صدارتی استثنا اور اسلام؟

'مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان' کے زیر اہتمام 'پیغام ٹی وی' نے 25؍فروری 2012ء سے اپنی باقاعدہ نشریات کا آغاز کردیا ہے۔ پیغام ٹی وی نے مدیر 'محدث' سے پاکستانی سیاست کو درپیش مذکورہ بالا اہم مسئلہ پر انٹرویو کیا جسے بعد میں ایک سے زائد بار چینل پر نشر کیا گیا۔ مذکورہ انٹرویو ضروری اصلاح کے بعد ہدیۂ قارئین ہے۔ ادارہ
1. سوال: ڈاکٹر صاحب!پاکستان کے آئین میں صدارتی استثنیٰ کا کیا قانون ہے اور اسلام کی رو سے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: پاکستان میں صدارتی استثنا کا قانون دستورِ پاکستان کی دفعہ 248 کی شق دوم میں موجود ہےجس میں یہ بات موجود ہے کہ پاکستان کے صدر یا گورنرپر اُس کے عہدے کی میعاد کے دوران کسی عدالت میں کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا ۔
حالانکہ پاکستان میں اِسلام کے نفاذ کے لیے 1951ء میں جب 31 علما نے 22 متفقہ نکات دیئےتو اُنہوں نے یہ قرار دیا تھا کہ صدرِ پاکستان کو یہ استثنیٰ دینا درست نہیں ہے، اور خلافِ اسلام ہونے کی بنا پر اس کو ختم کردیا جائے ۔ لیکن جب 1973ء میں پاکستان کا پہلا متفقہ دستور بنا تو اس میں یہ شق موجود تھی جو علماے کے 22 نکات کے خلاف تھی ۔ 1973ء کے بعد سے آج تک تک یہ شق اِسی طرح چلی آرہی ہے۔ میرےخیال میں اس کو باقی رکھنا ہمارے صدور حضرات اپنی مجبوری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ قانون اُن کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔حالانکہ 1985ء میں صدر ضیاء الحق کے دور میں ایک بار اس شق کوخلافِ اسلام قرار دے کر ختم کرنے کی دوبارہ کوشش کی گئی تھی لیکن پھر یہی تحفظ والی مجبوری آڑے آ گئی۔چنانچہ آج بھی یہ خلافِ اسلام قانون موجود ہے ۔
2. سوال:یہ قانون کہاں سے آیا اور کیا یہ قانون اسلام کے تصور مساوات کے منافی نہیں ہے اور کیا ہم پر اس کی پابندی ضروری ہے؟
مسلمان پر اگر کوئی چیز لازم ہے تو خالق اور حاکم مطلق ہونے کے ناطےوہ صرف اللہ جل جلالہ کی شریعت ہے۔ہم صرف اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کے فرامین کے پابند ہیں ۔ پاکستان میں جو قانون نافذہے، یہ اللہ کا قانون نہیں ہے بلکہ یہ 'اِسلامی جمہوریت' کا قانون ہے۔اور یہ بات واضح رہے کہ جمہوریت یا اِسلامی جمہوریت میں مساوات کا جو تصور ہے وہ ایک خاص نقطے پر آکر ٹھہر گیا ہے،اس سے آگے نہیں گیا۔قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں اور ان پر صرف ایک حاکم مطلق جو خالق کائنات ہے ، کا قانون لاگو ہوتا ہے۔لیکن پاکستان کے دستور یا جمہوریت کے تصور میں مساوات کو محدود کردیاگیا ہے ۔ اس میں حاکم وقت کو جو خالق کی بجائے خود مخلوق ہے لیکن اس کے باوجود اس کے اوردیگر مخلوق یعنی اس کی رعایا کے حقوق میں فرق کردیاگیا ہے۔استثنیٰ کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ جمہوریت کے اَندر وہ مساوات نہیں ہے جو اسلام میں ہے۔ جمہوریت کی اسی عدم مساوات کا کرشمہ ہے کہ ایک طرف ہمارے صدر صاحب ملکی قوانین سے بالا ہیں اور اُنہیں تمام فوجداری جرائم سے تحفظ ملتا ہےتو دوسری طرف اُن کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مجرم کو جب چاہےمعاف کردیں۔ اسلام اس طرح کی بے انصافی اور عدم مساوات کے خلاف ہے۔اسلام میں کوئی شخص کسی جرم سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ ہر ایک پر قانون برابر طریقے سے نافذ ہوتا ہے۔کوئی عظیم سے عظیم انسان حتیٰ کہ سید المرسلینﷺ جیسی اعلیٰ ترین عظیم شخصیت بھی قانون سے مستثنیٰ نہیں ۔اس لیے اسلامی شریعت کی نظر میں سب برابر ہیں اور شریعت کی نظر میں مساوات مکمل ہے۔
3. سوال: ڈاکٹر صاحب کیا حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھا جانا چاہیے ۔ایک طرف عام آدمی ہے جو صرف اپنی ذات سے دلچسپی رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف صدر وغیرہ ہیں جن کی ذمہ داریاں پوری قوم کے حوالےسے ہیں تو کیا قانون اُن کی بھاری بھرکم ذمہ داریوں کے عوض اُن کو کسی قسم کی رعایت نہیں دے گا؟
جواب: دیکھیے ایک بات ہے کسی انسان کا اپنے کردار کی بنا پر معزز ہونا، فضیلت حاصل کرنا تو یہ بات اسلام میں بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
﴿تِلكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ مِنهُم مَن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَ‌فَعَ بَعضَهُم دَرَ‌جـٰتٍ .... ٢٥٣ ﴾ ...سورة البقرة
دوسری جگہ فرمایا: ﴿إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم ...١٣ ﴾ ...سورة الحجرات
اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
« الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنة» (مسند أحمد: 11012)
'' سیدنا حسن اور حسین دونوں اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔''
یہ فضیلت کی صورت ہےلیکن فضیلت کا مطلب یہ نہیں کہ اَب قانون کسی صاحبِ فضلیت کو ایک نظر سے دیکھے گا اور عام آدمی کو دوسری نظر سے۔ کوئی بھی انسان جو جرم کا اِرتکاب کرے گا، اس پر خالق کا قانون برابر کی سطح پر نافذ ہو گا۔ یعنی اسلام میں فضیلت ومراتب کا تحفظ موجود ہے لیکن جرم کا تحفظ بالکل نہیں ہے ۔یہ دونوں چیزیں علیحدہ ہیں۔ مجرم کو کسی فضیلت کی بنا پر اسلام کوئی تحفظ نہیں دیتا ہے۔
عہد نبویؐ میں استثنا کا مسئلہ
4. سوال : ڈاکٹر صاحب! درپیش مسئلہ میں سیرتِ نبویﷺ سے کچھ مثالیں ہمیں مل سکتی ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے عام آدمی کی طرح قانون کا برابر احترام کیا ہو ؟
جواب : آپﷺ کی سیرت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قانون کے نفاذ میں آپؐ نے اپنی ذات کو کبھی مستثنیٰ نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بار صحابہ کرام کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور فرمایا:کسی شخص کا کوئی حق اگر میرے ذمّے ہے تو میں دینے کے لیے آمادہ ہوں۔اُسید نامی ایک دیہاتی اُٹھا اور کہنے لگاکہ یا رسول اللہ! مجھے آپ ﷺ سے بدلہ لینا ہے، تمام صحابہ کرام ششدر رہ گئےکہ سید المرسلین ﷺ سے یہ شخص بدلہ لے گا؟ لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات کو بدلہ کے لیے اس کے سامنے پیش کیا ۔ وہ بدوکہنے لگا :اے اللہ کے نبیؐ!جب آپ نےمجھے سرزنش کی تھی تواس وقت میرا جسم ننگا تھا ، آپ بھی اپنی چادر کندھے سے اُتار دیجئے ،آپ ﷺنےچادرِ مبارک اُتار دی۔ تواس دیہاتی نے آگے بڑھ کر آپﷺ کے جسم مبارک کو چوم لیا اورکہاکہ بدلہ لینا تو بہانہ تھا، میں تو دراصل آپﷺ کے جسم اَطہر کو چھونا چاہتا تھا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبی آخرالزمانﷺ نے بھی اپنے آپ کو بدلہ کے لئے پیش کردیا اور پتہ چلا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
جہاں تک حاکم وقت ہونے کے ناطے کسی مجرم کو معاف کرنے کا تعلق ہے تو ہمیں یہ مثال بھی شرع اسلامی میں ملتی ہے کہ آپﷺ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ آپ کسی کی سزا معاف کر سکیں، جس طرح ہمارے ہاں صدر کو یہ اختیار حاصل ہے۔ ایک بار نبی کریمﷺ کے سامنے ایک واقعہ پیش کیاگیا۔ قریش کے قبیلے بنومخزوم کی ایک عورت تھی جس کا نام فاطمہ تھا ۔اس عورت نے چوری کی تھی اور اس کا کیس نبی کریمﷺ کے سامنے پیش کیاگیا ۔ آپﷺ نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ قریشی لوگوں کو یہ بات بہت بھاری لگی اوراُنہوں نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قریش کے قبیلے کی ایک عورت کا ہاتھ کاٹا جائے، اس سے قریش کی سیادت وفضیلت ختم ہوکررہ جائے گی اور عرب میں اُن کی ناک کٹ جائے گی۔ اُنہوں نے اسامہ بن زید سے کہا کہ آپ ہماری سفارش کیجئے۔حضرت اُسامہ نے سفارش کی تو آپﷺ نے ناراضی سے فرمایا:
«أتشفع في حد من حدود الله؟»
''اے اُسامہ! کیا تم اللہ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟''
پھر آپﷺ کھڑے ہوگئے اور آپﷺنے منبر نبوی پر خطبہ دیا ۔ فرمایا:
«إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا»1
''وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے ، اسی وجہ سے ہلاک ہوگئے کہ جب اُن میں سے کوئی معزز آدمی چوری کیا کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے تھے۔اور جب کوئی کمزوریا عام آدمی چوری کرتا تو اُس پر اللہ کی حد کو قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! اگر میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراؓ بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔''
اس سے معلوم ہواکہ اسلام کی رو سے نہ تو کوئی بڑے سے بڑا شخص قانون سے مستثنیٰ ہے اور نہ ہی وہ کسی مجرم کو سزا سے مستثنیٰ کرسکتا ہے۔حتیٰ کہ اگر محبوبِ ربانی نبی کریمﷺ بھی چاہیں تو کسی کی سزا کو معاف نہیں کرسکتے۔لیکن ہمارے صدرصاحب کو یہ قانونی حق حاصل ہے وہ جس کو چاہیں معاف کر دیں چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔جب کہ ہمیں سیرتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
دورِخلافت راشدہ میں استثنا کا مسئلہ
5. سوال: ڈاکٹر صاحب !آپﷺ کی رحلت کے بعد خلفاے اَربعہ کے ہاتھ میں بھی اقتدار کی زمام کار آئی۔ کیا اُن سے کوئی مثال ایسی ملتی ہے کہ اُنہوں نے قانون کے نفاذمیں تفریق سے کام لیا ہو؟
جواب:خلفاے اَربعہ سے بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔حالانکہ خلیفہ راشد کامقام آج کے صدر سے بہت بلند ہے۔ خلیفہ راشد مسلمانوں کا دینی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پوری ملتِ اسلامیہ کا سیاسی حاکم ہوتا ہے، نہ کہ آج کے صدرکی طرح کسی ایک ملک یا خطہ کا حکمران۔خلفاے اربعہ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہ صرف عدالت کے سامنے پیش ہوئے بلکہ عدالت نے جو فیصلہ کیا، وہ فیصلہ اُنہوں نے من و عن قبول کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے جب خلافت کا خطبہ دیا تو فرمایا: اگر میں اللہ کے دین پر قائم رہوں تو درست، اور اگر اس میں کجی اختیار کروں تو تم مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی تلواروں کے ساتھ مجھے سیدھا کردینا او راللہ کی شریعت پر مجھے چلانا کیونکہ اللہ کی شریعت پر چل کر ہی میرا یہ حق بنتا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی شریعت کی بات کہوں۔
سیدنا عمربن خطاب عظیم الشان خلیفہ راشدہیں۔آپ کے دور کا واقعہ ہے کہ آپ ایک بار جمعہ پڑھانے کے لیے جارہے تھےکہ راستے میں مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک پرنالے کے پاس سے آپ کا گزر ہوا جو نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباس کے گھر کے اوپر لگا ہوا تھا ۔ پرنالے سے گندا پانی گر رہا تھا۔ جب آپؓ پرنالے کے پاس سے گزرےتو آپ کے کپڑوں پر گندے پانی کے چھینٹے پڑ گئے۔عمرؓ بن خطاب نے حکم دیا کہ یہ پرنالہ راستے میں گزرنے والوں کے حق کو متاثر کررہا ہے،اس لیے اس کو اُکھاڑ دیا جائے ،چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی۔سیدنا عباس کو جب یہ پتہ چلا کہ امیرالمؤمنین نے پرنالہ اُکھڑوا دیا ہے تو حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا کہ اس پرنالے کو اس مقام پر رسول اللہ نے نصب کروایا تھا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سنتے ہی سیدنا عمرؓ بن خطاب شدید رنج کا شکار ہوگئے اور اپنے حکم پر افسوس کا اظہار کرنے لگے۔خلیفہ راشد نے آپﷺ کے چچا عباسؓ سے کہا کہ اے عباسؓ! تم لازماً میری کمر پر چڑھ کر اس پرنالے کو وہیں نصب کردو جہاں سے اس کو اُکھاڑا گیا ہے۔ پھر سیدنا عباسؓ امیرالمؤ منین کی کمرپر چڑھے اور اس پرنالے کو وہیں پر لگا دیا جہاں سے اُکھاڑا گیا تھا۔
ایسے ہی سیدناعمرؓ بن خطاب کی سیرت میں ایک اور اہم واقعہ آتاہے۔آپؓ جب خلیفہ تھےتو کسی معاملے میں سیدنا اُبی بن کعبؓ کا اُن سے اختلاف ہوگیا۔ سیدنا عمر ؓ بن خطاب اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی بجائے قاضی وقت زید بن ثابت ؓکے پاس پیش ہوئے۔ مدعی اُبی بن کعبؓ تھےاور مدعا علیہ امیر المؤمنین حضرت عمر ؓتھے۔ اُبی بن کعبؓ نے جب دعویٰ کیا تو اپنے دعوے پر اُنہوں نے ایک دلیل پیش کی۔اور شرعی اُصول یہ ہے کہ جب کسی کے خلاف دعویٰ کیا جاتا ہےتو وہ دلیل سے تردید کرے، ورنہ اسے قسم کھانا پڑتی ہے۔ زید بن ثابت ؓنے امیرالمؤمنین کا احترام کرتے ہوئے اُن سے قسم کا مطالبہ نہ کیا، اور ان کے انکار کو ہی کافی جانا کہ خلیفہ نے چونکہ انکار کردیا ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ،بس یہی کافی ہے۔جب قاضی زید بن ثابت ؓنے اتنا معمولی سا امتیاز برتا تو حضرت عمرؓ قاضی سے ناراض ہوئے اور خود قسم اُٹھائی کہ مجھ پر مدعا علیہ ہونے کے ناطے یہ واجب تھاکہ میں قسم اُٹھاؤں اور کہا کہ اے زیدؓ! تم اس وقت تک منصبِ قضا کےلائق نہیں ہوسکتے جب تک تمہارے نزدیک ایک خلیفہ اور عام مسلمان دونوں برابر نہ ہوجائیں۔
خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب اسلام میں نظام عدل کو بہت زیادہ جاننے والے تھے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ «أقضاهم علي» '' اے میرے صحابہ ! تم میں سے سب سے زیادہ عدل وقضاکے ماہر حضرت علیؓ ہیں۔'' تو سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں اُن کی ایک زرہ گم ہوگئی۔وہ زرہ اُنہوں نے ایک یہودی کے جسم پر دیکھی۔ تو یہ قضیہ قاضی شریح کے سامنے: جو اس وقت قاضی تھے، پیش کردیا۔قاضی شریح نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ ثابت کیجئے۔حضرت علیؓ پر شرعاً واجب تھا کہ وہ گواہ پیش کرتے کہ یہ زرہ کیسے اُن کی ہے۔سو اُنہوں نے گواہی کےلیے اپنے غلام قنبر کو پیش کردیا۔ قاضی شریح نے کہا کہ ایک گواہی تو ہوگئی لیکن آپ کو دو گواہیاں پیش کرنا ہیں۔ دوسری گواہی کے لیے سیدنا علیؓ نے اپنے دو بیٹوں حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو پیش کیا ۔ قاضی شریح نے کہا: اے امیرالمؤمنین! اسلام کے نظام عدل میں باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ یہ دونوں بیٹے تو وہ ہیں جن کی شان زبان رسالت سے بیان ہوئی ہے کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہیں۔ قاضی شریح نے نبی کریمﷺ کے اس فرمان کو تسلیم کرنے کے باوجود، اس کو ان کی فضیلت ہی پر محمول کیا اور کہا کہ اس سے شرع اسلامی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔چنانچہ قاضی شریح نے باپ حضرت علیؓ کے حق میں اُن کے دو بیٹوں کی گواہی قبول نہ کی اور فیصلہ کردیا کہ یہ زرہ یہودی کے پاس ہی رہے گی ۔ جب یہودی نے یہ بات سنی تو بے ساختہ بول اُٹھا:واللہ! یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے۔ ایسا عدل تو میں نے کبھی نہیں دیکھا ،چنانچہ یہودی انصاف پر مبنی فیصلہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ان مثالوں سے بخوبی واضح ہو تا ہے کہ خلیفہ یا حکمران کو کسی عام معاملے میں معمولی سا بھی امتیاز حاصل نہیں ہے ،کجا یہ کہ ان کو قانون سے استثنیٰ حاصل ہو۔
صدارتی استثنا اور پاکستانی آئین
6. سوال: ڈاکٹرصاحب! ایک طرف کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے آئین کےمطابق کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا، جبکہ دوسری طرف نہ صرف اس طرح کے قانون بن رہے بلکہ اُن پر عمل بھی ہورہا ہے ؟اس کےبارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟
جواب : آئینی لحاظ سے اسلام پاکستان میں بالا تر ین ہے ۔ آئین کی دفعہ 227 میں یہ بات موجود ہے کہ کوئی قانون خلاف اسلام نہیں بنے گا۔ پاکستان کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ خود ہمارے صدر مملکت جو اس استثنیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ حلف بھی اُٹھا چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرکوتوحید باری تعالیٰ پر ایمان لانا ہے،قرآن مجید کے آخری الہامی کتاب ہونے پر ایمان لانا ہے، نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر بھی ایمان لانا ہے اور ساتھ ساتھ اس حلف میں یہ بات شامل ہےکہ قرآن مجیدکے تمام تقاضے اور تعلیمات پر بھی وہ عمل پیرا ہوگا۔ اب قرآن مجید کے تمام تقاضے اور تعلیمات میں یہ بات اَزخود ہی شامل ہے ۔ گویا صدر زرداری استثنا کا مطالبہ کرکے اپنے حلف کی خود ہی مخالفت کررہے ہیں۔ اس بنا پر اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خلافِ اسلام قانون کو کتابِ قانون سے حذف کیا جائے۔اس کے لئے یا تو کوئی فرد یا جماعت وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائرکرے یا معاملہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ خود راہنمائی کا مطالبہ کرے۔
دیگر ممالک میں صدارتی استثنا
7. سوال: ڈاکٹر صاحب !کیا دیگر ممالک میں بھی قانون موجود ہیں اور کیا وہاں بھی صدور وغیرہ کو استثنیٰ کی یہ رعایت حاصل ہے؟
جواب: یہ جمہوریت کا ایک تصور ہے ، کیونکہ جمہوریت میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بجائے جمہور کی حاکمیت ہوتی ہے جو اپنے حاکم اعلیٰ کو دوسروں سے ممتاز اور بالاتر مقام دیتی ہے۔چنانچہ دیگر ممالک میں بھی استثنیٰ کا یہ تصور موجود ہے کہ صدارت چونکہ ملک کا ایک معزز مقام پر ہے، اس لیے صدر کو عدالتی معاملات میں ضرورت پڑنے پر نہ گھسیٹا جائے۔تاہم دیگر ممالک میں اس استثنیٰ کا دائرہ عمل چھوٹی نوعیت کے جرائم اور وہ معاملات ہیں جو معمولی نوعیت کے ہوں ۔لیکن جب معاملات غیر معمولی نوعیت کے ہوں جن سے پورے معاشرے میں انتشار پیدا ہونا شروع ہوجائے تو پھر صدر کا بھی مؤاخذہ کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر امریکہ جس کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے،کے مشہور صدر نکسن کے دور میں واٹر گیٹ سکینڈل ہوا اور صرف اس ایک سیکنڈل کی بنا پر صدر نکسن کو عہدۂ صدارت چھوڑنا پڑا ۔اُن کا جرم بھی کوئی بہت بڑا نہیں تھا۔ ہمارے ہاں توکروڑوں ، اربوں کی رقموں کے خرد برد جیسے جرائم ہیں۔قوم کا اربوں روپیہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کروا دیا گیاہے اور دستاویزات آگے پیچھے کی جاچکی ہیں لیکن صدر نکسن کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے مخالفین کے فون ٹیپ کئے تھے۔ ایسے ہی آج سے دس سال پہلے کی بات ہے، بل کلنٹن کو اس بنا پر عدالت میں پیش ہونا پڑاکہ اس نے اپنی سیکرٹری مونیکا کے ساتھ معاشقہ لڑایااور بعد میں عوام کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ماضی میں برطانیہ میں ایک بادشاہ کو صرف اس بنا پر کہ اس نے قانون کی پاسداری نہیں کی تھی، پھانسی تک کی سزا دی گئی۔ 1648ء میں برطانیہ کے بادشاہ کنگ جارج اوّل کو اس وجہ سے پھانسی دی گئی کہ اس نے ملک کی پارلیمنٹ کو بلا جواز ا معطل کردیا تھا۔ انہی دنوں جب ہمارے ملک میں صدارتی استثناء کے مطالبے کا تکرار شد ومد سےکیا جارہے ہے۔ تو امریکہ کی ایک ریاست جارجیا میں امریکی صدر اوباماکو طلب کیا گیا ہے۔ امریکی صدر پر ایک شہری نے یہ دعویٰ دائر کیا ہے کہ وہ امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے ، ان کی امریکی شہریت مشکوک ہے،اس بنا پر قانونی لحاظ سے وہ امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے۔اخبارات میں شائع ہوچکا ہے کہ امریکی صدر نے 25 جنوری 2012ءکو عدالت میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی ہے ،لیکن امریکہ کی ایک ذیلی عدالت نے اُنہیں یہ استثنیٰ عطا نہیں کیا۔دراصل اگر مغربی ممالک میں صدور کو یہ دستوری تحفظ حاصل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے صدور سے بھی اسی اعلیٰ کردار کی توقع کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں کوئی صدر اس طرح کی مالی خیانت کا مرتکب ہو تو برطانیہ و امریکہ کے عوام اس کے خلاف بھرپور مہم چلا کرنہ صرف اُسے بلکہ اس کی پوری کابینہ کو معزول کرنے کی پوری جدوجہد کریں گے۔موجودہ دور کی جمہوریتوں میں اب یہ سیاسی کلچر اور ضابطہ اخلاق بنتا جارہا ہے کہ جو بھی منصب دار ایسی کسی سنگین کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ ازخود مستعفی ہوجاتا ہے، نہ کہ ڈھٹائی سے استثنیٰ کے مطالبے اور قانونی موشگافیوں کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ ذلت صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام ہی لکھ دی گئی ہے کہ دوسال عدالتی فیصلہ ہونے کو آئے ہیں اور آئے روز عدالت عظمی کے سامنے نت نئی حیل وحجت اور بہانے تاویلیں تراشے جارہے ہیں۔
8. سوال: ڈاکٹر صاحب !تاریخی حوالے سے اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ من حیث المجموع مسلمانوں کاعدالتوں سے کیارویہ رہا ہے؟
جواب: مسلمانوں نے ہمیشہ قانون اورعدالتوں کا احترام کیا ہے ۔ اس اعتبار سے ان کا رویہ انتہائی مثبت بلکہ شاندار رہا ہے ۔ خلافت ِراشدہ کے بعد بھی اسلامی تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ مسلم حکمران قانون کے احترام میں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔مثلا خلیفہ ہارون الرشید ، عبدالرحمٰن سوم ،برصغیر میں علاؤ الدین خلجی ، التتمش اور اورنگزیب عالمگیرجیسے لوگ عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ مسلمانوں کے حکمران ہی نہیں ، ان کے سپہ سالار بھی عدالتوں کے حکم کے آگے آنکھ نہیں اُٹھاتے تھے۔میں یہاں اسلامی تاریخ سے احترام قانون کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ ماضی میں مسلمانوں کا عدالتوں سے کیا رویہ رہا ۔نامور مسلم جرنیل قتیبہ بن مسلم نے جب سمرقند پر قبضہ کیا اور سمرقند میں مسلمان غالب ہوگئے تواہل سمرقند نے ، جو کافر تھے، مسلمانوں کی عدالت میں یہ کیس پیش کردیا کہ قتیبہ بن مسلم نے ہمیں ، اسلامی نظام کے مطابق وہ تین آپشن (اسلام قبول کرلو ،یا جزیہ دو ،یا پھر جنگ کرو )پیش نہیں کیے جوہر مسلمان سپہ سالارپر پیش کرنا فرض ہیں۔ اسی لشکر اسلامی میں موجود قاضی نے قتیبہ بن مسلم اور سمرقند کے سابقہ قائد کو بلوا لیا۔ اور قاضی نے قتیبہ بن مسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ دعوت ان کے سامنے پیش کی تھی؟اُنہوں نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا ،اس پر قاضی نے یہ فیصلہ دیا کہ تم اپنی ساری فوجوں کو حکم دو کہ اس علاقے سے فوراً باہر نکل آئیں۔قتیبہ بن مسلم کے حکم سے تمام افواج باہر نکل آئیں اور تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ جب وہ باہر نکل رہے تھے تو وہاں کے کفار اُن کے کپڑوں سے پکڑ کر انہیں واپس کھینچ رہے تھے کہ اتنے منصف اور عادل لوگوں سے ہم کیوں کرمحروم کئے جائیں؟ قاضی کے اس منصفانہ فیصلےکا یہ نتیجہ نکلا کہ پورا شہر مسلمان ہوگیا۔اسلامی تاریخ ایسے عظیم الشان واقعات سے بھری پڑی ہے۔کوئی بھی قوم تب عظمت حاصل کرتی ہے ، جب اُس میں قانون کی بالاتر ی موجود ہو،اور جب انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہوں۔نبی کریم ﷺ کا فرمان میں بیان کرچکاہوں کہ آپ نے کہا کہ سابقہ قوموں کی ہلاکت کی وجہ ہی یہ تھی کہ ان کے ہاں قانون کی نظر میں مجبور وضعیف اور مقتدر وطاقتور برابر نہیں تھے۔
9.سوال: اسلام میں ریاست کےسربراہ کی حیثیت کیا ہے؟اس کے حقوق و فرائض کی وضاحت فرما دیجیے۔
جواب : اسلام میں خلیفہ کی ذاتی لحاظ سے دوسروں پر کوئی برتری نہیں ہے۔دراصل اللہ کا قانون کسی فرد کے ذریعے نافذ ہونا ہے اور وہ فرد خلیفۃ المسلمین ہوتا ہے، خلیفۃ المسلمین مسلمانوں کا دینی وسیاسی قائد ہوتا ہے۔ خلیفۃ المسلمین جب تک اللہ کے دین کی اتباع کرواتا رہے، اس وقت تک اُس کی اتباع کی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ''تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ تم اُن سے محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم اُن سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔'' تو صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ جب ایسے حکمران آئیں جن سے ہم نفرت کریں گے ،تو کیاہم اُن سے قتال نہ کریں، تو آپﷺ نےفرمایا: «لا، ما أقاموا الصلاة»
''اس وقت تک نہیں جب تک وہ خود بھی نماز پڑھیں اور دوسرے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے رہیں۔'' مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اپنے اوپر اللہ کے قانون کونافذ رکھیں گے، اس وقت تک ان کی اطاعت ہوگی ،اگر وہ خود اللہ کے قانون پر نہیں چلتے تو پھر ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔اسلامی تاریخ میں اسی نوعیت کایک اور اہم واقعہ ملتا ہے۔ کہ دورِ نبوی میں ایک لشکر کے سالار نے شریک صحابہ کو حکم دیا کہ آگ میں چھلانگیں لگا دو، تو صحابہ کرام نے آگ میں چھلانگیں نہیں لگائیں۔جب صحابہ نبی کریم ﷺکے پاس پہنچےاور بتایاکہ اس طرح ہمارے قائد نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تھا اور ہم اس لیے نہیں کودے کہ اس آگ سے بچنے کے لیے ہی تو ہم آپ کے متبع بنے اور یہ پھر ہمیں آگ میں بھیج رہے ہیں، تو نبی کریمﷺ نےفرمایا تھا:« لا طاعة لمخلوق في معصية خالق»
تم نے درست کیا ہے ، اللہ کی نافرمانی میں حکم ران کی اطاعت اسلام کا کوئی مطالبہ نہیں ۔ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔''
اگر حکمران اللہ کا قانون نافذ کرتاہے تو محترم ہے او رہمارے لیے اس کا احترام واجب ہے اور اگر وہ اس کو نافذ نہیں کرتا تو پھرنہ تو وہ محترم رہ جاتا ہے اور نہ ہی ہمارے اوپر اس کی اطاعت واجب ہے۔
10. سوال: حافظ صاحب! یہ فرمائیے کہ بانیانِ پاکستان کا اس بارے میں کیا موقف تھا؟ ان کی نظر میں شریعت کا کیا مقام تھا اور وہ قانون کی برتری کو کس نظر سے دیکھتے تھے ؟
جواب : ڈاکٹرعلامہ اقبال او رمحمد علی جناحدونوں قانون کے طالب علم تھے ۔دونوں نے قانون کی اعلیٰ ترین تعلیم یعنی بیرسٹری کی ہوئی تھی،بلکہ محمد علی جناح کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں میں ان جیسا قابل اور نامور وکیل اور نہیں تھا۔ان کی نظر میں قانون کا تصورکیا تھا۔ یہ جاننے کے لیے درج ذیل دو مثالیں کا فی ہیں:قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانانِ پشاور کے عظیم اجتماع میں 26؍نومبر 1945ء کو یہ بات فرمائی تھی کہ ''یہ بات اسلامی حکومت کے پیش نظررہنی چاہیے کہ اس میں اطاعت کامرجع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہےجس کے لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے اصول واحکام ہیں۔اسلام میں اصلاً نہ تو کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمنٹ کی ،نہ کسی شخص کی ، نہ کسی ادارے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آز ادی و پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔''بالفاظِ دیگر اس اسلامی ریاست میں قرآنی اُصول و احکام کی حکمرانی ہوگی، مطلب یہ ہےکہ ہر ادارہ اور ہر نظام اگر قرآن سے تقویت لیتا ہے تو وہ قابل اتباع ہے اُس کے ماسوا ہر طرح کے استحقاق کو ردّکردیا جائے۔ اسی طرح 1946ء میں قائد اعظم الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں نواب سر محمدیوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھےکہ وکلا کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا اوروہاں اُن سے یہ مکالمہ ہوا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا،کیاپاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟ قائد اعظم نے وکلا کو یہ جواب دیا کہ پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں،پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے بن چکا ہےاور وہ دستور قرآنِ کریم ہے۔یعنی قائداعظم محمد علی جناحنے ہمیں یہ بات بتائی کہ ہمارے قانون کا مرکز و محور قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐہ ہے۔ آج ہم نے 60 سال گزرنے کے باوجود اس قانونی محور کو ،جو اُن کی نظر میں تھا ، چھوڑا ہوا ہے۔ ایسے ہی مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال کی فارسی کتاب1938ء میں'رموزِبے خودی'کے نام سے شائع ہوئی ، اس میں ایک نظم'آئین محمدیہ قرآن اَست' ''محمد ﷺ کی شریعت کا جو آئین ہے وہ صرف اور صرف قرآن ہے۔'' کے عنوان سے ہے۔ کےنام سے ایک تفصیلی نظم موجود ہے۔ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم آج بانیانِ پاکستان کے مقام کو، اُن کے نظریے کو اہمیت دیتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ اُن کا ہم پر کوئی حق ہے تو اُن کی آرا کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ان کا موقف بڑا واضح تھا کہ قرآنِ کریم کی اتباع اور فرمان نبویﷺ کی اتباع ہی پاکستان کا نصبُ العین اور مقصد ہے۔پاکستان کا مطلب کیا : لاإله إلاالله بھی یہی نظریہ ہے اور ہر وہ قدم جو اس نظریے کے مخالف ہے، وہ بانیانِ پاکستان کے بھی خلاف ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں بھی اس سے بچنا چاہیے۔


حوالہ جات
1. صحیح بخاری: 3216