مسئلۂ تکفیر وخروج ‎ اور پاکستانی جمہوریت

اسلام آبادمیں قائم این جی او 'پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز'PIPS نے چند ماہ سے 'تکفیر وخروج' کے موضوع پر پاکستان کے اہل علم ودانش کے مابین مکالمہ ومباحثہ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔'مطالعۂ امن'کے نام سےسرگرم یہ ادارہ پاکستان کے حوالے سے انگریزی زبان میں 'ریجنل واچ'،اہم جائزوں اور رپورٹوں کی اشاعت کے علاوہ کم وبیش تین برس سے 'تجزیات' کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ بھی شائع کرہاہے ۔ ان رپورٹوں کا لب ولہجہ اور پیش کردہ رجحان کم وبیش وہی ہوتا ہے جو 'تجزیات'کے مضامین کا ہے۔کچھ عرصہ سے اس این جی او نے پاکستان کے دینی مدارس اور مذہبی شخصیات کو بطورِ خاص اپنی توجہ کا مرکز بنالیا ہے۔ اس حوالے سے دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے پوزیشن ہولڈر طلبہ کو انعام دینے کے سلسلے کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی بعض دینی مدارس کے تعاون کے ساتھ ، کسی بھی ریجن کے ممتاز مدارس کے نمائندہ طلبہ کی ورکشاپیں بھی منعقد کی جارہی ہیں جس کی ایک کڑی مؤرخہ 21؍نومبر2011ء کو لاہور کے جامعہ نعیمیہ میں مدارسِ دینیہ کے طلبہ کی ایک ورکشاپ تھی جس کی رپورٹ قومی اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔ تکفیر وخروج کے موضوع پر جاری مباحثہ بھی مدارسِ دینیہ اور پاکستان کے دینی ماحول میں خصوصی دلچسپی کا غماز ہے۔
تکفیر وخروج کے حوالے سے پہلا مکالمہ مؤرخہ 21؍ستمبر 2011ء کو اسلام آباد کی نیشنل لائبریری اسلام آباد میں مختلف شہروں سے مدعو کئے جانے والے اہل علم کے مابین منعقد ہوا۔ اس مُباحثہ میں پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر قبلہ ایاز، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد ابراہیم قادری ، مجلّہ الشریعہ کے مدیر جناب عمار خاں ناصر، جامعہ ستاریہ کراچی کے مدیر علامہ محمد سلفی، دار العلوم کراچی کے اُستاذ ڈاکٹر اعجازاحمد صمدانی، ماہنامہ'منہاج القرآن' کے مدیر ڈاکٹر علی اکبر ازہری اور فاسٹ یونیورسٹی، اسلام آباد کےپروفیسر جناب زاہد صدیق مغل نے شرکت کی۔ بعد ازاں اس مجلس کی کاروائی اورپیش کردہ افکار ونظریات کو گوجرانوالہ کے مجلّہ 'الشریعہ' کے شمارہ اکتوبر میں شائع کیا گیا۔ جناب زاہد صدیق مغل نے اس پہلےمکالمے میں اپنے موقف او رتاثرات کو مستقل مضمون کی شکل دی ہے جو محدث کے حالیہ شمارہ میں شائع کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کا دوسرا مرحلہ لاہور میں 22؍ نومبر 2011ء کو اِسی حساس موضوع پر 'ہالیڈے ان ہوٹل' میں ہونے والا مذاکرہ ہے جس میں گوجرانوالہ سے مولانا زاہد الراشدی اور مفتی منصور احمد، لاہور سے جناب طاہر اشرفی،مفتی محمد خاں قادری، علامہ احمد علی قصوری، جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جماعۃ الدعوۃ کے مولانا عبد الرحمٰن مکی، جامعہ لاہور اسلامیہ سے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی(راقم)، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سے ڈاکٹر محمد امین، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب سے ڈاکٹر خالد ظہیر اور ڈاکٹر سید محمد نجفی وغیرہ حضرات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ دو نشستوں پر مشتمل اس مذاکرہ کی میزبانی مجلّہ 'الشریعہ' کے مدیر جناب عمار خاں ناصر کے ذمّے تھی۔ اسی مباحثے کا تیسرا مرحلہ اسلام آباد کے مارگلہ ہوٹل میں 20؍ دسمبر کو منعقد ہوا ہے جس میں راقم الحروف سمیت دیگر دانش گاہوں کے نمائندگان کو تحریری مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ۔
جامعہ نعیمیہ میں دینی مدارس کے طلبہ کی ورکشاپ
لاہور کے مذاکرۂ تکفیر وخروج میں کیا ہوا، اس کی مرکزی بحث کیا تھی اور اس کا حاصل کیا نکلا؟ اس سے قبل یہ نشاندہی کرنا مناسب ہے کہ 'انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز' کی پوری ٹیم لاہور کے دونوں پروگراموں میں پوری دلجمعی کے ساتھ شریک تھی، اُنہوں نے ایک روز قبل جامعہ نعیمیہ میں طلبہ کو اپنے مرغوب موضوعات پر دو نشستوں میں بھی'رہنمائی' دی اور دوسرے دن علما اور دانشور حضرات کے مابین ایک حساس مسئلہ پر ہونے والے پورے مباحثہ کے نوٹس لئے، ہر مقرر کی گفتگو اور اُس کا استدلال اُنہوں نے پوری توجہ سے پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر سنا۔جامعہ نعیمیہ میںPIPS کے زیر اہتمام'جدید فکری رجحانات اور بین الاقوامی قانون کی اہمیت' کے عنوان ہونے والی ورکشاپ کی رپورٹ روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور میں شائع ہوئی کہ
''اسلام سے غیرمتصادم جدید مغربی سیاسی نظریات اور دانشورانہ رجحانات کو پاکستان کی سیاسی اور ریاستی نظام کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر خالد ظہیر نے روایت پسندی، جدیدیت اور اجتہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ روایت پسندی نئے علوم وجدید رجحانات کی کھوج میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔...'' (22 نومبر2011ء)
جامعہ نعیمیہ میں ہونے والی طلبہ ورکشاپ میں جامعہ لاہور اسلامیہ کے آخری کلاس کے 10 طلبہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور اس کے لئے بار بار رابطہ کیا جاتا رہا۔ اس ورکشاپ میں ڈاکٹر خالد ظہیر(جاوید احمد غامدی کے تلمیذ ِخاص)، ہیومن رائٹس کمیشن کے آئی اے رحمٰن(عاصمہ جہانگیر کے معاونِ کار)، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائریکٹرقاضی جاوید، ڈاکٹر سعید شفقت اور دیگر ایسے ہی خیالات رکھنے والے افراد کو 'مسلم دنیا میں جدید فکری رجحانات، انسانی حقوق کا میثاق اورعالمی معاہدوں کی اہمیت ' وغیرہ جیسے حساس ملی موضوعات پر خطابات کرنا تھے۔ راقم نے جامعہ ہذا کے 'کلیہ دراساتِ اسلامیہ' کے ڈائریکٹر ہونے کے ناطے انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے معاون کار جناب مجتبیٰ راٹھور سے ورکشاپ کے مقررین کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ جن لوگوں کو آپ نے ایسے اہم موضوعات پر گفتگو کرنے کی دعوت دی ہے، یہ لوگ توپاکستانی عوام میں خود ایک متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں اوران میں سے بعض کو انتہاپسندانہ نظریات کا بھی حامل سمجھا جاتا ہے۔ مناسب ہوتا کہ آپ اسی سٹیج پر متوازن فکر لوگوں کو بھی دعوت دیتے۔ راٹھور صاحب کا جواب تھا کہ ان موضوعات کے بارے میں دیگر لوگ ماہرانہ گفتگو نہیں کرسکتے اور یوں بھی طلبہ کو سوال وجواب میں دوسرا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ راقم نے اس کے جواب میں لاہور کے کئی ایک مستند دانشوروں کا نام لیا اور کہا کہ دو تین منٹ کے سوال میں ایک طالب علم دوسرا پہلو پیش کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ بہرطورمیرے اس اختلاف کو نوٹ کرنے اور اعلیٰ انتظامیہ تک پہنچانے کی یقین دہانی کراکے، راٹھور صاحب نے مقررین میں تبدیلی سے اظہارِ معذرت کرلیا۔
راقم نے بادلِ نخواستہ 21؍ نومبر کو جامعہ لاہور کے 10 کی بجائے صرف 4 طلبہ اور اپنی جگہ جامعہ کے اُستاد مولانا عبد الحنان کیلانی کو بھیجا اور سب کو متوجہ ہوکر سننے کی تلقین کی ۔طلبہ کی واپسی پر مجھے بتایا گیا کہ جامعہ ہذا کے طلبہ نے منتظمین اور مقررین سے کئی تیکھے سوالات کئے ، جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ قاضی جاوید صاحب کے بقول اگر امریکہ میں فوکویاما کے نظریۂ امن کے بالمقابل ہنٹگٹن کے تہذیبی کشمکش کے نظریہ کو قبولیت حاصل ہوئی ہے تاکہ امریکہ کی جنگی صنعت کا کاروبار اور عسکری ادارے زوال کا شکار نہ ہوں توپھر اس مجلس کی میزبان امن کی داعی این جی او'انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز ' بذاتِ خود ایک عسکریت پسند امریکہ کی نمائندگی کیوں کر کررہی ہے؟ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ ہم امریکہ کے عسکری نظریہ کے علم بردار اور نمائندہ نہیں بلکہ امریکی شہر نیویارک میں جاری وال سٹریٹ تحریک کے امن پسندوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اُٹھنے والوں کے حامی ہیں۔اس پر اُنہیں پھر اعتراض کیا گیا کہ اوّل تو آپ کی قائم کردہ این جی او کم وبیش پانچ چھ سال سے مصروفِ کار ہے، جب کہ امریکہ میں تو وال سٹریٹ تحریک ایک دو سال قبل شروع ہوئی ہے، مزید برآں دینی مدارس اور مذہبی قیادت کو مخاطب بنانے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اِن کی مزعومہ 'اصلاحِ' کو پیش نظر رکھ کر آپ دراصل عالمی استعماری ایجنڈا ہی پورا کررہے ہیں۔ مقرر کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ڈاکٹر خالد ظہیر نے 'مسلم دنیا کے جدید فکری رجحانات'کے عنوان سے اپنے خطاب کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہم بہترین مسلمان ہوتے ہوئے مغربی تہذیب پر بھی کاربند ہوں، کیونکہ دونوں میں اُصولی طورپر کوئی ایسا تضاد نہیں ہے کہ ایک پر عمل دوسرے کے ترک کو لازم ہو۔ جدید مسلم رجحانات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نے امریکہ کے ڈاکٹر حمزہ، انڈیا کے راشد شاز اور وحید الدین خاں جیسے مفکرین کےنظریات کے تعارف پر اکتفا کیا ، حالانکہ وہ اس میں محمد بن عبد الوہاب، سید قطب، مولانا مودودی اور جمال الدین افغانی کے مثبت فکری رجحانات کو بھی نمایاں کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر شفقت نے علما کے طرزِ فکر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ آفات ومصائب مثلاً زلزلہ وسیلاب وغیرہ کی علمی وسائنسی توجیہ کرنے کی بجائے اسے عذابِ الٰہی قرار دے کر ، لوگوں کو اللہ سے رجوع کی تلقین کرتے ہیں، جبکہ ہمارا رویہ وحی الٰہی کی بجائے مشاہدہ اور حقائق کی روشنی میں مرتب ہونا چاہئے۔ اُنہوں نے دین کے محدود (بلکہ سیکولر )تصور کی تعریف کرتے ہوئے یہ گوہر افشانی بھی کی کہ دین کا ٹھوس کام برصغیر میں دیوبندی اور بریلوی مکتب ِفکر کے ہاں ہی نظر آتا ہے جنہوں نے جماعتِ اسلامی کی طرح ریاستی معاملات میں رہنمائی دینے اور اُلجھنے کی بجائے' بہشتی زیور' جیسے کتب لکھ کر مثالی دینی خدمت انجام دی ہے۔ایک مقرر نے مسلمانوں کے روایتی طرزِ استدلال پر تنقید کرتے ہوئے جدید رجحانات کو اپنانے کا مشورہ دیا جس پر جامعہ ہذا کے ایک طالب علم نے یہ توجیہ پیش کی کہ جدید وقدیم میں اختلاف اُجاگر کرنے اور کسی ایک کو غالب کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ قرآن وحدیث پر کامل کاربند رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ طلبہ نے اپنے سوالات میں کئی مواقع پر مقررین کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا۔ تقریب میں کافر ومسلم دوستی کے بے جا تصور کو اس قدر اُبھارا گیا کہ جب ورکشاپ کے آخر میں میزبان جامعہ کے مہتمم مولانا محمد راغب نعیمی کو دعاے خیر کے لئے دعوت دی گئی تو اُن کی دعا میں شامل غلبۂ اسلام کی باری تعالیٰ سے التجا ورکشاپ کے سیاق وسباق سے غیرمناسب محسوس ہوئی اور بعض مقررین اس دعا پر تردّد کا بھی شکار نظر آئے، کیونکہ ورکشاپ کا ماحول اور پیش کئے جانے والے افکار ونظریات اس نبوی دعا کے تقاضے پورے نہیں کرتے تھے۔
'ہالیڈے اِن' لاہور میں مکالمہ تکفیر وخروج
22؍نومبر 2011ءکو ہالیڈے ان میں ہونےوالا اجلاس مقررہ وقت سے نصف گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔مکالمہ کے مدعوشرکا کے علاوہ دیگر اہل علم کو اس پروگرام میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ اتفاق سے جامعہ لاہور اسلامیہ کے دو فاضل اساتذہ شرکت کے لئے آن پہنچے لیکن راقم کی تحریری درخواست کے باوجود، میزبان جناب عمار ناصر نے اُن کو منتظمین کی طرف سے اجازت نہ ملنے کا کہہ کر معذرت کرلی۔مولانا عبد الرحمٰن مکی اور ڈاکٹرخالد ظہیر کسی وجہ سے تشریف نہ لاسکے۔ ڈاکٹر محمد امین کے بارے میں پتہ چلا کہ اُنہوں نے میزبان این جی او سے بعض تحریری استفسارات کئے ہیں کہ اِس این جی او کی فنڈنگ کون کررہا ہے اور اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے؟ مزید برآں یہ کہ جس پروگرام کی میزبانی جناب عمارخاں ناصر کے سپرد ہو، اس کے اہداف ومقاصد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اِن شبہات کی بنا پر عدمِ شرکت کو ہی ترجیح دی۔
آغاز میں جناب عمار ناصر نے مذاکرے کے اہداف بیان کئے جس کے جواب میں ڈاکٹر سید محمد نجفی اور جناب مفتی محمد خاں قادری نے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی عام صورتحال کے حوالے سے شرعی ضوابط اور احتیاطیں وغیرہ پیش کیں۔راقم الحروف اور مفتی منصور احمد نے میزبان کے پیش کردہ سوالات پر براہِ راست گفتگوکی جس کے نتیجے میں بعد کی تمام ترنشست کا رخ ایک اُصولی وفقہی مسئلہ سے نکل کر تکفیر وخروج کے حوالے سے پاکستان کو درپیش حالیہ حساس صورتحال کی طرف مڑ گیا۔ یوں بھی مذاکرہ کا جولائحہ عمل ہمیں پہلے فراہم کیا گیا تھا، اس میں ایک مخصوص فکر ی رجحان ، اور مباحث کے مابین موجود معنوی ربط ، مذاکرہ کے مقصد وہدف کی طرف واضح اشارہ کررہا تھا، اسی لئے ہم نے فقہی وشرعی بحث میں زیادہ وقت صرف کرنے کی بجائے مسئلہ کے سیاسی پہلو کو ہی پیش نظر رکھا۔ ذیل میں مکالمہ کی کاروائی سے قطع نظر راقم کی گفتگو، اور مباحثے کے مرکزی سوال سے متعلق اپنا نقطہ نظر بعض ضروری تفصیلات کے بعد قارئین 'محدث 'کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ راقم نے اپنے خطاب کے آغاز میں بعض مقدمات اورسوالا ت قائم کئے اورحسب ِذیل معروضات پیش کیں:
1. اگر تکفیر کے ساتھ خروج کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین کے پیش نظر تکفیر کا وہ مخمصہ نہیں جس سے پاکستانیوں کو 80،90 کی دہائی میں شیعہ سنی تکفیر وغیرہ کے مرحلے پر واسطہ پیش آیا تھا۔ زیر بحث تکفیر سے مراد وہ مباحث ہیں جو تکفیر کرنے والوں کو آخر کار حکومت سے بغاوت اور خروج کی طرف لے جاتے ہیں۔
2. اس تکفیر وخروج کی شرعی حیثیت پر گفتگو سے قبل ہمیں فقہ الواقع یا صورتِ واقعہ پر غور کرنا ہوگا کہ ہم اس شرعی بحث اور اس کے نتیجے کا اطلاق کن لوگوں پر کرنا چاہتے ہیں؟ فقہ الواقع کے تعین سے قبل شریعتِ اسلامیہ کی متعلقہ نصوص کو نکال کر محض پیش کردینا ہی کافی نہیں کیونکہ یہ نصوص تو اِس سے قبل بھی تراث ِاسلامی میں موجود ہیں۔
تکفیروخروج کا موجودہ منظر نامہ ملتِ اسلامیہ پر ظلم کا ردّعمل ہے!
3. ملتِ اسلامیہ میں خروج پر منتج ہونے والی تکفیر (یعنی سیاسی تکفیر یا حکمرانوں کی تکفیر) کی تحریک کا پورا منظر نامہ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی تکفیر خالصتاً مسلم حکمرانوں کے ظلم وستم کے ردّعمل پر مبنی ہے اور کوئی خالص شرعی یا فقہی مسئلہ نہیں ہے۔حالیہ اسلامی تاریخ میں ساٹھ کی دہائی میں مصر میں الاخوان المسلمون سے نکلنے والے بعض نوجوانوں نے 'اصحاب الہجرۃ والتکفیر ' کے نام سے تکفیری سلسلے کا آغاز کیا۔ واضح ر ہے کہ ان سالوں میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے الاخوان المسلمون پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، شیخ حسن البنا کو بہیمانہ طور شہید کیا گیا اور سید قطب﷭کو پھانسی کے گھاٹ اُتاردیا گیا تھا، کئی اخوانیوں کو کتوں سے نُچوایا گیااور اخوان کے پیروکاروں پر زندگی کی راہیں مسدود کردی گئی تھیں۔ بعدازاں سعودی عرب میں 90 کی دہائی میں خلیجی جنگ کے بعد امریکی مداخلت اور امریکی فوجی بیسز کا قیام وہ منظرنامہ ہے جس کے بعد اُسامہ بن لادن اور ان کے رفقا نے سعودی حکمرانوں کی تکفیر کے مباحث کا آغاز کیا۔ توحید ِحاکمیت کا ایک سیاسی نظریہ متعارف کرایا گیا،امریکی استعمار کی جارحیت و مداخلت سے قبل سعودی عرب میں یہ بحثیں نہیں ملتی۔ پاکستان کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان پر امریکہ کی بلاجواز بہیمانہ جارحیت کے بعد پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور اس سے متعلقہ مباحث ِتکفیروخروج وغیرہ کا آغاز ہوا۔ شمالی علاقہ جات، وزیرستان وسوات اور فاٹا وقبائلی علاقوں میں اس سے پہلے بھی پرامن پاکستانی بستے تھے، لیکن امن وامان کی پچاس برسوں میں کبھی وہ صورتحال نہ ہوئی جس کا سامنا گذشتہ دس برس سے یہ علاقے کررہے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں ڈیرے جمالئے، ہمارے آمر وغاصب حکمرانوں نے اپنی کمزور سیاسی حیثیت کی بنا پر، امریکی دھمکیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور بدلے میں اُس کی تائید کے طالب ہوئے، پاکستان کے سرکاری ادارے امریکی مفادات کے رکھوالے بن گئے اور عرب وافغان مجاہدین کو ڈالروں کے بدلے امریکی جیلوں میں بھر کر ملت اور قوم سے غداری اور بے وفائی کی سیاہ داستانیں رقم کی گئیں۔پاکستان کو اس وقت تک بھی دہشت گردی اور تکفیر وخروج کے خونخوار عفریت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ 2007ء میں لال مسجد میں عفت مآب بچیوں کو خون میں نہلا دیا گیا، ان کی کٹی اُنگلیاں اور قرآنِ کریم کے بریدہ اوراق اسلام آباد کے ندی نالوں میں پائے گئے، تب ظلم وستم کا شکار لوگ پاکستان کے پالیسی سازوں اور ہئیت ِمقتدرہ کے خلاف کمربستہ ہوگئے۔ یہ واضح طورپر ظلم کے خلاف ایک عوامی ردّعمل تھا جس کے لئے شریعت ِاسلامیہ سے تائید لینے کی کوشش کی گئی۔ظلم کے خلاف دفاع اور عوامی مزاحمت کو سند ِجواز دینے کے لئے حکمرانوں کی تکفیر کے نظریہ کا اس مرحلہ پر پھیلنا اور اس کے بعد ان کے خلاف خروج کا رجحان اپنے اندر واضح معنویت رکھتا ہے۔توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ملت ِاسلامیہ میں ہر مقام پر سیاسی تکفیر وخروج کا نظریہ اس گروہ میں پروان چڑھا جو ظلم وستم کا براہِ راست نشانہ بنا۔ اگرچہ اقامت ِدین کا نظریہ حالیہ دینی و سیاسی تناظر میں بنیادی طور پر جماعت ِاسلامی کا متعارف کردہ ہے لیکن پاکستان کی جماعت ِاسلامی چونکہ جمہوری جدوجہد کے ذریعے سیاسی سرگرمی میں اپنی توانائیاں صرف کررہی ہے اور اُنہیں الحمد للہ اخوان جیسے شدید ظلم وستم کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا؛ اس کے مقابل دیکھا جائے تو صوبہ سرحدکے طالبان حنفی مکتبِ فکر کے حامل ہونے کے ساتھ، ماضی میں اقامت ِدین کا کوئی واضح مطالبہ نہ رکھتے تھے، توحید ِحاکمیت وغیرہ کا کوئی سیاسی رجحان بھی اُن کے ہاں نہیں ملتا، اس کے باوجودجب حنفی طالبان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تو اُنہوں نے سیاسی تکفیر وخروج میں پناہ لی اور پاکستان کی جماعتِ اسلامی اقامت دین کے اس منظر نامے سے خارج رہی۔ان تقابلی حقائق سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں تکفیر وخروج کی حالیہ بحثیں ظلم اور اس کا ردّعمل ہیں۔ بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے کہ جس طرح امریکہ نے طالبان کی مزاحمتی تحریک سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان کے نام وتشخص سے بے شماردہشت گردانہ کاروائیاں منسوب کردیں اور طالبان گروہوں میں اپنے افراد شامل کرکے اُن کو پاکستان میں انتہاپسندی پر آمادہ کیا، اسی طرح خلط ِمبحث کرتے ہوئے ان طالبان کو فکری طورپر تکفیر وخروج کی بحثوں میں اُلجھایا گیا ۔ دراصل اہل پاکستان کا یہ المیہ ایک سیاسی اور عوامی سانحہ ہے۔ جب بلوچستان کے عوام کو اُن کا حق نہیں دیا جاتا اور وہ 'بلوچستان لبریشن آرمی' کے نام پر اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے ہیں، تو اسےایک عوامی جدوجہدسمجھا جاتا ہے، اسی طرح جب سرحدکے لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے تو اسے اہل سرحد کا حق دفاع ہی کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟اس کو شریعت سے خلط ملط کرنا نت نئی اُلجھنیں پیدا کردیتا ہے!!
سیاسی تکفیریوں سے قبل استعمار اور آمر مسلم حکمرانوں کی مذمت ضروری ہے!
4. یہ درست ہے کہ احادیث میں خروج وغیرہ کے بارے میں ممانعت کا غالب رجحان پایا جاتا ہے، تاہم بعض واضح صورتوں میں خروج کی اجازت بھی احادیثِ نبویہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔اُموی دور کے خروج کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فقہاے کرام کے اقوال میں بھی اِس کی زیادہ تائید نہیں ملتی ، لیکن اگر ہم ان احادیث یا فقہی جزئیات سے آج استدلال کرنے پر مصر ہیں، جو آج کے مذاکرے کا مقصد ومنشا معلوم ہوتا ہے، تو اس سے پہلے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اُس عالمی استعمار اور امریکہ کی بھی مذمت کریں جس نے ملت ِاسلامیہ کو آسان شکار سمجھ کر، دودہائیوں سے اس کی سالمیت سے کھیلنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس کے بعد ہمیں مسلمانوں کے ان حکمرانوں کی مذمت کرنا چاہئے جنہوں نے عالمی استعمار کا آلہ کار بن کر اپنی ہی قوموں کو فتح کرنا اور ان کو امریکہ کے حوالے کرکے ڈالرکمانا اور سیاسی تائید حاصل کرنے کا مکروہ دھندا شروع کررکھا ہے۔ کیا آج ہم لاہور کے اہل علم ودانش ، اپنے قول وبیان کے ذریعے اس امر کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ ہم پاکستان کے سرحدی عوام پر ظلم کے خاتمے کی کوئی مؤثر جدوجہد کرنے سے تو قاصر ہیں لیکن ان مظلوموں سے مزاحمت اور ظلم کے خلاف دفاع کا حق بھی ، خروج کی ممانعت کی احادیث پڑھ پڑھ کر چھین لیں؟ تاکہ کوئی مظلوم اگر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کرتا ہوا مارا جائے تو ہمارے دلوں میں اس مسلمان بھائی کے خلاف ہمدردی کا شائبہ بھی نہ ہو۔یہ اسلام اور پاکستان کی کوئی خدمت نہیں بلکہ من وجہ ظلم کی ہی تائید ہے۔ اس مکالمہ کے شرکا کا مثبت کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ اگر تکفیر وخروج کےسلسلے کو غلط سمجھتے ہیں ...اور امر واقعہ بھی یہی ہے ...تو پھر سرحدی عوام کے لئے اُن مثبت راہوں کی نشاندہی کریں ، جس کے ذریعے وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کا خاتمہ کرسکیں اور اُنہیں بھی چین وسکون کا جائز حق میسر آسکے۔
خوشنما نعروں سے دوسرں کا استحصال باطل کا قدیم ہتھیار ہے!
5. تاریخ میں ہمیشہ سے باطل قوتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ خوش نما نعروں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، خارجیوں نے قرآن کو حکم بنانے کا نعرہ گھڑا تو سیدنا علی نے 'کلمۃ حق اُرید بہا الباطل'کے مشہور جملہ سے اس کا دندان شکن جواب دیا۔ معتزلہ نے اپنے نظریاتی انحراف کو جواز دینے کے لئے اہل العدل والتوحید کا نام اختیار کیا جسے ائمۂ اسلاف نے دلائل کی رو سے باطل ثابت کیا۔ ملت ِاسلامیہ میں اہل تشیع نے تیرہ صدیوں سےملی انتشار کا رویہ اپنایا اور آج اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی بصیرت کے پیرو شیعہ 'وحدتِ ملی اور اتحاد بین المسلمین' کو اپنا شعار بنا کر مصروفِ جہد ہیں۔اسی طرح دورِ حاضر کی ظالم وجارح ریاست امریکہ دنیا بھر میں ظلم وبربریت اور جنگ و ہلاکت مسلط کرتا ہے تو 'امن' اور 'حقوقِ انسانی' کو اپنا سلوگن بنا کر پیش کرتا اور پوری دنیا کو کھلا مغالطہ دیتا ہے۔امریکہ دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی اہم ترین صنعت وبرآمد ہی عسکری سازوسامان ہے۔ سرد جنگ کے بعد ملت ِاسلامیہ کا نیا شکار اسی لئے تراشا گیا ہے کہ امریکہ کی عسکری صنعت کو زوال نہ آئے اور جنگ کا کاروبار جاری رہے۔راقم الحروف کو 2006ء میں امریکہ کا دورہ کرایا گیا جس میں واشنگٹن میں 'یوایس انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز 'میں بھی مجھے لے جایا گیا جو امریکی لابی کا مرکزی ادارہ ہے ۔ اور میں اس مذاکرہ میں یہ نشاندہی کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں قائم این جی او جو آج کے مکالمہ کی منتظم ومیزبان ہے، اس کا نام ہو بہو وہی ہے جو واشنگٹن کے ادارہ امن کا ہے، صرف یوایس کی جگہ پاکستان کا فرق ہے۔آج ہمارا میزبان ادارہ امن کے فروغ کی بات کرتا ہے۔ یہ ادارہ اپنے دعویٰ میں اُس وقت سچا ثابت ہوگا جب امن کے اصل مجرموں: امریکہ اور عالمی استعمار کے خلاف بھی یہ سیمینار اور مذاکرے منعقد کرے اور جب یہ این جی او امن وسلامتی کے دشمن مسلم ممالک کے ظالم حکمرانوں کی عوام شکن پالیسیوں کو بھی ہدفِ تنقید بنائے، جن سے دنیا کا امن مجروح ہوکر رہ گیا ہے۔تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرنا امن کے لئے کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ سیاسی تکفیر وخروج کے پیرو غلط منہاج پر کاربند ہیں، لیکن ان کو غلط کہنے والی زبانیں اور اُن کی اصلاح کے لئے مجتمع ہونے والے اہل علم اُن کی کوتاہی کی اصل وجہ کو ترک کردیں اور اصل ظالم کو نظرانداز کرکے صرف مظلوم سرحدی عوام کی مذمت پر اکتفا کریں تو یہ بھی ایسا' کلمہ حق' ہے جس کا مقصد آخرکار باطل کی تقویت ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ ظلم وبربریت کو کسی بھی طرح قبول نہ کیا جائے، اس کے خلاف ہر طرح مزاحمت کی جائے اور ظلم کے دفاع کے لئے جائز راستے تلاش کرنے اور ان راستوں پر عمل پیرا ہونے والوں کی ممکنہ تائید ومعاونت پر مجالس ومباحثے منعقد کیے جائیں، کیونکہ مسائل کا دائمی اور حقیقی حل اسی صورت ممکن ہے جب ان کو مبنی بر حقائق و انصاف طریقے سے حل کیاجائے، کسی حقیقی مسئلہ کو وقتی طورپر دبا دینا اور کسی متاثرہ فریق کو مجبور کردیناکبھی بھی دائمی امن وسکون کی کافی بنیاد نہیں بن سکتا۔
مسلم ممالک میں نافذالعمل جمہوری نظاموں میں خروج کی بحث اصلاًہی غلط ہے!
6. یہ ہے وہ فقہ الواقع جس میں ہمیں سیاسی تکفیر وخروج پر گفتگو کرنا ہے۔شرعی مسئلہ کی دقیق تفصیلات میں اُترنے سے قبل یہ نشاندہی کرنا مناسب ہوگا کہ پاکستان کےحالیہ تناظر میں اس موضوع کا انتخاب ہی خلط ِمبحث ہے۔خروج کے بارے میں احادیث اورفقہ میں جو تفصیلات ملتی ہیں وہ خلافتِ اسلامیہ کے تناظر میں ہیں۔'خروج' اسلام کے سیاسی نظام 'خلافت 'کا ایک تصور ہے جس میں اللہ کے دین کو نافذ کرنے والے خلیفہ کے بارے میں بعض تفصیلات کے ساتھ خروج کے امکان وعدم پر گفتگو کی جاتی ہے۔پاکستان یا مسلم ریاستوں کا موجودہ نظام کسی بھی طرح خلافت کے تقاضے پورے نہیں کرتا، کیونکہ یہ اپنی اصل سے ہی غیر اسلامی ہے۔اس مکالمہ کے شرکا کو میں متوجہ کرنا چاہوں گا کہ کیا ہمیں پاکستان پر قابض و آمر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں خروج کی احادیث سے استدلال کرنا ہے یا اُن کے نقش قدم پر چلنے والے صدر آصف علی زرداری کے بارے میں؟پرویز مشرف تو ایسا بدترین آمر ہے جس کو شریعت سے مستغنی نام نہاد 'سول سوسائٹی'کو بھی معزول کرنے کی ہرممکنہ جدوجہد کرنی چاہئے۔ملک کو امریکہ کی کالونی بنا دینے اور عوام کے لئے جینا دوبھر کردینے والے زرداری کے بارے میں کیا ہمیں خروج کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ صدر حسنی مبارک، زین العابدین، معمر قذافی اور حافظ الاسد جیسے حکمران کونسے خلیفہ راشد ہیں ، نفاذِ دین کی کیا ذمہ داری پوری کرتے ہیں، اور اپنے عوام کی کیا خدمت کرتے ہیں کہ اُن کے سامنے مزاحمت کرنے والوں کو حدیث وفقہ میں وارد مقدس عبارات سنا کر خاموش کیا جائے۔ایسے حکمرانوں سے تو کسی بھی طرح پیچھا چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے جو صرف اہل دین نہیں، بلکہ ان ممالک میں بسنے والے تمام باشندوں حتیٰ کہ دہریوں اور ہندؤں کا بھی عوامی فرض ہے۔الغرض خروج جو خلافت ِاسلامیہ کا ایک تصور ہے، اس کو جمہوریت وآمریت کے مغربی نظاموں میں ٹانکنا خلط ِمبحث کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جمہوریت ایک غیر اسلامی نظام سیاست ہے!
7. اس موقع پر جمہوریت کے بارے میں بھی واضح ہوجانا چاہئے کہ ماضی میں ہمارے اہل علم نے جمہوریت کو محض اپنے آپ کو عہدے کے لئے پیش کرنے کی علت کی بنا پر غیر اسلامی ٹھہرایا تھا مزید برآں اُنہوں نے حاکمیتِ عوام کے غلط نظریے کی بنا پر اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ لیکن یہ یاد رہنا چاہے کہ جمہوری نظام اپنی ساخت، ڈھانچے ،نتائج اور میکنزم کے لحاظ سے ایک کامل غیراسلامی نظام ہے جس کو کسی بھی قسم کی پیوند کاری سے اسلامی نہیں بنایا جاسکتا۔ کسی بھی سیاسی نظام کا انحصار اس کے نظریۂ حاکمیت پرہے اور وہی اس کی اصل حیثیت کا تعین کرتاہے۔خلافت اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کے لئے اپنے تمام عناصر اور ادارے بروے کار لاتی ہے جبکہ جمہوریت عوام الناس بلکہ غالب جمہور کی حاکمیت کے ذریعے عوامی خواہشات کو معاشرے پر مسلط کرتی ہے۔مسلم خلیفہ اللہ کے دین کو اپنے اور دوسروں پر نافذ کرنے کے لئے ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں قانون کی تشکیل اور عوامی حاکمیت کے لئے قوی ترین ادارہ پارلیمنٹ کے نام سے موجود ہوتا ہے۔جمہوری نظام میں اللہ کے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، عوامی نمائندے دلیل شرعی کی بنا پرنہیں بلکہ اپنی ووٹنگ کی قوت سے کسی قانون کا نفاذکر تے ہیں ۔ کسی حکم کا جمہوری ملک میں نفاذ اللہ کے قرآن کی بنا پر نہیں بلکہ مقنّنہ کے ووٹوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جمہوری ملک میں اسلام کے اسی حق پر اکتفا کرلیا جاتا ہے کہ کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں بنے گا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو اسلام کا سلبی تقاضا ہوا، ایجابی طورپر اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟ جمہوریت اللہ سے بغاوت اور انسان پرستی کے مغربی سیاسی نظریے کا مکمل اظہار ہے۔بعض مسلم دانشوروں کی مرعوبیت اس شرمناک حد کو پہنچ چکی ہے کہ وہ سیدنا عمر کے بعض عوام دوست اقدامات کو ان کا جمہوری رویہ قرار دینے کی جسارت کرتے ہیں، جبکہ سیدنا عمر ایک مسلمہ خلیفہ راشد تھے، خلافتِ اسلامیہ اس وقت کا نظام تھا اور اس عظیم خلیفہ کے تمام رویے خلافتی رویے اور شرعی رجحانات ہی تھے۔اسلام کو اپنے نظریات کے بیان اورنکھار کے لئے کسی دوسرے فلسفے یا نظریے کے الفاظ مستعار لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جو یہ سمجھتا ہے وہ خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ پہلے جمہوریت یا انسانی حقوق کو اسلام سے ثابت کیا جاتا ہے ، پھر اُن کو اللہ کے دین اسلام کا متبادل بناکر، اُن کے تقدس کی مالا جپنا شروع کردی جاتی ہے اور اس طرح مغرب کا خواہش پرست انسان اور اللہ کا متبع مسلمان ایک مساوی مقام پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کیسا اسلام ہے جو اپنے ظہور وکمال کے لئے مغرب کے ارتقا کا منتظر اور اصطلاحات کا محتا ج ہے۔اسلام کا سیاسی نظام صرف اور صرف خلافت ہے، اس وقت تک باقی تمام کوششیں وقتی مجبوریاں،مصلحتیں اور حالات کا جبر ہیں، اُنہیں اسلام کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان میں حاکمیتِ الٰہیہ کا نظریہ صرف دستور کا زیب ِعنوان ہے، عملاً پورا دستور مغربی جمہوریت کا چربہ ہے۔ حاکمیتِ الٰہیہ کے نظریے کو عملاً پورے دستور میں 'خلافِ اسلام ' ہونے کے تحفظ سے زیادہ کوئی وزن نہیں دیا گیا، اور یہ تحفظ بھی پیچ درپیچ تاویلات اور نظریہ ہائے ضرورت سے عبارت ہے!!
استعمار کی منظورِ نظر مسلم حکومتوں کی مغربی کسوٹیاں
8. وہ جمہوریت جس کو امریکہ عالم اسلام میں پروان چڑھانا چاہتاہے، اور اُن کی امداد کو اس سے مشروط کردیتاہے، آئیے ملت ِاسلامیہ کے اس مجسم دشمن کے وہ دیگر معیار بھی ملاحظہ کریں جو اُس نے کسی بھی ملک اور سیاسی وعوامی جماعت کے قابل قبول یا اعتدال پسند ہونے کے لئے مقرر کررکھے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک'رینڈ' نے چھ معیارات قائم کئے ہیں: (1) وہ جماعت جمہوریت کی داعی اور اس پر کاربند ہو۔(2) وہ جماعت مردوزَن کی مساوات کے مغربی نظریے کی قائل اور علم بردار ہو(اس نظریے کی تفہیم کے لئےسیڈا، عالمی خواتین کانفرنسوں مثلاً قاہرہ وبیجنگ کانفرنسز وغیرہ کی سفارشات ملاحظہ ہوں)۔(3) وہ جماعت مذہبی اقلیات کےحقوق اور تحفظ پر کاربند ہو۔ (4)وہ جماعت اسلام کی کسی ایک تعبیر پر اصرا ر نہ کرتی ہو بلکہ ہردور کے لحاظ سے نئی تعبیر کا امکان مانتی ہو۔ (5) وہ انتہاپسندی اور تشدد سے محترز ہو اور(6) دہشت گردی کی مذمت کرتی اور اس کے خلاف اقدامات بروے کار لاتی ہو۔ (الوسطية: الطريق إلى الغد از ڈاکٹر عبد اللہ یحییٰ، ریاض)
پاکستانی علما کا جمہوریت کے زیر سایہ اسلامی قانون سازی کی جدوجہد کرنے کا مسئلہ
9. یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں علماے کرام جمہوریت کے تحت نفاذِ اسلام کی جدوجہد کررہے ہیں یا پھر اسلامی قانون سازی مثلاً حدود قوانین، توہین رسالت کا قانون، قصاص ودیت کے قوانین کی جدوجہد میں سالہا سال سے شریک ہیں۔ اس تناظر میں بعض دانشورتو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے علما نے جمہوریت کو ہی ایک مثالی نظام سمجھتے ہوئے اس کے تحت اسلامی قانون سازی کو ایک مثالی حکمت ِعملی کے طورپر اختیار کیا ہے اور وہ جمہوری سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی اسلام کی برکات کے منتظر ہیں، حتیٰ کہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے ذریعے جمہوری اقدامات پر پاکستانی علما کا اجماع ہوچکا ہے، حالانکہ یہ امر واقعہ نہیں ہے بلکہ اصل صورتحال اس سے مختلف ہےجس کی وضاحت کے لئے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔ اُنیسویں صدی میں جدید مغربی نظریات جب پروان چڑھے اور اس کے نتائج نکلے تو مغربی قوتیں پورے عالم اسلام میں نوآبادیاں بنانے چل پڑیں، بیسویں صدی میں مغربی قوتیں ، آپس میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم کی شکل میں ٹکڑا گئیں اور لاکھوں انسانوں کو مغربی قوتوں کی اس جنگ کا شکار ہونا پڑا، ان دونوں عالمی جنگوں کے بعد یورپی استعماری قوتیں اس قدر کمزور پڑگئیں کہ اُنہیں چاروناچار اپنی نوآبادیوں سے نکلنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے موجودہ ممالک میں سے اکثر جنگ ِعظیم دوم کے بعد کے بیس سالوں میں وجود میں آئے۔پاکستان کا قیام ہو یا ہندوستان کا، ان دونوں کی آزادی یہاں کے باشندوں کی جدوجہد سے بڑھ کر برطانیہ کی کمزوری میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان سے قبل مسلمانوں کا خون بہت کم بہایا گیا اور پاکستان بننے میں جن مسلمانوں کا خون بہا ، وہ قیام پاکستان کے بعد منتقلی کے مراحل کی بدترین قتل وغارت ہے۔ انگریز نے یہاں سے نکلتے ہوئے اسی نظام حیات کو تحفظ دیا جو وہ سالہا سال سے اپنے ممالک میں چلاتے آئے تھے۔مختصر طورپر پاکستان کی آزادی اپنے زورِ بازوپر حاصل ہونے والی مکمل آزادی نہ تھی، بلکہ قابض کی کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال میں ، محمد علی جناح کی پرعزم قیادت کے تحت مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ چنانچہ یہ آزادی حاصل کرنے والے مسلمان اور ان پر نگران عالمی استعمار نے اُنہیں یہ مہلت ہی نہ دی کہ وہ جمہوریت سے بالاتر کسی اور نظام کے متعلق آزادہوکر سوچتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی نظریاتی غلامی اور بدترین استعماری تسلط آج تک برقرار ہے۔پاکستان کلمہ طیبہ کے نعرے کی قوت سے وجود میں آیا لیکن قیام کے چند ماہ بعد ہی خالص اسلام کی بجائےیہ وطن پھر مغربی نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ان حالات میں علما نے ایک مثالی نظام کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ موجود سیاسی جبر میں ممکنہ اصلاحات کا راستہ اپنایا۔ اگر پاکستان مکمل طورپر آزاد ہوکر قائم ہوا ہوتا اور اس پر مغربی قوتوں کا تسلط نہ ہوتا تو یہاں علما یہ صورتحال کبھی اختیار نہ کرتے۔ الغرض علما کے متفقہ 22 نکات ہوں، یا دستور ی جدوجہد یا اسلام کے اجتماعی نظاموں کا جزوی نفاذ، حالات کے اس جبر میں علما کے پاس تبدیلی کا ممکنہ راستہ ہی یہ ہے نہ کہ یہ علما اور اسلام کا اصل مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان قانونی تبدیلیوں کے نفاذ اورآج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی اسلام کی برکات حاصل نہیں ہورہیں، کیونکہ یہ ایک مثالی طریقہ یا خالص اسلامی ہدف نہیں ہے بلکہ اُمت کو درپیش کمزوری کے حالات کی اضطراری حکمت ِعملی کا نتیجہ ہے ۔
تکفیر وخروج یا تشدد اور جبر مسئلہ کا حل نہیں ہیں
10. مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم کسی جبر وتشدد کا حامی ہے یا بعض تحریکیں نفاذ اسلام کے جو شارٹ کٹ طریقے اختیار کئے ہوئےہیں، ان کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مقصود مرض کی تشخیص میں اتفاق ہی ہے۔ تاہم اس مرض کا علاج کیا ہو، اس میں مسلمانوں میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہنگامی قبضہ کی بجاے فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے اور اصل ضرورت مسلم افراد کی معیاری تیاری، اور دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اُنہیں تعلیم وتربیت دینا، پھر ایسے افراد پر مشتمل جمعیت ِاسلامی کا قوت پکڑنا، مختلف الجہت اسلامی تحریکوں وتنظیموں کا اتحاد واتفاق کرکے، نفاذِاسلام کے لئے ہونے والی مساعی کو تقویت دینا ہے۔ جب تک مسلم معاشرہ اصلاح وتعمیر کے ان مراحل سے نہیں گزرے گا، وقتی غلبہ یا اتفاقی قبضہ ملت ِاسلامیہ کو درپیش حالات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔ اسلام کے نام پر غلبہ وقبضہ جمانے والوں کی مخالفت پہلے علاقائی پولیس کی قوت سے ہوگی، پھر میڈیا اور رینجر وفوج کی قوت سے، اس کے بعد عالمی قوتیں اقوام متحدہ اور نیٹو وامریکہ کی سرپرستی میں ایسے کسی غلبہ جما لینے والے اسلامی گروہ کے خلاف اپنی قوتیں مجتمع کردیں گی۔غرض تکفیر وخروج اورتشدد وانتہا پسندی نہ تو اسلام کا منہاج ہیں اور نہ حالات حاضرہ میں کوئی قابل عمل حل ہیں جس سے اسلام کے حق میں مثبت ودائمی اثرات مرتب ہوں ہم ان حالات میں مظلومین سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس رویے سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔
راقم کی اس طولانی تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اپنے خطاب میں جو نکات اُٹھائے، بحث کا رخ اُن کی طرف مڑ گیا۔ مفتی محمد خاں قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک ِطالبان پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہے، اس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو امریکی اور حکومتی ادارے بلاوجہ ان کے نام پر منڈھ رہے ہیں۔ اُن کے نام پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس میں پوری صداقت نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد اُنہوں نے تکفیر کے بہت سے اُصول وضوابط پیش کئے۔ ان کے بعد ڈاکٹر احمد نجفی نے بھی شیعہ سنّی تکفیر کے ضمن میں فقہی استدلالات اور فقہ جعفریہ کا موقف تفصیل سے پیش کیا۔ بعدازاں مفتی منصور احمد نے توحید ِحاکمیت کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے اپنے خطاب میں سورۃ النساء کے ایک مکمل رکوع (آیات 58 تا 69)کا خلاصہ پیش کیا اور قرآن وسنت کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرنے والوں کو قرآن کی زبان میں طاغوت اور ظالم قرار دیا۔ اس کے بعد مولانا زاہد الراشدی کا اختتامی خطاب تھا۔ مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ یہ ہے کہ
ہمارے اندر یہ علت پائی جاتی ہے کہ ہم ہر مسئلے میں شروع سے بات کا آغاز کردیتے ہیں، جبکہ یہ مسائل پہلے بھی پیش آچکے ہیں اور ہرمسئلہ میں اکابرِ ملت پہلے ایک واضح موقف اپنا چکے ہیں۔ آج ہم آغاز کے مرحلے پر نہیں کھڑے بلکہ پاکستان کے علماے اسلام نے قرار دادِ مقاصد اور جملہ مکاتبِ فکر کے 31علمانے 22 نکات پیش کئے ہیں۔1973ء کا متفقہ دستور پیش ہوکر علماے اسلام کا اتفاق حاصل کرچکا ہے۔ اس کے بعد ہمارے علما نے قانونی ودستوری جدوجہد کا راستہ پوری محنت وتدبیر کے ساتھ اختیار کررکھا ہے۔ اندریں حالات پاکستانی علما کا جمہوریت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کو ہی ناقابل قبول بنادینا ، بحث کو نئے سرے سے شروع کردینے کے مترادف ہے جو وقت کا ضیاع ہے۔ چنانچہ انہی حالات میں رہتے ہوئے ہمیں خروج کے مسئلے کا شرعی حل تلاش کرنا چاہئے۔
اُنہوں نے خلافتِ راشدہ سے اپنے موقف کا استنباط کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی خلافت سے اس اہم سوال کا جواب ملتا ہے کہ حکمرانی کیا جبر کی بنا پر حاصل ہوگی یا عوامی رائے کی بنا پر؟ مزید برآں سیدنا عثمان کی خلافت کی اساس عوام الناس کا اعتماد ہی تھا اور یہی جمہوریت ہے۔اس عوامی اعتماد کی بنا پر ہی سیدنا عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے سیدنا علیؓ کی بجائے اُنہیں خلیفہ نامزد کیا۔غرض حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانیوں کے انتہاپسندانہ سماجی رویوں کی اصلاح کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ہم جب تک کسی پر کفر ، غداری یا وطن دشمنی کا فتویٰ نہ لگا لیں ، ہمارے اختلاف کے تقاضے پورے ہی نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ دعویٰ نظرثانی کا محتاج ہے کہ خیرالقرون میں کسی کی تکفیر نہیں ہوئی، حالانکہ مانعین زکوٰۃ کی شہادتین کے اقرار کے باوجود تکفیر ہوئی اور اُس کے بعد ہی ان سے جنگ کی گئی تھی۔ اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے اکابر کے فیصلے کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ 22 نکات پر علما نے اتفاق کرکے جمہوریت اور اسلام کی راہ ہموار کی تھی، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ، یہی ماضی ، حال اور مستقبل میں سلامتی کا راستہ ہے!!
راقم نے ا ُن کے خطاب کے بعد منتظمین سے اجازت طلب کرکے اپنی معروضات پیش کیں :
1. میں اس مجلس مذاکرہ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے ذریعے ہمیں ایسی شخصیات سے تبادلہ خیال اور استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کی ملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی مساعی دینیہ اورجہودِ طیبہ کے سامنے ہماری نگاہیں ادب واحترام سے جھک جاتی ہیں، لیکن مکالمہ کا حسن ہی یہ ہے کہ متبادل نکتہ نظر کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے اورمیں مکالمہ کے اس حق سے ضرور فائدہ اُٹھاؤں گا۔ مولانا راشدی نے سیاسی تکفیر وخروج کی بحث میں جو استدلال پیش کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ پاکستان کے علما نے خلافت کو منسوخ قرار دے کرجمہوریت کو اس کا متبادل ہونے پر اتفاق کرلیا ہے! ‎‎‎‎‎‎‎ میں اس سے قبل اپنا موقف تفصیل سے پیش کرچکا ہوں جس میں جمہوری قانونی جدوجہد کو میں نے حالات کا جبر قرار دیتے ہوئے، اسے ایک ممکنہ سیاسی جدوجہد ہی باور کرایا ہے۔ مولانا نے اکابر کی رائے کے احترام کی بات ہے جبکہ ہمارے پڑوس میں جب علماے احناف کو جہادِ افغان کے بعد اپنے زورِ بازو سے افغانستان میں حکومت ملی تو طالبان کے حنفی اکابر نے وہاں جمہوری نظام کی بجائے'امارتِ اسلامیہ افغانستان' کے نام سے نظام امارت اختیار کیا۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلامی نظام کی برکات سے جس تیزی سے افغان معاشرہ مستفیض ہوا، اس کی مثال موجودہ سیاسی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ملتِ اسلامیہ کی حالیہ تاریخ میں دو ہی جگہ اسلامی نظام کی برکات سامنے آئیں: افغانستان اور سعودی عرب میں اور دونوں جگہ جمہوریت موجود نہیں تھی۔ اس لئے اکابر ملت ہوں یا فقہاے عظام، ان کا حوالہ دے کر خالص اسلامی نظام خلافت کا مقام جمہوریت کوعطا نہیں کیا جاسکتا۔یوں بھی اکابر کا حوالہ دے کر قرآن وسنت سے استدلال کے سلسلے کو ختم نہیں جاسکتا۔ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے اور اسمیں خروج کی بحث کرنا ایک کارِ لاحاصل ہے۔
2. جہاں تک پاکستان میں اسلامی قانون سازی یا جمہوریت کے حق قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کسی بھی قانون سازی سے محروم رہی ہے۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے قانون سازی کا رویہ فرانس کی اتباع میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری ادوار میں 'مجلہ احکام عدلیہ' کی صورت نظر آتاہے۔ میثاقِ مدینہ جسے اسلامی دستور قرار دیا جاتا ہے، اگر کوئی مستند دستاویز ہے بھی تو وہ یہود کے مدینہ منورہ میں قیام تک ہی مؤثر رہی۔ جب یہود نے وعدہ خلافیاں کیں اور قرآن نے اُن کے خلاف نبی کریمﷺ کو جہاد کا حکم دیا اور وہ مدینہ منورہ سے نکل گئے تو اُس کے بعد یہ دستاویز مؤثر نہیں رہی۔بعض دانشوروں کا خلافت ِراشد ہ اور بعد کے ادوار میں اس میثاق کو دستورِ اسلامی قرار دینے کا نظریہ سراسر حقائق سے لاعلمی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ کےمجلہ احکام عدلیہ کی قانونی تشکیل وہ پہلا مرحلہ ہے جب قرآن وسنت کی بجائے انسانوں کے بنائے یا تجویزکردہ قانونی الفاظ معیارِ عدل قرار پائے لیکن ڈیڑھ سو سال کی حالیہ مسلم تاریخ شاہد ہے کہ قانون سازی اور جمہوریت نوازی کے اس رجحان کے نتیجے میں کسی بھی ملک کو اسلام کی برکات نصیب نہیں ہوسکیں۔ یہی قانون سازی بعد میں پورے انسانی قانون کی بنیاد بنتی ہے، جو آخر کار طاغوت تک جا پہنچتی ہے۔ واضح رہے کہ احناف کے ہاں بھی خلیفہ کی نیابت کرتے ہوئے تعزیرات کے باب میں مباحات کے مابین کسی ایک مباح کو مستقل قانون سازی کے طورپر اختیار تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت کے وہ میدان جہاں واضح اسلامی احکامات موجود ہوں، ان کو نظرانداز کرکے وہاں مستقل انسانی قانون سازی کا راستہ ہی اختیار کرلیا جائے، یہ سراسر ناجائز ہے۔
3. جہاں تک حضرت راشدی صاحب نے عوامی اعتماد کی بات کی ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خلافت ِاسلامیہ میں عوامی اعتماد کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن اگر عوامی اعتماد ہی انتخابِ امیر کی اساس ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت اور خلافت میں حدِ امتیاز کیا ہے؟ خلافت دراصل اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے قائم ہوتی ہے۔ وہ مسلمان فرد جو دین الٰہی کے قیام اور دفاع کے لئے علم و عمل کے لحاظ سے اَصلح ہو، اس کو اہل حل وعقد خلیفہ بناتے ہیں، جس کی بعد میں عامۃ المسلمین بیعت کرتے ہیں۔ اس مرکزی نکتہ کے بعد میسر افراد میں جس شخص کو عوامی اعتماد بھی حاصل ہو، اُس کو بھی ایک وزن دیا جاتا ہے۔ اگر عوامی حاکمیت کا اسلام میں اتنا ہی اعتبار ہے تو پھر نبی کریمﷺ نے کفر واسلام کا نکھار کئے بغیر مکہ مکرمہ میں حاکمیتِ عوام قائم کیوں نہیں کردی تھی؟ بلکہ دراصل آپﷺ نے اللہ کی بندگی میں چلنے والا ایک پورا معاشرہ قائم کیا، خلیفہ کے ذریعے اس کو تحفظ دیا، جزاوسزا کا نظام نافذ کیا اور اس کے بعد عوامی اعتماد کو بھی پیش نظر رکھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں تو عوامی انتخاب واعتماد ایک مرکزی قوتِ محرکہ کے طور پر موجود ہوتا ہے جبکہ خلافتِ اسلامیہ میں نفاذِ شریعت اسی مقام پر ہوتا ہے اور عوامی اعتماد انفعالی درجے میں موجود ہوتا ہے۔ انتخابِِ امیر کا فیصلہ محض عوامی اعتماد کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا تاہم شریعت کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے فرد میں اُس کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے راقم کے اس تبصرہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ اوّل تو قاضی ابو یوسف﷫ کی 'کتاب الخراج 'اسلام میں قانون سازی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر کاانتخاب بھی جمہوریت کے حق عوام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد ازاں مجھے فرمانے لگے کہ افغانستان وسعودی عرب کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے ، اس میں حالات کا فرق ہمیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔
یہاں قارئین محد ث پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ 'کتاب الخراج' تو فقہی احکام ومسائل کی ایک کتاب ہے، اس میں دفعہ اور شق وار کوئی قانون نہیں ملتا جس کی پابندی ملتِ اسلامیہ پر سرکاری طورپر واجب ہو۔ پھر سیدنا ابوبکر کے انتخاب کی پوری تفصیلات کو دیکھا جائے تو وہ خالصتاً خلافتی انتخاب تھا، اس سے قبل کوئی ووٹنگ1 نہیں ہوئی تھی ۔مولانا راشدی نے سعودی عرب وافغانستان کے بارے میں حالات کے فرق کا موقف اپنا کر میرے ہی موقف کو تقویت دی کہ اسلام کا اصل نظام خلافت ہی ہے جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اختیار کرنے کی اُصولی طورپر کوشش کی ہے اور سعودی عرب نے بھی بعض سیاسی کوتاہیوں کے باوجود اسلام کا نظامِ عدل یعنی قرآن وسنت کو براہِ راست علما قضاۃ کے ذریعے نافذ کررکھا ہے۔ اور پاکستان میں ہونے والا قانون سازی کا تجربہ دراصل حالات کا جبر ہے، اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما نے جمہوریت کو ہی اسلام کا مثالی نظام باور کرلیا ہے۔اندریں حالات علما کی تمام دستوری جدوجہد حالات کے جبر میں ممکنہ گنجائش سے ہی عبارت ہے۔ اس بنا پر خروج وغیرہ کی بحثیں یا اہل ذمہ وغیرہ کی گفتگو ، یہ تمام چیزیں جمہوری نظام میں خلط ِمبحث ہی ٹھہرتی ہیں۔
دوسری نشست: پاکستانی سیاست کے تناظر میں خروج کا مسئلہ
مکالمہ کی دوسری نشست کا موضوع خروج اور اس سے متعلقہ مباحث تھیں۔ مکالمہ کے میزبان جناب حافظ عمار ناصر نے یہ بنیادی سوال قائم کیا کہ اگر خروج وتکفیر درست حکمتِ عملی نہیں تو پھر اس کا متبادل کیا ہونا چاہئے؟ اس پر براہِ راست گفتگو کی ضرورت ہے۔
مفتی منصور احمد صاحب نے فرمایا کہ پہلی نشست کے خاتمے تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ خروج کی بحث موجودہ جمہوری تناظر میں نہیں کی جاسکتی ۔ خروج کے بارے میں سرحدی علاقوں میں ہونے والے ظلم وستم کا تذکرہ پوری شدت سے کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کو شرعی مباحثے کی بجائے ایک خالص ردعمل کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جس طرح بلوچستان کے عوام کی جدوجہد کو دیکھا جاتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اس موقع پر تشریف لائے اور اُنہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی عالمانہ بحثوں میں صرف علما کو مدعو کرلیا جاتا ہے، حالانکہ علما پہلے بھی ان مسائل کو جانتے ہیں۔ اس بحث کا مؤثر ترفریق حکومتِ وقت ہے اور اُن کے نمائندےبھی ایسے مذاکروں میں ضرور ہونے چاہئیں تاکہ دوطرفہ موقف سنا سنایا جائے اور افہام وتفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اُنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے سرحدی عوام کی اس جدوجہد کو اُن پر ہونے والے ظلم وستم کا ردعمل قرار دیا اور کہا کہ ان حالات میں جمہوری جدوجہد سے ہی سیاسی جبرواستبداد کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ترکی، فلسطین اور الجزائر میں جمہوری عمل کے نتیجے میں اسلام پسند کامیاب ہوچکے ہیں۔ اور وقت آرہا ہے کہ عوامی لہر کو عالمی استعمار مزید دبانے میں کامیاب نہیں رہے گا۔
ان کے خطاب کے بعد جناب صاحبزادہ طاہر محمود اشرفی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان کا خطاب جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی جزوی تائید اور اہل تکفیر کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسلامی موقف کو واضح کرنے کی ضرورت پر مبنی تھا۔ اس خطاب میں دونوں طرف کے دلائل پائے جاتے تھے جسے نامعلوم کس مہارت سے اُنہوں نے ایک ہی نشست میں جمع کردکھایا۔ ان کے خطاب کے بعد علامہ احمد علی قصوری نے اُن کو آڑے ہاتھوں لیا اور اُن کے ماضی او رحال کے سیاسی کردار کا ایک نقشہ پیش کیا۔یہ دونوں خطابات چونکہ گذشتہ دس سالہ دور کی سیاسی کشمکش کا نقشہ پیش کررہے تھے ، اس لئے ایک علمی مباحثہ میں ان سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ راقم کا خروج کی شرعی حیثیت پر کیا موقف تھا؟ اس کی تفصیل کو بھی بوجہ طوالتِ مضمون کسی اور موقع پر پیش کیا جائے گا۔
الغرض 'پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز' کے زیر نظر مکالمہ خروج وتکفیر کے پیش نظر جس دہشت گردی کی مذمت تھی جیساکہ ان کے لائحۂ بحث سے مترشح تھا، تو راقم نے تکفیر کو غلط شرعی منہاج قرار دیتے ہوئے، اس طرف حاضرین کو توجہ دلائی کہ ہمیں صرف نتیجہ کی بجائے، وجوہات اور اسباب کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے اور ظلم کے حقیقی اسباب کے خاتمے کی مؤثر جدوجہد کرنی چاہئے، اسی طرح اس ظلم کے نتیجے میں جو لوگ شہید ہورہے ہیں، ان سے بھی ہمدردی رکھنا ہمارا ملّی فریضہ ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے تیسرے مذاکرہ کی رود اد اور اس میں اُٹھائے جانے والے سوالات کی تفصیل آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ان شاء اللہ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)

حرفِ اعتذار

محدث کا یہ شمارہ دسمبر 2011ء اور جنوری 2012ء کا مشترکہ ہے۔ اس لئے ضخامت معمول سے زیادہ ہے۔ ادارہ


حوالہ جات
1. تفصیل کے لئے دیکھیں:''خلفاے راشدین کا تعین شورائی تھا۔''محدث:جون 2009ء، ج41، عدد6