اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟

ایمان زبان سے قول، دل سے تصدیق ا ورعمل صالحہ کا نام ہے، یہ ایمان کے تین ارکان ہیں اورجو شخص ان تینوں اراکین ایمان کا اعتقاد رکھتا ہے، وہ اہل السنہ والجماعۃ کے موقف پر ہے۔ البتہ جو شخص ان تینوں ارکان کا اعتقاد رکھنے کے باوجود عملاً کوتاہی یا گناہ کا ارتکاب کرے تو اُس سے اس کے ایمان کا درجہ تو کم ہوجاتا ہے، لیکن اس عملی کوتاہی سے وہ شخص مرجئہ نہیں بن جاتا بلکہ وہ اہل السنّہ ہی رہتا ہے، کیونکہ اِرجاءکا تعلق اعتقاد سے ہے ، نہ کہ عمل سے ۔آج جن علما کو بعض جذباتی حضرات مرجئہ ہونے کا الزام دیتے ہیں، تو اُنہیں یاد رہنا چاہئے کہ ان علما میں سے کوئی شخص اگر اعتقادِ فاسد رکھتا ہے تو اس پر تو دوسرا حکم لگانے کا اِمکان ہوسکتاہے، تاہم عملی کوتاہی کی بنا پر اُن کو کمتر ایمان کے مسلمان ہی قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ مرجئہ۔ زیر نظر مضمون کا مقصد ائمۂ سلف کے نزدیک ارجا کی حقیقت کو واضح کرنا اور اہل السنّۃ والجماعۃ میں شامل بعض سلفی علما پر لگائے جانے والے اِرجا کے الزام کا ابطال کرنا ہے۔ اس مضمون کا مقصد نہ تو کسی گروہ کی دل آزاری یا کسی قسم کی فتویٰ بازی ہے اور نہ ہی یہاں تکفیر اور عدم تکفیرکے اُصول وضوابط کو پیش کرنا مقصود ہے۔ مدیر
اہل السنۃ والجماعۃ اور سلف صالحین کے نزدیک ایمان او راِرجاء کا مفہوم کیا ہے؟ یہ بات اس زِیر نظر مضمون کی قسط اول میں بالتفصیل بیان ہو چکی ہے ۔ اسی کی روشنی میں اَب مزید بیان کیا جائے گا کہ
''سلف کے نزدیک مسئلہ ایمان میں مرجئہ کا اطلاق کن گروہوں پر کیا گیا اور ان کے نظریات کیا ہیں؟ آخر میں ان نظریات کا سلف کے نظریات کے ساتھ تقابل پیش کیا جائے گا اور اس بارے میں شیخ البانی کے اَقوال کو بھی ذکر کیا جائے گا۔ تاکہ یہ بات مزید نکھر کر واضح ہو جائے کہ سلف اور سلفی حضرات پر مرجئہ کا اِلزام لگانے والے لوگوں کے دعویٰ باطلہ کی حقیقت کیاہے؟
مرجئہ کی اَقسام
اہل السنۃ کے نزدیک مسئلہ ایمان میں مرجئہ کی چار اقسام ذکر کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ مذاہب و ادیان کے انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
«فمنهم من یقول: إن الإیمان قول باللسان وتصدیق بالقلب فقط وبعضهم یقصره علي قول اللسان والبعض الآخر یکتفي في تعریفه بأنه التصدیق وغالى آخرون منهم فقالوا: إنه المعرفة»1
''ان مرجئہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہے اور بعض کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار ہے اور بعض دوسرے ایمان کی تعریف میں صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ تصدیق ہے اور کچھ دوسروں نے غلو کرتے ہوئے کہا کہ ایمان (صرف) معرفت ہے۔''
1) مرجئہ فقہا
اسی انسائیکلوپیڈیا میں مزید رقم ہے:
«من قال إن الإیمان تصدیق القلب وقول اللسان وهم مرجئة الفقهاء»
''جو کہتے ہیں کہ ایمان دل سے تصدیق او رزبان سے اقرار ہے، وہ مرجئہ فقہا ہیں۔''
نیز «أخرجوا الأعمال من مسمی الإیمان مما نشأ عندهم عدم القول بالزیادة والنقصان وعدم الإستثناء في الإیمان مع اعتبار الأوائل منهم لأهمیة الأعمال حیث عدوها من لوازم الإیمان و رتبوا على الإخلال بها الوعید وعلى العمل بها الزیادة في الثواب... بالجملة فإن هذا النوع هو أخف أنواع الإرجاء»2
''اُنہوں نے اعمال کو مسمی ایمان سے خارج کردیا جس سے ان کے ہاں ایمان میں کمی و بیشی نہ ہونے اورعدمِ استثنا کا قول وجود میں آیا، اس کے باوجود ان میں سے متقدمین نے اعمال کو لوازمِ ایمان میں شمار کرکے اور عمل نہ کرنے والے پر وعید اور عمل کرنے پر ثواب میں زیادتی کو مرتب کرکے اعمال کی اہمیت کا اعتبار کیا ہے پس یہ اِرجا کی سب سے ہلکی قسم ہے۔''
یعنی ان کے نزدیک اعمال ثمرۂ ایمان اور اس کا مقتضی ٰ ہیں، جز نہیں۔3
امام ابن تیمیہ راقم ہیں:
«والمرجئة الذین قالوا: الإیمان تصدیق القلب وقول اللسان والأعمال لیست منه کان منهم طائفة من فقهاء الکوفة وعبادها ولم یکن قولهم مثل قول جهم»4
''وہ مرجئہ جنہوں نے کہا کہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے اور اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں، ان میں کوفہ کے فقہا و عبّاد کا ایک گروہ بھی ہے اور ان کا (یہ) قول جہم کے قول جیسا نہیں ہے ۔''
ان کے نزدیک ایمان شے واحد ہے اور اصل ایمان میں تمام مؤمن برابرہیں۔''5
مزید فرماتے ہیں:
«وکان أکثرهم من أهل الکوفة ولم یکن أصحاب عبد الله من المرجئة ولا إبراهیم النخعي وأمثاله. فصاروا نقیض الخوارج والمعتزلة، فقالوا: إن الأعمال لیست من الإیمان وکانت هذه البدعة أخف البدع، ولم أعلم أحدًا منهم نطق بتکفیرهم بل هم متفقون علىٰ أنهم لا یکفرون في ذلك وقد نص أحمد وغیره من الأئمة علىٰ عدم تکفیر هؤلاء المرجئة»6
''اور ان کی اکثر یت اہل کوفہ میں سے تھی (البتہ) عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد اور ابراہیم نخعی اور ان جیسے لوگ مرجئہ میں سے نہیں تھے۔ اور یہ مرجئہ خوارج اور معتزلہ کی نقیض تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں او ریہ بدعت (مرجئہ کی) بدعتوں میں سے سب سے زیادہ ہلکی ہے (سلف اور اَئمہ نے ان پر سخت نکیر و تغلیظ کی ہے البتہ) میں کسی کو نہیں جانتا جس نے ان کی تکفیر کی ہو بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس (مسئلہ ایمان) میں ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور ان مرجئہ کی عدم تکفیر پر امام احمد وغیرہ ائمہ سے نص ہے۔''
2) جہمیہ
ایمان کی تعریف اور مفہوم ومراد کے لحاظ سے ایک گروہ جہمیہ کا ہے ۔یہ لوگ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں جو 128ھ میں قتل ہوا ،اسے مسلم بن احوذ مازنی نے 'مرو' کے مقام پر قتل کرا دیا تھا۔ موسوعۃ المیسرۃ میں ہے:
«من غالي منهم وقال إنه المعرفة وهو قول الجهم بن صفوان ومن وافقه. ویلزم من قولهم هٰذا أن إبلیس وفرعون لعنهما الله تعالىٰ کانا مؤمنین کاملي الإیمان وأن معنى الکفر عندهم هو الجهل بالرب تعالىٰ فقط وهذا النوع أشد أنواع الإرجاء و أخطرها»7
''اُن میں سے کچھ نے غلو اختیا رکیا او رکہا کہ ایمان معرفت ہے اور یہ جہم بن صفوان او راس کے موافق لوگوں کا قول ہے او ران کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ ابلیس اور فرعون، ان پر اللہ کی لعنت ہو، مومن، کامل ایمان والے تھے، اور ان کے نزدیک کفر صرف ربّ تعالیٰ سے جہالت کا نام ہے او ریہ قسم اِرجا کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔''
امام ابن تیمیہ  ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وعند الجهمیة إذا کان العلم في قلبه فهو مؤمن کامل الإیمان إیمانه کإیمان النبیین ولوقال وعمل ماذا»8
'' جہمیہ کے نزدیک جب دل میں (ربّ کے متعلق) علم ہے تو وہ کامل ایمان والا مؤمن ہے۔ اس کا ایمان نبیوں کے ایمان کی طرح ہے اگرچہ وہ کچھ بھی کہے اور کرے۔''
ان کے نزدیک عمل قلب بھی ایمان میں شامل نہیں ہے ۔
ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں:
«ومنهم من لا یدخلها في الإیمان کجهم ومن اتبعه کالصالحي»9
''عمل قلب کو ایمان میں داخل نہ کرنے والوں میں جہم اور اس کے پیروکار صالحی وغیرہ ہیں ۔''
اور ایک جگہ مزید فرماتے ہیں:
''اوران کے نزدیک ایمان شے واحد دل میں ہے۔''10
مزید فرماتے ہیں:
«الإیمان مجرد معرفة القلب وإن لم یقر بلسانه واشتد نکیرهم لذلك حتی أطلق وکیع بن الجراح وأحمد بن حنبل وغیرهما کفر من قال ذلك فإنه من أقوال الجهمیة»11
(ایک قول یہ ہےکہ ) ''ایمان صرف معرفتِ قلب ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے۔ (ائمہ سلف نے) بڑی شدت سے ان کی تردید کی ہے حتیٰ کہ وکیع بن جراح اور احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں پر کفر کا اطلاق کیا ہے او ربلا شبہ یہ جہمیہ کے اَقوال میں سے ہے۔''
ان کے بارے میں امام بخاریفرماتے ہیں:
«نظرت في کلام الیهود والنصارىٰ والمجوس فما رأیت قومًا أضل في کفرهم من الجهمیة وإني لأستجهل من لا یکفرهم إلا من یعرف کفرهم وقال: ما أبالي صلیت خلف الجهمى والرافضى أم صلیت خلف الیهود والنصارىٰ»12
''میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جہمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہو اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لوں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔''
3) کرامیہ
یہ لوگ ابوعبداللہ محمد بن کرام المتوفی 255ھ کے پیروکار ہیں۔
ابوالفتح محمد عبدالکریم بن ابی بکر احمد شہرستانی راقم ہیں:
«وقالوا: الإیمان هو الإقرار باللسان فقط دون التصدیق ودون سائر الأعمال»13
''اور (ان کرامیہ نے) کہاکہ ایمان دل سے تصدیق کرنے اور تمام اعمال کے بجائے صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔''
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
'' ان کے نزدیک ایمان شےواحد ہے۔ ''14
ان کے نزدیک منافق بھی باعتبار دنیا مؤمن ہے بلکہ کامل مؤمن ہے، البتہ وہ آخرت میں عذابِ ابدی کا مستحق ہے۔ چنانچہ شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
«فالمنافقون عندهم مؤمنون کاملوا الإیمان»15
''پس منافقین ان کے نزدیک مؤمن ، کامل ایمان والے ہیں۔''
4) الماتریدیہ
اَبومنصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی کی طرف منسوب ایک کلامی فرقہ ہے۔ شارح عقیدہ طحاویہ امام ابن ابی العزحنفی راقم ہیں:
«أوالتصدیق کما قاله أبومنصور الماتریدي»16
''یا (ایمان صرف) تصدیق ہے جیسا کہ ابومنصور ماتریدی کا قول ہے۔''
مزید فرماتے ہیں :
«ومنهم من یقول إن الإقرار باللسان رکن زائد لیس بأصلي وإلىٰ هذا ذهب أبومنصور الماتریدي»17
''اور ان میں سے کچھ نے کہا کہ زبان سے اقرار (ایمان کے لیے) رکن زائد ہے، اصلی نہیں ہے اور ابومنصورماتریدی اسی کے قائل ہیں۔''
موسوعہ المذاہب میں ہے :
«ومن قال: إن الإیمان هوالتصدیق هو أبومنصور الماتریدي ومن وافقه من الأشاعرة»18
''جس نے کہا کہ ایمان (صرف) تصدیق ہے ابومنصور ماتریدی ہے اور اشاعرہ میں سے وہ (لوگ ہیں اس مسئلہ میں) جو اس کے موافق ہیں۔''
شارح عقائد نفسیہ علامہ تفتازانی لکھتے ہیں:
«هٰذا الذي ذکره من أن الإیمان هو التصدیق والإقرار مذهب بعض العلماء، وهو اختیار الإمام شمس الأئمة و فخر الإسلام رحمهما الله وذهب جمهور المحققین إلىٰ أنه التصدیق بالقلب وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا»19
''یہ جو (مصنف نے) ذکر کیا کہ ایمان تصدیق اور اقرار ہے۔ (یہ) بعض علما کا مذہب ہے، اِمام شمس الائمہ اور فخر الاسلام بزدوی کا (بھی) پسندیدہ مذہب یہی ہے اور (جبکہ) جمہور محققین نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ ایمان دل سے تصدیق ہے اور اقرار صرف دنیا میں اجراے احکام کے لیے شرط ہے۔''
عقائد نسفیہ کی عبارت والإیمان لا یزید ولا ینقص ''او رایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم۔'' كی شرح میں علامہ تفتانی راقم ہیں:
«فهٰهنا مقامان: الأول أن الأعمال غیر داخلة في الإیمان لما مرمن أن حقیقة الإیمان هوالتصدیق»20
''پس یہاں دو مقام ہیں: پہلا مقام یہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ یہ بات (پہلے) بیان ہوچکی ہیں کہ حقیقت ایمان تصدیق ہی ہے۔''
پھر اس پر مزید بحث کے بعد دوسرے مقام کو بیان فرماتے ہیں:
«المقام الثاني أن حقیقة الإیمان لا تزید ولا تنقص لما مر من أنه التصدیق القلبي الذي بلغ حد الجزم والإذعان وهذا لا یتصور فیه زیادة ولا نقصان حتی أن من حصل له حقیقة التصدیق فسواء أتى بالطاعات أوارتکب المعاصي فتصدیقه باق علىٰ حاله لا تغیر فیه أصلا»21
''دوسرا مقام یہ ہے کہ بلا شبہ حقیقتِ ایمان نہ زیادہ ہوتی ہے او رنہ کم، کیونکہ یہ (بات پہلے )بیان ہوچکی ہے کہ ایمان وہ تصدیق قلبی ہے جو یقین او رتسلیم کر لینے کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، اور اس میں زیادتی او رکمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ جس کویہ حقیقت تصدیق حاصل ہوجائے پس (اس کے لئے) یکساں ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لائے یا گناہوں کا ارتکاب کرے، پس اس کی تصدیق اپنی حالت پر باقی رہنے والی ہے، اصلاً اس میں کوئی تغیر (واقع )نہیں ہوگا۔''
ناقص الایمان مؤمن
ایک طر ف تو آپ نے مرجئہ فقہا، جہمیہ ، کرامیہ اور ماتریدیہ کے ایمان کے بارے میں مذکورہ بالا رجحانات کا مطالعہ کیا ۔ آئیے دیکھیں کہ اہل السنّہ والجماعۃ کے نزدیک گناہ گار مسلمان کا ایمان کس حالت میں ہے۔ چنانچہ اہل السنّہ کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مؤمن ناقص الایمان ہے۔ آخرت میں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے او رچاہے تو معاف کردے اور وہ اَبدی جہنمی نہیں ہے، البتہ خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک یہ ابدی جہنمی ہے ۔ اس کے نیک اعمال کا ثواب ضائع ہوجائے گا اور نبیﷺکی شفاعت بھی ان کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو گی۔ البتہ خوارج اسے کافر کا نام دیتے ہیں اور معتزلہ فاسق کا، رہے مرجئہ تو وہ ان کے برعکس ہیں۔موسوعہ المذاہب میں ہے:
«إن مرتکب الکبیرة عندهم مؤمن کامل الإیمان ولا یضر إیمانه معصیته بل قال غلاة المرجئة: أنه لن یدخل النار من أهل التوحید أحد مهما ارتکب من ذنوب وخطایا»22
''کبیرہ گناہ کا مرتکب ان (مرجئہ) کے نزدیک مؤمن کامل الایمان ہے او راس کی معصیت اس کے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ غالی مرجئہ نے کہا کہ اہل توحید میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا خواہ جوبھی گناہ اس سے سرزد ہوجائیں۔''
امام ابن تیمیہ  راقم ہیں:
«فقالت المرجئة جهمیتهم وغیر جهمیتهم هو مؤمن کامل الإیمان وأهل السنة والجماعة على أنه مؤمن ناقص الإیمان»23
''مرجئہ (خواہ) جہمیہ ہوں یا دوسرے (سب ہی ) کہتے ہیں کہ گناہ گارمؤمن، کامل الایمان ہے او راہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مؤمن ناقص الایمان ہے۔''
نیز اہل السنۃ اس بات پر متفق ہیں کہ گناہگار مسلمان میں کم ازکم اس قدر ایمان تو موجود ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ابدی جہنمی نہیں ہو گا۔ لیکن کیا اسے صرف مسلمان ہی کہا جائے گا اور مؤمن کا نام نہیں دیا جائے گا یا اسے مؤمن بھی کہا جائے گا؟شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں:
«والتحقیق أن یقال: إنه مؤمن ناقص الإیمان، مؤمن بایمانه، فاسق بکبیرته، ولا یعطی اسم الإیمان المطلق»24
''اور تحقیق یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ یہ مؤمن، ناقص الایمان ہے اپنے ایمان کے سبب مؤمن ہے جبکہ کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہے اور اسے ایمانِ مطلق کا نام نہیں دیا جائے گا۔''
اِیمان کے ناقص نہ ہونے کا سبب
مرجئہ کے نزدیک ایمان کے شے واحد ہونے اور مؤمن گنہگار کے ناقص الایمان نہ ہونے کےسبب کو امام ابن تیمیہ یوں بیان فرماتے ہیں:
«قالت المرجئة على اختلاف فرقهم: لاتذهب الکبائرو ترك الواجبات الظاهرة شیئا من الإیمان إذ لوذهب شئ منه لا یبقى منه شئ فیکون شیئا واحدا یستوی فیه البر والفاجر»25
''اپنے فرقوں کے اختلاف کے باوجود (سب) مرجئہ کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب اور واجبات ظاہرہ کا ترک ایمان میں کچھ بھی نقص و کمی پیدا نہیں کرتا کیونکہ اگر ایمان میں سے کوئی شئ کم ہوجائے (تو پھر) اس میں سے کوئی شئ باقی نہیں رہے گی پس ایمان شئ واحد ہے جس میں نیک و بد برابر ہیں۔''
کمال ایمان
امام آجری راقم ہیں:
«لا یتم له الإیمان إلابالعمل»26''عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔''
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
«ودلالة الشرع على أن الأعمال من تمام الإیمان لاتحصى کثرة»27
''اعمال ایمان کو پورا کرنے والے ہیں(اس پر)شریعت کے دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔''
امام ابن تیمیہ مرجئہ جہمیہ اور غیر جہمیہ کی مسئلہ ایمان میں غلطی كی وجوہات کو بیان فرماتے ہوئے راقم ہیں:
«أحدها: ظنهم أن الإیمان الذی فی القلب یکون تاما بدون العمل الذی فی القلب کمحبة الله وخشیته و خوفه والتوکل علیه والشوق إلى لقائه.»
«والثاني: ظنهم أن الإیمان الذي في القلب یکون تاما بدون العمل الظاهر وهذا یقول به جمیع المرجئة»28
''ان کا یہ گمان کرنا کہ عمل قلب جیسا کہ اللہ کی محبت، خوف، اس پر توکل اور اس کی ملاقات کے شوق کے بغیر ہی ایمان قلب مکمل ہے اور دوسری غلطی ان کا یہ گمان ہے کہ عمل ظاہری کے بغیر ہی دل کا ایمان مکمل ہے اور تمام مرجئہ اس کے قائل ہیں۔''
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
«فالسلف قالوا: هو اعتقاد بالقلب و نطق باللسان وعمل بالأرکان، وأرادو بذالك أن الأعمال شرط في کماله ومن هنا نشألهم القول بالزیادة والنقص کما سیأتي و المرجئة قالوا: هو اعتقاد ونطق فقط، والمعتزلة قالوا: هو العمل والنطق والإعتقاد والفارق بینهم و بین السلف أنهم جعلوا الأعمال شرطا في صحته والسلف جعلوها شرطا في کماله»29
''سلف نے کہا کہ (ایمان) دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور عمل بالأرکان ہے اور اس سے ان کی مراد ہے کہ اعمال کمال ایمان کے لیے شرط ہیں او ریہیں سے (ایمان کے) زیادہ او رکم ہونے کا قول پیدا ہوا او رمرجئہ نے کہا کہ ایمان صرف اعتقاد اور اقرار ہے اور معتزلہ نے کہا کہ ایمان عمل، اقرار اور اعتقاد ہے ان (معتزلہ) اور سلف کے درمیان فرق کرنے والی چیز یہ ہے کہ انہوں نے اعمال کو صحت ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے اور سلف نے اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے۔''
خلاصۂ کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہمیہ کے نزدیک ایمان رب تعالیٰ کی معرفت کا نام ہے اور کفر اس سے جہالت کا۔ جبکہ شیخ البانی فرماتے ہیں:
«المعرفة بالشيء لاتعني الإیمان به»30
''کسی چیز کی (صرف) معرفت (حاصل ہو جانے) سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ اسے ایمان بھی حاصل ہو گیا ہے۔''
ماتریدیہ وغیرہ کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق ہے۔
اور مرجئہ فقہا کے نزدیک ایمان، دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے جبکہ اہلسنت، سلف صالحین کے نزدیک ایمان اعتقاد، زبان سے اقرار او رعمل سے عبارت ہے او رجو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ البانی  ان پر شدید نکیر اور تردید فرماتے ہیں۔31
مرجئہ کے نزدیک اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔ جبکہ سلف کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء ہیں اور ترجمان سلف علامہ البانی کے نزدیک بھی اعمال ایمان کا جزء ہیں ۔32
جہمیہ وغیرہ کے نزدیک اعمال قلوب بھی ایمان کاجز نہیں ہیں۔جبکہ شیخ البانی کےنزدیک اعمال قلوب ایمان کا جز ہیں۔33
سلف کے نزدیک مرجئہ میں سے کوئی بھی اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط تسلیم نہیں کرتا۔اور بعض حضرات کا یہ کہناکہ ''مرجئہ ایمان کے لیے مطلق اعمال کو شرط کمال قرار دیتے ہیں'' انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
کیونکہ مرجئہ کے نزدیک تو ایمان شئ واحد ہے اس میں نیک و بد برابرہیں ، ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہی نہیں ،گنہگار بھی کامل الایمان ہے نہ کہ ناقص الایمان لہٰذا ان کے نزدیک اعمال ایمان کے لئے شرط کمال کیونکر قرار پائیں گے؟
مرجئہ کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی نہیں ہوتی۔جبکہ اہلسنت کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔اور شیخ البانی فرماتے ہیں:
«إننی أخالفهم مخالفة جذریة فأقول:الإیمان یزید و ینقص وإن الأعمال الصالحة من الإیمان وأنه یجوز الإستثناء فيه خلافا للمرجئة»34
''بلاشبہ میری ان(مرجئہ کے تمام فرقوں) سے بنیادی مخالفت ہے میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ او رکم ہوتا ہے ، یقیناً اعمال صالحہ ایمان کا جز ہیں اوراس میں استثنا جائز ہے او ریہ (باتیں) مرجئہ کے خلاف ہیں۔''
اِرجا کا الزام
لہٰذا بعض حضرات کی طرف سے سلف کے پیروکار' اہل السنّہ والجماعہ' جن کے نزدیک ایمان قول و عمل سے مرکب ہے، اور اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے،کو مرجئہ او رجہمیہ ہونے کا الزام دینا انتہائی لغو ہے۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
«قیل لابن المبارك تری الإرجاء؟ قال أنا أقول: الإیمان قول وعمل و کیف أکون مرجئًا»35
''عبداللہ بن مبارک سے کہا گیا کہ آپ اِرجا (کا عقیدہ) رکھتے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا : میں کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے، لہٰذا میں مرجئہ کیونکر ہوں گا۔''
امام ابو محمد حسن بن محمد بن علی بن خلف البربہاری متوفی 329ھ فرماتے ہیں:
«من قال: الإیمان قول وعمل، یزید وینقص فقد خرج من الإرجاء أوله وآخره»36
''جس نے کہا کہ ایمان قول و عمل ہے، زیادہ او رکم ہوتا ہے ،یقیناً وہ اِرجا سے اوّل وآخر نکل گیا۔''
اسی لئے ناصر بن عبدالکریم العقل راقم ہیں:
«أنه لیس کل من رمي بالإرجاء فهو مرجيء لاسیما في عصرنا هٰذا، فإن أصحاب النزعات التکفیریة وأهل التشدد سواء فمن کانوا على مذاهب الخوارج أو من دونهم من الذین یجهلون قواعد السلف في الأسماء والأحکام، أقول: إن أصحاب هذه النزعات صاروا یرمون المخالفین لهم من العلماء وطلاب العلم بأنهم مرجئة وأکثر ما یکون ذلك من مسائل الحکم بغیر ما أنزل الله ومسائل الولاء والبراء و نحوها»37
''ہر وہ شخص جس کی طرف اِرجا کی نسبت کی جائے، ضروری نہیں کہ وہ مرجئہ ہی ہو، خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں (کیونکہ) تکفیری رجحانات کے حامل اور متشدد حضرات، خواہ وہ خوارج کے مذاہب پر ہوں یا ان کے علاوہ ایسے لوگ ہوں جو اسماء و احکام میں سلف کے اُصول و قواعد سے جاہل ہیں، ایسے رجحانات کے حامل حضرات اپنے مخالف علما او رطالب علموں پر مرجئہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں او ریہ اکثر الحکم بغیر ما أنزل اللهاور الولاء والبراء جیسے مسائل میں ہوتا ہے۔''
اور یہ بھی صرف ان حضرات کے خاص ماہرانہ تحقیقی ذوق کا ہی کرشمہ ہے کہ جس نے عمل کو ایمان کا جز قررا دینے والے او راس میں کمی و بیشی کے قائل جمہور اَئمہ فقہ و حدیث کے اصل عقیدے او رکمزوری کو پہچان لیا ہے (بقول ان کے)اور صدیوں بعد سب سے پہلے یہ سعادت بھی کسی او رکے نہیں بلکہ اِن حضرات کے حصے میں ہی آئی ہے۔
جناب ابوعزیر عبدالالٰہ یوسف جزائری صاحب اپنی کتاب'انحرافات د؍ صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان' میں امام ابن عبدالبر کے تارکِ صلاۃ کی تکفیر کے متعلق اختلاف کو بیان کرتے ہوئے عدم تکفیر کے قول کی نسبت جمہور کی طرف کرنے کے ، قول کو ان کی کتاب 'التمہید'38 سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
«لقد انتسب إلى قول الجمهور الذي لهم وعك في اعتقادهم»39
اور اعمال کو کمالِ ایمان کے لیے واجب قرار دینے کی وجہ سے ان جمہور اَئمہ کو مرجئہ کہتے ہوئے اور مسمی ایمان میں کمال کو سر چشمہ بدعت قرار دیتےہوئےموصوف راقم ہیں:
«أنه أوجب الأعمال وجوبا كماليا وليس أصليا في مسمى الإيمان وهذا القول هو ينبوع بدعية شر الكمال في مسمى الإيمان»40
نیز فرماتے ہیں:
«ولا يعرف ذلك إلا الذكي المتمرس وليس الحاطب ـــ وابن عبد البر ـــ الموافق للجمهور وهم (مرجئة الفقهاء)في مسئلة الإيمان»41
اور ایک جگہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں:
«فظفرت بما جعلني اضرب به المثل هنا ووجدته يوافق المرجئة في معتقدهم صراحة لنظرة قاصرة كانت منه في الدليل والمدلول»42
قارئین کرام !(ہمارا مقصد یہاں تارکِ صلوٰۃ کے بارے میں کوئی حکم لگانا یا اس کو راجح قرار دینا نہیں ہے بلکہ) ہم امام ابن عبدالبر کا بیان آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ معلو م ہو کہ وہ جمہور کون ہیں جن پر حضرات مرجئہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں اور ان کی موافقت کا امام ابن عبدالبر کو طعنہ دیا جارہا ہے ۔
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
''(امام ابو حنفیہ اور ان کے اصحاب کے سوا )حجاز، عراق، شام او رمصر سے وہ تمام فقہا جو اجتہاد و آثار سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں امام مالک بن انس ، لیث بن سعد، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ، ابوعبید قاسم بن سلام، داؤد بن علی، طبری﷭ او روہ لوگ جو ان کے طریقہ کار پر ہیں، (سب )نے کہا کہ ایمان قول و عمل ہے، زبان سے اقرار، دل سے اعتقاد اور عمل بالجوارح جس میں سچی نیت کے ساتھ اخلاص بھی ہو، ان (سب) نے کہا کہ ہر وہ فرض و نفل جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے، ایمان میں سے ہے۔ نیک اعمال کے ساتھ ایمان زیادہ ہوتا ہے اورگناہوں سے کم ، وأهل الذنوب عندهم مؤمنون غیر مستکملي الإیمان من أجل ذنوبهم و إنما صاروا ناقصي الإیمان بإرتکابهم الکبائر اور ان کے نزدیک گنہگار مؤمن ہیں البتہ گناہوں کی وجہ سے مکمل ایمان والے نہیں ہیں، وہ تو کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے ناقص الایمان ہیں۔''43
امام ابن عبدالبر چند دلائل نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں :
«وضح الدلائل على صحة قولنا: إن مرتكب الذنوب ناقص الإيمان بفعله ذلك وليس بكافر كما زعمت الخوارج»44
''(یہ )واضح دلائل ہیں ہمارے اس قول کی صحت پر کہ گناہوں کا مرتکب اپنے اس فعل کی وجہ سے ناقص الایمان ہے اور وہ کافر نہیں جیسا کہ خوارج کا گمان ہے۔''
اسلاف اور ائمہ دین کے درمیان تارک صلاۃ کی تکفیر کے متعلق اختلاف معروف تھا تو کیا امام احمد  نے بھی اس بنا پر امام زہری، امام مالک ،امام شافعی﷭ اور ان کے نظریہ کے حاملین کے اعتقاد پر اس طرح طعن کیا اور ان پر ایسے الزامات والقابات چسپاں کیے تھے؟ یقیناً جواب نفی میں ملے گا۔
حماد بن زید سے سوال کیا گیا:
«من المرجئة؟ قال: الذين يقولون: الإيمان قول بلا عمل»45
''مرجئہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر۔''
ابو الحارث کہتے ہیں:
«وسئل أبو عبد الله وأنا أسمع عن الإرجاء ما هو؟ قال من قال: الإيمان قول فهو مرجئي . والسنة أن تقول: الإيمان قول و عمل، يزيد وينقص»46
''میں سُن رہا تھا کہ ابو عبد اللہ (امام احمد) سے سوال کیا گیا کہ اِرجاء کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس نے کہا ایمان قول ہے پس وہ مرجئہ ہے ( سلف کا) طریقہ یہ ہے کہ تو کہے کہ ایمان قول و عمل ہے ، کم اور زیادہ ہوتا ہے۔''
امام ابوجعفر طبری  فرماتے ہیں:
«هذا الإسم فیمن کان من قوله الإیمان قول بلا عمل وفیمن کان مذهبه أن الشرائع لیست من الإیمان»47
''یہ نام (مرجئہ) ان لوگوں کا ہے جن کا موقف ہے کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر اور یہ اُن کا (نام ہے) جن کا مذہب ہے کہ شرعی احکام و اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔''
البتہ خوارج او رمعتزلہ، سلف کے زمانہ میں بھی اپنے مخالفین ، اہلسنت والجماعت اور ان کے اَئمہ و علما کو مرجئہ ہونے کا الزام دیا کرتے تھے۔جیساکہ شیبان نے عبداللہ بن مبارک سے کہا:
«یا أبا عبدالرحمٰن! ما تقول فیمن یزني ویشرب الخمر ونحو هذا أمؤمن هو؟ قال ابن المبارك: لا أخرجه من الإیمان فقال: علىٰ کبر سن صرت مرجئًا. فقال له ابن المبارك: أن المرجئة لا تقبلني، أنا أقول: الإیمان یزید والمرجئة لا تقول ذلك والمرجئة تقول حسناتنا متقبلة وأنا لا أعلم تقبلت منی حسنة؟ وما أحوجك إلى أن تأخذ سبورة فتجالس العلماء»48
''اے ابوعبدالرحمٰن (یعنی عبداللہ بن مبارک) آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو زنا کرتا، شراب پیتا اور اس طرح کے کام کرتا ہے، کیا وہ مؤمن ہے؟ تو عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ میں اسے ایمان سے خارج نہیں کرتا ۔ تو اس نے کہا کہ آپ بڑھاپے کی حالت میں مرجئہ ہوگئے ہیں؟ تو عبداللہ بن مبارک  نے کہاکہ بلا شبہ مرجئہ مجھے قبول نہیں کریں گے (یعنی میرا کسی صورت بھی مرجئہ میں شمار نہیں ہوسکتا) کیونکہ میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرجئہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ مرجئہ کہتے ہیں کہ ہماری نیکیاں (قطعی طور پر) قبول کا درجہ پانے والی ہیں جبکہ میں نہیں جانتا کہ میری نیکی قبول ہوئی(یا کہ نہیں) ۔تو (اس بات کا) کس قدر محتاج ہے کہ ڈسٹر پکڑ کر علما کی مجلس میں بیٹھے۔''
نوٹ: اس مضمون كی پہلی قسط 'اہل السنۃ اور مرجئہ کون؟(مطبوعہ محدث جنوری 2012ء) کے صفحہ نمبر23 پر (اثر جندب ) كا حوالہ غلط چھپ گیا ہے،صحيح حوالہ یوں ہے: شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ: 2؍ 49، الایمان لابن تیمیہ: ص 178، السنۃ لابن احمد : الرقم 799۔
مزید برآں حاشیہ نمبر 4، اثر عبد العزیز بن عمر کو بھی یوں پڑھا جائے:صحیح بخاري، کتاب الإیمان، باب قول النبي ﷺ بُني الإسلام علی خمس ،تعلیقًا، شرح السنۃ از بغوی: 1؍ 79، ابن ابی شیبۃ:رقم 30435


حوالہ جات

1. الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1153

2. ایضاً

3. الایمان لابن تیمیہ :ص 162؛ شرح العقیدۃ الطحاویۃ از مفتی احسان اللہ شائق: ص 144 ، طبع دار الاشاعت کراچی

4. الايمان لابن تیمیہ: ص 154

5. عقیدہ طحاویہ مع الشرح لابن ابی العز الحنفی:ص538

6. مجموع الفتاویٰ:7؍507

7. الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1154

8. مجموع الفتاویٰ:7؍143

9. الایمان لابن تیمیہ:ص 155

10. الایمان لابن تیمیہ :ص 308

11. مجموع الفتاویٰ:7؍508

12. شرح السنۃ للبغوی:1؍194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51

13. الملل والنحل:1؍104

14. الایمان لابن تیمیہ:ص 155، 308

15. شرح العقیدۃ الطحاویۃ :ص 332، الموسوعہ المیسرۃ 2؍1154، مجموع الفتاویٰ13؍56

16. شرح العقیدة الطحاویة لابن أبي العز الحنفي :ص 333

17. شرح العقيده لا ابن ابی العز الحنفی :ص 332؛ شرح عقید الطحاویۃ از مفتی احسان اللہ شائق :140

18. الموسوعۃ المیسرۃ 2؍1154

19. شرح العقائد النسفیۃ:ص 126 طبع بمبئی

20. شرح العقائد النسفیۃ:ص128

21. ایضاً :ص 128

22. الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1138

23. الایمان لابن تیمیہ :ص 278

24. الایمان لابن تیمیہ:ص 190

25. ايضًا،صفحہ 176

26. الشریعہ: ص 125

27. الایمان :ص 118

28. الایمان:ص 285،286

29. فتح الباری:1؍64

30. موسوعۃ الالبانی :4؍145

31. مقدمہ شرح عقیدہ طحاویہ لابن ابی العز :ص 57

32. الذب لاحمد :ص 32، موسوعہ الالبانی :4؍127

33. موسوعۃ الالبانی :4؍35

34. السلسلۃ الصحیحہ:7؍153

35. السنۃ للخلال :2؍566 الرقم: 964

36. شرح السنۃ للبربہاری :ص 123 طبعہ سابقہ 1428ھ دارصمیعی،سعودی عرب، دوسرا نسخہ :ص 57

37. القدرية والمرجئة : ص 121

38. التمہید: 4؍ 164 تحت حدیث ثان لابن شہاب عن سالم

39. انحرافات ڈاکٹر صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان: ص 16

40. ایضاً

41. ايضا: ص29

42. انحرافات ڈاکٹر صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان: ص 11

43. التمہید لابن عبدالبر :4؍156،159، الایمان از ابن تیمیہ :ص 259

44. التمہید 4؍160 زير حديث دوم ، از ابن شہاب عن سالم

45. الایمان لابن تیمیہ: ص 202

46. السنۃ للخلال: 2؍ 566، الرقم: 964

47. تہذیب الآثار:2؍182

48. مسنداسحٰق بن راہویہ :3؍670 بحوالہ السلسلۃ الصحیحۃ :7؍154، موسوعۃ الالبانی :4؍151