یوم الحج کا ورودِ مقدس :ربّ ِقدوس کی یاد اور پکار



حب ِ الٰہی کا سب سے بڑا گھرانہ

ان دنوں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور کچھ ہی دنوں بعد تاریخ عالم کا وہ عظیم الشان روز طلوع ہونے والا ہے جس کے آفتاب کے نیچے کرۂ ارضی کے ہر گوشے کے لاکھوں انسان اپنے مالک کوپکارنے کے لیے جمع ہوں گے اور ریگستانِ عرب کی ایک بے برگ و گیاہ وادی کے اندر خداپرستی و حب الٰہی کا سب سے بڑا گھرانہ آباد ہوگا۔
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ(الحج:۴۱)

''وہ لوگ کہ اگر اُنہیں زمین میں قائم کردیں تو ان کا کام یہ ہوگا کہ صلوٰۃِ الٰہی کو قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکیں۔''

اللہ کی بندگی کاپہلا مقدس گھر

یہ پہلا گھرتھا جو اللہ کی پرستش کے لیے بنایا گیا اور آج بھی دنیا کے تمام بحروبر میں صرف وہی ایک مقدس گوشہ جو اولیاء الشیطان و اصحاب النار کی لعنت سے پاک ہے اور صرف اللہ کے دوستوں اور اس کی محبت میںدُکھ اٹھانے والوں کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔

دور دراز ملکوں سے اجتماع کی وجہ: سمندروں، ہواؤں کو عبور کرکے،پہاڑوں کو طے کرکے، کئی کئی مہینوں کی مسافت چل کر دنیا کی مختلف نسلوں، مختلف رنگتوں، مختلف بولیوں کے بولنے والے اور مختلف گوشوں کے باشندے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ سلافی یا ٹیوٹانیک نسل کی باہمی عدالتوں سے دنیا کے لیے لعنت بنیں، اس لیے نہیں کہ ایک انسانی نسل دوسری نسل کو بھیڑیوں کی طرح پھاڑ دے اور اَژدہوں کی طرح ڈسے۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کی زمین کو اپنے ابلیسی غرور اور شیطانی سیاست کی نمائش گاہ بنائیں۔ اس لیے نہیں کہ تیس تیس من کے گولے پھینکیں اور سمندر کے اندر ایسے جہنمی آلات رکھیں جومنٹوں اور لمحوں میں ہزاروں انسانوں کو نابود کردیں، بلکہ تمام انسانی غرضوں اور مادی خواہشوں سے خالی ہوکر اور ہر طرح کے نفسانی ولولوں اور بہیمی شرارتوں کی زندگی سے ماوراء الوریٰ جاکر، صرف اس ربّ قدوس کو پیار کرنے کے لئے، اس کی راہ میں دُکھ اٹھانے اور مصیبت سہنے کے لیے اور اس کی محبت و رأفت کو پکارنے اور بلانے کے لیے جس نے اپنے ایک قدوس دوست2 کی دعاؤں کو سنا اور قبول کیا، جبکہ نیکی کا گھرانہ آباد کرنے کے لیے اور امن و سلامتی اور حق و عدالت کی بستی بسانے کے لیے اس نے اپنے اللہ کو پکارا تھا کہ
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراہیم:۳۷)

''اے پروردگار! میں نے تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسے بیابان میں جوبالکل بے برگ وگیاہ ہے، اپنی نسل لاکر بسائی ہے تاکہ یہ لوگ تیری عبادت کو قائم کریں، پس تو ایسا کر کہ انسانوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے اور ان کے رزق کا بہتر سامان کردے تاکہ وہ تیرا شکرکریں۔''

مقدس گھرانے کا معنوی تصوّر

کس بستی کے باشندے؟: تم ذرا ان کی اُن عجیب و غریب حالتوں کا تصور کرو، یہ کون لوگ ہیں اور کس پاک بستی کے بسنے والے ہیں؟ کیا یہ اسی زمین کے فرزند ہیں جو خون اور آگ کی لعنتوں سے بھر گئی اور صرف بربادیوں اور ہلاکتوں ہی کے لیے زندہ رہی۔ کیا یہ اسی آبادی سے نکل آئے ہیں جو سبعیت و خونخواری میں درندوں کے بھٹ اور سانپوں کے غاروں سے بھی بدتر ہے اور جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو اس طرح چیرتا پھاڑتا ہے کہ آج تک نہ تو سانپوں نے کبھی اس طرح ڈسا اور نہ جنگلی سوروں نے کبھی اس طرح دانت مارے؟ کیا یہ اسی نسل اور گھرانے کے لوگ ہیں جس نے اللہ کے رشتوں کو یکسر کاٹ ڈالا اور اس طرح اس کی طرف سے منہ موڑ لیا کہ اس کی بستیوں اور آبادیوں میں اللہ کے نام کے لیے ایک آواز اور ایک سانس بھی باقی نہ رہی؟ آہ! اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ یہ قدوسیوں کی سی معصومیت فرشتوں کی سی نورانیت اور سچے انسانوں کی سی محبت ان میں کہاں سے آگئی ہے۔

ماحول کی ہمہ گیر یکسانیت:تمام دنیا نسلی تعصّبات کے شعلوں میں جل رہی ہے، مگر دیکھو یہ دنیا کی تمام نسلیں کس طرح بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ایک مقام پرجمع ہیں اور سب ایک ہی حالت، ایک ہی وضع، ایک ہی لباس، ایک ہی قطع، ایک ہی مقصد اور ایک ہی صدا کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؟ سب اللہ کو پکار رہے ہیں، سب اللہ ہی کے لیے حیران و سرگشتہ ہیں، سب کی عاجزیاں اور درماندگیاں اللہ ہی کے لیے اُبھر آئی ہیں۔ سب کے اندر ایک ہی لگن اور ایک ہی ولولہ ہے۔ سب کے سامنے محبتوں اور چاہتوں کے لیے اور پرستشوں اور بندگیوں کے لیے ایک ہی محبوب و مطلوب ہے۔ جب کہ تمام دنیا کا محورِ عمل، نفس و ابلیس ہے تو یہ سب صرف اللہ کے عشق و محبت میں خانہ ویراں ہوکر اور جنگلوں و دریاؤں کو قطع کرکے دیوانوں اور بے خودوں کی طرح یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف دنیا کے مختلف گوشوں کو چھوڑا بلکہ دنیا کی خواہشوں اورولولوں سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔

دل سوختہ لوگوں کی بستی: اب یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے جس میں صرف عشقِ الٰہی کے زخمیوں اور سوختہ دلوں کی بستی آبادہوئی۔ یہاں نہ نفس کا گزر ہے جو غرورِ بہیمی کا مبدا ہے اور نہ انسانی شرارتوں کو بار مل سکتا ہے جو خون ریزی اور ظلم و سفاکی میں کرۂ ارضی کی سب سے بڑی درندگی ہیں۔

رازونیازِ عبد و معبود:یہاں صرف آنسو ہیں جو حب کی آنکھوں سے بہتے ہیں، صرف آہیں ہیں جو محبت کے شعلوں سے دھوئیں کی طرح اُٹھتی ہیں، صرف دل سے نکلی ہوئی صدائیں ہیں جو پاک دعاؤں اور مقدس نداؤں کی صورت میںزبانوں سے بلند ہورہی ہیں، اور ہزاروں سال پیشتر کے عہد ِ الٰہی اور راز و نیاز عبد و معبود ہی کو تازہ کررہی ہیں:

لبیك لبیك اللھهم لبیك لا شریك لك لبیك

سرِ روحانیاں داری ولے خود را ندیدستی

بخواب خود در آ تا قبلۂ روحانیاں بینی!

''تجھے اللہ والوں کا شوق ہے مگر تو نے اپنی طرف نہیں دیکھا، اپنے خواب کی طرف توجہ کر، تاکہ تجھے اللہ والوں کا قبلہ نظر آئے۔''

روحانی مجمع کی تاریخِ حیات

قدسی دوستوں کی دعا

یہ وہ مجمع ہے جس کی بنیاد دعاؤں نے ڈالی۔ جس نے دعاؤں سے نشوونما پائی، جو صرف دعاؤں ہی کے لیے قائم کیا گیا، جس کی ترکیب بھی اوّل سے لے کر آخر تک دعاؤں ہی کے مناسک سے ہوئی اور جو دعاؤں ہی کی لازوال طاقت سے قائم ہے۔سب سے پہلے دعا وہ تھی جو اس گھر کی بنیادرکھتے ہوئے اللہ کے دو قدوس دوستوں کی زبان پر جاری ہوئی:

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(البقرۃ:۱۲۸*۱۲۹)

''اے پروردگار! ہمیں اپنا اطاعت شعار بنا اور ہماری نسل سے ایک اُمت پیدا کر جو تیری فرمانبردار و مطیع ہو۔ اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتلا دے اور ہماری توبہ قبول کرلے۔ تو تو بہت ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے اور پھر اے پروردگار! ہماری نسل میں ایک اپنا رسول مبعوث کر جو اُس کے آگے تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے اَخلاق کا تزکیہ کردے۔''

قبولیت ِ دُعا

سرِ بیابانِ حجاز کے قدوس لم یزل نے یہ دعا قبول کرلی اور اپنی اس اُمت مسلمہ کو پیدا کیا جو فی الحقیقت وجودِ ابراہیم کے اند رپنہاں تھی: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا(النحل:۱۲۰)

''بیشک حضرات ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے وجود واحد کے اندر ایک پوری قوم اور اللہ پرست اُمت تھے۔''

یہ گھرانہ درحقیقت دنیا کی امامت اور ارضِ الٰہی کی وراثت کے لیے آباد کیا گیا تھا اور اس کا عہد و میثاق روز اوّل ہی بندھ گیا تھا۔

اِطاعت شعاروں کی سرفرازی، ظالموں کی محرومی

پس اس مقدس دعا کی قبولیت نے اُمت ِمسلمہ کو بھی قائم کیا، اور دنیا کے تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کے لیے سلسلۂ ابراہیمی کے آخری رسول کوبھی مبعوث کیا، نیز جو امامت و پیشوائی اور خلافت فی الارض حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو دی گئی تھی، اس کی وراثت ان کی ذریت و نسل ٹھہرائی گئی۔ البتہ بموجب اپنے عہد کے ظالموں کو اس سے محروم کردیا گیا۔ اس نسل کے جو لوگ اپنے نفس و روح کے لیے ظالم ہوئے اور اللہ کے مقدس نوشتوں کی اطاعت سے سرکشی کی، ان سے وہ امامتِ موعودہ بھی چھین لی گئی اور خلافت ِ موہوبہ سے بھی محروم کردیئے گئے کہ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (البقرۃ:۱۲۴)
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ

''پھران کے بعد وہ لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے صلوٰۃِ الٰہی کو ترک کردیا اور اپنی نفسانی خواہشوں کے بندے ہوگئے۔''

اقبال مندی اور تصویر نامرادی

یہ دعاؤں کا وعدہ تھا جس کا ظہور ہماری اقبال مندی و کامرانی کی تاریخ ہے اور اسی طرح یہ دعاؤں ہی کی ایک وعید بھی تھی جس کی سزائیں اور محرومیاں ہماری برگشتگی اور درماندگیوں کا ماتم ہیں۔ وہ ہم ہی تھے، جواِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاکے وارث ٹھہرائے گئے تھے اور ہم ہی ہیں جو آج لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَکی تصویر نامراد ہیں۔

ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (آلِ عمران:۱۸۲)

''یہ سب کچھ ان اعمال کانتیجہ ہے جو خود انہوں نے اختیار کئے، ورنہ اللہ کریم تو اپنے بندوں کے لیے کبھی بھی ظالم نہیں ہوسکتا۔''

اِجتماع لاہوتی کاظہور

پس دعاؤں کا یہ اجتماعِ لاہوتی، اُمتِ مسلمہ کا یہ مجمع مبارک، اور روحانیتِ مقدسۂ ابراہیمیہ کا یہ مظہر عظیم و جلیل، قریب ہے کہ اسی بیابانِ حجاز میں ظہور کرے جہاں ربِّ ابراہیم و محمد (علیہم السلام) نے امامت و خلافت الٰہی کے لیے اوّلین دعا کو سنا اور پھر ہمیشہ دعاؤں کے سننے اور اپنی پکاروں اور نداؤں کے بلند ہونے کے لیے اسے برگزیدہ کردیا۔

تصورِ کوچ (ذو الحجہ کی تین تاریخ)

روحانیت ِعظمیٰ

جس وقت ذی الحجہ کی تیسری تاریخ ہوگی، (تو یہ) بادیہ نوردانِ عشق آبادِ حجاز کے قافلے کوچ کے لیے تیار ہوں گے۔ اس وقت کا تصور کرو کہ وہ کیسا وقتِ عظیم ہوگا، جب کہ لاکھوں انسانوں کے اندر سے اُسوۂ ابراہیم علیہ السلام کی روحانیتِ عظمیٰ اپنے رب کو بے قراری سے پکارے گی اور اس کے مقدس عہد و میثاق کا رشتہ تازہ ہوگا۔لاکھوں سرہوں گے جوبے تابانہ اللہ کے حضور جھکائے جائیں گے، لاکھوں پیشانیاں ہوں گی جو اس کی چوکھٹ پر گرائی جائیں گی۔ لاکھوں دل ہوں گے جو اُس کے نظارۂ جمال کے عشق میں ڈوب جائیں گے اور لاکھوں زبانیں ہوں گی جن سے ان کے حضور میں دعائیں نکلیں گی۔

وقت ِ عظیم کی غنیمت

سو چاہئے کہ اس وقت عظیم و جلیل اور ایام الٰہیہ مخصوصہ کے حصول کو غنیمت سمجھو اور تم خواہ کہیں ہو اور کسی حال میں ہو، لیکن اپنی تمام قوتوں اور تمام جذبوں سے کوشش کرو کہ تمہاری دعائیں بھی اِن دعاؤں کے ساتھ شامل ہوجائیں اور تمہاری بے تابیاں و بے قراریاں بھی ٹھیک اسی وقت اللہ کے حضور رحمت طلب ہوں کہ یہ وقت پھر میسر نہ آئے گا۔

وقت کی اہم ترین ضرورت

اختتام روز ِ ہجر اور عہد ِ وصال کا آغاز

دنیا انقلاب و تجدد کے ایک مہیب عہد سے گزر رہی ہے اور نئے موسم کی علامتوں نے ہر طرف طوفانوں اور بجلیوں کی ایک قیامت کبریٰ بپا کردی ہے۔ ممکن ہے روزِ ہجر ختم ہونے والا اور عہدِ وصال کی ایک نئی رات شروع ہونے والی ہو۔ پس ضروری ہے کہ دن بھر جن لوگوں نے غفلت کی ہے، وہ اب عین شام کے وقت غفلت نہ کریں، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ شام آگئی ہے اور چراغوں کا انتظام کرنا چاہیے۔

مؤمن کا نصب العین

ہاں ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ یکسر دعاؤں میں ڈوب جائے اور ان مقدس ایام کے اندر صدقِ دل سے توبہ کرے اور اپنے ربّ سے اپنا معاملہ درست کرلے۔

یہ بڑا ہی سخت وقت ہے جس کی نوشتۂ الٰہی میں خبر دی گئی تھی۔ وہ وقت ِموعودہ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ آگیا ہے اور زمین اپنے گناہوں کی پاداش میں اُلٹ دی گئی ہے۔ پس توبہ کرو اور اس کے سامنے اپنی سرکشیوں کا سر مجرموںکی طرح ڈال دو اور تڑپ تڑپ کر وہ سب کچھ مانگو جس کو تمہارا دل چاہتا ہے،مگر تمہارے اعمال اس کے سزاوار نہیں ہیں۔

نفس پرستیوں کا کرشمہ

تم اس کے حضور حج کے دن اور عید کی صبح کو جب کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تھی، مسکینوں اور لاچاروں کی طرح گرجاؤ، اپنی سرکشیوں اور نفس پرستیوں کے گئو سالہ کو ذبح کردو:

إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ

''تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔'' (البقرہ:۵۴)

اور گڑگڑا کر دعا مانگو کہ اے اللہ ! زمین کی سب سے بڑی مصیبت، انسانی معصیت کے سب سے بڑے عذاب اور انقلابِ اقوام و ملل کے سب سے زیادہ مہیب موسم کے وقت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی ذرّیت کونہ بھلائیو اور ان کے گناہوں کو معاف کردیجیو۔

عید کے دن کی یاد

دعاے اِنابت

علیٰ الخصوص عید کے دن جب اس کے حضور کھڑے ہو تو اپنے گناہوں کو یاد کرو۔تم میں ایک روح بھی ایسی نہ ہو جو تڑپتی نہ ہو اور ایک آنکھ بھی ایسی نہ ہو جس سے آنسوؤں کے چشمے نہ بہہ رہے ہوں۔ یاد رکھو کہ دل کی آہوں اور آنکھوں کے آنسوؤں سے بڑھ کر اس کی درگاہ میں کوئی شفیع نہیں ہوسکتا۔ پس جس طرح بھی ہوسکے، اپنے اللہ کو راضی کرو اور اسے منالو۔ کیونکہ تم نے اپنی بدعملیوں سے اسے غصہ دلایا اور اس کے پاک حکموں کی پرواہ نہ کی اور تم یوں پکارو کہ اے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ربّ اور اے رسول اُمّیﷺ کے پروردگار!

ہم نے تیرے عہد کی پرواہ نہ کی اور اپنی بداعمالیوں سے تیری مقدس زمین کو ملوث اور گھناؤنا کردیا، لیکن اب ہم اپنی سزاؤں کو پہنچ چکے اور ہم نے بڑے سے بڑا دکھ اُٹھالیا۔ ہم مثل یتیم لڑکوں کے ہوگئے ہیں جن کے والدین کو ان سے جدا کردیا گیا ہو۔ کیونکہ ہمارا اللہ ہم سے راضی نہ رہا اور ہم غمگینی اور رسوائی کے لیے چھوڑ دیئے گئے۔ پر اے حی و قیوم! اب ہم پر رحم کر، ہمارے قصوروں کو معاف کر، اور ہم سے منہ نہ موڑ، گو ہماری خطائیں بے شمار ہیں، لیکن ہم سب تیرے ہی نام لیوا کہلاتے ہیں اور تیری راہ میںدُکھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں:

اگر نہ بہرِ من، از بہرِ خود عزیزم دار

کہ بندۂ خوبی او خوبی خداوند است

''اگر میرے لیے نہیں تو اپنی خاطر ہی مجھے عزیز رکھ، کیونکہ کسی انسان کی کوئی خوبی صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کی قدرت و عنایت سے ہے۔''

تو نہ ہم کو بھول جا: اے ستار و تواب الرحیم! کیا ہمارا غم دائمی ہے؟ کیا ہمارے خزاں کے لیے کبھی بہار نہیں؟ اور کیا ہمارے زخم کے لیے کوئی مرہم نہ ہوگا؟ اے نسل ابراہیمی ؑ کے اُمیدگاہ! تو ہمیشہ کے لیے ہمیں نہ بھول اور ہمیں اپنی طرف لوٹا لے، ہم تجھ سے ہمیشہ بھاگے ہیں مگر اب ہم تیری طرف لوٹ آئیں گے، کیونکہ ہمیں کہیں پناہ نہ ملی۔

اَمن وہدایت کی صداے بازگشت

تو ہمیں نیکی اور صداقت کے لیے چن لے، اور اپنی ہدایت و عدالت کی تبلیغ کا بوجھ پھر ہماری گردنوں پر ڈال! دنیا آج انتہاے ترقی کے بعدبھی امن و عدالت کے لیے ایسی ہی تشنہ ہے، جیسی ظہورصداقت ِکبریٰ کے اوّلین عہدِجہالت میں تھی:

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ(الاعراف:۲۳)

''اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنانقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اورہم پررحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سواکچھ نہیں۔''

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(آل عمران:۲۶)

''اے اللہ! شاہی و جہانداری کے مالک! تو جسے چاہے ملک بخش دے، جس سے چاہے ملک لے لے۔جسے چاہے عزت دے دے، جسے چاہے ذلیل کردے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ہر طرح کی بھلائی کا سررشتہ ہے اور تیری قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔''

رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(الممتحنہ:۴،۵)

''اے ہمارے پروردگار! ہم نے تجھی پربھروسہ کیا، تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور پھر تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ پروردگار! ہمیںکافروں کا تختہ مشق نہ بنانا۔ پروردگار! ہمیں بخش دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔''

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ(البقرۃ:۲۵۰)

''اے پروردگار! ہم پر صبر انڈیل دے اور اپنی راہ میں ثابت قدمی عطا کر اور پھر ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر ہم فتح مند ہوجائیں۔''

فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (85) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

''پروردگار! ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائش کا موجب نہ بنا بلکہ اپنی رحمت سے ایسا کیجئے کہ اس کافر گروہ کے پنجہ سے نجات پاجائیں۔'' (یونس:۸۵،۸۶)

رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ(یونس:۸۸)

''پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا میں زیب و زینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں۔ تو خدایا! کیا یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے یہ لوگوں کو بھٹکائیں۔ خدایا! ان کی دولت زائل کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ اس وقت تک یقین نہ آئے جب تک عذاب دردناک اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔''

رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا(نوح:۲۶)

'پروردگار! منکرینِ حق کا ایک گھر بھی زمین پر بسنے نہ پائے۔''

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ(آل عمران:۸)

''اے پروردگار! ہمیں سیدھے راستے لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ یقیناً تو ہی ہے کہ بخشش میں تجھ سے بڑا کوئی نہیں۔''

رحمت ِ باری کی فراوانی کا دن

تلاش مؤمنِ قانت اور دعوتِ الیٰ اللہ

(یوم الحج کا طلوعِ مقدس)سال بھر میں عالم اسلامی کے لیے یہ ایک ہی موقع تنبیہ افکار، وایقاظ ہمم و تحریک ِقلوب و استقبالِ وجوہ و احیاے ارواح وذہاب الیٰ اللہ کا آتا ہے جو فی الحقیقت دین الٰہی کے تمام آمال و اعمال کا مرکز و محور اور حلقہ بگوشانِ ملت حنیفی کے لیے مبداے تجددو انقلاب ہے۔جبکہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔ جبکہ اس کے حریم وصال کے دروازے کھل جاتے ہیں جبکہ اس کی رحمت و نصرت کے ملائکہ مسوّمین ایک ایک مؤمن قانت اور مسلم مخلص کے دل کو ڈھونڈھتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دیتے ہیں کہ

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:۵۳)

'اے میرے غافل بندو! کہ تم نے عہد ِعبودیت و نیاز کو توڑ کر خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، خواہ تمہاری بداعمالیاں کیسی ہی سخت ہورہی ہوں۔بایں ہمہ اگر اب بھی توبہ و انابت کا سرجھکا دو تو میں تمہارے تمام جرموں کو بخش دوں گا، کیونکہ میں بہت ہی بخشنے والا اور رحم فرما ہوں۔''

باز آ باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ

گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ

ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست

صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

''تو بُرائی کی جس حالت میںبھی ہے، اس سے باز آجا۔ خواہ تو کافر ہے، آتش پرست یا بت پرست ہے، اس سے توبہ کرلے۔ ہماری یہ درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیںہے۔ اگر تونے سو بار بھی توبہ توڑ دی ہے پھر بھی باز آجا اور توبہ کرلے... تو تیری توبہ قبول ہوگی۔''

محرومی از برکات ِ وقت ِ مجیب

اے عزیزانِ غفلت شعار! اے بقیۂ ماتم گزارانِ قافلۂ ملت! تمہاری غفلتوں پر حسرت، تمہاری سرشاریوں پر صد افسوس اور تمہاری عزائم فراموشیوں پر صد ہزار آہ و ماتم، اگر تم اس وقت عظیم و مجیب کی برکتوں سے محروم رہو۔ (اور اگر) تم اپنے دل ہاے مجروح اور ارواحِ مضطر کو خونباری و دجلہ ریزی کے لیے تیار نہ کرو!

جنگ اور صدیوں کی جنگ

تم کو اس جنگ... کی بھی کچھ خبر ہے جو دنیا کی سب سے بڑی ضعیف ہستی اور سب سے بڑی لازوال طاقت کے درمیان صدیوں سے جاری ہے... جو تم میں اور تمہارے خدائے قاہر و قیوم میںبرپا ہے، جس میں آج تک کسی بڑی سے بڑی قوت نے بھی فتح نہ پائی اور جس کی آخری شکست بڑی ہی الیم و معذّب ہے۔

تم اس فاطر السموات والارض کی لایزال ولم یزل طاقت پر ایمان نہیں لاتے... تم کو یاد نہیں آتا، اس شہنشاہِ ارض و سما سے سرکش ہوگئے ہو، جواپنی ایک نگہ ِ مشیّت سے تمام نظام ارضین و سماوات کو اُلٹ دینے پر قادر ہے۔

بخت ِ خفتہ و طالع گم گشتہ

آہ! تمہاری غفلتوں پر آسمان روئے اور زمین ماتم کرے، اگر مرغانِ ہوائی فغاں سنج ہوں اور سمندروں سے مچھلیاں غم کرنے کے لیے اُچھل پڑیں، جب بھی اس کا ماتم ختم نہ ہوگا،کیونکہ تمہارا ماتم تمام دنیا کا ماتم ہے اور چراغ کے بجھنے کا رونا چراغ پر رونا نہیں ہے بلکہ گھر کی تاریکی پر رونا ہے ... تم دوسروں کی بیداری کے افسانے سن کر ترانہ سنج مدح و ثنا ہوتے ہو مگر اپنے بخت ِ خفتہ و طالع گم گشتہ کو نہیں ڈھونڈتے کہ وہ کہاں گم ہے؟

فآه ہ، آه ہ، ثم آہ ه ، علی مافرطتم في جنب اﷲ!

درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست زبخت من خبر آرید تاکجا خفت است؟

''رات کا طویل ہونا اور میرا جاگتے رہنا اس کی کوئی حیثیت نہیں، میری قسمت کی خبر لاؤ کہ وہ کہاں سوگئی ہے؟'' (ماخوذ از کتاب 'حقیقتِ حج' از مولانا ابو الکلام آزاد: ص18تا 32)