دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ

دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ پچھلے دنوں کی قانون سازی سے بظاہر حل ہوگیا ہے لیکن دراصل حل نہیں ہوا جیسا کہ آئندہ سطور کی وضاحت سے معلوم ہوگا۔

دینی مدارس کی رجسٹریشن ، نصاب اور دوسرے مسائل کی دو بنیادی وجوہ ہیں: ایک تو یہ کہ مغرب کو دینی مدارس کا وجود اور ان کا نظامِ تعلیم کھٹکتا ہے اور وہ انہیں پہلے مرحلے میں کمزور ، غیر مؤثر اور دوسرے مرحلے میں ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح اور بہتری کے نام پر اور دینی مدارس کو تعلیم کے مرکزی دھارے میں (جو پہلے سے مغرب کی الحادی فکروتہذیب اور اس کے نظام تعلیم کی اساسات کو قبول کرچکا ہے) شامل کرنے کے نام پر پاکستان پر دباؤ بھی ڈالتا ہے اور مالی امداد بھی دیتا ہے۔ مغرب کی دوسری تزویراتی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے اس نے اپنے مد مقابل سوویت روس کی گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کو  افغانستان میں روکنے کے لیے دس سال تک افغان مجاہدین اور پاکستان سے مل کر کامیاب جنگ لڑی اور اس کے نتیجے میں شکست کھا کر سوویت روس ٹوٹ گیا۔ پھر بیس سال تک اس نے افغانستان پر جنگ مسلط رکھی لیکن اس میں وہ افغانیوں کو شکست نہ دے سکا۔ اسی دوران اس نے یہ بات نوٹ کی کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والے افغان قبائل درحقیقت ایک ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقے کے مجاہدین، افغان مجاہدین کی مدد بھی کرتے ہیں اور انہیں پناہ بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ اس نے پاکستانی حکومت اور فوج کو دھمکی دی کہ پاکستانی علاقے کے قبائل کو کنٹرول کرے ورنہ وہ اس علاقے پر باقاعدہ حملے کرے گا۔ یوں اس نے پاکستانی فوج کو مجبور کردیا کہ وہ پاکستانی قبائل کو اسلحے کےزورپر افغانستان جانے سے روکے۔ پٹھان چونکہ مسلح ہوتے ہیں اس لیے انہیں اپنے وجود اور علاقے کو بچانے کی خاطر پاکستانی فوج کے خلاف دفاعی گوریلا جنگ لڑنا پڑی اور یوں پاکستانی طالبان وجود میں آئے۔ چونکہ طالبان افغانی ہوں یا پاکستانی ، ان کی نظریاتی اساس اسلام سے وابستگی پر ہے جس میں علماء اور دینی مدارس کا بنیادی کردار ہے، اسی لیے اقبال نے دہائیوں پہلے کہا تھا کہ؎

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

چنانچہ روس کے خلاف افغان جنگ میں امریکہ اور پاکستان نے نہ صرف کھلم کھلا افغان مجاہد گروپوں کی حمایت کی بلکہ اس علاقے کے دینی مدارس کی بھی مدد کی اور روس کے خلاف جنگ میں انہیں استعمال کیا۔ اب جب امریکہ ویورپ نے افغانستان پر قبضہ کرنا چاہا اور وہاں گماشتہ حکومت قائم کرلی اور علاقے میں چینی پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے پاکستانی حکومت او رفوج کو ساتھ ملا لیا اور اس نے طالبان مجاہدین کو کچلنے کی کوششیں تیز کردیں اور وہ دینی مدارس کے بھی خلاف ہوگیا اور انہیں پاکستان کی گماشتہ حکومت کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دوران پاکستانی حکومت نے دینی مدارس پر سختیاں شروع کیں۔ ان کی رجسٹریشن کا سلسلہ روک دیا۔ غیر ملکی طلبہ کو پاکستانی مدارس سے نکال دیا (جن میں سے کئی بھارت چلے گئے اور مسلم وپاکستان دشمن بھارت کو انہیں پاکستان مخالف ذہن سازی کا موقع مل گیا) ، ان کے بینک اکاؤنٹ کھولنے پر پابندی لگ گئی۔ علاوہ ازیں انہیں وزارت داخلہ کے ماتحت رکھا گیا اور خود آرمی چیف نے کئی مرتبہ مدارس کے وفاقوں کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے نصاب ونظام کو بدلنے ، جدید عصری علوم پڑھانے اور ملک کے مرکزی تعلیمی دھارے میں ان کی شمولیت پر زور دیا۔

اُس وقت ملک میں دینی مدارس کے پانچ بڑے وفاق (حکومت سے منظور شدہ امتحانی بورڈ) تھے اور وہ متحد تھے اور حکومتی اقدامات کی مقدور بھر پُر امن مزاحمت کررہے تھے کیونکہ وہ مدارس کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس وقت مدارس ومساجد کی رجسٹریشن ایک ڈائر یکٹوریٹ کرتا تھا جو انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ سے ملحق تھا جو انگریز کے زمانے سے غیر کمرشل، فلاحی، چیریٹی اداروں کی رجسٹریشن کرتا تھا۔ جو ادارے اس سے رجسٹرہوتے تھے وہ اپنے کام میں آزاد ہوتے تھے اور ان پر کوئی پابندی اس کے سوا نہ تھی کہ وہ سالانہ اپنے حسابات ، کارکردگی رپورٹ اور اپنی NGOکے انتظامی ارکان کی فہرست اس ادارے میں جمع کرادے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کا مطالبہ بھی اکثر نہ کرتا تھا اور لوگ ایک دفعہ رجسٹریشن کراکر برسوں بلکہ دہائیوں آزادی سے کام کرتے رہتے تھے۔

اب جب مغربی دباؤ بڑھا اور اس نے پاکستانی مجاہدین کو جنہیں اب وہ دہشت گرد کہتا تھا ، مالی امداد روکنے (یعنی منی لانڈرنگ کے نام پر) پاکستان کو گرے لسٹ (Gray List) میں شامل کردیا اور اس دباؤ کے تحت مدارس ومساجد کی آزادی چھیننے اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے مدارس ومساجد کے لیے اوقاف کے نئے قوانین بنوائے ۔ پہلے انہیں قومی اسمبلی وسینٹ سے وفاقی علاقے اسلام آباد کے لیے منظور کرایا اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے بھی اسے منظور کرالیا گیا کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اب صوبائی مسئلہ بن چکی ہے (یہ بھی بہت غلط ہوا اور مغربی دباؤ پر ہی ہوا تاکہ ملک میں ذہن سازی اور تعمیر سیرت کے کام میں اتحاد ویکجہتی نہ رہے اور ملک کی نظریاتی اساس کمزور ہو جائے) ۔

ملک کے پانچ دینی تعلیم کے وفاق چونکہ متحد ہو کر’ اتحاد تنظیمات مدارس‘ کے نام پر مرکزی حکومت کی پرامن مزاحمت کررہے تھے اس لیے حکومت نے ان کا زور توڑنے کے لیے دس نئے وفاقوں (امتحان بورڈوں) کی منظور ی دے دی اور دینی مدارس کی وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ الحاق کا راستہ کھول دیا۔ اس ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر جنرل آج کل ایک میجر جنرل صاحب ہیں۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ مدارس کی تعلیم کو وزارت تعلیم کے تحت رکھ کر کنٹرول کیا جائے اور فوجی سربراہ جب چاہیں فوجی نقطۂ نظر سے مدارس کے کس بل نکال سکیں۔ یاد رہے کہ فیٹف(FATF) کے تحت جو قانون مدارس ومساجد کے تحت بناتھا، اس کے مطابق حکومت جب چاہے کسی مدرسے اور مسجد کو حکومتی کنٹرول میں لے سکتی ہے اور اس کی پرائیویٹ سیکٹر کی حیثیت کو ختم کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ان کو موزوں وقت کا انتظار رہے تاکہ ممکنہ خلفشار سے نمٹا جاسکے۔ جب وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن شروع ہوئی تو قدیم پانچ وفاقوں نے اس کے تحت رجسٹریشن کرانے سے انکار کردیا جب کہ نئے بننے والے دس وفاقوں میں سے جتنے فعال تھے ، ان کے مدارس نے رجسٹریشن کرالی۔

جب حکومت پاکستان عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے 26 ویں ترمیم منظور کرا رہی تھی اور اسے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ووٹوں کی ضرورت تھی تو مولانا نے جہاں حکومت کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی وہیں ان سے کچھ دینی معاملات میں رعایتیں بھی مانگیں ۔ ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ دینی مدارس کو وزارت انڈسٹری کے تحت رجسٹریشن کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خود مختاری سے کام کرتے رہیں۔ چنانچہ انہی دنوں 26 ویں آئینی ترامیم کے ساتھ یہ مدارس والا ترمیمی بل بھی دونوں ایوانوں سے پاس ہوگیا۔ جب 26ویں آئینی ترمیم والا کام ہوگیا تو اب حکومت کو خیال آیا کہ اس نے خواہ مخواہ مدارس بل پاس کردیا۔ چونکہ وہ دونوں ایوانوں سے پاس ہوچکا تھا اس لیے اب اسے روکنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ صدر مملکت اس پر اعتراضات لگادیتے جو انہوں نے حکومت کے مطالبے پر لگادیے او رقانون کی منظوری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر سبکی محسوس کی اور انہوں نے حکومت کے خلاف بیانات دینے شروع کیے۔

حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن اور تنظیمات مدارس کا توڑ کرنے کے لیے نئے بننے والے دس وفاقوں جن کے قائدین پہلے ہی حکومت کے پسندیدہ اور چنیدہ تھے او رحکومت واسٹیبلشمنٹ کے حمایتی علماء کا اجلاس بلالیا جنہوں نے حکومتی ایماء پر وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کی حمایت کی۔ اس طرح حکومت یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئی کہ علماء میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے اختلاف ہے بلکہ یہ کہ اس کے دوگروپ ہیں۔ ایک وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کرانا چاہتا ہے اور دوسرا انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ۔ حکومت نے پہلے گروپ کے مطالبے کو یہ کہہ کر اہمیت دینی شروع کی کہ مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں اس لیے ان کا الحاق وزارت تعلیم ہی سے ہونا چاہیے جبکہ دوسرا گروپ انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ سے اس لیے رجسٹریشن کو ترجیح دے رہا تھا کہ اس میں ان کے لیے زیادہ آزادی ہے۔ حکومت نے دونوں گروپوں کے ساتھ مشاورت کرکے یہ حل نکالا کہ دینی مدارس کو دونوں طرح کی رجسٹریشن کی اجازت دے دی کہ جو چاہے وزارت تعلیم کےساتھ رجسٹریشن کرالے اور جو چاہے انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ۔ لیکن ایک الجھن اب بھی ایسی ہے جس نے انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹریشن کرنے والوں کو مخمصے میں ڈالا ہوا ہے اور وہ یہ کہ تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے لہٰذا مرکزی حکومت یا وفاقی وزارت تعلیم جو بھی فیصلے کرے، صوبائی حکومتیں اس پر عمل درآمد کی پابند نہیں۔ اسی لیے صوبائی حکومتوں نے مدارس کی انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ سے رجسٹریشن کرانی شروع نہیں کی اور مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔

یہ تو ہوا دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ۔ اس کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں اصلاحات کیسے کی جائیں۔ حکومت کی خواہش ہے کہ دینی مدارس اپنے ہاں جدید تعلیم کے مضامین پڑھانا شروع کردیں اور مرکزی تعلیمی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ علماء کرام کو اس میں تردد یہ ہے کہ ماضی میں اس طرح کی کوششوں کے نتائج مفید نہیں نکلے۔ بہاولپور کی جامعہ عباسیہ کو ’’اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور‘‘ میں بدلا گیا اور آج وہ دیگر جدید یونیورسٹیوں کی طرح کی ایک عام یونیورسٹی بن چکی ہے اور اس کا خصوصی اسلامی کردار ختم ہوچکا ہے۔ اوقاف کے دینی مدارس عموماً برائے نام اور کاغذی کاروائی کی سطح تک محدود ہیں۔ ملک کی واحد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی اپنا کردار بتدریج کھوتی چلی جارہی ہے۔ اس لیے دینی مدارس اپنی آزادی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ان کو ڈر ہے کہ اگر وہ کسی بہانے حکومتی دائرہ کار میں چلے گئے تو جلدیا بدیر وہ اپنا وجود کھو دیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت مدارس میں جو اصلاحات لانا چاہتی ہے وہ دینی وفاقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد لائے بلکہ بہتر ہوگا کہ اس کے لیے جو کمیٹی یا کمشن بنایا جائے اس میں مدارس کو معتدل مزاج علماء کرام شامل ہوں۔

جہاں تک عصری علوم کو پڑھانے کا سوال ہے بلاشبہ دینی مدارس کو اس طرف، ایک حکمت کے ساتھ، آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اسلام میں دین ودنیا کے الگ ہونے کا تصور موجود نہیں اور ہمارے اسلاف کے ہاں بھی علوم میں دین ودنیا کی تفریق نہ تھی بلکہ نظام تعلیم موحد تھا اور وہ علماء کرام کے ساتھ دوسرے شعبوں کے افراد بھی تیار کرتا تھا جو معاشرے اور ریاست کے مفید کارکن ہوتے تھے لیکن اس کے لیے یہ بالکل غیر مناسب ہے کہ موجودہ درس نظامی کے ساتھ عصری علوم کا اضافہ کردیا جائے کیونکہ اس سے طلبہ پر بوجھ بڑھ جائے گا اور اس سے بھی اہم یہ کہ جدید عصری علوم مغرب کی الحادی فکروتہذیب کی پیداوار ہیں اور ان میں انکار خدا ورسول وآخرت کے جراثیم اسی طرح موجودہیں جس طرح جسم میں خون رواں ہوتا ہے اس لیے مغرب کےترقی دارد عصری علوم کو ہرگز دینی مدارس کو قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے مغربی علوم کی اسلامی تشکیل نو کی جائے اور انہیں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے، پھر اسلامی علوم اورعصری علوم کو ایک وحدت کے طور پر اکٹھے پڑھایا جائے۔ دینی مدارس کو کچھ عمرانی علوم جیسے اسلامی معاشیات، تربیت اساتذہ، اسلام اور پولیٹکل سائنس، اسلام وذرائع ابلاغ اور اسلام ومغربی تہذیب وغیرہ کے مضامین تو پڑھانے چاہئیں لیکن اس کےلیے بھی نئے نصابات اور نئی نصابی کتب مدون کرناپڑیں گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں البتہ چند لیکچرز کافی ہوں گے تاکہ طلبہ کو ان کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہو جائیں۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایچ ای سی نے بی اے، ایم اے کو ختم کردیا ہے اور اب دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ پرائیویٹ طور پر بی اے، ایم اے کرسکیں۔ اب اس کی جگہ بی ایس کا چار سالہ نظام نافذ کردیا گیا ہے جس کا امتحان پرائیویٹ طور پر نہیں دیاجاسکتا، جبکہ دینی مدارس کی ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کی اسناد کو پہلے سے میٹرک اور ایف اے کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ اس طرح گویا مدارس کو مجبور کیا جارہا  ہے کہ ان کے طلبہ میٹرک اور ایف اے کا امتحان دیں اور پھر چار سالہ بی ایس اور اس کے بعد ایم فل وپی ایچ ڈی کریں ورنہ اس سے باہر رہیں اور مساجد ومدارس کے علاوہ کہیں کام نہ کرسکیں۔ غالباً ایچ ای سی نے یہ نظام جاری ہی اس لیے کیا ہے تاکہ دینی مدارس کے طلبہ کو زبردستی تعلیم کے مرکزی دھارے میں لایا جائے اور دینی مدارس کی تعلیم کے موجودہ نظام کو بتدریج ختم کردیا جائے۔ یہ بات دینی مدارس کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور انہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔  

پروفیسر ڈاکٹر محمد امین

( سیکریٹری جنرل ملی مجلس شرعی پاکستان)