حج میں شرعی سہولت وآسانی؛ ایک جائزہ
'محدث' جنوری ۲۰۱۰ء میں مشہور سعودی داعی شیخ سلمان بن فہد العودہ کی تحریر 'افعل ولا حرج' کا اُردو ترجمہ شائع ہوا تھا جس میں موصوف نے عصر حاضر میں حجاجِ کرام کی مشکلات اور مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت میں موجود عمومی سہولیات اور رخصتوں کو کتاب وسنت کی نصوص پر غلبہ دیتے ہوئے حج کے اُمور میں بہت سی پابندیوں کو اُٹھا دینے کا عندیہ دیاتھا۔عصر حاضر میں اس رجحان کی مقبولیت کے پیش نظر سعودی عرب کی وزارتِ اطلاعات نے اس کتابچہ کو وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کیا دیگر راسخ فکر علمانے جب اس نظریے کو مصلحت کے شرعی ضابطوں کے منافی پایا تو تعاقب کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔کیونکہ خطرہ تھا کہ اگر حج کے بارے میں رخصتوں کی تلاش کا یہی رویہ اپنا لیا گیا تو اس سے حج جیسا اہم شعار اپنے بنیادی ڈھانچے سے ہی محروم نہ ہو جائے۔چنانچہ اس کتابچے کے ردّ میں کئی سعودی علما نے استدلال کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مقاصد اور شرعی احکام کی ہم آہنگی کے باوصف بھی ضروری شرعی تعلیمات پر زور دینے کا موقف اپنایا۔ زیر نظر مضمون انہی علما میں سے ایک شیخ فہد بن سعد ابو حسین کی تحریر کا خلاصہ ہے جس میں'افعل ولا حرج' میں بیان کردہ بے ضابطہ سہولیات کا قرآن وحدیث کی روشنی میں محاکمہ کیا گیا ہے۔جواب میں پیش کردہ اس خلاصہ کے آخر میں محاکمہ کی تائید کے طور پر شیخ صالح بن فوزان الفوزان کی کتابچہ ہذا پرتقدیم اور مختصر تبصرہ بھی پیش کر دیا گیاہے۔بہرکیف 'افعل ولا حرج' کے مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے اس تحریر کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ (محدث)
اُصولی مقدمات
A بلاشبہ آسانی مقاصد ِشریعت میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} ( البقرۃ:۱۸۵ )
''اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتے ہیں اور تنگی نہیں چاہتے۔''
دوسری جگہ فرمایا: {مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ} (المائدۃ:۶)
''اللہ تعالیٰ تمہیں تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتے۔''
نیز فرمایا: {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ} (الحج:۷۸)
''اللہ تعالیٰ نے دین میںکوئی تنگی نہیں رکھی۔''
نبی 1 کافرمان ہے: فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسّرین(صحیح بخاری:۲۲۰)
''تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔''
دوسری جگہ فرمایا: إن الدین یسر...''بے شک دین آسان ہے۔'' (صحیح بخاری:۳۹)
نیز سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
''ما خُیِّر رسول اﷲ بین أمرین إلا اختار أیسرھما مالم یکن إثمًا''
''دو معاملوں کے درمیان جب آپ کو اختیار دیا جاتا آپؐ دونوں میں جو آسان ہوتا وہ اپنا لیتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا۔'' (صحیح بخاری:۳۵۶۰)
نیز فرمایا: أحبّ الدین إلی اﷲ الحنیفیة السمحة (فتح الباری:۱؍۱۱۶)
''اللہ کے ہاں پسندیدہ دین، دینِ حنیف آسان اور نرم دین ہے۔''
اس بارے میں کتاب وسنت میںاور بھی بہت سے دلائل موجودہیں۔ اس شریعتِ مبارکہ کے آسان ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے ہماری طاقت کے مطابق ہمیں مکلف بنایا ہے اور اس اُمت سے مشقت اور بارِگراں کو ختم کردیاہے۔
ç جیسا کہ مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے اور نمازِ قصر پڑھنے کی رخصت ہے۔
çبعض گناہوں پر مختلف قسم کے کفارے لاگو کردیئے ہیں جیسے قسم کا کفارہ وغیرہ۔
çاسی طرح پانی کی عدم موجودگی میں غسل اور وضوکا متبادل 'تیمم' مشروع ہے۔
çمریض آدمی اگر کھڑے ہوکر نماز اَدا نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے، اگر بیٹھ کر بھی نہیںپڑھ سکتا تو لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ نیزبعض شرعی اعذار کی بنیاد پر بعض مخصوص افراد سے جمعہ،حج، عمرہ اور جہاد کو ساقط قرار دے دیاہے۔ الغرض دین آسان ہے، اس امرمیں کوئی اشکال نہیں۔ البتہ اس آسانی کو سمجھنے کی ہماری کیفیت میں ضرور اِشکال پایا جاتا ہے۔
B اس آسانی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فہم کو شریعت سے تشکیل دینے کی کوشش کریں،نہ کہ اپنے خودساختہ فہم کی بنا پر مرضی کی شریعت تشکیل دے لیں۔ مثلاً خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنامشقت کا کام ہے اور منافقین نماز کے لیے سستی کی حالت میں آتے ہیں بخلاف اللہ سے ڈرنے والے مؤمنوں کے، جیسا کہ قرآن میں ہے :
{وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ} (البقرۃ:۴۵)
''بے شک یہ نمازبھاری ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں پرـ۔''
چنانچہ ضروری ہے کہ آسانی وہ ہو جو شریعت کے اُصولوں کے عین مطابق ہو نہ کہ سائل اور مفتی کی خواہشِ نفس کے مطابق۔نصوصِ شریعت سے متصادم آسانی کو اختیار کرنا غلط ہے، کیونکہ شریعت سے متصادم آسانی دراصل اتباعِ خواہشات کے مترادف ہے جس سے روکتے ہوئے اللہ ربّ العزت نے فرمایاہے:{لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ} (الحجرات:۱)
''اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔''
شارع کا شریعت کو وضع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مکلف ِشخص اتباعِ ہویٰ سے نکل کراللہ کا بندہ بن جائے اور مفتی و عالم دین شخص کا یہی کام ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبودیت سے متعارف کروائے اور من چاہی خواہشات کی پیروی کرنے سے منع کرے۔
è اس بنا پر یہ رویہ ہی اُصولی طور پرغلط ہے کہ ہم اَحکامِ شریعت یا حج میں آسانیاں تلاش کرنا ہی اپنا ہدف بنا لیں۔
è اور یہ بھی غلط ہے کہ شریعت کے اُصولوں اور مقاصد سے متصادم آسانی تلاش کریں۔
ïجب یہ امر واضح ہے کہ آسانی'مقاصد ِشریعت' میں سے ہے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس آسانی کے حصول کی شرائط بھی پائی جائیں۔آسانی ایک عام مقصدِ شرعی ہے، لیکن دیگر مبادیاتِ شریعت کی طرح اس میںبھی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ اِرشادِ باری ہے:
{وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ}(التوبہ:۸۱)
''انہوںنے کہاکہ گرمی میں نہ نکلو، کہہ دیجئے جہنم کی گرمی اس سے بھی سخت ہے اگر وہ سمجھتے ہیں۔''
یہاں فوری طورپر جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ شدتِ حرارت میں جہاد کے لئے نکلنا ہی تخفیف کا سبب ہے حالانکہ درحقیقت معاملہ یوں نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایسی تخفیف شریعت کے اہم ترین مقاصد یعنی اسلام کو غالب ترکرنے کے عظیم مقصد کے خلاف ہے اوراہل اسلام کو ہرطرح کی شروط و قیود سے آزاد آسانی اور تخفیف اختیار کرلینے سے یہ حقیقی سیادت (غلبۂ اسلام) کبھی حاصل نہیںہوسکتا۔
C یہ رویہ بھی غلط ہے کہ ہم حلال اور مباحات میں آسانیاں جمع کرنا شروع کردیں اور کہیں کہ ہمارے نزدیک یہ حلال ہے،یہ واجب نہیںہے۔ جو شخص اس طرح آسانیاں جمع کرناشروع کردیتاہے تو گویا اس نے اُصولِ شریعت کے مطابق آسانی کوسمجھا ہی نہیں ہے۔
è کیونکہ شریعت کے تمام اَحکام کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہیں۔جن میںسے بعض کو ہم جانتے ہیںاور بعض کو نہیں جانتے...
بعض اَحکام فرد کی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں جب کہ بعض اَحکام معاشرے اور پوری اُمت کی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم زکوٰۃ میںآسانی کو اختیارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زیورات میں آپ پر زکوٰۃ نہیں ہے یا نہ چرنے والے جانوروں میں آپ پر زکوٰۃ واجب نہیں تو اس فتویٰ سے صاحب مال پرتو آسانی ہوجائے گی، لیکن فقیر کو لازماً تنگی اور ضرر لاحق ہوگا،کیونکہ ہم نے اپنے فتویٰ سے صاحب ِمال کو زکوٰۃ دینے سے منع کردیا۔
اسی طرح سود حرام ہے۔ حرمت ِسود کی عظیم الشان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے ضرر کو دور کیاجاتاہے۔ اگر ہم اپنی رائے کے مطابق آسانی سمجھتے ہوئے فقیر کو سود کھانے کی اجازت دے دیں تو درحقیقت ہم نے اس کو ضرر اور تنگی کا فتویٰ دیا ہے۔
اسی طرح چور کی سزا ہے، اگر ہم آسانی کو سامنے رکھ کر چور کا ہاتھ نہیں کاٹیں گے تو اس عمل سے جرائم کی حمایت ہوگی اورشریعت کے مقصد ِعدل کی تنقیص ہوگی اور چورچوری کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ہم اپنی نظر سے آسانی کو دیکھتے ہیں نہ کہ شریعت کی نظر سے۔بے شک دین کے تمام اَحکام معاشرے اور فرد دونوں کے لیے آسان ہیں، کسی خاص فرد کے لیے نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی طاعون زدہ علاقے میں موجود ہے۔اب اگر آپ آسانی کو دیکھیں گے تو اس کو اس علاقے سے نکل جانے کی اجازت دے دیںگے،لیکن یہ آسانی باقی معاشرے کے لیے ضرر کا باعث بن جائے گی، کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص کے ذریعہ وہ طاعون دیگر علاقوں میںبھی پھیل جائے۔
è اَحکامِ شریعت مکمل طور پر آسان ہیں،لیکن ہمیں اپنی نگاہ سے اَحکام کو آسان یا سخت دیکھنے کی بجائے شریعت کی نظر سے دیکھنا چاہئے،کیونکہ دین بہرحال پوری اُمت اور معاشرے کے مصالح کو سامنے رکھ کر مشروع کیا گیا ہے۔
è علاوہ ازیں اَحکامِ شریعت کی حکمتیں کبھی ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی مخفی۔ اس لیے شارع لوگوں کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن شارع کا مقصود یہ بھی نہیں کہ مطلقاً عام مشقت بھی لوگوں کو نہ کرنی پڑے۔
شارع نے اَحکامات کی تشریح میں بندوں کے لیے دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی مصلحتیں رکھی ہیں اوریہ مصلحتیں بسا اوقات اعمالِ شاقہ (پرمشقت کاموں)کے بغیر حاصل نہیںہوتیں جیسے حج اور جہادفی سبیل اللہ ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
''فاﷲ تعالیٰ إنما حرم علینا الخبائث لما فیھا من المضرّة والفساد،وأمرنا بالأعمال الصالحة لما فیھا من المنفعة والصلاح لنا،وقد لا تحصل ھذہ الأعمال إلا بمشقة کالجهاد والحج والأمر بالمعروف والنھي عن المنکر وطلب العلم فیتحمّل تلك المشقة،ویُثاب علیھا لما یعقبعھا من المنفعة کما قال ﷺ لعائشة لما اعتمرت من التنعیم عام حجة الوداع أجرك علی قدر نصبك وأما إذا کانت فائدة العمل منفعة لا تقاوم مشقته فھذا فساد، واﷲ لایحب الفساد... الخ (الفتاویٰ: ۲۵؍۲۸۲)
''اللہ تعالیٰ نے خبائث کو اس لیے حرام کیا ہے، کیونکہ ان میں ضرر اور فساد ہے، اورنیک اعمال کرنے کا ہمیں اس لیے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میںفوائد اور صلاح وفلاح ہیں۔ اوربسااوقات یہ نیک اعمال مشقت کے بغیرحاصل نہیںہوتے جیسے حج، جہاد، امربالمعروف ، نہی عن المنکراور طلبِ علم وغیرہ۔اس مشقت کو برداشت کیا جائے گا،کیونکہ اس کے بدلے میں عظیم فوائد و منافع ہیں جیسا کہ نبی کریم 1 نے حجۃ الوداع کے موقع پر سیدہ عائشہؓ کو کہا تھا: تجھے تیری مشقت کے برابر اجرملے گا، لیکن اگر عمل کافائدہ مشقت کے برابر نہ ہو تو یہ فساد ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے۔''
قتادہؒ فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کام کاحکم دیاہے تو اپنی حاجت کے لیے نہیں، اور اگر کسی کام سے منع کیا ہے تو بخل کرتے ہوئے نہیں۔ بلکہ ان اُمور کا حکم دیاہے جن میں بندوں کی خیرخواہی ہے اور ان اُمور سے منع کیاہے جن میں بندوں کانقصان ہے۔''
(قاعدۃ في المحبۃ للشیخ ابن تیمیۃ: ص۱۸۳)
امام شاطبی ؒ فرماتے ہیں:
''اللہ ربّ العزت نے اپنے بندوں پرجو معمولی سی مشقت ڈالی ہے وہ شارع کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس مشقت سے مکلف کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ دراصل شارع کا مقصود ہے۔'' (الموافقات:۲؍۲۱۵)
è لہٰذا ضروری ہے کہ آسانی مقاصد ِشریعت کے ساتھ مقید ہو اور معاشرے کے لئے مصالح کے حصول کا سبب ہو۔چنانچہ بعض مصلحتیں نفوس پر بھاری اَحکام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔امام شاطبیؒ فرماتے ہیںکہ ''بسا اوقات ڈاکٹر مریض کو اس لیے کڑوی دوا دے دیتا ہے تاکہ اس کو فائدہ ہو''۔ (الموافقات:۷؍۲۱۹)
D شرائط کی رعایت رکھے بغیر مطلقاً قواعد کو لے لینا بھی بڑی غلطی ہے۔ تخفیف کے لیے مؤثر مشقت کی شرائط کوسمجھے بغیر تخفیف حاصل کرلینے سے کبھی ہم بعض ایسے اَوقات میں بھی تخفیف کرلیں گے جو کہ درحقیقت محل تخفیف نہیں ہیں۔
جیسا کہ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم1 کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: یارسول اللہ1! میری بیٹی کاخاوند فوت ہوگیاہے اور اس کی آنکھیں خراب ہوگئی ہیں۔ کیا میں اس کو سرمہ ڈال دوں؟نبی کریم1 نے دو یا تین مرتبہ کہا:'نہیں' اور ہربار فرمایاکہ یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں۔دورِ جاہلیت میں تمہاری یہ حالت تھی کہ متوفی عنہا زوجہا (بیوہ) ایک سال تک بیٹھی انتظارکرتی رہتی، اورسال گزرنے کے بعد لید پھینکتی تھی۔ (صحیح بخاری: ۵۳۳۶)
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک انصاری عورت کی شادی ہوگئی اور وہ بیمار ہوگئی۔ بیماری کی وجہ سے اس کے سرکے بال گرگئے۔ چنانچہ اُنہوں نے اس کو وِگ لگانے کاارادہ کیا اور اس سلسلے میں نبی کریم1 سے سوال کیا۔آپؐ نے فرمایا:
لعن اﷲ الواصلة والمستوصلة(فتح الباری:۵۹۳۴)
''اللہ تعالیٰ وِگ (مصنوعی بال) لگانے اور لگوانے والی پر لعنت کرے۔''
è چنانچہ نبی کریم1 نے وہم پر مبنی مشقت اورحقیقی مشقت میںفرق کردیا۔اس سے معلوم ہواکہ آسانی کا فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا حقیقی مشقت پائی بھی جاتی ہے یا نہیں؟اور یہ جاننابھی ضروری ہے کہ آیا یہ مشقت حکم شرعی ہے یا لوگوں نے خود اس کو اپنے اوپر مشقت بنالیا ہے۔مثلاً
زوال سے پہلے رمی کرنے کامسئلہ
رمی جمار کا وقت زوالِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ جلدی کرنے والا زوال کے فوراً بعد رمی کرلے۔ یہاںلوگوںنے خود اپنے اوپر مشقت پیداکرلی ہے کہ سب لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زوال کے فوراً بعد رمی کرلیں۔ حالانکہ رمی کا وقت غروبِ آفتاب تک ہے۔یہاں حکم شرعی کا وقت وسیع ہے جس کو لوگوں نے خود تنگ کرلیا ہے اور ہم سب جانتے ہیںکہ گھنٹہ دو گھنٹے کے بعد رش کم پڑ جاتاہے اور رمی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہاں حکم شرعی میں مشقت نہیںہے بلکہ یہ مشقت لوگوں کی خودساختہ ہے۔
اگر حجاجِ کرام کی تعداد کم ہوجائے مثلاً ایک لاکھ اور ان میں سے ہر شخص یہی کوشش کرے کہ جمرات کے قریب ہی اس کو جگہ مل جائے جس سے جمرات کے قریب سخت ازدحام پڑجائے گا۔اب لوگ آکر سوال کریں کہ ہم پر آسانی کرو اور ہمیں مشقت سے بچاؤ اور جمرئہ کبریٰ کے پیچھے منیٰ سے تھوڑا سا باہر رہائش کافتویٰ دو کیونکہ منیٰ میں سخت رش ہے۔
ہم ان کو یہی جواب دیں گے کہ منیٰ وسیع ہے اور جمرات کے قریب رہائش کرنے سے تم نے خود اس وسیع جگہ کو تنگ کرکے اپنے اوپر مشقت ڈال لی ہے۔ لہٰذا تم منیٰ میں ہی قیام کرو، منیٰ سے باہر جائز نہیں ہے۔لیکن اگر واقعی پورا منیٰ بھرجائے اور مشقت یقینی ہوجائے تب ان کو خارجِ منیٰ رہائش کی اجازت دے دی جائے گی۔
یہی صورتِ حال 'رمی جمار' میں ہے۔اگر زوالِ آفتاب سے لے کرغروبِ آفتاب تک مسلسل اِزدحام جاری رہے اورمشقت حقیقتاً پائی جائے تو غروبِ آفتاب کے بعد بھی رمی کی اجازت دی جاسکتی ہے، لیکن فی الواقع ایسانہیں ہے،کیونکہ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد رش میں کمی ہوجاتی ہے۔ آج اگر لوگوں کو زوال سے پہلے یا نمازِ فجر کے بعد رمی کرنے کا فتویٰ دے دیا جائے تولوگ اسی وقت میں اِزدحام کرنا شروع کردیں گے اور آنے والے سالوںمیں سوال کریں گے کہ رمی کا اوّل وقت کون سا ہے:طلوعِ شمس یااذانِ فجر؟
è بہرحال اُصول یہ ہے کہ اگر مشقت حقیقتاً پائی جائے تو حصولِ آسانی اور تخفیف کے لیے فتویٰ دینا ضروری ہے۔البتہ نبی کریم1 صحابہ کرام ؓ کی تربیت کچھ اس انداز سے کرتے تھے کہ وہ نصوصِ شرعیہ کی تعظیم کریں۔مثلاً نبی کریم1 نے فرمایا:
من حجَّ فلم یرفث ولم یفسق رجع من ذنوبه کیوم ولدته أمه
''جس شخص نے حج کیا اور فسق و فجور کا کام نہ کیا، وہ گناہوں سے اس طرح صاف ہوگیا جیسے آج ہی پیدا ہواہو۔'' (صحیح بخاری:۳؍۱۵۲۱)
نبی کریم1 صحابہؓ کے دلوں میں حج کی عظمت ڈالتے:
{ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ} (الحج:۳۲)
''جوشخص شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے، یقینا یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے۔''
علما اور دعاۃ کوبھی نبی کریم کے اسی اُسوۂ حسنہ پرعمل کرنا چاہئے اور ان کے دلوں میں احکامِ شریعت کی عظمت پیدا کرنی چاہئے۔
آج حالت یہ ہے کہ لوگ رخصتیں اور آسانیاں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور شرعی اَحکام سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس کا بنیادی سبب دعوت و تبلیغ کی کمزوری ہے،کیونکہ ہم لوگوں کے دلوں میں احکامِ شریعت کی تعظیم پیدا نہیں کرتے۔
فاضل مؤلف کو چاہئے تھا کہ وہ بھی اپنی کتاب میں نبی کریم1 کے اس شعارخُذوا عني مناسککم کواختیارکرتے اور تربیت کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔اِسی میں نبی کریم کے اقوال و افعال اور اعتقاد کی مکمل اتباع ہے۔
لوگوں کی اس انداز سے تربیت کی جائے کہ وہ حجِ مبرور کے لیے کوشش کریں اور بعض شرعی اَحکام میںکوتاہی کرنے سے اجتناب کریں اور اس مقصد ِسفر سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں جو بسا اَوقات زندگی میں ایک ہی مرتبہ ہوتاہے اور حاجی اس عظیم الشان سفر کے نشانات واثرات کو ساری زندگی نہیں بھول پاتا۔
نبی کریم1 نے بھی صحابہؓ کی یہی تربیت کی تھی کہ خُذوا عنِّي مناسککم ''مجھ سے اپنے مناسکِ حج سیکھ لو۔'' پھر جب صحابہ کرامؓ نے تقدیم و تاخیر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس کو درست قرار دیا، لیکن شروع اور ابتدا سے ہی آپؐ نے ایسے تربیت نہیں کی تھی کہ اس طرح تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے۔
اہل علم کا تربیت کرنے کاطریقہ کار یہی رہا ہے کہ وہ لوگوں کو نبی کریم1 کی اتباع پر اُبھارتے اور سنت کی تعظیم ان کے دلوں میںراسخ کرتے تھے اور احکامِ شریعت میںتساہل سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔
مؤلف ِ ''افعل ولا حرج''کی بعض علمی لغزشیں
è فاضل مؤلف نے اپنی کتاب'افعل ولا حرج' میں حج کے چند اُمور میں تسہیل و تخفیف ذکر کی ہے جو ہماری نظر میں غیر صحیح ہے۔ہم ان اُمور میں سے چند ایک کوبطورِ مثال نقل کرتے ہیں:
A مثال کے طور پر مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۶۴ پر عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی حدیث أن رسول اﷲ ﷺ ... ماسئل عن شيء ؛ قدَّم ولا أخَّر إلا قال: اِفعل ولا حرج نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
''اس طرح نبی کریم کے فتویٰ سے ملتے جلتے یا غیر منصوص اَحکامات میں مفتی کاشعار اِفعل ولاحرج ہی ہوناچاہئے جو ایک اچھا رویہ ہے۔''
وضاحت :معلوم نہیں کہ فاضل مؤلف نے اس نص کو بقیہ نصوص پرکیسے لاگو کردیا ہے۔ کیونکہ آپ نے ہمیشہ جواز کا فتویٰ نہیں دیا اور بعض اوقات رخصت نہیں دی۔ نیز نبی کریم نے افعل ولا حرج کہا ہے نہ کہ اُترک ولا حرج۔ پھر فتویٰ کے لیے افعل ولا حرج کا شعار غیر درست ہے۔کیونکہ متعدد اُمور میں آپؐ نےاِفعل ولا حرج سے فتویٰ نہیں دیا بلکہ کوتاہی کی حالت کو دیکھ کر حکم لگایا۔
éجیسا کہ نبی کریم نے طوافِ اِفاضہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اور سیدہ صفیہؓ کے بارے میں فرمایا : أحابستنا ھي ''کیا یہ ہمیں روکنے والی ہے۔''
éاور سیدہ اُمّ سلمہؓ کوبیماری کی وجہ سے طوافِ وداع چھوڑنے کی رخصت نہیں دی۔ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں:
شکوت إلی رسول اﷲ ﷺ أني أشتکي فقال: طوفي من وراء الناس وأنکِ راکبة (زاد المعاد:۲؍۲۹۹)
''میں نے نبی کریم سے بیماری کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: لوگوں سے ہٹ کر سواری پر سوار ہوکر طواف کرلے۔''
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ سیدہ اُمِ سلمہؓ کا طواف'طوافِ وداع' تھا۔
éاسی طرح جو شخص دورانِ حج قربانی نہ پائے،اسے متبادل شے کی طرف رہنمائی کردی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ}
''جو شخص قربانی نہ پائے وہ تین دن دورانِ حج میںاور سات دن واپس وطن لوٹ کر روزے رکھے ۔ یہ کل دس روزے بن جاتے ہیں۔'' (البقرۃ:۱۹۶)
ïجب کہ بعض اَعذار میں آپؐ نے کچھ رخصت بھی دی ہے جیساکہ اِفعل ولا حرج سے معلوم ہوتا ہے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم نے بعض عذروں پر رخصت دی ہے اور بعض پر نہیں دی۔ اسی طرح آپؐ نے افعالِ حج میں بھی فرق کیا ہے۔ چنانچہ حائضہ عورت کو طوافِ وداع چھوڑنے کی اجازت تو دے دی ہے مگر طوافِ افاضہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جیساکہ سیدہ صفیہؓ کی حدیث سے معلوم ہوتاہے۔
اس سے معلوم ہواکہ نہ تو ہرفعل میں رخصت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ہر عذر فعل کو ساقط کرتا ہے،کیونکہ بذاتِ خود نبی کریم نے اَعذار اور اَفعال کے درمیان فرق کیاہے۔چنانچہ افعل ولا حرج کے تحت ہر فعل میں رخصت دینا، یا ہرعذر کی بنا پر فعل کو ساقط کردینا غلطی اور خطا ہے۔
اسی طرح افعل ولا حرج کے شعار کے تحت اَعمالِ حج میں مطلقاً تقدیم وتاخیر جائزنہیں ہے۔ چنانچہ متمتع کے لیے حج کی سعی وقوفِ عرفہ سے پہلے کرنا غیر درست ہے۔
B فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۷۷ پر وقوفِ عرفہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے نکل جاتا ہے تو اس کا وقوف اس کو کفایت کرجائے گا۔ امام مالکؒ کے علاوہ تمام ائمہ کا یہی مذہب ہے۔امام ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ ہم کسی کو بھی نہیںجانتے جس نے امام مالکؒ کی موافقت کی ہو۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس پر دم ہے، لیکن اَقرب یہی ہے کہ اس پر کچھ نہیں ہے، اس کی دلیل عروہ بن مفرس کی حدیث ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
من أدرك معنا ھذہ الصلاة وأتٰی عرفات قبل ذلك لیلًا أونھارًا،فقد تمَّ حجه وقضٰی تفثه
وضاحت :ائمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ حاجی پر غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ واجب ہے۔ (مفید الأنام لابن جاسر: ص۳۱۶) ابن عبدالبرؒ نے نقل کیا ہے کہ عطا، ابوثور، اسحق، داؤد اور طبری کا بھی یہی قول ہے۔ (الاستذکار:۱۳؍۳۰)
امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ
''جمہور اہل علم کے نزدیک غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ واجب ہے اور بعض نے اس کو رکن قرار دیا ہے۔'' (اقتضاء الصراط المستقیم:۱؍۳۲۱)
تاہم غروبِ آفتاب سے پہلے چلے جانے والے شخص کے حج کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ نے ایسے شخص کے حج کو صحیح قرار دیا ہے جب کہ امام مالکؒ نے باطل کہا ہے۔(الاستذکار:۱۳؍۲۹) جبکہ فاضل مؤلف نے اس رائے کے خلاف کہا ہے کہ غروبِ آفتاب تک وقوف کرنا سرے سے واجب ہے ہی نہیں۔بلکہ غروبِ آفتاب سے عرفہ سے چلا جانا جائز ہے اور موصوف نے عروۃ بن مفرس کی حدیث سے استدلال کیا ہے جب کہ یہ حدیث دو وجوہ سے ناقابل استدلال ہے:
a مشرکین غروبِ آفتاب سے پہلے ہی عرفات سے واپس آجاتے تھے۔چنانچہ نبی کریم1 نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے غروبِ آفتاب کے بعد آنے کا حکم دیا۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
''مشرکین غروبِ آفتاب سے پہلے عرفہ سے نکل جاتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم نے غروبِ آفتاب کے بعد نکل کر ان کی مخالفت کی ہے۔ لہٰذا جمہور علما کے نزدیک غروب کے بعد نکلنا واجب ہے اور بعض نے اس کو رکن کہا ہے۔ '' ( اقتضاء الصراط المستقیم: ۱؍۳۱۹)
bاگر غروبِ آفتاب سے پہلے عرفہ سے نکلنا جائز ہوتا تو نبی کریم ضعفاء اور عورتوں کو ضرور اس کی اجازت دے دیتے جیساکہ مزدلفہ سے جلدی نکلنے کی اجازت ہے۔
c اگر اس حدیث کو اس کے ظاہر پر بھی محمول کرلیا جائے تو دیگر نصوص غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ کے وجوب پر کافی ہیں۔نبی کریم1 نے غروبِ آفتاب تک وہاں قیام کیا اور غروبِ آفتاب سے پہلے آپؐ یا صحابہ کرام ؓمیں سے کوئی شخص بھی نہ نکلا اور آپؐ کا فرمان ہے:خذوا عني مناسککم ''مجھ سے احکامِ مناسک سیکھ لو۔''
d عروۃ بن مضرس نے رات کو وقوف کیاتھا۔ اگر اس نے دن کو وقوف کیاہوتا تو نبی کریم1 سے اپنے حج کے بارے میں سوال نہ کرتا کہ میرا حج ہے کہ نہیں؟ نیز یہ حدیث 'حج کافی' پردلالت کرتی ہے نہ کہ 'حج کامل' پر۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص میقات سے اِحرام نہ باندھے اور میقات سے گزرنے کے بعد باندھ لے تو اس کا حج صحیح ہوگا، لیکن اس پردَم ہے۔
C فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۸۵ پر رمی جمار کے متعلق لکھتے ہیں کہ
جمہور اہل علم کے نزدیک رمی جمار واجب ہے، کیونکہ خود نبی کریم نے رمی کی اور آپؐ کا قول ہے:خُذُوا عني مناسککم
جب کہ امام مالک ؒ (سے ایک روایت میں) یہ سنت ِمؤکدہ ہے اور سیدہ عائشہؓ کا بھی یہی قول ہے، لیکن راجح مذہب جمہور کاہے کہ رمی جمار واجب ہے۔ پھر مؤلف نے کتاب کے حاشیے میں المجموع للنووي (۸؍۱۳۸) اور فتح الباری (۳؍۵۷۹) کا حوالہ دیا ہے۔
وضاحت:فاضل مؤلف نے امام مالک ؒسے المجموع اور فتح الباری کے حوالے سے سنت ِمؤکدہ نقل کیا ہے، لیکن امام ابن حجرؒ کے حوالے سے، جو میںجانتا ہوں وہ یہ ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک رمی جمار واجب ہے اور اس کے چھوڑنے پردَم ہے اور مالکیہ کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے جس کو ادا کرنا ضروری ہے۔مالکیہ کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرنا حج کا رکن ہے۔اسکے چھوڑنے سے حج باطل ہوجاتاہے۔(فتح الباری: ۳؍۶۷۷) اس عبارت کے دو صفحات بعد،میں نے پڑھا ہے کہ ابن حجرؒ امام مالکؒ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے سات سے کم کنکریاں ماریں اور وہ تدارک نہ کرسکا تو اس پر دَم ہے۔ (فتح الباری: ۲؍۶۷۹)
امام نوویؒ جمرہ عقبہ کی رمی میں علما کے مذاہب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ کے نزدیک یہ واجب ہے۔ [المجموع للنووي:۸؍۱۷۷]
امام نوویؒ ہی امام مالک ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی تین کنکریاں فوت ہوگئیں، اس پر دم دینا واجب ہے۔ [المجموع:۸؍۲۶۹]
امام نوویؒ ہی امام مالک سے نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی ایک کنکری رہ گئی، اس پربھی دم دینا واجب ہے۔ [المجموع:۸؍۲۷۰]
D فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۸۹ پرکنکریوں کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
''بسا اوقات ان ذیلی اُمور میں تاکید وسوسہ کا سبب بن جاتی ہے اور حاجی کوشک ہوجاتا ہے کہ آیا اس نے چھ کنکریاں ماریں یا سات ، اس کی کنکریاں حوض کے اندر گری ہیں یا باہر؟ سنن نسائی میں سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم کے ساتھ حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے بعض کہتے کہ ہم نے سات کنکریاں ماری ہیں، بعض کہتے کہ ہم نے چھ کنکریاں ماری ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کسی پر عیب نہ لگاتا تھا۔''
وضاحت:رمی کے سو فیصد مکمل ہو نے کو یقینی بنانا دراصل شعائر ِحج کی تعظیم ہے۔علماء اور مصلحین کا یہی طریقہ کار رہا ہے، کیونکہ اس منسک کا کمال ہی مطلوب ہے۔البتہ چھ کنکریوں کے کفایت کرجانے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
مجاہد، اسحق اور ایک روایت میں امام احمد کے نزدیک چھ کنکریاں ہی کفایت کرجائیں گی۔ ان کی دلیل سیدنا سعد بن ابی وقاص کی مذکورہ حدیث ہے۔
[الاستذکار لابن عبدالبر: ۱۳؍۲۲۴، الشرح الکبیر:۹؍۲۴۳]
جب کہ امام شافعیؒ ،طاؤس،اصحابُ الرائے اور ایک روایت میں امام احمد کے نزدیک سات کنکریاں مارنا واجب ہے۔اُنہوں نے نبی کریم1 کے عمل سے دلیل لی ہے،کیونکہ آپؐ نے سات کنکریاں ماریںتھیں۔ (الشرح الکبیر:۹؍۲۴۳)
سلف رمیِ جمار میں تاکید سے کام لیتے اور اس کا اہتمام کرتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت پیدا کیا کرتے تھے۔امام مالکؒ سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص نے مکمل رمی چھوڑ دی یا ایک جمرہ کی رمی چھوڑ دی یا ایک کنکری کم ماری اور ایامِ منیٰ گزر گئے تو اس پر دم ہے۔امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ جس شخص کی ایک کنکری رہ گئی، وہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اَوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ وہ صدقہ کرے۔امام ثوریؒ فرماتے ہیں:ایک ،دو اور تین کنکریاں کم ہونے کی صورت میں کھانا کھلائے گا لیکن اگر چار یا چار سے زائد کنکریاں نہ ماریں تو اس پر دم ہے۔
امام لیثؒ فرماتے ہیں کہ ''ایک کنکری میں بھی دم ہے۔''
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک کنکری میں ایک مد اور دو کنکریوں میں دو مد کھانا کھلایا جائے گا جب کہ تین کنکریوں کے رہ جانے میں دم ہے۔ امام شافعیؒ کا دوسرا قول امام لیثؒ کی مانند بھی منقول ہے، لیکن یہ پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ (التمہید لابن عبد البر:۱۷؍۲۵۵، الاستذکار: ۱۳؍۲۲۳)
پتہ نہیں سلف نے ہمارے اوپر سختی کی ہے یا ہم تساہل برتنے لگ گئے ہیں۔
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ فرماتے ہیں:
''حاجی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کنکری کے حوض میں گرنے کا علم ہو یا ظنِ غالب ہو۔ اگر کسی شخص کو اس کی کنکری حوض میں گرنے کا علم یا ظن غالب نہیں ہے تو اس پر دوبارہ کنکری مارنا واجب ہے۔ اگر اس نے رمی کا وقت گزر جانے تک دوبارہ کنکری نہ ماری تواس پر دم ہے جس کو وہ مکہ میں ذبح کرے گا اور وہاں کے فقرا میں تقسیم کردے گا۔ (فتاویٰ شیخ ابن باز:۱۷؍۳۷۹)
شیخ ابن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کو یہ شک پڑ جائے کہ اس کی کچھ کنکریاں حوض سے باہر گر گئی ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو شیخ نے جواب دیا: اس پر تکمیل واجب ہے۔ (فتاویٰ الحج والعمرۃ:ص۱۱۳)
اگرچہ صحابہ کرامؓ سے منقول ہے کہ بعض نے چھ اور بعض نے سات کنکریاں ماریں مگر افضل اور اَکمل سات ہی ہیں، کیونکہ نبی کریم نے سات کنکریاں ماریں تھیں۔
E فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۹۰ پر لکھتے ہیں کہ
''میری رائے کے مطابق زوال سے پہلی رمی کی جاسکتی ہے۔''
وضاحت: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔مؤلف نے زوال سے قبل رمی کرنے کے جواز پر علما کے اَقوال ذکر کئے ہیں،لیکن یہاںزوال سے قبل عدمِ جواز کے اقوال بھی موجود ہیں:
ç ابن جریج فرماتے ہیں کہ میںنے عطا کو فرماتے ہوئے سنا:''زوالِ شمس سے پہلے جمرہ کی رمی نہ کرنا''اب میں نے اپنے آپ کو اس کا عادی بنا لیاہے۔
ç شیخ صالح بلیہیؒ کی کتاب السلسبیل میں بھی زوال سے پہلے رمی کرنے کے عدمِ جوازکا تذکرہ موجود ہے۔ (۱؍۴۱۰)
ç شیخ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے، کیونکہ نبی کریم1 اور صحابہ کرامؓ کا اسی پر عمل ہے۔نیز ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں کہ زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیںہے۔ (الشرح الکبیر:۹؍۲۴۰، المجموع:۸؍۲۶۹)
ç شیخ محمد بن ابراہیم، شیخ عبدالحمید بن حمید، سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد بن صالح عثیمین بھی زوال سے پہلے رمی جمار کے عدمِ جواز کے قائل ہیں۔
ç نافع سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے:
''لا ترم الجمار في الأیام الثلاثة حتی تزول الشمس...''
'' ان تین دنوں میں زوالِ شمس سے پہلے رمی نہ کرنا۔''(موطا:۲۱۷، بیہقی:۵؍۱۴۹)
ç اگر زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہوتا تو نبی کریم1 ضعفا اور عورتوں کو ضرور اس کی اجازت دے دیتے جیسا کہ مزدلفہ سے جلدی منیٰ جانے کی اجازت دے دی تھی، کیونکہ یہ انتہائی رش کا مقام ہے۔
ç امام ابن عبدالبرؒ نے زوال کے بعد رمی کرنے کے وجوب پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر:۶؍۲۷۲)
ç شیخ محمد صالح العثیمین فرماتے ہیں کہ اگر زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہوتا تو نبی کریم1 ضرور زوال سے پہلی رمی کرتے،کیونکہ یہ بندوں پرآسان ہے اور نبی 1 کاطریقہ کار یہ تھاکہ ہمیشہ دواختیاری اُمور میں سے آسان ترپر عمل کرتے تھے اگر وہ گناہ نہ ہوتا۔ یہاں نبی کریم کا اس آسان امر کو اختیار نہ کرنا اس امر پر دلالت کرتاہے کہ یہ گناہ ہے۔ (فتاویٰ الحج والعمرۃ: ص۱۱۱)
ç مؤلف نے بطورِ دلیل حضرت ابن عباسؓ کااثر نقل کیا ہے کہ زوال سے پہلے رمی کرنا ابن عباسؓ سے مروی ہے جب کہ اس روایت کو امام بیہقی نے ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے لہٰذا یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے۔ (بیہقی:۵؍۱۵۲)
دوسری طرف ابن ابی شیبہؓ نے وکیع عن ابن جریج عن ابن ابی ملیکہ کے طریق سے ابن عباسؓ کا فعل نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے زوال سے پہلے چاشت کے وقت رمی کی۔(مصنف ابن ابی شیبہ : ۳؍۳۱۹) لیکن راوی حدیث ابن ابی ملیکہ نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ ابن عباسؓ نے کس دن یہ رمی کی تھی،ممکن ہے کہ یہ یوم العید ہو۔بہرحال اس اثر میں احتمال ہے ، اس میں یوم العید یا ایامِ تشریق کو رمی کرنے کے دونوں احتمال موجود ہیں۔
امام ابن عبدالبرؒ نے سیدنا ابن عباسؓ سے ایک اور اثر نقل کیا ہے کہ زوال سے پہلے کی گئی رمی کافی نہیں ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر:۷؍۲۷۲)
...٭...٭...٭...
تقدیم از الشیخ صالح بن فوزان الفوزان
تمام تعریفیں ربّ العالمین کے لیے ہیں اور درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد1 ، آپ ؐ کی آل ، اصحاب اور تابعین پر۔
حمد و ثنا کے بعد! میں نے فضیلۃ الشیخ فہد بن سعد ابو حسین کی لکھی ہوئی یہ بحث بعنوان ''کیف نفھم التیسیر؛ وقفات مع کتاب اِفعل ولاحرج'' پڑھی ہے جو میرے علم کے مطابق ایک گراں قیمت بحث ہے۔م ؤلف نے اسے اس مقدمہ سے شروع کیا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کوئی بھی دل اس وقت تک حق پرقائم رہ سکتا ہے جب تک وہ امر ونواہی کی تکریم کرے۔مناسک ِحج بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرنا بھی دلوں کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ جب کہ اَوامر کی تکریم کی نشانی یہ ہے کہ ان کی اَدائیگی کے اَوقات اور مقررہ حدود کا خیال رکھا جائے، ان کے اَرکان اور واجبات کی جستجو کی جائے اور اُنہیں ان کے مقررہ اوقات میں بہ تمام وکمال اَدا کرنے کی کوشش کی جائے اور اس مفہوم میں فاضل مؤلف نے کئی ایک علماء کے اقوال نقل کئے ہیں جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم ؒاور فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ پھر شیخ فہد نے زیر نظر کتابچہ پر عبداللہ بن بیہ کے تحریر کردہ پیش لفظ کا مناقشہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اُنہوں نے علماے کرام کے کلام کا غلط مفہوم مراد لیا ہے اور اس طرح شیخ نے عبداللہ بن بیہ کی کئی ایک باتوں کو ہدفِ تنقید بنایاہے۔
پھر مؤلف نے شیخ سلمان العودۃ کا مناقشہ کیا ہے اور ان کی کئی ایک باتوں پر تنقید کی ہے اور اُنہیں کئی ایک باتوں پر غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ مثلاً نبی کریم1 صحابہ کرامؓ کواپنے کلام پرعمل کرنے کی تربیت دیتے تھے اور حج وغیرہ کے اَحکام میں اُنہیں اپنی اتباع پر اُبھارتے تھے اور ان کے دلوںمیں نصوصِ شرعیہ کی تکریم و تعظیم کا بیج بوتے تھے۔ اس کے علاوہ اُنہوںنے بتایا کہ مذکورہ کتاب میں قواعد و ضوابط کی پیروی بھی نہیں کی گئی،کیونکہ افعل ولاحرج کو بنیاد بنا کر دروازہ کھول دینا لوگوں کے لیے احکامِ حج سے عدم توجہی اور ان کی بے قدری کا سبب ہے جبکہ نبی نے حج کے اُمور کو منضبط کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ''مجھ سے مناسک ِحج سیکھ لو۔''
علاوہ ازیں شریعت کے مشکل اُمور کو لوگوں کے سامنے رکھے بغیر احکام شریعت کو ان کے من پسند انداز اور خواہشات ِنفسانیہ کے مطابق پیش کرنے سے عدمِ توازن پیداہوگا اور حج کے شرعی مقاصد کومطلوب طریقے کے مطابق اَدا نہ کرنے اور ان میں پنہاں روحانیت کو نہ اپنانے کا رجحان پیدا ہوگا جب کہ میانہ روی مطلوب ہے اور میانہ روی کتاب وسنت ہی کی پیروی کا نام ہے۔اوریہ کہ بلاشبہ بہت ساری نصوص تشدد اور سختی سے اجتناب کے متعلق وارد ہوئی ہوتی ہیں پس جس طرح تشدد کا انکار ضروری ہے، اُسی طرح اس آسانی کاانکار بھی ضروری ہے جو شریعت سے متصادم ہو۔
اور یہ کہ مفتی کے لیے مناسب ہے کہ فتویٰ دینے سے قبل اپنے نفس کی نجات کے متعلق غور کرے اور پھر فتویٰ دے کیونکہ فتویٰ دینا ربّ العالمین کی طرف سے دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ اور اسے مؤلف نے عبادت کے ظاہر میں منہمک ہوجانے اور عبادت کی اصل روح اور مغز کے کھو دینے کو برا قرار دیا ہے اور یہ کہ مناسک کے مقصود اور غرض کو سمجھنا جبکہ عمل کی اہمیت کو نظر انداز کردینا غلطی ہے۔
اسی طرح فاضل مؤلف نے صاحب کتاب افعل ولا حرج کے اس قول کو بھی ہدف تنقید ٹھہرایا ہے کہ مفتی کو چاہئے کہ ایسے تمام معاملات جن میں کوئی فعل موجود نہ ہو، یاوہ معاملات جن میں نبی اکرم1 نے یہ کلمہ ارشاد فرمایا ہے یہی کلمہ ہے۔فاضل ناقد کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اُنہوں نے کس بناپراس نص کو دیگر نصوص پر مقدم کردیا ہے اور اُن سے پہلے اس قول میں ان کے پیشرو کون ہیں؟اس طرح مؤلف کی اس بات کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ عرفہ سے غروبِ شمس سے قبل لوٹنا جائز ہے،کیونکہ عرفہ میں غروب ِشمس تک وقوف کرنا بعض علما کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک رکن ہے۔
مزید برآں مؤلف کے فقہا پر اس اعتراض کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ فقہا فرضی اور تاحال پیش نہ آنے والے مسائل بھی ذکر کیا کرتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ فقہا ان مسائل کو اس لیے ذکر کرتے ہیںکہ نئے پیش آمدہ مسائل پران کو منطبق کیا جاسکے اور طالب علم میں فقہی مسائل کے استنباط کا ملکہ پیدا کیاجائے نہ کہ محض اس لیے بغیر قواعد و ضوابط کے فرضی مسائل میں رائے زنی کرتے رہیں۔
اسی طرح افعل ولا حرج نامی کتاب کے مصنف نے اس بات کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ ایامِ تشریق میں زوال سے قبل رمی جمار جائز ہے اور اس باب میں فاضل مؤلف نے علما کے اَقوال نقل کرکے اس موقف کو راجح ثابت کیا ہے کہ زوال سے قبل رمی ناجائز ہے اور اس بحث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جبکہ شیخ فہد کا ان تمام مناقشات سے مقصود محض تسہیل کا حصول ہے۔ اہل علم ہمیشہ سے ایک دوسرے کی تردیدکرتے رہے ہیں جیساکہ امام مالکؒ کا فرمان ہے کہ
''ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کی تردید کر بھی سکتا ہے اور خود اس کی بات کی بھی تردید ہوسکتی ہے سوائے رسول اللہ1 کے۔''
تتمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے شریعت مقرر کی اور آسان فرمائی۔''اور اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں کی۔''(الحج:۷۸) حج اور دین کے دیگر احکامات میں آسانی صحیح دلائل کے امر ہی سے ہوگی جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشروع کیا ہوگا۔ انہی احکامات میں سے حج اور عمرے کی عبادت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : ''حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔'' (البقرۃ:۱۹۶) اور ان کا اِتمام ان کے مناسک کو اس طریقے پر ادا کرنے سے ہوگا جس کے مطابق رسول اللہ1 نے ان کو ادا کیاہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''بلا شبہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات ہی بہترین نمونہ ہے۔''
اور نبی اکرم کا ارشاد ہے:
''مجھ سے حج و عمرہ کی ادائیگی کے طریقے سیکھ لو۔''
یعنی ان کو اس طریقے کے مطابق اداکرو جس کے مطابق میں نے اداکیا ہے، نہ کہ ان رخصتوں کے مطابق جو علما نے کتاب وسنت سے دلیل کے بغیر تراشی ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔ پس اگر تم میں کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسولؐ کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور مال کے اعتبار سے اچھا ہے۔''(النسائ:۵۹)
اب اس آیت ِکریمہ میں ہے کہ ہم پر علما کے انہی اقوال کو لینا واجب ہے جن پرکتاب وسنت دلالت کرتی ہو، نہ کہ ان کو جو ہماری خواہشات اور دلچسپیوں کے موافق ہو اور جن کی صحیح دلائل کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہ ہو۔اسی طرح شرعی دلائل کو ان کے غیر مدلول معنی میں بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ جیساکہ یومِ نحر کے اعمال کوایک دوسرے پرمقدم و مؤخر کرنے پر کچھ لوگوں نے نبی اکرم1 سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا: افعل ولا حرج ''ٹھیک ہے، کرتے رہو اور کوئی حرج نہیں۔''
اب اگر اس دلیل کو کوئی ہرقسم کی تقدیم و تاخیر کے جواز بلکہ حج کے واجبات و افعال کے ترک کے لیے استعمال کرے تو یہ اس دلیل کا غلط استعمال ہوگا۔ اس قول کو فراموش کردینے کے مترادف ہوگا کہ ''حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔'' جبکہ حج اور عمرے کا وہ اِتمام جس کا اللہ نے مذکورہ آیت میں حکم دیا ہے، اس کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوگا کہ ان کے تمام مناسک کی ادائیگی اللہ اور رسول1 کے مقرر کردہ زمان و مکان میں کی جائے نہ کہ کسی ایسے قول یا فتوے کی بنیاد پر جس کی کوئی دلیل نہ ہو یاپھرافعل ولا حرج کو سہارا بنا لیا جائے اور اس کلمے کو اس زمان، مکان یا اُن افعال کے علاوہ کسی اور جگہ استعمال کیاجائے جن کے لیے نبی اکرم1 نے یہ کلمہ ارشاد فرمایاہے۔
کیا رسول اللہ1 نے غروبِ شمس سے پہلے عرفہ سے لوٹنے والے کوبھی کہا تھا کہ افعل ولا حرج '' کرتے جاؤ اور کوئی حرج نہیں۔''؟
کیا ایام تشریق میں زوال شمس سے پہلے رمّی کرنے والوں کو بھی نبی 1 نے یہی کہا تھا؟
اور کیا عرفات کے بجائے وادی نمرہ یا وادی عرفہ میں وقوف کرنے والے کوبھی اسی طرح ارشاد فرمایا تھا؟
کیا نصف رات سے قبل مزدلفہ سے لوٹ آنے والے کو بھی یہی جواب دیا تھا؟
اور کیا مزدلفہ اور منیٰ میںرات نہ گزارنے والوں کوبھی یہی کہا تھا جب کہ وہ ان دونوں مقامات میںرات گزارنے پرقادر تھے؟
اور کیا بغیر طہارت بیت اللہ کا طواف کرنے والے کو بھی یہی کہا تھا...!!
ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کاجواب نفی میں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام اُمور کو ان کی مناسب جگہ پر اور تمام دلائل کو ان کے مناسب حال اُمور پررکھا جائے اور ضروری ہے کہ مطلق اور مجمل کوبھی بیان کردیا جائے جیساکہ علامہ ابن قیمؒ نے کہا ہے:
''تم پر بات کو کھول کربیان کردینا لازمی ہے، کیونکہ اجمال اور اطلاق بعض اوقات خلط مبحث کا سبب بنتے ہیں اور عقول و افہام کو تشویش میں مبتلا کردیتے ہیں۔''
اور ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جہادمیں مشقت لازمی ہوتی ہے، یہ کوئی تفریحی سفرنہیں ہوتا جب کہ مناسک کی ادائیگی کے لیے اللہ نے زمان اور مکان ہر دواعتبار سے وسعت رکھی ہے۔ مکان کی وسعت اس اعتبار سے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے:
''میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور مزدلفہ تمام کا تمام جاے وقوف ہے۔''
اور نبی کریم نے بیت اللہ کا طواف پیدل اور سوار ہوکر دونوں طرح کیاہے۔ اس طرح طوافِ افاضہ اور سعی کا وقت عید والے دن آدھی رات سے شروع ہوجاتا ہے جب کہ اس کے اختتام کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور جمرہ العقبہ کی رمی کا وقت دسویں کی نصف رات سے شروع ہوکر گیارہویں تاریخ کی شام تک وسیع ہے۔ اور تینوں جمرات کی رمی کا وقت زوال شمس سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کی شام تک وسیع ہے اور تیرہویں کی رات اس شخص کے لیے ہے جو جلدی کرے اور جو تاخیر سے کرناچاہے، اس کے لیے تیرہویں کی غروبِ شمس تک وقت ہے اور نبی کی تمام وادی رات گزارنے کی جگہ ہے اگر لوگ ناجائز تصرفات نہ کریں اور اپنی لالچوں کوملحوظ نہ رکھیں تو یہ وادی حجاج کے لیے تنگ نہیں ہے، اگر اس کی صحیح قدر کی جائے اورہرکوئی قابل کفایت جگہ تک محدود رہے اور باقی اپنے بھائیوں کے لیے چھوڑ دے۔ بصورتِ دیگر ضرورت سے زائد جگہ روکنے پر وہ اس شخص کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا جو جگہ نہ ملنے کے سبب منیٰ سے باہر رات گزارے۔
قسم ہے کہ شہر لوگوں کے لیے تنگ نہیںہوتے بلکہ لوگوں کے اخلاق ہی تنگ ہوجایا کرتے ہیں۔ بات کوکھول کر بیان کردینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ '' حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے مکمل کرو۔'' اور نبی اکرم کا یہ فرمان ہے کہ ''مجھ سے مناسک حج و عمرہ سیکھ لو۔''
رہا آپؐ کا فرمان: افعل ولا حرج تو یہ ایسے شخص کو کہا جائے گا جس سے یوم عید کو کئے جانے والے مناسک میںتقدیم و تاخیرہو جیساکہ خود رسول اللہ نے اس موقع پر یہ الفاظ کہے تھے جن لوگوں سے چار مناسک: رمی، نحر، سرمنڈوانے، طواف اور سعی میں تقدیم وتاخیر ہوئی تھی اور نبی اکرم نے لوگوں سے یہ الفاظ اِن غلطیوں کے صدور کے وقت کہے تھے نہ کہ پہلے ہی سے ارشاد فرما دیئے تھے، کیونکہ افعل ولا حرج کے پیغام کو تمام لوگوں تک غلطی کے صدور سے پہلے پہنچا دینا اعمالِ حج میںخلل اندازی کا سبب بنے گا۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ علم نافع، عمل صالح اور اپنی رِضا کے لیے مخلص ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہمارے نبی محمد، آپؐ کی آل اور اصحابؓ پر رحمت کرے۔ آمین!