سیرتِ محمد رسول اللہﷺ؛ ایک عالمگیر و دائمی نمونۂ عمل


سید سلیمان ندوی نے 1884ء میں پٹنہ کے ایک سادات خاندان میں آنکھ کھولی، آپ دار العلوم ندوۃ العلما کے تعلیم یافتہ، سیرت نگار، صحافی، مصنف اور مقرر تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور آزادی ہند کی تحریکوں میں حصہ لیا۔آپ ترکی کے مسئلہ پر 1920ء میں یورپ جانے والے تین رکنی وفدِ خلافت میں شامل تھے۔ علامہ اقبال اور سر راس مسعود کے ہمراہ افغانستان کی دعوت پر وہاں گئے اور تعلیمی تجاویز دیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ آپ ریاست بھوپال کے چیف جسٹس بھی رہے۔

حضراتِ گرامی! وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک آئیڈیل سیرت کا کام دے، اس میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

تاریخیّت کاملیّت جامعیّت اور عملیّت

a تاریخیّت

اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو حالاتِ زندگی پیش کیے جائیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند ہوں، ان کی حیثیت قصوں اور کہانیوں کی نہ ہو۔ خیالی اور مشتبہ سیرتیں خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں پیش کی جائیں، طبیعتیں ان سے دیرپا اور گہرا اثر نہیں لیتیں اوران پر کوئی انسان اپنی عملی زندگی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔

سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہندوؤںکو ہے مگر ان میںسے کسی کو 'تاریخی' ہونے کی عزت حاصل نہیں ہے۔ رامائن کی زندگی کے کن واقعات کو تاریخ کہہ سکتے ہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعات کس زمانہ کے ہیں۔

قدیم ایرانی مجوسی مذہب کا بانی زرتشت جوآج بھی لاکھوں لوگوں کا مرکز ِعقیدت ہے، اس کے حالات ِ زندگی محققین کی متضاد آرا سے اتنے مشکوک ہیں کہ کوئی انسان ان کے بھروسے پر اپنی زندگی کی بنیاد قائم نہیںکر سکتا۔

قدیم ایشیا کے سب سے وسیع مذہب بدھ کا ہندوستان میں برہمنوں اور وسطی ایشیا میں اسلام نے خاتمہ کیا تھا۔ایشیاے اقصیٰ میں بدھ مت کی حکومت ، تہذہب اور مذہب قائم ہیں۔ لیکن یہ چیزیں بدھ کی سیرت کو تاریخ میں محفوظ نہ رکھ سکیں۔ چین کے کنفیوشس کی ہمیں بدھ سے بھی کم واقفیت ہے، حالانکہ ان کے پیروکارکروڑوں میں ہیں۔

سامی قوم کے سینکڑوں پیغمبروں کے ناموں کے سوا تاریخ کچھ نہیں بتاتی۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت اسمٰعیل، حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت زکریااور حضرت یحییٰ علیہم السلام کی سیرتوں کے چند حصوں کے علاوہ ان کی زندگیوں کے ضروری اجزا تاریخ سے گم ہیں۔ قرآن کے سوا، یہودیوں کے اَسفار میں ان پیغمبروں کے درج حالات کی نسبت محققین کو شکوک ہیں۔ ان شکوک سے صرف ِ نظر کرنے کے باوجود ان بزرگوں کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی کی پیروی کا سامان نہیں کر سکتے۔

b کاملیّت

عزیزو!کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونۂ عمل بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام حصے روزِ روشن کی طرح دنیا کے سامنے ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی معاشرہ کے لیے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے۔

آج بدھ کے پیروکار دنیا کی چوتھائی آبادی پر قابض ہیں، مگر تاریخی حیثیت سے بدھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اسے تاریخ کا درجہ دے کر بدھ کی زندگی کے ضروری اجزا تلاش کریں تو ہمیں ناکامی ہوگی۔ یہی حال زرتشت کا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (گیارہواں ایڈیشن) کے آرٹیکل زراسٹر کے مضمون نگار نے لکھا ہے:

''اس کی جائے پیدائش کی تعیین سے متعلق شہادتیں متضاد ہیں... زرتشت کے زمانے سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔''

انبیاے سابقین میں سب سے مشہور زندگی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ موجودہ تورات کے مستند یا غیر مستند ہونے سے قطع نظر، تورات کی پانچوں کتابوں سے ہمیں ان کی زندگی کے کس قدر اجزا ملتے ہیں؟ تورات کی پانچویں کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف نہیںہے۔ دنیاآپ کے اس سوانح نگار سے واقف نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ۱۲۰ سال عمر پائی۔ اس طویل سوانح کے ضروری اجزا ہمارے پاس کیا ہیں: پیدائش، جوانی میں ہجرت، شادی اور نبوت پھر چند لڑائیوں کے بعد۱۲۰ برس کی عمر میں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوسائٹی کے عملی نمونہ کے لیے جن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخلاق و عادات اور طریقِ زندگی ہیں، اور یہی اجزا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری سے گم ہیں۔

اسلام کے سب سے قریب العہد پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔مگر اسی پیغمبرکے حالاتِ ِزندگی تمام دوسرے مشہوربانیانِ مذاہب کے سوانح سے سب سے کم معلوم ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ کی زندگی ۳۳ برس تھی۔ موجودہ انجیلوں کی روایتیں اوّلاً تو نامعتبر ہیں اور جو کچھ ہیں، وہ آپ کے آخری تین سالوں کی زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ پیدا ہوئے، پیدائش کے بعد مصر لائے گئے، لڑکپن میں ایک دو معجزے دکھائے، اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس برس کی عمر میں بپتسمہ دیتے اور پہاڑوں اور دریائوں کے کنارے ماہی گیروں کو وعظ کہتے اوریہودیوں سے مناظرے کرتے نظر آتے ہیں، یہودی اُنہیں پکڑوا دیتے ہیں اور رومی عدالت اُنہیں سولی دے دیتی ہے۔ تیسرے دن ان کی قبر ان کی لاش سے خالی نظر آتی ہے۔ تیس برس اور کم از کم پچیس برس کا زمانہ کہاں اور کیسے گزرا؟ دنیا اس سے ناواقف ہے اور رہے گی...!

c جامعیّت

میرے دوستو! کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے تیسری ضروری شرط جامعیت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقات ِ انسانی یاایک فرد ِ انسان کو اپنی ہدایت اور ادائیگی فرائض کے لیے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس 'آئیڈیل زندگی' میں موجود ہوں۔اللہ اور بندے اور بندوں کے مابین فرائض اور واجبات کو تسلیم اور اُنہیں ادا کرنے کا نام 'مذہب' ہے۔ہر مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں۔

جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے ،جیسے بدھ مت اور جین مت کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبت ِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات ِ قلبی، اطاعت و عبادت اوراللہ کی صفات ِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس میں کہاں تک تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کاآئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک مسئلہ کے علاوہ کہ خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟

اب حقوق العباد کو لیجئے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت وسلطنت کے بارِ گراںکو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برماکی سلطنتیں، صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان جنگل رہ جاتے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغمبرانہ طرز ِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں ان اَبواب سے خالی ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اُن کی سیرت اِن رشتہ داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔

d عملیّت

'آئیڈیل لائف' کا آخری معیارعملیت ہے۔یعنی بانی ٔ مذہب جو تعلیم دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں۔

عزیزو!جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدی 1کے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں پائی جانی چاہئیں:

تاریخیّت، جامعیّت، کاملیّت اور عملیّت

میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اِن خصوصیات سے خالی تھیں، بلکہ اُن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں، وہ اِن خصوصیات سے خالی ہیں۔ ایسا ہونا مصلحت ِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف حضرت محمد1 تمام اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی سیرت کوہر حیثیت سے مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔یہی 'ختم نبوت' کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔

آئیے! اب اِن چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام حضرت محمد 1کی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں:

a سیرتِ محمدی کی تاریخیت

سب سے پہلی چیز 'تاریخیت' ہے۔ مسلمانوں نے اپنے پیغمبراور ہر اس چیز اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپ1 کی ذات ِ مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے اس پر دنیا حیرت زدہ ہے۔آپ 1 کے اقوال، افعال اور متعلقاتِ زندگی پر مشتمل سرمایۂ روایت ضبط ِتحریر ہو چکا تو اسے روایت کرنے والے صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے راویوں کے نام، حالات اور اخلاق و عادات کو بھی لکھا گیا۔جن کی تعداد جرمن ڈاکٹر اسپرنگر کے نزدیک پانچ لاکھ ہے۔

حیات ِ نبوی 1کے آخری سال حجۃ الوداع میں حاضر صحابہ کرامؓ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جن میںسے گیارہ ہزار کے نام و اَحوال آج تحریری شکل میں محفوظ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت 1کے اقوال و افعال اور واقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا ہے۔ ہزاروں صحابہؓ نے جو کچھ دیکھا اور جانا، وہ سب دوسروں کو بتایا۔ صحابہ کرامؓ کے بعد فوراً ہی دوسری نسل اِن معلومات کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔

پیغمبر ِاسلام 1نے اپنی احادیث دوسروں تک پہنچانے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ ''جو کوئی میرے متعلق قصداً جھوٹ منسوب کرے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔''اس اعلان کا اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہؓ روایت ِحدیث کرتے وقت کانپتے تھے۔

عربوں کا حافظہ تیز تھا۔یہ فطری قاعدہ ہے کہ جس قوت سے جتنا کام لیا جائے، اتنا ہی وہ ترقی پاتا ہے۔ صحابہؓ اور تابعین نے قوت ِ حفظ کو معراجِ کمال تک پہنچایا۔ایک ایک محدث کو کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ احادیث یادتھیں۔

ابتدا میں صحابہؓ نے احادیث کولکھنابوجوہ مناسب نہ سمجھا، مثلاً:

a آغاز میں رسول اللہ 1 نے قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ قرآن اور غیر قرآن آپس میں مل نہ جائیں۔ ازاں بعد قرآن مکمل محفوظ ہونے پر احادیث لکھنے کی اجازت مل گئی۔

b صحابہ کرام کواس بات کا اندیشہ تھا کہ تحریری مجموعہ پاس ہونے سے لوگ حفظ کرنے سے جی چرانے لگیں گے۔

c عربوں میں ابھی تک کوئی واقعہ لکھ کر محفوظ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کوئی چیز تحریر کر بھی لیتے تھے تو اسے چھپائے رکھتے تھے۔

حضرات! عہد ِ نبوی ہی میں احادیث کا تحریری سرمایہ جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ فتح مکہ پر رسول اللہ 1 کا خطبہ لکھا گیا۔آپ نے مختلف حکمرانوں کو تحریری خطوط روانہ کیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے خود آپ سے سن کر احادیث لکھی تھیں ۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت ابوبکر بن عمرو بن حزمؓ اور متعدد اشخاص کے پاس زکوٰۃ کے احکام لکھے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ کے پاس ایک صحیفہ تھا۔رسول اللہ1نے عمرو بن حزمؓ جو یمن کے گورنر تھے، اُنہیں میراث، صدقات اور دِیت سے متعلق ہدایات لکھ کر دیں۔ حضرت وائل بن حجر ؓ اپنے وطن واپس ہوئے تو آپ1 نے اُنہیں ایک تحریر لکھوا دی جس میں نماز، روزہ، سود، شراب اور دیگر احکام تھے۔ غالباً ملکِ یمن سے حضرت معاذبن جبل ؓنے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری جواب دیا کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر حضرت ضحاک ؓ نے بتایا :رسول اللہ 1 نے ہمیں لکھوایا کہ شوہر کی دِیت میں بیوی کا حصہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایات کا ایک تحریری مجموعہ اہل طائف کے پاس تھا۔ حضرت جابر ؓ سے روایتوں کا ایک مجموعہ وہب نے اور دوسرا سلیمان بن قیس نے تیار کیا تھا۔ حضرت سمرۃ بن جندبؓ سے اُن کے بیٹے ایک نسخہ روایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ حافظِ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ تھے۔ حضرت انسؓ دوسرے صحابی ہیں جن سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ رسول اللہ 1 کے غلام ابورافع ؓسے آپ کے کارنامے لکھا کرتے تھے۔آپ کے خادم حضرت ا بن مسعودؓ یہ کہتے تھے کہ لوگ اُن سے سنتے اور پھر جا کر اسے کر لکھ لیتے ہیں۔ ان کے بیٹے عبدالرحمن ایک کتاب لائے اور قسم کھا کر کہا کہ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے خود لکھی ہے۔

دوستو! اگر تحریر ہی قابلِ وثوق ہے تو عہدِ نبوی میں صحابہ ؓ نے احادیث لکھیں ۔ صحابہؓ ہی کی زندگی میں زہریؒ، ہشامؒ، قیسؒ، عطاؒ، سعید بن جُبَیرؒ اور سینکڑوں تابعین نے یہ تمام روایات تحقیق کرکے ہمیں فراہم کر دیں۔ صرف امام زہریؒ ہی کا تحریری مواد اتنا تھا کہ کتابیں جانوروں پر لاد کر لائی گئیں۔ بطورِ مثال امام زہریؒ نے اتنی محنت سے احادیث ِ نبوی جمع کیں کہ وہ مدینہ کے ایک ایک شخص حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جا کر رسول اللہ 1 کے اقوال و حالات پوچھتے اور اُنہیں قلمبند کرتے تھے۔

یہ غلط ہے کہ تدوین و تحریرِ حدیث کا کام ایک سو برس بعد تابعین نے شروع کیا۔ تابعین وہ شخصیات ہیں جنہیں رسول اللہ 1 سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی مگروہ صحابہ کرام ؓ سے مستفید ہوئے، خواہ وہ آنحضرت 1 کے زمانہ میں ہوں یا آپ کی رحلت (۱۱ھ) کے بعد پیدا ہوئے، وہ سب تابعین ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں تابعین کا عہدکم از کم ۱۱ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ لہٰذا جو کام ۱۱ھ میں شروع ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز تابعین نے کیا۔

مسلمانوں کے فن سیرتِ نبوی کا پہلا اُصول یہ تھا کہ واقعہ اس شخص کی زبان سے بیان ہو جو خود شریکِ واقعہ تھا، ورنہ شریکِ واقعہ تک تمام درمیانی راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ وہ کون تھے، ان کے مشاغل اور چال چلن کیسی تھی، ثقہ تھے یا غیر ثقہ، نکتہ رس تھے یا سطحی الذہن اور عالم تھے یا جاہل؟ ہزاروں محدّثین نے اپنی عمریں اس کام میں کھپا دیں، ہزاروں میلوں کا سفر کیا اور لاکھوں لوگوں سے ملے۔

پھر عقلی اعتبارسے روایات پرکھنے کے اُصول الگ ترتیب دئیے۔راویوں کی چھان بین میں اتنی دیانتداری دکھائی کہ وہ واقعات اسلام کا فخر ہیں۔ راویوں میں بڑے بڑے حکمران اور اُمرا بھی تھے مگر محدّثین نے بلاخوف سب کو وہی درجہ دیا جو اُنہیں مل سکتا تھا۔ وکیع ؒ کے والد سرکاری خزانچی تھے مگر جب وکیع ؒان سے روایت کرتے تو اُن کی تائید میں ایک اور راوی کو ضرور شامل کرلیتے، یعنی تنہا اپنے باپ کی روایت تسلیم نہ کرتے۔ معاذؒ بن معاذکو دس ہزار دینار پیش کیے گئے کہ وہ ایک شخص کے متعلق خاموش رہیں اور اسے معتبر یا غیر معتبر کچھ نہ کہیں۔ معاذؒ نے اَشرفیوں کا توڑا حقارت سے ٹھکرا دیا۔

محدّثین نے جھوٹی اور ضعیف روایتیں بھی محفوظ کیں تاکہ مخالفین یہ کہہ نہ سکیں کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریاں چھپانے کے لیے کئی روایتیں غائب کر دیں۔ محدّثین نے اپنے نبی 1کی طرف منسوب صحیح و غلط سارا مواد لا کر سامنے رکھ دیا اور اُصول مقرر کرکے ان دونوں کے درمیان فرق بتا دیا۔ یہ تمام روایات آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں اور انہی اصولوں کے تحت ہر واقعہ پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔

عزیز جوانو! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وواقعات پرمواد کے مآخذ کیا تھے۔سیرتِ پاک 1کا سب سے اہم، سب سے مستند اور صحیح ترین ماخذ خود قرآن ہے جس کی صحت و معتبری میں دشمن بھی شک نہ کر سکے۔قبل از نبوت کی زندگی، یتیمی، غربت، تلاشِ حق، نبوت، وحی، اعلان و تبلیغ، معراج، مخالفین کی دشمنی، ہجرت، لڑائیاں اور اخلاق سب قرآن میں موجود ہیں۔

دوسرا ماخذ ایک لاکھ کے قریب احادیث ہیں۔ صحاحِ ستہ ہیں جن کا ایک ایک واقعہ تولا اور پرکھا ہوا ہے۔مسانید ہیں جن میں ضخیم ترین امام احمد بن حنبلؒ (م ۲۴۴ھ) کی المُسْنَد ہے۔مسانید میں ہر صحابی کی روایتیں الگ الگ ہیں۔

تیسرا ماخذ مغازی ہیں جو زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور لڑائیوں سے متعلق ہیں۔ مثلاً مغازی عروہ بن زبیرؒ (م ۹۴ھ)، مغازی زہریؒ (م۱۲۴ھ)، مغازی ابن اسحقؒ (م۱۵۰ھ) اور مغازی واقدیؒ(م ۲۰۷ھ) وغیرہ۔

سیرت ِ محمدی کا چوتھا ماخذ کتب ِتاریخ ہیں۔ ان میں طبقات ابن سعدؒ(م۲۰۷ ھ)، تاریخ صغیر و کبیر امام بخاریؒ (م ۲۵۶ھ) اور تاریخ طبریؒ(م ۳۱۰ھ) وغیرہ ہیں۔ رسول اللہ1کے معجزات اور روحانی کارناموں پر مشتمل کتبِ دلائل النبوت ہیں،مثلاً ابن قتیبہؒ (م ۲۷۶ھ)، بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) اور ابونعیم اصفہانیؒ(م۴۳۰ھ) وغیرہ کی کتب۔پھر آپ کے اخلاق اور معمولاتِ زندگی پر لکھی گئی کتب ہیں،مثلاً امام ترمذیؒ (م۲۷۹ھ)، ابوالعباس مستغفریؒ (م ۴۳۲ھ) اور قاضی عیاضؒ (م۵۴۴ھ) کی کتابیں۔پھر مکہ اور مدینہ پر کتابیںہیں جن میں مقامی حالات اور مقامات کے نام و نشان ہیں جنہیں آپ 1 سے کوئی تعلق ہے، مثال کے طور پر ازرقی (م ۲۲۳ھ) کی اخبارِ مکہ اور ابن زبالہؒ کی اخبارِ مدینہ وغیرہ۔

عہدِ رسالت سے آج تک ہر زمانہ، ہر ملک اور ہر زبان میں آپ 1 پر لاتعداد کتب لکھی گئیں۔ ہر مصنف نے سینکڑوںاور ہزاروں اشخاص سے سن اور پڑھ کر سیرت ِ محمدی کو دوسروں تک پہنچایا۔حدیث کی پہلی کتاب المَوطأ کو اس کے مصنف امام مالکؒ (م ۱۷۹ھ) سے ۶۰۰ لوگوں نے سنا جن میں حکمران، فقہا، علما، اُدبا اور صوفیا سب ہی تھے۔ امام بخاری ؒ (م ۲۵۶ھ) کی تصنیف الجامع الصحیح کو انکے صرف ایک شاگرد فربری ؒسے ساٹھ ہزار لوگوں نے سنا۔

بتاؤ! کس شارع یا بانیٔ دین کی سوانح عمری اس احتیاط اور اہتمام کے ساتھ مرتب ہوئی؟ یہ تاریخیّت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کس کے حصہ میں آئی؟

مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مارگیولیوتھ بھی اپنی کتاب 'محمد'(۱۹۰۵ء) میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہواکہ

''محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوانح نگاروں کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، لیکن اس میں جگہ پالینا قابلِ عزت ہے۔''

جان ڈیون پورٹ ۱۸۷۰ء میں اپنی کتاب 'اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن' ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں:

''بلا شبہ تمام قانون سازوں اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے حالات ِ زندگی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں۔''

b سیرتِ محمدی کی کاملیّت

حضرات! کوئی انسانی زندگی خواہ کتنی ہی تاریخی ہو، وہ جب تک کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کی کاملیّت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام اجزا ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبر اسلام 1 کی ولادتِ مبارک سے لےکر رحلت تک زندگی کا مختصر لمحہ بھی تاریخ کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے۔

بطورِ مثال امام ترمذیؒ کی 'شمائلِ ترمذی'، قاضی عیاض ؒ کی 'الشفاء' اور حافظ ابن قیمؒ کی 'زادالمعاد' کے ابواب سے اندازہ لگالیں کہ آپ 1 کے جزئی واقعات بھی کس طرح قلم بند کیے گئے۔ مثلاً آپ کی شکل و صورت،اسماے گرامی، عمر،بال، کنگھی،خضاب، سرمہ، لباس،عمامہ، پائجامہ، موزے، پاپوش، انگوٹھی، خاموشی، گفتگو، تبسم، مزاح، خوشبو، تلوار، زرہ، خود، رفتار، نشست، تکیہ و بستر، وضو، پیالہ، کیا اور کیسے کھاتے پیتے، رات کو باتیں کرنے، سونے اور عبادت کرنے کے طریقے، گریہ، اخلاق، حجامت، خواب،خطبہ، سواری،سفر، جہاد، معمولاتِ عیادت و ملاقات، مجالس، اپنے اور دوسروں کے گھروں میں جانے کا انداز اور طریقہ، یادِ ِ الٰہی، اللہ پر توکل ، صبر و شکر، استقامتِ عمل، حسن معاملہ، عدل و انصاف، سخاوت، ایثار، مہمان نوازی، تحفے قبول کرنا، احسان نہ قبول کرنا، عدمِ تشدد،مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک،اہل کتاب، منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ، اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت ،حوائجِ ضروری کے آداب اور جانوروںسے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔

اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔

میرے دوستو! بڑے سے بڑا انسان جس کی ایک ہی بیوی ہو، یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ بیوی کو یہ اجازت دے کہ تم میری ہر بات اور ہر حالت سب کو کہہ دو۔ رسول اللہ1 کی نو بیویوں کو عام اجازت تھی کہ خلوت اور رات کی تاریکی میں مجھ میں جو دیکھو، وہ جلوت اور دن کی روشنی میں سب کو برملا بیان کر دو۔مسجدِنبوی کے چبوترہ پر رہنے والے صحابہؓ دن رات آپ کے حالات دیکھنے اور اُنہیں دوسروں کو بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ دن میں مدینہ کی تمام آبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اَدا کا مشاہدہ کرتی۔ جنگوںمیں ہزارہا صحابہ ؓ نے آپ کے شب و روز دیکھے۔ حجۃ الوداع میں تقریباً ایک لاکھ صحابہؓ نے آپ کی زیارت کی۔ ہر شخص کو حکم تھا کہ آپ کی ہر حالت و کیفیت منظر عام پر لائی جائے۔اس اخلاقی اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟

رسول اللہ 1ہمیشہ اپنے پیروکاروں ہی کے درمیان نہیں رہے۔ آپ نے نبوت سے پہلے چالیس اور نبوت کے بعد تیرہ برس قریشِ مکہ میںگزارے جنہوں نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔ وہ آپ کے دعواے نبوت پر برہم ہوئے، گالیاں دیں، نجاستیں ڈالیں، پتھر پھینکے، قتل کی سازشیں کیں، ساحر، شاعر اور مجنون کہا، مگر کوئی آپ کے اخلاق و اعمال کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہہ سکا۔

رسول اللہ 1پر ابتدا میں ایمان لانے والے کوئی مچھیرے یا غلام قوم کے نہیں بلکہ ایک ایسی آزاد قوم کے لوگ تھے جو اپنی عقل و دانش میں ممتازتھی۔ جو کبھی کسی کے محکوم نہیں ہوئے تھے۔ان کی تجارت دنیا میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھلا ایسے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حال چھپا رہ سکتا تھا؟

سیرت ِ محمدی کے آئینہ میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و روح، ظاہر و باطن، قول و عمل اور آداب و رسوم کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی اور انسانی زندگی اس کاملیّت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے ،اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل نمونہ ہے!

c سیرتِ محمدی  کی جامعیّت

حضرات! محبت ِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہر مذہب یہی بتاتا ہے کہ اس کے بانی کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے۔ اسلام نے ایک بہتر تدبیر بتائی ۔ اس نے اپنے پیغمبر کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اللہ کی محبت اس عملی نمونہ کی پیروی سے مشروط کر دی۔

کسی مذہب کے حلقہ ٔ اطاعت میںشامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح ، مفتوح، جج ، مفتی، غریب ، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر ، خریدار، امام، مقتدی، اُستاد ، شاگرد، جوان ، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیںجنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ اسلام اُنہیں اتباعِ سنّت ِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام 1 کی سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں ۔

انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا ، بیٹھنا، کھانا ، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا ، رونا، پہننا ، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا ، دینا، سیکھنا ، سکھانا، مرنا ، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت ، کاروبار ، راضی ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی،غصہ، رحم،سخت گیری، نرم دلی،انتقام،معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار،عزم وا ستقلال، قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعال ِ انسانی اور احساسات ِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرور ت ہے۔ ایک ایسا عملی نمونہ جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صرف شجاعانہ قوتیںیا حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل حالت میں موجود ہوں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت سلیمان، حضرت داؤد، حضرت ایوب، حضرت یونس حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیہم السلام سب کی زندگیاں سمٹ کر حضرت محمد 1 کی سیرت میں سما گئی ہیں۔

ï دوستو!دنیا میں دو طرح کی تعلیم گاہیں ہیں: ایک وہ جہاں صرف ایک فن جیسے میڈیکل، انجینئرنگ، آرٹ، تجارت، زراعت، قانون یا عسکری تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری یونیورسٹیاں ہیں جو ہر قسم کی تعلیم کا انتظام کرتی ہیں ۔ صرف ایک ہی فن اور علم جاننے والوں سے انسانی سوسائٹی مکمل نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ان سب کے مجموعہ سے کمال کو پہنچتی ہے۔

آؤ! اب اس معیار سے مختلف انبیاے کرام کی سیرتوں پر غور کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی تعلیم گاہ میں صرف فوج کے افسرو سپاہی، قاضی اور کچھ مذہبی عہدیدار ملتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے مکتب میں چند زاہد فقرا فلسطین کی گلیوں میں ملیں گے۔

لیکن محمد رسول اللہ 1 کے ہاںاصمحہ حبشہ کا نجاشی بادشاہ، عامر بن شہرؓ ہمدان کا رئیس، بلالؓ جیسے غلام اور سمیّہؓ جیسی لونڈیاں سب ہیں۔ ملکوں کے فرمانروا ، دنیا کے جہانبان ، عقلاے روزگار اور اسرارِ فطرت کے محرم اس درسگاہ سے تعلیم پا کر نکلے ہیں۔ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ ہیں جن کی مشرق سے مغرب تک فرمانروائی اور عدل و انصاف کے فیصلے ایرانی دستور اور رومی قانون کو بے اثر کر دیتے ہیں۔ خالد بن ولیدؓ، سعدبن ابی وقاصؓ، ابوعبیدہ بن جراح ؓ اور عمرو بن العاصؓ دنیا کے فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں۔ عمرؓ، علیؓ، ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ، عبداللہؓ بن عمرو بن العاص،عائشہؓ، اُمّ سلمہؓ، اُبی بن کعبؓ، معاذ بن جبلؓ اور زید بن ثابتؓوغیرہ جیسے فقہا نے دنیاکے قانون سازوں میں بلند درجہ پایا۔

ستر صحابہؓ پر مشتمل اہل صفہ جن کے پاس مسجدِنبوی کے چبوترہ کے سوا کوئی اورجگہ نہیں تھی، دن کو مزدوری کرتے اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ابوذر غفاریؓ نے دربار ِ رسالت سے 'مسیحِ اسلام' کا خطاب پایا۔ سلمان فارسیؓ زہد و تقویٰ کی تصویر ہیں۔ بہادر کارپردازوں اور مدبّرین میں طلحہؓ، زبیرؓ، مغیرہؓ، مقدادؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ ہیں۔ سمیّہؓ، یاسرؓ اور خبیبؓ جیسے بے گناہ مقتول ہیں جنہوں نے جانیں قربان کر دیں مگر حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بلالؓ، خبابؓ، عمارؓ، زبیرؓ، سعیدؓ بن زید جیسے بھی ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے مظالم برداشت کیے۔

میرے عزیزو! درسگاہیں اپنے شاگردوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعلیم انسانی کی ان درسگاہوں کا جن کے اساتذہ انبیا کرام ہیں، جائزہ لیں تو کہیں دس بیس، کہیں ساٹھ ستر، کہیں سو دوسو، کہیں ہزار دوہزار اور کہیں پندرہ بیس ہزار طالب علم آپ کو ملیں گے۔ جب مدرسہ نبوت کی آخری تعلیم گاہ کو دیکھیں گے تو ایک لاکھ سے زیادہ طلبا بیک وقت نظر آئیں گے۔ دوسری نبوت گاہوں کے طلبہ کہاں کے تھے، کون تھے،اُن کے اخلاق وعادات و دیگر سوانح زندگی کیا تھے؟ اس کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔ لیکن محمد رسول اللہ 1 کی درسگاہ کے ہر طالب علم کی ہر چیز معلوم ہے۔ اس درسگاہ کے بانی کی دعوت جامع اور عالمگیر تھی کہ نسلِ آدم کا ہر فرزند اور ارضِ خاکی کا ہر باشندہ اس میں داخل ہوا یا داخلہ کے لیے اسے آواز دی گئی۔

تورات کے انبیا عراق یا شام یا مصر سے آگے نہیں بڑھے۔ عربوں کے قدیم انبیا بھی اپنی قوموں سے باہر نہیں گئے۔ حضرت عیسیٰ ؑکے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہیں تھا۔ ہندوستان کے داعی آریہ ورت سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اگرچہ بدھ کے پیروؤں نے بدھ مت دوسری قوموں تک پہنچایا مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے پیروؤں کا فعل تھا۔

اب ذرا محمد رسول اللہ 1 کی درسگاہ دیکھیں: ابوبکرؓو عمرؓ ، عثمانؓ و علیؓ مکہ کے، ابوذرؓ اور انسؓ تہامہ کے، ابوہریرہؓ اور ابوموسیٰ ؓاور معاذ ؓ یمن کے، منذرؓ بحرین کے، عبیدؓ و جعفرؓ عمان کے، فردہؓ شام کے، بلالؓ حبشہ کے، صہیبؓ روم کے اورسلمانؓ ایران کے رہنے والے ہیں۔ پیغمبر اسلام ۶ھ ؁ میں تمام قوموں کے سلاطین اور حکمرانوں کے نام دعوت ِ اسلام کے خطوط بھیجتے ہیں۔ درسگاہ ِ محمدی میں یہ جامعیّت نمایاں ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے رنگ، وطن، نسل اور زبان شرط نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے داخلہ کھلاہے۔

دوستو! آپ نے درسگاہ ِ محمدی کی پوری سیر کر لی جس میں آپ نے ہر رنگ اور ہر ذوق کے طالب علم دیکھے۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا ؟ اس کے سوا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اکرم1کی ذات انسانی کمالات اور صفات ِ حسنہ کا کامل مجموعہ تھی۔ آپ کا وجودِ مبارک ایک ابرِ باراں تھا جو پہاڑ، جنگل، میدان، کھیت، ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھا اور ہر ٹکڑا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہو رہا تھا اورقسم قسم کے درخت اور رنگارنگ پھول اور پتے اُگ رہے تھے۔

d سیرتِ محمدی  کی عملیّت

عزیز جوانو! یہ انبیاے کرام اور بانیانِ مذاہب کی موجودہ سیرتوں کا وہ باب ہے جو تمام تر خالی اور سادہ ہے، لیکن حضرت محمد1 کی سیرت کا یہی باب سب سے بڑا اَور ضخیم ہے۔ سیرتِ محمدی کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ آپ نے بطورِ پیغمبراپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی، اس پر پہلے خود عمل کرکے دکھادیا۔

عام پیروکاروں کو دن میں پانچ وقتوں کی نمازوں کا حکم تھا، مگر آپ 1نے آٹھ وقت نماز پڑھی۔ عام مسلمانوں پرروزو شب میں سترہ رکعتیں فرض ہیں، مگر آپ ہر روز کم و بیش پچاس ساٹھ رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔پنجگانہ نمازیں فرض ہونے کے بعدنمازِ تہجد مسلمانوں کو معاف ہو گئی تھی مگر آپ اسے تمام عمر ہر شب اَدا فرماتے رہے۔مکہ میںکئی دفعہ دشمنوں نے دورانِ نماز آپ پر حملہ کیا۔ دشمنوں کے خلاف معرکوںحتی کہ مرض الموت میں بھی آپ کی نماز ترک نہ ہوئی۔ ساری زندگی میں صرف دو مرتبہ نماز قضا ہوئی۔

آپ1 نے روزہ کا حکم دیا۔ مسلمانوں پر سال میں تیس روزے فرض ہیں، مگر آپ کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ جاتا تھا۔ آپ دو دو تین تین دن بغیر کھائے پیئے متصل روزہ رکھتے تھے۔

آپ نے زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ جو کچھ آیا، سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ فتح خیبر کے بعد سال بھر کا غلّہ ازواجِ مطہرات کو دے دیا جاتا تھا مگر سال ختم ہونے سے پہلے وہ ختم ہو جاتا،اس لیے کہ اس کا بڑا حصہ اہل حاجت کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ بحرین سے خراج کامال آیا۔ فرمایا: مسجد میں ڈال دو۔ صبح نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کریوں کھڑے ہوگئے کہ یہ گویا غبار تھا جو دامن پر پڑ گیا تھا۔ ایک دفعہ نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد خلافِ معمول فوراً تشریف لے گئے او ر پھر باہر آئے۔ پوچھنے پر فرمایا: ''مجھے نماز میں یاد آیا کہ سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آ جائے اور وہ محمد کے گھر پڑا رہ جائے۔''

آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر او رصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ 1رحلت فرماگئے مگرآپ کو دو وقت بھی سیر ہو کرکھانا نصیب نہ ہوا۔ آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔

آپ نے مساوات کی تعلیم دی۔ آپ نے خود مساوات، اخوتِ انسانی، اور جنسِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی کہ ایک غلام کو اپنا فرزندِ متبنٰی بنایا، اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک غلام سے بیاہا اور مطلّقہ عورتوں سے شادی کی۔

آپ نے ایثار کی تعلیم دی توایثار میں بھی اپنا نمونہ پیش کیا۔آپ کے پاس چادر نہیں تھی۔ ایک صحابیہؓ نے چادر لاکر پیش کی۔کسی نے کہا: کتنی اچھی چادرہے۔ آپ نے چادر فوراً اُتار کر اسے دے دی۔

عزیزو! آؤ دشمنوں کو پیار کرنے کی عملی مثال پیغمبر اسلام 1میں آپ کو دکھاؤں۔ مکی حالات چھوڑتا ہوں کہ محکومی، بیکسی اور معذوری، عفوودرگذر اور رحم کے ہم معنی نہیں ہوتے۔ ہجرت کے وقت سو اُونٹ کے لالچ میں محمد 1کاتعاقب کرنے والے سراقہ ؓ کی جان بخشی کر دی۔ کفار کے سرغنہ ابو سفیانؓ ہند کو فتح مکہ کے دن معافی مل گئی۔ سب سے بڑے دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہؓ آئے تو فرمایا: ''اے مہاجر سوار! تمہارا آنا مبارک۔''یہ اسے کہاگیا جس نے آپ 1 پر نجاست ڈلوائی، حالت ِنماز میں آپ پر حملہ کیااور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر قتل کرنا چاہا۔ پیغمبر اسلام کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے قاتل ہبار بن الاسود کو معاف کر دیاگیا۔ زہر بجھی تلوار سے قتل کے لیے آنے والا عمیر بن وہب گرفتار ہونے پر رہا کر دیاجاتا ہے۔ آپ 1نے آپ پر پتھر برسانے والوں ، آپ کادانت شہید اور چہرہ خون آلود کرنے والوں کے لیے دعاکی۔

آپ کو جھٹلانے، گالیاں دینے، راستے میں کانٹے بچھانے اور غریب و بیکس مسلمانوں کو ستانے والے سردارانِ قریش فتحِ مکہ کے دن صحنِ حرم میں سرجھکائے سامنے بیٹھے تھے۔ پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ 1 کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں، لیکن وہ سب معاف کر دیئے گئے۔

میرے دوستو!کیا پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ 1کے سوا،انسانی تاریخ میں ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی اور نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟