حضرت مولانا معین ا لدین لکھوی﷫

اکل حلال، صدقِ مقال، زہدو وَرع، علم و عمل، عبادت و رِیاضت، رُشد و ہدایت، ظاہری اور باطنی اعتبار سے حسین و جمیل اور خوبصورت و خوب سیرت 'گلستانِ لکھویہ' کا تعارف تحصیل حاصل ہے جن کا سلسلۂ نسب محمد بن حنفیہ کے توسط سے سیدنا علی سے جاملتا ہے۔اس خاندان کے برصغیر میں اوّلین بزرگ حافظ محمد امین تھے جو بابا ڈھنگ شاہ کے عرف سے مشہور و معروف بزرگ تھے۔ مغل اعظم جہانگیر بادشاہ غازی اُن کی خدمت میں بغرضِ رُشد و ہدایت حاضر ہوئے تھے اور غالباً ہزار بیگہ اراضی ہدیۃً پیش کر گئے تھے۔
جب اُن کی باری ختم ہوئی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے تو ان کی جگہ اُن کے لائق فرزندانِ گرامی قدر حافظ احمد اور اُن کے بھائی نے لے لی اور وہ بھی اپنے صالح باپ کی طرح لوگوں کو توحید وسنّت، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت اور توکل وانابت الیٰ اللہ کی تبلیغ کرنے لگے اور اپنے خاندان میں اس روحانی گلستان کی آبیاری کرنے کے لئے اپنی اولاد کی دینی بنیادوں پر تربیت کرنے لگے۔ جب اُن کی باری ختم ہوئی تو ان کی جگہ حافظ بارک اللہ لکھوی نے لے لی اور وہ اپنے دور کے بہت بڑے عالم با عمل اور فقیہ و زاہد ثابت ہوئے۔ جب وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کی جگہ ان کے لائق فرزند حافظ محمد لکھوی نے لے لی اور اُنہوں نے عربی اور فارسی نظم و نثر میں یکساں قدرت رکھنے کے باوجود پنجابی شاعری میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ شروع کر دی اور'تفسیر محمدی'، 'احوالِ آخرت' اور 'محامدِ اسلام' اور' زینت الاسلام' جیسی گراں قدر کتب لکھ کر پنجاب کے گھر گھر کو نورِ ہدایت سے منوّر کر دیا، حالانکہ اس سے قبل آپ سنن ابو داؤد اور مشکوٰۃ شریف کے عربی حواشی لکھ چکے تھے۔
جب وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو اُن کی جگہ اُن کے مایہ ناز سپوت مولانا محی الدین عبد الرحمٰن لکھوی نے لے لی جو روحانیت میں اپنے اَسلاف سے بھی آگے نکل گئے اور سرزمین حجاز میں دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے مدینہ منورہ کے بقیع غرقد میں مدفون ہو گئے۔ اُن کے بعد ان کے خاندان کی قیادت ان کے لائق فرزند مولانا محمد علی لکھوی کے ہاتھ میں آئی تو اُنہوں نے اپنے بزرگوں کے مشن کو جاری رکھا اور مدرسہ محمدیہ کو مرکز الاسلام کا نام دے کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور اسی دوران اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے مکہ معظّمہ چلے گئے اوروہاں سے مسجدِ نبویؐ کی زیارت کرنے اور ہادی اُمم حضرت رسول مقبولِﷺ پر سلام پڑھنے کی غرض سے مدینہ منورہ گئے تو وہاں کے عرب شیخ کی صاحب زادی سے اُن کا نکاح ہو گیا اورآپ وہاں مسجدِ نبویؐ میں ہی درسِ حدیث دینے لگے اور ساتھ ہی ساتھ صحیح مسلم شریف کی کتابت کرنے لگے۔تقریباً ایک صدی تک محیط صحیح مسلم شریف کا وہ نسخہ جو نور محمد کتب خانہ کراچی سے طبع ہو تا رہا ہے، یہ انہی کی سعئ مشکورہ ہے۔رحمہم اللہ اجمعین
اسی دوران ہندوستان تقسیم ہو گیا تو ان کی جگہ ان کے لائق فرزندانِ گرامی قدر حضرت مولانا محی الدین لکھوی اور مولانامعین الدین لکھوی﷭ نے لے لی اور اُن کی خدمات نے دعوتِ دین کے سلسلے کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ بڑے برادرِ گرامی قدر نے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کو شعار بنا لیا اور دنیاوی جاہ و حشمت اور طمطراق کوٹھوکر مار کر پنجاب کے قریہ قریہ اور کُو بکو، گوشہ گوشہ میں دعوتِ دین کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور چھوٹے برادر نے درس و تدریس کی سرپرستی کے ساتھ 'سیاست برائے دین' میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور اس میدان میں محض اپنی شرافت و صداقت، امانت و دیانت کی بدولت بڑے بڑے سیاست دانوں کو میدانِ سیاست میں چاروں شانے چت کر دیا اور دنیا کو درس دے دیا کہ سیاست محض کذب و دروغ اور دھوکہ فریب سے ہی نہیں بلکہ امانت اور صداقت وشرافت سے بھی ہو سکتی ہے لیکن علم و عمل اور ایمان و حکمت کا سورج (یعنی مولانا محی الدین لکھوی) تو ۱۹۹8ء میں غروب ہو گیا اور فہم و فراست، ذہانت و فطانت، علم و عمل اور حکمت و دانش کا چاند(مولانا معین الدین لکھوی) ۹؍دسمبر۲۰۱۱ء کو زیر زمین چھپ گیا :

شنیدم کہ در روز گار کُہن                       شدہ عنصری شاہ صاحب سُخن
چو اورنگ از عنصری شد تہی                   بفردوسی آمد کلامہی
چوفردوسی از دور فانی گذشت                  نظامی بملک سخن شاہ گشت
نظامی چوجام اجل در کشید                      بسرچتر اشعار سعدی رسید
چواورنگ سعدی فروشد زکار                  سخن برفرق خسر و نثار
وزاں پس چونوبت بجامی رسید                   جہاں سخن راتمامی رسید

مولانا معین الدین لکھوی﷫ جیسے علما کی مثال اس دنیا میں اُن ستاروں کی سی تھی جن کے ذریعے ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْر سے نکلنے کے لئے راستے نظر آتے ہیں اور اس طرح کے ستارے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو نجات کے راستوں کا ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
«فَضْلُ الْعَالِمَ عَلىٰ الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ عَلٰى سَائر الْکَوَاکِب»1
'' عالم باعمل کی فضیلت عابد کے مقابلے میں ایسی ہے جیسی بدرِ تمام کو سارے ستاروں پر ہے۔ ''
آنحضرت ﷺ نے مزید فرمایا:
«لَئِنْ تَمُوْتُ قَبِیْلَةٌ بأسْرها اَیْسَرُ عَلٰى اللهِ مِنْ مَوْتِ عَالِمٍ»2
''اگر کوئی قبیلہ اپنے تمام افراد سمیت مر جائے تو اللہ کے ہاں اس کا مرجا نا ایک عالم کے مرجانے سے زیادہ آسان ہے۔''
کیونکہ ایک عالم ربّانی کے دنیا سے اُٹھ جانے سے علم و حکمت، دانش و فرزانگی، حق گوئی وبے باکی اور ہم دردی و غم گساری کے پہاڑ زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ ایک عربی شاعر نے مذکورہ بالا حقائق کو درج ذیل اشعار میں بیان کیا ہے:

لَعَمْرُكَ مَا الرزِّیَّةُ فَقْدُ مَالٍ               وَلَا شَاةٌ تَمُوْتُ وَلَا بَعِیْرُ
وَلٰکِنْ الرّزِیَّــةُ فَقْــدُ حِبْرٍ             یَمُوْتُ بِمَوْتهِ خَلْقٌ کَثِیْرٌ

''تیری عمر کی قسم مال و زر کا ہاتھ سے جاتے رہنا قابل افسوس مصیبت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بکری یا اونٹ کا مر جانا مصیبت سمجھا جاتا ہے۔ اصلی اور حقیقی مصیبت تو کسی عالم کا ہاتھ سے جاتے رہنا ہے کیونکہ اس کی موت سے بہت سی مخلوق مر جاتی ہے۔''
اس بات میں ذرّہ برابر مبالغہ نہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بعد دیگر جماعتوں کو بالعموم ...اور جماعت اہل حدیث کو بالخصوص مولانا سید داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ جیسا دانش مند اور معاملہ فہم اور دور اندیش قائد اور سیاست دان میسر نہیں آیا۔
حضرت مولانا عبد القادر حصاروی ایسے علما وفضلا کی وفات پر کہا کرتے تھے:

گُل گئے گُلاب گئے باقی خالی دھتورے رہ گئے
عقلاں والے چلے گئے باقی بے شعورے رہ گئے

حضرت مولانا معین الدین لکھوی﷫، سید نذیر حسین دہلوی شیخ الکل فی الکل کے مشہود لہ بالخیر گھرانے کے فردِ فرید ہونے کے باوجود جب مولانا احمد علی لاہوری کے ہاں دورۂ تفسیر قرآن کے لئے گئے تو اُنہوں نے اُن سے پوچھا: بیٹا پہلے بھی کہیں دورہ تفسیر کیا ہے تو آپ نے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا نام لیا کہ میں اُن سے بھی اس سلسلے میں فیض یاب ہو چکا ہوں تو حضرت لاہوری نے فرمایا:
بیٹا!ان جیسے متبحر عالم کے بعد مجھ جیسے گنہگار کے پاس پڑھنے کی آپ کو کیا ضرورت تھی؟ خیر جب وہاں دورۂ تفسیر مکمل ہوا اور امتحان میں دو طلبا برابر برابر نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب ان دونوں میں سے اوّل کا انتخاب کرنے کے لئے امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کو منصف مقرر کیا گیا تو آپ نے پیپر دیکھ حضرت مولانا معین الدین لکھوی کو اوّل قرار دیا۔ بعدازاں جب امام انقلاب کا اُن سے تعارف کروایا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: اس بچے کو اوّل نمبر پر آنا ہی چاہئے تھا کیونکہ میں خود اس کے خاندان کا ممنون ہوں اور اس کے پردادا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی کی کتاب پڑھ کر ہی میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تھی اور میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
حضرت مولانا معین الدین لکھوی پیدائشی طور پر ہی شاہانہ مزاج رکھتے تھے۔ صاف ستھرا رہنا، پاکیزہ اور صاف ستھرا کھانا،عمدہ لباس پہننا اور باوقار چلنا، باوقار انداز سے بولنا اور دھیمی آواز سے گفتگو کرنا ان کا شعار تھا۔ قرآنِ حکیم کی تفسیر پر عبور حاصل تھا۔ جب وہ درسِ قرآن دیتے تو علم و حکمت کے دریا بہا دیتے اور اس کے بعد وہ درسِ قرآن میں شریک طلبہ جامعہ محمدیہ سے صرفی اور نحوی سوالات کرتے اور اُن کا حل بتاتے۔
راقم الحروف کو ان سے باقاعدہ استفادہ کرنے کا موقعہ ۱۹۷۶ء میں میسّر ہوا، جب ہمارے اُستاذ مولانا محمد یوسف آف راجو وال نے مجھے اپنے بیٹے سمیت وہاں داخل کروایا۔ حضرت مولانا بالخصوص فجر کی نماز خود پڑھایا کرتے تھے اور عموماً سورہ 'قٓ' تلاوت کرتے تھے۔ مجھے ان کا اندازِ تلاوت اس قدر پسند آیا کہ میں نے بھی اسی دور میں اُن کی آواز اور ان کے لہجے میں سورہ قٓ زبانی یاد کر لی۔
حضرت مولانا لکھوی رحمہ اللہ کا معمول یہ تھا کہ آپ روزانہ درسِ قرآن دیتے اور پھر سیر کو نکل جاتے اور چار پانچ میل پیدل سیر کے بعد نہا دھو کر اور ناشتہ کر کے دفتر میں تشریف لاتے اور حاضرین اور ملاقاتیوں کی درخواستیں پڑھ سن کر مناسب ہدایات دیتے اور حکامِ بالا کو فون کرتے اور فونوں کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اتوار کا دن عموماً دم درود اور تعویذات والوں کے لئے مختص ہوتا تھا۔ اس روز کبھی کبھی نماز باجماعت میں تساہل ہو جاتا اور جب آپ اُن سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے۔ آپ ہر طرح کی جلد بازیوں کو بالائے طاق بلکہ بھلا کر اپنے بزرگوں کی نماز کا نقشہ پیش کر دیتے۔ آپ کا ظہر کی نماز باجماعت میں تساہل ۱۹۸۶ء تک رہا لیکن اس سال ان کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کے بعد وہ تساہل ختم ہو گیا اور آپ اذان سنتے ہی ہر طرح کی مجلسوں اور میٹنگوں سےاُٹھ کر وضو کر کے پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے بعد بڑی دیر تک ذکر اذکار اور طویل دعا کے بعد سنن رواتب ادا کر کے دفتر تشریف لاتے اور اپنے سیاسی اور مذہبی معاملات پر مشاورت کرتے۔
اللہ نے ان کا مذہبی اور سیاسی قد کاٹھ اتنا شاندار بنایا کہ عموماً افسرانِ بالا اُن کی سفارش ردّ نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے کسی سائل کو کسی پوسٹ پر ملازمت کے لئے سفارشی خط دیا۔ اتفاقاً اسی پوسٹ کے لئے دیگر اُمیدواران بھی مختلف ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کے لیٹر لیکر آئے ہوئے تھے لیکن اس محکمے کے افسر اعلیٰ نے تمام ممبرانِ اسمبلی کی سفارشوں کو بالاے طاق رکھ کر حضرت مولانا کی سفارش لے کر آنے والے کو مشتہر کردہ پوسٹ پر تعینات کر دیا اور کہا کہ حضرت مولانا جیسے لوگ ہمیشہ کے لئے قابل عزت ہیں، خواہ وہ الیکشن میں جیت جائیں یا ہار جائیں۔ ان کو اللہ کے دین کی وجہ سے جو عزت حاصل ہے وہ جیتنے یا ہارنے سے بڑھتی اور گھٹتی نہیں ہے۔ دوسروں کا کیا ہے آج جیتے تو ہیرو، اگلے الیکشن میں ہارے تو زیرو!!
سیاست کے ایوانوں میں
حضرت مولانا معین الدین لکھوی، نواب زادہ نصر اللہ خاں اور حافظ عبد القادر روپڑی ﷭ کی طرح اپنی ذات میں ایک فرد نہیں بلکہ انجمن اور جماعت تھے۔ ان کی پہچان جماعتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی وجہ سے جماعتوں کی پہچان تھی۔ ایک صاحب نے مینارِ پاکستان پر ایک ملک گیر اہل حدیث کانفرنس کا ڈرامہ رچا کر میاں نواز شریف کے سامنے مطالبہ رکھ دیا کہ اِس دفعہ حلقہ چونیاں ضلع قصور کی نشست کا ٹکٹ مولانا معین الدین لکھوی کی بجائے ہمارے اُمیدوار کو دیا جائے تو میاں نواز شریف نے اُس کے مطالبے کو ٹھکرا کر جواب دیا کہ تم اُس شخصیت کے مقابلے میں ٹکٹ کا مطالبہ کر رہے ہو جس نے اپنے ما تحت پینل کا انتخاب بھی میری بجائے خود ہی کرنا ہے اور وہ ہماری سیاسی پیدائش سے پہلے سے سیاست کر رہے ہیں اور وہ اپنے علاقے کے بڑے بزرگ سیاست دان اور عالم دین ہیں اور اپنی دانش وشرافت کی وجہ سے کئی مرتبہ وہاں سے جیت چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوں ناگوں خوبیوں سے متصف کر رکھا تھا۔ ایک تو آپ نہایت وجیہ اور حسین و شکیل اور خوش خوراک وخوش پوشاک تھے اور دوسری طرف حد درجہ غم گسار اور ہمدرد اور عبادت گزار تھے اور شاید آپ کی عبادت گزاری ہی آپ کی وجاہت اور دلیری اور حق گوئی کا باعث ہو۔ آپ حق بات کو بلا خوف لومۃ لائم کہہ دیتے تھے اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کرتے کہ میرے سامنے حاکم وقت کھڑا ہے یا اس کا کوئی فوجی جرنیل!
سانحۂ کارگل کی سنگینی کے پیش نظر میاں نواز شریف سابق وزیر اعظم پاکستان نے اراکین قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور اُنہیں اس کے خطرات سے آگاہ کیا تو بڑے بڑے جاگیر دار اور صنعت کار اراکین گھبرا اُٹھےاور اس جنگ کو ختم کرانے کے مشورے دینے لگے تو حضرت مولانا لکھویؒ کھڑے ہوئے اور قرآنِ حکیم کی یہ آیت پڑھی:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا لَقيتُمُ الَّذينَ كَفَر‌وا زَحفًا فَلا تُوَلّوهُمُ الأَدبارَ‌ ١٥ وَمَن يُوَلِّهِم يَومَئِذٍ دُبُرَ‌هُ إِلّا مُتَحَرِّ‌فًا لِقِتالٍ أَو مُتَحَيِّزًا إِلىٰ فِئَةٍ فَقَد باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأوىٰهُ جَهَنَّمُ وَبِئسَ المَصيرُ‌ ١٦﴾.... سورة الانفال
''اے ایمان والو! جب تم کافروں سے بر سرپیکار ہو جاؤ تو پیٹھیں نہ پھیرو اور جو کوئی اس دن پیٹھ پھیرے سوائے اس نیت کے کہ وہ لڑائی کے لئے کوئی چال اختیار کرنے والا ہو یا لڑنے کے لئے مسلمانوں کی دوسری جماعت سے ملنے والا ہو تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔''
یہ ترجمہ بیان کرکے آپ نے فرمایا: پرائم منسٹر صاحب! یا تو یہ جنگ چھیڑنی ہی نہ تھی، اب گر چھیڑ ہی بیٹھے ہو تو اللہ پر توکّل کرو، میدان جنگ میں لڑ کر اتنے سپاہی شہید نہیں ہوتے جتنےپسپا ہوکے دوزخ کا ایندھن بنتے ہیں۔ لیکن میاں نواز شریف اور دیگر صنعت کاروں اور جاگیر دار وزیروں و مشیروں کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، لہٰذا اُنہوں نے اللہ کا حکم سن کر اَن سنا کر دیا۔ اور پاکستانی فوج کے اتنے سپاہی مروائے کہ اتنے جنگ میں بھی نہیں مرنے تھے۔
اِسی طرح ایک موقع پرسابق وزیر اعظم موصوف تقریباً بارہ اراکین اسمبلی میں بیٹھے 2010ء تک حکومت کرنے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کر ہے تھے تو آپ نے ان کے سامنے ہی یہ بات کہہ دی کہ پرائم منسٹر صاحب آپ 2010ء تک حکومت کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی حکومت کے وزیر 2000ء سے قبل ہی آپ کی حکومت کی کشتی ڈبو دیں گے۔ وہ کہنے لگے: یہ کیسے؟
آپ نے فرمایا: آپ کی حکومت کے ایک وزیر نے ہمارے ایک عزیز کو ناحق کسی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر70 ہزار روپے وصول کئے ہیں اور یوں سمجھیں کہ وہ 70 ہزار روپے اُس نے میرے ہاتھ سے لئے ہیں اور میں نے اس بے گناہ محبوس کو آزاد کرانے کے لئے دیئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم گویا ہوئے کہ آپ اس کا نام بتا سکتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: ابھی اور اسی وقت بتاتا ہوں بشرطیکہ آپ ان بارہ اراکین اسمبلی کے سامنے وعدہ کریں کہ آپ اس کا ایکشن لیں گے؟ بس آپ کا اتنا کہنا تھا کہ صدر فاروق لغاری، اور آرمی چیف جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کے سامنے نہ جھکنے والے وزیر اعظم کے سر گھڑوں پانی پڑ گیا اور وہ بول ہی نہ سکے۔ ایسا کیوں ہوا! اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ وزیر صاحب سید کہلاتے تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں اور میاں صاحب اور ان کے برادرِ اصغر کے متعلق ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ وہ ان جیسے لوگوں کے آباؤ اجداد کے مزاروں پر چادریں چڑھانے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ مولانا کی پیش گوئی کے مطابق میاں صاحب کے ایسے ہی وزیروں نے ان کی حکومت کی لٹیا ڈبو دی لیکن میاں صاحب اپنے اس وزیر کے خلاف ایکشن نہ لے سکے۔ اور وہ وزیر صاحب فوراً ہی ظالم ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کشتی میں سوار ہو کر پھر حکومت کے مزے لینے لگے اور اب پھر وہ سابق وزیر اعظم موصوف کی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ شاید سابق وزیر اعظم کو ان کی یہی حق گوئی پسند نہیں آئی اس لئے وہ نہ تو ان کی عیادت کے لئے آئے، نہ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کے برادرِ اصغر وزیر اعلیٰ پنجاب نے رسمِ تعزیت کی ضرورت محسوس کی۔
سابق جرنیل صدر پرویز مشرف کے دور میں حضرت مولانا کو حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے بڑی بے باکی سے ٹھکرا دی۔ اس طرح کہ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی ایجنسیوں کو حضرت مولانا کے پیچھے لگا دیا کہ یہ تین دفعہ رکن قومی اسمبلی اور ایک دفعہ مجلس شوریٰ کے رکن رہے ہیں اور لازمی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے بھی مولوی ڈیزل جیسے مولویوں کی طرح کرپشن کی ہو گی۔ لہٰذا ان کے ریکارڈ کی چھان بین کی جائے اور انکے گھپلے پکڑے جائیں۔ جب تمام ایجنسیوں نے چھان بین کی تو اُنہوں نے صدر پرویز مشرف کو مطلع کیا کہ اس شخص نے ایک دھیلے کا بھی گھپلا نہیں کیا تو وہ غصے میں آگیا اور اس نے ایجنسیوں کے انچارج صاحبان کو سخت سُست کہہ کر چوتھی ایجنسی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان کو دیئے گئے فنڈز کی چھان بین کرے، لازماً کچھ نہ کچھ اس کے ذمہ نکلے گا کیونکہ یہ کوئی فرشتہ تو نہیں ہے لیکن چار ماہ بعد اُس نے بھی یہ رپورٹ دی کہ ہمارے سامنے ان کا کوئی غبن یا گھپلا نہیں آیا۔
جب مشرف نے علماء و مشائخ کانفرنس بلائی اور حضرت لکھویؒ کو بھی خصوصی دعوت نامہ بھجوا دیا جب آپ ایوانِ صدر میں تشریف لے گئے تو اُس نے بھری کانفرنس میں اپنی کرسی سے اُٹھ کر آپ کو سلیوٹ کیا اور کہا: حضرت مولانا! میں آپ کی عظمت اور دیانت داری کو سلیوٹ کرتا ہوں، میری درخواست یہ ہے کہ آپ حکومت میں شامل ہو کر ہماری معاونت کریں، ہمیں آپ جیسے لوگوں کی شدید ضرورت ہے۔ آپؒ نے بھری کانفرنس میں جواب دیا: جناب صدر آپ پاکستان میں اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں، اس لئے ہم آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ کہہ کر باہر تشریف لے آئے اور صدرِ پاکستان اپنا سا منہ لیکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور دیگر مشائخ سے اپنے حق میں قصیدے اور نعرے سننے لگے۔
جنر ل مشرف نے دوسری مرتبہ صدارت پر براجمان ہونے کے بعدضلع اوکاڑا کے سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ایک برگیڈیئر غالباً سعید مہدی کو ساتھ بھیج دیا۔ اُنہوں نے ضلع بھر کے سیاست دانوں کو اکٹھا کر کے مولانا سے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تاکہ ہم مل کر قوم و ملت کی خدمت کریں۔
آپ نے اُن کی یہ بات سن کر فرمایا: اچھا آپ نے ہمیں اس لئے بلایا ہے کہ ہم ان لوگوں کی طرح تمہاری جماعت میں شامل ہو کر کرپشن کی غلاظت سے آلودہ ہو جائیں۔ یہ صاحب جو اس وقت آپ کے سامنے موجود ہیں، یہ ہمارے علاقے کے بدنام قسم کے زانی اور شرابی پیر ہیں۔ اور یہ صاحب ہمارے اس ضلع کے بڑے رسّہ گیر اور سفاک ایم این اے ہیں اور یہ صاحب پرلے درجہ کے کرپٹ انسان ہیں۔آپ نے ہمیں ان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے بلایا ہے۔ ہمارا صاف جواب ہے ہم آپ کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے اکیلے ہی بھلے۔ یہ سن کر برگیڈیئر مہدی صاحب گویا ہوئے کہ بڑے میاں! آپ بڑے ہیں ، اس لئے آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ بڑے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ ہم میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو ہم آپ کو مجبور نہیں کرتے۔ جب آپ برگیڈیئر صاحب کے سامنے یہ باتیں کہہ رہے تھے تو ساتھ ہی ساتھ ان سیاست دانوں کی طرف اپنی لاٹھی سے اشارہ بھی کرتے جا رہے تھے۔ اللہ اللہ! ایسا رعب اور ایسا جلال کہ کوئی بھی آپ کے سامنے دم نہ مار سکا۔
ذاتی اوصاف اور دینی خدمات
جس دور میں ہم جامعہ محمدیہ میں زیر تعلیم تھے تو ہمارے ایک ساتھی حضرت مولانا زید احمد، فاضل مدینہ یونیورسٹی نے ہمیں آپ کی نرم خوئی کا ایک ہڈ بیتا واقعہ سنایا کہ جب میں جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں نیا نیا داخل ہوا تو میں نے مولانا محی الدین لکھویؒ کے پرشفقت مصافحے اور معانقے کا تصور ذہن میں بٹھا کر حضرت مولانا معین الدین لکھوی سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اُنہوں نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں دو انگلیاں ملا دیں جس کا مجھے بڑا صدمہ ہوا اور ایک دن اپنی ناراضی اور حضرت مولانا کی سرد مہری پر غصہ کی بھڑاس نکالنے کے لئے دفتر کے سامنے ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے ایک ساتھی سے حضرت مولانا محی الدین لکھوی کے پرتپاکی سے ملنے کی تعریف اور حضرت مولانا معین الدین لکھوی کے سرد مہری سے مصافحہ کرنے کا برے الفاظ میں تذکرہ کرنے لگا اور دس پندرہ منٹ تک برے الفاظ سے تذکرہ کرتا ہی چلا گیا اور مجھے کیا معلوم تھا کہ ناظم صاحب ستون کی دوسری طرف کھڑے اپنے کانوں سے اپنے حق میں نازیبا کلمات سن رہے ہیں۔اس دور میں طلباے جامعہ آپ کو ناظم صاحب کے نام سے بولا کرتے تھے کہ اچانک مولانا آگے بڑھے اور مجھے دیکھا اور پھر واپس اپنے کمرے میں چلے گئے اور جب میں نے اپنی اس حرکت پر غور کیا تو پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ میں لرزتا کانپتا اوپر والی منزل میں اپنے بستر پر لیٹ گیا اور ڈرنے لگا کہ اب پتہ نہیں کیا بنے گا۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ایک طالبِ علم مجھے بلانے آگیا کہ آپ کو ناظم صاحب دفتر میں بلا رہے ہیں۔ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو میرا خون خشک اور رنگ فق ہو گیا۔ میں ڈرتا، لرزتا، کانپتا ہوا اُن کے دفتر میں پہنچا تو اُنہوں نے مجھے پانی والا گلاس دیا اور کہا: اس میں باہر سے پانی لے آؤ۔ میں گیا اور شیشے کا گلاس پانی سے بھر لایا۔ آپ نے پوچھا: اسے آٹے سے مانجھ کر پھر پانی سے دھو کر، اس میں پانی لےلاؤ۔ میں گیا اور باورچی سے آٹا لیکر اس گلاس کو چمکا کر پانی سے بھر لایا جو آدھا آپ نے پیا اور آدھا مجھے پلا کر واپس جانے کی اجازت دے دی تو میری جان میں جان آگئی۔
آپ کے عمدہ اوصاف میں سے ایک عمدہ وصف یہ بھی تھا کہ آپ نے اپنے برا کہنے والوں کو کبھی برا نہیں کہا۔ ایک صاحب زندگی بھر جامعہ کے باہر دکان میں چوبیس گھنٹوں میں اوسط پانچ چھ گھنٹے اپنے ملاقاتیوں کے سامنے آپ کی نیکیاں بڑھاتے رہتے لیکن آپ نے زندگی بھر اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اپنی زبان پر حرفِ شکایت لائے۔ ایک مرتبہ آپ کے درسِ قرآن کے اختتام پر ایک صاحب آپ سے کہنے لگے کہ ایک عالم لالہ زار کالونی کی مسجدِ مبارک میں تقریر کے دوران کہہ رہے تھے کہ جو کوئی مولانا محی الدین لکھوی کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: کیا اس عالم کی اس بات کو لوگوں نے اچھا سمجھا ہے؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس بات کو نہایت برا سمجھا ہے تو آپ نے فرمایا تو بھائی عبد الغنی! پھر مجھ سے کیا سننا چاہتے ہو جب لوگوں نے ہی اسے اچھا نہیں سمجھا تو ہمیں اس کا برا منانے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ خود مولانا محی الدین لکھوی سے بھی کسی نے کہہ دیا کہ فلاں عالم آپ کو کافر کہتا ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر! میرے بھائی میں تو اُنہیں مسلمان ہی سمجھتا ہوں اور اسے مسلمان ہی کہتا رہوں گا۔ سعدی مرحوم نے ایسے ہی بزرگوں کے متعلق فرمایا ہے:

شنیدم کہ مردانِ راہ خدا                      دل دشمناں نہ ہم کردند تنگ
ترا کے میسر شود ایں مقام                    کہ با دوستاں خلاف است جنگ

ایک مرحوم شہید رحمہ اللہ اپنے جلسوں میں آپ کے قد کو گھٹانے اور اپنا قد بڑھانے کے لئے آپ کے خلاف بڑے گھٹیا قسم کے نعرے لگواتے اور اُنہیں سن کر محظوظ ہوتے۔ بالآخر جب اُنہوں نے محسوس کیا کہ اس طرح تو اُن کا کچھ نہ بگڑا تو صلح کے لئے ایک آدمی بھیج کر اپنے کئے کی معافی مانگی تو آپ نے یک لخت اسے معاف کر دیا اور صلح کے لئے آمادہ بھی ہو گئے۔
آپ کے عمدہ اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی تھا کہ آپ نے اپنے دین کے بارے میں کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا اور آپ اپنی الیکشن مہم کے لئے جہاں کہیں جاتے وہاں اپنی مسجد ہوتی یا مخالف مسلک کی مسجد، وہاں علیٰ الاعیان رفع الیدین کرتے اور جہاں کہیں خطبہ دیتے، اہل حدیث کی طرز پر خطبہ دیتے اور اس کے باوجود بھی جیت جاتے ۔آپ نے کبھی کسی سیاسی لیڈر کی طرح جھوٹ بولا اور نہ جھوٹا وعدہ کیا، نہ کرپشن کی نہ کسی کو کرپشن کرنے دی۔ ورنہ ہم نے بڑے بڑے ڈرامے باز مولوی اور لیڈرز دیکھے ہیں جو جیسا دیس ویسا بھیس بنا لیتے ہیں۔خصوصاً عربوں اور عجمیوں کو بے وقوف بنا کر ان سے دولت ہتھیانے کے لئے مسلک تو کیا دین و ایمان بیچ کھاتے ہیں۔
آپ کے عمدہ اوصاف میں ایک وصف یہ تھا کہ آپ نے اپنے اسلاف کی طرح اپنی جوانی اور بڑھاپے کو بے داغ رکھا بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر میں دعوے سے کہتا ہوں کہ لکھوی بزرگوں کی طرح دیگر مسالک کے لوگ روحانیات کے دعوے دار ہیں لیکن ان کے گدی نشینوں کے ہمسایوں سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ وہ گواہی دیں گے کہ وہ بھتہ خور، شراب نوش اور لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے اور عیاش ہیں جب کہ لکھوی بزرگ اور ان کی اولادیں آج بھی مجسمہ شرم و حیا خاندانی شرافت اور وجاہت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یقین حاصل کرنے کے لئے مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین لکھوی بلکہ مولانا شفیق الرحمٰن اور مولانا عزیز الرحمٰن کی اولادوں کو دیکھ لیں ان میں شرافت، نجابت، عبادت، ریاضت ہمدردی و غمگساری نظر آئے گی۔ خصوصی طور پروفیسر ڈاکٹر حماد اور پروفیسر ڈاکٹر حمود، ڈاکٹر عابد، ڈاکٹر زاہد، مولانا بارک اللہ، مولانا حفظ الرحمٰن، ذکی الرحمٰن، رفیق الرحمٰن، مولانا محمد حمید اور مولانا محمد زید، محمد احمد لکھوی برادران یہ سب کے سب اعلیٰ درجہ وجیہ اور شریف اور مدبر و مفکر ہیں۔ فضائل سے آراستہ اور رزائل سے کوسوں دور ہیں۔ ان کو دیکھ کر ان کے اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ البتہ اِنہیں مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین کا مقام حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرح صبر واستقامت اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا کیونکہ ان دونوں برادران مرحومین کا مقام و مرتبہ ہر کسی کو ہر دور میں نصیب نہیں ہوتا بلکہ اچھے مقدر والوں کو عرصہ بعد نصیب ہوتا ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

روزِہا باید کہ تایک مشت پشم از میش          زاہدے را خرقہ گردد یا حمارے رار سن
ہفتہ ہا باید کہ تایک دانہ ز آب و گل            شاہدے راحُلّہ گردد یا شہیدے راکفن
ماہ ہا باید کہ تایک قطرہ از پشت و رحم           صفدر بے خیزد بمیدان یا عروس انجمن
سالہا باید کہ تایک سنگ قابل ز آفتاب         لعل گردد در بدخشاں یا عقیق اندر یمن
قرنہا باید کہ تایک کودک از فیض طبع          عالم دانا شود یا شاعر شیریں سخن
عمرہا باید کہ تاگردوں گردان یک شبے           عاشقی راوصل بخشد یا غریبے را وطن
دورہا باید کہ یک مرد صاحبدل شود                  بایزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن

لہٰذا اب جماعت اہل حدیث کو خصوصاً اور دیگر مسالک کو عموماً مدتِ دراز تک مولانا ثناء اللہ امرتسری جیسا مناظر،حافظ عبد اللہ روپڑی جیسا مجتہد، اور مولانا سید داؤد غزنوی جیسا بار عب و شب بیدار اور علامہ احسان الٰہی ظہیر جیسا خطیب اور مولانا اسماعیل سلفی جیسا ادیب اور مولانا محی الدین لکھوی جیسا اویس دوراں اور مولانا معین الدین لکھوی جیسا دانشمند پیدا ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
راقم الحروف کو جب کبھی اوکاڑا شہر میں جانا پڑتا تو اُن سے دفتر یا گھر میں ملاقات کر کے آتا اور آپ کبھی کبھار دیر سے ملاقات کرنے سے سرنش بھی کرتے ۔ایک دفعہ راقم ان کے دفتر میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا، تو آپ قرآن کریم کی تلاوت کر کے میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے:
''عبد الجبار! میں یہ بات سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ اللہ نے میرے اوپر احسانات بہت کئے ہیں اور میں ان میں سے کسی ایک کا شکر بھی ادا نہیں کر سکا۔ دیکھیں والد صاحب مرحوم مدینہ منورہ چلے گئے اور جامعہ محمدیہ کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔ اس بوجھ نے میری کمر بوجھل کی ہوئی ہے۔ اب اللہ نے اس کو خود کفیل کر دیا ہے۔ سیاست میں قدم رکھا تو اللہ نے چار مرتبہ اعلیٰ منصب پر فائز کیا۔ بیس سال تک میں جماعت اہل حدیث کا امیر رہ چکا ہوں۔ اللہ نے دین اور دنیا کی ہر خوبی عطا فرمائی ہے۔ اب اس کا تقاضا ہے کہ میں شکر گزاری میں مصروف رہوں لیکن لوگوں کے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے یہ قصور مجھ سے دور نہیں ہو رہا۔''
جب آپ اپنی عمر کی اٹھا سی بہاریں گزار چکے تو آپ پر ضعفِ جسمانی غالب آگیا اور آپ اپنے ملاقاتیوں کے سامنے یہ بات یاد کر کے رونے لگتے کہ پتہ نہیں میرا ربّ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ ملاقاتی عرض کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کرنا ہے، وہ پہلے ہی بتا دیا ہے ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ﴾لہٰذا آپ اپنے ربّ سے ایک جنت نہیں بلکہ دوجنتوں کی اُمید رکھیں۔ جامعہ محمدیہ اور جامعہ سلفیہ اسلام آباد آپ کا صدقہ جاریہ ہیں۔ ہزاروں علما و طلبا آپ کے روحانی فرزند ہیں اور وہ آپ کی مغفرت کے طلب گار رہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ تا دم آخریں اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہے اور ہر جمعہ جامعہ محمدیہ میں ادا کرتے اور ضعف و کمزوری کی وجہ سے تسبیحاتِ رکوع و سجود اور ادعیہ تشہد بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیتے اور رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور خطاؤں سے در گزر کا سوال کرتے اور پھر خادمین کے ہمراہ گھر چلے جاتے اور وہاں فرض نماز ادا کرتے وقت کسی کو اپنے پاس بلا لیتے، جو رکعات شمار کر کے بتلا دیتا کہ اب نماز پوری ہو گئی ہے۔ ان ایام میں آپ کے پوتے عزیزم حافظ محمد داؤد نے آپ کی بہت خدمت کی ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

سَلَامُ اللهِ عَلىٰ قَـیْسِ بْنِ عَاصِمٍ          وَرَحْمَتـه مَا شَاَء أَنْ یَتَرَحَّمَا
مَا کَان هلك قیس هلك وَاحِدٍ              ولکن بنیان القوم تَهَـدّمَا

مذکورہ بالا مضمون مرحوم کے سوانح اور کارہاے نمایاں سے زیادہ اُن کی وفات حسرت آیات پر مضمون نگار کے تاثرات وجذبات کا بے ساختہ اظہار ہے۔ مولانا معین الدین لکھوی ﷫ کے سوانح حیات کے لئے 'بزم ارجمنداں' از مولانا اسحٰق بھٹی اور مولانا محی الدین لکھوی﷫کے حالاتِ زندگی کے لئے مولانا بھٹی ﷾ کی ہی کتاب 'قافلۂ حدیث' کا مطالعہ کریں، ان کتب میں دو نوں مرحوم بھائیوں پر تفصیلی مضامین موجود ہیں۔ مُدیر

رئیس الجامعہ کا سعودی عالمی کانفرنس میں سلفیت کے موضوع پر مؤثر خطاب

'محدث' کے مدیر اعلیٰ اور جامعہ لاہور اسلامیہ کے رئیس مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ گذشتہ ماہ سعودی عرب میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے تشریف لے گئے۔ عالم اسلام کی عظیم ترین جامعہ، امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے زیر اہتمام، سعودی ولی عہد شہزادہ نائف بن عبد العزیز کی زیر سربراہی 27 ،28 دسمبر 2011ء کو الریاض میں السلفية: منهج شرعي و مطلب وطنيکے عنوان سے ہونے والی عظیم الشان انٹرنیشنل کانفرنس میں جناب مدیر اعلیٰ نے عربی زبان میں تفصیلی خطاب کیا جسے خصوصی پذیرائی ملی اور بعد میں سعودی عرب کے قومی میڈیا نے آپ سے متعدد انٹرویوز میں آپ کے خیالات ونظریات کو بڑے پیمانے پر شائع کیا۔ مولانا مدنی کے خطاب کا اُردو ترجمہ اور آپ کے سعودی انٹرویوز کو 'محدث' کے آئندہ شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ اداره محدث


حوالہ جات
1سنن ابن ماجہ: 219

2مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۱؍۲۰۱، ۲۰۲