شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬کی سوانح حیات

شیخ المشائخ استاذی المکرم حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ بھی دارلفناء سے دار البقاء کی طرف رخصت ہوئے، منگل کی شام نماز مغرب کے بعد دوستوں کے ساتھ مقامی ریستوران میں موجود تھا کہ موبائل کی سکرین پر شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی ﷬ کی وفات کی خبر دیکھنے کو ملی ایک بار تو نظر انداز کرنا چاہا کہ یہ بھی دوپہر کی خبر کی طرح غلط فہمی پر مبنی ہو سکتی ہے مگر یہ خبر جامعہ سلفیہ کے ایک ذمہ دار ساتھی کی طرف سے تھی تو فوراً کچھ دوستوں سے رابطے پر اس کی تصدیق ہو گئی زبان پر انا لله وانا الیه راجعون کا کلمہ جاری ہوا اور دماغ حضرت الشیخ کی یادوں میں ڈوب گیا۔

میری شادی کے دن طے ہوئے تو میری خواہش تھی میرا نکاح میرے بڑے شیخ شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ پڑھائیں گے ،دعوت نامہ تو باقاعدہ پہلے ارسال کر چکا تھا اور پھر نکاح کے لیئے حضرت الشیخ عبدالعزیز علوی ﷬ سے درخواست کی تو حضرت الاستاذ نے شفقت فرماتے ہوئے فرمایا او شریف آدمی ( یہ ہمارے شیخ محترم کا تکیہ کلام تھا)توں ہفتے دا دن رکھیا اے تے میں عام طور تے سبق چھڈ دا نئیں پر تیری خوشی دا موقع اے تے میں آ جاواں گا ان شاءاللہ   (تونے ہفتہ کا دن رکھا ہے ، میں عام طور پر سبق نہیں چھوڑتا ، لیکن تیری خوشی کے لیے آجاؤں گا)۔

محسن و مربی استاذی المکرم حافظ فاروق الرحمٰن یزدانی ﷾کو خبر دی کے استاذی المکرم نے حامی بھر لی ہے تو آپ ساتھ تشریف لے آئیں تو سعادت مندی ہوگی ۔

حضرت الشیخ عبدالعزیز علوی ﷬ وقت کے انتہائی پابند تھے اور ہمارے ہاں عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر وقت کا حساب کتاب ہی کوئی نہیں ہوتا ، جنہیں مسجد میں پانچ منٹ بیٹھنا زیادہ  مشکل لگتا ہے وہ بھی شادی بیاہ کے فنگشن میں تین تین گھنٹے آرام سے بیٹھے رہتے ہیں ۔

وقت کی پابندی سے مجھے یاد آیا کہ ایک بار جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان تشریف لائے تو اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا مہمان کچھ لیٹ تھے تو شیخ علوی ﷬ خود مصلی امامت پر تشریف لائے اور نماز شروع کروا دی۔

حضرت الاستاذ کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کی تقریب میں پابندی وقت کا خاص خیال رکھا۔ حضرت الشیخ نے نکاح کے موقع پر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں توحید اور سنت کے ساتھ تمسک پر بڑا زور دیا بہت ساری دعاؤں سے نوازا  ۔

پھر فرمانے لگے شریف آدمی ! میں کسی ایسی شادی میں نہیں جاتا جس کا دعوت نامہ انگلش زبان میں ہو چاہے وہ دعوت  جامعہ کی دیوار کے ساتھ ہی کا کیوں نہ ہو ،  مگر تیرے نکاح پر اس کے باوجود میں آگیا ہوں ۔ پھر نصیحت کی کہ ہمیں انگریزوں اور غیر مسلموں سے کبھی مرعوب نہیں ہونا چاہیئے ۔ ہمیں ہر موقع پر اپنی زبان اپنے لباس اپنے وطن اور اپنے دین کو ترجیح دینی چاہئیے ۔

حضرت شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی ﷬ متعدد بار ہماری دعوت پر ضلع لیہ میں دعوتی پروگراموں میں تشریف لاتے رہے سو ہمیں خدمت کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔ الحمدللہ علی ذالک

فراغت کے بعد ایک باردوستوں کے ہمراہ جامعہ میں جانا ہوا، شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے ملاقات ہوئی تو ہاتھ پکڑ کے لائبریری کی طرف چل پڑے اور ساتھ ایک لڑکے کو پیسے نکال کر دے رہے تھے کہ’’  او دو کلو والی وڈی بوتل ‘‘ لیکر آؤ ۔ ہم احتراماً انکار کر رہے تھے تو فرمانے لگے شریف آدمی! ہم جاتے ہیں تو آپ اتنا احترام کرتے ہیں ،اب بوتل لازمی پی کر جاؤ ۔

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ علم کا ایسا سمندر تھے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں تھا ۔جب کلاس میں درس بخاری ارشاد فرماتے تو ایک ایک مسئلہ میں کتنے کتنے اقوال اور اس سے متعلقہ کئی کتابوں کا ذکر فرماتے اور پھر اس پر اپنا دلائل کے ساتھ قوی تبصرہ فرماتے ۔ ہمارے ایک شیخ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ الحدیث صاحب سے جب کسی موضوع پر گفتگو کروانی ہو تو ان کو قبل از وقت نہیں بتانا چاہئیے بلکہ انہیں عین  موقع پر گفتگو کرنے کا کہنا چاہیے وگرنہ شیخ صاحب کے علم کو سمیٹنا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

عمل کے لحاظ سے شیخ الحدیث علوی ﷬ کی اس دور میں مثال ملنا بہت مشکل ہے ،صوم و صلوٰۃ کے انتہا درجہ پابند تھے اور دوسروں سے بھی اسی پابندی کا جذبہ رکھتے تھے ۔کرونا وائرس کے دور میں جب بڑے بڑے علماء بھی محتاط ہو گئے تھے ۔حضرت شیخ الحدیث ﷬ باجماعت نماز کا بلا فاصلہ پابندی سے اہتمام کرتے رہے اور توکل  اس درجے کا ہر ایک سے بلا جھجک مصافحہ کرلیتے تھے ۔

استاذ گرامی شیخ فاروق الرحمٰن یزدانی حفظہ اللہ خود شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لیے کرسی باہر نکال کے رکھتے حضرت شیخ رحمہ اللہ کے بیٹھنے  تک ان کے احترام میں کھڑے رہتے تھے اہل علم کی تکریم کا یہ بھی ایک روح پرور منظر ہوتا تھا ۔فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ کے بقول خود عالم ہو کر دوسرے علماء کا احترام کرنا کوئی شیخ فاروق یزدانی حفظہ اللہ سے سیکھے ۔ وہاں اکثر شیخ محترم  کی زیارت ہوتی تھی مگرہم نے شیخ محترم کی زبان سے کبھی  کسی کی چغلی اور غیبت نہیں سنی تھی ۔ دوسرے ساتھیوں کی بھی یہی شہادت ہے۔

شیخ محترم  کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بلند پایہ علمی منصب و مقام سے نوازا تھا مگر اس کے باوجود بڑے منکسر المزاج اور متواضع تھے،اسکا اندازہ اس بات لگائیں کہ تحفۃ المسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ

’’اہل السنہ کے مختلف مکاتب فکر نے اس کی شرح میں طبع آزمائی کی ہے اور کی جا رہی ہے اس کم علم اور کم سوار نے بھی خدمت حدیث  کے جذبہ کے تحت صحیح مسلم کی اردو زبان میں شرح پیش کرنے کی جسارت کی ہے جو محض اللّٰہ تعالیٰ کا کرم و احسان ہے۔ اگر من آنم کہ من دانم

اس میں جو کچھ صحیح ہے وہ اللہ کی توفیق سے ہے اور اہل علم کی خوشہ چینی ہے ،جہاں کوئی غلط بات ہے وہ میرے علم کی کوتاہی اور نقص ہے ، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور ناظرین باتمکین سے عرض ہے وہ نشان دہی فرما کر اجر و ثواب حاصل کریں، تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح ہو سکے۔  میں نے اس شرح میں ان چیزوں کا لحاظ رکھا ہے اور یہ سب کچھ مختلف شروحات سے ماخوذ ہے میں نے تو محض مختلف پھولوں سے گلدستہ سجایا ہے[1]۔‘‘

مزید ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’  آخر میں سب سے پہلے اپنے دیرینہ دوست اور محترم ساتھی فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی  کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مکمل کتاب پر انتہائی جانفشانی اور اخلاص سے نظر ثانی فرمائی اور انتہائی باریک بینی اور دقیقہ رسی سے کام لیتے ہوئے بعض لغزشوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کی جن کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔جزاک اللّہ احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ[2] ۔‘‘

حضرت شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ کی طبیعت میں بڑی وسعت اور اعتدال تھا

محدث العصر حضرت العلام مولانا ارشاد الحق اثری ﷾حضرت شیخ الحدیث  کے بارے لکھتے ہیں کہ

’’ انہیں یہ امتیاز و اختصاص حاصل ہے کہ جہاں انھوں نے اہل حدیث مکتب فکر کے شیوخ الحدیث مثلاً شیخ العرب والعجم حضرت حافظ محمد گوندلوی وحضرت مولانا محمد عبداللہ محدث وحضرت مولانا محمد عبده  الفلاح وحضرت مولانا عبدالغفار حسن ﷭۔جیسے اعیان سے شرف تلمذ حاصل کیا وہاں انھوں نے دیوبندی مکتب فکر کے معروف محقق و مصنف حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی ، شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا شمس الحق افغانی اور بریلوی مکتب فکر کے غزالی دوراں مولانا احمد سعید کاظمی مہتمم و شیخ الحدیث مدرسہ انوار العلوم ملتان سے بھی کسب فیض کا موقع ملا  ،یوں تینوں مکاتب فکر کے طرزِ استدلال و استنباط کو جاننے کے مواقع میسر آئے ۔فکر و نظر میں وسعت و اعتدال ان کا طرہ امتیاز ہے[3]۔‘‘

ایک مقام پر حضرت شیخ الحدیث ﷬ خود لکھتے ہیں کہ :

’’تمام اہل علم چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو ان کے علم کی قدر کرتے ہوئے ان کے لیئے دعائیہ کلمات کا لحاظ رکھا ہے اور کسی قسم کا بخل نہیں روا رکھا ۔‘‘ (تحفۃ المسلم ج1 ص 20)

مسلکی جماعتوں کے معاملے میں بھی استاذی المکرم کا دل ہر قسم کی حزبیت اور عصبیت سے پاک تھا ۔اسی لیے تو وہ تمام جماعتوں کے بڑے بڑے پروگراموں میں گفتگو کے لیے  تشریف لے جایا کرتے تھے ۔

حضرت الاستاذ ﷬ اس مادیت پرستی کے دور میں بھی تبلیغ دین اور اشاعت اسلا م کے جذبےسے  سرشار تھے (وگرنہ آج کل تو لوگوں نے اسے بڑا منافع بخش پیشہ بنا لیا ہے )۔آپ کو جب بتلایا گیا کہ آپ کی مسلم کی شرح انڈیا میں بھی شائع ہو چکی ہے تو بجائے اس پر ناراض ہونے کے بغیر اجازت کیوں شائع کی بلکہ اس پر خوشی کا اظہار کیا زیادہ لوگوں تک پہنچے گی اور میرے لیے صدقہ جاریہ بنے گی ۔

ہر وقت ذکر و فکر کی حالت میں رہتے ۔امر باالمعروف اور نہی عن المنکر میں وہ باقاعدہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے ،بقول مدیر التعلیم جامعہ سلفیہ  استاذی المکرم پروفیسر چوہدری یسین ظفر حفظہ اللہ:جامعہ سلفیہ میں ایک شخصیت ایسی تھی جو ہماری بھی اصلاح کرتی تھی اور ہم ہر وقت محتاط رہتے تھے تمسک باالکتاب و السنہ میں وہ ایک مثالی شخصیت تھی جو آج ہم سے جدا ہو چکی ہے ۔ ہم نے حضرت الشیخ سے باقاعدہ پڑھا نہیں تھا مگر ہم انکا احترام والد کی طرح کرتے تھے ۔

جب شیخ محترم کی ناسازی  طبع کے سبب کچھ کمزور آگئی تو آپ کی سہولت کی خاطر جامعہ نے صحیح بخاری کی دوسری جلد کی تدرسی استاذی المکرم شیخ الحدیث یونس بٹ ﷬ کے حوالے کردی گئی ، لیکن ہم نے دیکھا کہ آپ صحیح بخاری کی آخری حدیث چھوڑ دیتے تھے، طلباء استفسار کرتے تو فرماتے شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ علم و فضل کے لحاظ سے ہم سب کے بڑے ہیں اور آخری حدیث شیخ الحدیث صاحب پڑھائیں گے ۔

بلاشبہ مادر علمی جامعہ سلفیہ کی انتظامیہ اساتذہ اور طلبہ سبھی دل و جان سے حضرت شیخ الحدیث ﷬ کا احترام کرتے تھے ۔کبھی کوئی پریشانی ہوتی تو استاذی المکرم شیخ یونس بٹ ﷬ فرمایا کرتے کہ پریشان کیوں ہوتے ہو حضرت شیخ الحدیث صاحب سے دعا کراؤ اللہ تعالیٰ آسانیاں فرمائے گا ۔

پیارے دوست حافظ نعیم عباس ساقی نے شیخ الحدیث ﷬ کے جنازے میں جاتے ہوئے راستے میں یہ  واقعہ سنایا کہ ہمارے ایک کلاس فیلو کی شادی کو پانچ چھ سال کا عرصہ بیت چکا تھا اور وہ اولاد سے محروم تھے کسی دوست نے توجہ دلائی تو حضرت شیخ الحدیث ﷬ کے پاس حاضر ہوا دم کروایا اور دعا کی درخواست بھی کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اولاد کی نعمت سے نواز دیا  شیخ علوی ﷬ واقعی ہی مستجاب الدعوات ہستی تھے ۔

شیخنا الکبیر حضرت حافظ مسعود عالم ﷾فرماتے ہیں :

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی ﷬ تمام علوم وفنون میں ید طولی رکھتے تھے ہمارے گمان کے مطابق علم و عمل کے اعتبار سے ان کا شمار سابقوں الاولون میں ہو گا ان شاءاللہ

اپنے ساتھیوں اور حضرت شیخ الحدیث علوی ﷬ کے روحانی بیٹوں کے ساتھ حضرت الاستاذ کے نمازجنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی تو علماء و  طلاب علوم نبوت کی ایک بہت بڑی تعداد وقت کے محدث کو رخصت کرنے کے لیے موجود تھی ۔چہرہ مبارک دیکھا تو لبوں پر بے ساختہ یہ حدیث مبارکہ جاری ہوگئی  :

نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ[4].

چہرے کی تازگی اور نور بتا رہا تھا کہ واقعی نصف صدی سے زائد خدمت حدیث کرنے والے محدث کا اس شان سے ہی جانا بنتا ہے ۔حضرت الاستاذ نے صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور جامع ترمذی کی شروحات سمیت بیسیوں کتب اور ہزاروں شاگرد صدقہ جاریہ کے طور پر چھوڑے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے ۔

 

[1]     تحفۃ المسلم ، مقدمہ : ص 19

[2]      تحفۃ المسلم ، مقدمہ : ص 20

[3]     تحفۃ المسلم:1 / 32

[4]     سنن ابی  داود:3660