حج سے متعلق بعض اہم فتاویٰ

اَحکام ومسائل شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ٭

ترجمہ:کامران طاہر



بے نماز کے حج کا حکم

aسوال:ایسا شخص جو نہ تو نماز پڑھتاہو اور نہ ہی روزہ رکھتا ہو اس حالت میں اس کے حج کے بارے میں کیاحکم ہے؟اور اللہ سے اگر وہ توبہ کر لے تو کیا اس کے ذمہ ترکِ عبادات کی قضا ہے؟

جواب: نماز کو ترک کر دینا کفر ہے اور ملت اِسلامیہ سے خارج کر دینے والے اور اَبدی جہنم کا موجب ہے جس طرح کہ قرآن وحدیث اور اقوال سلف سے ثابت ہے لہٰذا وہ شخص جو نماز کاتارک ہے اس کے لیے مکہ میں داخل ہوناحلال نہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} (التوبہ:۲۸)

''بے شک مشرک ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔''

اور اس حالت میں اس کا حج قبول نہیں ہے وہ کفر کی حالت میںحج کر رہا ہے اور کافر کی عبادت قبول نہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

{وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ}

''ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی ہی سے نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں۔''

رہا مسئلہ ان اَعمال کا جن کو وہ ترک کر چکا ہے تو اس پر ان کی قضا نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ} (الانفال:۳۸)

''آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ باز آ جائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف کر دیئے جائیں گے۔''

جس سے ان جیسے گناہ سرزد ہو گئے ہوں چاہیے کہ وہ اللہ سے سچی توبہ کر لے اور اللہ کی اِطاعت میں ہمیشگی کرے اور اَعمال صالحہ کی کثرت سے اللہ کا تقرب حاصل کرے توبہ اور استغفار کثرت سے کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ}

''(میرے بارے میں)کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو جاؤ۔''

یہ آیت توبہ کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی پس ہر گناہ جس سے بندہ توبہ کرے خواہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کا گناہ ہی کیوں نہ ہو،اللہ اس کی توبہ ضرور قبول کرتا ہے۔ واﷲ الہادي إلی سواء الصراط (فتاویٰ ارکان الاسلام،ص ۴۹۹)

ْاِستطاعت کے باوجود حج کرنے میں تاخیر کرنا

b سوال: اکثر طور پر بعض مسلمان خاص طور پر نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ فریضۂ حج کی اَدائیگی کی استطاعت اور وسائل پورے ہونے کے باوجود سستی اور تاخیر کرتے ہیں اور پھر وہ آخرکار دیگر مصروفیات کی وجہ سے معذور ہوجاتے ہیں۔ان کے بارے میں آپ کی شرعی رائے کیا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ اپنے بیٹوں کو کوئی گزند پہنچنے کے ڈر سے فریضۂ حج کی اَدائیگی سے روک دیتے ہیں یا پھریوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں جب کہ ان پر فریضۂ حج کی شرائط پوری ہورہی ہوتی ہیں۔ والدین کے اس فعل کا کیا حکم ہے اور اس مسئلہ میں بیٹوں کا ان کی اِطاعت کرنا کیسا ہے؟

جواب:یہ بات معروف ہے کہ حج اسلام کے اَرکان میں سے ایک رکن اور اس کی عظیم بنیادوں میںسے ایک بنیاد ہے۔ لہٰذا جب کسی کے حق میں حج کے وجوب کی شرائط پوری ہوجائیں تو اس وقت تک اس شخص کا اسلام مکمل نہیں ہوتا، جب تک وہ حج نہ کرلے اورجس کے حق میں حج کے وجوب کی شرائط پوری ہوجائیں، اس کے لیے حج کو مؤخر کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول1 کے اَحکام کو فوری بجا لانا چاہئے، اس بنا پر کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ آئندہ کیا پیش آنے والا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ تنگدست ہوجائے یا حالت مرض میں مبتلا ہو جائے یا مرجائے۔ماں باپ کے لئے اپنے بیٹوں کو جب کہ ان پر حج کی شرائط پوری ہورہی ہوں اور دین واَخلاق کے اعتبار سے اُنہیں شریک ِسفر بھی میسر ہوں، جائز نہیں کہ وہ اُنہیں فریضۂ حج سے روکیں اور نہ بیٹوں کے لیے جائزہے کہ ان پر حج فرض ہوجانے کے بعد اپنے ماں باپ کی اس مسئلہ میں اطاعت کریں،کیونکہ0لاطاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق9 ''خالق کی معصیت میں مخلوق کی اِطاعت جائز نہیں''سوائے اس کے کہ والدین کوئی شرعی عذر پیش کریں تو اس عذر کے زائل ہونے تک حج میں تاخیرکی جاسکتی ہے۔ ( ص۵۰۰،۵۰۱)

قرض دار کا حج

cسوال:کیا مقروض شخص پر حج کرنا لازمی ہے؟

جواب:جب انسان پر اس کے پاس موجود مال کے برابر ہی قرض ہو تو اُس پر حج واجب نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ نے حج اسکی استطاعت رکھنے والے پر ہی فرض کیا ہے ، فرمانِ ربانی ہے:

{وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا} (آلِ عمران:۹۷)

''اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس کے گھرتک جانے کی استطاعت رکھے وہ حج کرے۔''

اور جس کا قرض اس کے پاس موجودہ مال پر حاوی ہوجائے، گویا وہ حج کی استطاعت والا نہیں ہے۔ اس صورت میں پہلے وہ اپنا قرض ادا کرے پھر اس کے لیے آسانی ہو تو حج کرے۔ہاں اگر قرض اس کے پاس موجود مال سے اتنا کم ہے کہ بچے ہوئے مال سے حج کرسکتا ہے تو وہ اپنا قرض اُتار کر حج کرے، چاہے وہ حج فرض ہو یا نفل۔ اگر فرض حج ہے تو اُسے ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور نفلی حج میں اسے اختیار ہے اگر ادا کرنا چاہے تو کرے، نہ کرنا چاہے تو اس پر گناہ نہیں ہے۔ (ص۵۰۱)

حجِ بدل کرنے والے کے پاس حج کے خرچ سے بچ جانیوالی رقم کا حکم

dسوال:جب کوئی انسان کسی دوسرے کے لیے اُجرت لے کر حج کرے اور اس خرچ میں سے رقم بچ جائے تو کیا دینے والا یہ رقم واپس لے سکتا ہے؟

جواب:جب کوئی کسی سے حج کے لیے رقم لے اور حج ادا کرنے کے بعد رقم بچ جائے تو بچ جانے والی رقم دینے والے کو واپس کرنا لازم نہیں، سوائے اس کے کہ اس نے حج کرنے والے کو کہا ہو کہ اس میں سے حج کرلو اور یوں نہ کہا ہو کہ اس کے ساتھ حج کرلو، کیونکہ جب اس نے یہ کہا کہ ''اس میں سے حج کرلو۔'' تو اس صورت میں حج کرنے والے کو بچ جانے والی رقم لوٹاناضروری ہے اور اس کا یہ کہنا ''اس کے ساتھ حج کرلو۔'' اس سے حج کرنے والے کو رقم لوٹانا ضروری نہیں، اِلا یہ کہ رقم دینے والا شخص حج کے اخراجات سے واقف نہ ہو اور اسے یہی گمان ہو کہ حج کے بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ اسی عدمِ واقفیت کی بنا پر وہ حج کرنے والے کو زیادہ رقم دے دیتا ہے۔ اس صورت میں رقم لینے والے پر واجب ہے کہ خرچ کی تفصیلات اسے بتا دے کہ حج میں یہ یہ خرچ ہوا ہے اور آپ نے مجھے استحقاق سے زیادہ رقم دے دی ہے۔ اب اگر رقم دینے والا یہ رقم واپس نہ لے اور اسے دے دے تو لینے والے کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ص:۴۰۹)

عورت کامحرم کے بغیر حج اور بچے کا محرم بننا

eسوال:جب عورت محرم کے بغیر حج کرے تو کیا اس کا حج ادا ہوجاے گا؟کیا باشعوربچہ محرم ہوسکتا ہے؟ اور محرم کے بارے کیا شرائط ہیں؟

جواب:اس کا حج صحیح ہے، لیکن اس کایہ عمل اور محرم کے بغیر سفر کو نکلنا حرام اور سول اللہ1 کی نافرمانی ہے۔ آپ1 نے فرمایا:

لا تسافر امرأة إلا مع ذي محرم(صحیح بخاری:۱۸۸۲)

''عورت کسی محرم کے بغیرسفر نہ کریــ۔''

چھوٹا اور نابالغ بچہ محرم نہیں بن سکتا، کیونکہ وہ توخود سرپرستی اور دیکھ بھال کا محتاج ہے اور جس کی اپنی حالت یہ ہو تو وہ کسی دوسرے کا محافظ اور والی کیسے بن سکتا ہے۔ محرم کے لیے شرائط یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہو، مذکر ہو، بالغ اور عاقل ہو وگرنہ وہ محرم کی تعریف میں نہیں آتا۔

اَفسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض عورتیں ہوائی جہاز کے ذریعے بغیر محرم کے سفر کے بارے میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے محرم نے اُنہیں ایئرپورٹ سے جہاز کے روانہ ہوتے وقت رخصت کیا اور دوسرا محرم دوسرے ایئر پورٹ سے جہاز اُترتے وقت وصول کرلیتا ہے اور سفر کے دوران جہاز میں ویسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

درحقیقت یہ دلیل کمزور ہے، کیونکہ اس کا محرم اسے جہاز کے اندر جاکر تھوڑی رخصت کرتا ہے بلکہ وہ تو اسے لاؤنج میں داخل کرآتا ہے۔ بسااوقات جہاز کی اُڑان میں تاخیر ہوجاتی ہے جس سے اس وقت کے دوران عورت کے گم ہوجانے کا خطرہ موجود رہتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُڑتا ہوا جہاز کسی وجہ سے اپنے ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کرسکتا تواسے کسی اورایئرپورٹ پر اُترنا پڑتا ہے ان حالات میں بھی عورت کے گم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ طیارہ اپنے ایئرپورٹ پر تو اُترجاتا ہے،لیکن اس عورت کا محرم بیماری یا نیند یا کسی ٹریفک حادثہ کی وجہ سے ایئرپورٹ پہنچ نہیں پاتا اور اسے ریسیو کرنے سے رہ جاتا ہے۔ بالفرض اگر مذکورہ تمام صورتیں نہ پیش آئیں یعنی جہاز بروقت آجائے اور اسے ریسیو کرنے والا محرم بھی بروقت ریسیو کرلے، لیکن ایک آفت پھر بھی موجود ہے کہ ہوسکتا ہے جہاز میں عورت کے پاس کسی ایسے شخص کی سیٹ ہو جو اللہ سے ڈرنے والا نہ ہو اور اس کے بندوں پر رحم کرنے والا نہ ہو، وہ اسے پھسلالے اور وہ عورت اس کے دھوکہ میں آجائے اور پھر وہ فتنہ و خرابی پیدا ہو جو اس طرح کے واقعات میں ہوتی ہے۔

لہٰذا عورت کو لازمی طور پر اللہ سے ڈر جانا چاہئے اور چاہیے کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ یہی شریعت اسلامیہ کا منشا ہے۔ اس طرح عورتوں کے سرپرست مردوں پربھی فرض عائد ہوتا ہے کہ جنہیں اللہ نے اُن پر قوّام بنایا ہے کہ وہ اللہ سے ڈر جائیں اور اپنی عورتوں کے بارے میں سستی نہ برتیں کہ جس سے اُن کی دینی حمیت و غیرت جاتی رہے۔ انسان کو اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُس کے پاس امانت کے طور پر دیا ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} (التحریم:۶)

''اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان او رپتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔''( ص۵۰۸)

حج و عمرہ کی نیت زبان سے کرنے کا حکم

fسوال:حج وعمرہ کے وقت تلبیہ کے علاوہ نیت کا زبان سے ادا کرنا کیسا ہے؟

جواب:عمرہ کا تلبیہ یہ ہے: لبّیک عمرۃً اور حج کے تلبیہ کے الفاظ لبّیک حجًّا (یہ حج و عمرہ کازبانی اقرار ہیں، نہ کہ نیت) باقی نیت کے کوئی الفاظ نہیں یعنی عمرہ اور حج کرنے والا یہ نہیںکہے گا: اللھم إني أرید العمرة یااللہ! میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں یا اللھم إني أرید الحجّ یا اللہ! میں حج کی نیت کرتا ہوں،کیونکہ ایسا کرنا نبی کریم سے ثابت نہیں۔ (اس لیے کہ نیت دل کا فعل ہے۔) (ص:۵۱۳)

ہوائی جہاز میں نماز کی ادائیگی اور احرام باندھنا

g سوال:ہوائی جہاز میں نماز کی ادائیگی کا طریقہ اور احرام باندھنے کاطریقہ کیا ہے؟

جواب: ہوائی جہاز میں نماز کی ادائیگی

کی درج ذیل صورتیں ہیں:

a نفل نماز وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے پڑھ لے، اگرچہ ہوائی جہاز کا رخ جس سمت میں بھی ہو۔ رکوع اور سجدے اشارہ سے کرے اور سجدوں میں رکوع سے نسبتاً زیادہ جھکے۔

b فرض نماز ہوائی جہاز میںصرف اس صورت میں پڑھ سکتا ہے جب تمام نماز میں قبلہ کی سمت درست رہے اور رکوع و سجود اور قیام و قعود کی ادائیگی ممکن ہو۔

c اگر ایسا ناممکن ہو تو وہ نماز کو مؤخر کردے اور جب جہاز اُترے تو زمین پر نماز ادا کرے۔ اگر اس کو جہاز کے اُترنے سے پہلے نماز کے وقت کے نکل جانے کا خوف ہو تونماز کو اگلی نماز تک مؤخر کرلے اور دونوں نمازوں کو جمع کرلے: ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشا کے ساتھ۔ اگر اس کو دوسری نماز کے وقت کے نکل جانے کا ڈر ہو تو وہ ہوائی جہاز میں ہی دونوں کو پڑھ سکتا ہے اور نماز کی شرائط و ارکان اور واجبات کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

مثلاً اگر طیارہ غروبِ شمس سے ذرا پہلے پرواز کرتاہے اور وہ ابھی فضا میںہے کہ سورج غروب ہوجاتا ہے تواس حالت میں وہ ہوائی جہاز میںنماز نہ پڑھے بلکہ جہاز کے اُترنے کے بعد زمین پر نماز ادا کرے۔ البتہ اگر اسے مغرب کے وقت کے نکل جانے کا خطرہ ہو تو وہ عشا کی نماز تک مغرب کو مؤخر کرلے اور اُترنے کے بعد 'جمع تاخیر'کرلے اور اگر اسے عشاء کی نماز کے وقت کے نکلنے کا ڈر ہو تو وہ مغرب اور عشا جہاز ہی میں پڑھ لے،لیکن یہ ذہن میں رہے کہ عشا کا وقت آدھی رات تک ہوتا ہے۔

d ہوائی جہاز میں فرض نماز کا طریقہ اس طرح ہے کہ وہ نماز کے لیے قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجائے۔ اللہ اکبر کہے، سورئہ فاتحہ سے پہلے استفتاح کی مسنون دعا پڑھے۔ اس کے بعد قرآن کا کچھ حصہ، پھر رکوع کرے پھر رکوع سے اُٹھے اور اطمینان سے کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کرے پھر سجدہ سے اُٹھتے ہوئے بھی اطمینان سے بیٹھے پھر دوسرا سجدہ کرے۔ باقی نماز اسی طرح اطمینان سے پڑھے۔ اگر اس کے لیے سجدہ کرنا مشکل ہو تو وہ بیٹھ جائے اور بیٹھے بیٹھے اشارہ سے سجدہ کرے۔ اسی طرح اگر وہ قبلہ کی سمت نہ جان سکے اور نہ کوئی قابل اعتماد انسان سے اسے معلوم ہو تو خود کوشش کرے اور اپنے اندازے سے ایک طرف منہ کرکے نماز کے لیے کھڑا ہو جائے۔

e ہوائی جہاز میں بھی مسافروں کی طرح نماز پڑھی جائے یعنی چار رکعات والی نماز کی دو رکعتیں جیسا کہ دوسرے مسافر پڑھتے ہیں۔

ہوائی جہاز میں حج و عمرہ کے لیے اِحرام باندھنے کا طریقہ

اس کی بھی چند صورتیں ہیں:

a حج یاعمرہ کے لیے روانہ ہونے والا گھر سے ہی غسل کرے اور اپنے معمول کا لباس پہنے رکھے اور اگرچاہے تو احرام باندھ لے۔

b اگر اس نے پہلے سے احرام نہ باندھا ہو تو جب طیارہ اس کے میقات پر آئے تو وہ احرام باندھ لے۔

c جب ہوائی جہاز میقات پر آجائے تو حج و عمرہ کی نیت کرے۔ اپنے حج یاعمرہ کی نیت کے مطابق تلبیہ پڑھے۔

d اگر اس نے جہاز کے میقات پر آنے سے پہلے غفلت سے بچتے ہوئے اور بھول جانے کے خوف سے اِحرام باندھ لیاتو کوئی حرج نہیں۔ (ص:۵۱۶تا۵۱۸)

احرام باندھنے کے بعد غسل کرنا

h سوال:کیا محرم غسل کرسکتا ہے؟

جواب:محرم کے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں، چاہے وہ ایک دفعہ غسل کرے یا دو دفعہ اور یہ نبی1 سے ثابت ہے لیکن احرام کی حالت میں اگر وہ محتلم ہوجاتا ہے تو اس پر غسل واجب ہوجائے گا اور احرام کے لیے غسل سنت ہے۔ (ص:۵۱۹)

اِحرام باندھنے کے لیے نماز کا حکم

i سوال: کیا اِحرام کے لیے کوئی نماز ہے؟

جواب:اِحرام کے لیے کوئی مخصوص نماز نہیںہے لیکن جب انسان اپنے میقات پر پہنچ جائے اور فرض نماز کاوقت بھی قریب ہو تو افضل یہی ہے کہ وہ احرام کو مؤخر کردے۔ پہلے فرض نماز ادا کرے پھر اِحرام باندھے اور اگر وہ ایسے وقت میں میقات پہنچا ہے کہ اس وقت کسی فرض نماز کا وقت نہیں تھا تو وہ جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے، خوشبو لگائے اور احرام کے کپڑے پہن لے۔اگر اس وقت چاشت کا وقت ہے تو چاہے تو پڑھ لے، اگر چاشت کا وقت نہیں تو تحیۃ الوضو ادا کرے اور اسکے بعد احرام باندھے، یہ مستحسن عمل ہے باقی احرام کے لیے کوئی خاص نماز نہیں اور نہ ہی نبی1 سے ایسی کوئی نماز ثابت ہے۔ (ص:۵۱۹)

احرام کی حالت میں کنگھی کرنا

jسوال:کیا احرام کی حالت میں کنگھی کرنا جائز ہے؟

جواب:محرم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کنگھی کرے بلکہ محرم کے لیے یہی ہے کہ اسے پراگندہ بالوں اور غبار آلود رہنا چاہئے، البتہ اس کے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سرمیںکنگھی کرنے سے بالوں کے گرنے کا اندیشہ ہے، لیکن اگر غیر ارادی طو رپر کھجلی وغیرہ کرنے سے بال گرجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ بال گرانے میں اس کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ اسی طرح محرم کے لیے ایسے تمام ممنوع اُمور جن کا انسان غیر ارادی طور پر یا بھول اور غلطی سے ارتکاب کرلیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

{وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} (الاحزاب:۵)

''تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا ارادہ تم دل سے کرو اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔''

دوسری جگہ فرمایا:

{رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } (البقرۃ:۲۸۶)

''اے ہمارے ربّ ہم نے بھول اور خطا سے کئے کاموں کا مؤاخذہ نہ کرنا۔''

تو اللہ کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کردیا۔

خاص طور پر محرم کے لیے شکار کرنا ممنوع ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} (المائدۃ:۹۵)

اس آیت میں مُتعمّدًا کی قید اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ جس نے جان بوجھ کر شکار نہ کیا تو اس پر فدیہ نہیں ہے۔ یہ قید احترازی ہے اور حکم کے لیے مناسب ہے جو جان بوجھ کر کرے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ بدلہ دے اور جو غیر ارادی طو رپر شکار کرے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ بدلہ نہ دے۔ دین اسلام سہولت اور آسانی کا دین ہے۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان بھول کر یا لا علمی میں ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کرلے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں اور نہ اس کا حج و عمرہ فاسد ہوتا ہے جیسا کہ جماع سے فاسد ہوجاتا ہے شرعی دلائل اسی کے متقاضی ہیں جس کا ہم اشارہ کرآئے ہیں۔(ص:۵۲۲)

محرم چھتری استعمال کرسکتا ہے اور بیلٹ باندھ سکتا ہے

k سوال:محرم کے لیے چھتری کا استعمال کیسا ہے؟اور ایسی بیلٹ باندھنے کا کیا حکم ہے جب کہ اس پر سلائی کی گئی ہوتی ہے؟

جواب:سورج کی تپش سے بچنے کے لیے سر پر چھتری تاننے میں کوئی حرج نہیں اور یہ نبی1 کی طرف سے محرم مرد کے سر ڈھانپنے کی ممانعت میں نہیں آتا، کیونکہ یہ سر کو ڈھانپنا نہیں ہے بلکہ تپش اور گرمی سے بچاؤ کے لیے سایہ کرنا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ

'' آپ کے ساتھ اُسامہ بن زیدؓ اور بلالؓ تھے۔ ان دونوں میں سے ایک نے آپ کے اونٹ کی مہار تھام رکھی تھی اور دوسرے نے گرمی سے بچانے کے لیے آپ 1 پر کپڑا تانا ہوتا تھا یہاں تک کہ آپ1 نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی اور دوسری روایت میں ہے کہ دوسرے نے رسول اللہ کے گرمی سے بچانے کے لیے سر پرکپڑا اُٹھایا ہوا تھا۔ (رقم الحدیث:۱۲۹۸)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ1 نے اِحرام کھولنے سے پہلے احرام کی حالت میں کپڑے کو چھتری کے طور پر استعمال کیا تھا۔

اسی طرح اِزار پربیلٹ باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں، سوال میں درج ''اس پر سلائی کی گئی ہوتی ہے'' والے نکتے کی وضاحت یہ ہے کہ یہ بعض عوام کا اپنا خیال ہے جو اُنہوں نے علماء کے اس قول کو ''محرم پر سلا ہوا کپڑا حرام ہے۔'' سے اَخذ کیا ہے۔ اس سے اُنہوں نے یہ مفہوم لیا کہ کوئی بھی سلی ہوئی چیز پہننا حرام ہے۔ حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے بلکہ علماے کرام کے 'سلے ہوئے کپڑوں' سے مراد وہ تیار شدہ کپڑا ہے جو باقاعدہ کسی عضو کے برابر تیار کیا جاتا ہے اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہے جیسے قمیص اور شلوار وغیرہ، لہٰذا اہل علم کے قول سے مراد ہر سلی ہوئی چیز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اگر پیوند شدہ چادر سے احرام بنا لے یا تہہ بند بنا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس میں پیوند کاری سلائی سے کی ہوتی ہے۔

(ص:۵۲۴،۵۲۵)

طوافِ و داع و اِفاضہ سے پہلے حیض آجانے پر عور ت کیا کرے؟

l سوال:حج کرنے والی عورت کیلئے طوافِ وداع سے پہلے حیض آجانے پرکیاحکم ہے؟

جواب:اس عورت کے بارے میں کہ جو طواف افاضہ کرچکی ہے اور مناسک ِحج بھی مکمل کرچکی ہے، صرف اس کا طوافِ وداع رہتا تھا کہ اسے حیض آگیا تواس حالت میں اس عورت سے طوافِ وداع ساقط ہوجائے گا جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ : أمر الناس أن یکون آخر عھدھم بالبیت إلا أنه خفّف عن الحائض(صحیح بخاری:۱۳۲۸)

''لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو مگر حائضہ عورت کے لیے اس میں تخفیف کردی گئی ہے۔''

اسی طرح جب نبی 1 کو بتایا گیا کہ صفیہ بنت حیی کے مخصوص ایام شروع ہوچکے ہیں اور وہ طوافِ افاضہ کرچکی ہیں تو آپ نے فرمایا: فانفروا إذن (صحیح بخاری:۱۷۵۷) اور حضرت صفیہ سے طوافِ وداع ساقط کردیا۔

جہاں تک طوافِ افاضہ (حج) کا تعلق ہے تووہ حیض میں بھی ساقط نہیں ہوتا، اس کی یہی صورت ہوتی ہے کہ یا تو عورت مکہ میں ٹھہر جائے اور پاک ہوجانے کے بعد طوافِ افاضہ کرے یا پھر اپنے شہر میںچلی جائے اور پاک ہونے کے بعد طوافِ افاضہ کرے۔اب جب وہ طواف افاضہ کے لیے آئے تو بہتر یہی ہے کہ وہ عمرہ کرے، سعی کرے اور بال کٹوائے تب اپنا باقی رہ جانے والا طواف یعنی طوافِ افاضہ کرے۔

اگر اس طرح کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اور عورت کے لئے بعد میں آنے کی گنجائش بھی نہ ہو تو حیض کی جگہ پر کوئی ایسی چیز رکھ لے جس سے نزولِ حیض رک جائے اور مسجد بھی خراب نہ ہو پھر اس صورت میں راجح قول کے مطابق نظریۂ ضرورت کے تحت وہ طواف کرسکتی ہے۔ (ص:۵۲۹،۵۳۰)

عورت کے لیے احرام کالباس کیسا ہو

m سوال:احرام والی عورت کے لیے احرام کے کپڑے بدلنا جائز ہیں؟ اور کیاعورت کے لیے احرام کا کوئی خاص لباس ہے؟

جواب:محرمہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ احرام کے علاوہ کپڑے بدل سکتی ہے، چاہے اسے کپڑے تبدیل کرنے کی حاجت ہو یانہ ہو بشرطیکہ وہ لباس اس کی زینت کو مردوں کے سامنے عیاں نہ کررہا ہو۔ لہٰذا یہ خیال رکھتے ہوئے عورت کے کپڑے تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

عورت کے لیے احرام کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے بلکہ وہ جس طرح کا چاہے لباس پہن سکتی ہے، لیکن وہ نقاب اور دستانے نہیں پہن سکتی ، نقاب سے مراد کپڑے کا وہ ٹکڑا ہے جو چہرے پررکھا جاتا ہے اور اس میں آنکھ کے لیے سوراخ ہوتاہے اور دستانے وہ ہوتے ہیں جو ہاتھوں پر چڑھائے جاتے ہیں۔ جبکہ مردوں کے لیے احرام کاخاص لباس ہوتاہے ، جس میں تہ بند، چادر، قمیص اور عمامہ نہیںپہن سکتا، اس طرح ٹوپیاں اور موزے بھی نہیں پہن سکتا۔ تاہم عورت کے لیے جرابیں اور موزے پہننے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ نبی1 نے عورتوں کودستانوںسے منع کیاہے جب کہ جرابوں کی ممانعت وارد نہیں۔ (ص:۵۳۳)

بھول کر یا لاعلمی میں اِحرام کے ممنوعات کے مرتکب کا حکم

nسوال:جو شخص بھول کر یا لاعلمی میں اِحرام کے ممنوعات کا اِرتکاب کر لے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:جب اس نے احرام باندھنے کے بعد ممنوعات احرام میں کسی کا ارتکاب کیا ہو اور اس نے ابھی نیت نہ کی ہو، کیونکہ اعتبار نیت کا ہی ہو گا نہ کہ صرف احرام کا پہن لینا۔جب وہ نیت کرے اور حج یا عمرہ میں داخل ہو جائے اب اگر اس نے بھول کر یا لاعلمی میں ممنوعہ فعل کا اِرتکاب کر لیا تو اس پر کوئی حرج نہیں البتہ اگر وہ بھول رہا ہے تو اسے یاد دلا دیا جائے اور اگر وہ لاعلمی کا شکار ہے تواس کی رہنمائی کر دی جائے اس کے بعد اس پر لازم ہو جائے گا کہ وہ ان ممنوعات کا ارتکاب نہ کرے۔اس کی مثال یوں ہے:

محرم بھول کر سلا ہوا لباس پہن لے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوتی،لیکن جس وقت اسے یاد دلا دیا گیا تو اس پر یہ کپڑے اُتارنا واجب ہو جائے گا،اسی طرح اگر اس نے بھول کر شلوار پہنی ہوئی ہے اور اسے نیت کرنے اور تلبیہ کہنے کے بعد یاد آیا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ فورا شلوار کی جگہ احرام کا کپڑا باند ھ لے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں، اسی طرح اگر اس نے لاعلمی میں سویٹر جیسی چیز پہن لی ہے جس کی سلائی نہیں بلکہ وہ بنا ہوا ہوتا ہے اب اس کو یہی پتہ تھا کہ محرم کے لیے اَن سلے لباس میں کوئی حرج نہیں،لیکن اسے علم ہوجانے کے بعد کہ سویٹر جیسا لباس بھی ممنوع ہے اسے اتار دینا چاہیے۔

تمام ممنوعاتِ احرام میںیہ قاعدہ عامہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اگر انسان بھول کر یا لاعلمی میں یا مجبور کر دینے سے ان ممنوعات کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے پر کوئی کفارہ نہیں۔قرآن میں ہے:

{رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } (البقرہ:۲۸۶)

''اے ہمارے رب ہم سے ہماری بھول چوک کا مؤاخذہ نہ کرنا۔''

تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا۔

اسی طرح فرمانِ خداوندی ہے :

{وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ }

''تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا ارادہ تم دل سے کرو ۔''(الاحزاب:۵)

ممنوعاتِ احرام میں سے شکار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا} (المائدۃ:۹۵) '' جو شخص تم میں سے اس(شکار) کو جان بوجھ کر قتل کرے گا۔''

اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان ممنوعاتِ احرام کا تعلق لباس سے ہو،خوشبو سے،شکار سے،یا سر منڈوانے سے ہو،اگرچہ بعض علما نے ان میں فرق کیا ہے،لیکن صحیح بات یہی ہے کہ ان میں کوئی تفریق نہیں،کیونکہ یہ وہ ممنوعات ہیں جن میں انسان لاعلمی ،بھول اور مجبور کر دیئے جانے کی وجہ سے معذور ہے ـ۔ (ص۵۳۶،۵۳۷)

طواف کے دوران جماعت کھڑی ہو تو طواف مؤخر کردے

o سوال:طواف کے دوران اگر جماعت کھڑی ہوجائے تو کیا کیاجائے؟ کیا طواف دوبارہ کیا جائے؟اگر از سر نو شروع نہ کرے تو اس کی تکمیل کیسے ہوگی؟

جواب:اگر جماعت کھڑی ہو اور انسان حج ، عمرہ یا کوئی نفلی طواف کررہا ہو تو طواف کو چھوڑ کر پہلے نماز پڑھ لے پھر طواف مکمل کرے اور دوبارہ سے شروع نہ کرے بلکہ وہیں سے شروع کرے جہاں سے چھوڑا تھا۔ اسی کوآگے مکمل کرے، لوٹانے کی ضرورت نہیں،کیونکہ اس نے پہلے طواف کی بنا شرعی اِذن کے تقاضے کے مطابق کی تھی لہٰذا کسی شرعی نص کے بغیر اسے باطل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (ص:۵۳۹)

منیٰ میں رات گزارنے کے لیے جگہ نہ ہو تو انسان کیا کرے

p سوال: جو شخص رات کو منیٰ میں آئے اور وہاں ٹھہرنے کی جگہ نہ ہو تو وہ نصف رات تک ٹھہرنے کے بعد باقی وقت مسجد ِحرام میں گزارنے کے لیے جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب:اگرچہ یہ فعل جائز ہے، لیکن ایسا کرنا مناسب نہیں،کیونکہ حاجی کے لیے یہی ہے کہ وہ ایامِ تشریق میں رات دن منیٰ میں رہے۔ اگر اسے جگہ نہیں ملتی تو منیٰ میں موجود خیموں میں سے آخری خیمہ کے ساتھ پڑاؤ کرے، چاہے وہ جگہ منیٰ سے باہر آتی ہو، لیکن یہ بھی اس وقت ہے جب اس نے جگہ ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی ہو اور جگہ نہ ملی ہو۔ ہمارے دور کے بعض صاحب ِعلم کا موقف ہے کہ اگر انسان کو منیٰ میں جگہ نہ ملے تو اس سے منیٰ میں وقت گزارنے کا حکم ساقط ہوجاتا ہے اور اس کے لیے اس حالت میں مکہ یا کسی دوسری جگہ رات گزارنا جائز ہے اور اہل علم کا یہ موقف اس مسئلہ پر قیاس ہے کہ جس طرح وضو میں اعضا کا دھونا ہوتا ہے اور اگر کوئی عضو موجود ہی نہ ہو تو اس عضو کا دھونا ساقط ہوجاتا ہے، اس پر قیاس کرتے ہوئے وہ اس کے لیے منی میں رات ٹھہرنے کو ساقط کرتے ہیں۔ لیکن یہ موقف محل نظر ہے، کیونکہ ساقط ہونے والا عضو طہارت سے متعلقہ ہے اور وہ تو موجود ہی نہیں ہے جبکہ یہاں رات گزارنے سے مقصود لوگوں کا اُمت ِواحدہ کے طور پر اکٹھا ہونا ہے، لہٰذا انسان کے لیے یہی واجب ہے کہ وہ حاجیوں کے ساتھ آخری خیمہ کے پاس ڈیرہ لگالے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب مسجد لوگوں سے بھر جاتی ہے تو لوگ مسجد کے ارد گرد خالی جگہ پر صفیں بنا لیتے ہیں، لیکن اس میں بھی صفوں کاباہم ملنا ضروری ہوتاہے تاکہ ایک جماعت تصور ہو۔ منیٰ میں رات بسر کرنے کی یہ درست مثال ہے نہ کہ کٹے ہوئے ہاتھ کی۔واللہ اعلم (ص:۵۶۷)

غلافِ کعبہ کو تبرکاً چھونا

qسوال: غلافِ کعبہ کو تبرکاً چھونا جائز ہے؟

جواب:کعبہ کے غلاف کو تبرک حاصل کرنے کے لیے چھونا بدعت ہے،کیونکہ نبی1 سے ایسا ثابت نہیں ہے۔سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ نے جب بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اس کے تمام اَرکان کو چھونا شروع کردیا توعبد اللہ بن عباسؓ نے ان کے اس فعل پر نکیر کی۔ سیدنامعاویہؓ کا جواب یہ تھا کہ بیت اللہ کی کسی چیز کو چھوڑا نہیں جا سکتا جس پرسیدنا ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} ''تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔'' اور میں نے نبی  کو دو یمانی رکنوں یعنی حجر ِاَسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا ہے۔یہ اثراس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں بھی کعبہ اور اس کے اَرکان کو چھونے میں سنت سے ثابت اَحکام پر عمل پیرا ہونا چاہیے،کیونکہ رسول اللہ کے اُسوہ حسنہ سے مراد یہی ہے۔باقی رہا مسئلہ حجر اسود اور دروازے کے درمیان موجود ملتزم سے چمٹنے کا تو وہ صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے یہاں کھڑے ہو کر ملتزم سے چمٹتے ہوئے دعا کی تھی۔ واللہ اعلم (ص ۵۴۸)

موتُ العالِم موتُ العالَم

یہ خبراہل علم میں بڑے افسوس سے پڑھی جائے گی کہ ممتاز عالم دین مولانا عبد الرحمن عزیز حسینوی۲؍ستمبر۲۰۰۹ء بعد نمازِ ظہر دنیا فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جاملے إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون مرحوم دو درجن سے زائد کتب اور بیسیوں مضامین کے مصنف تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مساعیٔ جمیلہ کو قبول فرماتے ہوئے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمینيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا