اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود؟



شرک اور اس کی ذیلی صورتوں سے بچنے کے لئے کتاب وسنت میں بے شمار ہدایات پائی جاتی ہیں، اور علماے کرام عوام الناس کو اس کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے شرک کی ایک خودساختہ تعریف متعین کرکے عوام الناس میں پائے جانے والی شرکیہ کوتاہیوں کو تحفظ دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ مختلف شہروں میں 'عقیدئہ توحید' کے نام سے سمینار منعقد کرکے ان میں نہ صرف عوام الناس کو مغالطہ دیا جارہا ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود ہی سرے سے ناممکن ہے، اس لئے شرک سے بچنے کی تدابیر اضافی اور بے فائدہ ہیں۔ زیر نظر مضمون میں شرک کی ناقص اور خودساختہ تعریف کی قرآنی آیات اور ائمہ اسلاف کے ذریعے تردید کرنے کے بعد اُمت ِمسلمہ میں شرک کے وجود کو آیاتِ کریمہ سے ثابت کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس اس کے بارے میں فکر مند ہوں، اپنے اعمال کے بارے میں توجہ کریں، نہ کہ مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں۔ ہر دو نکات پر بکثرت قرآنی دلائل اس لئے پیش کئے گئے ہیں تاکہ حق کے متلاشی کے لئے یہ مسائل ظاہر وباہر ہوجائیں اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو خلوص کے ساتھ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ ح م

اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ایمان و توحید ہے اور بلاشبہ اسے تعلیماتِ اِسلامیہ میں اَساس اور مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہے جب کہ برے اَعمال میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز شرک ہے۔جس قدر اس کی مذمت کی گئی ہے، اس قدر کسی اور چیز کی شناعت بیان نہیں کی گئی۔اسی توحید کے اثبات اور تبلیغ و اشاعت اور شرک کے نقصان و بُرائی کو واضح کرنے اور لوگوں کو اس سے روکنے کے لیے انبیا و رسل علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور یہی ان کی دعوت و کاوش کا مرکزی نکتہ رہا ہے اور اسی میں اُنہوں نے اپنی زندگیاں صرف کردیں اور ان کے بعد علماے ربانی بھی اسی متاعِ عزیز کو سینے سے لگائے ہر دور میں حقِ وراثت ِانبیا ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔جب کہ مقابلہ میں ابلیسِ لعین بھی اپنے لاؤلشکر سمیت ہر دور میں نت نئے انداز و مغالطہ جات سے اور اب تو جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آور ہے اور اس کے کارندے بھی مخصوص مفادات کی خاطر، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دامِ فریب میں پھانسنے کے لیے، تلبیسانہ انداز میں ملمع سازی کرکے ظلم عظیم کو صراطِ مستقیم، شرک و گستاخی کو رشد و ہدایت اور عشق و محبت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں،لیکن یاد رہنا چاہئے کہ توحید و سنت کے چراغ شرک و گستاخی کی پھونکوں سے کیونکر بجھائے جاسکتے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں :

{يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ} (التوبہ:۳۲،۳۳)

''وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہہ (کی پھونکوں) سے بجھا ڈالیں، لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں ہے، وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار گزرے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب اَدیان پر غالب کردے۔خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔''

اس مذموم کاروبار کو رواج دینے اور سند ِجواز بخشنے کے لیے بعض مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا ہے کہ شرک تو ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے۔ اب اس اُمت میں شرک نہیں پایا جاسکتا اور کوئی مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق، عوام کو مغالطہ دیتے ہوئے اب یہ بھی کہا جانے لگا کہ شرک کی مذمت والی آیات و اَحادیث میں مراد رِیاکاری یعنی شرکِ اصغر ہے نہ کہ شرکِ اکبر، اورکبھی ان کو قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی بیان کیا جاتا ہے کہ

''شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اُس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحقِ عبادت قرار دیا جائے۔ اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔'' (نعمۃ الباري في شرح صحیح البخاري:۲؍۱۸۵)

تارِ عنکبوت سے کمزور اس اُصول کی حقیقت تو اس بات سے ہی کھل جاتی ہے کہ اس قاعدہ سے تو مشرکینِ عرب بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے اور شاید اس طرح یہ لوگ اپنے سے زیادہ مشرکینِ عرب کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ہی خالق، مالک، رازق اور واجب الوجود مانتے تھے اور اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق، ملکیت اور اس کے ماتحت تصور کرتے تھے نہ کہ واجب الوجود۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں:

''واعلم أن للتوحید أربع مراتب: إحداھا حصر وجوب الوجود فیه تعالیٰ فلا یکون غیرہ واجبًا۔ والثانیة حصر خلق العرش والسموات والأرض وسائر الجواھر فیه تعالیٰ وھاتان المرتبتان لم تبحث الکتب الالھیة عنھما ولم یخالف فیھما مشرکوا العرب ولا الیھود ولا النصارٰی بل القرآن ناص علی أنھما من المقدمات المسلمة عندھم''

''تو جان لے یقینا توحید کے چار درجے ہیں:پہلا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میں واجب الوجود ہونے کی صفت پائی جاتی ہے پس اس کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عرش، آسمانوں، زمینوں اور تمام جواہر کا خالق ہے۔ (یاد رہے کہ) آسمانی کتابوں نے ان دو مراتب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی مشرکینِ عرب اور یہود و نصاریٰ نے ان میں اختلاف کیاہے بلکہ قرآنِ پاک کی اس پر نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں مسلمات میں سے ہیں۔'' (حجۃ اﷲ البالغۃ:۱؍۵۹)

اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین اور پوری کائنات کا خالق ہے!

۱ اِرشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ}(الزخرف:۸۷)

''اور اگر آپ(1) ان سے پوچھیں کہ اُنہیں کس نے پیدا کیا؟ تو یہ ضرور کہیںگے کہ اللہ تعالیٰ نے، پھر کہاں سے یہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔''

۲ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ} (لقمان:۲۵)

''اور اگر آپ(1) ان سے پوچھیں، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے اللہ تعالیٰ ، کہو: الحمدللہ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں۔''

۳ ایک اور مقام پر فرمایا:

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ (61) اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (62) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ} (العنکبوت:۶۱تا۶۳)

''اور اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے تو یہ ضرور کہیںگے کہ اللہ نے۔ پھر یہ کدھر سے دھوکہ کھا رہے ہیں؟ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو زندہ کردیا تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہو: الحمدﷲ، مگر ان میں سے اکثر لوگ بے عقل ہیں۔''

۴ فرمایا:

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ}(الزمر:۳۸)

''اور اگر تم ان سے پوچھو آسمان اور زمین کس نے بنائے تو ضرور کہیں گے اللہ نے۔ تم فرماؤ بھلا بتاؤ تووہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس کی بھیجی تکلیف ٹال دیں گے یا وہ مجھ پر مہر (رحم) فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی مہر کو روک رکھیں گے تو فرماؤ: اللہ مجھے بس، بھروسے والے اسی پر بھروسہ کریں۔'' (ترجمہ از احمدرضا خان بریلوی ،کنزالایمان)

نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت ِکریمہ کے تحت رقم طراز ہیں:

''یعنی یہ مشرکین خداے قادر، علیم، حکیم کی ہستی کے تو مقر ہیں اور یہ بات تمام خلق کے نزدیک مسلم ہے اور خلق کی فطرت اس کی شاہد ہے۔''

(خزائن العرفان: سورۃ الزمر، حاشیہ نمبر ۸۶)

۵ فرمایا:

{قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ} (یونس:۳۱)

''آپ (1) کہہ دیں کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس کائنات کا انتظام چلا رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ پھر پوچھئے کہ تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟''

۶ فرمایا:

{قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (85) قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (86) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ} (المؤمنون:۸۴ تا ۸۹)

''آپ(1) ان سے پوچھئے کہ اگر تمہیں کچھ علم ہے تو بتاؤ! کہ زمین اور جوکچھ اس میں ہے وہ کس کا ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے اللہ کا، آپ کہئے پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ پھر پوچھئے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کامالک کون ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے۔ آپ کہئے: پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟ پھر پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ ہر چیز پر حکومت کس کی ہے؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ ہی ہے۔ آپ کہئے: پھر تم کس جادو کے فریب میں پڑے ہو۔''

مشرکینِ عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق و ملکیت مانتے تھے اور ان کی صفات و اختیارات اور قوت کو قدیم اور مستقل بالذات نہیں مانتے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ صفات و اختیارات ان کے ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عطا کردہ ہیں اُسی کی ملکیت اور اُس کے ماتحت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:

کان المشرکون یقولون لبیك لا شریك لك قال فیقول رسول اﷲ ﷺ: ویلکم قدٍ قدٍ فیقولون: إلا شریکًا ھو لك تملکه وما مَلَك۔یقولون ھذا وھم یطوفون بالبیت (صحیح مسلم:۱۱۸۵)

''مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے:''لبیک لا شریک لک'' تو رسول اللہ1 فرماتے: ''ہلاکت ہو تمہارے لیے، اسی پر اکتفا کرو'' لیکن وہ کہتے ''إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک'' یعنی ''اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے، تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔''

مشرکین مکہ تقربِ الٰہی اور سفارش کے لئے دوسروں کو شریک کرتے تھے!

مشرکین عرب اپنے معبودوں کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں، ان کو مستحق عبادت سمجھ کر ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتابلکہ غیر مستقل ہی ہوتا ہے۔ارشادِ باری ہے:

{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (2) أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ}(الزمر: ۲، ۳)

''بے شک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اُتاری، تو اللہ کو پوجو، نرے اس کے بندے ہوکر، ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے، اور جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالئے، کہتے ہیں کہ ہم تو اُنہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں۔'' (ترجمہ از احمد رضا خان بریلوی ،کنزالایمان)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} (یونس:۱۸)

''اور وہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا کچھ بھلا نہ کرے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ تو فرماؤ کیا اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں، اسے پاکی اور برتری ہے ان کے شرک سے۔'' (ترجمہ از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

معلوم ہواکہ مشرکین عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان کی صفات واختیارات کو ان کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور ا س کی ملکیت مانتے تھے لہٰذا اُن کو واجب الوجود، اُن کی صفات کو قدیم اور مستقل بالذات اور ان کو مستحق عبادت نہیں مانتے تھے۔ بلکہ ان کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کردیتا ہے۔ مشکل کشائی، حاجت روائی کرتا ہے، شفا بخشتا ہے، ہماری سنتا نہیں، ان کی موڑتا نہیں وغیرہ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کرتے، اور مافوق الاسباب اختیارات کامالک سمجھتے اور پکارتے تھے، ان کو نفع و نقصان کے حصول میں مستقل نہیںمانتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتالہٰذا وہ اُنہیں غیرمستقل مانتے تھے اور انہیں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ قرار دیتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔ لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لئے

''شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحق عبادت قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔'' (نعمۃ الباري: ۲؍۱۸۵)

کی شرط لگانا سراسر باطل ہے۔ اس سے تو مشرکین عرب کاشرک بھی ثابت نہیں ہوتا اور یہ قرآنِ پاک کے خلاف ہے، لیکن اگرپھر بھی کوئی بضد ہو تو پھر اسے اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ ''مشرکین عرب میں بھی شرک نابود تھا اور اُن کا کوئی فرد بھی مشرک نہیں تھا۔'' معاذ اللہ تاکہ غلط نظریات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوجائے اور اپنے اس خود ساختہ اُصول سے بھی کماحقہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ حالی لکھتے ہیں:

مگر مؤمنوں پر کشادہ ہیں راہیں

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

نیز

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاتا ہے!

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان ''اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان سکتا ہے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دے سکتا ہے یا نہیں؟''

اگر کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے تو اس اُمت میں شرک بھی پایا جاسکتا ہے اور یہ مزعومہ دعویٰ کہ ''اس امت میں سے شرک ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے اور اب کوئی مسلمان شرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا'' سراسر باطل قرار پاتا ہے۔ یا پھر ان جدید مفکرین کی طرف سے اپنے اس بیان کردہ اُصول کو بھی ریا کاری یعنی شرکِ اصغر پر محمول کرلیا جائے گا؟ اس صورت میں تو ''اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات ماننا اس کو مستحق عبادت قرار دینا'' بھی ان اصحابِ جبہ و دستار کے نزدیک شرکِ اکبر نہیں ہوگا۔ یا پھر اپنے اس اُصول کوبھی قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے لیں گے؟

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!

اور اگر کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ایسا نہیں مان سکتا تو پھر یہ مزعومہ اصول کہ ''شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔'' (نعمۃ الباري:۲؍۱۸۵) قرآنِ پاک کے مخالف ہونے کے سبب بذاتِ خود باطل قرار پاتا ہے کیونکہ قرآنِ پاک سے یہ ثابت ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کرسکتا ہے۔

۱ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ} (الانعام:۸۱،۸۲)

''تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، اُنہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔'' (ترجمہ از مولانا احمدرضا خان بریلوی ، کنزالایمان)

اس آیت ِمبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں آپ1 نے وضاحت فرما دی ہے:

عن عبد اﷲ قال لمّا نزلت {الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} شق ذلك علی أصحاب رسول اﷲ ! وقالوا أینا لایظلم نفسه؟ فقال رسول اﷲ!:لیس ھو کما تظنون إنّما ھو کما قال لقمان لابنه {لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ}(صحیح بخاری:۳۴۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴ واللفظ لہ)

''عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی [ترجمہ: جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ بالکل ظلم نہیں کیا (انہی کو نجات ہوگی)]تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول1 سے عرض کیا ہم میں سے کون شخص (معصیت کرکے) ظلم نہیں کرتا! رسول1 نے فرمایا: اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ظلم یعنی شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی ،شرح صحیح مسلم:۱؍۵۸۶)

(ا) اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ''وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہیں کی۔'' اس بارے میں نص صریح ہے کہ اہل ایمان،ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہاں اس سے شرکِ اکبر مراد ہے جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔

(ب) یہ آیت ِکریمہ اہل ایمان، مسلمانوں یعنی کلمہ پڑھنے والے اُمتیوں کے بارے میں ہے کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے امن کی گارنٹی اور ہدایت یافتہ ہونے کی سعادت ہے۔

(ج) کلمہ نہ پڑھ کر اُمتی نہ بننے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ تو اگر بالفرض شرک نہ بھی کریں تو پھر بھی ان کے لیے نہ امن ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ کلمہ نہ پڑھنے اور انکارِ نبوت کی وجہ سے ہی وہ کافر اور ابدی جہنمی ہیں۔

(د) صحابہ کرامؓ نے اس آیت ِکریمہ کو، ہمارے اس دور کے اصحابِ جبہ ودستار کی طرح یہ کہہ کر ردّ نہیں کردیا کہ یہ تو کفار، یہود و نصاریٰ یا بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق ہے اور پھر نبی پاک1 نے بھی ایسا نہیں کیا۔

(ہ) صحابہ کرام ؓ نے اس آیت ِکریمہ کواپنے بارے میں سمجھا، اس سے استدلال کیا اور اپنے بارے میں پریشانی کا اظہار بھی کیا تو نبی کریم1 نے بھی اس کو ردّ نہیں کیابلکہ باقی رکھا لہٰذا یہاں یہ بہانہ بھی کارگر نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت تو صرف قربِ قیامت کے لوگوں کے متعلق ہے۔

(و) البتہ لفظ 'ظلم' کوسمجھنے میں جو دشواری ہوئی تھی، آپ1 نے اس کی اصلاح فرما دی کہ یہاں ظلم سے مراد ایک خاص ظلم یعنی شرک ہے، عام معصیت وغیرہ نہیں ہے۔

(ح) صحابہ کرامؓ نے زمانۂ جاہلیت کو قریب سے دیکھا تھا، اور پھر نبی پاک1 کی صحبت اور تعلیم و تربیت کا بھی اثر تھا کہ ان سے شرک کا وقوع نہیں ہوا۔ البتہ جہاں اُنہیں دوسرے لوگوں کے پھسل جانے کا خطرہ محسوس ہواتو اُنہوں نے اس کا سدباب بھی کیا۔

(ط) اس آیت ِکریمہ میں ظلم سے مراد شرک اکبر ہے، کیونکہ یہاںشرک ِاکبر کے مرتکب کافر اور مؤمن کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے کہ ان ''دونوں گروہوں میں سے امن کا سزاوار کون ہے؟'' توفرمایاکہ ''جو لوگ ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔''

(ی) سوال یہ ہے کہ کیا ان جدید مفکرین کے نزدیک کافر شرکِ اکبر کا مرتکب ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر اس آیت ِکریمہ کی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کابہانہ نہیں چل سکتا اور حق بھی یہی ہے کہ یہاں شرکِ اکبر مراد ہے۔

اور اگر نہیں تو پھر ان اصحاب کو اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ'' ان کفار میں بھی شرکِ اکبر نابود تھا اور کوئی کافر بھی شرکِ اکبر میں مبتلا نہیں تھا'' تاکہ مزعومہ خیالات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوسکے۔

(ک) اگر اس آیت ِکریمہ کے سیاق و سباق کی طرف جائیں تو اس میں بھی شرکِ اکبر کا ہی تذکرہ ہے۔

معلوم ہوا کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور مسلمان بھی شرکِ اکبر میںمبتلا ہوسکتے ہیں، الامن رحم ربی اور یہ مذکورہ آیت ِکریمہ اس بارے میں نص صریح ہے اور اُمت ِ مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کادعویٰ سراسر باطل ہے اور قرآن کے خلاف ہے۔

۲ جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} (الحج:۳۰،۳۱)

''اور تمہارے لیے حلال کیے گئے ہیں بے زبان چوپائے سو ا ان کے جن کی ممانعت تم پرپڑھی جاتی ہے تو دور رہو بتوں کی گندگی سے، اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کونہ کرو اور جو اللہ کا شریک کرے، وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

(ا) اس آیت ِکریمہ میں بھی مخاطب مسلمان ہیں۔

جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری بھیروی راقم ہیں:

''مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ یہ بت جن کو مشرکین نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے یہ تو سراسر نجاست اور غلاظت ہیں،ان سے دور بھاگو۔''

نیز فرماتے ہیں: ''شرک سے منہ موڑ کر کمال یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاؤکسی کواس کا شریک نہ بناؤ، نہ ذات میں اور نہ صفات میں''

(ضیاء القرآن :۳؍۲۱۲،۲۱۳)

(ب) امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:

وَثن بت ہے خواہ سونے، چاندی کی مورتی ہویا کسی اور چیز کا مجسمہ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے وہ وثن ہے خواہ بت ہو یا کوئی اور چیز۔ (التمہید:۵؍۴۵)

(ج) کیا ان اصحاب کے نزدیک وثن کی عبادت بھی شرکِ اکبر نہیںہے؟

(د)کیامسلمانوں کو ایسی چیز سے بچنے کا پابندو مکلف بنایا جارہا ہے جس کے وجود کا ان میں امکان بھی نہیں؟ جیسا کہ فرشتوں کو مکلف بنانا کہ وہ نہ کھائیں، نہ پئیں اور نہ قضاے حاجت کریں۔

۳ انبیاء علیہم السلام سے شرک کا صدور ناممکن ہے، وہ اس سے پاک ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک کی قباحت و برائی کوبیان کرنے اور اُمتیوں کو سمجھانے کے لیے اٹھارہ انبیا وورُسل علیہم السلام کاذکر کرکے فرمایا:

{وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} (الانعام:۸۸)

''اور اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کا کیا اکارت جاتا۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب رقم طراز ہیں:

''پھر فرمایا (بہ فرضِ محال) اگر ان نبیوں اور رسولوں نے بھی شرک کیا تو ان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کی آمیزش کے ساتھ کسی نیک عمل کو قبول نہیں فرماتا اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی اُمتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اگر اُنہوں نے بالفرض شرک کیا تو ان کے نیک عمل ضائع ہوجائیں گے تو ان کی اُمتیں کس گنتی ، شمار میں ہیں۔'' (تبیان القرآن:۳؍۵۷۹)

۴ اسی طرح ایک اور مقام پر نبی پاک1سے فرمایا:

{وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} (الزمر:۶۵)

''اور بیشک وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر (بفرضِ محال) آپ نے بھی شرک کیاتو ضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال اور آپ بھی خاسرین میںسے ہوجائیں گے۔'' (ترجمہ از جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری، ضیاء القرآن:۴؍۲۸۱)

غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اس آیت میں تعریض ہے۔ ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی اُمت ہے یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے تو اگر آپ کی اُمت کے کسی شخص نے شرک کیاتو اس کے اعمال تو بطریق اولیٰ ضائع ہوجائیں گے۔ (تبیان القرآن:۱۰؍۲۹۳)

۵ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}

''تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔'' (ترجمہ از کنزالایمان ،سورۃ الکہف:۱۱۰)

(ا) نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت کے تحت راقم ہیں:

''شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریا سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں۔'' (خزائن العرفان، سورۃ الکہف، آیت نمبر ۱۱۰ حاشیہ نمبر ۲۲۴)

(ب) اس آیت ِکریمہ کی ریا یعنی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کرنے والوں کو نعیم الدین مراد آبادی کا مندرجہ بالا بیان اور اپنادرج ذیل اُصول یاد رہنا چاہئے۔

احمدرضا خان صاحب بریلوی راقم ہیں:

''اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے، بے دلیلِ شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اُٹھ جائے۔ نہ اَحادیث ِآحاد اگرچہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کی ہوں، عمومِ قرآن کی تخصیص کرسکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائیں گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۹؍۴۸۸)

مزید فرماتے ہیں: ''عموم آیاتِ قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبارِ آحاد سے استناد محض غلط ہے۔ '' (فتاوی رضویہ:۲۹؍۴۸۹)

(ج) یہ آیت ِکریمہ اُمت ِمحمدیہ کے مسلمانوں کے بارے میں ہے، کیونکہ مشرکین عرب تو یوم آخرت اور حشرونشر پر ایمان رکھتے ہی نہیں تھے۔

۶ اللہ تبارک ارشاد فرماتے ہیں:

{وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ} ( یوسف:۱۰۶)

''اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔'' (ترجمہ: از مولانا غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن:۵؍۸۷۵)

(ا) یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ

''لوگ ایمان لانے کے باوجود بھی شرک کاارتکاب کرتے ہیں۔''

(ب) حالانکہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانتا ہے نہ اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ اس کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے اور کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔

(ج) علامہ سید محمود آلوسی حنفی، اس آیت ِکریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ومن أولئك عبدة القبور الناذرون لھا،المعتقدون للنفع والضرّ ممن اﷲ تعالیٰ أعلم بحاله فیھا وھم الیوم أکثر من الدود(روح المعاني:۱۳؍۶۷)

''اور انہی میں سے ایک گروہ قبر پرست لوگوں کا ہے جو ان کیلئے نذر مانتے ہیں اور ایسے لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ قبروں میں ان کی کیا حالت ہے اور ایسا کرنے والے لوگ تو آج کل کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ ہیں۔''

یاد رہے کہ اگر قبرپرستی بھی شرک ِاکبر نہیں ہے تو پھر کیا اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ بت کو کھڑا کرکے پوجتے ہیں اس لیے شرک اکبر کے مرتکب ٹھہرے اوریہ دفن کرکے پوجنے سے شرک اکبر کی تعریف سے نکل جائیں۔سبحان اللہ! اور آستانوں اور مزارات پر اس کامشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔

(د) علامہ آلوسی حنفی تو قبروں کے لیے نذر و نیاز ماننے والوں اور قبروں والوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسی آیت کریمہ کے تحت قبرپرست قرار دے کر ایسی آیت ان پر فٹ کرتے ہیں۔ (اور ان کو مشرک سمجھ رہے ہیں اور مشرک کہہ رہے ہیں)

(ہ) اور اس دور کی جاہلیت ِجدیدہ کے ان جدید مفکرین کی طرح اس آیت ِکریمہ کو بتوں، ریا کاری یا قربِ قیامت کے متعلق کہہ کر ردّ نہیںکرتے اور نہ ہی اس کو کفار کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔

(ح) پیر سید نصیرالدین گولڑوی سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف فرماتے ہیں :

{وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ} (الروم :۳۳)

''اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ اُنہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی اُن میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔'' (ترجمہ کنزالایمان)

کیا یہ دونوں آیتیں ہم میں سے اکثر سنی کہلوانے والے محبانِ بزرگانِ دین کے نظریہ و فکر اور طرزِ عمل کی نشاندہی نہیں کررہیں؟ بارہا مشاہدہ میں آیا کہ جب کسی خوش عقیدہ اور زائد از ضرورت عقیدت مند کو کوئی فائدہ پہنچتا یاخوشی نصیب ہوتی ہے تو فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ یہ میرے مرشد کاکام ہے، لیکن جب کوئی مصیبت اور تکلیف آدبوچتی ہے توکہنے لگتا ہے: اللہ کی مرضی... (مزید لکھتے ہیں)

''دیکھیں یہی باتیں مشرکین اصنام میں تھیں اور یہی آج کے اکثر عقیدت مند مسلمان کہلوانے والوں میں ہیں تو کیا ان پر وہ آیات خود فٹ نہیں آرہیں؟'' (اعانت و استعانت:ص ۹۵،۹۶)

۷ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} (الانعام:۱۲۱)

''بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳؍۶۳۶)

(ا) اس آیت ِکریمہ میںمسلمانوں، کلمہ پڑھنے والوں، آپ کے امتیوں سے خطاب ہے۔

(ب) یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور یہ کہ مسلمان بھی مشرک ہوسکتے ہیں۔

(ج) اور اسے قرب ِقیامت کے ساتھ خاص بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی ریاکاری کے ساتھ تاویل ہوسکتی ہے۔

(د) اگر اُمت ِمسلمہ میں شرک نہیں پایا جاسکتا یا مسلمان شرک نہیں کرسکتے تو پھر إنکم لمشرکون اور وہ بھی تاکیداً کیوں کہا گیا؟

(ہـ)جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں:

''اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔'' (ضیاء القرآن:۱؍۵۹۷)

(و) نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

''کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔'' (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)

(ز) کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (الانعام:۱۲۱)

تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔

۸ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60) وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ} (یس:۶۰،۶۱)

''اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری بندگی کرنا، یہ سیدھی راہ ہے۔'' (ترجمہ: از احمد رضا خان بریلوی، کنزالایمان)

نعیم الدین مراد آبادی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اس کی فرمانبرداری نہ کرنا اور کسی کو عبادت میں میراشریک نہ کرنا۔'' (خزائن العرفان، سورئہ یس: حاشیہ نمبر۷۷،۷۸)

غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اور شیطان کی عبادت سے مراد ہے، شیطان کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے قدم بہ قدم چلنا۔'' (تبیان القرآن:۹؍۸۰۳)

کیاکوئی بھی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ شیطان کی عبادت بھی شرک نہیں ہے اور لوگوں میں اس کا وجود نہیں ہے؟ حالانکہ کوئی بھی شیطان کو واجب الوجود، اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات اور اس کو مستحق عبادت قرار دینے والا نہیں ۔

معلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے اس سے تو شیطان کی عبادت بھی شرک ثابت نہیں ہوگی۔

۹ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} (التوبہ:۳۱)

''اُنہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا اورمسیح ابن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، اُسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

جسٹس (ر) پیر کرم شاہ ازہری سجادہ نشین بھیرہ شریف اسی آیت ِکریمہ کے تحت راقم ہیں:

''حضرت عدی بن حاتم پہلے عیسائی تھے۔ اب اُنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ1 ہم تو انہیں ربّ نہیںمانتے توقرآن کی اس آیت کا کیامطلب ہے؟ حضورِ کریم1 نے فرمایا کہ اگر وہ حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیتے تو کیا تم ان کی ان باتوں کونہیں مانتے تھے۔ عدی نے عرض کی کہ ایسا تو ہم کرتے تھے۔ حضور1 نے فرمایا یہی ان کو ربّ ٹھہرانا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اگر کوئی حرام کردے یا ان کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے تو اس نے گویا تشریع قانون سازی جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جن لوگوں نے اس کی ان باتوں کو مان لیا، گویا انہوں نے اس کی خدائی کو تسلیم کرلیا۔'' (ضیاء القرآن:۲؍۱۹۸)

اور غلام رسول سعیدی صاحب بھی اسی آیت کریمہ کے تحت حضرت عدیؓ والی مذکورہ بالا حدیث کو بحوالہ سنن ترمذی :۳۰۹۵ درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:

''قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ1 کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔''

نیز فرماتے ہیں:

''لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کومعلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔'' (تبیان القرآن:۵؍۱۲۲)

(ا)قرآن و سنت کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا اس کو ربّ قرار دینا ہے یہی بات پیرکرم شاہ ازہری اور مولانا غلام رسول سعیدی نے بھی بیان کی ہے، حالانکہ کوئی بھی انہیں واجب الوجود یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات یا ان کو مستحق عبادت قرار نہیں دیتا، لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔

(ب) پیر صاحب اورمولانا صاحب نے اس آیت ِکریمہ اور حدیث ِمبارکہ کو یہود و نصاریٰ کفار تک محدود کرنے یا قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دے کر ردّ کردینے کا موقف نہیں اپنایا تھا جو آج کے ان جدید مفکرین کی زبان پر گردان کی طرح جاری وساری ہے۔

(ج) کیامسلمان اس معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پرنہیں چل سکتے؟جب کہ رسول اللہ1 تو فرماتے ہیں کہ

تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول1، یہود و نصاریٰ؟آپ1 نے فرمایا اور کون؟

(صحیح بخاری: ۷۳۲۰، صحیح مسلم:۲۶۶۹)

(د) اور غلام رسول سعیدی صاحب نے تو اس زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھ لیا ہے جو اپنے بزرگوں کو ربّ بنائے بیٹھے ہیں لیکن شاید آج کے ان جدید مفکرین کے نزدیک اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہ ہو؟ یا ممکن ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں بھی شرک ِاکبر نابود ہو؟

j اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا} (النساء :۴۸)

''بلا شبہ اللہ شرک کو کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک بنایا اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔''

(ا) ایسے گناہ جن سے مؤمن توبہ کیے بغیر ہی مرجائیں، لیکن شرک پرموت نہ آئی ہو، تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا، سزا دیئے بغیر اس کو معاف فرما دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دینے کے بعد اور بعض کو نبی کریم1کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔

(ب) لیکن اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا بلکہ ایک اور مقام پر فرمایا کہ

{إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ} (المائدۃ:۷۲)

''بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کاٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔''

(ج) یہود و نصاریٰ اگربالفرض شرک نہ کریں تو پھر بھی آپ1کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہی کافر اور اَبدی جہنمی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم:۱۵۳میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث اس پر نص قطعی ہے۔ لہٰذا جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت میں مذکور معافی کی سعادت و خوشخبری ان کے لیے نہیں ہے۔

(د) معلوم ہوا کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت ِکریمہ میںمذکور معافی کی سعادت و خوشخبری، آپ1 کی بعثت کے بعد صرف آپ1 کی اُمت کے موحدین کے ساتھ ہی خاص ہے اور آپ1 کی اُمت میں سے شرک کے مرتکب لوگ اس سے محروم رہیں گے اور یہ کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاتا ہے۔

اور مندرجہ ذیل احادیث بھی اس پرنص قطعی ہیں:

é حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ1 نے فرمایا کہ ہرنبی کے لیے ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ہر نبی نے اپنی یہ دعا اس دنیامیں جلد مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کرنے کے لیے اس دعا کو محفوظ رکھا ہے:

فھي نائلة إن شاء اﷲ من مات من أمتي لا یشرك باﷲ شیئا

''اور ان شاء اللہ میری یہ شفاعت میری اُمت کے ہر اس فرد کو شامل ہوگی جو شرک سے بچا رہے گا۔''(صحیح مسلم:۱۹۹)

é اور ایک اور حدیث میں حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ1 نے فرمایا کہ

أتاني جبرائیل علیه السلام فبشرني أنه من مات من أمتك لا یشرك باﷲ شیئًا دخل الجنة

(صحیح بخاری:۱۲۳۷، صحیح مسلم:۹۴ واللفظ لہ)

''میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اورمجھے بشارت دی کہ جوشخص آپ کی اُمت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔''

مجددِ بریلویت جناب احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں:

''اللہ عزوجل، ابلیس کے مکر سے پناہ دے، دنیامیں بت پرستی کی ابتدا یوں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بناکر گھروں اور مسجدوں میں تبرکا ً رکھیں اور ان سے لذت، عبادت کی تائید سمجھی، شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں۔'' (فتاویٰ رضویہ:۲۴؍۵۷۳)

é حضرت جندبؓ فرماتے ہیںکہ میں نے نبی 1 کی وفات سے پانچ روز پہلے آپ1 کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور اس کے آخر میں ہے :

ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور أنبیائھم وصالحھم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنھاکم عن ذلكك (صحیح مسلم:۵۳۲)

''سنو! تم میں سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ سنو! میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، شرح صحیح مسلم:۲؍۷۶ )

امام ابن الجوزیؒ راقم ہیں:

''إن أصل عبادة الأوثان والأصنام من تعظیم قبور الأولیاء والصالحین ولھٰذا نھی الشارع ! عن تعظیم القبور والصلاة عندھا والعکوف علیھا فإن ذلك ھوالذي أوقع الأمم الماضیة بالشرك الأکبر (تذکرة أولي البصائر في معرفة الکبائر،ص ۲۱)

''بلاشبہ بتوں کی عبادت کی اصل وجہ ولیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم ہے اس لیے شارع 1 نے قبروں کی تعظیم کرنے، اُن کے پاس نماز پڑھنے اور ان پر مجاور بن کربیٹھنے سے منع فرمایا ہے، بلا شبہ یہی وہ چیز ہے جس نے سابقہ امتوں کوشرک اکبر میں مبتلا کردیا تھا۔''

é حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ1 نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے آپ1 صحت یاب نہیں ہوئے:

لعن اﷲ الیھود والنصارٰی إتخذوا قبور أنبیائھم مساجد لولا ذلك أُبرز قبرہ غیر أنه خشي أو خشی أن یتخذ مسجدًا (صحیح بخاری:۱۳۹۰، مسلم :۵۲۹)

''اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ1 کی قبر کو ظاہر کردیا جاتا، لیکن آپ کو ڈر تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔''

غلام رسول سعیدی بریلوی ''نبیوں کی قبروں کی عبادت کی ابتدا کیسے ہوئی اور کسی ممنوع کام کا ذریعہ اور اس کا دروازہ بند کرنا'' کی موٹی سرخی کے تحت علامہ ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی (متوفی ۶۵۶ھ) سے ایک طویل عبارت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے کہ

''اسی وجہ سے مسلمانوں نے رسول اللہ1 کی قبر انور پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے میں بہت مبالغہ کیا اور آپ کی قبر کی دیواروں کو بہت اونچا کردیا اور ان میں داخلہ کو مسدود کردیا۔ پھر ان کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنالیا جائے تو اُنہوں نے قبر کے دو رکنوں پر دو دیواریں بنا دیں حتیٰ کہ کسی شخص کے لیے نماز میں عین قبر کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہوا۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو ظاہرکردیا جاتا۔'' (المفھم: ۲؍۱۲۸،نعمۃ الباري:۲؍۱۹۰)

é حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

لما نَزَل برسول اﷲ ﷺ طفق یطرح خمیصة له علی وجھه فإذا اغتم بھا کشفھا عن وجھه فقال وھو کذلك لعنة اﷲ علی الیهود والنصارٰی اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد یحذر ما صنعوا (بخاری:۴۳۵، مسلم:۵۳۱)

''جب رسول اللہ پر مرض الموت نازل ہوا تو رسول اللہ1 نے اپنے چہرے پر سیاہ منقش چادر ڈالی۔ پھر جب آپ اس چادر سے تنگی محسوس کرتے تو آپ اس چادر کو چہرے سے ہٹا دیتے۔ پھر اسی حالت میں آپ1 نے فرمایا:یہود و نصاریٰ پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنا دیا آپ ان کے کیے ہوئے کاموں سے ڈرا رہے تھے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، نعمۃ الباري:۲؍۲۰۳)

جناب غلام رسول سعیدی بریلوی راقم ہیں کہ

''بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاریخ میں اس کا ثبوت نہیں ہے کہ یہودیوں نے کسی نبی کی قبر کی پرستش کی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ کتب ِتاریخ میں کسی واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی نفی لازم نہیں آتی جب کہ ہمارے نزدیک کتب ِتاریخ کی بہ نسبت کتب ِاحادیث معتبر ہیں۔'' (نعمۃ الباري:۲؍۲۰۴)

دیکھیں پہلی اُمتوں کے لوگوں نے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، ان کو قبلہ قرار دیا، ان کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کی پرستش کی جبکہ آپ1 نے مسلمانوں کو ایسے کاموں سے ڈرایا، روکا اور صحابہؓ نے اسی خطرے کے پیش نظر آپ1 کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا بلکہ مسلمانوں نے آپ1 کی قبر پر آپ کی عبادت کاذریعہ قطع کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقدامات کئے۔

معلوم ہواکہ آپ1 اور صحابہؓ اس اُمت کے مسلمانوں کے شرک میںمبتلا ہونے سے بے خوف نہیں تھے، غور کریں۔ کیا یہود و نصاریٰ قبروں میںمدفون بزرگوں کو واجب الوجود مان کر یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان کر یا ان کومستحق عبادت سمجھ کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے؟ اور کیا ان قوموں میں بھی صرف شرکِ اصغر (ریاکاری) ہی پایا جاتا تھا ان میں شرکِ اکبر کے مرتکب لوگ نہیں تھے؟ اور کیا ان قوموں کے مشرکانہ عقائد و افعال اور شرکِ اکبر میں مبتلا ہونے کے اسباب و دواعی ان ہی کے ساتھ خاص تھے؟ اور کیا اس امت کے لوگ ان کے نقش قدم پرایسا نہیں کرسکتے؟ جبکہ حدیث مبارکہ میں تو نبی پاک1 کا فرمانِ مبارک بڑا ہی واضح ہے کہ

لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو دخلوا جحر ضبّ لاتبعتموھم قلنا: یارسول اﷲ! الیھود والنصارٰی؟قال:فمن؟ (صحیح بخاری:۷۳۲۰ واللفظ لہ، مسلم:۲۶۶۹)

''تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جیسا کہ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایااور کون؟''