امریکی عدالت کا فیصلہ اورایک انتہا پسند کا نقطہ نظر



امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوجس انداز میں ۸۶ سال کی سزا سنائی ہے، اس پر پاکستان میں اسلامی حلقوں کے علاوہ تمام قومی اور سیکولر طبقوں کی طرف سے بھی سخت احتجاج کیا جارہا ہے، وہ اسے بجاطور پر انصاف کاقتل قرار دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین نے بیان دیا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو اس فیصلہ کے بعد امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کردیتے۔ اے این پی کی قیادت نے بھی اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔ 'انسانی حقوق آف کمیشن پاکستان' کے اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے بھی ایک ٹاک شو میں اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف، چودھری شجاعت حسین، راجا ظفر الحق اور مسلم لیگی قیادت نے بھی قوم کی بیٹی کوملنے والی سزا پرقوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ عمران خان کا نقطۂ نظر بھی قوم کے سامنے ہے؛ مختصر یہ کہ پاکستانی قوم پرایک سوگ کی کیفیت طاری ہے۔ ایسی جذباتی فضا میں بھی کچھ بدبخت ذ ہنی مریض اور فکری مرتد ایسے بھی ہیں جو قوم کے زخموں پر نمک پاشی کرنے سے باز نہیں رہتے اور اپنی گندی فکرکا اظہار اخباری کالموں کی صورت میں کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

راقم الحروف نے عافیہ صدیقی کو سنائی جانے والی سزا کے متعلق اُردو اور انگریزی کے اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کا مطالعہ کیا ہے۔ کوئی بھی معروف اورقابلِ ذکر کالم نگار نہیں ہے جس نے اس حقیقت اور ناانصافی پر مبنی فیصلے کی مخالفت میںاظہارِ خیال نہ کیاہو۔ حتیٰ کہ نذیر ناجی بھی جو عام طور پر قومی معاملات میں'منفرد' نقطۂ نظر اپناتے ہیں، نے بھی اس فیصلے کے خلاف بھرپور انداز میںلکھا ہے، مگر ۲۷؍ ستمبر کے روزنامہ 'پاکستان' میں غیر معروف اور سطحی سوچ کے حامل ایک کالم نگار کی طوائف القلمی بہت سے دلوں پر سخت گراں گزری ہے۔ افضال ریحان نامی یہ نوجوان کالم نگار بدقسمتی سے سیکولرازم کے سرطان میں مبتلا ہے۔ اس نے اپنے کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نہایت افسوس ناک ہے اور قابل مذمت ہیں۔ اُس کا کالم فکر ِخبیثہ کا شاخسانہ ہے۔ اُس نے اپنے کالم میں عافیہ صدیقی کے 'جرم کی نوعیت' اور اس کو ملنے والی ۸۶ سال کی قید کی سزا کے 'جواز' کے متعلق تو کچھ تحریر نہیں کیا، البتہ اُسے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ پاکستان کے اخبارات نے امریکی عدالت کے اس فیصلے کے متعلق جو سرخیاں جمائی ہیں، وہ 'خوش آئند' نہیںہیںــ۔ـ اس کے خیال میں یہ سرخیاں 'بین المذاہب دوری' کا باعث بنیں گی۔افضال ریحان لکھتا ہے :

''اگر ہم امریکی وفاقی کورٹ کے عدالتی فیصلے پر اس نوع کی سرخیاں جمائیں گے کہ 'امریکی عدالت میںانصاف کا خون' یا یہ کہہ کر ''پاکستان کی بیٹی پوری زندگی جیل میںگزارے گی۔'' تو اُسے کسی طور پر خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر مستزاد یہ شعر تحریر فرمائے جارہے ہیں کہ ''شہادت گہہ ِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے، لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا!'' اس سے ہم قوم کے سامنے کیا اِبلاغ کررہے ہیں، یہ کہ عافیہ صدیقی کو جو سزا سنائی گئی ہے ، یہ صرف اُس وجہ سے ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ان کا کوئی اورجرم نہیں ہے، بس مسلمانی ہی جرم ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس امریکہ میں جو ستر اَسی لاکھ مسلمان بس رہے ہیں، بیشتر اعلیٰ عہدوں پرفائز ہیں، اُنہیں وہ تمامتر حقوق حاصل ہیں جو شاید اُن کے تمام اسلامی ممالک میں بھی حاصل نہیں تو کیاوہ سب سچے مسلمان نہیں ہیں؟''

(روزنامہ 'پاکستان': ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۰ئ)

ہم پوچھتے ہیں کہ امریکی عدالت کے اس فیصلے کو 'انصاف کا خون' قرار نہ دیا جائے تو کیا اسے 'انصاف کابول بالا' قرار دیا جائے؟ امریکہ ان ممالک میں سے ہے جہاں بعض ریاستوں (صوبوں) نے قتل جیسے گھناؤنے جرم کے لیے بھی سزاے موت منسوخ کردی ہے کیونکہ ان کے خیال میںموت کی سزا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکہ میں بھی قانون دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے عافیہ صدیقی کو دی جانے والی سزا پر حیرت اور بیزاری کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکی میڈیا بتا رہا ہے کہ امریکہ میں آج تک کسی بھی عورت کو کسی بھی جرم میں اتنی طویل قید کی سزا نہیں سنائی گئی۔عافیہ صدیقی تو بے گناہ ہے، مگر استغاثہ کی طرف سے اس پر جو فردِ جرم عائد کی گئی ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو یہ سزا جرم کے تناسب سے ہزار گناہ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کسی جرم کی سزا اگر ایک دو سال بنتی ہے، مگر عدالت اُسے ۸۶ سال کی سزا سنا دیتی ہے تو یہ معاملہ انصاف کے تقاضوں سے ماورا ہوجاتا ہے۔ جرم اور سزا کے درمیان عدمِ تناسب کو 'ناانصافی' قرار دینے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، تو اس طرح کی سزا پر اگر پاکستانی اخبارات نے 'انصاف کا خون' کی سرخیاں لگائی ہیں، تو اس پرتنقید کرنے والے کو بے حمیت اور قوم فروش نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟

عافیہ صدیقی پرفردِ جرم اور اس کی سزا کا موازنہ کیا جائے تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ امریکی جج کے ذہن میں 'ملزمہ' کا کوئی ایسا جرم بھی تھا جس کی وجہ سے وہ اُسے نشانِ عبرت بنانے کا تہیہ کرچکاتھا۔ اگر یہ 'جرمِ مسلمانی' نہیںتھا، تو افضال ریحان پھر بتائے، وہ آخر کون سا گھناؤنا جرم تھا جس کی عافیہ صدیقی کو اتنی طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے؟

افضال ریحان کے مذکورہ بالا بیان کا آخری حصہ بے ہودہ منطق طرازی اور سطحی جنوں خیزی کی واضح مثال ہے۔ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ ۱۱؍۹ کے بعد امریکہ میں بسنے والے ہزاروں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ اَب بھی ہزاروں مسلمان ایف بی آئی کے تفتیشی مراکز میں ظلم و ستم کی چکی میںپس رہے ہیں۔ وہ کون سے اعلیٰ عہدے ہیں جن پر 'بیشتر' مسلمان فائز ہیں؟ کیا اس بات سے اِنکار کیا جاسکتا ہے کہ گوانتا نامو بے میں قید سینکڑوں مسلمانوں پر اب تک کوئی جرم ثابت نہیں کیا جاسکا مگر پھر بھی وہ قید میں ہیں۔ فرض کیجئے اگر امریکہ میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جس کا دعویٰ افضال ریحان نے کیا ہے ، تو کیا عافیہ صدیقی کو دی جانے والی اس افسوس ناک سزا کا یہی جواز کافی ہے؟ کیالاکھوں اَفراد کے سزا سے بچ رہنے کے معاملے کو کسی ایک فرد کی سزا کے لیے جواز بنایا جاسکتاہے؟ کیا یہی عقلی استدلال ہے جس پر یہ بزعم خویش عقلیت پسند بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں؟ ؎ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو!

افضال ریحان مزید لکھتا ہے:

''ہماری وہ راسخ العقیدہ مذہبی تنظیمیں جو اس نوع کے واقعات کو بنیاد بنا کر بین المذاہب دوری اور نفرت پیدا کرنے لگتی ہیں، وہ بھی اپنا اَنداز بدلیں۔ درپیش واقعات کو ان کے محدود تناظر میں دیکھیں۔'' (روزنامہ'پاکستان': ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۰ئ)

بین المذاہب ہم آہنگی کا مسخ شدہ اوربے ہودہ تصور ہے جو افضال ریحان جیسے مغرب زدہ افراد نے اپنے ناپختہ ذہنوں میں پال رکھا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عافیہ صدیقی کو ملنے والی غیر منصفانہ سزا کے خلاف جائز احتجاج سے 'بین المذاہب دوری' کا سوال کیونکر پیدا ہوتا ہے۔ کیا امریکی عدالت نے یہ سزا عیسائیت کی تعلیمات کی روشنی میں دی ہے؟ کیا کیتھولک اور پرونسٹنٹ چرچ نے اس سزا کی حمایت کی ہے؟ کیا احتجاج کرنے والوں نے امریکی عوام کے مذہب کے خلاف کوئی تحریک برپا کرنے کا اعلان کیا ہے؟ مزید برآں یہ محض پاکستان کی 'راسخ العقیدہ مذہبی تنظیموں' کا احتجاج نہیں ہے، جیساکہ افضال نے غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہے۔ پھر یہ 'راسخ العقیدہ' ہونے پر طنز کیامعنی رکھتا ہے؟ کیا راسخ العقیدہ مسلمان ہونا کوئی عیب ہے؟ کیامسلمانوں کو فاسخ العقیدہ یافاسد العقیدہ ہونا چاہئے؟ ؎ بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو!!

عافیہ صدیقی نے امریکی عدالت میں دیے گئے بیان میں 'اعترافِ جرم' ہرگز نہیں کیا مگر افضال ریحان نے اپنے تخیل کے زور پر یہ نتیجہ خود ہی برآمد کرلیا ہے۔ مزید برآں اس سیکولر کالم نگار کے قلب پر یہ القا بھی ہوا ہے کہ عافیہ صدیقی کو اپنے کیے پر 'پچھتاوا' ہے اور افضال کے نزدیک ان کا یہ جذبہ'قابل التفات' ہے۔اس کے دلائل کے تارِعنکبوت کا تانا بانا ملاحظہ کیجئے اور اس کے فسادہ زدہ ذہن کی رسائی کی داد بھی دیجئے :

''عافیہ صدیقی نے امریکی عدالت کے سامنے بھی بیان کیا ہے کہ ''میں نے صدر اوبامہ کو یہ پیغام بھجوانے کی کوشش کی تھی کہ میں طالبان کے ساتھ قیامِ امن میں مدد دینے کا کردار انجام دیناچاہتی ہوں۔'' ظاہر ہے، اتنا حساس کردار ادا کرنے کا داعیہ وہ اسی وجہ سے رکھتی ہیں کہ ان کا القاعدہ اور طالبان سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اور اگر اسی تعلق کے زیراثر اگر اُنہوں نے کوئی منفی رول کیا بھی تھا تو اب مثبت رول کا موقع دیا جانا چاہئے تھا۔ کسی گناہ پراس کے پچھتاوے سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے۔'' [روزنامہ 'پاکستان': ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۰ئ]

ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی عدالت سے سزا سنانے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جو بیان فوری طور پر امریکی میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا ہے، وہ انجینئرڈ تھا۔ سزا دینے والے سمجھتے تھے کہ اس سزا کے خلاف عالم اسلام میں شدید ردّ عمل سامنے آئے گا، بالخصوص یہودیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اسی لیے عافیہ صدیقی سے منسوب یہ بیان نشر کیا گیا کہ وہ امریکہ یا اِسرائیل کے خلاف نہیں ہے۔ اپنے اسلامی ملک افغانستان میں تو اس پر تشدد ہوا ہے، لیکن جب سے وہ امریکہ میں ہے، اس کے ساتھ کوئی زیادتی یا تشدد نہیں ہوا بلکہ اسے پورے وقار کے ساتھ رکھا گیا۔ عافیہ صدیقی کے منہ میں یہ بھی الفاظ ڈالے گئے کہ اُس کی بیٹی بھی ایک امریکی یہودی کے پاس ہے، لیکن کسی نے اس کی عزت کو نقصان نہیں پہنچایا اور یہ کہ امریکی محافظوں نے بھی ان کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک کیا ہے۔ مزید برآں یہ جملے بھی غور طلب ہیں:

''میں جنگ کی مخالف اور امن کی حمایتی ہوں۔ مجھے طالبان کے ہاتھوں امریکی فوجیوں کے قتل کا بھی افسوس ہے۔ میں مسلمانوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ تشدد کی راہ اختیار نہ کریں اور نہ میرے لیے لابنگ کریں۔میںفلسطین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عورتوں، ماؤں اور بچوں کے لیے بھی امن و تحفظ کی حامی ہوں۔'' وغیرہ وغیرہ

یہ بیان ڈاکٹر عافیہ صدیقی بقائمی ہوش و حواس اور آزادانہ مرضی کے تحت نہیں دے سکتیں۔ وہ بارہا عدالت میں بیان دے چکی ہیں کہ ان کے ساتھ جیل میں بہیمانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ وہ اس 'اسلامی ملک' افغانستان میں بھی امریکیوں کی قید میں تھیں۔ بلگرام جیل میں قیدی نمبر ۶۵۰ کے طور پر کاظم آغا اور ایوان رڈلے کی رپورٹنگ پر اُس کاسراغ ملا تھا۔ عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ اُسے 'ریپ' (زنا بالجبر) بھی کیا گیا تھا۔ ممکن ہے اُس کے قانونی مشیروں نے امریکی جج کا جذبہ ترحم اُبھارنے کے لیے اُ س سے یہ لکھا لکھایا بیان پڑھوایا ہو۔ یہ بالکل اُسی طرح کا بیان ہے جیسا بیان جنرل پرویز مشرف نے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پڑھوایا تھا۔ اُس کی بنیاد پر ہمارے بعض کالم نگاروں نے اسے 'اعترافِ جرم' کے طور پر خوب اُچھالا تھا۔ کیا افضال ریحان اتنے گاؤدی ہیں کہ اس بیان کے پس پشت کار فرما شاطر ذہن کو پڑھنے سے قاصر ہیں؟

افضال ریحان کے خیال میں پاکستان میں اُن کی رہائی کے لیے سرگرداں اور پرجوش زیادہ تروہی ہیں جو القاعدہ اور طالبان کے لیے اپنے اندر نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ الزام درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے ہر مکتبۂ فکر کے لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ بعض مذہبی تنظیمیں اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش کررہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ القاعدہ سے اُن کے تعلق کو درست سمجھتی ہیں یا القاعدہ اور طالبان کی حامی ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بے گناہ ہے اور اُسے محض ایک سازش کے تحت سزا دی جارہی ہے۔کیا ایم کیو ایم کا شمار طالبان کی حامی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ افضال ریحان جیسے ذہنی مریض کے لیے اگر کسی بات کے غلط ہونے کے لیے محض یہی دلیل کافی ہے کہ اس کی حمایت 'راسخ العقیدہ مذہبی جماعتیں' کررہی ہیں، تواس نفسیاتی مرض کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے، یہ سیکولر انتہا پسندی ہے جو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ردّعمل کے طور پر بعض افراد میں پیدا ہوگئی ہے۔

افضال ریحان نے الزام لگایا ہے کہ ہمارا میڈیا شروع دن سے اس قانونی مقدمے کواُچھالتا اور قوموں کے درمیان نفرت اور دشمنی کو بالواسطہ ہی سہی، ہوا دیتا چلا آرہا ہے۔ یہ حرکت احمقانہ نہیں تو بھی بچگانہ ضرور ہے۔ ہم دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ یہ الزام انتہائی لغو اور بیہودہ ہے۔ یہ صرف اُسی شخص کی سوچ ہوسکتی ہے کہ جو قومی حمیت اور ملّی غیرت کے تقاضوں سے نابلد ہو، خود ناداںہو مگر اپنے آپ کو حکمت و دانش کے تخت پر مسند نشین دیکھنے کی خود فریبی میں مبتلا ہو۔ یہی لوگ ہیںجن کے لیے تاریخ نے 'ننگ ِ دیں، ننگ ِ ملت اور ننگ ِ وطن' جیسے القابات محفوظ کررکھے ہیں۔ (محمد عطاء اللہ صدیقی)

اِعلان

ماہنامہ 'محدث' میں مضامین و مراسلات بھیجنے والے حضرات آئندہ اس فون یا اِی میل پر

رابطہ کر سکتے ہیں۔ کامران طاہر(معاون مدیر)فون:0302-4424736

ای میل:mkamrantahir@gmail.com