فروری 2025ء

حضرت موسیٰ کا عریاں غسل کرنے والی حدیث

پر منکرین حدیث کے اعتراضات  اور  ان کےجوابات

انبیاء ﷩اللہ تعالیٰ کے نمائندےاور سفیر ہوتے ہیں ، ان کی ہربات اللہ تعالیٰ کی بات ہوتی ہے،  اسی لیے ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ان کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

] مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ[  [النساء: 80]

’’ جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے دراصل اللہ کی طاعت کی ۔‘‘   

اسی لیے اگر کبھی کسی نبی پر کوئی  الزام لگا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس الزام سے لازمی طور پر بری کرتا ہے ۔
بنی اسرائیل  کے لوگ ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے ، جبکہ  موسیٰ ﷤ بڑے شرم و حیا والے تھے ،وہ   ہمیشہ ایسے کام سے پرہیز کرتے تھے ، تو  شیطان نے لوگوں کے ذہنوں میں  یہ بات ڈالی کہ موسیٰ ﷤  کسی جنسی بیماری میں مبتلاء ہیں ، اسی لیے اپنے جسم کو چھپا کر رکھتے ہیں ۔ ۔۔ اس بدگمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آپ کی دعوت اور گفتگو پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے لگے ، جیسے ہمارے ہاں لوگ ہیجڑے  کی بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ گویا شر پسندوں کی اس تہمت کا اثر موسیٰ ﷤ کی دعوت پر پڑ نے لگا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس  الزام سے   بری کرنا چاہا تو اس کے لیے ایک معجزانہ  طریقہ اختیار کیا   ، جس سے موسیٰ ﷤ کی شرم و حیا اور  عصمت پر   بھی زد نہ پڑے اور  آپ  کا رسول ہونا  مزید  واضح ہوجائے۔ اس واقعہ کی  تفصیلات صحیح بخاری کی  ایک حدیث میں یوں بیان کی گئی ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا، لاَ يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ، إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ: إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ: وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى، فَخَلاَ يَوْمًا وَحْدَهُ، فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الحَجَرِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ، وَقَامَ الحَجَرُ، فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ، ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا [1].

’’حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یا کوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایذا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ تنہا  غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچے تو انھوں نے موسیٰ ؑ کو برہنہ حالت میں دیکھا، وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں اس تہمت سے بری کردیا جس کی طرف وہ حضرت موسیٰ ؑ کو منسوب کرتے تھے۔ اب پتھر بھی وہاں ٹھہر گیا اور آپ نے اپنے کپڑے لے کرزیب تین کرلیے، پھر اپنے عصا سے پتھر کو مارنا شروع کردیا۔ اللہ کی قسم! موسیٰ ؑ کے مارنے کی وجہ سے پتھر پرتین، چار یا پانچ نشان بھی پڑگئے تھے۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی باتوں سے بری کیا۔ وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز اور باقار تھے۔‘‘

اس  حدیث میں صراحت ہے کہ موسی ﷤ کے کپڑے  پتھر باذن الله لے بھاگا اور اس مجلس کے پاس جا کر ٹھہرا جہاں الزام تراشی کرنے والے موجودتھے ،  جب انہوں نے موسی ﷤ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنی  بدگمانی  پر نادم ہوئے،یوں رب کریم نے کمال حکمت کے ساتھ اپنے رسول کو ان  کی ایذا رسانی سے بری فرما دیا ۔

اس پر حدیث کی حجیت کا انکار کرنے والے  نادان اور علم وحی کی حلاوت وبصیرت سے محروم لوگ اعتراض کر بیٹھے۔۔۔کہتے ہیں اس حدیث میں سیدنا موسی ﷤کی عزت وعصمت کا استہزاء ہے۔۔۔ یہ ان کی بیمار عقل اور بری سوچ کا نتیجہ  ہے ۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذریعے موسیٰ کی عزت و عصمت کی حفاظت کی گئی ہے ، اور یہ حدیثٖ بتاتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہےکہ یہ واقعہ اجمالاً قرآن مجید  میں بھی  بیان ہوا ہے:

]يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًاؕ۰۰۶۹ [

 [الأحزاب: 69]

’’ اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے موسیٰ ﷤ کی تکلیف دی ، تواللہ تعالیٰ نے انہیں بری کیا اس سے جو انہوں نے کہا تھا ، اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والے ہیں۔‘‘

اب  منکرین حدیث کے سامنےدو ہی راستے ہیں : ایک یا تو قرآن مجید کے اجمال کی قرآن ہی سے تفصیل دیکھائیں یا رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے اسے تسلیم کریں ۔

اگر آپ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بےلباس ہونا ان کی عصمت کے خلاف ہے تو خود قرآن مجید نے آدم اور حوا کا برہنہ ہونےکا تذکرہ کیا ہے، فرمایا:

]فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ[

 [الأعراف: 22]

’’ پھر جب انہوں نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے پر ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے اپنی شرمگاہوں پر چپکانے لگاے۔‘‘

جس طرح آدم و حوا ﷦کے بدنوں سے لباس اترا تو وہ شرم و حیا کے سبب درختوں کے بتوں سے اپنا جسم چھپانے لگے ، بالکل اسی طرح موسیٰ ﷤ کے کپڑے پتھر لے کر بھاگا تو موسیٰ شرم و حیا کے سبب اس کے پیچھے بھاگےتاکہ کپڑے لے کر پہن لیں  ۔ پتھر مامور من اللہ تھا ، وہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گیا ، جب پتھر رکا تو فوراً  موسیٰ ﷤ نے کپڑے اٹھا  کر پہننے شروع کردیئے ۔

مزید قرآن مجید نے سیدہ مریم کے متعلق فرمایا:

] وَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ [ [الأنبياء: 91]

’’ اور وہ (مریم ) جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا ، پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی ۔‘‘

یہ دونوں واقعات  قرآن مجید میں کئ جگہوں پر باری تعالیٰ نے خود بیان فرمائے ہیں ،کیا یہ کہہ کر ان  کا بھی انکار کرتے ہو  کہ یہ ان کی عزت وعصمت کے خلاف ہیں ، ہم نہیں مانتے؟!۔

مجبوری کی حالت میں معائنہ کے لیے ڈاکٹر کے سامنے برہنہ ہونا   اور ولادت کے لیے برہنگی  کو بے شرمی قرار دیں تو حیا دار کون قرار پائے گا؟۔اگر آپ یہ کہیں کہ یہ اضطرار ہے تو حضرت موسیٰ ﷤ بھی اضطراری حالت میں تھے  ، اچانک واتفاقًا ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا ،  تو آپ  فطری حیاء کے سبب اس پتھر کے پیچھے بھاگے تھے کہ اپنے کپڑے حاصل کرکے پہن سکیں اور ستر چھپا لیں ۔

 اس واقعہ کا اچانک اور حادثاتی طور پر   رونما  ہونا بھی موسیٰ ﷤ کی شرم وحیا پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ  ان پر  جب ان پر الزام لگایا گیا  تو انہوں نے از خود  برہنہ  ہو کر اس الزام سے بری ہونے کی کوشش نہیں کی ،  اور اللہ تعالیٰ نے بھی  انہیں  لوگوں کے سامنے برہنہ ہونے کا حکم نہیں دیا ، بلکہ حادثاتی طور پر انہیں لوگوں کے سامنے برہنہ کر دیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ موسیٰ ﷤ انتہا ئی درجہ میں شرم وحیا والے  ہیں ۔ 

جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ﷤کو  ایک بے جا  الزام سے بری کرنے کے لیے  یہ انداز اختیار کیا ہے ، بھلا اس میں کیسے ان  کی عزت وعصمت  کیونکر غیر محفوظ  ہوگئی ہے۔

البتہ ایک بات بڑی تعجب خیز ہےکہ اس واقعہ سے پہلے بنی اسرائیل کے بدبخت پریشان تھے ، اور اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ہمارے یہاں کے بدبخت پریشان ہیں ، یہ واقعہ  کیسے اور کیونکر ہوگیا ؟

موسی ﷤ کا مذکورہ بالا واقعہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ، اور یہ حدیث محض امام  بخاری  نے ہی نقل نہیں کی، بلکہ یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ،  مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند اسحاق بن راہویہ ، سنن ترمذی ،  شرح مشکل الآثار ، مسند احمد ، مسند السراج  میں مختلف  صحیح اسانید سے مروی ہے ۔ مزید براں یہ واقعہ اجمالی طور پر قرآن مجید نے بھی بیان کیاہے ۔ خیر القرون میں نہ اس کی سند پر کسی نےاعتراض کیا اور نہ اسے موسیٰ ﷤ کی عصمت کے منافی  قراردیا ۔ اب اگر کوئی اس پر اپنی عقل ناتواں کے سبب اس پر اعتراض کرتا ہے تو وہ منکر حدیث ہی نہیں ، منکر قرآن ہے ۔

 

[1]     صحیح البخاری 3404