عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ
ماہنامہ 'ساحل'سے متعارف ہونے والے کراچی کے فکری حلقے کے نمائندہ جناب زاہد صدیق مغل نے زیر نظر مضمون میں جمہوریت کا تجزیہ وتردید کرتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کے درجات متعین کئے ہیں۔ اُنہوں نے فی زمانہ خروج کی تحریکوں کی وجۂ جواز، اُمت ِمسلمہ پر باطل نظاموں کی حکومت کو قرار دیا ہے کہ جب تک اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا،اس وقت تک مسلمان تکفیر و خروج کےاسلامی سیاسی تصور سے استدلال کرکے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔اس سلسلے میں خروج کے شرعی جواز کے دلائل تفصیلا ً پیش کرتے ہوئے،اُن کی رائے ہے کہ ان پر خروج کی بجائے جہاد کا لفظ بولنا زیادہ موزوں ہے کیونکہ خروج دراصل کسی اسلامی ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔فی زمانہ مسلمانوں کی موجودہ ریاستوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے خروج کے لفظ کو خلط ِمبحث قرار دیا ہے ۔ ایک مستقل طرزِ فکر ہونے کے ناطے ان کا استدلال بہر حال قابل توجہ ہے۔ یہ مضمون تکفیر وخروج پر جاری اس پہلے مذاکرے کا اہم حصہ ہے جس کی نشاندہی ادارتی صفحات میں کی گئی ہے۔مدیر
چند روز1قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان 'عصر حاضر میں تکفیر وخروج' کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماے کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بنا پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکاے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکاے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اُصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسواے کفر بواح ،خروج ہر حال میں ناجائز و حرام ہے۔ رہی یہ بات کہ کفر بواح کی صورت میں کیا کیا جائے؟ تو شرکائے مجلس کے رجحانات ذیل میں سے ایک تھے:
1. خروج وجہاد کے لئے ایسی سخت شرائط عائد کرنا جن کا مقصد اس جدوجہد کو عملاً ناممکن بنا دینا ہے ۔
2. ایسے حالات میں اُمتِ مسلمہ کےلئے مروّجہ جمہوری طریقوں سے تبدیلی لانے کی جدوجہد کو بہترین طرز ِعمل قرار دینا، یعنی زیادہ سے زیادہ احتجاج وغیرہ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ (اس نکتے پر باقاعدہ حدیث سے استدلال بھی فرمایا گیا)
شرکائے مجلس نے دلائل کے طور پر قرآنی آیات واحادیث سے بھی اپنے استدلال کو مزین فرمانے کی کوشش کی نیز اس سلسلے میں (سیاق و سباق سے کاٹ کر) کتبِ فقہ کی عبارات سے بھی اپنے دعوے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ممانعتِ خروج کی حکمتوں پر انتہائی شدو مد کے ساتھ زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ خروج سے منع کرنے کی وجہ مسلمانوں کو فساد سے بچانا نیز امن و سلامتی پر مبنی ریاست قائم کرنا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والے اس مکالمے میں جہاں یکطرفہ طور پر خروج کی ممانعت ثابت کرنے کے لئے اِس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا وہاں حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے خروج کا کلیتاً ذکر تک نہ ہوا کہ جاری بحث کی روشنی میں ان دونوں حضرات کے خروج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
زیر نظر مضمون کے پیش نظر دو مقاصد ہیں: اوّلا ًاپنے موقف کو پیش کرنا (جس کا موقع پروگرام میں نہ مل سکا)، ثانیا دیگر شرکاے محفل کے موقف کا جائزہ پیش کرنا ۔ دھیان رہے نفس مضمون کا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ خروج کرنا ہر حال میں واجب ہے یا مصلحانہ اسلامی جدوجہد کرنا باطل ہے اور نہ ہی اس کا مقصد کسی مخصوص تحریکِ خروج کو جواز فراہم کرنا ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جس طرح اصلاحی تحریکات کا دین میں مخصوص مقام ہے اسی طرح انقلابی جدوجہد (خروج وجہاد) بھی ایک جائز حکمتِ عملی ہے اور موجودہ دور میں اصولی طورپر اس کی ضرورت و اہمیت کا انکار کرنے والے حضرات نہ صرف یہ کہ غلطی پر ہیں بلکہ ایک جائز و اہم طریقۂ تبدیلی کے مواقع کو اپنے ہاتھ سے ضائع کردینے والے ہیں۔ مباحثِ مضمون چار حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں:
1. بنیادی مدعا یہ ہے کہ دورِ حاضر کی ریاستیں کسی بھی درجے میں خلافت اسلامیہ کے ہم پلہ نہیں بلکہ درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں کے خلاف خروج کی بحث اُصولاً غلط ہے کیونکہ خروج تو فاسق و فاجر مگر'اسلامی ریاست ' کے خلاف ہوتا ہے۔ چنانچہ موجودہ ریاستوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کا جواز خروج سے بھی آگے بڑھ کر مباحثِ جہاد سے فراہم کیا جا نا چاہئے۔ اس بنیادی دعوے کی تفہیم کےلئے جن اُصولی مباحث کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، ان کی وضاحت حصّہ اوّل میں کی گئی ہے ۔ ان مباحث سے اقوالِ فقہا سمجھنے میں بھی مدد حاصل ہوگی۔
2. موجودہ سرمایہ دارانہ مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا عدم جواز ثابت کرنے والے مفکرین اپنے دعوے میں وزن پیدا کرنے کے لئے فقہاے کرام کے جن خلافِ خروج اقوال کا سہارا لیتے ہیں، ان اقوال کا درست فقہی تناظر حصہ دوم میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
3. حصہ سوم میں منکرین خروج کے اُن شکوک و سوالات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جنہیں اکثر و بیشتر انقلابی و جہادی جدوجہد کے خلاف بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے۔
4. آخری حصے میں تحریکاتِ اسلامی کی خدمت میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی قوت کا بھر پور اظہار کس طرح ممکن ہے۔ وما توفیقی الا باللہ! (آخری دونوں حصے آئندہ شمارے میں شائع کیےجائیں گے۔ ان شاءاللہ)
حصہ اوّل: خروج کے ضمن میں چند اُصولی مباحث
زیر بحث موضوع پر درست زاویہ نگاہ سے غور کرنے کے لئے چند اُصولی نکات کی وضاحت ضروری ہے، لہٰذا پہلے اُن کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے:
1) ریاست و حکومت کا فرق : خروج کی بحث کو درست طورپر سمجھنے کے لئے حکومت و ریاست کا فرق سمجھنا نہایت ضروری امر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو ریاست کے ہم معنیٰ سمجھنا ہی بے شمار علمی وفکری مسائل کی اصل وجہ ہے۔ درحقیقت جب تک یہ فرق واضح نہ ہو فقہاے کرام کی خلافِ خروج عبارات کا اصل محل سمجھنا نہایت دشوار امر ہے۔ چنانچہ ریاست کا معنی 'نظام اقتدار'یا 'نظامِ اطاعت و جبر' ہوتا ہے جبکہ حکومت محض اس کا ایک جز ہے، نہ کہ کل ریاست ۔ نظام اقتدار کا دائرہ خاندان سے لیکر حکومت تک پھیلا ہوتا ہے جس میں نظام تعلیم، معاشرتی تعلقات کی حد بندیاں ، نظام تعزیر ، قضا، حسبہ اور انہیں نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم مگر جز وی ادارہ حکومت بھی ہوتا ہے۔
درج بالا فرق کی وضاحت ہم جمہوریت کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ جمہوریت محض تبدیلی حکومت کے ایک مخصوص طریقے ( ووٹنگ) کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی نظام ہے جس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا جا سکتا ہے:
جمہوری نظم ریاست کے کلیدی ادارے: مقننہ، بیوروکریسی (انتظامیہ ) وٹیکنوکریسی (سرمایہ دارانہ علوم کے ماہرین )، عدلیہ، کورٹس، پولیس، فوج ، کارپوریشن وفائنانشل ادارے (مثلاً بینک)، تعلیمی نظام، انٹرسٹ گروپس ، آزاد میڈیا وغیرہم
جمہوری نظم ریاست میں سرمایہ دارانہ عقلیت کے فروغ میں سرگرم کلیدی کردار: دانشور، کلچرل ہیروز (سپورٹس مین، سائنسدان وغیرہ)، ٹیکنوکریٹ ، استعماری ایجنٹ
جمہوری نظام نمائندگی کے اہم ادارے: انٹرسٹ گروپس، ہیروز کی پرستش، سیاسی پارٹیاں، ایڈمنسٹریشن ، سرمایہ دارانہ تحریکیں
جمہوری نظام نفاذ کے اہم ادارے: فوج و پولیس، کورٹس اور عدلیہ کا نظام، شمولیت (سیاسی مخالفین کو ساتھ ملانا)، اخراج (مخالفین کو بے دست وپا کر دینا)، سوشل ویلفیئر، صنعتی تعلقات
درحقیقت جمہوریت ایک پیچیدہ اور گنجلک ریاستی نظام ہے جس میں طاقت کے بے شمار مراکز ہوتے ہیں 2اور اُن کا مقصد فرد و معاشرے پر سرمایہ دارانہ عقلیت (rationality) و علوم کی فرماروائی قائم کرنا ہے۔ جمہوری 'ریاست' کے اس نقشے کی روشنی میں حکومت اور ریاست کا فرق سمجھنا ممکن ہے، یعنی جمہوری حکومت سے مراد محض مقننہ (وہ بھی محض ایوانِ زیریں) ہے جبکہ جمہوری ریاست (نظامِ اطاعت) سے مراد درج بالا تمام ادارے ہیں۔ اب فرض کریں اگر محض حکومت بدلنے کے طریقے کو تبدیل کرکے کوئی خاندان جمہوری نظامِ ریاست پر قبضہ کرلے اور پھر بعینہٖ انہی جمہوری اداروں کے تحت حکمرانی کرنے لگے تو اسے جمہوری نظام کی تبدیلی نہیں کہا جاتا بلکہ اس قسم کی جمہوریت کو ' آمرانہ جمہوریت' (ill-liberal democracy) کہتے ہیں (جیسے پاکستان میں فوجی مداخلت کے بعد قائم ہونے والی جمہوریت ہوتی ہے)۔ چنانچہ کئی مسلم مفکرین3 کے خیال میں ایسی مسلم ریاستیں جہاں روایت پسند اسلام اور روایت پسند اسلامی تحریکات کا زور بہت زیادہ ہے، وہاں لبرل جمہوریت قائم کرنا سرمایہ دارانہ ریاستی نظم کے لئے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے (مثلاً اگر عوام ایسی پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت میں لے آئیں جو آزادی، مساوات، ترقی، ہیومن رائٹس وغیرہ کو ردّ کرتی ہو تو پھر عین ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی لپیٹ دیا جائے)۔ لہذا ضروری ہے کہ ایسے مسلم اکثریتی علاقوں میں آمرانہ جمہوریتیں (بصورت استعمار دوست بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں کی حکومت) قائم کی جائیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ جس قدر سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جائے گا، اسی قدر اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ روایت پسندی جدیدیت پسندی میں تبدیل ہوجائے گی، سرمایہ دارانہ علوم و اداروں کا فروغ لوگوں کو اسلام کے بجائے خواہشاتِ نفس کا خوگر بنا دے گا، ساتھ ہی ساتھ اسلامی تحریکیں بھی جمہوری نظام میں اپنی جگہ بنانے کےلئے حقوق کی سیاست کرنے پر آمادہ ہوتی چلی جائیں گی اور جب یہ اطمینان ہو جائے کہ اب جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں تب آمرانہ جمہوریت کو لبرل جمہوریت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ (عرب دنیا میں جاری بے چینی کی حالیہ لہر درحقیقت آمرانہ جمہوریتوں کو لبرل جمہوریتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، اُنہیں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں)
چونکہ جمہوری نظام ریاست جس 'شیطانی انفرادیت'(یعنی ہیومن بینگ) کے وجود کا تقاضا کرتا ہے وہ انسانی فطرت کے کلیتاً منافی ہے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں آج تک جمہوری ریاست بذاتِ خود جمہوری طریقے سے نافذ نہیں کی جاسکی بلکہ اس کے لئے ابتدائی دور میں قتل و غارت گری اور جبر و استبداد سے کام لینا پڑتا ہے اور جس رفتار سے جمہوریت کے ریاستی ادارے مستحکم ہوجاتے ہیں،اسی قدر جمہوریت کو بھی لبرل بنادیا جاتا ہے۔ اسی طرح فرض کریں اگر کسی جمہوری ریاست میں آزاد میڈیا نہ ہو (جیسے پاکستان میں مشرف کے دور سے پہلے نہ تھا) یا عدلیہ کرپٹ ہو تو اسے جمہوری ریاست کے عدم وجود کے ہم معنی نہیں کہا جاتا۔ حکومت و ریاست کا یہ فرق ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہم فقہاے کرام کے اقوال سمجھنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔
2) خلافتِ اسلامی کے درجات : خروج کے ضمن میں فقہاے کرام کے اقوال کی درست تعبیر بیان کرنے کےلئے اسلامی خلافت اور اس کے درجات پیش نظر رہنا بھی نہایت اہم امر ہے۔ ذیل میں اس کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
اسلامی خلافت وریاست (نظامِ اقتدار) کی بنیاد رسول اللہﷺ کی سیاسی نیابت ہے، یعنی یہ ماننا کہ انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات میں فیصلے اس بنیاد پر ہونگے کہ شارع کی رضا کیا ہے ، حکمران خود بھی اس پر عمل کرے گا اور عوام کو بھی عمل کرائے گا ۔ اس نیابت میں درجات کی مثال درحقیقت درجاتِ ایمان کی سی ہے ، یعنی جیسے مسلمانوں کے ایمان کے درجات ہوتے ہیں، کچھ وہ ہیں جنہیں ہم ابو بکر و عمر اورصحابہ کہتے ہیں؛ کچھ اس سے کم ایمان رکھتے ہیں، کچھ ہم جیسے کمزور ایمان والے ہیں، ان میں بھی کچھ کم درجے کے فاسق ہیں اور کچھ انتہا ئی درجے کے فاسق، لیکن اس کمی بیشئ درجات کے باوجود سب کے سب مسلمان ہی ہیں۔ گو کہ مطلوبِ اصلی تو صحابہ جیسا ایمان ہی ہے لیکن اس درجہ ایمانی سے کم ایمان والے لوگوں کو ہم مسلمان کہنے کے بجائے کچھ اور نہیں کہتے۔ بعینہٖ یہی معاملہ خلافت کا بھی ہے کہ اس میں ایک درجہ وہ ہے جسے ہم 'خلافت ِراشدہ' کہتے ہیں جو خلافتِ اسلامی کے اظہار کا بلند ترین درجہ تھا جبکہ اس کے بعد گو کہ خلافت تو موجود رہی مگر اس کے اظہار کا وہ معیاری درجہ مفقو دہوگیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت کا آئیڈیل نظام باقی نہ رہا اور مطلوبِ اصلی وہی نظام ہے لہٰذا ہم بعد والے دور کو خلافت کے بجائے کسی اور نام (مثلاً مسلمانوں کی تاریخ) سے پکاریں گے تو یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ آئیڈیل اور مطلو ب ایمان تو صحابہ کا ہی تھا اور اس کے بعد مطلوب ایمان کا درجہ قائم نہ رہا لہذا ہم بعد والے لوگوں کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور (مثلاً مسلمانوں جیسے) کہیں گے۔
پھر جیسے ہر ریاست کے ذمے چند اندرونی اور بیرونی مقاصد کا حصول اور اس کے لئے لائحۂ عمل وضع کرنا ہو تا ہے، اسی طرح خلافت کے بھی دو تقاضے ہیں: ریاست کے اندرونی معاملات کی سطح پر اقامتِ دین کے لئے نفاذ شریعت ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر نظام اقتدار کی تشکیل اور بیرونی معاملات میں اعلاے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد وتبلیغ کا نظام مر تب کرنا۔
درجاتِ خلافت کی تفصیلات درج ذیل طریقے سے بیان کی جاسکتی ہے:
الف) خلافتِ راشدہ: اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسولﷺ میں بندگانِ خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، نفاذ شریعت واعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کے سوا ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو۔ یعنی اتباعِ نفس و مرغوباتِ نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقویٰ و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے:
1. باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کےلئے متوسط درجے کا معیارِ زندگی اختیار کرنا جائز ہے تاہم خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔
2. باوجود اس کے، کہ خلیفہ کےلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے لیکن خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفا شہید تک ہوئے ۔
نیابت رسولﷺ میں اختیارِ عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفۂ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کےلئے استعمال کرنے کی ادنیٰ درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔
ب ) خلافت ؍امارت؍ سلطنت سے مراد یہ ہے کہ نفاذِ شریعت و جہاد کے ساتھ ساتھ دنیاوی مقاصد، مثلاً مرغوبا تِ نفسانیہ ، مال وجاہ کی خواہش، اقربا پروری، اَمصار و بلدان پر تسلط اور طولِ حکومت کی آرزو وغیرہ بھی شامل حال ہوجاتے ہیں ۔ اس ہوا و ہوس کے بھی کئی مراتب ہیں جن کی بنا پر خلافت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے:
اوّل: امارتِ عادلہ کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان حکمران عادل ہو جیسے عمر بن عبد العزیز، سلیمان بن عبد الملک، اورنگ زیب عالمگیروغیرہم ۔ یعنی نیابت رسولﷺ میں ظاہر شریعت حاکم کے ہاتھ سے نہ چھوٹتی ہو، نہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہو۔ اگر معصیت میں مبتلا ہو بھی جائے تو اس پر دوام اختیار نہ کرتاہونیز مباحات و توسّعات کے درجے میں لذاتِ نفسانیہ تلاش کرلیتا ہو ۔
دوم : امارتِ جابرہ سے مراد فاسق مسلمان حکمران ہے لیکن اس کا فسق انتہائی درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ ایسا حاکم ہوتا ہے جس سے احکاماتِ شریعہ میں کوتاہی ہوجاتی ہے ، یعنی اطاعت ِنفس میں دائرۂ شریعت سے باہر نکل کر فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر پشیماں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کی فکر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود نفاذِ شریعت و مقاصدِ شریعت کے نظام کو قصداً تہہ و تیغ نہیں کرتا بلکہ اُنہیں جوں کا توں بجا لانے کی روش برقرار رکھتا ہے ۔
سوم : امارتِ ضالہ کا معنیٰ ایسا مسلمان حکمران ہے جو انتہائی فاسق ،فاجر و ظالم ہو۔ تکبر ، ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالتا ہے، نفس پرستی میں ہمت صرف کرتا ہے، فسق و فجور کے طریقوں کو عام کرنے کو اپنی پالیسی بنا لیتا ہے، بیت الما ل کو ذاتی ملکیت بنا لیتا ہے وغیرہ۔ گویا امارتِ جابرہ و ضالہ میں فرق کرنے والی ایک اہم شے حکمران طبقے کے فسق و ظلم کا اسلامی ریاستی نظم کے لئے لازم یا متعدی ہونا ہے ۔
چہارم: حاکمیتِ کفر ایک ایسی ریاست جو شریعت کے برعکس کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہوتی ہے۔ یہاں خود ساختہ قوانین کو شرع پر ترجیح دی جاتی ہے، حرام کو قوانین کا درجہ دے دیا جاتا ہے، حلال پر قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں، شارع کے واضح احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر دشمنانِ اسلام کے طریقوں کو رائج کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کئے جاتے ہیں وغیرہ۔
کسی ریاست کے کفریہ ہونے کے لئے یہ بات غیر اہم ہے کہ اس کا حاکم مسلمان ہے یا کافر۔ مثلاً بارک اوبامہ (یا کسی اور مسلمان ) کے امریکہ کے صدر بن جانے سے امریکہ دارالاسلام نہیں بن جائے گا۔ یا جیسے افغانستان میں اشتراکی نظام نافذ کرنے والے تمام لوگ بظاہر کلمہ گو ہی تھے مگر ان کا یہ دعوی ایمانی کسی اشتراکی ریاست کو اسلامی کہلانے کے لئے کفایت نہ کرے گا ۔
اس تقسیم سے ضمناً یہ اہم بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں اقتدار ( نظامِ جبر ) بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا گو کہ اچھی بری حکومتیں آتی رہیں ۔ یقیناً اسلامی تاریخ میں برائیاں رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلامی ریاست ناپید ہوگئی تھی، بلکہ صرف اس لئے کہ مسلمان فرشتے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی ہیں جن سے غلطی اور گناہ کا صدور ممکن ہے۔ چنانچہ بیرونی طور پر اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرونِ ریاست مذہبی و تمدنی زندگی کے اداروں و شعبوں میں احکاماتِ شریعہ کے نفاذ کے مقاصد مختلف درجات میں ادا کئے جاتے رہے، گو خلافتِ راشدہ کے بعد اس کے ساتھ ذاتی مفادات اور عملی کوتاہیوں کے معاملات بھی شامل حال ہوگئے تھے۔ (اس نکتے کی مزید وضاحت درج بالا مثال سے سمجھی جا سکتی ہے)
3) موجودہ مسلم حکومتوں کی حیثیت : اقوالِ فقہا کو درست طور پر سمجھنے نیز موجودہ دور پر اُنہیں چسپاں کرنے کی غلطی سمجھنے کے لئے خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے فرق پر غور کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافتِ عثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلّہ بھی نہیں۔ درج ذیل تمام نکات بذاتِ خود تفصیل طلب موضوعا ت ہیں لیکن نفس مضمون اور خوفِ طوالت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں۔4
1. قومی بمقابلہ اسلامی ریاست
2. حاکم کے لئے نمائندگی عوام بمقابلہ نیابتِ رسولﷺ
3. سوشل سائنسز بمقابلہ علومِ شرعیہ کی بالادستی
4. دستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظامِ قضا ) کی بالادستی
5. مذہبی معاشرت بمقابلہ سول سوسائٹی
ان نکات کی نوعیت سے واضح ہے کہ موجودہ مسلم ریا ستیں دانستہ و نا دانستہ طور پر ایک ایسے نظام پر مبنی اوراس کی حامی و ناصر ہیں جہاں خدا کے بجائے عوام کی حاکمیت، علومِ شرعیہ کے بجائے سرمایہ دارانہ علوم اور شرع کے بجائے دستور نافذ ہے۔ درحقیقت جدید مسلم ریاستیں ہیومن رائٹس کی بالا دستی کا اقرار کرکے بذاتِ خود اپنے سرمایہ دارانہ ہونے کا کھلم کھلا اعلان کررہی ہیں اور یہ بات پولیٹکل سائنس کے ہر طالب علم پر واضح ہے کہ ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری ریاست ایک pluralistic (کثیر الخیر تصوراتی) ریاست ہوتی ہے جہاں کسی مذہب کی بالادستی کا دعویٰ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لئے بطورِ ایک حربہ کچھ عرصے قبول تو کیا جاسکتا ہے (جسے آمرانہ جمہوریتیں کہا جاتا ہے) البتہ ایسی ریاست کے اندر مذہبی حاکمیت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا ناممکن الوقوع شے ہے۔ یہ ریاستیں'خیر' نہیں بلکہ 'حقوق' پر مبنی ریاستیں ہوتی ہیں لہٰذا ہر وہ ریاست جو ہیومن رائٹس کو جزوی یا کلّی طور پر قبول کرتی ہے وہ سیکولر ریاست ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست کے اندر عبوری دور کے لئے کسی قسم کی مذہبیت کو محض اس لئے روا رکھا جاتا ہے کہ چونکہ مقامی لوگ ابھی پوری طرح Enlightened (مہذب یعنی ہیومن بینگ) نہیں ہو سکے ہیں لہٰذا اُنہیں ان کے مقامی تعصبات (مثلاً مذہبی یا روایتی وابستگیوں) کے ساتھ ہیومن رائٹس کی بالادستی قبول کرنے کا پابند بنا یا جائے تاکہ ایک طرف ان کی 'نفسیاتی تسکین' کا سامان بھی فراہم ہوجائے اور دوسری طرف 'عملاً سرمایہ دارانہ نظام کو قبولیت ِعامہ ' فراہم کرنے کے لئے ادارتی صف بندی کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے روایتی مذہبی عقلیت و علمیّت تحلیل ہوکر بے معنیٰ ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کو اسی حربے کے ذریعے آفاقی قبولیت فراہم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا اور غالب ترین کفر بواح 'ہیومن رائٹس کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اس کا اقرار کرنا'ہے۔5
اس مختصر وضاحت سے معلوم ہوا کہ موجودہ مسلم ریاستیں درحقیقت سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں گو اُنہیں چلانے والے مسلمان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے ممبران بہر حال مسلمان ہی ہیں (جن میں سے کئی ایک مخلصین بھی ہیں)، مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عیسائی یا ہندو ریاست قائم کرکے اس کے قانون کے ما تحت زندگیاں بسر کرنے لگیں، اسی کو ہم نظریاتی محکومی کہتے ہیں۔ اِنہی معانی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی عمومی صورت حال نئی اور منفرد ہے کہ 'قومی نوعیت' کے مسلمان حکمران (بہ استثناے چند) اس سے پہلے ماضی میں کسی 'باطل نظام' کے تحت حکمرانی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ ان کا جرم فسق وفجور کی نوعیت کا ہوتا تھا، نہ کہ کسی نظامِ باطل کے حامی و ناصر ہونے کا۔ (اس معنی میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں تو یزید کی امارت سے بھی بدتر ہیں، کم از کم وہ کسی اسلام کش نظام کا حامی تو نہیں تھا، خیال رہے کہ ہم یزید کی حمایت نہیں کررہے بلکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اس کی امارت سے بھی بد تر کہہ رہے ہیں) ۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں جس علمیت، قانون ، معاشرت و سیاست کو فروغ دے رہی ہیں وہ سرمایہ دارانہ خدوخال پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔
4) اُمت ِمسلمہ میں خروج کی حالیہ لہر کی وجوہات : یہ بات سمجھنا بھی نہایت اہم ہے کہ آخر پچھلی نصف صدی میں ہی اُمت مسلمہ کے اندر خروج کی اس قدر تحریکات کیوں برپا ہورہی ہیں۔ مختصراً ذیل کے نکات پر غور کرنے سے اس کی جائز فکری بنیادیں سمجھی جاسکتی ہیں :
1. لگ بھگ 1924ء تک کم یا زیادہ کے فرق کے ساتھ، اسلامی ریاست اور شریعت کی حکومت مسلمانوں پر قائم تھی۔
2. ایک بیرونی استعمار نے فوجی، قانونی، سیاسی، سماجی، تعلیمی و نظریاتی استبداد کے ذریعے مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کردیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جدید مسلم مفکرین جن مغربی تصورات واداروں (مثلاً جمہوریت) پر فریفتہ ہو کر اُنہیں 'عین اسلام' قرار دے رہے ہیں، ان کا کوئی سراغ تک اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہاں سے یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آخر ابتدائی دور میں آمرانہ جمہوریتیں کیوں قائم کی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اسی قسم کی غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا موقع حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
3. اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تبدیلی جس سے اُمت ِمسلمہ کو سابقہ پڑا، ان معنی میں پہلی تبدیلی تھی کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی بنیاد اسلام و شریعت کے سوا کچھ اور ہوگئی (ان معنی میں کمزور ترین مغل سلطان بہادر شاہ ظفر کی ریاست بھی جدید مسلم ریاستوں سے کئی گنا بہتر تھی)
4. مسلم علاقوں سے استعمار کے جانے کے بعد ان علاقوں کے اس سیکولر و جدیدیت زدہ طبقے کو جو دینِ استعمار کا دلدادہ اور پیروکار تھا، تقریباً ہر مسلم علاقے میں'ہیرو' بنا کر وہاں ایک قوم پرست ریاست قائم کرکے قابض کردیا جاتا ہے اور یہ طبقہ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا 'مقامی رکھوالا' بن بیٹھتا ہے تو دوسری طرف اسلام پسندوں پر کوڑے برسانے اور نظم اجتماعی میں اُنہیں دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔
5. ساتھ ہی طویل عرصے تک کئی اسلامی تحریکات کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھا جاتا ہے کہ تمہار امسئلہ عوامی رائے کا تمہارے ساتھ نہ ہونا ہے، لہٰذا اگر تم عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت بنا لو تو جو جی میں آئے کرلینا (یہ اور بات ہے کہ بذات خود یہ جمہوری ریاستیں قائم کرنے کیلئے مقامی لوگوں کی رائے ضروری نہیں) ، لیکن اگر کہیں (مثلاً الجزائرمیں ) اسلامی تحریکات نے اکثریتی ووٹ لاکر ان کے سامنے دھر بھی دئیے تو ایسے الیکشن کو کالعدم قرار دیکر اسلامک فرنٹ کی حکومت قائم نہ ہونے دی گئی کیونکہ اس حکومت سے خود جمہوری نظام کو خطرہ لاحق تھا۔
6. پس جہاں ایک طرف جمہوریت پسند طبقوں کے 'عمل' نے حقیقت پسند اسلام پسندوں کی اس غلط فہمی کا پردہ چاک کردیا کہ جمہوری راستے سے سرمایہ دارانہ نظم ریاست ختم کرکے اسلامی نظم ریاست قائم کرنا ممکن ہے، وہاں ساتھ ہی مغربی فکر کے تفصیلی مطالعے سے یہ نظریاتی حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ جمہوریت کا مطلب 'اکثریتی رائے ' (will of all) نہیں بلکہ 'ارادہ عمومی' (general will) یعنی آزادی و ہیومن رائٹس کی بنیاد پر ریاستی نظام قائم کرنا ہوتا ہے، اس ارادۂ عمومی کو کسی مذہب یا روایت کی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس فریم ورک کے اندر کسی مذہب کی بالادستی قائم کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ ارادۂ عمومی کی حاکمیت بندگی ربّ نہیں بلکہ آزادی (بغاوت) کو فروغ دیتی ہے ۔
7. چنانچہ جس طرح ریاستی سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد علومِ دینیہ کے تحفظ کے لئے علماے کرام نے مساجد و مدرسہ کی سطح پر علمی جدوجہد برپا کی، معاشرے کے اجتماعی بگاڑ کے پیش نظر اَن گنت اصلاحی اسلامی تحریکات سامنے آئیں، بالکل اسی طرح اسلامی قوت جمع کرکے اقتدار کو کفر کے بجائے شریعت کے تابع کرنے کے لئے انقلابی و جہادی تحریکات کا وجود میں آنا بھی نہ صرف یہ کہ عین فطری تقاضا تھا بلکہ اُمت ِمسلمہ کی ایک اہم ضرورت بھی۔6 لہٰذا قابل فکر بات یہ سوچنا نہیں کہ ان تحریکات کو ختم کیسے کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکوں کے کام میں ربط کیسے پیدا کیا جائے ۔ (اس نکتے پر کچھ گفتگو ذیل میں آئے گی)
8۔ چنانچہ اگر سرمایہ دارانہ نظام اور استعمار ایجنٹ حکمرانوں کو مسلم علاقوں میں بے دست و پا کرکے اسلامی خلافت قائم کر دی جائے تو تحریکاتِ خروج و انقلاب خود بخود ختم ہوجائیں گی، جب تک ایسا نہ ہوگا، ان تحریکات کا استحقاق وجود اور وجہ جواز بہر حال قائم رہے گا۔ (اسی لئے کہتے ہیں 'ضرورت ایجاد کی ماں ہے')
حصّہ دوم: اقوالِ فقہا اورخروج
ان اُصولی مباحث کے بعد اب آئیے اقوالِ فقہا کی طرف۔ معاصر منکرین خروج اپنے دعوے کے اثبات کے لئے فقہائے کرام کے ان اقوال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں فاسق و متغلب ملوک کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے۔ درحقیقت اقوالِ فقہا کو بطورِ دلیل پیش کرنے سے پہلے ان کا درست محل سمجھنا ضروری ہے جسے دو پہلووں سے سمجھا جا سکتا ہے ، ایک اسلامی خلافت کے درجات کی روشنی میں۔ ثانیاً، خلافت اور جدید ریاستوں کے فرق کی روشنی میں۔ ذیل میں دونوں پر بالترتیب گفتگو کی جائے گی:
1) اقوالِ فقہا کا شرعی پہلو
جیسا کہ واضح کیا گیا کہ خروج سے مراد، فاسق مسلمان حکمران کی اطاعت سے نکل کر بذریعہ قوت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جدوجہد برپا کرناہے۔ خروج کی اصل اطاعتِ امیر کااطاعتِ شارع سے مشروط ہو نا اور مسلمانوں پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا لازم ہونا ہے ۔ یہ امر کہ خروج کب کیا جائے علماء کے ہاں ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے میں درج ذیل اُمور اہمیت کے حامل ہیں:
1. علما کا اس امر پراجماع ہے کہ امامِ عادل کی اطاعت واجب ہے اور اس کی اطاعت سے نکلنا ان تمام وعیدوں کا مصداق بننا ہے جو احادیث میں 'الجماعۃ' سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ ایسے عادل حاکم کا تختہ اُلٹنے کے لئے ہتھیار اُٹھانا یا اس کے اقتدار کو کمزور کرنے کے لئے گروہ بندی کرنا بغاوت کے زمرے میں شمار ہوگا اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ باغیوں کا سا معاملہ کیا جائے گا ۔
2. اسی طرح خروج کے مفاسد سے بچنے کے لئے امارتِ جابرہ کے خلاف بھی خروج نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ چھوٹے منکر کی جگہ بڑے منکر کا خدشہ مول لینے کے مترادف ہے۔ لیکن بذریعہ قوت نہی عن المنکر نہ کرنے کا مطلب حکمرانوں کو کھلا چھوڑ دینے یا ہر درجے میں نہی عن المنکر ترک کردینے کے مترادف نہیں ۔ شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم نے ایسے حاکم کی اطاعت کے رویے پر نہایت خوبصورت بات کہی ہے کہ ''اس صورتِ حال میں اطاعت سلبی نہیں کہ جس میں نہ تو نیکی کا حکم اور برائی سے ممانعت ہے اور نہ ہی ظالموں کے سامنے حق کہنا، بلکہ یہ رشد وہدایت اور حکمتوں پر مبنی ایجابی اطاعت ہے جو باطل کے سامنے نہ تو ذلت و رسوائی اور حقارت پر مبنی ہے اور نہ ہی ظالموں کے اثر و رسوخ سے خوف کھانے والی۔ چنانچہ ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کے نمونے ہمارے سلف صالحین کی زندگیوں میں بے شمار ملتے ہیں۔'' چنانچہ ائمۂ اسلاف کے ایسے تمام واقعات جن میں ملوک کے خلاف خروج سے ہاتھ روکنے کو کہا گیا، ان کا تعلق اسی قبیل سے ہے، اور عقل کا تقاضا بھی ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا ہی ہے۔ یعنی جب نظامِ اطاعت بحیثیت ِمجموعی اسلامی بنیاد پر قائم ہو، اسلامی علوم (قرآن وحدیث اور فقہ وعقیدہ) کی بالادستی قائم ہو، ریاستی ادارے معاشرے میں اسلامی احکامات کے مطابق کام کررہے ہوں، عدالتیں فقہ اسلامی کی بنیاد پر فیصلے کررہی ہوں وغیرہ تو ایسے حالات میں قرین قیاس بات یہی ہے کہ خروج سے احتراز برتا جائے کیونکہ اس طریقے سے ایک بڑے خیر (یعنی نظم اطاعت اسلامی) کے بکھر جانے کا اندیشہ ہے لہٰذا خروج کی حکمتِ عملی سے اغماض کرتے ہوئے کم تر شر کو قبول کیا جانا چاہئے ۔
3. مسئلہ خروج میں اختلاف اس مرحلے پر ہوتا ہے جب امارتِ ضالہ کے خلاف خروج درپیش ہو۔ اس میں شک نہیں کہ علماے اہل سنت کی ایک بڑی تعداد کے خیا ل میں ایسے حاکم کے خلاف بھی خروج نہیں کرنا چاہئے جس کی وجہ ان کے نزدیک مسلمانوں میں دنگا و فساد ، کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی شان و شوکت کم ہوجانے کا خوف نیز بہت سے مصالح دینیہ کا فوت ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خروج کے خلاف ان علما کے فتوے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے نزدیک خروج سرے سے شرعاًجائز ہے ہی نہیں، بلکہ اس رویے کی وجہ درج بالا حکمتیں ہیں۔
4. جس طرح علما کی ایک بڑی تعداد بوجہ فروغِ فساد امارتِ ضالہ کے خلاف خروج کرنے کی مخالف رہی ہے بالکل اسی طرح کئی جید علماے کرام جن کے سرخیل امام ابوحنیفہ ہیں ان کے خیا ل میں خروج جائز ہے کیوں کہ مسلمانوں پر شریعت ِاسلامی قائم کرنا اور فاسق امام کی جگہ امام عادل کے قیام کی جدوجہد ضروری ہے۔ اس مقدمے کے دلائل درج ذیل ہیں:
1) قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا: ﴿ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ﴾... سورة النحل‘ یعنی''طاغوت سے الگ ہو جاؤ ۔'' علمائے تفسیر7 نے صراحت کی ہے کہ طاغوت سے مراد اللہ کے دین کے مقابلے میں اطاعت کرانے والا بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ طاغوت ہے لہٰذا یہ الجماعۃ کا مصداق کیسے ہوسکتی ہے جبکہ طاغوت سے بچنے والوں کو قرآن خوشخبری سنا رہا ہے۔ ساتھ ہی اُنہیں سیدھے ومضبوط راستے کا مژدہ سنا رہا ہے۔ اور طاغوت کی اطاعت کرنے والوں کو لعنتی، شیطان کے ساتھی اور بدترین لوگ قرار دیا گیا ہے۔
2) قرآن میں ارشاد ہوا: ﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ...٢﴾... سورة المائدة''ایک دسرے کی مدد کرو نیکی اور تقوے کے کاموں میں اور مددمت کرو گناہ اور زیادتی کے معاملات میں۔'' معلوم ہوا کہ گناہ و عدوان پر مبنی اور اُنہیں فروغ دینے والی ریاست (مثلاً جمہوری ریاست) کے ساتھ تعاون جائز نہیں، اور ایسی ریاست کی برضا و رغبت اطاعت کرنا درحقیقت اس کی مدد کرنے ہی کی ایک صورت ہے ۔
3) اہل ایمان کی امامت کا حقدار کون ہے؟ اس ضمن میں ارشاد ہوا : ﴿قالَ إِنّى جاعِلُكَ لِلنّاسِ إِمامًا قالَ وَمِن ذُرِّيَّتى قالَ لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ١٢٤﴾...سورة البقرة ''اللہ نے (جب ابراہیم سے) کہا کہ بے شک میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (تو ابراہیم نے) عرض کی: کیا میری اولاد سے بھی؟ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں۔'' امام جصاص، امام رازی اور امام قرطبی نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ظالم اُصولاً منصب ِامامت کا حقدار ہے ہی نہیں۔
4) اس ضمن میں مزید ارشاد ہوا : ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...٥٨﴾.... سورة النساء ''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہیں سپرد کرو جو اس کے حقدار ہیں۔'' اس سے معلوم ہوا کہ منصب ِامامت ایسے شخص کو دینا چاہئے جو اس کا اہل ہے یعنی اس کی شرائط پوری کرتا ہو۔''
5) ﴿وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ....٥٨﴾ ....سورة النساء ''(اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل (یعنی شریعت) کی بنیاد پر کرو ۔'' نیز اسی طرح فرمایا گیا: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّٰمينَ بِالقِسطِ....١٣٥﴾.... سورة النساء''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بن جاؤ۔''
6) ﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم....٥٩﴾ ....سورة النساء ''اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب ِامر ہوں۔'' اولی الامر سے قبل 'اطیعوا 'کا لفظ نہ آنے سے معلوم ہوا کہ اطاعت ِامیر مستقل بالذات نہیں بلکہ درحقیقت اطاعتِ شارع سے مشروع ہے، اگر وہ اس کے خلاف ورزی کرے تو اس کی اطاعت ضروری نہیں۔
6) حدیث شریف میں اُصول بیان ہوا : «لا طاعة لمخلوق في معصیة الله»8 یعنی ''اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں کسی مخلوق کی اطاعت معتبر نہیں۔'' نیز فرمایا «لا طاعة لمن لم یطع الله»9 یعنی جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اس کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا : ﴿وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ....٢٨﴾.... سورة الكهف ''اس کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے۔'' نیز ﴿وَلا تُطيعوا أَمرَ المُسرِفينَ ١٥١ الَّذينَ يُفسِدونَ فِى الأَرضِ وَلا يُصلِحونَ ١٥٢﴾ ....سورة الشعراء ''حد سے گزرنے والوں کے حکم کی پیروی مت کرو۔ یہ وہ ہیں جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ۔ ''
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت اطاعتِ شارع سے مشروط ہے، فسق و فجور اور نظام باطل برپا کرنے والوں کی اطاعت جائز نہیں، نیز مسلمانوں پر عدل و قسط پر قائم رہنا لازم ہے۔
7) ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : «ستکون أمراء فتعرفون وتنکرون فمن عرف برئ ومن أنکر سلم ولکن رضي و تابع قالوا: أفلا نقاتلهم قال :لا ما صلّوا »9'' عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنہیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) کو پہچان لیا وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا انکا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سوائے اس کے جو اُن پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیاایسے اُمرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہئے؟ آپ ﷺنے فرمایا: جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ،ایسا مت کرنا ۔'' اس حدیث سے پتہ چلا کہ فاسق حکمرانوں کی اطاعت کی کم از کم شرط یہ ہے کہ وہ نظامِ صلوة قائم رکھیں (یعنی خود بھی ادا کریں، اس کی ادائیگی کا اہتمام کریں نیز رعایا کو بھی اس کا حکم دیں)۔ اس حدیث میں لفظ 'قتال'یہ واضح کررہا ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں محض احتجاج (منازعت) نہیں بلکہ ' مسلح جدوجہد' کی اُصولی اجازت بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے۔
اس حدیث پر گفتگو فرماتے ہوئے کچھ حضرات نے یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ قرونِ اولیٰ میں نماز ان معنی میں شعائر اسلام سمجھی جاتی تھی کہ ہر کوئی نماز پڑھتا تھا لہٰذا اس کی عدم ادائیگی پر خروج کی اجازت دی گئی لیکن چونکہ آج کے دور میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے لہٰذا آج یہ اس طور پر شعائر اسلام نہیں رہی ،اس لئے آج ترکِ صلوة پر خروج جائز نہ ہوگا۔ ہم اس تاویل کا سر اور پیر دونوں ہی تلاش کرنے سے قاصر ہیں، اہل علم خود ہی اس تاویل کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ حدیث شریف کا مدعا یہ بتانا ہے کہ اقامت ِصلوٰةہر دور کے لئے حقیقی اسلام کے اظہار کا کم سے کم درجہ ہے، گویا رسول اللہﷺنے وہ پیمانہ بتا دیا جس میں تول کر فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ مؤمن اور کافر میں فرق کرنے والی شے نماز ہے۔ اس نکتہ شناسی کا مطلب تو یہ ہوا کہ شعائر اسلام کا تعین قرآن و سنت کی نصوص سے نہیں بلکہ فاسق مسلم اکثریت کے اعمال سے ہونا چاہئے۔
8) پھر خیر القرون میں خروج کی سب سے اعلیٰ نظیر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور سیدنا حسینؓ کے طرزِ عمل میں نظر آتی ہے جس کا مقصد اسلامی خلافت و ریاست کو امارت و سلطنت کے بجائے خلافتِ راشدہ کی طرف پلٹادینے کی جدوجہد کرنا تھا، دوسرے لفظوں میں ان اصحاب کی جدوجہد اختیارِ عزیمت کی اعلیٰ مثال ہے جسے علماے اہل سنت نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان دونوں حضرات کی نظیر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کا نفس زکیہ وغیرہ کے خروج کا ساتھ دینا بھی اہل علم کو خوب اچھی طرح معلوم ہے ۔
9) اسی طرح متعدد قواعد فقہ سے بھی خروج پر استدلال ہوتا ہے، مثلاً إن الضرر یُزال، یعنی نقصان کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے، نیز «إزالة الضرر الأکبر بالضرر الأصغر» یعنی بڑے نقصان کا ازالہ نسبتاً کم تر نقصان سے کیا جائے گا ...وغیرہم
٭خروج کی اجازت دینے والے علما کے نزدیک بھی اس کی اجازت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے:
اوّل: خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شریعہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، اسلامی نظام اطاعت معطل ہو کر غیر اسلامی نظام اطاعت غالب آچکا ہو۔ دوسرے لفظوں میں خروجِ امارة ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہئے۔ فقہاے کرام نے جواز خروج کی جس شرط پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ شریعتِ اسلامی کا معطل ہوجانا ہی ہے:
٭علامہ شامی فرماتے ہیں:
''تین چیزوں سے دارالاسلام دارلحرب میں تبدیل ہوجاتا ہے، اہل شرک کے احکام کے اجرا سے، اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے، امن اسلام کے خاتمے سے۔''11
٭امام یوسف و محمد کے نزدیک کسی علاقے میں مذکورہ اُمور میں سے صرف کفریہ احکامات کا اجرا ہی اسے دارالحرب بنانے کےلئے کافی ہے ۔
٭امام سرخسی فرماتے ہیں:'' احکام اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔''12
٭علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:''ہمارے علما میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر اسلامی احکامات ظاہر ہونے سے دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے۔''13
٭شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:'' اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط نہ پائی جائیں تو اس کی مخالفت میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کی مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے اور فساد پیدا ہوں گے ... لیکن اگر حکمران کسی اہم دینی امر کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف قتال جائز بلکہ واجب ہوگا، اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کردی اور قوم کے لئے مزید فساد و بگاڑ کا سبب بن رہا ہے لہٰذا اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا۔''14
٭علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ''جب دین (نظم اطاعت) غیر اللہ کےلئے ہوجائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح و متواتر احکامات و قوانین کی پابندی نہیں کرتے ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا ۔''15
دوم: حالات اتنے ساز گار اور قوت اتنی ہو کہ خروج کی صورت میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں ۔ کامیابی کے امکانات اور تیاری کے مراحل بہر حال اجتہادی مسائل ہیں کیونکہ نہ تو حالات ہی ہمیشہ یکساں کیفیت کے ہوتے ہیں اور نہ تیاری کے لگے بندھے اُصول ہیں بلکہ تیاری کی کیفیت ومراحل کو در پیش حالات پر منطبق کرنے کے نتیجے میں ایک حکمت ِعملی وضع کرناہوتی ہے جس کی نوعیت ہمیشہ مختلف ہواکرتی ہے۔ البتہ جدوجہد کے متوقع نتائج کے اعتبار سے علامہ ابن قیم کی بات بہت خوبصورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انکارِ منکر کے چار درجات ہیں:
١) ایک منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے، ایسا کرنا مشروع ہے ۔
٢) ایک منکر کم ہوجائے اگرچہ ختم نہ ہو، یہ بھی مشروع ہے ۔
٣) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ ویسا ہی منکر قائم ہوجائے، یہ اجتہادی مسئلہ ہے (کہ آیا واقعی اسی درجے کا دوسرا منکر آجائے گا یا نہیں)؟
٤) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ اس سے بھی بڑا منکر قائم ہوجائے، ایسا کرنا حرام ہے ۔
5. رہی یہ بات کہ جب بذریعہ قوت خروج کی استطاعت نہ ہو تو کیا کیا جائے تو اس کا جوا ب یہ نہیں کہ اس جدوجہد کو روزِ محشر تک کے لئے خیر آباد کہہ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے یعنی ایسی صورت میں خروج کی تیاری کرنا لازم ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہواکرتا ہے ۔
٭شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم فرماتے ہیں کہ اس تیاری کی کئی صورتیں اور درجے ممکن ہیں:
1. حسبِ استطاعت فکری و عملی تیاری کرنا تاکہ ایک طرف خروج کے لئے ذہن سازی ہو سکے تو دوسری طرف متبادل ادارتی صف بندی کی کوشش کی جاسکے تاکہ قوت کو موجودہ اداروں و افراد سے چھین کر (یعنی ان کا اقتدار معطل کرکے ) متبادل اداروں و افراد میں مجتمع کردیا جائے تاکہ خروج کے لئے راہ ہموار ہو اور اُمت ِمسلمہ کو باطل کے غلبے سے نجات ملے۔
2. حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کرکے نظامِ باطل کی مضبوطی کا باعث نہ بننا۔ یعنی ایسے اُمور ترک کردئیے جائیں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو یا ملک پر ان کا اثرو رسوخ بڑھے۔ اس کی اعلیٰ مثال امام ابوحنیفہ یا دیگر ائمہ اسلاف کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔
3. ان کے آئین و باطل قوانین کو برضا و رغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعترافِ حاکمیت یا قبولیتِ نظام کا فائدہ دے اور اگر کچھ لوگ متفق ہوکر اُن سے علیحدہ ہونے اور ان کے خلاف تیاری کرنے کے رویے کو اپنائیں تو ان کا فکری وعملی سطح پر ساتھ دینا چاہئے تا کہ باطل نظامِ اقتدار کمزور ہو اور اس سے نجات مل سکے۔
یاد رہے کہ باطل نظامِ اقتدار پر مطمئن رہنا درحقیقت اس سے رضا مندی کی علامت ہے کیونکہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا نیوٹرل رویے کی کوئی حقیقت نہیں ، یعنی یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اس کے حق میں، ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔
خلاصۂ بحث: اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ
1. ایسی احادیث جن میں خروج سے منع فرمایا گیا ہے، ان کا تعلق یا تو انفرادی و شخصی حقوق سے ہے یعنی اگرحکمران ذاتی طور پر تم پر ظلم کررہا ہو مگر ریاست کی بنیاد شریعت ہو تو تم صبر کرو اور اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ اور یا پھر ان کا تعلق حکمران کی انفرادی برائیوں سے ہے۔ اس استدلال کا قرینہ اس حدیث میں موجود ہے:
''حضرت عبادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ کی بیعت کرلی، آپ نے بیعت کے لئے جو شرطیں لگائیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہم اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی کی حالت میں بھی اور ناخوشی کی حالت میں بھی، تنگی میں بھی اور آسانی میں بھی، اور اس حالت میں بھی کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور یہ کہ ہم والیانِ اُمور سے جھگڑانہیں کریں گے یہاں تک کہ تم ان میں ایسا کھلا کفر دیکھ لو جس کے کفر ہونے پر تمہارے پاس اللہ (کی کتاب) کی طرف سے کھلی دلیل ہو۔''16
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انفرادی حقوق تلفی (مثلاً باوجود اہلیت عہدہ نہ ملنے ) کی بنیاد پر اطاعت امیر سے نکلنا جائز نہیں البتہ نظم اجتماعی میں واضح رخنہ اندازی کی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی دیگر احادیث کو یہ معنی پہنانا کہ دین سے منحرف اور سرمایہ داری کی ایجنٹ ریاست کے ساتھ بھی التزامِ جماعت تقاضائے شریعت ہے، درحقیقت نصوص میں تضاد پیدا کرنا ہے ۔
2. اُصولِ حدیث کے مسلمہ اُصول ''احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔'' کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت ِامیر کے لئے اطاعتِ شارع کی شرط لگائی گئی ہے، ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی سورة بقرة آیت124 کے تحت فرماتے ہیں:
''امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہِ کبیرہ سے داغدار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور اس میں حکومت کی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی نے فرمایا کہ اُن سے مت جھگڑو لیکن جو فاسق و فاجر ہوں وہ امامت کے حقدار ہیں ہی نہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اُمت کو جن آخری باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں سے ایک یہ بھی تھی : «ولو استعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب الله فاسمعوا له وأطیعوا»17 ''اگر تم پر ایک غلام بھی امیر بنا دیا گیا ہوجو تمہاری امارت اللہ کی کتاب کے مطابق کررہا ہو تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔''
3. علماے کرام کے اقوال و افعال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہے کہ اُصولاً خلافِ خروج اقوال کو امارةِ عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کیا جائے۔
4. اگر علماے کرام کے خلافِ خروج اقوال کو امارت ضالہ پر بھی محمول کیا جائے تو اس کی وجہ فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہے، نہ کہ خروج کا اُصولاً ہر حال میں ناجائز ہونا ۔ امارتِ ضالہ کے خلاف خروج کے ان اقوال کا پس منظر یہ ہے کہ گو ان میں گوں نہ گوں برائیاں پائی جاتی ہیں البتہ ان امارتوں کے ذریعے اسلامی ریاستی (بشمول تعلیمی، عدالتی، معاشرتی، ادارتی، تعزیری، تبلیغی، جہادی وغیرہم) نظم بہر حال محفوظ اور قائم و دائم ہوتا ہے اور ریاستی نظام بحیثیت ِمجموعی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں شارع کی رضا کے مطابق گزارنے سے نہیں روکتا بلکہ اس میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی حکومتوں کو بھی بصورتِ عدم دستیابی قوت برداشت کرلیا جائے کہ بصورتِ دیگر خیر کم اور شر زیادہ پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔
5. البتہ ان اقوالِ فقہا کا تعلق غیر اسلامی ریاستوں کے ساتھ جوڑنا یا تو علمی خیانت ہے اور یا پھر نا سمجھی!
2) اقوال فقہا کاسیاسی پہلو
حصہ اوّل میں بیان کردہ اُصولی مباحث سے واضح ہوتا ہے کہ
1. عدم خروج کے جو اقوال کتبِ فقہ میں موجود ہیں وہ فاسق حکمران کی موجودگی میں ہی صحیح مگر اسلامی ریاست (نہ کہ محض حکومت) کی موجودگی کو بہرحال فرض (Pre-suppose) کرتے ہیں۔
2. لہٰذا علماے متقدمین نے خروج کے خلاف جو فتوے دئیے تھے،اُنہیں موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں تو سرے سے وہ اسلامی ریاست ہی مفقودہے جس کے خلاف خروج پر وہ فتوے دئیے گئے تھے، یعنی جس اسلامی ریاست کے اندر ' فساد کے اندیشے' کی وجہ سے یہ فتوے دئیے گئے، وہ ریاست ہی جب سرے سے مفقود ہے تو ان فتووں کی آڑ میں موجودہ ریاستوں کو تحفظ دینے کا کیا مطلب؟ فقہ اسلامی کے اہم رجحانات پہلی اور دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئے جب بنواُمیہ اور عباسی خلافتیں قائم تھیں ، آج کے دور میں تو مسلمان آبادیوں اور حکمرانوں سب پر طاغوت کا غلبہ ہے لہٰذا ان حالات میں بجائے انقلابی جدوجہد کی ضرورت کا دفاع کرنے کے اُنہیں غلط طور پر اِن اُصولوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرنا جو فقہاے کرام نے 'خلافت ِاسلامیہ' کے تناظر میں مرتب کئے تھے، قیاس مع الفارق ہے۔ پس فقہاے کرام کے اقوال منکرین خروج کے حق میں دلیل بننے سے قاصر ہیں، اگر وہ واقعی اپنے حق میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں تو فقہائے کرام کے ایسے اقوال پیش کریں جن کے مطابق ' غیر اسلامی ریاست کے خلاف ہر حال میں جہاد (خروج) کرنا ناجائز قرار دیا گیا ہو۔' اگر ایسا کوئی قول ہے تو براے مہربانی پیش کیا جانا چاہئے کیونکہ موجودہ ریاستوں کے تناظر میں خلاف خروج اقوال پیش کرنا ظلم (وضع الشيء في غیر محله) کا مصداق ہے کہ یہ تمام اقوال تو 'اسلامی ریاست' نہ کہ 'غیر اسلامی ریاست ' کے پس منظر میں نقل ہوئے ہیں۔ پس موجودہ حکومتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کو خروج کہنا ایک کم تر اور نسبتاً کمزور دلیل سے اس کا جواز فراہم کرنا ہے کیونکہ اس کے لئے زیادہ مناسب اور بہتر علمی اصطلاح جہاد ہونی چاہئے ۔18 فقہ اسلامی میں خروج سے مراد 'اسلامی ریاست' کی اصلاح کےلئے اسلامی حکومت کے خلاف بذریعہ قوت جدوجہد کرنا ہے۔ خروج بطورِ حکمت ِعملی تب محل بحث ہوسکتی ہے جب اسلامی ریاست موجود ہو۔ البتہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ایسے حالات میں ریاست کے خلاف بذریعہ قوت کی جانے جدوجہد خروج نہیں بلکہ اصطلاحا ً جہاد کہلاتی ہے (جیسے تاتاری حکومت کے خلاف برپا کی گئی اسلامی جدوجہد)۔ دوسرے لفظوں میں تصورِ خروج خلافتِ اسلامی کی موجودگی کو فرض کرتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں جو شے مدارِ بحث ہونی چاہئے وہ خروج سے آگے بڑھ کر جہاد ہونی چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ فاسق و فاجر اسلامی حکومت کے خلاف جائز خروج بھی معناً جہاد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا ''جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے''، نیز تفسیر جصاص میں نفس زکیہ کے خروج کے حق میں امام ابوحنیفہ کا قول منقول ہے کہ آپ نے اسے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرا ر دیا )، البتہ یہاں بات اصطلاح کی ہو رہی ہے۔ یہ فرق بالکل ایسا ہے جیسے لفظ 'حد' بطورِ فقہی اصطلاح اوربطورِ قرآنی اصطلاح میں معنوی فرق ہے۔ پس دورِ جدید میں خروج کی بحث اُٹھانے والے حضرات پر درحقیقت موجودہ مسلم ریاستوں کی اصل حقیقت ہی واضح نہ ہوسکی۔
جمہوریت کی درج بالا مثال پر قیاس کرتے ہوئے چند اہم باتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے :
3.اسلامی خلافت بھی محض تبدیلی حکومت کے مخصوص نظام (شوری کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کا نام نہیں بلکہ یہ بھی ایک مکمل نظم اطاعت ہے، لہٰذا کسی ایک ادارے (انتقال اقتدار)کے کرپٹ ہوجانے سے پورا اسلامی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔ دورِ ملوکیت میں جو بنیادی ادارتی خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ 'اہل الرائے 'کے مشورے سے خلیفہ کی نامزدگی کا نظام ختم ہو گیا اور ریاست وحکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے خلافت ِراشدہ کے بعد اسلامی نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی (اہل الرائے کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کو جدید مفکرین نے بذاتِ خود اسلامی ریاست کی تبدیلی پر محمول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے کرام نے بادشاہوں کے فسق کے باوجود خروج سے منع فرمایا ہے کہ ان انفرادی خرابیوں کے باوجود ریاستی نظام بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا اور خروج کے نتیجے میں نظم اطاعت کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
4. یہاں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ خروج کا وقت اجتہادی مسئلہ کیوں ہے؟ جیسا کہ واضح کیا گیا کہ ریاست درحقیقت ایک پیچیدہ ساخت ہوتی ہے جس کا مقصد مخصوص علمیت و عقلیت کے مطابق احکامات کا صدور و نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ چانچہ یہ فیصلہ کہ آیا نظامِ اطاعت میں کتنی تبدیلی کے بعد نظام اطاعت کی 'بنیاد' تبدیل ہوگئی ہے اور اب خروج (بذریعہ قوتِ اصلاح ) کے لئے نکلنا ضروری ہوگیا، ایک مشکل امر ہوتا ہے اور لامحالہ ایک مجتہد فی مسئلہ ہے۔ خروج کاو قت طے کرنے کا مسئلہ محض فقہاے اسلام ہی نہیں بلکہ جمہوری مفکرین کے لئے بھی ایک خاصا مشکل امر ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک جمہوری انقلاب برپا کرنے کیلئے تو ہر قسم کی جدوجہد (بشمول مسلح جدوجہد) جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت تو عقل و فطرت کا تقاضا ہے، البتہ جمہوریت کے خلاف کوئی انقلابی جدوجہد جائز نہیں، لیکن یہ طے کرنا کہ کب اور کہاں آمرانہ جمہوری ریاست بنانے کا وقت آگیا ہے، ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے جس کے ضمن میں یہ مفکرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں (مثلاً کچھ امریکی مفکرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا یا پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں حالات کی روشنی میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے)
5. اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں کو فقہا کے اقوال کی روشنی میں جانچتے وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ تقریباً تمام ہی مسلم ریاستیں یا تو لبرل یا آمرانہ جمہوری نظم کے تحت کام کررہی ہیں اور جن کا اسلامی نظم اطاعت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا ان ریاستوں کو غلط طور پر اسلامی فرض کرکے اُنہیں ان اقوال کی روشنی میں خروج سے پناہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ پس ائمہ سلف کے فتاوی کو ان کے پورے محل سے کاٹ کر الگ اور بے محل پیش کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہ فتویٰ کن حالات اور کن اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ [حصہ سوم اور چہارم آئندہ شمارہ میں ]
حياتِ لكهوی
حضرت مولانا معین الدین لکھوی کے بارے میں ایک کتاب 'حیاتِ لکھوی' مرتب کی جارہی ہے۔ جن حضرات کو اُن کے بارے میں کچھ بھی معلوم ہو مثلاً تقاریر، تصاویر، سیاسی ومعاشرتی ، مشاہدات اور واقعات تو اُن سےاوّلین فرصت میں ارسال فرمانے کی گذارش ہے۔
ان کے شاگرد ، معتقدین، مریدین فوری طورپر اپنی نگارشات اور تاثرات بہم پہنچائیں۔شكریہ!
حوالہ جات
119؍ستمبر 2011ء کو اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں PIPSکے زیراہتمام ہونے والا پہلا مکالمہ
2سرمایہ دارانہ نظام ریاست کی ہیئت سمجھنے کے لئے دیکھئے: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کا نہایت قیمتی و اہم مضمون 'لبرل سرمایہ دارانہ ریاست' کتاب 'جمہوریت یا اسلام'
3لبرل اور آمرانہ جمہوریتوں کا فرق، ان کے وجہ جواز اور برائے نام اسلامی ریاستوں کی حقیقت سمجھنے کے لئے دیکھئے: فریاد زکریا کی کتاب Future Of Freedom
4ان کی مختصر وضاحت کے لئے دیکھئے راقم کا مضمون ' اسلام خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کا تاریخی تناظر میں موازنہ'... کتاب 'جمہوریت یا اسلام'
5ہیومن رائٹس کی تفصیلی وضاحت نیز اسلامی تعلیمات میں اس کے جائزے کے لئے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون 'جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ' ماہنامہ 'محدث' 2009ء ، نیز جمہوری ریاست کے اندر اسلامی جدوجہد کی لایعنیت سمجھنے کے لئے دیکھئے ہمارا مضمون 'جمہوریت اور اس کے تناظر میں برپا اسلامی جدوجہد کا تنقیدی جائزہ' کتاب 'جمہوریت یا اسلام'
6انقلابی تحریک کے قدرے نرم گوشہ رکھنے والے مفکرین وعلما کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ تحریکیں علمی ونظریاتی نہیں بلکہ منافق قسم کے حکمرانوں کے خلاف انتقام، نا اُمیدی وغصے کے جذبات کا ( ناجائز) اظہار ہیں، حالانکہ یہ تجزیہ محل نظر ہے کیونکہ جس طرح اُنیسویں صدی کے مخصوص حالات میں علماے کرام کا سیاسی صف بندی سے کنارہ کش ہو کر مدارس کی سطح پر اسلامی علوم کو محفوظ کرنے کا فیصلہ خالصتاً علمی ونظریاتی (اورالحمد للہ کامیاب) اجتہاد تھا، بالکل اسی طرح بیسویں صدی میں انقلابی و جہادی تحریکات کا زور پکڑنا بھی ایک شعوری ونظریاتی اجتہادی فیصلہ ہے۔
7مثلاً دیکھیے تفسیر ابن جریر سورۃ بقرہ 256، ابن کثیر، سورۃ النساء ۔ ماضی قریب کے تقریباً تمام روایت پسند مکاتب فکر کے مفسرین نے اس سے یہی مراد لیا ہے۔
8متفق علیہ
9فتح البارى، كتاب الاحكام
10صحیح مسلم:1854
11فتاویٰ شامی: جلد 4
12المبسوط: جلد10
13بدائع الصنائع: جلد7
14حجۃ اللہ البالغۃ: 2؍ 399
15فتاویٰ ابن تیمیہ: 28؍ 502 تا511
16مسلم کتاب :1709
17صحیح مسلم:1838
18البتہ مسلمانوں کے فرق کے بنا پر دونوں فقہی معاملات میں یقینی فرق کیا جائے گا، مثلاً یہ کہ مسلمانوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کے اموال کو مالِ غنیمت سمجھا جائے گا۔ وغیرہ