اَنفس وآفاق میں آیاتِ الٰہیہ

﴿وَفِى الأَر‌ضِ ءايـٰتٌ لِلموقِنينَ ٢٠ وَفى أَنفُسِكُم أَفَلا تُبصِر‌ونَ ٢١ ﴾... سورة الذاريات
اللہ کی بہترین تخلیق...انسان
اس کائنات میں سب سے بڑی حقیقت اور خالق کائنات کا شاہکار خود انسان کا اپنا وجود ہے جو اپنے جسم و جثّہ کے اعتبار سے گو بہت بڑا نہیں مگر اس کی ساخت پر غور کیجئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس جیسی یا اس کے قریب کوئی مشین آج تک کوئی بنا سکا ، نہ بنا سکے گا۔ پھر اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی بالکل کاپی نہیں ہوتا۔ ایک عجیب و غریب اور وسیع و عریض کائنات کو اس میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے جسے انسان خود سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن پوری طرح آج تک نہیں سمجھ سکا۔
جسم انسانی چھوٹے چھوٹے خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ ایک اوسط قد و قامت کے انسانی جسم میں ان خلیات کی تعداد ایک کروڑ ارب کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ایک ہی خلیے سے یہ تمام اربوں، کھربوں خلیے بنے ہیں۔ کروڑوں خلئے (Cell) روزانہ ختم ہوتے رہتے ہیں اور دوسرے خلیے اُسی وقت ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر سیکنڈ میں خون کے دس لاکھ سرخ خلیات ختم ہو جاتے ہیں اور اِسی تعداد میں نئے خلیات جنم لیتے ہیں۔ جسم انسانی میں بے شمار انواع و اقسام کے ان کھربوں خلیات کا آپس میں اتنا اشتراکِ عمل ہوتا ہے کہ ہر ایک اپنا کام بڑی ذمہ داری اور صحت کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ ہر خلیہ اپنے فرضِ منصبی کو جانتا ہے کہ کس طرح اس سارے بدن کی بہتری اور اچھائی کے لئے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
یہ انسانی خلیے ایک فصیل بند شہر کی طرح ہیں۔ اِس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بجلی گھروں کی طرح جنریٹر کام کرتے ہیں۔ اس کی فیکٹریوں میں لحمیات (پروٹین) تیار ہوتے ہیں۔ اس تیار شدہ سامان یعنی کیمیاوی اجزا کو جسم کے تمام حصوں میں پہنچانے کے لئے ایک مواصلاتی نظام بھی ہے جو خطرہ یا گزند پہنچنے پر اس کے سدِباب کے لئے دفاعی اقدامات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں نازک خلیے بھی ہیں جن کی جسامت ملی میٹر10لاکھ ویں حصے کے برابر ہے۔ پہلے تحقیق ہوا تھا کہ 7 سال میں اوّل خلیے ختم ہو کر دوسرے خلیے پیدا ہو جاتے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ ہر گیارہ مہینے بعد کھربوں خلیوں پر مشتمل یہ پورے کا پورا نظام بدل جاتا ہے۔
بات صرف خلیوں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ خود خلیوں کے اندر پورا نظامِ حیات ہے جسے سائنس نے پچھلے 35 سالوں میں ڈھونڈھ نکالا ہے اور جس کے نتیجہ میں جینیات Genetics کی ایک پوری نئی سائنس اُ بھر کر سامنے آگئی ہے۔ دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور ماں باپ کے یہی 'جین' بچے میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ کالا یا گورا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں نیلی یا بھوری یا سیاہ ہوتی ہیں اور اُس کے بال کالے، بھورے یا سنہری ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اثرات بچے تک اِس کے کئی پشتوں کے جین لاتے ہیں۔ ساری خصوصیات ان ہزار جین کے اندر پنہاں ہوتی ہے جو ایک خلیہ اپنے اندر چھپائے ہوتا ہے۔ ان جین سے پروٹین کی خصوصی قسم پیدا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے جو جسم کے خصوصی افعال کیلئے ضروری ہے۔
جین اصل میں ایک عجیب و غریب کیمیاوی سالمے Molecules سے ترتیب پاتے ہیں جو کچھ اس شکل کے لمبے سالمے ہوتے ہیں جیسے دو کیچوے ایک دوسرے میں ستلی کے دھاگے کی طرح لپٹ گئے ہیں۔ ہر جانور، انسان یا پودے کی تمام ممکنات اس دھاگے کے اندر سمائی Coded ہوتی ہے۔ اس کیمیاوی سالمے کو DNA کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کو زندگی کا دھاگا کہنا موزوں ہو گا۔ اس کے اربوں یونٹ ایک خلیے میں موجود ہوتے ہیں۔ DNA نہ صرف نسل اور جینیات کی کنجی ہے بلکہ یہی وہ قوت ہے جو خلیے اور جینیات دونوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہر فرد کی شخصیت کی پوری خصوصیات پہلے ہی سے DNA کی ٹیپ میں ریکارڈ ہوتی ہیں جس کی تفصیلات اگر تحریر میں لائی جائیں تو بڑے سائز کے ایک لاکھ صفحات میں سمائیں۔ DNA جس کو دیکھنے کے لئے ایک چھوٹی خرد بین کام نہیں کر سکتی، اس میں معلومات و ہدایات کا اتنا عظیم ذخیرہ محفوظ کر دینا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا وہ عظیم کرشمہ ہے جس کے علم کے بعد اسکی نقل میں آج سائنسدان ماچس کے برابر ایسا بلوریں کمپیوٹر تیار کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں جس میں کروڑوں کتابوں کا مضمون ذخیرہ کیا جا سکے۔
جسم انسانی کے جملہ عجائبات کا بیان تو ناممکن ہے، چند حیران کن حقائق درج ذیل ہیں:
آپ کو پڑھ کر تعجب ہو گا کہ انسانی دماغ میں 25 ارب سے زیادہ نیورون ہوتے ہیں۔ یہ اپنا کام ہمہ وقت کرتے ہیں حتیٰ کہ نیند کے دوران بھی اُن کا کام اس طرح جاری رہتا ہے۔ ساری دنیا کا ٹیلیفون نظام بھی اس کے برابر کام نہیں کر سکتا۔ ذرا آگے بڑھئی اور قلب کو دیکھئے جو خود تو چھوٹا سا ہوتا ہے یعنی اندازاً نصف پونڈ کے برابر لیکن اس میں دو پمپ ہوتے ہیں۔ ایک پھیپھڑوں کو خون کی ترسیل کے لئے تاکہ وہاں سے آکسیجن جذب کر سکے۔ دوسرا اس صاف شدہ خون کو سارے بدن میں دوڑانے کے لئے۔ ایک آدمی کی اوسط زندگی میں دل ۳ لاکھ ٹن خون پمپ کرتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ اپنی بجلی بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ایک آدمی ستر سال زندہ رہے تو دل ۴ کھرب دفعہ دھڑکتا ہے۔
اسی طرح ایک آدمی کی اوسط زندگی میں پھیپھڑے کئی کروڑ مرتبہ پھولتے اور سکڑتے ہیں۔ انسان کی بنائی ہوئی کوئی مشین نہ ایسی مشقت برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی بغیر مرمت اتنے لمبے عرصے تک اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، انسانی آنکھ میں ایک کھرب سے زیادہ روشنی قبول کرنے والے ریشے ہوتے ہیں۔ یہ تعداد ان ستاروں کے برابر ہے جو 'ملکی وے' نامی کہکشاں میں بتائے جاتے ہیں۔ انسانی بدن میں خون کی شریانوں کو اگر ناپا جائے تو ان کی لمبائی ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ میل لمبی ریلوے لائن کے برابر نکلے گی۔
انسانی جسم ۳۰ کروڑ کیمیاوی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ اگر آپ ان اعداد و شمار پر مشتمل اجزا کو لفظوں میں لکھنا چاہیں تو اس سے دس ہزار ضخیم کتابوں کی ایک لائبریری بن جائے گی اور اگر اس کی تفصیل لکھنا چاہیں تو یہ بہت مشکل کام ہو گا، کیونکہ انسانی عقل جسم انسانی کے میکانکی نظام کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ سائنس نے ہماری عقل و دانش اور علم کو بڑھانے میں بہت کچھ کیا ہے لیکن کیا کوئی سائنس دان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے انسان کی ابتدا یا اصل انواع کا کھوج لگا لیا ہے؟ ہرگز نہیں!
مختصر سی یہ چند حیرت انگیز باتیں انسانی جسم کے بارے میں ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ انسان کی نفسیاتی کیفیت کا اس کے جسمانی نظام پر بھی انتہائی حیران کن اثر مرتب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اچانک کسی وجہ سے اگر کسی پر خوف طاری ہو جائے تو گردوں کے سرے پر موجود دو غدودوں سے 'ایڈرے نیلن' نام کا ایک رَس کثرت اور تیزی سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ رَس خون میں شامل ہو کر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے اور جسم کو اس کے مناسب مقابلے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ جسم کے بعض وہ افعال جن کی ضرورت نہیں، خود بخود معطل ہو جاتے ہیں اور ان کی طرف جانے والا خون بھی اعضاے رئیسہ کی جانب رواں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں نظامِ انہضام بھی موقوف ہو جاتا ہے اور جلد کی جانب خون پہنچانے والی رگیں بھی بند ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے جلد پیلی پڑ جاتی ہے۔ اسی جوش کی وجہ سے جگر سے شکر کے ذخیرے حرکت میں آکر خون کو زیادہ توانا بنا دیتے ہیں۔ سانس اور نبض تیز ہو جاتی ہے، خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور خون میں جمنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے تاکہ چوٹ لگنے کی صورت میں خون زیادہ ضائع نہ ہو اور یہ ساری تبدیلیاں چند لمحات میں واقع ہو جاتی ہیں جبکہ خوف دور ہو جانے کی صورت میں جسم دوبارہ اپنے معمول کی حالت میں واپس آکر اپنے کام شروع کر دیتا ہے۔
یہ سب مثالیں زندگی میں نظامِ قدرت کی کرشمہ کاریوں کی ہلکی سی جھلکیاں ہیں۔ اگر ہم صرف اسی مکمل نظام پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عظمت و شان نظر آتی ہے اور اس نظام کی باریکی اور پختگی کا قدرے اندازہ ہوتا ہے۔ خود انسان کا اپنا جسم اور اس کے اندر کی مشین ہی خداے علیم و خبیر کی قدرت، حکمت اور خلاقی کی روشن دلیل ہے۔ ہم جتنا اپنے جسم کے خلیات اور جینیات کے ضمن میں ان معلومات اور دریافتوں پر غور و فکر کرتے ہیں اتنا ہی ہمیں اپنے خالق کی بے پایاں قدرت کا یقین مستحکم حاصل ہوتا ہے اور اسی سے ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں اور اُس کی ہستی پر صحیح ایمان لا سکتے ہیں۔
الله كی تخلیق کائنات: اللہ اکبر !
ہمارا سورج زمین سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل کے فاصلے پر نصب کردہ ایک عظیم پاور ہاؤس ہے۔ اس کا اپنا ایک نظام ہے جسے نظامِ شمسی کہتے ہیں۔ اللہ نے نظامِ شمسی میں سورج کو صدر کی حیثیت دے رکھی ہے۔ اس کا قطر 14 ملین کلومیٹر ہے جبکہ زمین کا قطر صرف 12740 کلومیٹر ہے۔ اس کا مواد زمین سے 330،000 گنا زیادہ ہے۔ اگر سورج کو ایک خول تصور کیا جائے تو اس کے اندر 14؍لاکھ زمینیں سما سکتی ہیں۔ اس کی عمر کا صحیح اندازہ تو صرف اللہ کو ہے تاہم سائنس دانوں کے تخمینے کے مطابق اس کا عرصۂ حیات 10،000 ملین سال ہے۔ اس کی موجودہ عمر 4600 ملین سال ہے، یعنی سورج اس وقت اپنے جوبن پر ہے۔ اس طویل المیعاد کارگزاری کے دوران نہ اس کی تمازت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے، نہ اس کی رفتار میں اور نہ ہی یہ اپنے مدار سے ذرا بھی سرکا ہے۔ ذرا غور فرمائیے! اگر ایک ملین سال کے عرصہ میں اس کی رفتار میں ایک سیکنڈ کی کمی بیشی بھی واقع ہو جاتی تو اب تک 4600 سیکنڈ کا فرق واقع ہو جاتا۔ اندازہ لگائیے کہ خدائے ذو الجلال کی صناعی کس قدر کامل ہے، اس کی منصوبہ بندی کتنی بے عیب ہے، اس کا علم کتنا ہمہ گیر و لا محدود ہے اور اس کی تخلیق میں اور پیش بینی میں کس درجے کی حتمیت Precision ہے۔
اب سورۂ یاسین کی آیت نمبر 38 ذہن میں لائیے جہاں ارشاد باری ہے:
﴿وَالشَّمسُ تَجر‌ى لِمُستَقَرٍّ‌ لَها ذ‌ٰلِكَ تَقديرُ‌ العَزيزِ العَليمِ ٣٨ ﴾ ...سورة يس
''اور سورج اپنے مقرر کردہ راستے پر چل رہا ہے، یہ خدائے غالب و دانا کی منصوبہ بندی ہے۔''
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے! کیا مذکورہ بالا حقائق تک رسائی ہم بغیر علم و تحقیق کے حاصل کر سکتے تھے؟ کیا خداوند قدوس کی اس عظیم صناعی کو بھانپ سکتے تھے؟
اسی لئے علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا:

گر تو می خواہی مسلمان زیستن                    نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

لیکن کیا قرآن کا مقصد ِنزول، جو ہماری رہنمائی اور ہدایت کے لئے حتمی اور یقینی سر چشمہ ہے، بغیر سمجھ بوجھ کے محض اس کی تلاوت سے حاصل ہو سکتاہے یا بغیر فہم و ادراک کے اسے رَٹ لینے سے وہ ہدایت اور رہنمائی نصیب ہو سکتی ہے؟
لیکن اتنا بڑا سورج بھی ربّ العالمین کی صناعی میں صرف ایک چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سورۃ الفرقان میں اسے چراغ (سراج) ہی کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں دیو پیکر یعنی Giants and Super Giants بھی موجود ہیں، مثلاً کینوپس Canopus نامی ستارہ سورج سے 200 گنا بڑا اور 1500 گنا زیادہ منور ہے۔ اس کا قطر 27 کروڑ 68 لاکھ میل ہے اور زمین سے اس کا فاصلہ 93 نوری سال ہے۔ نوٹ کیجئے کہ روشنی کی رفتار 186،000 میل فی سیکنڈ ہے لہٰذا ایک سال میں روشنی 58 کھرب 65 ارب 69 کروڑ 60 لاکھ میل کا سفر طے کرتی ہے۔ اس فاصلہ کو نوری سال کہتے ہیں، جو وسعتِ کائنات کی پیمائش کے لئے اکائی ہے۔ Antares سورج سے 430 گنا بڑا اور 500 گنا زیادہ منور ستارہ ہے۔ اس کا قطر 59 کروڑ 52 لاکھ کلو میڑ ہے اور یہ ہم سے 330 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ Betalgeuse سورج سے 500 گنا بڑا اور 17000 گنا زیادہ منور ستارہ ہے۔ اس کا قطر 69 کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر ہے، یہ زمین سے 270 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اسے آسمان میں نظر آنے والے ستاروں کا شہنشاہ مانا گیا ہے۔ اس کے شعلے 5 کروڑ میل تک بلند ہوتے ہیں۔ سفائی سورج سے ایک ہزار گنا بڑا ہے اور اس کا قطر 86 کروڑ 50 لاکھ میل ہے۔
Aurige Constellation میں ایک ستارہ آری گائی ہے۔ یہ سورج سے 2000 گنا بڑا ہے۔ اس کا قطر ایک ارب 73 کروڑ میل ہے۔ اس سے اُٹھنے والے شعلوں کا اندازہ کرنا ممکن نہیں، کیونکہ بے انتہا دور ہونے کی وجہ سے اس کی مکمل تحقیقات اور تخمینے ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے۔ اگر آری گائی کو سورج کے مدار میں رکھ دیا جائے تو یورینس سیاہ اس کے محیط کے اندر آجائے گا اور نظامِ شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔ یہ سب ستارے آگ کے کرّے ہیں۔ ججون کے شعلے کروڑوں میل بلند ہوتے ہیں۔ ان کی مہیب اور ہیبت ناک شکل اللہ تعالیٰ کی قوتِ جلالی کا ادنیٰ مظاہرہ پیش کرتی ہے۔ S.Doradus ہم سے 150،000 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور ہمارے سورج سے 5 لاکھ گنا زیادہ روشن ہے۔ اس کی چمک کے سامنے ہمارے سورج کی چمک ایک ادنیٰ چراغ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ کچھ عرصہ قبل آسٹریلوی اور برطانوی سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک Quasar کا انکشاف کیا ہے اور اس کا نام Pks 8000 Minus 300 رکھا ہے۔ یہ زمین سے 18 بلین نوری سال کے فاصلے پر ہے اور یہ بعید ترین اور منور ترین معروض ہے جو کائنات میں ایک سو ملین سورجوں کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ ان چند مثالوں سے آپ اللہ تعالیٰ کی شانِ خلاقی اور کبریائی پر غور کیجئے کہ کس نفاست اور کس کمالِ قدرت و حکمت سے ان کو پابندِ نظم و ضبط کر رکھا ہے کہ ان بے شمار اجرامِ فلکی میں سے نہ تو کوئی اپنے مدار سے بال برابر سرک سکتا ہے اور نہ یہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، حالانکہ حیرت انگیز رفتاروں سے رواں دواں ہیں۔ کائنات میں ہر سُو حرکت ہی حرکت ہے اور حرکت بھی بے پناہ۔ بقول علامہ اقبالؒ

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں

اسی طرح کائنات اکبر (Macrocosm) یعنی ارضِ و سماوات کی دنیا اِس قدر وسیع، پُر اسرار اور پیچیدہ ہے کہ نہ تو فہم انسانی اس کا احاطہ کر سکتا ہے اور نہ موجودہ آلاتِ بینائی اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہ بے کراں فضائیں، جو بڑی سے بڑی دور بین کی زد سے باہر ہیں، اللہ تعالیٰ کی جبروت و خلاقی کی علامات ہیں۔ ہماری کہکشاں ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ستاروں کے علاوہ کثیر مقدار میں دُخانی مادہ بھی موجود ہے۔ اس کے اندر تقریباً ایک لاکھ ملین ستارے رواں دواں ہیں۔ اُس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک لاکھ نوری سال کا فاصلہ ہے۔ ایک ستارے سے دوسرے ستارے کھربوں میل کا فاصلہ ہے۔ اس عظیم کائنات میں ہماری کہکشاں جیسی کھربوں کہکشائیں گردش میں ہیں۔ ہر کہکشاں اپنا ایک الگ محور اور آزاد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اپنے مرکز کے گرد بھی گھومتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے مقام سے دور چلی جا رہی ہیں۔ ہماری کہکشاں ان تمام ستاروں کے ساتھ جو آسمان میں نظر آرہے ہیں، 4 لاکھ 68 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے شمال کی طرف دوڑی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ 3 اور کہکشائیں بھی برہنہ آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک کا نام Andromedaہے اور دوسری دو Magellanic Clouds کہلاتی ہیں۔ ایندرو میڈا سب سے بڑی ہے جس میں 10 سورجوں کے مادہ سے بھی زیادہ مادہ موجود ہے۔ اس میں سینکڑوں عظیم الشان ستارے ہیں جو ہمارے اٹارش انٹارس اوربٹل گیزا سے بھی کئی گنا بڑے اور زیادہ منور ہیں۔ یہ کہکشاں ہم سے 21 لاکھ 80 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ میگلانگ کلائڈز میں سے پہلی ہم سے یک لاکھ 70 ہزار نوری سال اور دوسری 2 لاکھ نوری سال دور ہے۔ ان دونوں میں مجموعی طور پر ایک کھرب سے بھی زائد ستارے ہیں جن میں عظیم تر ہیں۔ان کہکشاؤں میں بے انتہا منور ستارے بھی پائے جاتے ہیں۔ Mount Wilson Palomar کی رصدگاہ میں نصب کردہ دو سو انچ لمبی دور بین سے تقریباً ایک ارب کہکشائیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات میں چاروں طرف کہکشائیں ہی کہکشائیں ہیں جو کھربوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ بہرحال ان کی تعداد کا صحیح علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ازروے الفاظ قرآنی:
''اور اللہ کے لشکروں کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔''
پیٹرمل لکھتا ہے کہ دور افتادہ کہکشاؤں Galaxies اورجمگھٹوں (Clusters) کو دیکھنا انسان کی قوت سے باہر ہے، اس لئے کہ وہ بے انتہا دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی وسعتوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ وہ بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ کائنات کی یہ وسعتیں ہمارے لئے سواے حیرت کے کچھ نہیں۔ ہمارے اعداد و شمار ان کے سامنے بیکار ہیں۔ یہ عجائباتِ ارض و سما لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں کہ وہ خالق ارض وسما اور خود اپنے خالق کی کبریائی کا اعتراف کرکے، اس کی الٰہی ہدایات کے سامنے سرتسلیم خم کیوں نہیں کردیتے اور اللہ کی اطاعت کا دم بھر کر آخرت میں جنت کے مقام فوز کے لئے تیاری کیوں نہیں کرتے؟