سورۃ الفاتحہ میں غلطی کرنیوالے کی اقتداء
نماز دین کا ستون ہے جس کے بغیر دین کی عمارت کا کوئی تصور نہیں، شریعت نے جماعت کی صورت میں تمام لوگوں کو ایک امام کی اقتداء کا حکم دیا ہےتاکہ منظم و مرتب انداز سے یہ فریضہ انجام پائے۔
امامت چونکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے اور ہر شخص اس کے معیار پر پورا بھی نہیں اترتا، لہذا نبی کریم ﷺ نے امامت کا معیار واضح فرما دیا کہ ایک شخص میں کیسی خوبیاں پائی جائیں گی تو وہ جماعت کی امامت کا اہل قرار پائے گا۔ ذیل میں کچھ احادیث پیش کی جارہی ہیں:
- حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً فَلْيَؤُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ، وَأَحَقُّهُمْ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ [1].
”جب (نماز پڑھنے والے) تین ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جو ان میں سے زیادہ (قرآن) پڑھا ہو۔“
- سيدنا ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ [2].
”لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر وہ قراءت میں برابر ہوں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو، اگر وہ سنت ( کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان میں سے پہلے ہجرت کی ہو، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس ( دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے۔“
علامہ طیبی (٧٤٣ھ) فرماتے ہیں: آپ کا فرمان یؤم القومخبر بمعنی أمر ہے۔ یعنی آپ ﷺ حکم دے رہے ہیں کہ امامت میں قاری کو بقیہ لوگوں پرفوقیت دو [3] ۔
امام نووی (تـ ٦٧٦ھ) شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
’’ آپ ﷺ کے فرمان ”ان میں سے امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جو ان میں سے زیادہ ( قرآن ) پڑھا ہو۔“ اور ”لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو“ میں ان لوگوں کی دلیل ہے جو أقرأ (قاری) کو أفقه (فقیہ) پر مقدم کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ، احمد اور ہمارے بعض اصحاب (شوافع) کا یہی مذہب ہے[4]۔‘‘
- سیدنا ابن عمر بیان کرتے ہیں:
كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ، فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَبُو سَلَمَةَ وَزَيْدٌ وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ [5] .
”ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم، مہاجر اولین اور دوسرے اصحاب رسول کی مسجد قباء میں امامت کیا کرتے تھے۔ ان میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید اور عامر بن ربیعہ بھی ہوتے تھے۔“
ملّا علی قاری حنفی (ت ١٠١٤هـ) فرماتے ہیں:
’’ سیدنا سالم کا عمر کی موجودگی میں امامت کرانا اس بات کی دلیل ہے کہ أقرأ کو امامت میں أفقه پر مقدم کیا جائے گا [6]۔‘‘
أقرأ سے کیا مراد ہے؟
اس بارے علماء کے تین اقوال ہیں :
- اس سے مراد وہ شخص ہے جو خوبصورت تلاوت کرتا ہو اور قرآنی احکامات کا علم رکھتا ہو، خواہ وہ شخص حفظِ قرآن میں بقیہ لوگوں میں سب سے پیچھے ہو۔
- جس نے سب سے زیادہ قرآن حفظ کیا ہو؛ کیونکہ نبی ﷺ نے قراءت کو ہی معیار ٹھہرایا ہے۔
- اس سے مراد فقیہ ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ قرآن جاننے والا ہی سب سے بڑھ کر فقیہ بھی ہوتا تھا، گویا کہ ان کے ہاں یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم تھیں۔
امام مالک، شافعی اور ان کے اصحاب کی رائے ہے کہ أفقه کو أقرأ پر مقدم کیا جائے گا، کیونکہ نماز میں قراءت کی حاجت بنسبت فقہ کے کم ہے، کیونکہ بسااوقات نماز میں ایسا معاملہ پیش آسکتا ہے جسے کامل فقیہ ہی صحیح طور سے نبھا سکتا ہے، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے بڑے قراء کی موجودگی میں سیدنا ابوبکر صدیق کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کیا تھا اور حدیث کے متعلق ان کی رائے یہ ہے کہ صحابہ میں قرآن کے متعلق زیادہ جاننے والا ہی اس کے احکامات کو بھی زیادہ جاننے والا ہوتا تھا۔
یہ اختلاف ذکر کرنے کے بعد امام نووی فرماتے ہیں:
” حدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ أقرأ کو مطلق طور پر مقدم کیا جائے گا، اور ہماری رائے جسے ہمارے بہت سے اصحاب نے پسند کیا ہے یہ ہے کہ زیادہ ورع اور خشوع والے کو أفقہ و أقرأ پر مقدم کیا جائے؛ کیونکہ امامت میں ورع کی ضرورت بنسبت بقیہ چیزوں کے زیادہ ہے[7]۔“
أقرأ سے مراد بڑا حافظ ہے، اس کی دلیل سیدنا عمرو بن سلمہ کا واقعہ ہے، بیان کرتے ہیں: میری قوم میں مجھ سے زیادہ کسی کو قرآن حفظ نہیں تھا، تو لوگوں نے مجھے امامت کے لیے آگے کردیا جبکہ میری عمر چھ یا سات سال تھی[8]۔
محمد بن عبد الہادی سندی (تـ ١١٣٨) أقرأ کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
أكثرهم قرآنا وأجودهم قراءة [9].
”جو زیادہ قرآن حفظ کئے ہوئے ہو اور لوگوں میں سب سے اچھی تلاوت بھی کرتا ہو۔“
امام ابن رجب (تـ ٧٩٥) فرماتے ہیں:
وهذه المسألة لأصحابنا فيها وجهان: إذا اجتمع قارئان، أحدهما أكثرُ قرآنًا، والآخر أجود قراءةً؛ فهل يُقدَّم الأكثر قرآنًا على الأجود قراءة، أم بالعكس؟ وأكثر الأحاديث تدلُّ على اعتبار كثرةِ القرآن[10].
”اس مسئلہ میں ہمارے اصحاب کی دو آراء ہیں: جب دو قاری موجود ہوں، ایک مقدارِ حفظ میں آگے ہو جبکہ دوسرا تجوید وحسن تلاوت میں ماہر ہو؛ تو اس صورت میں امامت کے لیے کسے مقدم کیا جا ئے گا؟ (دونوں آراء موجود ہیں لیکن ) اکثر احادیث کثرتِ قرآن (حفظ) پر دلالت کرتی ہیں۔“
عبد الرحمن مبارکپوری (تـ ١٣٥٣) فرماتے ہیں:
الْقَوْلُ الظَّاهِرُ الرَّاجِحُ عِنْدِي هُوَ تَقْدِيمُ الْأَقْرَأِ عَلَى الْأَفْقَهِ وَقَدْ عَرَفْتَ فِي كَلَامِ الْحَافِظِ أَنَّ مَحَلَّ تَقْدِيمِ الْأَقْرَأِ حَيْثُ يَكُونُ عَارِفًا بِمَا يَتَعَيَّنُ مَعْرِفَتَهُ مِنْ أَحْوَالِ الصَّلَاةِ [11].
”میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ أقرأ کو أفقه پر مقدم کیا جائے، حافظ ابن حجر کی کلام سے واضح ہوتا ہے کہ أقرأ کو تبھی مقدم کیا جائے گا جب وہ احوالِ نماز کی بھی معرفت رکھتا ہو۔“
شیخ ابن عثیمین (تـ ١٤٢١) فرماتے ہیں:
فلو وُجِد أقرأ، ولكن لا يَعلم فِقه الصلاة، فلا يعرف من أحكام الصَّلاة إلَّا ما يعرفه عامَّةُ الناس من القراءة والركوع والسجود؛ فهو أَوْلى من العالم فِقهَ صلاته[12].
”اگر ایسا قاری موجود ہو جو احکام صلاۃ سے واقف نہ ہو، اسے نماز کے مسائل کا اتنا ہی علم ہو جتنا ایک عامی شخص کو قراءت اور رکوع وسجود کا ہوتا ہے؛ پھر بھی وہ فقیہ پر مقدم ہونے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔“
سابقہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احادیث کا ظاہر اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو شخص قرآن زیادہ حفظ کئے ہوئے ہو اور بہترین انداز سے تلاوت بھی کرتا ہو تو ایسے شخص کو بقیہ تمام لوگوں پر حق امامت میں برتری حاصل ہوگی اور نا صرف یہ بات برتری تک رہے گی بلکہ نبی ﷺ نے حکما ً فرمایا ہے کہ ایسا شخص ہی امامت کرائے تاکہ نماز میں کسی بھی قسم کی غلطی سے بچا جاسکے۔ اگر کوئی شخص قاری ہونے کے ساتھ عالم بھی ہو تو ایسے شخص کو مقدم کرنے میں کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ امامت کے یہ تمام معیارات مقرر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ نماز میں کسی بھی قسم کی غلطی سے بچا جاسکے۔
غیر مجود امام کے پیچھے قاری کی نماز
اگر کوئی امام غلطی کرتا ہے تو خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اسے تنہائی میں سمجھائیں، اسے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا کہیں، اگر تو وہ تعلّم کے ذریعے اپنی غلطی کی اصلاح کرلے تو بہت خوب، اس میں امام اور مقتدی تمام لوگوں کے ساتھ خیر خواہی ہے۔
اگر امام کوشش کے باوجود اپنی غلطی درست نہ کرپائے تو وہ معذور ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی صلاحیت سے زیادہ کا مکلّف نہیں بناتا، لہٰذا ایسے شخص کی امامت اس جیسوں کے لیے تودرست ہوگی۔ البتہ جو لوگ اس سے بہتر پڑھ سکتے ہیں ان کے لیےاس کے پیچھے نماز درست نہیں ۔
امام حسن بصری (تـ ١١٠) سے پوچھا گیا: ہمارا امام تلاوت میں غلطی کرتا ہےتو آپ نے فرمایا: اسے امامت سے ہٹا دو [13]۔ امام ابو عمرو الدانی (تــ ٤٤٤) شرح خاقانیہ میں اس قول کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:
وكذا السنة في من تلك حاله أن يؤخر عن الصلاة بالجماعة إذا كان فيهم من يميز ذلك أحسن منه، ووجد منه عوض [14].
”جس کا تلاوت میں اس جیسا حال ہو تو اس کے لیے یہی سنت ہے کہ اسے جماعت کروانے سے ہٹا دیا جائے، جب اس سے بہتر قاری موجود ہو۔“
حنبلی فقیہ أبو القاسم الخرقی (تـ ۳۳٤) رقمطراز ہیں:
وإن أم أمي أميا وقارئنا أعاد القارئ وحده الصلاة [15].
”اگر کوئی اُمی شخص اُمی اور قاری کو امامت کرائے؛ تو قاری اپنی نماز دہرائے گا۔“
” اُمی “کی وضاحت کرتے ہوئے شارح الخرقي علامہ شمس الدین الزرکشی (تـ ٧٧٢) فرماتے ہیں:
’’ عرفِ فقہاء میں”اُمی “سے مراد ایسا شخص ہے جو سورۃ الفاتحہ کی درست تلاوت نہ کرسکے[16]۔‘‘
سرّی نمازوں میں کسی کی بھی اقتداء میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں قراءت سری ہوگی تو لہٰذا کسی قسم کی غلطی کے اظہار کا امکان نہیں ہے۔علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
وَإِنْ صَلَّى الْقَارِئُ خَلْفَ مَنْ لَا يُعْلَمُ حَالُهُ فِي صَلَاةِ الْإِسْرَارِ صَحَّتْ صَلَاتُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ لَا يَتَقَدَّمُ إلَّا مَنْ يُحْسِنُ الْقِرَاءَةَ [17].
”اگر قاری ایسے شخص کے پیچھے سرّی نماز پڑھے جس کے احوال کا علم نہ ہو تو اس کی نماز درست ہوگی؛ کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ نماز کے لیے وہی آگے بڑھا ہوگا جو اچھی تلاوت کرتا ہے۔“
غیر مجود یا غلطی کرنے والے امام کی دو حالتیں ہیں : سورۃ فاتحہ (فرضی قراءت ) میں غلطی کرتا ہے یا سورۃ فاتحہ کے علاوہ ( غیرفرضی قراءت ) میں غلطی کرتا ہے ۔
سورہ فاتحہ کے علاوہ قراءت میں غلطی کرنے والا امام
اگر کوئی امام سورۃ الفاتحہ کے علاؤہ قراءت میں غلطی کرے تو اس کی اقتداء میں نماز درست ہوگی کیونکہ اس نے فرض قراءت صحیح طریقے سے کرلی ہے۔ البتہ اگر وہ شخص فاتحہ کے علاؤہ قراءت میں جان بوجھ کر غلط پڑھے تو اس شخص کی نماز بھی باطل ہے اور مقتدیوں کی بھی۔
امام نووی شافعی (تـ ٦٧٦) فرماتے ہیں:
وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِ الْفَاتِحَةِ صَحَّتْ صَلَاتُهُ وَصَلَاةُ كُلِّ أَحَدٍ خَلْفَهُ لِأَنَّ تَرْكَ السُّورَةِ لَا يُبْطِلُ الصَّلَاةَ فَلَا يُمْنَعُ الِاقْتِدَاءُ [18].
” اور اگر فاتحہ کے علاؤہ قراءت میں غلطی ہو تو اس امام کی نماز بھی درست اور مقتدیوں کی بھی؛ کیونکہ (فاتحہ کے علاوہ) سورت کی تلاوت کو چھوڑنا نماز کو باطل نہیں کرتا، لہذا یہ اقتداء سے مانع نہیں ہے۔“
ابو الخطاب الكلوذانی الحنبلی (تـ ٥١٠) فرماتے ہیں:
وَإنْ كَانَ في غَيْرِ الفَاتِحَةِ لَمْ تَبْطُلْ إذَا لَمْ يَتَعَمَّدْ ذَلِكَ [19].
”اور اگر فاتحہ کے علاؤہ میں غلطی کرے تو نماز باطل نہ ہوگی، جب یہ غلطی عمداً نہ ہو۔“
امام ابن قدامہ (تـ ٦٢٠) فرماتے ہیں:
فإن أحال المعنى في غير الفاتحة، لم يمنع صحة الصلاة، ولا الائتمام به، إلا أن يتعمده، فتبطل صلاتهما [20].
”اگر غلطی سے فاتحہ کے علاؤہ تلاوت میں معنی بدل جائے، تو یہ صحتِ نماز اور اقتداء میں مانع یا رکاوٹ نہیں ہے، الا یہ کہ وہ جان بوجھ کر غلطی کرے، تو امام و مقتدی دونوں کی نماز باطل ہو جائے گی۔“
سورہ فاتحہ میں قراءت میں غلطی کرنے والا امام
اس کی دو صورتیں ہوں گی: ایسی غلطی جس سے کلامِ الٰہی کے حقیقی معنی بدل جائیں یا ایسی غلطی جو معنی پر اثر انداز نہ ہو۔
دونوں صورتوں کو ذیل میں مفصّل بیان کیا گیا ہے۔
سورۃ فاتحہ میں ایسی غلطی جو معنی بدل دے:
ایسے امام کی اقتداء درست نہیں جو فاتحہ میں ایسی غلطی کرے جس سے معنی فاسد ہوجائے۔ یہ شوافع، حنابلہ اور ایک قول کے مطابق مالکیہ کا مذہب ہے۔
امام نووی شافعی (تـ ٦٧٦) فرماتے ہیں :
’’ تلاوت میں لحن کرنے والے کا امامت کرانا مطلقاً درست نہیں ۔البتہ پھر دیکھا جائیگا کہ آیا اس غلطی سے معنی پر اثر پڑتا ہے یا نہیں... اگر اس کی غلطی معنی پر أثر انداز ہورہی ہو، مثلاً وہ پڑھے: ”أنعمتُِ علیھم“ تا کے ضمہ یا کسرہ کے ساتھ؛ تو اس کی اپنی نماز بھی باطل اور اس کی اقتداء بھی جائز نہیں [21]۔‘‘
حنبلی فقیہ ابن قدامہ (تـ ٦٢٠) فرماتے ہیں:
وَمَنْ تَرَكَ حَرْفًا مِنْ حُرُوفِ الْفَاتِحَةِ؛ لِعَجْزِهِ عَنْهُ، أَوْ أَبْدَلَهُ بِغَيْرِهِ، كَالْأَلْثَغِ الَّذِي يَجْعَلُ الرَّاءَ غَيْنًا، وَالْأَرَتِّ الَّذِي يُدْغِمُ حَرْفًا فِي حَرْفٍ، أَوْ يَلْحَنُ لَحْنًا يُحِيلُ الْمَعْنَى، كَاَلَّذِي يَكْسِرُ الْكَافَ مِنْ إيَّاكَ، أَوْ يَضُمُّ التَّاءَ مِنْ أَنْعَمْتَ، وَلَا يَقْدِرُ عَلَى إصْلَاحِهِ، فَهُوَ كَالْأُمِّيِّ، لَا يَصِحُّ أَنْ يَأْتَمَّ بِهِ قَارِئٌ [22].
”جس نے فاتحہ کے حروف میں سے کوئی حرف ترک کردیا یا اسے کسی دوسرے حرف سے بدل دیا، یا کسی حرف کا دوسرے حرف میں ادغام کردیا، یا کوئی ایسی غلطی کردی جس سے معنی بدل گیا، مثلا: إيَّاكِ کے ک کو زیر سے پڑھ دیا یا أنعمتُ کے ت کو ضمہ سے پڑھ دیا، اور وہ شخص اس کی اصلاح پر قادر بھی نہ ہوا تو وہ اُمّی کی مانند ہے، اس کے پیچھے قاری کی اقتداء درست نہیں۔“
مالكی فقیہ أبو الحسن القصّار فرماتے ہیں:
وَإِنْ كَانَ يُغَيِّرُ الْمَعْنَى فَيَقُولُ:إيَّاكِ نَعْبُدُ، وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ، فَيَجْعَلُ الْكَافَ لِلْمُؤَنَّثِ، وَالْإِنْعَامَ لِنَفْسِهِ لَمْ يَجُزْ [23].
“اگر غلطی معنی بدل دے، مثلا وہ کہے: إيَّاكِ نَعْبُدُ ک کو ضمیر مؤنث بنا کر کسرہ کے ساتھ اور أَنْعَمْتُ میں اِنعام کی نسبت اپنی طرف کرکے ت پر ضمہ پڑھے تو اس کی امامت جائز نہیں۔“
سعودی عرب کے کبار علماء کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ہے کہ
وإن كان لحنه في الفاتحة يغيِّر المعنى : فالصلاة وراءه باطلة [24].
”اگر اس کی غلطی فاتحہ میں ہو اور اس سے معنی پر بھی اثر پڑے تو اس کے پیچھے نماز باطل ہوگی۔“
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام بنانے سے نبی ﷺ کے حکم (قاری کو باقیوں پر مقدم کرو) کی مخالفت ہوگئی، جو کہ نماز کے فساد کا تقاضا کرتی ہے[25]۔
سورۃ فاتحہ میں ایسی غلطی جس سے معنی پر کوئی اثر نہ پڑے: (خواہ وہ لحنِ جلی ہی ہو)
ایسے امام کی اقتداء کرنا مکروہ ہے لیکن اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ یہ جمہور علماء کرام کا مذہب ہے بلکہ اس کے پیچھے نماز کے فاسد نہ ہونے پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔ امام نووى فرماتے ہیں:
’’ اگر امام ایسی غلطی کرے جو معنی پر أثر انداز نہ ہو، مثلاً وہ الحمد لله میں ھ پر ضمہ کے ساتھ پڑھے، تو اس کی اپنی نماز بھی درست ہے اور اس کی اقتداء میں پڑھنے والوں کی بھی درست ہے[26]۔‘‘
شيخ ابن باز (تـ ١٤٢٠) سے سوال ہوا کہ جو امام تلاوت میں غلطیاں کرے یعنی آیات میں کبھی کوئی حرف بڑھا دے، کبھی کوئی حرف کم کردے، ایسے شخص کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا :
’’اگر غلطی معانی پر اثر انداز نہ ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر غلطی معانی میں بگاڑ کا باعث بنے تو ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، پھر اگر وہ شخص سیکھ کر اپنی تلاوت کی اصلاح کرلے تو اس کی نماز وقراءت درست ہے[27]۔ ‘‘
فتاوى ٰعالمگیری میں درج ہے:
إذا لحن في الإعراب لحنًا لا يغيِّر المعنى، بأن قرأ: لا ترفَعوا أصواتُكم برفع التاء، لا تفسُدُ صلاتُه بالإجماع[28].
”جب اعراب میں ایسی غلطی کرے جس سے معنی نہ بدلے، مثلا وہ: لا ترفعوا أصواتُكم میں ت پر پیش پڑھے ، تو اس کی نماز بالإجماع فاسد نہ ہوگی۔“
اس کے پیچھے نماز اس لئے درست ہے کہ اس نے فرض قراءت صحیح کرلی ہے[29]۔ اوراس کی اقتداء اس لیے مکروہ ہے کہ امامت محلِّ کمال ہے، جبکہ ان غلطیوں کے ساتھ اس میں نقص واقع ہوتا ہے[30]۔
[1] صحيح مسلم:٦٧٢
[2] صحيح مسلم:٦٧٣
[3] شرح المشكاة للطيبي :4/1152
[4] المنهاج :5/172
[5] صحيح بخاری: ٧١٧٥
[6] مرقاة المفاتيح :3/870
[7] المنهاج :5/173
[8] صحيح بخاری: ٤٠٥١
[9] حاشية السندي على سنن النسائي ٧٦/٢
[10] فتح الباري لابن رجب:4/120
[11] تحفة الأحوذي :2/29
[12] الشرح الممتع:4/205
[13] مقدمة سنن سعيد بن منصور: ١٧٦
[14] شرح قصيدة أبي مزاحم الخاقاني، دراسة وتحقيق: غازي بن بنيدر العمري: ٧٤٥
[15] مختصر الخرقي: ٢٩
[16] شرح الزركشي على مختصر الخرقي :2/93
[17] المغني:2/145
[18] المجموع شرح المهذب:4/269
[19] الهداية على مذهب الإمام أحمد : صـ ١٠٠
[20] المغنی :3/32
[21] روضة الطالبين:1/350
[22] المغني :2/145
[23] مواهب الجليل في شرح مختصر خليل للرعيني:2/99
[24] فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء:2/527
[25] البيان للعمراني:2/405
[26] روضة الطالبين:1/350
[27] مجموع فتاوى ابن باز:12/98
[28] الفتاوى الهندية:1/81
[29] المغني:2/146
[30] البيان للعمراني:2/408