خلع اور طلاقِ ثلاثہ کے بعض احکام


اِن دنوں وفاقی شرعی عدالت میں خلع اور طلاق کے حوالے سے درپیش روزمرہ مسائل کے حوالے سے ایک درخواست زیر سماعت ہے جس میں رہنمائی اور مشاورت کے لئے عدالت مذکور نے ایک سوال نامہ گذشتہ دنوں اِدارئہ محدث کو ارسال کیا۔اِدارہ نے یہ سوال نامہ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف  کی خدمت میں پیش کردیا، جس پر اُنہوں نے اپنا موقف حسب ِذیل تحریر میں بہ تفصیل درج کیا۔ شرعی عدالت کے سوالات کے جوابات قارئین 'محدث' کے استفادہ کے لئے شائع کیے جارہے ہیں۔ ح م

سوال:کیا میاں بیوی کے درمیان عدالتی تفریق(بذریعہ خلع)کے بعد میاں بیوی نکاحِ جدید کے ذریعے دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے ہیں؟

جواب : اس کا جواب اثبات میں ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو باہم رضا مندی اور نئے نکاح کے ذریعے سے یہ تعلق زوجیت دوبارہ بحال ہوسکتا ہے۔

اس سلسلے میں فاضل عدالت نے جو تنقیحات مرتب کی ہیں،ان کی وضاحت بالترتیب حسب ِذیل ہے:

کیاشوہر کو طلاق کے حوالے سے مکمل اور اَٹل اختیارات حاصل ہیں؟

جی ہاں!شوہر کو یہ حق حاصل ہے، لیکن اس حق کا استعمال اسلام کی مجموعی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کی تاکید ہے یعنی اسلام نے مرد کو یہ تلقین کی ہے کہ نکاح کے بعد عورت کے ساتھ حسنِ معاشرت کا اہتمام کرے، حتیٰ کہ اگر اس کو بیوی کی بعض باتیں ناپسند ہوں، تب بھی اس کے ساتھ نباہ کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} (النسائ:۱۹)

''اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو، پھر اگر تم ان کو ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی ڈال دے۔''

اسی بات کو رسول اللہ1 نے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:

لا یضرك مؤمن مؤمنة،إن کرہ عنھا خُلقًا رضي منھا آخر

''کوئی مؤمن مرد (شوہر)کسی مؤمن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔'' (صحیح مسلم: ۱۴۶۷)

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ1 نے فرمایا:

واستوصوا بالنساء خیرًا، فإنَّ المرأة خلقت من ضلع،وإن أعوج شيء في الضلع أعلاہ، إن ذھبت تقیمه کسرته وإن ترکته لم یزل أعوج، استوصوا بالنساء خیرًا (صحیح مسلم: ۱۴۶۶)

''تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو۔ اس لیے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کرسکو گے) اور اگر تم اِسے چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔'' (اسکے ساتھ نباہ کرنے کا یہی طریقہ ہے)

عورت کے ساتھ نباہ کرنے کے دو اہم اُصول ،مذکورہ دو حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں:

a اس میں جوخوبیاں ہیں، ان پرنظر رکھو اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردو۔

b مرد کے مقابلے میں عورت جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور عقلی و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی فرو تر۔

اس کا تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت کی کوتاہیوں پر صبر و ضبط اور حوصلہ و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مردانگی و فرزانگی کے زعم میں عورت کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ عورت تو سیدھی نہیں ہوسکے گی البتہ گھر کے اُجڑنے تک نوبت پہنچ جائے گی۔

بدقسمتی سے عام مسلمانوں میں اِسلامی تعلیمات کا صحیح شعور نہیں ہے، اس لیے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ و اِحساس بھی نہیں ہے اور یوں ایسے گھر امن و سکون کا گہوارہ ہونے کے بجائے ، جہنم کدے بنے ہوئے ہیں۔

پھر ستم بالائے ستم یہ کہ مرد جہالت کی وجہ سے طلاق دینے کا صحیح اور شرعی طریقہ بھی اختیار نہیں کرتے،جو یہ ہے کہ نباہ کی ساری صورتیں اختیار کرنے کے بعد اگر نباہ ناممکن ہوجائے اور جدائی کے بغیر چارہ نہ ہو تو مرد عورت کے حیض سے پاک ہونے کے بعد اس سے صحبت نہ کرے اور حالت ِطہر میں اسے ایک طلاق دے دے، طلاق کی عدت تین حیض (یا تین مہینے) ہیں۔ ان ایام میں عورت کے لیے حکم ہے کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ (سورۃ الطّلاق) تاکہ اس دوران میں شاید اللہ تعالیٰ صلح ورجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ اگر صلح کی صورت نہیں بنتی اور عدت گزر جاتی ہے تو اب عورت اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے گھر چلی جائے، عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اب کوئی تعلق خاوند سے باقی نہیں رہا، اس لیے خاوند کے گھر رہنے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔

اس طریقۂ طلاق میں جو احسن اور شرعی طریقہ ہے، اس کے بہت سے فوائد ہیں:

é ہوسکتا ہے طلاق دینے کے بعد خاوند کا دل پسیج جائے، یاتنہائی کا احساس اسے پریشان کرے، یابچوں کے مستقبل کا اِحساس اس کے اندر اپنے فیصلے پرنظرثانی کا احساس پیدا کردے، یا گھریلو اُمور و معاملات کی دشواریاں اس کو سوچنے پر مجبور کردیں، وغیرہ وغیرہ

éاس قسم کی تمام صورتوں میں تمام مکاتب ِفکر کے نزدیک بالاتفاق عدت کے اندر رجو ع کرنا اور عدت گزر جانے کی صورت میں بذریعۂ نکاح جدید دوبارہ تعلق بحال کرنا جائز ہے۔ کسی اور موقع پر اگر وہ پھر طلاق دے دے گا، بشرطیکہ ایک طلاق دے گا، تو پھر بھی بالاتفاق عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے پر نکاحِ جدید کرنا جائز ہوگا۔

éلیکن اس احسن اور شرعی طریقے کے بجائے، ذرا ذرا سے اشتعال اور معمولی معمولی جھگڑوں پربیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں، پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا بچوں کے مستقبل کا معاملہ سامنے آتا ہے، یا تنہائی کا احساس ستاتا ہے یا بیوی کا پیار اسے یاد آتا ہے تو پھرندامت کے آنسو بہاتا ہے اور علما کے پیچھے پھرتا ہے۔ اَب جن کے دلوں کو تقلیدی جمود نے پتھروں میںتبدیل کردیا ہوا ہے، ان کو ان گھروں کے اُجڑنے کا، بچوں کا مستقبل برباد ہونے اور دیگر معاشرتی قباحتوں اور خرابیوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کی طرف رجوع کرنے والوں کویہی کہتے ہیں: ''اب کیا ہوت، جب چُگ گئیں چڑیاں کھیت''

یا پھربے غیرتی اور لعنتی فعل حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

حالانکہ بیک وقت تین طلاقیں دینا بالاتفاق یکسر ناجائز ہے اور نبی1 نے اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا ہے اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔

بہرحال بات یہ ہورہی تھی کہ مرد کو طلاق دینے کا بلاشبہ مکمل اختیار حاصل ہے جو شریعت اسلامیہ نے اسے عطا کیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد اپنا یہ حق طلاق غیر شرعی، غیر دانش مندانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں جس سے بے شمار گھر برباد ہورہے ہیں اور یہ طریقہ متعدد خرابیوں کا باعث بن رہا ہے۔

چندسال قبل اَخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش اس سلسلے میں شائع ہوئی تھی جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ سفارش بڑی اہم تھی اور ہے، کاش اس پر کوئی قانون سازی ہوسکے اور اس میں ان وکیلوں اور عرضی نویسوں کو بھی قابل سزا قرار دیا جائے جو بیک وقت تین طلاقیں لکھ کر عوام کو دیتے ہیں۔

سوالB: کیا بیوی کو حاصل اختیار، بابت خلع بواسطہ قاضی، محدود اور خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے ؟

جواب:اس سوال کا جواب دینے سے قبل خلع کی حقیقت بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول1) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔

یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔

لیکن یہاں بھی اکثر و بیشتر مردوں کا معاملہ شریعت ِاِسلامیہ کی ہدایات کے خلاف ہی ہوتا ہے بلکہ بہت سے جامد فقہاء و علماء عورت کے اس حق خلع ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ إنا ﷲ وإنا إلیه راجعون،حالانکہ یہ قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ و قویہ کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔

اکثر مرد عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ عدالت میں لے جانا پڑتاہے اور فریقین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود عدالت کے بار بار سمن جاری کرنے کے خاوند عدالت ہی میں حاضر نہیں ہوتا، بالآخر عدالت یک طرفہ فیصلے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ خلع کی ڈگری جاری کرکے عورت کی گلو خلاصی کراتی ہے۔یہاں بھی جامد فقہا یہ موشگافی کرتے ہیں (اللہ ان کو ہدایت دے) کہ خاوند کے طلاق دیئے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ کیا یہ مفتی حضرات یہ چاہتے ہیں کہ ایسی عورت یوں ہی بے یاروومدد گار بیٹھی خون کے آنسو روتی رہے اور کہیں سے اس کی داد رَسی نہ ہو۔

بہرحال فاضل عدالت کے سوال کا جواب یہ ہے کہ عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

سوالC: کیا ایک مجلس کی تین طلاق کو تمام حالات اور بہر صورت تین ہی تصور کیا جائیگا؟

جواب:بلا شبہ مذاہب ِاَربعہ کے فقہا اسے تین طلاقیں ہی شمار کرتے ہیں، لیکن اس پر اِجماع نہیں ہے اور نہ مذاہب ِاَربعہ کا اتفاق اجماع کے مترادف ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دونوں دعوے کرتے ہیں۔

صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ1کے زمانے میں، ابوبکر ؓکی خلافت میں اور حضرت عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی د و سالوں تک ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔

مسنداحمد میں حضرت رکانہ ؓ کا واقعہ موجود ہے، اُنہوں نے تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ سخت نادم ہوئے۔ رسول اللہ1 کے استفسار پرجب اُنہوں نے یہ بتایا کہ اُنہوں نے یہ طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں تو آپ1 نے اُنہیں رجوع کرنے کی اجازت دے دی، اور اُنہوں نے رجوع کرلیا۔

صحابہ کرام کے دور میں آج تک علما اور فقہا کا ایک عظیم گروہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتا چلا آرہا ہے اور آج بھی متعددعلماے احناف اس مسلک کی صحت کے قائل ہیں اور اپنے ہم مسلک علماے کرام کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ ''طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر جمود نے عوام کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کررکھی ہیں، اس کا حل یہی ہے کہ اہلحدیث کے موقف کواس مسئلے میں اپنایا جائے۔''

علاوہ ازیں فقہ حنفی میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اگرتو طلاق دینے والے کی نیت صرف طلاق دینے کی تھی، تین طلاق کی نیت نہیں تھی، تو اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل، علمائے احناف کے ایک طلاق ہونے کے فتاویٰ اور دیگر مباحث کے لیے راقم کی کتاب ملاحظہ فرمائیں، جس کا نام ہے :

ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل

مشاہیر اُمت اور متعدد علمائے احناف کی نظر میں

اس کا ایک نسخہ فاضل عدالت کے ملاحظہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ الشریعۃگوجرانوالہ کے شمارہ بابت جولائی ۲۰۱۰ء میں مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم، کراچی کا ایک فتویٰ 'مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار کرنے' کا شائع ہوا ہے اور اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ مخصوص حالات میں اس مسلک کو اختیار کرنا جائز ہے۔

سوالD: کیا حکومت ِوقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تین طلاق کے بعد خاوند کی طرف سے حلالہ کی شکل میں جو حیلہ اختیار کیا جاتا ہے، اُس کے تدارک کے لیے کوئی قدم اُٹھائے۔

جواب: یقینا ایک اسلامی حکومت کو یہ اختیار ہی نہیں بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ حرام کاری کی اس صورت کا سد ِباب کرے جو مذہب کے نام پر جاری ہے۔ رسول اللہ1 نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوںپرلعنت فرمائی ہے:0لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ9 (جامع ترمذی:۱۱۱۹)

دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ ﷺ (تفسیر ابن کثیر :زیرآیة فإن طلقھا فلا تحل له من بعد... الآیة)

''ہم رسول اللہ کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو 'زنا' سمجھتے تھے۔''

اور حضرت عمرؓ نے فرمایا:

لا أوتي بمحلل ولا محلل له إلا رجمتھما (تفسیر ابن کثیرتحت آیت ِ مذکور)

''حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میںدونوں کو رجم کردوں گا۔''

جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو حکومت ِوقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں، سزا تجویز کرے۔

سوالE: بدنیتی پر مبنی حیلہ بابت حلالہ پر عمل پیرا شخص کو سزاے رجم کی مناسبت سے حضرت عمرؓ سے منسوب قول کی صحیح تشریح کیا ہے؟

جواب: حضرت عمرؓ کے اس قول کی صحیح تشریح یہی ہے کہ اس حلالے کو حرام قرار دے کر اس پر حد ِزنا نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔اسکے علاوہ اسکی کوئی اور تشریح نہیں ہے۔

سوالF: اگر مذکورہ بالا اُمور جرم کے زمرے میں آتے ہیں تو کیا حکومت ِوقت ان جرائم کے لیے کوئی سزا مقرر کرسکتی ہے؟

جواب:مذکورہ بالا اُمور یقیناجرم ہیں اور حکومت کو ان کے سد ِباب کے لیے ضرور سزا مقرر کرنا چاہئے۔

سوالG: کیا حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں موجود طلاق سے متعلق اَحکام کی روشنی میں بوقت ِطلاق گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دے؟

جواب:اگر ایسا کرنا ممکن ہو توگواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا جائے، لیکن راقم کے خیال میں ایسا کرنا بظاہر نہایت مشکل ہے، کیونکہ بالعموم طلاق اشتعال اور غصے میں دی جاتی ہے اور اکثر گھر میں سوائے بیوی یا بچوں کے کوئی نہیں ہوتا اور قوم کی جو اَخلاقی حالت ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، اس میں اس طرح جھوٹ کا دروازہ کھلنے کا بہت امکان ہے۔

اس کے بجائے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور وکیلوں اور عرائض نویسوں کے لیے بھی سزا تجویز کی جائے تاکہ وہ طلاق نامہ لکھتے وقت صرف ایک طلاق ہی لکھیں اور یہ پوچھ کر لکھیں کہ بیوی کس حالت میں ہے؟ اور پھر وہ مسئلے کی وضاحت کرکے اس کو کہیں کہ جب بیوی کے ایامِ طہر ختم ہوجائیں اور وہ پاک ہوجائے تو پھر اس سے صحبت کیے بغیر ہمارے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آنا۔

اس طرح کی قانون سازی اور اس پر پوری سختی سے عمل در آمدسے اور اس کو صحیح طریقے سے مشتہر کرنے سے پچاس فیصد سے زیادہ طلاق دینے کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے بلکہ راقم کے خیال میں ۸۰ فیصد اِمکانات کم ہوجائیں گے۔ بشرطیکہ حکومت مخلص ہو اور سختی سے اس قانون پر عمل درآمد کراسکے۔اوریہ وقت کی ایک نہایت اہم ضرورت بھی ہے۔

حکومت لاکھوں نہیں کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہے ،اس قانون کی بھی وہ اَخبارات اور ٹی وی وغیرہ پر پبلسٹی کرے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوجائیں اور آئندہ کے لیے محتاط ہوجائیں اور خلاف ورزی کی صورت میںطلاق دہندہ اور عرضی نویس وکیل دونوں کوسزا دینے میں کوئی نرمی اور رو رعایت سے کام نہ لے۔ ھٰذا ما عندي واﷲ أعلم بالصواب!