بچوں کو قرآنی عربی سکھانے کا طریقہ
تعلیم وتعلّم مولانا محمد بشیر*
بچوں کو قرآنی عربی سکھانے کا طریقہ
میرا آج کا موضوع یہ ہے کہ اپنی عظیم اسلامی درسگاہوں میں کمسن بچوں کو قرآنِ کریم کی تدریس کے دوران عربی زبان کیسے پڑھائیں؟ اس سے قبل میں اپنے دو مضامین** میں سورۂ فاتحہ اور پھر سورۂ بقرہ کے پہلے رکوع کی تدریس کے دوران عربی زبان کی تعلیم و تربیت پر مثالوں سمیت لکھ چکا ہوں۔ ان مضامین کا تعلق اسلامی مدارس کے درجہ اولیٰ اور بعد کے اُن درجات سے تھا جس میں ان کے سب سے پہلے اور اہم مضمون ترجمةۃ القرآن الکریم کی تدریس ہوتی ہے۔ میری رائے میںاس کا یہ نام اور طریقۂ تدریس دونوں قابل اصلاح ہیں۔ اس کا صحیح نام تدريس القرآن الکریم یا تعليم القرآن الکریمہونا چاہئے اور اس کی تدریس کے دوران قرآن و حدیث کی آسان عربی زبان کے بولنے اور لکھنے کی مشق اور تربیت (زبانی اور تحریری دونوں طرح) کرائی جائے، جس کے۰ ۵ درجے ہونے چاہئیں اور ترجمہ کرنے کے صرف ۲۰ درجے ہوں۔
آج کے موضوع کا تعلق اُن کمسن بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہے جو قاعدہ یسرنا القرآن یا ناظرۂ قرآن کریم پڑھتے ہوں یا شعبہ تحفیظ القرآن الکریم یا کسی پرائمری یا مڈل سکول کے طالب علم ہوں، یا بڑی عمر کے ایسے شہری ہوں جو بنیادی عربی زبان سیکھنے کے خواہشمند ہوں۔
اس موضوع پر بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے عزیز بچوں کی تعلیمی پوزیشن، ان کی ابتدائی درسگاہ کے ماحول اور تعلیم و تربیت کے ان پروگراموں اور اُصولوں پر روشنی ڈالیں جن کے مطابق ان کی ابتدائی نشوونما ہوتی رہی ہے۔ اور پھر انہی اُصولوں اور پروگراموں کی اساس پر مستقبل میں بچوں کی مزید ترقی اور بہتر تعلیم و تربیت کا خاکہ بنائیں، کیونکہ ایک کامیاب طالب علم وہ ہوتا ہے جو اپنی تعلیم کے ابتدائی زینوں پر جن اُصولوں کو سیکھے وہ ا نہیں مکمل طور پر سمجھتا ہو اور اپنی پوری زندگی میں ان کا اطلاق کرنے کے قابل ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ عرب لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک و ہ جو جدی پشتی عرب ہوتے ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا کسی دوسرے دین کے پیروکار۔ دوسرے مسلمان لوگ جو اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں، وہ بھی عرب ہوتے ہیں۔ کئی دوسرے ائمہ نے بھی اس امر کی تصریح کی ہے۔
ہر مسلمان بچہ عربی ہوتا ہے!
اس حقیقت کے فہم اور تائید کے لئے جب ہم مسلما ن بچے کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی صورت اور اس کی مر حلہ وار ترقی پر غور کرتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت ِاسلام نے نومولود بچوں کی اسلامی تعلیم اور اُنہیں عربی زبان کی عملی تربیت دینے کی ایسی عمدہ اور پختہ منصوبہ بندی کی ہے، جس کے نتیجے میںہر مسلمان بچہ حقیقتاً یا بالقوۃ عربی ہوتا ہے۔ آئیے شریعت اسلامیہ کی اس تدبیر اور حکمت کے چند مظاہر پر نظر ڈالیں۔
پہلا کورس : ماں کی گود کا تعلیمی کورس
ہر مسلمان بچے پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے کہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے دنیا کی پہلی خوراک 'گھڑتی ' کھلانے سے پہلے اس کے دائیں کان میں اللہ تعالیٰ کی توحید، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور دعوتِ اسلام پر مشتمل عربی اذان پڑھی جاتی ہے۔ یوں مسلمان بچے کی پیدائش کے اوّل روز سے ہی اس کی اسلامی اور عربی تعلیم و تربیت کا عمدہ آغاز ہوتا ہے۔ پھر جب وہ ایک ڈیڑھ سال بعد بولنے لگتا ہے تو اسے سب سے پہلے لفظ 'اللہ' اور 'بسم اللہ' بولنے کی تربیت او رمشق کرائی جاتی ہے۔ پھر وہ امی ، ابو یا بابا اور ماما وغیرہ بولنا سیکھتا ہے۔ بعدازاں جب وہ کچھ لمبے الفاظ بولنے لگتا ہے تو اسے لا الہ اور لا الہ إلا اللہ وغیرہ بولنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اور اس طرح مسلمان گھرانوں میں بچے کی اسلامی و عربی تعلیم و تربیت کا یہ مبارک سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
دوسرا کورس : قاعدہ یسرنا القرآن کورس
پھر جب بچہ تین چار سال کا ہوتا ہے تو وہ قریبی مسجد، مدرسے یا محلے کے کسی گھر میں القاعدة البغدادیة، قاعدہ یسرنا القرآن یا نورانی قاعدہ پڑھنے لگتا ہے۔ وہ اس تمہیدی قاعدے کو بالعموم ایک یا دو سال مسلسل محنت سے پڑھتا رہتا ہے، اور عربی زبان کے تمام حرفوں کی الگ الگ پہچان، ان کی مفرد اور مرکب شکلوں کی پہچان اور خواندگی سیکھتا ہے اور ان کے استعمالات کی مشق کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے تمام الفاظ، ترکیبات ، جملوں اور آیات کی قراءت سیکھتا ہے۔ نیز ان تمام حروف کے مخارج اورمدات کی اقسام ،نیز وصل اور وقف کے قواعد کی تعلیم پاتا ہے۔
تیسرا کورس: ناظرہ قرآنِ کریم
اس تمہیدی قاعدے کو مکمل کرنے کے بعدیہ خوش نصیب بچے قراءت و تلاوت کے انہی اُصولوں اور قاعدوں کے مطابق اب قرآنِ کریم کی تلاوت کی تربیت کا نیا کورس شروع کرتے ہیں، جسے ناظرہ قرآنِ کریم کورس کہا جاتا ہے۔ اس میںکتاب اللہ کو شروع سے لے کر آخر تک سبقاً سبقاً پڑھایا جاتا ہے۔ یہ کورس ڈیڑھ دو سال تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران وہ قرآن کریم کی آسان، سلیس اور شیریں عربی زبان پر مشتمل اللہ تعالی کے ارشادات اور آیات کو بار بار اور تکرار سے پڑھتا ہے ۔
چوتھا کورس: حفظ ِقرآنِ کریم کورس یا قراء تِ قرآنِ کریم کورس
بعد ازاں کچھ خوش نصیب بچے شعبہ تحفیظ القرآن الکریم میں داخلہ لیتے ہیں اور قرآنِ کریم کو شروع سے لے کر آخر تک زبانی یاد کرتے ہیں اور وہ صبح شام اور دن رات قرآنِ کریم کی عبارتوں اور سورتوں کو بیسیوں یا سینکڑوں بار پڑھتے اور دہراتے ہیں۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے لئے وہ عموماً دو یا تین سال مسلسل پڑھتے رہتے ہیں جب کہ کئی دوسرے خوش نصیب بچے قرآنِ کریم کے تجوید و قراء ت کورس میں داخلہ لیتے ہیں اور وہ ائمہ سلف اور معروف قراء سے مروی تجوید وقراءت کے قواعد کے مطابق آیاتِ کریمہ کی تلاوت کی مشق کرتے ہیں اور اساتذہ سے تربیت لیتے ہیں۔
یوںمسلمان بچے اپنی پیدائش کے اوّل روز سے لے کر سات ، آٹھ یا دس گیارہ سال اور کبھی بارہ تیرہ سال تک اپنی زندگی عربی قرآنِ کریم اور عربی اسلامی تربیت کے سائے میں گذارتے ہیں۔ تو ان کے ذہنوں اور حافظے میں قرآنی الفاظ، مرکبات، محاورے اور جملے اور پوری پوری آیات پختہ اور محفوظ ہو جاتی ہیں۔ نیز ان کی آنکھوں میں قرآنی الفاظ اور جملوں کی کتابت کی شکلیں مرتسم ہو جاتی ہیں اور وہ اُنہیں بوقت ِضرورت نہایت آسانی سے لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی قدرت و مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ رسولِ عربی ﷺسے مروی نماز کے تمام اَذکار ، اذان ، اقامت اور زندگی کے دیگر مواقع پر پڑھی جانے والی دعاؤں اور اَذکار کو بھی زبانی یاد کر لیتے ہیں۔ اس طرح یہ مسلمان بچے اس عرصے میں تیس پاروں پر مشتمل قرآن کریم کی فصیح و بلیغ اور منقح عربی لغت کے عظیم اور وسیع ذخیرے سے اچھی طرح واقف اور مانوس ہو جاتے ہیں، بلکہ وہ افصح العرب سیدنا محمد ﷺ کی نہایت جامع اوربلیغ دعاؤں اور اذکار کے اچھے ذخیرے کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔
کیا مسلمان بچہ عربی کی طرح کسی دوسری زبان کو سیکھتا اور جانتا ہے؟
یہ قرآنِ کریم، اسلامی تعلیم اور عربی زبان و ادب کے ان کورسز کا مختصر تذکرہ ہے۔ جنہیں ہر مسلمان بچہ اپنی عمر کے روزِ اوّل سے لیکر دس گیارہ سال تک بڑے شوق اور محنت سے سنتا، پڑھتا او ریاد کرتا ہے۔ پھر اس کے والدین اور معلمین جس محنت ، توجہ اور شوق سے اسے یہ تعلیم وتربیت دیتے ہیں، اسے بھی سامنے رکھیں۔ یوں ہر مسلمان بچہ قرآنِ کریم اور حدیث شریف کی معیاری اور اعلیٰ عربی لغت کا عظیم ذخیرہ یاد کرتا رہتا ہے۔ بلکہ وہ اسلام اور عربی لغت کے اس عظیم علمی و تعلیمی ذخیرہ کو طویل عرصہ تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں بار سنتا، پڑھتا اور دہراتا ہے کہ یہ عربی حروف، الفاظ، جملے، عبارتیں اور سورتیں اس کے دل دماغ اور عقل و فکر میں رچ بس جاتے ہیں۔ بحث کو مزید واضح کرنے کی غرض سے یہاں اس کے درج ذیل تین پہلوؤں پر توجہ دی جائے:
A یہ کہ ہمارے مسلمان بچے مذکو رہ بالا کورسوں میں جس عربی لغت کو پڑھتے، صبح شام دہراتے اور حفظ کرتے ہیں، وہ قرآنِ کریم کی آیاتِ کریمہ اور رسول عربی ﷺ کی مبارک احادیث کا عمدہ انتخاب ہوتا ہے۔ جس کا منبع وحی الہی ہے۔ اس لئے یہ عام سطح کی عربی زبان نہیں ہوتی بلکہ اعلیٰ درجے کی شستہ اور سلیس زبان (refined language) اونچی اور معیاری لغت (classical vocabulary) ہوتی ہے۔ اگر اسے صحیح طور پر سکھایا جائے تووہ بچوں کی اعلیٰ علمی و ادبی صلاحیت اور بلند فکر و نظر کی ضامن بن سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے یہ کم عمر بچے اس بلند سطح کی کسی دوسری زبان، خواہ وہ ان کی مادری زبان ہو، مثلاً اُردو، انگریزی اور پشتو وغیرہ کا مطالعہ تو نہیں کرتے۔
B قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ کی تدریس کے ان کورسوں میں مسلمان بچے جس وسیع و عریض عربی اَدب او رعظیم ذخیرۂ لغت سے آگاہ ہوتے ہیں، اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، خصوصاً بچوں کی کم سنی میں۔
C مسلمان بچے اس عظیم دینی اور فکری سرمایہ اور عظیم ذخیرہ لغت کو جس پابندی اور تسلسل سے بچپن میں، اپنی جوانی میں اور آخری عمر تک اور عمر کے آخری دن تک، دہراتے، تلاوت کرتے اور یاد کرتے ہیں، اس کی کوئی اور مثال بھی شاید نہ مل سکے۔ واللہ أعلم وعلمه أتم!
اب یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے ہر مسلمان کے لئے اس کی پیدائش کے دن سے لے کر اس کی پوری زندگی اور آخری دن تک تمام عبادات، اَذکار، تعلیم وتربیت، معیشت و سیاست اور تلقین وغیرہ سب کی زبان عربی ہی رکھی ہے۔ اس لیے عربی زبان دین اسلام کا عظیم شعار ہے اور اس دین فطرت کا جزو ہے جس کی تشریح ہمارے رسول عربی ﷺ نے یوں فرمائی ہے :
کل إنسان تلده أمه علی الفطرة وأبواه بعد یهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه فإن کانا مسلمین فمسلم۔ (صحیح مسلم: ۶۷۶۱)
''ہر انسان کو اس کی ماں فطرت پر جنتی ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اگر وہ دونوں مسلمان ہوں گے تو بچہ مسلمان رہے گا۔ ''
اس دینِ فطرت میں عربی زبان بھی شامل ہے، کیونکہ اسلام اور عربی زبان کے مابین لازم و ملزوم کا رشتہ ہے ۔ اس لیے ہم اپنی درسگاہوں کو المدارس العربیۃ یعنی اسلامی مدارس کہتے ہیں اور عرفِ عام میں بھی اس سے مراد دین اسلام ہی ہوتا ہے ، عام مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے بچے عربی پڑھ رہے ہیں یعنی اسلامی وعربی تعلیم ۔
قرآنِ کریم کی عربی زبان بالخصوص زیادہ آسان ہے!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے:لا يكلف الله نفسا إلا وسعهااسی صفت کے مطابق اس باب میں اس کی ایک عظیم نعمت کا ذکر کرنا یہاں بہت ضروری اور مفید ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی حکمت ورحمت کے مطابق اس کائنات کی ہدایت اور بھلائی کی خاطر اپنی آخری کتاب قرآنِ حکیم کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے، اور پھر اسے عام فہم اور سہل اُسلوب میں بیان کیا ہے تاکہ اسے عوام وخواص، شہری ودیہاتی، خواندہ وناخواندہ تمام انسان، نیز عرب وعجم سبھی لوگ پڑھ سکیں اور اس کے ارشادات اور احکام کو بآسانی سمجھتے ہوئے اُن پر عمل کرسکیں۔ چنانچہ قرآنِ حکیم کی عربی زبان کے الفاظ، ترکیبیں، محاورے اور جملے آسان اور چھوٹے چھوٹے ہیں اور ان کے مضامین اورمطالب بھی عموماً مختصر، سہل اور اتنے عام فہم ہیں کہ چھوٹی عمر کے بچے بھی اُنہیں بآسانی پڑھ کر ذہن نشین کرلیتے ہیں۔
یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اس آخری اُمت پر عظیم نعمت اور شفقت ہے۔ اپنی اس عظیم نعمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم کے ایک درجن سے زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے۔ صرف سورہ القمر میںچار بار اس آیت کریمہ کو دہراتے ہوئے اس سے پند وموعظت لینے کی دعوت دی گئی ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
''یقیناً ہم نے قرآن کو نہایت آسان بنادیا ہے، کیا کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟''
قرآنِ حکیم کی اس آسان زبان اور آسان اُسلوب کی طرح خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی حدیث شریف کی عربی زبان اور اُسلوب بھی اس قرآنی زبان واُسلوب کا عکس ہونے کی بنا پر نہایت آسان اور عام فہم ہے۔ نیز کتاب وسنت کی اس سہل زبان اور سہل اُسلوب کی طرح عام اسلامی لٹریچر پر بھی یہی رنگ غالب ہے کیونکہ صحابہ کرام، تبع تابعین، سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین اسی قرآنی نور سے منور ہیں۔ بلکہ اُمت کے اکثر علما، اُدبا، فقہا اور خطبا کا کلام اسی قرآنی ونبوی زبان واسلوب میں رنگا ہوا ہے۔ فالحمد للہ علی ذلك!
پھر خصوصیت سے ہمارے اس علاقے کے لوگوں کیلئے جو اُردو اور فارسی وغیرہ ایسی زبانوں کو جانتے ہیں جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں اور ان میں عربی الفاظ اور ترکیبات کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے، عربی اور بھی زیادہ آسان ہوجاتی ہے۔ ہماری قومی زبان اُردو میں مستعمل عربی الفاظ، محاوروں، روز مروں اور مرکبات کا تناسب تقریبا چالیس فیصد سے زیادہ ہے۔
اسی طرح ہمارے علاقے اور خطے کی دوسری زبانوں مثلاً فارسی، سندھی، پشتو اور پنجابی اور کشمیری وغیرہ میں بھی عربی الفاظ، ترکیبات اور محاوروں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
مستحکم بنیاد اور پختہ منصوبہ
اوپر میں نے مسلمان بچوں کی اسلامی و عربی تعلیم وتربیت بارے جن حقائق کا ذکر کیا ہے وہ ایسا امر واقع ہیں جن پر ہر باشعور مسلمان خواہ وہ شہری ہو یا دیہاتی، خوشی خوشی عمل کرتا ہے اور تمام اسلامی ممالک کے بچے ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس پروگرام پر غوروفکر اور تجزیے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے ہماری نسلوں کی ابتدائی سطح کی اسلامی اور لسانی تربیت کا مکمل اور دائمی منصوبہ خود بنایا ہوا ہے جس کی بنیاد صحیح عقیدۂ توحید اور اعلیٰ اُصولوں پر رکھی گئی ہے، اور مسلمان اسے نافذ کرنے کے پابند ہیں اور وہ واقعتاً اس پر برضا ورغبت عمل کرتے ہیں۔ والحمدللہ علی ذلك!
بہرحال یہ اس مستحکم بنیاد پر قائم پختہ تعلیمی و تربیتی منصوبے کا خلاصہ ہے جسے مکمل کرتے ہوئے ہمارے یہ عزیز اور انمول بچے ہمارے اسلامی مدارس میں مزید اعلیٰ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، اب ہم نے اُن کی آئندہ تعلیم وتربیت کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ آئیے پہلے ہم ان کا مفصل جائزہ لیں اور دیکھیں کہ تعلیم کے ان ابتدائی زینوں میں وہ کن اُمور یا پہلوؤں میں اچھی مہارت حاصل کر لیتے ہیں؟ اور کن کن اُمور میں پسماندہ رہتے ہیں؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور ان کا اِزالہ کیسے کیا جائے؟ ان سوالات کا صحیح جائزہ لینے کے بعد ہمیں مستقبل میں ان کی بہتر تعلیم وتربیت کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ یہاں ان کی تعلیم و تربیت کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
مثبت پہلو
۱۔ عربی حروف کے مختلف استعمالات کی پہچان
۲۔ عربی الفاظ کے ہجوں کی پہچان (Spelling ) میں مکمل اور اعلیٰ مہارت
۳۔ عربی حروف کے مخارج کی تعلیم اور مشق
۴۔ قرآنِ کریم کی قراء ت کے ضروری قاعدوں کی تعلیم اور عملی مشق
۵۔ منتخب سورتوں کا حفظ
۶۔ مکمل قرآنِ کریم کا حفظ
۷۔ منتخب مسنون دعاؤں اور اذکار کا حفظ
۸۔ اسلام کے دونوں بنیادی ارکان : شہادتین اور نماز کی مکمل تعلیم اور عملی مشق
۹۔ بنیادی اسلامی آداب کی تعلیم و تربیت
۱۰۔ عربی زبان کے وسیع ذخیرہ لغت کی سالوں تک زبانی قراء ت
۱۱۔ عربی زبان کے وسیع ذخیرہ لغت کا حفظ اور دہرائی
۱۲۔ عربی زبان کے وسیع ذخیرہ لغت کی سماعت مسلسل کرتے ہیں۔
منفی پہلو
۱۔ عربی زبان کے اس ذخیرۂ لغت کا فہم بہت کم حاصل ہوتا ہے۔
۲۔ عربی الفاظ اور جملوں کو مسلسل پڑھتے اور سننے کے باوجود انکے استعمال سے یکسر ناواقف رہتے ہیں۔
۳۔ عربی الفاظ اور جملوں کو مسلسل پڑھنے اور سننے کے باوجود اُنہیں لکھنے کی قدرت نہیں ہوتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے یہ عزیز بچے قرآنِ کریم اور حدیث کی اعلیٰ اور معیاری عربی زبان کو طویل مدت تک پڑھتے ہوئے :
۱۔ اسلامی عقیدے ، نماز ادا کرنے اور آداب کی اچھی تربیت حاصل کرتے ہیں۔
۲۔ عربی کے وسیع ذخیرے کو پڑھنے کی تربیت پاتے ہیں۔
۳۔ اس کے ایک بڑے حصے کو زبانی یاد کرتے ہیں۔
۴۔ اور اسے سننے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔
لیکن
۱۔اس وسیع ذخیرہ لغت کے فہم سے قاصر رہتے ہیں۔
۲۔ اپنی بول چال میں ابتدائی عربی کے استعمال پر قادر نہیں ہوتے۔
۳۔ وہ عربی زبان کو لکھنے سے یکسر قاصر ہوتے ہیں۔
بنیادی نقص
قرآنِ کریم اور حدیث شریف کے ان ابتدائی کورسوں کی تدریس کے دوران ہمارے بچے وسیع علم اور تربیت حاصل کرتے ہیں اور بہت سی تعلیمی مہارتوں کو خوب سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن اس وسیع تعلیم وتربیت میں صرف ایک بنیادی نقص رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ابتدائی عربی زبان کے فہم اور اسے بولنے اور لکھنے کی مشق اور تربیت سے بالکل محروم رہتے ہیں۔ فن تعلیم کے مطابق اُصولی طور پر اُنہیں دوسری تعلیمی مہارتوں کے ساتھ ساتھ ان تینوں اُمور یعنی
(۱) ابتدائی عربی زبان کے فہم (۲) لکھنے (۳) بولنے
میں بھی اچھی صلاحیت پیدا کرنے کا اہتمام ضروری ہوتا ہے۔
تشخیص
مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کے اس بنیادی نقص اور بیماری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ نقص چند سال اور جاری رہا تو یہ ان کی اچھی اور متوازن شخصیت کی تعمیر و ترقی میں حائل رہے گا۔ اور ان کی کئی صلاحیتوں کو جامد کرتے ہوئے اُنہیں ہمیشہ کے لئے احساسِ کمتری میں مبتلا کر دے گا۔ اور وہ کبھی بھی ان شعبوں میں ترقی نہ کر سکیں گے۔
عربی زبان بولنے اور لکھنے کی تربیت دینے کا سنہری موقع
جیسا کہ میں پہلے تفصیل سے بیان کر چکا ہوں، اس تعلیمی مرحلے پر پہنچنے تک مسلمان بچے قرآنِ کریم کی مبارک زبان کی اچھی تعلیم و تربیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ اور وہ کچھ اور محنت کرکے اسے بولنے اور لکھنے کی مہارت بھی حاصل کر سکتے ہیں ا ور وہ اس بات کا شوق بھی رکھتے ہیں اور اہلیت بھی۔ پھر ان کے پاس مناسب وقت بھی ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اُنہیں عربی زبان پڑھنے، بولنے اور لکھنے کی معیاری تعلیم وتربیت دینے کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ لہٰذا ہماری درسگاہوں اور مساجد کو اس موقع سے استفادہ کرنا چاہیے۔
حل اور علاج
اس کی آسان صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نورانی قاعدہ یا قاعدہ 'یسرناالقرآن' کی تکمیل کے بعد جو ناظرۂ قرآن کورس پڑھایا جاتا ہے اس کے آخری سال یا آخری ششماہی میں بچوں کو ہر سبق کے آخر میںروزانہ صرف پانچ یا دس منٹ ابتدائی عربی زبان کے عربی میڈیم کورس کی عملی مشق کرائی جائے تو وہ آسانی اور خوشی سے ابتدائی عربی زبان بولنے اور لکھنے لگیں گے جس سے ان کے اس نقص کا ازالہ ہوگا اور وہ ابتدائی عربی زبان کے فہم اور استعمال میں مناسب مہارت حاصل کر لیں گے جو آئندہ تعلیمی درجات میں ان کی مزید ترقی اور مہارت کا ذریعہ بنے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اسی طرح یہی عملی کورس اور مشق شعبہ تحفیظ القرآن الکریم کے بچوں کو بھی مکمل کرایا جائے۔ ننھے بچوں کیلئے عربی میڈیم کورس کی تفصیل آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
خریدارانِ محدث توجہ فرمائیں
خریدارانِ محدث کو مدتِ خریداری ختم ہونے کی اِطلاع بذریعہ پوسٹ کارڈ دی جاتی تھی اَب قارئین کی آسانی کے لیے محدث کے لفافہ پر چسپاں ایڈریس میں بھی زرِ سالانہ ختم ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے۔لہٰذا جن حضرات کومدتِ خریداری ختم ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔از راہِ کرم اوّلین فرصت میں زرِ تعاون بھیج کر تجدید کروائیں۔ شکریہ
منجانب:محمد اصغر، مینیجرماہنامہ 'محدث'،لاہور،فون:0305-4600861
__________________
اعلان
ماہنامہ 'محدث' میں مضامین و مراسلات بھیجنے والے حضرات آئندہ اس فون یا اِی میل پر
رابطہ کر سکتے ہیں۔ کامران طاہر(معاون مدیر)فون:0302-4424736
ای میل:mkamrantahir@gmail.com
*مُتخصّص في تعلیم اللغة العربية لغیر العرب و پرنسپل معہد اللغۃ العربیۃ، اسلام آباد
**اکتوبر2007 ،ص75 ، جولائی 2008 ، ص 11