فروری 2025ء

شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)  قسط (8) 

شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) 

بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: ] السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ [ [الحشر: 23]

باب : اللہ تعالیٰ کا سورۂ حشر میں ارشاد ’’اللہ سلامتی دینے والا ( السلام ) امن دینے والا ( مومن ) ہے ۔‘‘

اس باب میں  اللہ تعالیٰ کی دو صفات ]السَّلاَمُ [ اور ] الْمُؤْمِنُ [ کا اثبات کرنا  مقصود ہے ۔  یہ دونوں صفات [سورۃ الحشر :23] میں  ایک ہی آیت میں بیان ہوئی  ہیں  ،  اور دونوں کا معنی قریب قریب ایک ہے ۔

سلام اسم بھی ہے ، صفت بھی اور مصدر بھی ۔یہ اللہ تعالیٰ کے نام یا صفت کے طور پر قرآن مجید میں صرف ایک بار استعمال ہوا ہے۔بعض روایات میں اسے اللہ کا اسم قرار دیا گیا ہے:

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ:اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ [1].

’’  حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے  ، اور کہتے : (جس کا ترجمہ یہ ہے ) اے ہمارے اللہ ! تو سلام ہے ، اور تیری طرف سے ہی سلامتی ہے ، تو بابرکت ہے ، جلال اور عزت والا ہے ۔‘‘

عن أنس رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ السَّلَامَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ تعالى وضعه الله في الأرض، فأفشوا السلام بينكم[2].

’’حضرت انس بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:بلا شبہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے، جسےاللہ نے زمین میں رکھ دیاہے ، لہٰذا تم زیادہ سےزیادہ آپس میں سلام کیا کرو ۔‘‘

اسی مناسبت سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الاستئذان میں ایک باب قائم کیا ہے :

بَابٌ: السَّلاَمُ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَى

اس بات کا بیان کہ سلام اللہ کےاسماء میں سےایک اسم ہے ۔

سلام بطور اسم تو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے ، لیکن بطور صفت خالق اور مخلوق میں مشترک ہے ۔جیساکہ درج بالا حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کا نام اسلام رکھاہے ،  اپنی مخلوق پر اپنی رضامندی کا اظہار لفظ ’’ سلام ‘‘ کے ساتھ کیا ہے ، جیسا کہ ذیل میں آیات آرہی ہیں ۔ جس رات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ اہل زمین  پر برستی ہے ، یعنی لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا:

] سَلٰمٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِؒ۰۰۵[ [القدر: 5] ’’(وہ)سلامتی ہے ، وہ مطلع الفجر تک ہے۔‘‘

سلام کے معانی

’’ السلام ‘‘ کے دو معانی ہیں : ایک ، ظاہری اور باطنی آفات ، عیوب اور نقا ئص سے پاک ہونا ۔ دوسرا ، دوسروں کو سلامتی عطا کرنے اور آفات و مصائب سےتحفظ دینےوالا ۔

پہلے  معنی  کے اعتبار سے یہ صفت سلبی بھی ہے اور دوسرے معنیٰ کےاعتبار سےیہ  اثباتی اور فعلی ہے  ۔

قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ  کو بہت سارے نقائص سے پاک قرار دیا گیا ہے ، مثلاً

] لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ[ [البقرة: 255] ’’ نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے اور نہ نیند ۔‘‘

] مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ[ [البقرة: 255]

’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کےحضور سفارش کر سکے ؟۔‘‘

] وَ لَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا [ [البقرة: 255] ’’ اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں ۔‘‘

] وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِۚ۰۰۱۸۲[ [آل عمران: 182]

’’ اور اللہ یقیناً اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتا ۔‘‘

] وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۳۲[ [الأنعام: 132] ’’ آپ کا رب اس سےبے خبر نہیں ۔‘‘

]وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّاۚ۰۰۶۴[ [مريم: 64] ’’اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بھول جائے۔‘‘

] لَا شَرِيْكَ لَهٗ[ [الأنعام: 163] ’’اس کا کوئی شریک نہیں ۔‘‘

] لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْۙ۰۰۳[ [الإخلاص: 3] ’’نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے جنا گیا ہے۔‘‘

] وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌؒ۰۰۴[ [الإخلاص: 4] ’’اور اس کا ہم سر کوئی نہیں ۔‘‘

] وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًاۙ۰۰۳[  [الجن: 3]

’’  اور بلاشبہ بلند ہے ہمارے رب کی عظمت ، اس نے نہ بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد۔‘‘

] وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيْرًاؒ۰۰۱۱۱[ [الإسراء: 111]

’’ اور کہئے! تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے نہ اولاد بنائی ، اورنہ  اس کی بادشاہت میں اس کا کوئی  شریک ہے اور نہ کمزوری کے سبب اس کا کوئی ولی ہے ، اور کہہ دو تمام کبریائی اسی کی ہے ۔‘‘

اسی طرح حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت سارے نقائص سے پاک قرار دیا گیا ہے ۔مثلاً

« وَأَنَّ الله لَيْسَ بِأَعْوَرَ»[3]  ’’اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں‘‘

«ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ»[4]

’’اپنے آپ پر نرمی کرو ، تم کسی گونگے (رب) کو پکار رہے ہو اور  غائب کو ، بلاشبہ تم ایسے رب کو پکار رہے ہو جو قریب سے سننے والا اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

صفت سلام مذکورہ بالا صفات سمیت تمام صفات نقص   سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو محفوظ قرار دیتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کو اپنی یہ صفت بہت زیادہ پسند اور محبوب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےاپنے محبوب دین کا نام اسلام اور محبوب بندوں کا نام مسلم  رکھا ہے۔ارشاد ہے :

]اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ[ [آل عمران: 19]

’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں (پسندیدہ ) دین اسلام ہے ۔‘‘

]اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا[[المائدة: 3]

’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔‘‘

 یعنی  اسلام وہ دین ہے جو ہر نقص سے سالم اور ہر آفت و عیب  سے پاک ہے ۔ یا وہ دین جس کے ماننے والے  اپنے مالک کی ناراضگی سے بچ جاتے ہیں ۔

اور مسلم سے مراو وہ بندے جو اطاعت وعبادت کے سبب اللہ کی عقوبت سےمحفوظ ہوجاتے ہیں اور دار السلام (جنت) کے وارث بن جاتے ہیں ۔ دوسرا اس لیے کہ دوسری مخلوقات ان کے شر سےمحفوظ رہتی ہے، جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ[5].

’’السلام ‘‘ کے دوسرے معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ اپنےبندوں پر اپنی خوشی اور اپنی رحمت نازل کرتا ہے ، اس کا تذکرہ بھی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے :

] سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ۰۰۷۹[ [الصافات: 79] ’’ساری دنیا میں نوح پر سلام ہو۔‘‘

] سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ۰۰۱۰۹[ [الصافات: 109] ’’ابراہیم پر سلام ہو ۔‘‘

] سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ۰۰۱۲۰[ [الصافات: 120] ’’موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔‘‘

] وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ۰۰۱۸۱[ [الصافات: 181]  ’’اور رسولوں پر سلام ہو۔‘‘

جنت میں بھی اللہ کے نیک بندوں پر اللہ کا سلام ہوگا :

] وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ۰۰۱۸۱[ [يٰس: 58]  ’’مہربان پروردگار فرمائے گا (تم پر ) سلامتی ہو۔‘‘

انبیاء کے علاوہ بھی بعض نیک بندوں پر بطور خاص  اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے  ، جیساکہ حدیث میں آتا ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ، أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ، وَلاَ نَصَبَ.[6]

’’ ابوہریرہ ﷜  بیان کرتے ہیں، نبی ﷺ کی خدمت میں جبریل ؑحاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! خدیجہ ؓ  آ رہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن ہے ، کھانا  یامشروب ہے(راوی کو شک ہےکہ کونسا لفظ بولا تھا)، جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے انہیں سلام کہنا، اور انہیں جنت میں موتی کے گھر کی بشارت دینا جس میں کوئی شور و شغب ہو گا نہ کوئی تھکن ہو گی۔ “

اسی صفت کے ساتھ نبی کے لیے ہمیں دعا کرنےکا حکم دیا :

] اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶[ [الأحزاب: 56]

فرشتوں کا ملنا بھی سلام کےساتھ ہوتا ہے:

] وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ } [هود: 69]

 ‘‘ اور بلاشبہ ہمارے رسول (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تو  ابراہیم کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا ۔’‘   

اپنےبندوں کو باہم ملنےجلنےکےلیے اسی صفت کا ورد کرنےکاحکم دیا ہے :

] وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ [ [الأنعام: 54]

‘‘ اور جب آپ کے پاس لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ کہیے : تم پر سلامتی ہو ۔’‘   

] فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً[[النور: 61]

’’  البتہ جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں ) کو سلام کہا کرو۔یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ[7].

’’ تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ ایمان لےآؤ، اور ایمان دار نہیں  ہوسکتے یہاں تک کہ باہم محبت کرنے لگ جاؤ۔کیا میں ایسی چیزکی طرف رہنمائی نہ کروں جسے جان لینے کے بعد تم آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ؟ (وہ یہ ہے کہ ) آپس میں کثرت سے سلام کیا کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی پسندیدہ جگہ جنت  کا نام بھی سلام رکھا ہے ، فرمایا:

] وَ اللّٰهُ يَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ[ [يونس: 25]

’’ اللہ تعالیٰ دعوت دیتا ہے دار السلام (یعنی جنت ) کی طرف ۔‘‘

جنت کی صفت بھی سلامتی ہے ۔فرمایا:

] اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍؕ۰۰۴۵اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ [[الحجر: 45، 46]

’’ بلاشبہ متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے ، (انہیں کہا جائے گا:) اس میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔‘‘

مومن جب جنت میں رونق افروز ہوں گے ، تو وہاں بھی ان کا باہم میل جول سلام کےساتھ ہوگا :

] وَ اُدْخِلَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ۰۰۲۳[ [إبراهيم: 23]

’’ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ اللہ کے حکم سے ان میں ہمیشہ رہیں گے وہاں ان کی دعائے ملاقات سلام ہوگی ۔‘‘

السلام اور القدوس میں فرق

سلام اور قدوس دونوں کا معنی عیب و نقائص سے پاک ہونا ہے ، یعنی دونوں  تنزیہی اسم ہیں ،  البتہ فرق یہ ہے کہ قدوس میں تنزیہہ ازلی ہے اور سلام میں تنزیہہ لم یزلی ہے [8]۔

7381 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ، حَدَّثَنَا شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَقُولُ: السَّلاَمُ عَلَى اللهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‘’إِنَّ اللهَ هُوَ السَّلاَمُ، وَلَكِنْ قُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ .

ہمیں  احمد بن یونس نے بیان کیا،کہ ہمیں  زہیر نے بیان کیا، کہ ہمیں  مغیرہ نے بیان کیا ،کہ ہمیں  شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ  حضرت عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم ( ابتداءاسلام میں ) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور کہتے تھے : السَّلاَمُ عَلَى اللهِ ، تو رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا : اللہ تو خود ہی ’’السَّلاَمُ ‘‘ہے (اس پر سلام بھیجنے کا کوئی مطلب نہیں ہے)۔ البتہ اس طرح کہا کرو(جس کا ترجمہ یہ ہے) :تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، اے نبی (ﷺ!) آپ پر سلام ہو ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ، ہم پر بھی اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور  اس کے رسول  ہیں ۔‘‘

 لطائف الاسناد

عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد اور بعد کے تمام راوی کوفہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ امام بخاری کے استاذ احمد بن یونس کو امام احمد  بن حنبل نے شیخ الاسلام کا لقب دیا ہے ۔

شرح الحدیث

سلام اور سلامتی کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ  ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ   پر سلامتی  بھیجنا بے معنی ہے۔ بلکہ  اللہ تعالیٰ سے دوسروں پرسلامتی کرنےکی دعا کرنی چاہئے ، جیساکہ رسول اللہ  ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے   اپنے اور دوسرے مومنین پر  سلامتی بھیجنےکی دعا کرنے کا حکم دیا  ۔

نبی  کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور دین کی خدمت گار ہیں اس لیے سب سےزیادہ اللہ کی  سلامتی کے مستحق ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تشہد میں   توحید کے اقرار کے بعد سب سے پہلے  رسول اللہ ﷺ کے لیے  سلامتی کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ پھر دوسرے نیک بندوں پر سلامتی کی دعا بھیجنے  کا حکم دیا گیا ہے ۔

کیا نبی ﷺ حاضر ناضر ہیں ؟

تشہد میں  نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجتے ہوئے حرف ندا کے ساتھ آپ کو مخاطب کیا گیا ہے : (  السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ )    ہماری  گرامر کا قاعدہ یہ  ہے کہ حرف  ندا  کا استعمال منادیٰ  محسوس مبصر کے لیے ہوتا ہے ، یعنی جو منادیٰ  محسوس ہو اور نظر آ رہا ہو اس کے لیےحرف  ندا  استعمال ہوتا ہے ۔بعض لوگوں نے گرامر کے اس قاعدے کی بنیاد پر  یہ عقیدہ گھڑ  لیا کہ  نبی کریم ﷺ  وفات کےبعد بھی ہر جگہ پر حاضر ناظر ہیں، یہ قطعاً درست نہیں ہے ۔  صحابہ کرام اسلام کے  مزاج اور عقیدہ کو ہم سے بہتر جانتے تھے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ   کبھی نہیں رکھا ، بلکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد بعض کبار صحابہ نے(السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ )  ترک کر کے  (السَّلاَمُ عَلَى النَّبِيِّ ) کہنا شروع کردیا تھا ۔ اس لیے کہ وہ سمجھتےتھےکہ نبی ﷺ حاضر ناضر نہیں ہیں ، اور براہ راست ہمارا درود نہیں سنتے[9] ۔ تشہد میں   صغیۂ خطاب دراصل نبی ﷺ نے جو زندگی میں سکھایا تھا ، آج ہم اسی کی پیروی میں کہتے ہیں ۔

باقی رہا کہ  یہ مسئلہ کہ تشہد میں رسول اللہ ﷺ کے لیے حرف ندا  (السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ )   کیوں اختیار کیا گیا ہے ؟ تو  علماء کرام نےاس کی کئی توجیہات پیش کی ہیں :

  • مخاطب کا صیغہ استعمال کرنے کا مطلب محض اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہوتا ہے ، ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مخاطَب شخص حاضر ہے اور آپ کی گفتگو سن رہا ہے، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کے دوران بیت اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ الله حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ، وَدَمِهِ [10].

’’ ( اے بیت اللہ ! ) تیری خوشبو سے بڑھ کوئی خوشبو نہیں ، تیری عظمت اورتیرے احترام  سے بڑھ کر کسی کی عظمت  اور احترام نہیں  اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺﷺ کی جان ہے ، مومن کی عظمت اور اس کے مال اور خون کی حرمت اللہ کے ہاں تیری حرمت سے بھی زیادہ ہے ۔ ‘‘

  • جب مخاطب متکلم کے ذہن میں اس قدر حاضر ہو گویا وہ سامنے ہے ، تو اس صورت میں بھی کلمہ ندا استعمال ہوتا ہے۔
  • یہ حرف ندا نہیں ندبہ ہے ۔ ندبہ کا معنی ہوتا ہے بلانا، گریہ و بکاء کرنا ، یا اپنےجذبات کا اظہار کرنا،جیسے کہ حضرت فاطمہ نے نبی ﷺ کی بےچینی دیکھی تو کہا :ہائے میرے باپ کی بے چینی۔ اہل تشیع کے ہاں امام جعفر صادق کی طرف منسوب  ایک دعا،  دعائے ندبہ کے عنوان سے مشہور ہے۔یہ بظاہر خطاب  ہے لیکن اصل میں یہ  ندبہ ہے۔ اسی طرح تشہد میں (السلام علیک ایها النبی ) بھی مقصود آپ ﷺ کو مخاطب کرنا نہیں ہے ، بلکہ محض اپنے جذبات کااظہار کرنا ہے ۔  
  • بعض اہل علم  کے نزدیک یہ حرف ِ ندا ہی ہے  ،لیکن تشہد   میں وہ جذبہ اور  کیفیت پائی جاتی ہے کہ انسان خود کو  اللہ کے سپرد کردیتا ہے، تو چونکہ اللہ تک پہنچنے کا  ذریعہ نبی ﷺ کی اطاعت ہے ۔  اس بنا پر نبی ﷺ کو  خطاب کیا گیا ہے ۔اور بعض علماء کرام کے بقول اس ندا کی وجہ   آپ کی نبوت کا  ابدی   ہونا ہے اور امت کی آپ ﷺ سے وابستگی دائمی اور زندہ ہے ، اس لیے یہاں حرف ندا استعمال کیا گیا ہے ۔
  • تشہد میں خطابی  انداز ہے ، جس طرح خط میں خطابی انداز اختیار کیا جاتا ہے  حالانکہ جب خط لکھاجاتا ہے   تب وہ غائب ہوتا ہے  ، لیکن جب اسے خط پہنچتا ہے ،تب وہ حاضر کی مانند ہوتا ہے ۔  اس لیے خط میں خطابی انداز سے بات کی جاتی ہے ۔ اسی طرح تشہد میں خطابی انداز ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
  • وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ[11].
  • ’’مجھ پر درود بھیجو، بلاشبہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتاہے تم جہاں بھی ہو۔‘‘
  • لہٰذا ایک جگہ پر خطابی انداز سے باقاعدہ عقیدہ وضع کرلینا نبی اکرم ﷺ وفات کے بعد بھی زندہ بلکہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں ، یہ عقیدہ قطعاً غلط اور قرآن و سنت کی تصریحات کے خلاف ہے ۔

مومنوں پر سلام بھیجنا

مذکورہ حدیث   میں  مومنوں  کو حکم دیا گیا ہے کہ  وہ اللہ کےتمام نیک بندوں کے لیےسلامتی کی دعا کریں ۔

[السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ] کہنے سے خود آپ پر  بھی سلامتی ہوگی ، اور مخلوقات میں سے تمام نیک بندوں پر سلامتی ہوگی ۔رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:

إِذَا قُلْتَهَا أَصَابَتْ كُلَّ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، أَوْ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ، أَوْ عَبْدٍ صَالِحٍ [12].

’’جب تو نےیہ کہا ، تو یہ دعا پہنچ جائے گی ، ہر مقرب فرشتے ، نبی مرسل اور نیک بندےتک ۔‘‘

دوسرا اسم صفت: المؤمن

اللہ تعالیٰ کا دوسرا اسم صفت ’’ المؤمن ‘‘ہے ۔

اس کا مادہ   امن ہے ، اس کے بھی دو معانی ہیں ، سلبی اور اثباتی ۔ پہلا معنی ہے ہر طرح کے خوف و خطر سے محفوظ ہونا ، دوسرا معنی ہےامن اور تحفظ دینے والا ،جیساکہ قرآن مجید میں ہے:

] وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا  [ [البقرة: 126]

’’اور جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ اےمیرے  رب ! اس جگہ  کو امن کا شہر بنا دے ۔‘‘

اور  اللہ تعالیٰ کو مومن اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نےاسلام کی صورت میں ایسا نظام اور سسٹم دیا ہےجو ہر شخص کو حق تلفی ، ظلم و زیادتی اور خوف سے مکمل طور پر امن مہیا کرتا ہے۔

مومن کا ایک معنی  ماننا اور تصدیق کرنا بھی ہوتا ہے، اسی مناسبت سے توحید اور رسالت کے  ماننےکو ایمان اور ماننےوالے کو مومن کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سےیہ صفت اللہ تعالیٰ اور بندوں کےدرمیان مشترک ہے ۔

اسماء حسنی کی تصغیر

حافظ ابن حجر نے امام الحرمین کا قول نقل کیا ہےکہ علماء کرام کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تصغیر کرنا جائز نہیں ہے ۔[13]

فوائد :

  • ’’سلام ‘‘ اللہ تعالیٰ کاا سم صفت ہے ۔
  • سلام کا معنی ہے، تمام عیوب و نقائص اور آفات سےمحفوظ ہونا ، یا اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کو آفات و مصائب سےمحفوظ کرنا ۔
  • ’’سلام‘‘اللہ کی محبوب ترین صفت ہے، جسے اللہ نےبندوں کے استعمال کےلیے زمین پر بھیجا ہے۔
  • اللہ تعالیٰ خود سلام ہے، اس لیے اس پر سلام نہیں بھیجنا چاہئے ۔
  • ہمیں تمام مخلوقات کےلیے سلامتی کی دعا کرنےکا حکم دیا گیا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مومن ہے ، جس کا معنی خود  ہر طرح کے خوف و خطر سے محفوظ  اوردوسروں کو امن  اور تحفظ دینے والا۔

 

[1]     صحيح مسلم:591

[2]     الأدب المفرد: 989

[3]      صحيح بخاری: 3057

[4]     صحيح بخاری :4205

[5]     صحیح بخاری:10، صحیح مسلم :40

[6]       صحيح بخاری:3820، صحيح مسلم:2432

[7]     صحیح مسلم :54

[8]     شرح اسماء الحسنی ٰ از قاضی محمد سلیمان منصور پوری :56

[9]     صحيح بخاری :6265

[10]   سنن ابن ماجہ:3932، الصحيحة:3420

[11]   سنن أبی داود:2042

[12]   مسند أحمد (7/ 116):4017

[13]   فتح الباری :14/312