فروری 2025ء

شامی انقلاب؛ ماضی، حال اور مستقبل

بلادِ شام (The Levant)جسے احادیث ِنبویہ میں ’شام‘ کہا گیا ہے، دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک بابرکت اور مقدس سرزمین ہے۔ احادیث مبارکہ میں جس خطہ ارضی کو ’شام‘ کہا گیا ہے، اس کی جغرافیائی حدود اُس مملکت سے بہت وسیع ہیں کہ جسے معاصر دنیا ’شام‘ (Syria)کے نام جانتی ہے۔ معاصر شام ۱۹۴۶ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہونے کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اس سے پہلے شام کے نام سے موجود خطہ ارضی میں فلسطین، حالیہ اسرائیل، موجودہ شام، اردن، لبنان، سائپرس اور ترکی کا ایک صوبہ شامل تھا۔

بلادِ شام کی فضیلت اور  قربِ قیامت میں اہمیت

کافی ساری روایات میں بلادِ شام کی فضیلت مروی ہے چند ایک یہاں تحریر کی جاتی ہیں :

 حضرت زید بن ثابت ﷜ سے روایت ہے:

 ”ہم ایک دن آپ ﷤  کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ ﷤  نے فرمایا کہ شام کے لیے خوشخبری ہو، شام کے لیے خوشخبری ہو۔ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! کس وجہ سے خوشخبری؟ تو آپ نے فرمایا: رحمان کے فرشتوں نے اپنے پَر شام پر پھیلائے ہوئے ہیں[1]۔“

امام ابن تیمیہ ﷫ کا کہنا ہے کہ اس دنیا کی ابتداء میں مکہ المکرمہ کو جو اہمیت حاصل رہی ہے، انتہاء میں وہی اہمیت بلادِ شام کی معلوم ہوتی ہے۔ یہی اس دنیا کا مبدا ومعاد ہے۔ اس دنیا کی ابتداء اللہ کے گھر بیت اللہ سے ہوئی۔ آدم ﷤  سے لے کر حضرت ابراہیم ﷤  تک اور حضرت ابراہیم ﷤  سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک دین اور اہل دین کا مرکز بیت اللہ ہی رہا ہے۔ لیکن قربِ قیامت میں دین اور اہلِ دین کا مرکز بلادِ شام بن جائے گا جیسا کہ احادیث میں علاماتِ قیامت کے باب میں دو مقامات کا ذکر کثرت سے ملتا ہے؛ دمشق اور بیت المقدس۔ بعض روایات میں کچھ دیگر مقامات کا بھی ذکر ہے لیکن وہ بھی  حالیہ شام ہی کے علاقے ہیں۔عمرو بن العاص ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 ” اس دوران کہ میں سو رہا تھا، میرے پاس فرشتے آئے۔ انہوں نے کتاب کا عمود میرے تکیے کے نیچے سے نکالا اور شام کا قصد کیا۔ خبردار! فتنوں کے زمانوں میں ایمان شام میں ہو گا[2]۔“

عراق میں شیعہ سنی تقسیم اور شیعہ اکثریت کی وجوہات

عراق میں اس وقت شیعہ اکثریت میں ہیں۔ عراق کی تاریخ میں سنیوں کی اکثریت رہی ہے لیکن انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں عثمانیوں نے عراق کی زرعی پالیسی میں ایسی اصلاحات کیں کہ  اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سنی عرب قبائل،  بدظن  ہوئے۔ ان حالات میں نجف اور کربلا میں بڑی تعداد میں ایرانی شیعہ علماء موجود تھے کہ جنہوں نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا اور سنیوں کو شیعیت میں داخل کیا۔ یوں عراق میں شیعہ کی اکثریت ہو گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق فی الحال عراق میں شیعہ کی تعداد ۶۰ فی صد ہے۔ اس وقت عراق میں شیعہ، سنی اور کرد اتحادیوں کی حکومت ہے کہ جسے شیعہ ہی لیڈ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف شام میں علوی شیعہ ۱۰ فی صد اور بقیہ شیعہ فرقے  کل آبادی کا ۳ فی صد ہے۔ اس اعتبار سے شام سنی اکثریت کا ملک ہے اور موجودہ انقلاب کے نتیجے میں سنیوں ہی کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔یمن میں بھی زیدی شیعہ ۳۵ فی صد ہیں جبکہ سنی اکثریت میں ہیں لہذا ایک اعتبار سے وہ  فی الحال سنی معاشرہ  ہی ہے البتہ حکومت زیدی شیعہ کے پاس ہے۔

عراقی وشامی جہادی تحریکوں کے لیے نبوی ہدایت

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ قربِ قیامت میں مسلمان تین لشکروں میں بٹ جائیں گے؛ عراقی، شامی اور یمنی۔ آپ علیہ السلام  نے ان تینوں میں سے شامی لشکر کی تعریف کی اور اس کے ساتھ رہنے کی ہدایت فرمائی۔  اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یمن میں کنارہ کشی کی زندگی اختیار کرنے کی تاکید کی ۔ عربوں میں جب پھوٹ پڑے گی تو وہ تین حصوں میں بٹ جائیں گے یعنی ان میں سے جو فعال، تحریکی اور جہادی  ہوں گے، ان کی بات ہو رہی ہے۔ جو غیر فعال ہوتے  ہیں تو ان کی اہمیت تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ فعال، تحریکی اور جہادی  وہ ہوتے ہیں جو  اپنے نظریے کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہوں یا جہاد وقتال میں مصروفِ عمل ہوں۔ جو عرب اقوام محض اپنی دنیا بنانے میں مگن ہوں تو ان کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ بظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  قربِ قیامت میں تین عرب اقوام  نظریاتی بنیادوں پر دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کریں گی ،  ان میں سے اہل شام کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔  ابنِ حوالہ ﷜ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

 ” تمہارے دین کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں، دوسرا عراق میں اور تیسرا یمن میں ہو گا۔ ابن حوالہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے میں کوئی وصیت فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر ین سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ عزوجل نے میرا اکرام کرتے ہوئے شام اور اہل شام کی ذمہ داری لے لی ہے [3]۔“

 ان حالات میں آپ حدیث سے یہ رہنمائی لے سکتے ہیں کہ عرب وعجم کی جہادی تحریکوں کے لیے شامی سنیوں کی حمایت بہترین آپشن ہے۔ ابو امامہ ﷜ سے ایک اور  روایت میں مروی  ہے:

 ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ عراق کے بہترین لوگ شام نہ چلے جائیں اور شام کے بد ترین لوگ عراق نہ چلے جائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا کہ ان حالات میں تم شام کو اپنا مسکن بناؤ[4]۔ “

 روایت کی سند میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم نے اسے” ضعیف“ اور بعض نے ”صحیح“  کہا ہے۔اگر روایت صحیح ہو تو بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس کا معنی یہ ہو سکتا  ہے کہ شام میں سنی انقلاب کے بعد یہاں کے شیعہ عراق بھاگ جائیں اور عراق میں شیعہ حکومت کی سختیوں کے سبب  وہاں کے سنی شام آ جائیں ۔

یمنی جہادی تحریکوں کے لیے نبوی ہدایت

مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں یمنی جہادی تحریکوں  کے لیے یمن میں الگ تھلگ ہو کر زندگی گزارنا دوسری معقول  آپشن ہے۔ یمن میں اگرچہ شیعہ حکومت ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ مخالف ہے ۔ اور انہوں نے غزہ کی حمایت میں بحیرہ احمر کی آبی گزرگاہوں میں ان کے بحری جہازوں پر حملے بھی کیے ہیں۔

    حضرت عبد اللہ بن عمر ﷜  سے روایت ہے:

 ” قیامت سے پہلے حضرموت یعنی یمن میں ایک جگہ سے آگ نکلے گی جو لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دے گی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ان حالات میں ہم کیا کریں؟ آپ ﷤ نے فرمایا کہ شام کو اپنا مسکن بنا لینا [5]۔“

یمن کی آگ سے کیا مراد ہے، کیا یہ کوئی حقیقی آگ ہو گی یا اس سے مراد استعارہ ہے۔ اس بارے دونوں آراء کی گنجائش موجود ہے۔ اگر تواس سے حقیقت مراد ہو تو  پھر یہ قیامت کے انتہائی قریب کی کوئی علامت ہے کہ جس کے فی الحال ظہور کے امکانات نظر نہیں آ رہے ۔ اور اگر اس سے مجاز اور استعارہ یعنی جنگ کی آگ مراد ہو تو  اس کا یہ معنی ہو  سکتا ہے کہ اگر  یمن کی جنگ عرب دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو  اس وقت میں عربوں کو چاہیے کہ شام کو اپنا تحریکی اور جہادی جدوجہد کا  مرکز بنا لیں یعنی جس کے لیے ممکن ہو تو وہ شام چلا جائے اور جس کے لیے یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم شام اور اہلِ شام کی حمایت جاری رکھے۔

الملحمۃ العظمی، بلادِ شام اور نبوی رہنمائی

احادیث مبارکہ میں قربِ قیامت میں ایک بہت بڑی جنگ کا ذکر ملتا ہے کہ جسے تیسری جنگ عظیم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ احادیث میں واضح طور موجود ہے کہ اس جنگ عظیم کے دوران مسلمانوں کا مرکز شام ہو گا لہذا ان حالات میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے بالمقابل جہاد کرنے والے شامی لشکر  کی معاونت کریں۔ حضرت ابو درداء ﷜  سے روایت ہے:

” جب جنگ عظیم ہو گی تو اس دن مسلمانوں کا مرکز دمشق کا قریبی شہر غُوطہ ہو گا اور دمشق شام کا بہترین شہر ہے[6]۔ “

اس جنگِ عظیم کو احادیث مبارکہ میں "الملحمة العظمى" جبکہ انجیل مقدس میں آرمیگیڈون (Armageddon) کہا گیا ہے۔ یہ  جنگِ عظیم کب ہو گی تو بعض دوسری  روایات میں اشارہ ہے کہ خروجِ دجال کے ساتھ ہی ہو گی۔ سنن ابی داود کی روایت میں ہے:

” بیت المقدس کی آبادی کے ساتھ مدینہ ویران ہو جائے گا۔ مدینہ کے ویرانی کے بعد جنگ عظیم ہو گی،اور جنگ عظیم کے نتیجے میں قسطنطینیہ فتح ہو گا۔ اس  کے بعد دجال کا خروج ہو گا[7]۔“

اس کا مطلب ہے کہ ابھی غُوطہ شہر کے مسلمانوں کے مرکز ہونے کا موقع نہیں آیا کہ دنیا اس وقت جنگِ عظیم میں نہیں ہے۔ اگرچہ ۲۰۱۳ء میں بشار الاسد کی حکومت نے غُوطہ میں کیمیکل ہتھیاروں سے حملے کیےتھے کہ جن پر پوری دنیا میں اسے شدید تنقید کا نشانہ گیا تھا  لیکن حدیث سے مراد وہ والے حملے نہیں تھے، واللہ اعلم۔

طائفہ منصورہ، نزول عیسی اور شام

 اس امت کے د وگروہ ایسے ہیں کہ جن سے اللہ کی مدد کا وعدہ ہے۔ ایک تو نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام اور دوسرا بلادِ شام کے اہل علم وعمل۔ نواس بن سمعان ﷜ سے روایت ہے :

 ” عیسی ابن مریم ﷤  کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس ہو گا۔ وہ دجال کو باب لُد کے پاس قتل کریں گے [8]۔“

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسی ابن مریم ﷤ کا نزول بھی مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی بجائے دمشق میں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیر وشر کا آخری معرکہ شام میں ہی لگے گا اور یہ شام ہی کی سرزمین ہو گی جو حق وباطل میں فرق کر کے اس کو چھانٹ کر رکھ دے گی۔حضرت جابر بن عبد اللہ ﷜ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

” میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا یہاں تک قیامت قائم ہو جائے۔ پھر فرمایا کہ عیسی ابن مریم ﷤ نزول فرمائیں گے تو ان کا امیر کہے گا کہ آپ آگے بڑھ کر ہمیں نماز پڑھائیں۔ تو عیسی ابن مریم ﷤ فرمائیں گے کہ نہیں، تم میں سے بعض بعض پر امیر ہے، یہ اللہ عزوجل کی طرف سے اس امت کی عزت افزائی ہو گی [9]۔ “

اس روایت سے یہی معلوم ہوا کہ اہلِ حق بلادِ شام میں سمٹ جائیں گے اور غلبہ اسلام کی آخری عظیم جنگ لڑیں گے۔ پس کفر واسلام کی جنگ میں  شام کے مسلمانوں کی علمی وعملی حمایت ایک دینی فریضہ ہے۔

نصیری فرقے کی تاریخ اور عقائد

عباسی  دراصل اہل بیت کے نام پر  اور شیعوں کے تعاون سے بنو امیہ  پر غالب آئے تھے  اور ان سے حکومت چھیننے میں کامیاب ہوئے تھے ، لہٰذا ان کے دور میں شیعہ بہت زیادہ طاقتور ہوگئے تھے ، حکومت میں ان کا اثر رسوخ بہت  بڑھ گیا اور اسی دور میں شیعوں میں بہت سارے باطنی فرقوں کا ظہور ہوا۔ سب سے پہلے 261ھ میں  ’’ قرامطہ ‘‘ ظاہر ہوئے،  268ھ میں ’’ اسماعیلیہ‘‘ ظاہر ہوئے، اسی زمانے میں نصیر یہ فرقہ بھی  وجود میں آیا۔

نصیریہ کی بنیاد محمد بن نصیر النمیری متوفی ۲۷۰ھ نے رکھی تھی کہ جس کا تعلق اثنا عشریہ شیعہ فرقے سے تھا۔ اس کا گمان یہ تھا کہ وہ  اہل تشیع کے بارہویں امام اور مہدی منتظر محمد بن الحسن العسکری  کا دروازہ ہے۔ اہل سنت کی ایک  بڑی تعداد  کے نزدیک اہل تشیع کے بارہویں امام کا وجود ہے ہی نہیں۔   بہر حال امامیہ شیعہ نے اس کے اس دعوے کو قبول نہ کیا اور اسے  جھوٹا اور کذاب قرار دیا ۔  اس کے پیروکاروں کا نام نصیریہ پڑ گیا۔ نصیریہ  اور اثنا عشریہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اثنا عشریہ محمد بن نصیر النمیری کو جھوٹا اور کذاب قرار دیتے ہیں اور عثمان بن سعید العمری کو بارہویں امام کا سفیر اور نائب قرار دیتے ہیں۔

 واضح رہے کہ اہل تشیع کے ہاں ان کے بارہویں امام کی غیبوبت دو طرح کی ہے؛ صغری اور کبری۔ غیبوبت صغری میں امام صاحب اپنے چاہنے والوں سے نائبین کے واسطے سے رابطے میں رہے۔ ان نائبین کی تعداد چار ہے جو کہ یکے بعد دیگرے آئے۔ لیکن جن لوگوں نے بارہویں امام کی نیابت اور سفارت کا دعوی کیا ہے، وہ بیسیوں ہیں۔ ان میں سے اکثر کو شیعہ کے ہاں جھوٹا اور کذاب قرار دیا جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی حیثیت اور مقام بنانے کی خاطر امام پر جھوٹ بولا۔

سعد بن عبد اللہ القمی نصیری فرقے کی ابتداء اور نظریات کے بارے لکھتے ہیں:

"وقالت بنبوة رجل يقال له محمد بن نصير النميري كان يدعي أنه نبي رسول، وأن علي بن محمد العسكري أرسله وكان يقول بالتناسخ، ويغلو في أبي الحسن ويقول فيه بالربوبية ويقول بإباحة المحارم ويحلل نكاح الرجال بعضهم بعضاً في أدبارهم، ويزعم أن ذلك من التواضع والاحسان والتذلل في المفعول به، وأنه من الفاعل والمفعول به إحدى الشهوات والطيبات، وأن الله لم يحرم شيئاً من ذلك.[10]

 ” محمد بن نصیر النمیری کا دعوی تھا کہ وہ نبی رسول ہےاور امام علی بن محمد العسکری نے اسے رسالت کے درجے پر فائز کیا ہے۔ محمد بن نصیر النمیری تناسخِ ارواح کا قائل تھا اور امام محمد نقی عسکری  کے بارے غلو کا شکار تھا۔ وہ انہیں ربوبیت کے درجے پر فائز کرتا تھا۔ اس کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ مَحرم عورتوں سے نکاح جائز ہے ، اور مرد کا مرد سے بھی نکاح جائز ہے۔ اس کا گمان تھا کہ مفعول بہ کے لیے اس میں تواضع، احسان اور عاجزی کے درجات ہیں جبکہ فاعل اور مفعول کے لیے یہ ایسی خواہش اور پاکیزہ  چیز ہے کہ جسے اللہ عزوجل نے کسی طور حرام نہیں ٹھہرایا ہے۔“

اس فرقے کے عقائد کے بارے اِن معلومات کا اظہار شیعہ عالم اور متکلم الحسن بن موسی النوبختی نے بھی کیا ہے۔[11] نوبختی کی وفات کے بارے بھی شیعہ رجال میں معروف قول یہی ہے کہ وہ ۳۰۱ھ سے ۳۱۰ھ کے مابین فوت ہوئے۔ یہ دونوں شیعہ علماء نصیری فرقے کے بانی ابو شعیب محمد بن نصیر النمیری کے معاصرین میں سے ہیں کیونکہ محمد بن نصیر کی وفات ۲۷۰ھ میں ہوئی تھی۔

شام میں نصیریوں کے عروج وزوال کی داستان

نصیریہ غالی شیعوں پر مشتمل تیسری صدی ہجری کی ایک باطنی تحریک تھی کہ جنہوں نے حضرت علی﷜ کو الوہیت کے درجے پر فائز کیا۔ شام پر فرانسیسی قبضے کے بعد انہیں علویوں کا نام دیا گیا تا کہ ان کے ماضی پر پردہ ڈالا جاسکے۔ فرانسیسیوں نے غالب سنی اکثریت کو کنٹرول کرنے کے لیے مقامی علوی اقلیت کو خوب نوازا کہ جس کے سبب شام کی سیاست میں ان کا کردار نمایاں ہوا۔

در اصل شام کا علاقہ ۱۵۱۶ء سے لے کر ۱۹۱۸ء تک تقریباً چار سو سال تک سلطنتِ عثمانیہ کے پاس رہا۔ ۱۹۲۰ء میں خلافت عثمانیہ  کے ختم ہونے پر یہ علاقہ  فرانس  کی عمل داری میں دے دیا گیا  اور فرانس کی  عملداری یہاں ۱۹۴۶ء تک رہی۔ فرانس نے شام کو چھ ریاستوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس میں ایک ریاست کا نام ”علوی ریاست“ تھا۔ اس طرح فرانسیسیوں نے سنی اکثریت کو کنٹرول کرنے کے لیے علوی اقلیت کو نوازا۔ نصیری چونکہ اقلیت میں تھے اور وہاں کے مسلمان انہیں کافر سمجھتے اور ان سے نفرت کرتے تھے ، تو  فرانسیسیوں نے انہیں  معاشرے میں قابل قبول بنانے کے لیے’’علویون ‘‘ کا   نام دیا۔ اس طرح  فرانس کے تعاون سے یہ گروہ طاقت ور ہوگیا ، اور حکومتی مشینری خصوصاً فوج میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوگئی ۔

 ۱۹۴۶ء میں شام کو فرانس سے آزادی ملی۔ لیکن یہاں پر کوئی مستحکم حکومت نہ بن سکی ۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۷۰ء تک پے درپے حکومتیں بدلتی رہیں ۔  بعض حکومتیں محض چند ماہ  ہی قائم رہ سکیں  کیونکہ مخالف پارٹی،  فوج میں اپنے موجود اپنے حامی گروپ کے ساتھ مل کر  حکومت کا تخت الٹ دیتیں  اور چند ماہ بعد دوسرا گروپ اپنے حامی گروپ کی مدد سے اس کا چلتا کرتا ۔ ۱۹۶۶ء میں ایسی ہی ایک بغاوت کے نتیجے میں بننے والی حکومت  میں ایک فوجی جرنل حافظ الاسد جو نصیری فرقےسے تعلق رکھتا ہے وزیر دفاع بن جاتا ہے۔ ٹھیک چار سال بعد ۱۹۷۰ ء میں وزیر دفاع نے اپنی ہی حکومت کے خلاف  بغاوت کی اور حکومت کو گرا کر خود صدر بن گیا ۔ پورے ملک میں حافظ الاسد کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں کہ ملکی صدر کے لیے مسلمان ہونا آئینی شرط ہے جبکہ حافظ الاسد مسلمان نہیں ہے۔شامی فوج جبر وظلم سے ان ہنگاموں کو دبا دیتی ہے۔

۱۹۸۰ء میں ایران میں خمینی انقلاب کے نتیجے میں سنی اور شام کے الاخوان المسلمون کے اکثریتی علاقوں حَلب، حمص اور حماۃ میں ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں لیکن ان کو فوج کے ذریعے تشدد سے دبا دیا جاتا ہے۔ ۱۹۸۰ء کی ایران -عراق جنگ میں شام، ایران کا ساتھ دیتا ہے۔۱۹۸۲ء میں الاخوان المسلمون کی شامی شاخ حماۃ کے علاقے میں حکومت کے خلاف مظاہرے کرتی ہے تو اس  کو دبانے کے لیے ہزاروں لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں۔۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا بشار الاسد صدر بنا دیا جاتا ہے۔ بشار الاسد کی عمر ۳۴ بر س ہوتی ہے تو اس کو اقتدار میں لانے کے لیے آئین میں تبدیلی کی جاتی ہے کیونکہ آئین کے مطابق صدر کی عمر چالیس برس ہونا ضروری تھا۔ [12]

نصیریوں کا اہل سنت پر ظلم وتشدد

نصیریوں نے ۱۹۸۰ء میں  دمشق میں صیدنایا کے نام سے ایک جیل قائم کی تھی  کہ جسے ٹارچر سیل کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔  اس جیل میں سیاسی قیدیوں کو مار پیٹ کی جاتی، بھوکا رکھا جاتا، چاقو مارے جاتے، ہڈیاں توڑی جاتیں، بجلی کا کرنٹ لگایا جاتا، سیل میں رفع حاجت کرنے پر مجبور کیا جاتا، بے ہوش ہونے تک مار پیٹ کی جاتی، ریپ کیا جاتا، انگلیاں کاٹ دی جاتیں، قتل کر دیا جاتا وغیرہ وغیرہ۔صیدنایا جیل کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر  وائرل ہو رہی ہیں۔ عرب اور مغربی میڈیا کی طرف سے اس جیل کو موت کا کیمپ قرار دیا گیا ہے کہ جہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاسی قیدیوں کو تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ جیل انسانوں کا مذبح خانہ یعنی سلاٹر ہاؤس ہے۔  بی بی سی، الجزیرہ ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا ان ویڈیوز کو کوریج دے رہا ہے۔ یہ جیل در اصل عراق میں امریکی ابو غریب جیل، گوانتاناموبے جیل اور جرمنی میں نازیوں کی جیلوں کی ایک کڑی اورمثال ہے۔ ایک ویڈیو وائرل ہے کہ شامی پائلٹ راغید الطیاری کو ۱۹۸۲ء میں قید کیا گیا تھا اور ۴۳ برس قید رکھا گیا تھا کہ انہوں نے حماۃ کے نہتے عوام پر بمباری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۸ء تک تقریباً تیس ہزار افراد اس جیل میں تشدد کر کے مار دیے گئے۔ ایسی کئی اور بھی جیلیں  موجود ہیں۔

نصیری حکومت کے خاتمے کے اسباب

۲۰۱۱ء میں عرب بہار کے نتیجے میں شام بھی متاثر ہوتا ہے اور آمریت کے خلاف ایک بار پھر مظاہرے شروع ہو گئے۔ جمہوریت کے حق میں مظاہروں کی وجہ سے پانچ لاکھ لوگ مارے گئے۔ یہاں سے شامی سنی انقلاب کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔

نصریوں کی حکومت چونکہ  ایران ، لبنان کی حزب اللہ اور روس کے تعاون اور ان کی پشت پناہی کے سبب زبر دست ظلم و ستم  کی بنیاد پر قائم تھی ۔اکتوبر ۲۰۲۴ء میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا ،  اور تقریباً پندرہ ماہ تک چلتی رہی ہے ، اس دوران اسرائیل نے  لبنان کی شیعہ تنطیم حزب اللہ کی بنیادی  قیادت ختم کردی ۔ ایران  کے ساتھ بھی اس کی شیڈو وار چل رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں اس کے کئی ایک سیاستدان اور جرنیل کام آ چکے ہیں جس سے ایران  ،  اسرائیل کے دباؤ میں ہے ۔ ان حالات میں ایران کے لیے شام میں نصیری حکومت کی مدد کرنا ممکن نہیں رہا تھا ۔

نصیریوں کا تیسرا بڑا حمایتی روس تھا کہ جو وہاں اپنے جنگی جہازوں سے بمباری بھی کرتا تھا۔ وہ بھی بری طرح یوکرین کی جنگ میں پھنس چکا ہے۔ اب وہ نہ اس سے نگلی جا رہی ہے اور نہ ہی اگلی جا رہی ہے۔ امریکی، برطانوی اور یوکرین کے ذرائع کے مطابق اس جنگ میں ابھی تک روس کے ساڑھے سات لاکھ فوجی مارے جا چکے ہیں۔

قلیل ترین وقت میں اس قدر عظیم فتح کے اسباب و عوامل پر  لوگ  مختلف تبصرے  کررہے ہیں ، ہمارےنزدیک  اصل سبب تو  اللہ کی مدد اور نصرت ہی معلوم ہوتی ہے۔ البتہ  کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں ترکی کا کردار اہم ہے۔ ہماری نظر میں وہ کردار ثانوی ہے کہ ترکی کی حمایت تو پہلے سے ہی  تھی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام میں نصیری حکومت کے اتحادی مثلاً لبنان، ایران اور روس کا اپنی جنگوں میں الجھ جانا اور بشار الاسد  کی مدد نہ کر پانے کے سبب،  نصیریوں   سے اکیلے اس  جنگ کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہو پایا کہ پہلے بھی وہ انہی کے سہارے ہی یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ صورت حال یہ ہے کہ  لبنان اس وقت اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے اور شیعہ جماعت حزب اللہ کی تقریباً تمام بڑی قیادت ماری جا چکی ہے۔

شامی انقلاب اور ہیئہ تحریر الشام

عالمی حالات جب نصیری حکومت کے خلاف ہوئے اوروہ خارجی تعاون سے محروم ہوگئی تو وہاں کے مجاہدین نے  اس موقع کو  غنیمت جانا  اور جہادی  تنظیموں کے اتحاد ( هيئة تحرير الشام )   نے نومبر۲۰۲۴ء میں غاصب  حکومت کے خلاف اقدام شروع کردیا اور دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں اس  کا تختہ الٹ دیا۔

جب مجاہدین نے باضابطہ طور دمشق کی فتح کا اعلان کر دیا تو ان کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کمال دانشمندی سے کام لیتے ہوئے  اعلان کیا کہ ملکی نظم و نسق کو فی الحال  نہیں چھیڑا جائے گا تاکہ شہری زندگی کے معاملات درہم برہم نہ ہوں ۔انہوں نے سرکاری ملازمین کو وزیراعظم محمد الجلالی کے انتظامی احکامات کو ماننے کی تاکید کی تاکہ عوام کی روزمرہ کی زندگی متاثر نہ ہو ۔ عورتوں کے نقاب کے معاملے میں انہوں نے یہ بیان دیا کہ ہم عورتوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھیں لیکن کسی کو نقاب پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔

۳۰ دسمبر ۲۰۲۴ءکو شائع ہونے والے  اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں احمد الشرع ابو محمد الجولانی نے  کہا کہ ملک میں نئے آئین کی تیاری میں تین سال جبکہ انتخابات کے انعقاد میں چار سال لگ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مناسب انتخابات  کے لیے جامع مردم شماری کا ہونا ضروری ہے اور یہ وقت طلب کام ہے۔ انہوں نے یہ  بھی کہا کہ قومی مکالمہ کانفرنس کے ذریعے معاشرے کے مختلف اجزاء اور گروہوں کو جمع کیا جائے گا۔ مظاہروں کے بارے انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ اداروں کا نقصان نہ ہو۔  انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلحہ صرف شامی فوج کے پاس ہونا چاہیے اور دیگر مسلح گروپوں سے اسلحہ لے لیا جائے گا اور اسلحہ جمع کروانے کے لیے ان کو تیار کیا جائے گا۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہیئہ تحریر الشام کو بھی تحلیل کر دیا جائے گا اور اس کا اعلان قومی مکالمہ کانفرنس میں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ایک اہم اسلامی ملک ہے اور شام اس کے تعاون کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شام کو اپنی تعمیر اور ترقی کے لیے سعودی عرب کے تجربے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں ایران کا چالیس سالہ منصوبہ گیارہ دنوں میں منہدم ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی انقلاب کا منصوبہ فرقہ وارانہ فسادات اور جنگوں کا باعث بنا اور ایرانی انقلاب سے اس خطے پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل اب شام میں داخل ہونے کے لیے پَر تول رہا ہے اور ایران بھی اس میں رغبت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو اب فرقہ وارانہ فسادات سے نکل کر شامی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ ایران کی اپنی  آبادی کا ایک بڑا حصہ اب خطے میں ایران کے مثبت کردار کا حامی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایران سے ایسے تعلقات چاہتے ہیں کہ جس میں شام کی خود مختاری پر حرف نہ آئے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ کی نئی قیادت شام سے پابندیاں اٹھا لے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ روس، شام سے اس حال میں نکلے کہ دمشق اور ماسکو کے تعلقات خراب نہ ہوں۔  

 ایرانی اور لبنانی شیعہ علماء نے  پچھلے ۱۲ سال سے سیدہ زینب بنت علی رحمہا اللہ کے مزار کو بچانے کے نام پر دنیا بھر سے حفاظتِ حرم کے نعرہ پر  شیعہ نوجواں اکھٹے کیے اور  زینبیون  بریگیڈ بنا کر ان کو لڑنے کے لیےشام بھیج دیا تھا۔ سیدہ زینب رحمہا اللہ کا مزار دنیا میں تین جگہ مشہور ہے جن میں سے مصر و شام کے بارے کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور درست بات یہ ہے کہ سیدہ زینب رحمہا اللہ دراصل مدینہ میں مدفون ہیں ۔ خیر،  حال ہی میں شام کے تین شیعہ علماء کی ویڈیو وائرل ہوئی کہ سیدہ زینب رحمہا اللہ کا شام میں مزار کھلا ہے اور زائرین اس کی زیارت کر سکتے ہیں لہذا کسی قسم کی افواہوں پر دھیان نہ کیا جائے۔

شامی انقلاب اور کرنے کا کام

سب سے پہلے تو ہم سب فتنوں کے دور سے متعلق  دینی نصوص کے متون  اور شام کے  حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ علماء خاص طور  عالمی میڈیا اور خبروں کو  اپنے مطالعے میں رکھیں ۔ دوسرا  ہر خاص وعام  اپنی  اور امت مسلمہ کی کامیابی وکامرانی کے لیے دعا کا اہتمام کرے۔ تیسرا شام اور اہل شام کی مالی اور اخلاقی مدد کریں۔ اور چوتھا جہادی  اور انقلابی تحریکوں کو چاہیے کہ شامی حکومت کو ہر اعتبار سے اسپورٹ کریں اور ان کے مد مقابل اب مزید کسی بغاوت کے پیدا ہونے یا کرنے کے راستے ہموار کر کے ریاست کو کمزور نہ کریں۔

 

[1]     مسند احمد: 21606

[2]     مسند احمد: 17775

[3]     سنن ابی داود: 2483

[4]     مسند احمد: 22145

[5]     سنن الترمذی: 2217

[6]     سنن ابی داود: 4298

[7]     سنن ابی داود: 4294

[8]     سنن ابی داود: 4321

[9]     مسند احمد: 15127

[10]   المقالات والفرق ، محقق الدکتور محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی وفرہنگی، طبع دوم، ۱۳۶۰ھ، ص :100

   [11]          فرق الشیعہ، الحسن بن موسی النوبختی، منشورات الرضا، بیروت، الطبعۃ الاولی، ۱۴۳۳ ھ

[12]   درج بالا معلومات سیرین ہسٹری، بی بی سی، انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا اور وکی پیڈیا کی سائیٹس سے لی گئی ہیں۔