمت اور ناراضی کے مستحق ہیں اور مذمت اور ناراضی کی وجہ کسی واجب کا ترک یا کسی حرام کا ارتکاب ہی ہوتا ہے اور جب غیر خاشعین مذموم (قابل مذمت) ہیں تو یہ بات اس امر پردلالت کرتی ہے کہ نماز میں خشوع واجب ہے۔
bامام صاحب مزید آیاتِ قرآنیہ سے خشوع کاوجوب ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
''جب نماز میں خشوع واجب ہے اور جس کا مطلب عاجزی اور سکون سے نماز پڑھنا ہے تو جو شخص کوے کی طرح ٹھونگے مارتے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو اس نے سجدے میں خشوع نہیں کیا، اسی طرح جو شخص رکوع سے سراٹھا کر سجدے کے لیے جھکنے سے پہلے اطمینان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا (اُس نے استقرار نہیں کیا) تو اس نے سکون نہیں کیا جو اطمینان ہی کا نام ہے۔ پس جس نے اطمینان نہیں کیا، اُس نے سکون نہیں کیا اور جس نے سکون نہیں کیا تو اس نے نہ اپنے رکوع میں خشوع کیا اور نہ اپنے سجدے میں اور جس نے خشوع نہیں کیا، وہ گناہگار اور نافرمان ہوا (نہ کہ فرماں بردار اور اطاعت شعار)''
اس کے بعد امام صاحب نے نماز میںوجوبِ خشوع پر دلالت کرنے والی اَحادیث بیان کی ہیں، مثلاً : جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھاتے ہیں، ان کی بابت آپ نے سخت وعید بیان فرمائی:
0لینتھن عن ذلک أو لتُخطَفن أبصارھم9 (صحیح بخاری:۷۵۰) وفي روایۃ 0أو لا ترجع إلیھم أبصارھم9 (سنن ابوداؤد:۹۱۲)
''وہ (آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانے سے) باز آجائیں ورنہ ان کی نگاہیں اُچک لی جائیں گی۔'' ایک روایت کے الفاظ ہیں: ''یا ان کی طرف ان کی نگاہیں واپس نہیں آئیں گی۔''
بعض روایات میں آتا ہے کہ جب{قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ é الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ} (المومنون:۱،۲) ''وہ مؤمن فلاح پاگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں۔'' آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد نبی1کی نگاہ سجدے والی جگہ سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ (رواہ الامام احمد فی کتاب الناسخ والمنسوخ)
جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا بھی خشوع کے منافی ہوا تو نبی1 نے اس کو حرام کردیا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی۔
d امام ابن تیمیہؒ کا ایک اور قرآنی استدلال ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت میں رکوع اور سجدے کو واجب قرار دیا ہے اور یہ اجماعاً بھی واجب ہیں، اللہ کافرمان ہے:{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا} وغیرھا من الآیات''اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو۔''اور اس قسم کی دیگر آیات نقل فرما کر لکھتے ہیں:
''جب اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے رکوع اور سجدہ کرنے کو اپنی کتاب میںفرض کیا ہے جیسے اس نے نماز کو فرض کیا ہے اور نبی1 کتابِ مبین میں نازل کردہ اَحکام کے مبین و مفسر ہیں اور آپ کی سنتیں کتاب اللہ کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں اور آپ کا عمل کسی حکم الٰہی کی تعمیل یا اس کے کسی مجمل حکم کی تفسیر ہی پر مبنی ہوتا ہے تو آپ1 کا حکم بھی اللہ کے حکم کی تعمیل اوراس کی تفسیر ہی ہوا۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے نبی1 ہررکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے کرتے تھے تو یہ دونوں ہی چیزیں واجب ہوئیں، اور یہ اللہ کے اس حکم کی تعمیل ہے جو اللہ نے رکوع اور سجدہ کرنے کی صورت میں دیا اوراُس اجمال کی تفسیر ہے جس کا ذکر قرآن میںہے۔ اسی طرح سجدے کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے بھی آپ کی سنت ہی مرجع ہے اور نبی1 فرض اور نفل دونوں ہی نمازیں ادا فرماتے تھے اور لوگ بھی آپ کے زمانے میں نمازیں پڑھتے تھے اور آ پ نے رکوع اور سجدے میں اعتدال کے بغیر اور نماز کے دیگر افعال میں اطمینان کے بغیر نماز نہیںپڑھی، چاہے فرض نماز ہوتی یانفل نماز اور لوگ بھی آپ کے عہد میں نماز پڑھتے تھے اور وہ بھی رکوع و سجود میں اعتدال اور دیگر افعالِ نماز میں اطمینان کے بغیر نماز نہیںپڑھتے تھے۔یہ طرزِ عمل اس امرکا تقاضا کرتا ہے کہ نماز کے تمام افعال میں سکون اور اطمینان واجب ہے جس طرح ان کاعدد واجب ہے یعنی ہر رکعت میںایک رکوع اور دو سجدے۔''
نیز آپ1 کا اس طرزِعمل پر مداومت (ہمیشگی)کرنا، یعنی ہر روز ہر نماز میں اعتدال وسکون کا خیال رکھنا، اس کے وجوب پربہت قوی دلیل ہے۔ اگر اطمینان واجب نہ ہوتا تو آپ کبھی تو اعتدال و اطمینان کے بغیر نماز پڑھ لیتے، چاہے زندگی میں ایک مرتبہ ہی سہی، تاکہ اس کا جواز واضح ہوجاتا، یا اس کے ترک کا جواز ہی واضح کرنے کے لیے آپ کوئی اشارہ فرما دیتے۔پس جب آپ نے اطمینان کے ترک کا جواز نہ اپنے سے عمل سے واضح کیا اور نہ اپنے فرمان سے، باوجودیہ کہ آپ نے نماز پر مداومت فرمائی ہے تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ نماز کو اطمینان کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔
علاوہ ازیں نبی1 نے حضرت مالک بن حویرث ؓاور ان کے ساتھی کو فرمایا تھا:
0إذا حضرت الصلاۃ فاذنا وأقیما ولیؤمکما أکبرکما وصلّوا کما رأیتموني أصلي9 (صحیح بخاری:۶۵۸)
''جب نماز کاوقت ہوجائے تو تم اذان دو اور تکبیر کہو اور تم دونوں میں سے جو بڑا ہو، وہ امامت کرائے اور تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔''
پس آپ نے ان کو یہی حکم دیا کہ وہ نماز اس طرح پڑھیں جیسے اُنہوں نے آپ1کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
اَئمہ مساجد کی ذمہ داری
یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام لوگوں کو نماز اس طرح پڑھائے جس طرح رسول اللہ1 لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور اس کے کوئی اور بات معارض ہے، نہ مخصص اس لیے کہ امام کی ذمہ داری مقتدی اور منفرد سے زیادہ ہے۔
صحیحین میںیہ حدیث ہے کہ نبی 1 نے ایک مرتبہ منبر پرنماز پڑھائی(سوائے سجدے کے، وہ آپ منبر سے اُتر کر کرتے) نماز سے فراغت کے بعد آپ نے فرمایا:
''میں نے یہ (منبر پر چڑھ کر نماز پڑھانا) اس لیے کیا ہے کہ 0لتأتموا بي ولتعلموا صلاتي9 ''تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میرا طریقۂ نماز جان لو۔''(بخاری:۹۱۷،مسلم:۵۴۴)
اور ابوداؤد و نسائی میںہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ہمیں اطمینان و سکون اور اعتدالِ اَرکان کے ساتھ چار رکعتیں پڑھائیں اور پھر فرمایا:
''ھٰکذا رأینا رسول اﷲ ﷺ یصلي'' (سنن ابوداؤد:۸۶۳،سنن نسائی:۱۰۳۷)
''ہم نے اس طرح ہی رسول اللہ1 کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔''
اور اس طریقۂ نماز پرصحابہ کا اجماع ہے، اس لیے کہ وہ سب نہایت اطمینان سے نماز پڑھتے تھے اور جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے جو اطمینان سے نماز نہیں پڑھتا تو وہ اس پر نکیر کرتے اور اس کو اس سے منع فرماتے اور کوئی صحابی اس منع کرنے والے صحابی کو اس سے نہ روکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قولاً اور فعلاً صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں سکون اور اطمینان واجب ہے۔ اگر یہ سکون واجب نہ ہوتا تو صحابہ کبھی تو اس سکون و اطمینان کو ترک کردیتے جیسے وہ غیر واجب چیزوں کو (بعض دفعہ) چھوڑ دیتے تھے۔
ïعلاوہ ازیں لغت ِ عرب میں رکوع اور سجود کا معنی و مفہوم اس وقت ہی متحقق ہوتا ہے جب رکوع کے لیے جھکتے وقت اور چہرے کو زمین پررکھتے وقت سکون و اطمینان کا اہتمام کیا جائے ورنہ محض جھک جانا اور سر کو زمین پر رکھ کر اُٹھا لینا، اس کا نام نہ رکوع ہے اور نہ سجدہ۔ اور جو اس کو رکوع اور سجدہ قرار دیتا ہے، وہ لغت ِعرب کے خلاف بات کرتا ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ لغت ِعرب سے اس کی دلیل پیش کرے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا،کیونکہ اس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے نہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ ہے۔ پس اس موقف کا قائل بغیرعلم کے اللہ کی کتاب پر بھی حرف زنی کرتا ہے اور لغت عرب پر بھی۔ اور جب اس امر ہی میںشک پڑ جائے کہ واقعی یہ سجدہ کرنے والا ہے یا سجدہ کرنے والا نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص بالاتفاق حکم سجدہ کی تعمیل کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ سجدہ واجب ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ سجدہ کرنے والے نے اس وجوب پر عمل کرلیا ہے۔جیسے کسی شخص کو یہ تو یقین ہو کہ نماز یا زکاۃ اس پر واجب ہے، لیکن اس کو یہ شک ہو کہ اس نے نمازپڑھ لی یا زکاۃ ادا کردی۔
مزید برآں، اللہ تعالیٰ نے نماز کی حفاظت اور اس پر مداومت (ہمیشگی) کو واجب کیا ہے اور نماز کے ضائع کرنے اور اس سے تساہل برتنے کی مذمت کی ہے۔ جیسے سورۂ مومنون اور سورۂ معارج وغیرہما کی آیات میں ان کا بیان ہے۔ (امام صاحب نے یہاں یہ آیات نقل فرمائی ہیں اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ)یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص نماز کے واجبات میں سے کوئی ایک چیز بھی چھوڑتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے (نہ کہ قابل مدح) چاہے ظاہری طور پر وہ نماز پڑھنے والا ہی ہو، جیسے کوئی شخص وقت ِواجب کو چھوڑ دے یا نماز کے ظاہری و باطنی اعمال میں سے ان کی شرائط و اَرکان کی تکمیل کو ترک کردے۔ (ملخصاً از مجموع الفتاویٰ:۲۲؍۵۴۷۔۵۷۲)
اِمام کے لیے تخفیف کے حکم کا مطلب
ایک نہایت اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نبی 1 نے فرمایا ہے:
0إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف فإن فیھم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطوّل ماشائ9(صحیح بخاری: ۷۰۳)
''جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نمازپڑھائے،اس لیے کہ نمازیوں میں ضعیف،بیمار، بوڑھے بھی ہوتے ہیں اورجب خود (تنہا) نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔''
یہ مسئلہ بھی اکثر و بیشتر خلجان کاباعث بھی بنتا ہے اور تخفیف کے نام پر نماز کا حلیہ بھی بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے اپنے بے مثال فہم و تفقہ سے نہایت عمدہ پیرائے میںاس مسئلے کو بھی حل فرمایا ہے۔ امام صاحب ؒ فرماتے ہیں:
''تخفیف ایک اضافی اور نسبی امر ہے، اس کی کوئی حد نہ لغت میں ہے اور نہ عرف میں۔اس لیے کہ ایک چیز کچھ لوگوں کو لمبی لگتی ہے جب کہ کچھ دوسرے اس کو ہلکا سمجھتے ہیں۔ کسی چیز کو بعض ہلکا سمجھتے ہیں جب کہ دوسروں کے نزدیک وہ لمبی ہوتی ہے۔ پس یہ ایسا معاملہ ہے کہ لوگوں کی عادات اور عبادات کی مقادیر کے اختلاف کے ساتھ ساتھ مختلف ہوتا ہے۔
اس لیے مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخفیف اور طوالت کا فیصلہ بھی وہ سنت ِنبوی ہی کی روشنی میں کرے اور سنت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی1 کا تخفیف کا حکم، آپ کے تطویل کے حکم کے منافی نہیں ہے، یعنی ان دونوں حکموں میں منافات یا تضاد نہیں ہے، دونوں کا اپنا اپنا محل ہے۔ اُس محل اور پس منظر ہی میں دونوں حکموں کو رکھ کر دیکھنا چاہئے۔جیسے حضرت عمارؓ سے مروی حدیث میں نبی1 نے فرمایا:
0إن طول صلاۃ الرجل وقصر خطبتہ مئنّۃ من فقھہ،فأطیلوا الصلاۃ واقصروا الخطبۃ9 (صحیح مسلم:۸۶۹)
''آدمی کا لمبی نماز پڑھانا اور خطبہ مختصر دینا، اس کے سمجھ دار ہونے کی علامت ہے، پس تم نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو۔''
اس حدیث میںنماز کو لمبا کرنے کا جب کہ اس سے ماقبل کی حدیث میں تخفیف (ہلکی کرنے)کا حکم تھا،ان میں منافات (ایک دوسرے سے تضاد) نہیںہے۔اس لیے کہ طوالت کا حکم خطبے کے مقابلے میںہے اور ماقبل کی حدیث میں تخفیف کا حکم ان بعض ائمہ کے طرزِعمل کے مقابلے میںہے جس کا اظہار نبی1 کے زمانے میں اُن سے ہوا کہ انہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی۔ اس لیے آپ نے ان سے فرمایا:
''جب تم میں سے کوئی شخص تنہا نماز پڑھے تو جتنی لمبی چاہے نماز پڑھے۔''
اور حضرت معاذؓکو، جنہوں نے عشا کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھی تھی، فرمایاتھا کہ ''کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو، تم سورۃ اللیل، سورۃ الشمس وغیرہ پڑھا کرو۔''
ïلوگوں نے طوالت کی مقدار کو بھی نہیں پہچانا اور نہ اس طوالت کو سمجھا جس سے نبی1 نے منع فرمایا تھا اور اپنی طرف سے ایک متعین مقدار کو مستحب قرار دے لیا، جیسے رکوع، سجود میں کم از کم تین مرتبہ تسبیحات پڑھنا۔ حالانکہ امام کے لیے تین مرتبہ تسبیحات پر اکتفا کرنے کو سنت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ رکوع کے بعد اعتدال کو لمبا نہ کرنا سنت ہے یانماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا سنت ہے،وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس ان کاموں کو سنت قرار دینے کی کوئی اصل نہیں ہے۔بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنی غالب (اکثر) نمازوں میںتین مرتبہ سے زیادہ تسبیحات (سبحان ربي العظیم، سبحان ربي الأعلی) پڑھتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، جن کو پانچویں خلیفہ راشد قرار دیا جات ہے، یہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے کے گورنر بنے (ولید بن عبدالملک کی خلافت میں) تو حضرت انسؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی تو اُنہوں نے فرمایا:
ما صلیت وراء أحد بعد رسول اﷲ ﷺ أشبہ صلاۃ برسول اﷲ من ھذا الفتی یعنی عمر بن عبد العزیز قال: فحزرنا في رکوعہ عشر تسبیحات وفي سجودہ عشر تسبیحات (سنن ابوداؤد:۸۸۸،نسائی:۱۱۳۵)
''نبی1 کے بعد کسی کے پیچھے اس نوجوان (عمر بن عبدالعزیز) جیسی نماز نہیں پڑھی جو اس سے زیادہ رسول اللہ1 کی نماز کے مشابہ ہو۔ اُنہوں نے کہا: ہم نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے رکوع میں بھی دس تسبیحات پڑھیں اور سجدے میں بھی دس تسبیحات پڑھیں۔''
(ملخص از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ:۲۲؍۵۹۴ تا۵۹۷، طبع قدیم)
امام صاحبؒ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز ہر صورت میں اِعتدال و اطمینان کے ساتھ پڑھنی بھی ہے اور پڑھانی بھی ہے۔ البتہ اکیلے پڑھتے وقت اِعتدال کی کوئی حد نہیں۔
نبی1 کا قیام،رکوع، قومہ، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا،یہ سارے ارکان عام طور پر تقریباً برابر ہوتے تھے جیسا کہ اَحادیث میں اس کی وضاحت ہے اور جب کوئی امام ہو تو اس وقت مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھانی ہے، کیونکہ ان میں ضعیف،بیمار،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں،خود نبی1معمول کے مطابق نماز پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن جب آپ کو بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز میں تخفیف فرما دیتے تھے۔ لیکن تخفیف کا مطلب وہ نہیں جو آج کل سمجھ لیاگیا ہے کہ پوری نماز ' تو چل میں آیا' کے انداز میںپڑھا دی جائے،بلکہ تخفیف کا مطلب قراء ت میں اختصار ہے (جیسا کہ حضرت معاذؓ کے واقعے سے واضح ہے) اور رکوع، سجود، قومہ، قعود بین السجدتین، وغیرہ سارے اَرکان اطمینان کے ساتھ اَدا کرنے ہیں، جیسے عمرؒ بن عبدالعزیز اس دور کے طریقے کے مطابق بحیثیت ِگورنر،امامت فرماتے تو رکوع و سجود میں تقریباًدس دس تسبیحات پڑھتے، گویا امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ مقتدیوں کا خیال رکھنے کی تاکید کے باوجود نماز میں اعتدال و اطمینان کا خیال رکھے اور تخفیف کے نام پر اعتدالِ ارکان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کرے۔
اورنبی1کا جو یہ فرمان ہے کہ''نماز کو لمبا کرنا اور خطبے میں اختصار کرنا سمجھداری کی علامت ہے۔''اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نماز خطبے سے لمبی اور خطبہ نماز سے مختصر ہو۔ ان کا بھی آپس میں تقابل نہیں ہے بلکہ یہ دو الگ الگ حکم ہیں اور ان کے الگ الگ تقاضے ہیں۔نماز جب بھی پڑھی یا پڑھائی جائے، لمبی یعنی اعتدال و سکون کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی جائے اور خطبہ اور وعظ جب بھی ارشاد فرمایا جائے، اس میںطوالت کے بجائے اختصار اور جامعیت سے کام لیا جائے۔
جو شخص ان دونوں چیزوں میں ان پہلوؤں کو ملحوظ رکھے گا، وہ یقینا فہم و تفقہ سے بہرہ ور ہے، رزقنا اﷲ منہ؛ بصورتِ دیگر وہ اس خوبی سے محروم ہے۔أعاذنا اﷲ منہ آمین!