مدارس کی رجسٹریشن کا قضیہ اورمناسب لائحہ عمل
اسلام کا اپنا نظام تعلیم ہے ، جو اس قدر مضبوط اور وسعت رکھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تعلیم یافتہ افراد بیک وقت ریاست کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے تھے ۔وہ امام ، مدرس ، مفتی ، قاضی ، جنرل ، منتظم ، گورنر اور سربراہ ریاست سمیت ہر شعبے اور ہر لیول پر کام کر سکتے بلکہ کرتے تھے ۔ یعنی اسلامی نظام تعلیم معاشرے کی تمام ضروریات پوری کرتا تھا۔ بعد میں خلافت راشدہ ، خلافت بنو امیہ ،خلافت بنو عباس ، خلافت عثمانیہ حتیٰ کہ ہندوستا میں مسلمان حکومتوں کے ادوار میں یہی طرز تعلیم تھا ۔ مغل دور میں ہندوستان میں شرح خواندگی دنیا میں سے زیادہ تھی ۔
انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ تعلیم کی موجود صورتحال میں وہاں کے باشندوں پر حکومت کرنا آسان نہیں۔ تو انگریز حکومت نے قوم کو ایجوکیٹ کرنے کی بجائے انہیں ان پڑھ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ انہوں نے مغل دور کے نظام تعلیم پر پابندی لگادی ، مدارس بند کردیئے ، ان کے مالی وسائل بحق سرکاری ضبط کرلیے، اگلی نسل پڑوان چڑھی تو وہ چٹی ان پڑھ تھی ۔پھر لارڈ میکالے کی نگرانی میں ایک نظام تعلیم وضع کیا جس کا بنیادی ٹارگٹ انگریز گورنمنٹ کے وفادار نوکر پیدا کرنا تھا ۔اس میں عصری فنون کو شامل کیا گیا ، دین اور روحانیت کو کلی طور پر ختم کر دیا ۔دنیا داری ، مادہ پرستی ، انگریز حکومت سے وفا داری کو کامیابی کی کلید قرار دیا ۔ مسلم تہذیب کو ہیچ ، مغربی کلچر کو قابل احترام اور طاقتور دکھایا گیا ، آخرت کا تصور ختم کردیا ، دنیوی زندگی کو اخروی زندگی اور دنیا کی کامیابی کو حقیقی کامیابی قرار دیا گیا ۔پیسہ ، ٹیپ ٹاپ ، مالی وسائل کے حصول کو حقیقی ترقی جبکہ امانت داری ، دیانت داری ، ایفائے عہد اور سچائی کو فضول کی چیزیں گردانا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی سالوں میں ایسی قوم تیار ہوگئی جو غلامانہ ذہنیت کے ساتھ ساتھ مذہب ، اسلامی تہذیب، مسلم معاشرت اور مشرقی روایات سے تہی دامن تھی ۔ان کے پیش نظر سرکاری نوکری ، اچھی تنخواہ ، اعلیٰ سٹیٹس ، بلند معیار زندگی تھی ۔ اس کے حصول کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے انہیں کچھ عار نہ تھی۔
ان مشکل ترین حالات میں علماء کرام نے اپنی مساجد ، گھروں اور حجروں میں دینی علوم کی تعلیم دینی شروع کردی ۔یہ چھوٹے چھوٹے حلقات آہستہ آہستہ دینی مدراس کی شکل اختیار کر گئے ۔
اس طرح ہندوستان میں دو نظام تعلیم وجود میں آگئے : میکالے کانظام تعلیم جو دین اور روحانیت سے تہی دامن ، خالص دنیا داری سے متعلقہ فنون کی تدریس پر مشتمل تھا ، دوسرا صرف دینی علوم و فنون پر مشتمل علماء کا نظام تعلیم ۔ اس طرح معاشرے دو حصوں ملا اور مسٹر میں بٹ گیا ۔
ہندوستان میں اس کامیاب تجربے کو انگریز نے دوسرے زیر قبضہ ممالک میں بھی دھرایا ، لیکن جیسے ہی ان ممالک کو آزادی حاصل ہوئی وہاں کے ذمہ داران نے معاشرے کی تعمیر نو کی ، نظام تعلیم کو اپنی اقدار اور ضروریات کے مطابق ڈھالا ۔ مگر افسوس ہمیں آزادی ملی تو انگریزی نظام تعلیم کے تیار کردہ غلام ذہنیت کے لوگ اس ملک پر مسلط ہوگئے ، انہوں نے آئین سے لے کر نظام تک ہر چیز میں ناموں کےسوا کچھ تبدیلی نہ کی ۔
پاکستانی حکومت نے اسی نظام کو گود لیا جس کی انگریز نے آبیاری کی تھی ، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نسل اسی کی کلون شدہ شکل تھی جو انگریز نے پیدا کی تھی ۔آج بھی کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں سیٹ پر بیٹھے ہوئے افسر کا قوم کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسا انگریز کا اپنے غلاموں کے ساتھ تھا، وہی مادہ پرستانہ ذہنیت جو انگریزی تعلیم کا محور تھی ، اہل دین سے وہی نفرت و حقارت کا رویہ جو انگریز نے پیدا کیا تھا ۔
جب علماء کرام نے دیکھا کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں بھی حکومت انگریزی نظام تعلیم کی سرپرستی کررہی ہے تو انہوں نے دینی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی کوششیں شروع کردیں ۔
انگریز حکومت نے 1860ء میں سوسائٹی ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنایا تھا جس میں کوئی بھی شخص اپنا ادارہ رجسٹرڈ کرا کر خدمت خلق کا کوئی کام کرسکتا تھا ، چونکہ مدارس بھی خدمت خلق ہی کررہے تھے ، اس لیے مدارس کو بھی اسی قانون کے تحت رجسٹرڈ کرانا شروع کردیا ۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا ، کیونکہ سارا اختیار انگریزکی تربیت یافتہ نوکر شاہی کے پاس تھا ۔اس کے باوجود بہت سارے مدارس رجسٹرڈ کرائے گئے ۔
ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے اور انہوں نے سوشل ازم کا نعرہ لگایا تو ملک بھر کے تمام صنعتی ادارے بحق سرکاری ضبط کرلیے ۔ بڑے بڑے پرائیویٹ مدارس اور سکولز بھی قومیا لیے گئے، ان میں 118 مشنری ادارے اور 346 اسلامی سکول و کالجز تھے ۔ جن میں مختلف شہروں میں اسلامیہ کالجز کےنام سے ایک چین ، حمایت اسلام سکولز و کالجز ، ریاست بہاولپور کی جامعہ اسلامیہ بہاول پور (جسے ریاست نے 1928ء میں مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر قائم کیا تھا) ، ریاست سوات کا قائم کردہ دار العلوم اسلامیہ سیدو شریف تھے ،جن میں سرکاری یا انگریزی نظام تعلیم رائج کردیا گیا ۔ آج بہاولپور یونیورسٹی کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے بانیان نے اسے ایک دینی ادارے کے طور پر قائم کیا تھا !
جنرل ضیاء الحق نے عنان حکومت سنبھالی تو بھٹو دور کی ایک ایک پالیسی کو بدل ڈالا ، ضبط شدہ ادارے متعلقہ لوگوں کو واپس کر دیئے گئے ۔ عیسائی اسکولز و کالجز مشنریز اور چرچوں کو واپس کر دیے گئے ، 1985ء میں سندھ حکومت نے 14 مشنری ادارے واپس کردیئے ۔لیکن کسی اسلامی تنظیم کو ایک بھی ادارہ واپس نہ کیا گیا ۔
علماء کرام نے دین سے ہمدردی رکھنے والے احباب کے تعاون سے نئے سرے سے مدارس قائم کرلیے ۔ حکومت نے مذہبی جماعتوں کو ان کے مدارس کےلیے ایک تعلیمی بورڈ بنانے اور اسناد جاری کرنے کی منظوری دے دی ، اور ان کی اسناد ’ ثانویہ عامہ ‘ کو میٹرک ،’ ثانویہ خاصہ ‘ کو ایف اے ، ’عالیہ‘ کو بی اے اور ’عالمیہ‘ کوایم اے کے برابر قرار دیا ۔ کہا گیا کہ آخری سند’ عالمیہ‘ کو سرکاری اداروں میں قبول کیا جائے گا ۔ یعنی اگر کوئی بچہ ’عالمیہ ‘ کی تکمیل نہیں کرتا تو نیچے والی سندوں کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی ۔سچ تو یہ ہے کہ بورڈز یا یونیورسٹیز کی اسناد کی طرح عالمیہ کی ڈریکٹ کوئی ویلیو نہیں تھی ، بلکہ H.E.C. ایک لیٹر جاری کرتا تھا جس پر یہ لکھا ہوتا تھا کہ یہ سند (عالمیہ) آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے M.A. کے برابر ہے ، کسی دوسرے شعبے میں استعمال کرنے کے لیے یہ B.A کے برابر ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ کوئی سرکاری یونیورسٹی عالمیہ کی سند کو M.A. کے برابر ماننے پر تیار نہیں تھی ۔ کوئی سرکاری ادارہ اس کی بنیاد پر کسی چھوٹےگریڈ کی نوکری نہ دیتا تھا۔
نائن الیون کے حادثہ کی آڑ میں جب امریکا نے دنیا بھر میں دینی اداروں کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا تو پاکستان کے’ بہادر جرنیل ‘ پرویز مشرف نے امریکی پالیسیوں کے پیش نظر مدارس کے لیے شدید ترین مشکلات پیدا کردیں ۔ رجسٹریشن مشکل کردی گئی ، وزارت داخلہ اور ایجنسیز کو ان پر مسلط کردیا گیا ،بیرون ممالک سے آکر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے داخلے پر نہ صرف پابندی لگائی گئی بلکہ جو پڑھ رہے تھے یک قلم انہیں ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ۔ مدارس کو فنڈنگ پر پابندیاں لگا دی گئیں ۔ اس کے برعکس بھٹو د ور میں قومیائے گئے اداروں میں مزید 59 ادارے مشنریز کو واپس کیئے ، جن میں مری ، شیخوپورہ کے ادارے ،ایف سی کالج ، کنیرڈ کالج جیسے بڑے بڑے ادارے جن کے ساتھ اربوں روپے کی پراپرٹیز تھیں انتہائی منظم اور خفیہ طریقےسے ایک ایک کرکے واپس کردیئے ۔ پھر دو سال قبل مزید 4 ادارے مشنریز کو اپس کیے گئےاور انہیں کھلے عام پرائیویٹ طور پر چلانے کی آزادی دی گئی ۔ لیکن کوئی ایک بھی دینی مدرسہ بلکہ سکول یا کالج واپس نہ کیا گیا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سعودیہ کے تعاون سے اسلام آباد میں جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی قائم کی گئی تھی ، اس کی بھی بین الاقوامی حیثیت ختم کر دی گئی اور اسلامی حیثیت بھی ، ایک عام یونیورسٹی رہ گئی ۔ گویا ہر حکومت نے بیرونی دباؤ پر مدارس کے ساتھ مخاصمت کا رویہ اختیار کیا ۔
جب پرائیویٹ یونیورسٹیز کا سیلاب آیا تو انہوں نے پیسہ کمانے کے لیے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بنائےگئے قانون کا سہارا لے کر عالمیہ کی بنیاد پر ایم فل میں داخلہ دینے کا اعلان کردیا ۔
جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو مذہبی رجحان یا سیاسی مجبوری کے سبب دینی اداروں کے لیے نرمی پیدا کی ، کچھ اداروں کو فنڈز بھی دیے ۔اگست 2019ء میں 1860ء ایکٹ میں تبدیلیاں کرکے مدارس کے لیے کچھ گنجائشیں پیدا کیں ۔ مثلاً مزید کئی تنظیموں کو مدارس کے وفاق قائم کرنے کی اجازت اور کئی اداروں کو یونیورسٹی کادرجہ دیا ، مدارس کی رجسٹریشن سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت وزارت صنعت کی بجائے وزارت تعلیم میں کرنے کی اجاز ت دی ۔ حکومت مدارس میں عصری تعلیم کی حوصلہ افزائی کرے گی ، مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی طلبہ کو حکومت 9 سال کا تعلیمی ویزہ جاری کرے گی ۔
لیکن عملاً یہ ہوا کہ وزارت تعلیم میں ڈریکٹ اور علاقائی سطح پر رجسٹریشن کرنے کی بجائے اسلام آباد میں ایک ’’ڈائریکٹیوریٹ جنرل مذہبی تعلیم ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، وزارت تعلیم کے کسی افسر کی بجائے ایک جنرل صاحب کو اس کا ڈائریکٹر مقرر کیا ، پاکستان بھر کے مدارس کو اسلام آباد آکر رجسٹریشن کرانے کا حکم صادر کیا ، حالاانکہ عصری تعلیم دینے والے سکولز یا کالجز کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں۔ اس لیے مدارس خصوصاً پرانے وفاقوں کے بورڈز نے رجسٹریشن کرانے سے انکار کردیا ۔
پی ایم ڈی کے دور حکومت میں پھر مدارس کی رجسٹریشن کے سلسلے میں نئے سرے سے میٹنگز کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر تعلیم ، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے نمائندے بھی موجود ہوتے تھے ، بحث و تمحیص کے بعد وزیر اعظم صاحب نے ایک مسودے کی منظوری دی جس میں مدارس کو رجسٹریشن کے حوالے سے اختیار دیا گیا کہ وہ سوسائٹی ایکٹ 1860ء کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹرڈ ہوں یا وزارت تعلیم میں،لیکن وزیر اعظم کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پی ڈی ایم کے آخری دور میں نئے سرے سے مذاکرات شروع ہوئے جس میں آرمی چیف اور وزیر اعظم صاحبان سے ملاقاتیں اور میٹنگز ہوئیں ، وزارت تعلیم اور مدارس کے لیے جو ادارہ قائم کیا گیا تھا ان کی تجاویز کی روشنی میں ایک مسودے پر اتفاق ہوگیا ، جس میں وفاقوں کا یہ مطالبہ مان لیا گیا کہ انہیں سول سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے اور خیراتی اداروں (N.G.Os)کے طور پر آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کیاگیا تاکہ یہ باقاعدہ قانون بن جائے ، پھر وجہ بتائے بغیر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اس معاملے میں مداخلت کرتی ہیں اور ہماری حکومتیں عالمی دباؤ کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں۔
دسمبر 24ء میں جب حکومت کو 26ویں آئینی ترمیم پاس کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن صاحب کے ووٹوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اس شرط پر ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کی حامی بھری کہ اسی حکومت نے مدارس کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا ، اسے بطور قانون پاس کیا جائے ۔حکومت نے یہ شرط مجبوراً تسلیم کرلی، ان سے ووٹ لے کر 26ویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ۔ لیکن مدارس بل پر حکومت لیت و لعل سے کام لینے لگی ۔ مولانا صاحب نے اسلام آباد لانگ مارج کی دھمکی دےدی ، حکومت نے نہ اُگلے بنے نہ نگلے بنے کی مصداق قومی اسمبلی سے منظور کرا کر صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو دستخط کرنے کے لیے بھیج دیا ، لیکن باہمی ملی بھگت سے صدر نے دستخط کرنے سے انکار کردیا ، اور بلاوجہ اعتراض لگا کر بل واپس کردیا ۔ پوچھنے پر انہوں نے کہا اسے قانون بنانے سے عالمی طاقتیں ناراض ہوجائیں گی اور پاکستان کو قرضہ دینا بند کردیں گی۔ مولانا کے دباؤ اور دھمکی پر اسے قانون بنایاگیا۔
اس دوران بعض وفاقوں خصوصاً نئے منظور ہونے والے و فاقوں نے اختلاف کیا اور وزارت تعلیم سے الحاق کرنے کو مفید قرار دیا ۔ دراصل دونوں وزارتوں سے الحاق کرنے میں مدارس کے لیے کچھ فوائد اور کچھ نقصانات ہیں ۔آئیے ! اس کا جائزہ لیتے ہیں :
مدارس اگر وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں تو انہیں درج ذیل فوائد کی توقع ہے :
- قومی خزانے سے سکولز اور یونیورسٹیز کوجس طرح فنڈ ملتا ہے ، ان مدارس کو بھی ملے گا ۔
- مدارس کی اسناد کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا ۔
جبکہ درج ذیل نقصانات کا خدشہ ہے :
- سرکاری امداد کے بدلے میں مدارس کو سرکار کی پالیسیوں پر عمل کرنا پڑے گا ، جس سے ان کی آزادی محدود ہوجائے گی ۔
- مدارس کسی قسم کی فنڈنگ اور ذرائع آمدن پیدا کرنے کے مجاز نہیں ہونگے جیسا کہ ایک سکول اور کالج والے چندہ نہیں کرسکتے ۔
- نظام اور نصاب کے حوالے سے مدارس کو حکومتی پالیسی کی پابندی کرنا پڑے گی ۔
- مدارس تعلیمی سرگرمی تک محدود ہوجائیں گے ۔
- کسی بھی قومی ایشو پہ مؤقف دینے میں مدرسہ کا دارالافتاء اآزاد نہیں ہوگا بلکہ اسے سرکای مؤقف ہی اپنانا پڑے گا۔
مدرسہ اگر سول سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوگاتو اسے درج ذیل فوائد حاصل ہوسکتےہیں :
- مدارس اپنے نصاب تعلیم میں آزاد رہیں گے ۔
- مدارس اپنے نظام تعلیم میں آزاد وخودمختار ہوں گے تمام تعلیمی، تربیتی، تدریسی اور امتحانی ضابطے اپنے ماحول کے مطابق طے کریں گے ۔
- مدارس اپنے ذرائع آمدن پیدا کرنے میں آزاد ہوں گے ۔
- رجسٹریشن اور آڈٹ کے نظام میں سرکاری دفاتر کی پیچیدگیاں کسی قدر کم ہوجائیں گی ۔
- مدارس کا کردار وسیع رہے گا۔ ایک مدرسہ اگر چاہے تو تعلیمی خدمت کے ساتھ ساتھ ٹرسٹ ، مسجد ، یتیم خانہ ، لنگر ، ڈسپنسری ، ناداروں بیواؤں کی کفالت ، قدرتی آفات میں متأثرین کی بحالی ، ایمبولینس سروس کی فراہمی جیسی درجنوں سرگرمیاں آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکتاہے۔
- کسی ایشو پر مدرسہ کھل کر اپنا مؤقف دے سکے گا قوم اور عوام کی بہتر راہنمائی میں آزاد ہوگا۔
جبکہ اس کے مقابل نقصانات یہ ہیں
- اس کو سرکار کی معاونت میسر نہیں ہوگی ۔
- مدارس کے اسناد کو کماحقہ مقبولیت نہیں ملی گی۔
مسئلہ کا حل
طرفین کے موقف کو دیکھاجائے تو بنیادی طور پر دو مسئلے سامنے آتے ہیں :
1۔مدارس کی آزادی ، سرکار کی عدم مداخلت 2۔ اسناد کی ویلیو
اس حوالے سے چند گذارشات پیش نظر ہیں :
جب مدارس کی بنیاد ہی اس وجہ سے پڑی کہ حکومت نے دینی تعلیم کی ذمہ داری وسرپرستی سے منہ موڑ لیا ہے ، وہ محض عصری علوم کی کفالت کرنا چاہتی ہے ، ہر سال وہ عصری تعلیم پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرتی ہے ۔ اس کے بالمقابل دینی مدارس اپنی مدد آپ کے تحت مسلم معاشرے کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کررہے ہیں اور انہوں نے ملک سے ہمیشہ وفاداری نبھائی ،اس کے قانون کا احترام کیا اور اس کی نظریاتی اساس کی حفاظت کی ، ایسی صورت میں مدارس کے معاملات میں مداخل نہیں کرنی چاہیے ۔ جب حکومت سے سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اسکول چل نہیں رہے، پنجاب کی سرکار اپنے تعلیمی ادارے پرائیویٹ کررہی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔اس کے برعکس مدارس تیس لاکھ کے قریب بچوں کی تعلیم کا مفت بندوبست کررہے ہیں، تو ایسی صورت میں مدارس پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا اورسرکاری نظام تعلیم (جو دراصل مغربی نظام تعلیم ہے) میں آنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالانا سراسر نا انصافی ہے ۔
اسی طرح مدارس کا نصاب تعلیم ان کے مقاصد کو سامنےرکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے ،اور وہ اپنے مقصد کو کسی حد تک پورا بھی کررہا ہے ، لہٰذا قطعاً یہ درست نہیں کہ حکومت مغرب کی خواہش پر اس میں تبدیلی کرے۔
باقی رہا مدارس کی اسناد کی قبولیت کا مسئلہ تو یہ اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ مدارس کے طلبہ اسلام اور عربی سے متعلقہ مضامین کے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے ایم اے پاس طلبہ بھی مدارس کی ابتدائی کلاسز کے طلبہ سے رہنمائی لے رہے ہوتے ہیں ۔ جب ایک ڈاکٹر سے یہ مطالبہ نہیں کہ وہ انجینئر ہو ، ایک ادیب سے مطلوب نہیں کہ وہ ڈاکٹر ہو ، تو دینی مدارس سے یہ مطالبہ کیوں کیا جارہاہے کہ وہ عصری علوم بھی پڑھائیں ؟! لہٰذا مدارس کے طلبہ جو اپنے علوم میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں ان کا یہ حق ہے کہ ان کی محنت کو ویلیو دی جائے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور ملک و قوم کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اہل مدارس کی خدمت میں چند گذارشات
مدارس کا حقیقی مقصد محض منبر و محراب کے لیے لوگ تیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر معاشرے کی اصلاح ان کا حقیقی فریضہ ہے ،لہٰذا ہمیں اگلی نسل کی درست ذہن سازی کے لیے دیندار اساتذہ بھی چاہییں ۔اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمیں سخن ور مصنفین و مؤلفین کی بھی ضرورت ہے۔ زرد صحافت کے مقابلے میں ہمیں دینی صحافت کے شہہ سوار تیار کرنے ہیں ، معاشرے کے مسائل کے حل اور ان کی دینی رہنمائی کے لیے راسخ فی العلم علماء و مفتی چاہییں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ } [التوبة: 122]
’’ پھر (مسلمانوں کے ) ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین سیکھنے کےلیے کیوں نہیں نکلے ۔‘‘
لہٰذا جہاں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو امام اور خطیب پیدا کریں ، یا دینی علوم کے ماہر مدرسین و مصنفین پیدا کریں ، وہاں ایسے اداروں سے بھی ہم مستغنی نہیں ہوسکتے جو دین دار سائنس دان ، شریعت لاء میں مہارت رکھنے والے مفتی اور قاضی ، اسلام کے نظام تجارت کے ماہرین ، ریاست کے شعبہ ٔ داخلہ و خارجہ میں گہری بصیرت رکھنے والے رجال پیدا کریں ۔ ماضی کے برعکس موجودہ دور میں بچے بھی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے کے خواہش مند ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جن مدارس میں عصری تعلیم کا کچھ بندوبست ہے وہاں طلبہ کی تعداد زیادہ ہے بنسبت ان مدارس کے جہاں ایسا انتظام نہیں ہے ،لہٰذا مدارس کے ذمہ داران کو ان کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے ۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں کی تمام سیاسی جماعتیں سیکولر ذہنیت رکھتی ہیں ، مزید وہ امریکا اور یورپ کی پالیسیوں کی عملاً محافظ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بی اے اور ایم اے جو ہمارے طلبہ پرائیویٹ طور پر کرلیتے تھے کو بند کر کے بی ایس کانام کی ڈگری جاری کی ہے جو صرف کسی یونیورسٹی میں ریگولر پڑھ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا کہ وہ مدارس کے طلبہ کا راستہ بند کرنا چاہتےہیں ۔ اس لیے ان سے کسی نرمی کی امید رکھنا یا ڈگریوں کی قبولیت کی بھیک مانگتے رہنا عبث ہے۔ اب اہل مدارس کو اپنے ہونہار طلبہ کے لیے ترقی کے نئے راستے کھولنے ہیں ۔ اس کی دو صورتیں ہیں :
ایک، یہ کہ دینی نصاب کے ساتھ ساتھ عصری مضامین کی تدریس کا باقاعدہ انتظام کیا جائے ، اور یہ طلبہ کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ اس میں طلبہ پر بوجھ ضرور پڑھے گا ، لیکن امید ہے کہ چند ایک طلبہ کے علاوہ اکثر طلبہ اس میں کامیاب ہوجائیں گے ۔
دوسرا، علماء کرام کو چاہیے کہ وہ مدارس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے ادارے الگ سے قائم کریں ،
کم از کم بڑے ادارے تو یہ کام کرسکتے ہیں۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ ) اس حوالے سے منفرد مقام رکھتا ہے ، اور اس حوالے سے دوسرے مدارس کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ ) کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ نے شروع دن سے ہی یہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ باقاعدہ عصری علوم کی تدریس کا آغاز کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں دینی اداروں میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی کرنے والے اورکالجز اور یونیورسٹیز میں خدمات انجام دینے والے اسی جامعہ کے فاضلین ہیں ،جو سیکڑوں میں ہیں ۔ الحمد للہ علی ذالک
امسال جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ ) نے باقاعدہ عصری تعلیم کے لیے ’’ لاہور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل سائنسز ‘‘(LISS) کے نام سے الگ ادارہ قائم کرلیا ہے ، جو پنجاب حکومت سے منظور شدہ ہے۔اب اس میں اسلامی یونیورسٹی، بہاولپور سے ایفیلیشن(Affiliation) حاصل کرکے درس نظامی + بی ایس علوم اسلامیہ کی باقاعدہ کلاسز شروع کر دی گئی ہیں، جن میں یومیہ چار گھنٹے دینی علوم (وفاق المدارس السلفیہ کا منظور شدہ نصاب) اور تین گھنٹے بی ایس علوم اسلامیہ کی تعلیم ہوتی ہے ۔ بی ایس علوم اسلامیہ کی کلاس ٹائمنگ ظہر سے عصر کے درمیان رکھی گئی ہے، تاکہ دیگر دینی مدارس کے طلباء کے لیے بھی ڈگری کا حصول بہ آسانی میسر آ سکے۔ امسال LISS کے ڈیڑھ صد طلبہ امسال بے ایس کے امتحان میں شریک ہوں گے ۔ان شاء اللہ
آئندہ سال سے LISS بی ایس علوم اسلامیہ کے علاوہ دس دیگر شعبوں (Faculties)شروع کررہا ہے، جس میں انفارمشن ٹیکنالوجی ، لینگویجز ، معاشیات ، سماجیات ، سیاسیات ، منیجمنٹ سائنس ، کامرس ، لاء ، ابلاغیات اور ایجوکیشن بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ الگ ادارے قائم کرنے کے زبر دست فوائد حاصل ہوں گے ،مثلاً
- ہمارے بچے سرکاری یونیورسٹیوں کے سیکولر ، بے دین اور گندے ماحول سے بچ جائیں گے ۔
- نونہالان قوم علماء کرام کی زیر نگرانی اور اسلامی تربیت میں رہ کر عصری تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔
- ڈگریز کا مسئلہ حل ہوجائےگا۔
- یہاں سے فارغ ہونے کے بعد صحت ، تعلیم ، اقتصاد اور سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی آئیڈیالوجی اور پختہ دینی تربیت سےمسلح ہو کر خدمات انجام دے سکیں ۔
- ایسے اداروں کے ذریعے معاشرے کے 95 پرسنٹ بچوں تک ہماری رسائی ہوجائےگی ۔ جو اس سے پہلے ہمارے قریب نہیں آتے ۔
- معاشرے کے غریب اور نادار بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے ، مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی جو سرکاری ادارہ میں بی ایس اسلامک سٹڈیز کے ایک سمسٹر کی فیس تقریباً 80 ہزار روپے ہے ، جبکہ LISS میں بی ایس اسلامک سٹڈیز کے ایک سمسٹر کی فیس اوسطاً 8 ہزار روپے ہے اور تمام سمسٹرز کی مجموعی فیس 65 ہزار روپے ہے۔
مدارس سے گذارش ہے کہ اس تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے ہاں بھی اسے نافذ کریں تاکہ ہمارے بچے مستقبل میں دین و ملت کی بہترین خدمت کرسکیں ۔