رسول اللہﷺ کے ذرائع معاش
نبی کریم 1اُمت کے جمیع طبقات کے لئے اُسوئہ حسنہ اور نمونہ ہیں۔ آپ کے معاشی معمولات میں مسلمانوں کے لئے بیش قیمت رہنمائی موجود ہے۔ بعض اوقات ہم لوگ منقول حقائق کی جستجو کی بجائے ایک مثالی تصور اپنے ذہن میں قائم کرکے اس کے مطابق دلائل کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ جبکہ یہ امر ظاہرہے کہ نبی کریم1 نے منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل معاشی سرگرمیاں اختیار کیں، بکریاں چرائیں اور تجارتی سفر بھی کئے، لیکن نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ 1کی کسی معاشی سرگرمی کا ذکر کتب ِسیرت میں نہیں ملتا۔
زیر نظر مضمون کے مقالہ نگار نے آپ1 کے ذر ائع آمدن کی جستجو میں بہت سی تفصیلات یکجا کردی ہیں، لیکن وہ بھی دورِ نبوت میں آپ کی معاشی سرگرمی کا سراغ لگانے سے قاصر رہا ہے۔ اس نظریہ سے اگلا مسئلہ میراث نبویؐ پر فائز حقیقی علماے کرام کے ذریعہ معاش کاپیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی عالم نے دینی خدمات کے ساتھ اپنے ذریعہ آمدنی کو جداگانہ رکھنے کی کوشش کی ہے ، تو اس عالم کی عزیمت قابل قدر امر ہے، لیکن درحقیقت شریعت اسلامیہ کا یہ تقاضا نہیں ہے بلکہ اُمت مسلمہ پر جہاں علماے ربانی کا احترام فرض ہے وہاں ان کو معاشی ضروریات سے بالاتر کردینا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، کیونکہ کوئی عالم دین شرعی رہنمائی کرتے ہوئے ذاتی کی بجائے اجتماعی خدمت کررہا ہوتا ہے، جس کا صلہ تو اللہ ہی آخر کار اسے دیں گے، البتہ عامتہ الناس یا مسلم حکومت کو اس کی ضروریاتِ زندگی کا انتظام از خود کرنا چاہئے،یہی اُمت مسلمہ کی صدہاسالہ روایت رہی ہے، اَئمہ اسلاف کے معاشی معمولات اسی کی نشاندہی کرتے ہیں اور جن علما کے بعض پیشے کتب تاریخ میں ملتے ہیں، وہ یاتوشاذونادر اور عزیمت کی قبیل سے ہیں یا قبل از دینی خدمات ان کے معاشی معمولات کا تذکرہ ہے۔ البتہ یہ بحث تفصیلی مضمون کی متقاضی ہے۔ ح م
نبی کریم1کی ذاتِ گرامی مسلما نوں کے لیے مکمل نمو نہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی ذات میں وہ تمام صفات جمع تھیںجو کسی بھی گوشۂ زندگی میں مطلوب ہو سکتی ہیں۔آپ کی عبادات واَخلاق،آپ کی جنگیں،آپ کی مسا عیٔ امن،آپ کی انفرادی اور اجتما عی زندگی مسلمانوں کے لیے مکمل نمو نہ ہے۔ جہاں آپ1 نے مسلما نوں کے لییدیگر معاملات میں ایک مکمل رہنما ئی دی اور عملی تصویر پیش کی،وہیں آپ نے انسانیت کے لیے معا شی نظام کا ایک بہترین پہلو متعارف کروایاجس میں اِنفرادی اور اِجتما عی معاش کے حصول کے خطوط واضح کیے۔
آپؐ کی بعثت اس زمانے میں ہوئی کہ جب جا ہلیت کی طبقاتی تقسیم نے معاشی جدوجہد کو بے حد متاثرکیا ہوا تھا۔لوٹ کھسوٹ اور بدنظمی،معاشی زندگی کی خصوصیت بن گئی تھی۔سرمایہ دار طبقہ نے عوام پرسود جیسی لعنت مسلط کر رکھی تھی جس سے غریب کا خون نچڑ رہا تھا۔ معاشرتی برائیاں شراب اورجوئے نے معا شی جد وجہد کو مفلوج کر دیا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ طریقِ صرف میں کسی اَخلا قی اُصول کا لحا ظ نہ رکھا جا تا تھا۔ افرادِ معاشرہ کی ساری جدوجہد خود غرضی اور سنگ دلی پر مبنی تھی۔مفاد پرستی کے اِس دور میں رحمتہ للعالمین کا حصولِ معاش کے لیے کردار بہت مختلف اور منفرد تھا۔
معا شی زندگی جدید اصطلاح کے مطابق ''اُس جدوجہد کا نام ہے جو اِنسا نی احتیاجات کی تسکین کے لیے دولت کما نے اور اُسے خرچ کرنے سے متعلق ہے۔'' اِس کا ئنات میں آنے والے ہر انسان کو اپنی سانسیں بحال رکھنے کے لیے کم ازکم کسی بھی ظاہری معاشی اَسباب کا سہارا لینا پڑا ہے ۔ اللہ کے رسول1 جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کے لیے رہبرِ کامل بنا کر بھیجا تھا، آپ نے بھی خود اپنے ہا تھوں سے رزقِ حلال کما کر انسانیت کویہ سبق دیا کہ کوئی انسان چا ہے کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو، اُسے اپنے معاش کے لییخود کفیل ہوناچاہیے، نہ کہ دوسرے لوگوں پر بو جھ بننا چا ہیے۔ حا لا نکہ نبی اور آپ کے دیگر رفقا کے لیے یہ وقت بہت کٹھن تھا،کیو نکہ ایک طرف مشرکینِ مکہ نے معاشرتی مقاطعہ کر رکھا تھا، دوسری طرف نوبت جسمانی اذیتوں تک پہنچ چکی تھی۔ان حالات میں کسی قسم کی تجارت، کاروباریا معاشی جدوجہد کا جا ری رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ پھرایک ہمہ وقتی کارکن کے لییجب کہ وہ ایک گروہ کو ساتھ لے کرچل رہا ہو ،معاشی جدوجہد کو برقرار رکھنا اور بھی مشکل ہو جا تا ہے۔ ابتدائی دور کی مصروفیات میں لو گوں کا آپ1 سے معاشی تعاون کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن آپ نے نہ صرف خود اپنی معاشی حالت بہتر کی بلکہ ہمیشہ اپنے اَصحاب کو بھی یہی سبق دیا کہ وہ حلال اور باعزت روزگار اختیار کریں، کیو نکہ اِس کی اللہ تعا لیٰ کے ہا ں بہت قدرو منزلت ہے۔
آپ1نے فرمایا :
ما أکل أحد طعامًا قطُّ خیر من أن یأکل من عمل یدہ وإن نبي اﷲ داؤد علیه السلام کان یأکل من عمل یدہ (صحیح بخاری: ۲۰۷۲)
''کوئی بندہ ایسا کھانا نہیں کھاتا جو اپنے ہاتھ کی کما ئی سے بہتر ہو، اور حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہا تھ کی کما ئی سے کھا تے تھے۔' '
آپ1کا ذریعہ معا ش کیا تھا؟اس مو ضو ع سے ہمارے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ سیرۃالنبی1 پر لکھی جا نے والی کتب کا ذخیرہ کھنگال لیں، آپ کو اس عنوان پر مستقل بحث نہ ملے گئی ۔غالباً اس کی وجہ آپؐ سے اِ ن کی عقیدت کا وہ درجہ ہے جہا ںوہ آپ1 کو ذریعۂ معا ش کی ضرورت ہی سے بالاتر تصور کرتے ہیں، حالا نکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
آپ1نے حلال اور باعزت ذریعۂ معاش اختیا ر کرکے اپنی اُمت کو یہ تعلیم دی کہ وہ حلا ل اور باعزت ذریعۂ معا ش اپنا کر ہی اپنی اورزیر کفالت اَفراد کی معا شی ضروریا ت کوپو را کیا جائے۔منصب ِ نبوت پر سرفراز ہو نے سے قبل گلہ با نی اور کچھ عرصہ بعد تک آپ نے تجا رت کو ذریعۂ معا ش بنا یا ۔ اس سلسلہ میں آپ نے متعدد تجا رتی اَسفار بھی فرما ئے ۔
جب اُمّ المومنین خدیجہ الکبریٰ ؓ آپ1 کے عقد میں آئیں تو اُن کی تمام تردولت اور تجارت بھی آپ کے پا س آئی اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم1 کے معاشی تفکرات کو کم کر دیا اورآپ دل جمعی کے ساتھ دعوت میں مگن رہے۔کتب ِسیرۃ میں کہیں نہیں ملتا کہ آپ کبھی کسی پر بوجھ بن کر رہے ہوں بلکہ آپ ہمیشہ سے خود کفیل رہے ہیں۔
بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعدآپ کی معاشی زندگی بہتر ہو ئی اور اِس سے قبل آپ کے پا س کچھ مال ودولت نہ تھا تو یہ خیال غلط ہے، کیونکہ نزولِ وحی کے مو قع پر حضرت خدیجہؓ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرما تی ہیں:
إنك لتصل الرحم وتحمل الکل،وتکسب المعدوم وتقري الضیف وتعین علی نوائب الحق (صحیح بخاری:۴)
''آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کابوجھ اُٹھا تے ہیں اورجن کے پاس کچھ نہیں ہو تا،کما کردیتے ہیں،اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور آپ حق داروں کے ساتھ مشکلات میں مدد کرتے ہیں۔ ''
حضرت خدیجہؓ کی اِس تسلی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ حضرت خدیجہؓ سے شادی سے پہلے بھی صاحب ِروزگار تھے اور اپنے مال سے دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے۔ البتہ حضرت خدیجہؓ ہی کے مال ودولت نے آپ کی بہت ساری معاشی پریشانیوں کو کم کیا،اور اِس نعمت کا اظہا ر اللہ تعالیٰ نے یوں فرما یا:{وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأغْنٰى} (الضحی:۸)
''اور ہم نے آپ کو تنگ دست پا یا توآپ کو غنی کر دیاـ۔''
بہرحال آپ1کی زندگی کے تمام اَدوار کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ1 کے مندرجہ ذیل ذرائع آمدن سامنے آتے ہیںجن کو اِس مضمون میں اَحسن انداز میں پیش کرنے کی کو شش کی گئی ہے:
aوالدین کی وراثت سے حصہ
رسول اللہ1کو اپنے والد عبداللہ بن عبدالمطلب کی طرف سے وراثت میں کوئی جائیداد یا مال و دولت نہیں ملا، سوائے ایک مکان کے جو آپ کے چچا زاد عقیل کے قبضہ میں تھا اور فتح مکہ کے مو قع پر جب رسول اللہ1 مکہ میں تشریف لا ئے توآپ سے پو چھا گیاکہ آپ کہاں رہا ئش فرما ئیں گے توآپ1 نے فرما یا :
''میں عقیل کے مکان میں رہنا چا ہتا ہوں،عقیل سے پو چھو کیاوہ ہمیں اِجازت دیتا ہے۔ '' (نیل الأوطار:۱؍۲۱)
لیکن آپ نے پھر اُمّ ہا نی ؓ کے گھر سکونت فرما ئی۔(صحیح بخاری:۴۲۹۲) اِس متاعِ قلیل کے علاوہ کتب ِ اَحادیث وسیرت میں آپ کو ملنے والے ورثے کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔
bگلہ با نی
اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیا ومرسلین کے لئے عجب حکمت رہی ہے کہ تقریباً تما م انبیاے کرام علیہم السلام سے بکریا ں چروائیں۔ اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ بکریاں چرا نے والے میں چند ایسی خصو صیا ت پیدا ہو جاتی ہیں جو عا م انسا نوں میں نہیں ہوتیں۔ بکر یو ں کا چرواہا جفاکش، نرم دل اور بر د با ر ہو تا ہے ۔ بکر ی فطرتاً تیز اور طبعاً نہا یت کمزور ہو تی ہے۔اگر ڈھیلا چھوڑ دیا جا ئے تو کہیں سے کہیں نکل جا ئے اور غصہ میں آکر لا ٹھی مار یں تو جوڑ بند ٹو ٹ جا تے ہیں۔ لہٰذا اِس کے چرواہے کو بڑی سمجھ داری، ہو شیاری اور بردباری سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہدا یت سے خا لی انسا ن، بکری سے کہیں زیا دہ آوارہ اور ناصح کی نصیحت سے دور بھا گنے والا ہو تا ہے۔نبی کریم1 کو ایسے انسا نوں کو راہِ را ست پر لا نے کے لیے بکریوں کو سنبھالنے کی مانند کام کرنا پڑا۔ آپ1 جب دس بارہ برس کے ہو ئے تو بکریاں چرا نا شروع کیں۔یہ اِنسا نیت کی گلہ با نی کا دیبا چہ تھا ۔حضرت عبید بن عمیرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ1نے فرما یا :
ما من نبيٍ إلا وقد رعی الغنم قیل وأنت یا رسول اﷲ؟ قال:وأنا،أنا رعیتھا لأھل مکة بقراریط (الطبقات الکبرٰی:۱؍۱۲۲)
''کوئی نبی ایسے مبعوث نہیں ہوئے جنہوں نے بکریا ں نہ چرا ئی ہوں۔دریا فت کیا گیا: یارسول اللہ! آپ نے بھی؟ فرمایا:ہا ں میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چندقراریط(قیراط) پر چرائیں تھیں۔''
مندرجہ بالا حوالہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مویشی جانوروں کے چروانے کا پیشہ بھی آپ 1نے اپنائے رکھا جو کہ عرب معاشرے میں ایک قابل ذکر پیشہ تھا۔
c تجا رت
جب آپ1 جوان ہوئے توآپ نے تجا رت کو معاش کاذریعہ بنایا۔ اِس پیشہ کے انتخاب کی وجوہ میں سے نما یا ں وجہ یہ تھی کہ آپ کے خا ندان بنو ہا شم اور قریشِ مکہ تجا رت کے پیشہ سے منسلک تھے جس کاذکر قرآن مجید سورۃ القریش میں موجود ہے:
{لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ (1) إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ (2) فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ} (سورۃ القریش)
''قریش کو اُلفت دلا نے کے واسطے، اُلفت گرمی اور سردی کے قافلوں کے لیے،پس اُنہیں چاہیے کہ اِس گھر کے ربّ کی عبادت کریںجس نے اُنہیںبھوک میں بھی کھلا یااور اُنہیں خوف سے نجات عطا فرما ئیـ۔ ''
آپ کے آباؤ اَجداد تجارت ہی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ آپ کے والد ما جد حضرت عبد اللہ تجا رت ہی کی غرض سے شام تشریف لے گئے اور واپسی پر مدینہ منورہ میںقیام فرما یا اور وہیںانتقال کر گئے۔ آپ کے والد کے برادران بھی تجا رت ہی سے منسلک تھے۔(الطبقات الکبریٰ:۱؍۱۲۹) اوراس کی دوسری وجہ مکہ مکر مہ کی زمین کا سنگلاخ اوربے آب وگیا ہ ہوناہے۔ ایسی زمین کے باشندے تجارت یا صنعت کے علا وہ اور کو نسا پیشہ اختیار کر سکتے ہیں؟ یقینا زراعت اور کھیتی باڑی کے مواقع ہی کم تھے اور مکہ میں صنعت وحرفت کا رواج اور سہولیات بھی نہیں تھیں۔
اس کی ایک تیسری وجہ شاید یہ حکمت ِالٰہیہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس ربِ حکیم نے اپنے نبی کریم1سے بکریاں چرواکر آپ میںبردباری ،ہو شیا ری اور سمجھ دا ری کی صفا ت پیدا کر نا تھیں، اسی ذاتِ کریم نے انہی صفاتِ عا لیہ کی تکمیل تجارتی تجربات کے ذریعے کرا ئی ۔ تجارت انسا ن میں انتظامی صلا حیتیں پیدا کر تی ہے۔تجا رتی اَسفا ر کے دورا ن خطرات سے بچاؤ اور دفاع کی ترا کیب، خرید و فروخت میں معاملہ فہمی، با ت چیت کا ڈھنگ، اپنی با ت دلائل سے منوانے کا سلیقہ ، مختلف علا قوںاور مما لک کی سیاحت اور اُن کے احوال واَخبا ر کا علم ، لو گو ں کی طبا ئع کا اندا زہ ایسی بے شمار خو بیاں ہیںجو انسا ن میں تجا رت کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں۔نبی کریم1 نے یہ تما م صفا ت اپنے اندر بدرجہ اَتم پیدا کر لی تھیں۔
آپ1 نے اپنے چچا ابو طا لب کے ساتھ رہ کراور ان کے سا تھ بعض تجا رتی سفر کر کے تجا رتی معا ملا ت کا تجربہ حا صل کر لیا تھا۔ آپ کے تجا رتی اَخلا ق کا ہر شخص گرویدہ تھا۔ تجا رتی کاروبا ر میں جو صفت سب سے زیادہ گاہکوں کی تو جہ کسی تا جر کی طرف مبذول کرا تی ہے، وہ صدق و اما نت ہے ۔آپ1 توگو یا ان صفا ت کے مو جد تھے۔ امین کے لقب سے آپ دشمنوں میں بھی شہرت پا چکے تھے۔لوگ اپنا سا ما نِ تجارت آپ کے سپرد کر نے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ (ایضاً:۱؍۱۳۰)
آپ کے تجا رتی اَسفا ر
رسول اللہ1 کے ذرائع آمد نی میں سب سے بڑا ذریعہ تجا رت تھا۔ تجا رت کے سلسلہ میں آپ نے کئی ایک اَسفا ر کیے۔ جن کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے اِن میں سے کچھ شام، بحرین ، یمن اور چین کی طرف ہیں۔ اِ ن اسفار میں آپ کو کا فی نفع حا صل ہوا ہوگا۔
٭ ابو طا لب کے ساتھ سفرِتجارت: رسول اللہ1 نے اپنے چچا ابو طا لب اور زبیر کے ساتھ بھی سفر تجا ر ت کیے تھے۔جب آپ کی عمر ۱۲سال تھی تو آپ نے پہلی مرتبہ شام کی طرف اپنے چچا کے سا تھ سفر فرمایا۔اگرچہ اس سفر میں آپ بطورِ تا جر تو شا مل نہ تھے، لیکن آپ نے تجارت کے طور طریقے اور لین دین کے حوالے سے کافی معلو ما ت حا صل کیںاور جب آپ ۲۵سال کے ہوئے تو آپ نے دوسری مرتبہ شام کا سفر کیا ۔البتہ اِس مرتبہ آپ ایک تا جر کی حیثیت سے اس سفر میں شا مل تھے اور اس میں آپ کو کا فی منا فع حاصل ہوا۔(الطبقات:۱؍۱۱۹)
٭مالِ خدیجہ طاہرہ ؓ سے تجارت:شام کا دوسراسفر آپ نے حضرت خدیجہؓ کا سا مان لے کر کیا۔ یہ مضا ربت سے زیا دہ اِجا رہ کی صورت تھی،کیو نکہ حضر ت خدیجہ ؓ نے آپ کو متعین اُجرت دی تھی۔ اِسی بار آپ شام کی منڈی بصریٰ تشریف لے گے۔ چو نکہ حضرت خدیجہ ؓ کا کاروانِ تجا رت پو رے مکہ کے کا روان سے بڑا ہو تا تھا، لہٰذا اُس کی آمدنی بھی کا فی مقدار میں ہو ئی جو کہ آپ کی پیشہ وارانہ مہارت کی دلیل ہے۔ رسول اللہ1 نے اِس سفرِ تجارت کو اپنایا توآپ کو اس کے بدلہ میں ایک اونٹ اُجرت میں ملا۔حضرت جا بر ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ1 نے فرما یا : '' میں نے خدیجہ سے دو سفروں کا معا وضہ ایک اونٹنی لیا تھا ۔''(سیرۃ النبی از ابن کثیر:۱؍۱۸۱)آپ1 حضرت خدیجہؓ کا سا ما نِ تجا رت لے کرجرش(یمن) دوبار تشریف لے گئے۔ دونوں مرتبہ مناسب منافع کے ساتھ واپس لوٹے۔ (الطبقات الکبرٰی:۱؍۱۳۰)
اوریوں آپ کے دیگر تجارتی اَسفا ر میں منا فع کا اندازہ بطریق اَحسن لگا یا جا سکتا ہے ۔
٭ بحرین کا سفر:آپ تجا رت کی غرض سے بحرین بھی تشریف لے گئے۔جب وفد عبد القیس کے لوگ اسلام لا نے کی غرض سے مدینہ منو رہ آئے توآپ نے اُ ن سے ان کے ملک کے با رے میں تفصیل سے سوال پو چھے، تو وہ کہنے لگے:یارسول اللہ آپ ہما رے ملک کے بارے میں بہت زیا دہ معلوما ت رکھتے ہیں؟ توآپ نے فرما یا:میں کا فی عرصہ تمہارے ملک میں رہ چکا ہوں۔ آپ1 نکاح کے بعدحضرت خدیجہؓ کا سامانِ تجا رت لے کرمشرقی علاقہ میں بھی گئے۔غا لباً اس لیے کہ آپ بحرین جا کر 'دبا' کے بین الاقوامی تجا رتی میلہ میں شرکت کر سکیں اور زیادہ نفع کما سکیں ۔
ڈاکٹرحمید اللہ ؒکے بقول آپ تجا رت کی غرض سے شام اور یمن کے علاوہ بیت المقدس، فلسطین اور چین سے بھی گزرے ہیں۔ (خطباتِ بہاولپور:ص۲۰۶)
تجارتِ رسول1 کے ضمن میں پیش کی گئی معلوما ت سے بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے کہ رسولِ امین1نے اپنی زندگی میں تجارت کے عمل سے وابستہ رہے جو اُس وقت کی دنیا میں ایک پُروقار پیشہ تھا۔جس سے صادق وامین نبی نے منا سب مال بھی کما یا اور اچھا نام بھی۔
dقریشی صحابہ کی طرف سے اِعانت و کفا لت
نبوت کے بعد ابتدائی اَدوار میں متمو ل صحا بہ کرا م رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ1کی کفالت کی سعادت نصیب ہو ئی۔ ان خو ش بخت اَفراد میں حضرت ابو بکر صدیقؓ، سعدؓ بن معاذ اور عما ر بن حزم ؓ کے نام قابلِ ذکرہیں۔یہ خو ش نصیب حضرات روزانہ آپ1 کی خدمت میں دودھ یا کھا نے کی کوئی چیز پیش کرتے تھے۔ حضرت سعد بن عبا دہؓ آپ کے ننھیا لی رشتہ دار تھے۔ وہ آپ کے ہا ں کبھی سالن کبھی دودھ اور کبھی روٹی کبھی گو شت اور کبھی کبھارکو ئی میٹھی چیز باقا عدگی سے اِرسال کرتے تھے جسے آپ1 قبو ل فرما لیتے تھے ۔ آپ صدقہ نہیں، البتہ ہدیہ قبول فرما لیتے تھے۔ یوں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے یہ ایک ذریعہ روزی تھااور جو اِس سے زائد ہو جا تا، وہ آپ ؐاپنے صحا بہ کرام اور اصحابِ صفہ رضوان اللہ اجمعین میں تقسیم کر دیتے ۔ (الطبقات الکبرٰی،ص۱۱۶)
حضرت ابو بکرؓ نے آپؐ کی بہت مالی مدد فرما ئی جس کو آپ نے متعدد باریوں بیان فرما یا :
إن اﷲ بعثني إلیکم فقلتم: کذبت،وقال أبوبکر: صدق، وواساني بنفسه وماله فھل أنتم تارکوا لي صاحبي؟ مرتین... (صحیح بخاری:۳۶۶۱)
''اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہا ری طرف مبعوث فرمایا تو تم نے کہا: آپ جھوٹ بولتے ہو اور ابوبکرصدیقؓ نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے،اور اُنہوں نے اپنی جان ومال کے ساتھ میری مدد کی، کیاتم مجھ سے میرے دوست کو چھڑوانا چاہتے ہو؟ ایسا دو مرتبہ فرمایا۔''
اور مزید فرما یا :
ما نفعني مالُ أحدٍ قط ما نفعني مال أبي بکر(سنن ترمذی:۳۶۶۱)
'' مجھے اتنا کسی کے مال نے فا ئدہ نہیں دیا جتنا ابو بکرؓ کے ما ل نے دیا ہے۔ ''
e اَنصارکی طرف سے اِعانت
انصارِ مدینہ نے بھی مکی صحا بہ کی طرح دل و جان سے رسول اللہ1 کی بھرپور خدمت کی۔ ہجرت کے بعد سب سے پہلی میز بانی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے حصہ میں آئی۔ آپ1نے جتنا عرصہ بھی اُن کے ہا ں قیام فرمایا، آپ کی ضروریات پورا کرنے کا شرف اُنہی کے نصیب میں آیا۔
بنو فزارہ کے ایک آدمی نے آپ1کی خدمت میں ایک اونٹنی پیش کی تو آپ1 نے اُسے قبول کیااور اُسے تحفے میں کچھ دے دیا تو وہ شخص نا راض ہو گیا۔ آپ1 نے لوگوں کو خطبہ دیا کہ'' آج کے بعد میں قریش، انصار اور دوس قبیلہ کے علاوہ کسی سے کوئی تحفہ نہیں لوں گا۔'' (الادب المفرد،ص۱۸)
انصار پیشہ کے لحا ظ سے زراعت سے منسلک تھے۔ وہ اپنے کھیتوں(کھجو روں کے باغات) میں سے کسی ایک درخت کو نشان لگا کر آپ1 کے لیے وقف کردیتے تھے جس کا پھل آپ1 تک پہنچ جا تا۔ (خطباتِ بہاولپور،ص۱۸)
کبھی کبھا ر تو مہینہ بھر آپ کے گھر میں چولہا نہ چلتا تھا۔ آپ صرف پا نی اور کھجو ر تنا ول فرما تے تھے اور اِس طرح گزارا ہو جاتا(صحیح مسلم:۲۹۷۲) اور اللہ تعا لیٰ کا شکر بجا لاتے۔بعض انصارجو آپ ہمسائے تھے، وہ آپ کی خدمت میں دودھ پیش کیا کرتے تھے۔ لہٰذا قناعت شعار نبی1 کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے یہ بھی ایک منا سب ذریعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ہی سبب بنا یا تھا۔
fمالِ غنیمت
چونکہ جہا د فی سبیل ا للہ کا ایک ثمرہ ما لِ غنیمت بھی ہو تاہے۔ اگرچہ پہلی اُمتوں کے لیے مالِ غنیمت حلال نہیںتھا،لیکن اُمت ِ محمدیہ پر اللہ تعا لیٰ کی خاص عنا یت ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ان کے لئے مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا۔
رسول اللہ نے فرمایا : وأُحلَّتْ لي الغنائم (صحیح بخاری:۳۱۲۲)
''اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے۔ ''
مالِ غنیمت میںسے رسول اللہ1 کا حصہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مقرر تھا جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے :
{أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى} (الانفال:۴۱)
''جان لو کہ جو کچھ تمھیں ما لِ غنیمت سے ملے تو اللہ اور اُس کے رسول کا اُس میں سے پانچواں حصہ ہے۔ ''
مالِ غنیمت میں سے آپ1 کوپانچواں حصہ بطور ِ مالِ خمس ملتا تھا جو بیت المال کا حصہ ہو تا تھا مگر اس سے آپ1 کی ضرو ریا ت بھی پوری کی جا تیں تھیں۔
رسول اللہ کے لیے تین وصایا تھے: بنو نظیر،خیبراور باغِ فدک۔(صحیح بخاری: ۴۰۳۳، ۴۲۴۰) اِس میں بنو نظیر کامال آپ1کی ذاتی ضروریات، اہل خانہ کا خرچ،مہمانوں کی ضیا فت، اور مجاہدین کے ہتھیاروں اور سواریوں پر خرچ ہو تا تھا اور فدک کی پیداوار محتاج مسافروں اور مساکین وغربا کے لیے مختص تھی اورخیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی:دو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اور ایک حصہ آپ1 کے اہل وعیال پر خرچ ہو تا تھااور خیبر کی زمین رسول1 نے اہل خیبر کو نصف پیداوار لینے کے معاہدہ پر دے رکھی تھی۔
یہ جا ئیداد اور زمین رسول اللہ1 کی زندگی میں اُن کی آمدن کا حصہ ہی تھی جو بعد میں وصیت کے مطا بق تقسیم نہیں ہو ئی تھی بلکہ بیت المال میں ہی شامل ہو گئی اور اہل بیت کا گذراَوقات بیت المال کے وظیفہ سے ہی ہوتا رہا۔
gمالِ فے
مالِ فے ایسے مال کو کہتے ہیںجو دشمن سے لڑائی کئے بغیر حا صل ہو جا ئے اوریہ رسول اللہ1 کے لیے ہی خا ص تھا۔ اور آپ کو اختیار بھی تھا کہ اس میں سے جس کوچاہیں دیں۔ باغِ فدک جو کہ بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت آپؐ کو اللہ نے عطا کیاتھا، بطورِ مالِ فئے رسول اللہ1 کے پاس تھا۔ آپ اس میں سے کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے تھے اور کچھ حصہ غربا اورمساکین میں تقسیم کر دیتے تھے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔
h بیت المال سے مقرر شدہ حصہ
بیت الما ل میں سے بھی رسول اللہ1 کا حصہ مقرر تھا اور اِس سے آپ کے اہل و عیا ل پر خرچ کیا جا تا تھا۔آپ1نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر مزارعت کے لیے دے رکھی تھی۔(صحیح بخاری:۴۲۴۰،۴۲۴۷)ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی کفالت کا انتظا م یہ تھا کہ بنو نظیر کے نخلستا ن جو آپ کو مال غنیمت میں آپ کے حصہ کے طور پر ملے تھے ،کی پیداوار میں سے اِن قَانتات (صبر کر نے والیوں)کا حصہ مقرر کیا تھا جسے فروخت کرکے ان کی سال بھر کی گذران کا سامان کیا جاتا تھا۔ جب خیبرفتح ہوا تو تمام ازواجِ مطہراتؓکے لیے فی کس ۸۰ وسق کھجو ر اور ۲۰ وسق جَو سالانہ مقرر ہوا تھا۔ یہ طریقۂ کفا لت حضرت ابو بکرؓ کے دورِ خلا فت میں بھی چلتارہا۔ جب حضرت عمرؓ کا زمانۂ خلافت آیا تو بعض ازواجِ مطہرات جن میں حضرت عا ئشہ ؓ بھی شامل تھیں، نے پیدا وار کی بجا ئے زمین لے لی تھی۔
iیہودی مخیریقکی جا ئیداد کاتحفہ
مخیریققبیلہ بنو قینقاع کایہودی تھا،امیر ترین آدمی تھا۔ آنحضرت1 سے اس کی انتہائی عقیدت تھی۔ اس کے سا ت با غ تھے۔ وہ آپ1 کی معیت میں غزوئہ اُحد میں شریک ہو ا اُس نے غزوہ میں شرکت کے وقت وصیت فرما ئی تھی کہ اگروہ فوت ہو جائے تو اُس کے با غا ت آپ1 کی ملکیت ہوں گے ۔ وہ اس غزوہ میں قتل ہو گیا اور اس کے باغا ت کی سا ری آمدنی آپ1 کے لیے تھی۔ آپ1نے ان باغات کو اپنے قبضہ میں رکھا، پھر وقف کر دئیے۔عثمان بن و ثا بؓ سے مروی ہے کہ وہ سا ت با غ یہ تھے:
a الأعواف bالصافیۃ (الصانقۃ) c الدلال
dالمثیب e برقۃ fحسنی
g مشربہ اُمّ إبراہیمؓ (یہ نا م اس لیے تھا کہ آپ1 کے بیٹے حضرت ابرا ہیمؓ کی والدہ ماریہ قبطیہؓ اس با غ میں قیام فرما تھیں)
بعد میں آپ1نے وہ با غا ت وقف کر دئیے اور ان کی آمدنی غربا اور مساکین پر خرچ ہو تی تھی۔ (الطبقات الکبرٰی:۱؍۵۰۱)
i غیر ملکی با دشا ہوں کے تحائف
a جب رسول اللہ1 نے نجاشی کی طرف اسلام قبول کرنے کے لیے خط لکھا تو اُس نے آپؐ کے قاصد کا بہت احترام کیا اور قاصد کو رسول اللہ1 کے لیے کا فی تحفے تحائف دیئے جن میں قیمتی کپڑے بھی شامل تھے اور اُمّ حبیبہ بنت ِابو سفیان کانکاح آپ1 سے کروایا اور ۴۰۰ دینار حق مہر دیا۔ (تجلیاتِ نبوت:۱؍۲۳۴)
b شاہِ مقوقس نے آپ1 کی خدمت کے لیے ۱۰۰دینار، دو لونڈیاں،مشہور قباطی کپڑوں کے ۲۰جوڑے ، بنہاکا شہد،خوشبو، شیشے کا پیا لہ اور سواری کے لیے 'دلدل' نامی بہترین خچر بھیجا۔ (سیرۃ النبی:۳؍۵۱۴)
c خیبر فتح ہو ا تو آپ1کو تحفے میں ایک بکری دی گئی تھی۔(بخاری:۴۲۴۹)
نبی1 صدقہ قبول نہیں کرتے تھے، ہدیہ اور تحفہ بخوشی قبول فرماتے تھے اور اکثر اَوقات تحفہ بھیجنے والے کو اُس سے بہتر تحفہ دیا کرتے تھے۔ مجمو عی طور پر آپ کی آمدن میں ایک مناسب حصہ تحائف کا شامل تھا جس میں مسلمانوں کے تحائف کے علاوہ مدینہ کے غیر مسلموں کی طرف سے ہدایا کے ساتھ ساتھ غیر ملکی حکمرا نوں کے تحائف بھی شامل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ حا لا ت کی سا ری نزاکتوں اور معا شی اُتار چڑھاؤ کے با وجود آپ1 نے اپنے دامن کو داغدار ہو نے سے بچا یا اور کبھی کسی کے سامنے دست دراز نہیں کیا ، لیکن ہمارے ہاں اکثر سیرت نگا روں اور واعظین نے سیرتِ نبویؐ کے تذکرے میں سرورِ دو عالم1 کی یتیمی اور غریبی کو اس اندا ز میں پیش کیا ہے کہ خو فنا ک قلا ش شخص کی تصویر سا منے آتی ہے ۔اور آج کا طا لب علم جب مو جودہ دور اور معا شرے کے یتیم، مفلس اور قلا ش شخص کا تصور سا منے لاتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ گو یا کو ئی مظلوم زمانہ، پھٹے پرانے کپڑوں والا اور کمزور جسم وجان والا شخص سا منے آتا ہے۔ حا لانکہ سرورِدو عالم1 کا معا ملہ اس سے یکسر مختلف تھا ،آپ نے دولت کی فروانی کے باوجو د بھی غربت اور سا دگی کو پسند کیا اور عاجزی اور انکساری کو اوڑھنا بچھو نا بنا یا ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دولت آپ ؐ کے پا س آتی نہیں، دولت تو آپ ؐ پرنچھاور ہوتی نظر آتی ہے کہ تجا رت کے زما نہ میں لوگ اپنا مال دھڑا دھڑ آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑا تجارتی منا فع آپ کو حاصل ہوتا نظر آتا ہے، لیکن آپؐ نے اپنی سارا مال فلاحِ انسا نیت اور خدمتِ دین کے لیے وقف کردیا۔
بحیثیت ِمجمو عی آپ1 کی زند گی کا معاشی پہلو فقرو فا قہ کی زینت سے ہی خو شنما نظر آتا ہے اورکرتے بھی کیا؟آپ1کو تو قاسم بناکر بھیجا گیا تھا اورقاسم بھی ایساکر یم کہ اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھا اور سارے کا سارا فقراء اور محتاجوںکو با نٹ دیا۔سادہ لباس میں ملبوس، حالانکہ قیمتی لباس بھی زیب تن کر سکتے تھے مگر سا دہ لبا س کے بھی کئی کئی جوڑے نہیں ہوا کر تے تھے بلکہلا یُطوٰی لہ ثوب کبھی آپ کا کوئی کپڑاتہ کر کے نہ رکھا گیا تھا۔
گھر میں اکثر فا قہ رہتاتھا۔ رات کے وقت تواکثر اوقات سارا گھرانہ نبو ی بھوک اوڑھ کرسوتا۔رسو ل کریم1کے کاشانۂ مبارک میں کئی راتیںمتواتر ایسی گزر جاتیںکہ آپ1 اور آپ کے گھر والو ں کوکھانا نصیب نہ ہوتا۔مسلسل دو دو مہینے تک آگ کو یہ سعادت حا صل نہ ہو ئی کہ وہ آپ1 کے گھر میں جلے۔ (صحیح مسلم:۲۹۷۲)
سرورِ دوعالم کی تجا رتی زندگی سے یہ با ت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ آپ1کے زما نہ میں ناجائزذرائع آمد ن کے بے شمار مواقع میسر تھے۔یعنی عربوں میں شراب فروشی،جوا کی کمائی، قافلوں کی لوٹ کھسوٹ کی کما ئی، سود کی منا فع خوری، سٹہ بازی جیسے قبیح ذرائع معاش فخروغرور کی نحوست کے ساتھ موجود تھے،لیکن خلقِ عظیم کے ما لک شخص محمد رسول اللہ ؐنے ہر طرح کے ناجائز طریقوں سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا اور کسب ِ حلا ل کو اختیا ر کیا۔ قرآنِ مجید زندگی کے اس پہلو کو اس انداز میں پیش کرتا ہے:
{فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ} (یونس:۱۶)
''میں اس سے قبل بھی تمہارے ساتھ ایک عرصہ گذار چکا ہوں، کیا تم عقل نہیں رکھتیـ۔''
رسول کریم کی سیرت مطہرہ کے چند نقوش
رسولِ کریم1 کی معا شی زندگی کے با ب سے چند نقوش خلا صہ کے طور پر پیش خد مت ہیں جو اُمت کی رہنما ئی میں زرّیں اُصول کا درجہ رکھتے ہیں :
a مسلما ن کو انتھک محنتی اورجفا کش ہو ناچاہیے نہ کہ سست اور کا ہل،کیو نکہ رسول نے ہمیشہ سستی سے پنا ہ ما نگی ہے۔(صحیح بخاری:۶۳۶۹)
b اس عا رضی جہانِ ر نگ وبو میں ہر انسان کو زندگی کے سا نس جینے کے لیے اپنی مدد آپ کے اُصول کے تحت کوئی نہ کوئی پیشہ وروزگار اختیار کرنا چا ہیے، تاکہ دوسروں کے سا منے دست دراز کرنے کی بجا ئے کمزوروں کی دستگیری کی جائے ۔
c ہر انسان کو اپنی حیثیت،استعداد اور وسائل کو بھرپور بروئے کار لا ناچا ہیے تاکہ انسانی معاشرہ سے کم ہمتی کا خاتمہ ہو، جواں جذبے پروان چڑھیں اور اجتما عی استعدادِ کار میں اضافہ ہو۔{وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى}(النجم:۳۹)'' انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کو شش کی۔ '' لہٰذامجموعی محنت زیادہ ہوگی توثمرات بھی بے پناہ ہوں گے اور غربت وافلا س کی جگہ ترقی و خوشحا لی کا دور دورہ ہو گا۔
d فرزندانِ اسلام کو ذریعۂ معاش اختیا ر کرتے ہو ئے جاہلی معا شی تقسیم کو آڑ نہیں بناناچاہیے یعنی پیشوں کی اونچ نیچ میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ اُسوئہ رسول کو معیار سمجھنا چا ہیے (کہیں غلہ بانی ہے اور کہیں تجا رت کی نگرانی) پیشوں کی طبقاتی تقسیم ہر دور میں جاہلی معاشروں کی شناخت و امتیاز رہی ہے، جیسا کہ مشرکین مکہ بھی کہتے تھے:
{قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (112) إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ (113) وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ } (الشعرائ:۱۱۱۔۱۱۴)
''کافروں نے کہا :کیا ہم ایمان لا ئیں تجھ پر اور تیری پیروی کی ہے رذیل لوگوں نے۔آپؐ نے فرما یا : میں کیا جا نوں کہ ان کا پیشہ کیا ہے، اِس کا حساب تو میرے رب پر ہے اگر تم سمجھو، اور میں ایما ن والوں کو نکا ل دینے والا نہیں ہوں ۔''
یہی معا شی طبقاتی تقسیم ہندو معا شرے میں عروج پر ہے جب کہ اسلام میں تو 0الکاسب حبیبُ اﷲ9کی تعلیم و تربیت دی گئی ہے۔ لہٰذا فا رغ رہ کر وقت اور صلا حیتوں کو ضا ئع کرنے کی بجائے کسی بھی صورت میدانِ عمل میں اُترنا چا ہیے۔
e انسان ذاتی مفا د کے سا تھ ساتھ اجتما عی مفا د کو بھی مدنظر رکھے اور دوسرے لو گوں کو بھی زیادہ سے زیا دہ فائدہ پہنچانے کی سعی کرے تا کہ انسانی معاشرے میں ہمدردی، غمگساری اورباہمی تعاون کی رِیت بتدریج ترقی پائے:{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}(المائدۃ:۲)
''اور نیکی اورپرہیزگا ری کے لیے تعاون کرو، زیادتی اور سرکشی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔''
f مال کی فروانی کے با وجود بھی ذاتی ضروریات پر انتہائی مناسب خرچ کرنا چا ہیے۔ اور ضرورت سے زائد اَموال کو مفاداتِ عامہ ، فلاحِ انسا نیت، اور فی سبیل اللہ کی مَدمیں خرچ کر نا چا ہیے: {وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ}(البقرۃ:۲۱۹)
'' آپ سے سول کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو کہہ دیجیے کہ زائد اموالـ۔ ''
g رزقِ حلال کما نا بہت بڑی نیکی ہے اور اِس نیکی کو اسلام کی معا شی ہدایات کے مطا بق بجا لا ناچاہیے۔اپنی تجا رتی اور دفتری زندگی کو صدق واما نت اور عہدو وَفاجیسے اَوصافِ حمیدہ سے مزین کرنا چا ہیے۔
h حلال و حرام کا مسئلہ ہمیشہ مد نظر رکھنا چا ہیے،کیو نکہ یہ اسلا می معیشت میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
i اپنا پیٹ پالنے کے لیے کسی دوسرے کا نوالہ چھیننے کی کوئی تدبیرو عمل ہماری معا شی جدوجہد کا حصہ نہیں ہو ناچاہیے۔
j ساری معا شی جدوجہد برو ئے کارلا کر بھی توکل خالق ومالک پر کرنا چا ہیے،کیو نکہ
{ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ}(الذاریات:۵۸)
'' اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔''
{وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا}(ہود:۶)
''زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔''
اور{ وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ}(الذاریات:۲۲)
''اور تمھاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔''
é é é