فروری 2025ء

  سفر نامہ بیت المقدس

میرے ہاتھ میں اس وقت ایک دیدہ زیب، خوبصورت ٹائٹل کی حامل 216صفحات پر مشتمل وہ کتاب ہے جسے ’’سفر بیت المقدس‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔مؤلف ہیں ہمارے دوست، رفیق میدان دعوت، نامور صحافی، ادیب اور خطیب بے بدل، حافظ عبدالاعلیٰ درانی جنہوں نے ارض مقدس میں سات دن کی سرگزشت کو اپنے رہوار قلم کی جولانیوں سے ایک حسین گلدستے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ مکتبہ طارق اکیڈمی (فیصل آباد) اس علمی ودعوتی کاوش کو ایک گلشن تاباں کا روپ دینے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

مجھے خود بھی سرزمین فلسطین جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن صرف تین دن کے لیے اور پھر میرے مشاہدات شہر القدس، مقام موسیٰ اور بحرمیت کی ایک جھلک تک محدود رہے لیکن حافظ صاحب کا قافلہ حبرون ، بیت اللحم، اریحا اور بحر مردار کے تفصیلی مشاہدے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا۔مؤلف کتاب نے اپنے سفرنامے میں  تاریخ کے جھروکوں کی اوٹ میں یوں تصویر کشی کی ہے کہ ہر مقام زیارت کی تاریخ، وہاں کے باسیوں کی روئیداد حیات اور سیاست کے لبادوں میں چھپے حوادث وواقعات منہ بولتی تصویر نظر آتے ہیں۔آئیے اور حافظ صاحب کے ساتھ اس بابرکت سفر کی چند جھلکیاں نظر نواز کرتے جائیں:

11جولائی 2017ء کی صبح مانچسٹر ائیرپورٹ سے اس سفر کا آغاز ہوا جس کی پہلی منزل اسرائیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے لُدّ کی تنگنائیوں سے گزرتے ہوئے سرزمین بیت المقدس پہنچنا تھا۔

مسجد اقصیٰ کی زیارت سے قبل حافظ صاحب نے شہر القدس کے گیارہ دروازوں، پانچ محلوں اور گردونواح کی شاہراؤں کا ایک نقشہ پیش کردیا ہے اور پھر مسجد اقصیٰ میں قدم رکھتے ہی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے مراحل، شاہ بابل کے ہاتھوں اس کی تباہی ،یہود کی بابل کی اسیری،دوبارہ واپسی، ہیکل ثانی کی تعمیر اور پھر رومی کمانڈر کے ہاتھوں اس کا گرایا جانا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

فتح عمری سے اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے اور پھر بنی اُمیہ کا ذکر ہے کہ جن کی بھرپور کوششوں سے مسجداقصیٰ اور مسجد گنبدصخرہ کی خوبصورت عمارتیں اس قطعہ زمین پر جلوہ گر ہوسکیں۔

مسجد اقصیٰ اپنی قدامت اور اس کے پہلو میں گنبد صخرہ ایک حسین جھومر کی شکل میں اب تک مسلم وغیرمسلم سب کے لیے اپنے دامن میں ایسی کشش رکھتے ہیں کہ لوگ اس قطعہ مقدس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔

حافظ صاحب نے ان دونوں کے دروبار کے مفصل تذکرے کے ساتھ مصلّی مروانی کا بھی بخوبی تعارف کروایا ہے جو اکثر زائرین کی نگاہوں سے مخفی رہتا ہے۔

گنبد صخرہ کے حوالے سے یہاں حضرت عمر﷜کی آمد اور کعب الاحبار سے ان کی بات چیت اور اس سے متعلقہ روایات کی چھان بین کا حق ادا کردیا ہے۔

حافظ صاحب نے مسجد اقصیٰ میں اپنی حاضری کا والہانہ انداز میں ذکر کیا ہے۔ وہ امام مسجد صخرہ شیخ علی العباسی اور امام مسجد اقصیٰ شیخ یوسف الزربائی ، قدس زکوۃ کمیٹی کے رکن شیخ محمد الرحببی سے اپنی ملاقاتوں ، ان کے برادرانہ رکھ رکھاؤ اور زائرین مسجد اقصیٰ کے لیے ان کی نیک خواہشات کا بھی بخوبی تذکرہ کرتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی بیرونی فصیل کی جالیوں سے جھلکتی قبروں میں وہ ہندوستان کے ایک عظیم سپوت، بطل راہِ حریت مولانا محمد علی جوہر کی آخری  جائے استراحت کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور ایسے ہی ان تمام معزز ہستیوں کا بھی جو قبرستانِ ’’ماملا‘‘ کے مکین بن چکے ہیں۔پھر ایک فلسطینی گھرانے سے ملاقات جو شہیدوں کی رسم وفا کا آئینہ دار تھا۔پہلے دن کی مصروفیات کا اختتام حافظ صاحب کی اہلیان فلسطین سے محبت اور چاہت کا عنوان تھا۔اگلے چھ دنوں میں حافظ صاحب کی مصروفیات جن مقامات کا احاطہ کرتی رہیں، ان کی طرف اشارہ کرتا چلا جاتا ہوں لیکن قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان اشارات کی تفصیل سے بہرہ ور ہونے کے لیے اس دلکش سفرنامے کے اوراق خود پلٹیں۔

  •  جبل زیتون سے مراد کیا ہے اور اس کے دامن میں کیا کچھ سمایا ہوا ہے اور اس ضمن میں مسجد سلمان فارسی، مقام رابعہ بصری اور غار سلیمانی کے مشاہدات کا ذکر ہے۔
  •  کنیسۃ القیامہ اور فتح عمری سے لے کر اب تک اس کا محفوظ رہنا، مسلمانوں کی وسعت ظرفی اور رواداری کا ایک کھلا نشان ہے اور اس ضمن میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی داد و دھش، فراخ ظرفی اور انصاف پسندی کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔
  • یروشلم کا تذکرہ ہو اور اسرائیلی بربریت و سفاکی کا تذکرہ نہ ہو، ایساناممکن ہے۔ حافظ صاحب کے صرف سات دن کے قیام کے دوران مسجد اقصیٰ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آجاتا ہے جس میں تین فلسطینی جام شہادت نوش کرلیتے ہیں۔
  • حبرون(الخلیل)کا سفر جس کے دوران والدہ یوسف﷤کی قبر حل حلول میں مقام یونس ﷩کے دیکھنے کا ذکر ہے اور پھر شہر الخلیل، مسجد ابراہیمی کا ذکر جس کے وسط میں ایک دیوار بناکر اسے یہود اور مسلم، دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ قبور انبیاء اور زوجات انبیاء پر دعا  اور پھر مسجد الخلیل میں صلاح الدین ایوبی کے منبر کا ذکر ہے جو ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔
  • حضرت عیسیٰ ﷤ کی جائے ولادت بیت اللحم، مسجد عمر فاروق، بیت اللحم کے چند مقدس غار اور کئی دوسری مساجد کے احوال بتائے گئے ہیں۔
  •  بحر مردار کے راستے میں مقام موسیٰ ﷤ کی زیارت، کیا یہاں واقعی حضرت موسیٰ﷤ کی قبر ہے؟ حافظ صاحب کا تحقیقی قلم اس گتھی کو خوب سلجھا رہا ہے۔ یہ سمندر جو خود قوم لوط کی بستیاں اٹھنے کی بنا پر وجود میں آیا، کیا اس کی زیارت کے لیے آیا جاسکتا ہے؟ اس فقہی مسئلہ پر بھی خامہ فرسائی کا حق ادا کیا گیا ہے۔
  •  بحر مردار سے واپسی کے سفر میں اریحا (Jericho)کے قدیم شہر کے خدوخال کو موضوع سیاحت بنایا گیا ہے۔میں خود اس راستے سے گزرا ہوں لیکن وقت کی کمی کی بنا پر صرف اریحا کے سنگ میل پر نظر ڈالنے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ حافظ صاحب کی تحریر نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ خاص طور پر ارائیں برادری اور اریحا کے تعلق سے، یاسر عرفات کا ایک والہانہ تذکرہ بھی اس مناسبت سے رقم ہوگیا ہے۔
  • یروشلم کی دوسری جانب مکبر ہے جہاں میں ایک ساعت کھڑا رہا ہوں، حافظ صاحب نے مکبر اور تکبیر کے حوالے سے یہاں اپنے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
  •  یروشلم کے محلہ مسعودی اور مسجد عمر کی زیارت، فتح بیت المقدس کے وقت عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا تھا اس کے تناظر میں تاریخ کا حوالہ اور پھر صلاح الدین ایوبی کی ایک تصویر کا تذکرہ اور بعد ازاں اسرائیلی فوجیوں کی بندوقوں کے سایہ میں مسجد اقصیٰ کا داخلہ اور نماز کی ادائیگی اور بعدازاں ایک فلسطینی ابو محمد کی ضیافت میں شرکت اور اس کی دکان کے حوالے سے ایک سرنگ کی دریافت کی عجیب داستان۔
  •  محلہ داؤد، محلہ مغاربہ اور دیوار گریہ کی تاریخ اور اس کی حقیقت کے بارے میں ایک مستند تحریر جو کہ مسجد براق کے تذکرے پر ختم ہوتی ہے۔
  •  طریق درد وآلام(یعنی وہ راستہ جہاں بتول نصار کی حضرت عیسیٰ ﷤ کو اپنی صلیب اٹھائے اپنی جائے صلیب تک جانا تھا)کے ایک گوشے میں ایک فلسطینی بھائی امجدہاشمی کے شاندار ریسٹورانٹ کا تذکرہ جہاں مسلمان زائرین کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔
  •  واپسی کا سفر کہ جس میں سرزمین لُدّ( کہ جہاں اسرائیل کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ واقع ہے) پر کثرت سے اُگائے جانے والے درخت’’غرقد‘‘ کا حدود اربعہ بتایا گیا ہے اور احادیث میں اس کے ذکر کی مناسبت بیان کی گئی ہے۔

          ائیر پورٹ پر حافظ صاحب چند یہودیوں کی  دوستانہ بات چیت کا بھی لطف اٹھاتے رہے اور یوں یہ دلکش،  دلربا، گنجینہ معلومات اور دورحاضر کی ہفوات اسرائیلیات تیشئہ حافظ کی تابر توڑ ضربات سے بھرپور سفرنامہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور لبوں پر حافظ صاحب کے لیے دعائے خیر کے الفاظ آجاتے ہیں۔

آخر میں اپنی ایک گزارش حافظ صاحب کے گوش گزار کرتا چلوں کہ جس کے لیے ان کی توجہ کا طلب گارہوں۔

          مروان نے قبۃ الصخرہ کیوں بنایا؟‘‘ اس عنوان کے تحت صفحہ 52 سے 54 تک حافظ صاحب نے یعقوبی، ابن کثیر، دمیری اور ابن تغری بردی کے حوالے سے ایک رائے کا اظہار کیا ہے کہ مروان نے قبۃ الصخرہ جیسی عالی شان عمارت عبداللہ بن زبیر کی مخاصمت میں کھڑی کی تھی بلکہ اہل شام کو حج پر جانے سے کلی روک دیا تھا اور حج کے متبادل کے طور پر لوگوں کو گنبد صخرہ کی طرف مائل کیا تھا۔ حوالے کے طور پر ابن کثیر کی روایت لیکن انگریزی ترجمے کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔ میں حافظ صاحب سے ملتمس ہوں کہ وہ مندرجہ ذیل نقاط کی روشنی میں اس رائے پر نظر ثانی کریں یا اس دوسری رائے کا بھی ذکر کرتے چلیں  جسے ڈاکٹر محمد ضیاء الرئیس نے اپنی کتاب (عبد الملک بن مروان والدولۃ الامویہ) میں اور توفیق محمد عبدالجواد نے اپنی تالیف’’ تاریخ العمارۃ الفنون الاسلامیہ ‘‘میں ذکر کیا ہے۔

  •  حافظ صاحب نے ابن کثیر کا حوالہ دیا ہے (بزبان انگریزی)۔ یہ عبارت البدایہ والنہایہ کی جلد 8 میں صفحہ  340 پر موجود ہے۔ ابن کثیر نے 66ھ کے حالات کے تحت بحوالہ’’ صاحب مرآۃ الزمان ‘‘تحریر کیا ہے کہ اس سال عبدالملک نے بیت المقدس کی چٹان پر گنبد اور جامع الاقصیٰ کی تعمیر شروع کی تھی جو سن 73 میں پایہ تکمیل تک پہنچی اور اس کے بعد بطور سبب عبد اللہ بن زبیر کی مخاصمت کا ذکر کیا ہے۔

اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ ان دونوں عمارتوں کی تعمیر عبدالملک کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ مروان کا زمانہ خلافت بہت مختصر تھا، صرف دس ماہ ۔

  •  عبدالملک اپنی فقاہت، علم اور علماء کی قدر و منزلت کے حوالے سے معروف ہے ،اس لیے اس کام کی نگرانی کے لیے قاضی رجاء بن حیوۃ اور اپنے آزاد کردہ غلام یزید بن سلام کا انتخاب کیا۔

یہ دونوں اتنے امانت دار انسان تھے کہ تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک گراں قدر رقم بشمول سیم وزر بچ گئی تھی، انہوں نے خلیفہ کو لکھا کہ وہ اس رقم کا کیا کریں؟ خلیفہ نے جواباً  لکھا کہ ہم تمہیں یہ رقم بخشتے ہیں۔ ان دونوں نے انکار کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر ہمیں اپنی خواتین کا زیور بیچ کر بھی اس عمارت کے حسن کو دوبالا کرنا پڑتا ہے تو ہم کر گزرتے ہیں تو خلیفہ نے حکم دیا کہ پھر یہ سارا سونا، چاندی گنبد اور دروازوں کی تزئین و آرائش پر لگا دیا جائے جس کی تعمیل کی گئی۔

  •   یروشلم کی عمارات بازنطینی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار تھیں اور عبدالملک چاہتا تھا کہ ایک ایسی عمارت کھڑی کی جائے جو اسلامی اور عربی تہذیب کی عکاس ہو اور لوگ اس کے سامنے رومی اور بازنطینی نقش و نگار کو بھول جائیں  اس لیے عبدالملک نے ان دونوں عمارتوں (مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ) پر پانی کی طرح رقم خرچ کی اور واقعی دنیا آج تک یروشلم کے قبۃ صخرہ کے حسن کے سحر میں گرفتار ہے۔

عبد الملک نے عربی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے کئی دوسرے کام بھی کیے۔ سرکاری رجسٹروں (یعنی دیوان) کی زبان فارسی اور رومن سے عربی میں تبدیل کی گئی۔ عربی سکے ڈھالے گئے اور شہر القدس کوعربی تہذیب کا گہوارہ بنایا گیا۔

  •  زیادہ سے زیادہ کہا جاسکتا ہے کہ بنوامیہ کو اس بات کا خدشہ رہتا تھا کہ اہل شام جب حج کے لیے جاتے ہیں تو انہیں عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، اس لیے وہ شامیوں کے حج پر جانے کے خواہاں نہ تھے لیکن عبد الملک جیسے فقیہ اور صاحب علم سلطان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ گنبد صخرہ کو حج کے ایک متبادل کے حیثیت سے متعارف کرائے۔

  یہ بات بھی مخفی نہیں ہے کہ سیاسی مخاصمت (اموی، علوی، عباسی وغیرہ) کی وجہ سے بعد میں آنے والے مؤرخین اپنی ذاتی وابستگیوں کی بنا پر کئی بے سند باتیں ذکر کرتے چلے جاتے ہیں جنہیں اگر حدیث کی جانچ کے اصولوں سے نہ سہی بلکہ عقلی اور بے تعصبی کی آنکھ سے دیکھ لیا جائے تو انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور اس کی ایک بڑی مثال جنگ جمل، صفین اور واقعہ کربلا کے ضمن میں ان بہت سی بے سروپا حکایات سے ہے جو میزان عقل و دانش میں پوری نہیں اترتی ہیں۔