خلافتِ راشدہ ؛ ایک زرّیں عہداور اسلامی تقاضا
بعد از خطبہ مسنونہ... اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے!
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَرضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ارتَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا يَعبُدونَنى لا يُشرِكونَ بى شَيـًٔا وَمَن كَفَرَ بَعدَ ذٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ٥٥ ﴾... سورة النور
''تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں ،اللہ وعدہ فرما چکا ہے کہ اُنہیں ضرور ملک کا خلیفہ بنائے گا جیسے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کوامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جولوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔''
خلافتِ راشدہ کا موضوع سال کے محض کسی ایک مہینے کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک موضوع نہیں بلکہ یہ موضوع ملتِ اسلامیہ کی موت و حیات کا موضوع ہے۔ملت اسلامیہ اگر ایک با وقار قوم کی حیثیت سے، دنیا میں اپنے عقیدے کے دفاع کے لئے، اپنی ثقافت، تہذیب اور تعلیمات کے دفاع کے لئے، اپنی دنیا اور آخرت کو بچانے کے لئے کسی طریقہ کو اختیار کر نا چاہتی ہے تو وہ طریقہ 'خلافت علیٰ منہاج النبوۃ' کا طریقہ ہے۔
اس کائنات میں انسانیت اور نبوّت کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ایسا نہیں کہ انسانیت کا آغاز کسی ایک طریقہ پر ہوا ہو اور نبوت کسی اور نہج پر آئی ہو بلکہ اس دنیا میں آنے والا پہلا انسان ہی پہلا نبی بھی تھا ۔یوں نبوت اور انسانیت ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو کر چلے، پھر انسانیت و نبوّت کی فلاح کے لئے جو پہلا نظام اُن کو دیا گیا ،وہ خلافت کے علاوہ کو ئی دوسرا پیغام نہیں تھا اور اس منصب کا تعین تخلیق آدم کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔ اس اعتبار سے آدم کی تخلیق کا حسن اگر برقرار رہ سکتا ہے، آدم اگر آدمیت کی خو میں رہ سکتا ہے، آدم اگر آدمیت کی اقدار و روایات کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے اور آدم اگر آدم گر کی مشیت کو پورا کر سکتا ہےتو اس کے لئے، اس کائنات کے اندر، ماضی اور اس سے پہلے سارے زمانوں میں انسانیت کو ایک ہی نظام اور پیغام دیا گیا جو کہ خلافت کے نظام سے موسوم ہے۔یہ وہ سلسلہ ہے جو سیدنا آدم سے چلا اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر اس خلافت کی خوبیوں کا یہ کہہ کر اتمام و اکمال کر دیا گیا کہ
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ...٣ ﴾... سورة المائدة
یہ نہیں ہو سکتا کہ خالق ِکائنات ایک دین کو پسند کر کے اس کے کمال و اتمام کا اعلان فرمائیں اور پھر وہ نظام اور کلمہ مغلوبیت کے درجہ میں رہے۔ چنانچہ سورہ نور کی یہ آیات ٥ سے ٦ ہجری کے درمیان کا معاملہ ہیں، غزوہ خندق ہو چکا تھا، صلح حدیبیہ کا منظر سامنے ہے، مسلمان ایک ایسے صلح نامے پر دستخط کر رہے ہیں جسے ﴿إِنّا فَتَحنا لَكَ فَتحًا مُبينًا ١ ﴾... سورة الفتح" قرار دیا گیا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اسی استخلاف فی الارض یعنی خلافت کے نظام کا ایک ایسا وعدہ اور تائید انسانیت کے سامنے پیش کر تے ہیں کہ ١٣ سالہ مکی زندگی اور ٥ سالہ مدنی زندگی : کل ملا کر ١٨ سال تک تم لوگوں نے اپنے عقیدے کے اعتبار سے ان قربانیوں کا نصاب پورا کر دیا اوراپنے اعمال کی ایک ایسی نشانی اور شہادت پیش کر دی کہ اب اللہ تعالیٰ اس کائنات کے اندر غلبۂ دین،تمکن فی الارض اور استخلاف فی الارض کے حوالے سے اس دنیا کی قیادت ، سیادت ، سیاست اور امامت تمہارے سپرد کرنے والا ہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم﴾اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے، یہ وعدہ کر لیا ہے﴿وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ﴾اور ساتھ ہی جنہوں نے اعمالِ صالحہ کی شہادت بھی دے دی ، کس چیز کا وعدہ...؟﴿لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَرضِ﴾ کہ اب اس ایمان واعمالِ صالحہ کا انعام یہ ہے کہ دنیا کے اندر خلافت کا تاج تمہاری اُمت کے سر پر پہنا دیا جائے﴿كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم﴾جیسا کہ تم سے پہلے بھی اُمتوں اور انبیا کو بھی استخلاف فی الارض کی یہ بشارتیں عطا کی گئی تھیں، لیکن پھر ان کی کاہلی،تجاہل، تغافل اور ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ منصب ان سے چھین لیااور قیامت تک کے لئے ذلّت و مسکنت ان کے ذمہ لگا دی۔
﴿كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم﴾ میں آل ِیہود کی طرف اشارہ ہے کہ اب دنیا کے اندر استخلاف فی الارض کے معاملہ میں تمہارے یہی حریف ہو سکتے تھے کیونکہ یہودیوں سے یہ منصب چھین کر آپ مسلمانوں کو عطا کیا گیا ۔ اور جب یہ منصب ہمیں عطا ہوا تو اسی یہود نے اس خلافت کے منصب کو تارتار کرنے کے لئے، اس کو نقب لگانے کے لئے اور اس کو داغ دار بنانے کے لئے آج تک کوششیں جاری رکھیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج ١٤٢٢ سال گزرنے کے بعد بھی ایک ہی قوت دنیا کے اندر ایسی ہے جو خلافت کے اس نظام کو ناپسند کرتی ہے اور اس قوت کا نام یہود ہے ،یا پھر وہ یہود نواز طبقے ہیں جنہوں نے فکری اعتبارسے ایسے رویے اختیار کیے ہیں کہ جس کے نتیجے میں خلافت کا یہ عمل اُمتِ مسلمہ میں ایک زوال پذیر اور اضمحلال انگیز کیفیت پیدا کرتا چلا گیا۔
آپ ذرا اندازہ لگایئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نظام خلافت کو انسانیت کے وقار کا ذریعہ بنایا اور پھر یہ بات بتائی کہ اس کائنات کے اندر اگر خوف ،اضطراب اور انتشار،پریشانیوں اور تذبذب، لوٹ کھسوٹ اور استحصال جیسے دیگر جتنے بھی فتنے ہیں ان کے خاتمے کا صرف ایک حل ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں اور اجتماعی طورپر یہ نظام ِخلافت دنیا میں قائم ہو جائے۔محمد رسول اللہﷺ نے اللہ کی عبادت وبندگی کے لئے لوگوں کونبوت کی پوری زندگی تیار فرمایا، مکہ کے تیرہ سال مسلسل دعوت وتبلیغ کے بعد جب آپ کے موطن ومولد کی سرزمین آپ کے لئے تنگ ہوگئی اور وہاں کے باشندے آپﷺ کو قتل کرنے کے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانےپر مُصر ہوگئے تو پھر اللہ کے حکم کے ساتھ آپ نے مکہ مکرمہ کو بادل نخواستہ چھوڑا۔ آپ کی مخلصانہ جدوجہد کاانعام اللہ نے وعدہ قرآنی کے مطابق یہ دیا کہ مدینہ میں آپ کو خلافت کے انعام سے بہرہ ور فرمایا۔سو آپﷺ نے مدینہ میں آکر اس خلافت کے مزاج کے موافق ایک ریاست قائم کی ، اور وہاں چار مربع کلو میٹر کا رقبہ جب آپ کو میسر آیاتو آپ نے باقاعدہ اسلامی ریاست اور معاشرے کا آغاز فرمایااور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے کمال سیاسی حکمتِ بالغہ سے مدینہ کے یہودی باشندوں سے میثاقِ مدینہ کے نام سے معاہدے فرمائے۔
آپ نے اپنی بے مثال سیرت سے یہ مثال قائم کی کہ کسی ایک سرزمین میں اہل ایمان(believers) کس طریق پر زندگی بسر کریں اور غیر مسلم کس طریق پر زندگی بسر کریں گے، دونوں مل جل کر کن اُصولوں کے تحت رہ سکتے ہیں۔ یہ ریاست دنیا کے اندرپہلی ریاست بنی کہ جس میں دو مختلف النظریہ اقوام باہمی تعاہد وتحالف کی صورت میں پرامن معاشرے کا نمونہ پیش کرتی رہیں۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کے اندر یہ پہلی باقاعدہ اور منضبط خلافت کے مزاج اور نظام پر مبنی ایک ریاست وجود میں آتی اور تدریجاً تکمیل کی طرف بڑھتی ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٥ اور ٦ ہجری کے درمیان ایسے کوائف پیدا ہوتے ہیں فتح مبین کی ایسی شکلیں پیدا ہوتی ہیں کہ فتح مکہ سامنے آتا ہے اور رسول اکرم ﷺ جب ١٠ سال مدینہ میں گزار چکے ، اور اپنے اللہ سے ملنے اور اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس جانے کے لئے تیار ہیں اس عالم میں کہ ١٢ سے ١٣ لاکھ مربع میل تک خلافت کا نظام قائم ہو چکا تھااور خلافت کی برکات پورے طور پر قائم و دائم تھیں۔اور صحابہ کرام جو اس خلافت کے نظام کے کل پرزے تھے،اس کی مضبوطی اور استحکام کے اجزا تھے،اور اس کے عناصر تھے اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان آسمان سے کر دیا ۔اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے پھر قران مجید نے ہمیں یہ بتایا۔کہ اس کائنات کے اندر اگر تم صداقت کی کوئی نشانی دیکھنا چاہتے ہوتو ﴿أُولـٰئِكَ هُمُ الصّـٰدِقونَ﴾ یہ سچے لوگوں کی یہ علامتیں صحابہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ،اور اگر تم رشدو ہدایت ، پاکیزگی اور حق کا کوئی منارہ نور دیکھنا چاہتے ہو تو ﴿أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ﴾ یہ وہ پاکیزہ لوگ ہیں یہ وہ ہدایت یافتہ لو گ ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور اگر تم کامیابی کا کوئی بڑا مینار دیکھنا چاہتے ہوتو﴿وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے اندرفلاح یافتہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺکے ساتھ ﴿رُحَماءُ بَينَهُم﴾ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا تصور لئے ہوئے ہیں اور ﴿أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ﴾ کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔
دنیا کے اندر دو ایسے ضوابط ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہﷺکے ساتھ ایک ایسی حزب اللہ، ایک ایسی جماعت پرورش پاتی چلی جارہی ہے۔ارتقا اور استحکام کے مراحل طے کرتی جا رہی ہے۔ اس جماعت کے مقابلہ ارتقا میں اسلامی ریاست کے اندر کسی حزبِ مخالف کا کوئی وجود نہیں۔ جہاں ایک اُصول ِمشاورت دیا گیا ہو،اس اُصول کے تحت باقاعدہ مسلمانوں کی یہ پوری کی پوری ریاست قائم ہوتی دکھائی دیتی ہے ، اور پھرجناب محمد رسول اللہﷺ جس نظام پر پوری اُمت کو قائم کر گئے۔ آپ نے خود یہ فرمایا کہ
''یہ خلافت کا نظام ایک وقت تک اسی شکل و صورت میں قائم رہے گا، پھر فرمایا کہ میرے بعد خلافت کا نظا م یہ شکل پیش کرے گا، پھر فر مایا کہ میرے بعد خلافت کے اس نظام میں یہ تغیرات پیدا ہونگے، یہ شکلیں پیدا ہوں گی۔ پھر فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہو گا اور دنیا کے اندر اس اسلام اور اسکے نظام یعنی خلافت کے علاوہ کوئی دوسرا تصور باقی نہیں رہے گا۔''
خلافت : اطاعت الٰہی پر مشتمل ایک بابرکت وفلاحی سیاسی نظام
حاکمیت و اقتدار اور شرعِ خداوندی کی بالاتری کا جو تصور اسلام نے پیش کیا، وہ اس کے نظام خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور مسلمان حکمرانوں کو یہ بتا دیا گیا کہ یہ اقتدار او ریہ اختیارات تمہارے پاس ایک امانت ہے۔اس کی مسئولیت بھی ہے اور اس کا احتساب بھی اور اس کی باز پرس بھی ہو گی اور پھر ان خلفائے راشدین نے قران مجید کے اندر تمکن فی الارض کے جو شرائط اور لوازم تھے، اُنہیں اس شکل میں پورا کیا:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ ٤١ ﴾... سورة الحج
''یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں،زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں، برے کاموں سے منع کریں۔''
دنیا کے اندر نمازوں کے نظام کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرت، ان کی سوسائٹی، ان کا سماج ترتیب پاتا چلا گیا۔ زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے ان کی معیشت ایک ہموار کیفیت اختیار کرتی چلی گئی۔ دنیا سے لوٹ کھسوٹ کا نظام ختم ہو گیا اور اُمرا اور غربا کے درمیان ایک ایسی صحت مند گردشِ دولت کو قائم کیا گیا کہ جس کے نتیجے میں محتاجی ختم ہو گئی اور اللہ نے اپنے غنی ہونے کے ذریعے سے انسانیت کو معیشت کا ایک حسن بخش دیا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ سے معاشرے کے اندر وہ کیفیات پیدا ہوتی چلی گئیں کہ معاشرہ جہنم کی دلدل سے نکل کر جنت نظیر بنتا چلا گیا اور اس طریقہ سے امن کی یہ کیفیت تھی کہ خوف کو اس طریقہ سے ختم کیا گیا کہ بد امنی، لوٹ کھسوٹ، راہزنی قزاقی ، ڈاکے اور چوری ، الغرض بد امنی کی جتنی بھی شکلیں تھیں، وہ ساری ایک ایک کر کے ختم ہوتی چلی گئیں اور معاشرہ جو دنیا کے اند ر رومیوں کے ظلم اور کسریٰ ایران کے ظلم کے اندر سسک رہا تھا، وہ معاشرہ جو مصر ، چین اور ہندوستان کے اندر بت پرستی اور مختلف قسم کی اصنام پرستی کے مظاہر کے اندر گرفتا رتھا،اسے ایک بار پھر اپنے مالک حقیقی کو پہچاننے کا موقع میسر آیا۔
یہ قران مجید اورمحمد رسول اللہﷺ کے طرزِ حکومت اور آپ کے اُسلوبِ خلافت کا اعجاز تھا کہ دنیا نے پہلی دفعہ ایک ایسا معاشرہ دیکھا۔ پہلی دفعہ ایک ایسی ریاست دیکھی ،پہلی دفعہ ایک ایسی سیاست دیکھی،پہلی دفعہ ایک ایسی معیشت دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسی معاشرت دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسی تہذیب دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسا تمدن دیکھا کہ جس کی مثال نہ اس سے پہلے دنیا کے اندر موجود تھی اور نہ آج١٤٢٢ سال گزرنے کے بعد اس کا نمونہ ہمارے سامنے آ سکا ۔مسلمان جو مراکش سے لے کرانڈو نیشیا تک تقریباًدنیا کے سوا ارب سے زیادہ تعداد میں ہیں، ان تمام مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن میں یہ نظامِ خلافت موجود ہے۔ مسلمان اپنی حیثیتِ اجتماعی کے اندر جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں،آ ج کی ریاستوں، ان سیاستوں اور ان کی معیشتوں کو اس طاغوتی نظامِ کفر اور شرک نے اس انداز سے ڈسا ہوا ہے کہ مسلمان پھر اس نظامِ خلافت کی طرف پلٹ نہ سکيں۔
قران مجید کے اندر یہ بتا دیا گیا ہے کہ اس نظامِ خلافت کے مقابلہ میں وقت کی ساری طاقتیں اور قو تیں مجتمع ہوں گی اور نظام خلافت کے چراغ کو بجھانے کی کوششیں کریں گی اور یہ بات فرمائی گئی کہ
﴿يُريدونَ لِيُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفوٰهِهِم وَاللَّهُ مُتِمُّ نورِهِ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ٨ ﴾ ...سورة الصف
''وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔''
دنیا کا تمام کفر بلکہ یہود و نصارٰی اور ان کی ذریت جس جس شکل میں موجود ہیں یہ سارے کے سارے چاہتے ہیں کہ اللہ کی وہ روشنی جو اس کے نظام یعنی نظام شریعت کی شکل میں انسانی فلاح کے لئے اسے دی گئی ہے، اپنے منہ کی پھونکوں سے اسے بجھا دیں۔ مولانا ظفر علی خان نے اسی بات کی طرف راہنمائی کی تھی کہ
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اللہ نے اس بات کے لئے اُمتِ مسلمہ کو یہ مشن اورچارٹردے دیا اور یہ بتایا کہ
﴿هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ٣٣ ﴾... سورة التوبة
''وہی ہے جس کے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔''
زمانے کے سارے مشرکین خواہ وہ امریکہ کی شکل میں ہوں یا روس کی شکل میں۔ اسرائیل یا ہندوستان کی شکل میں ہوں یا شرک اور کفر دنیا کی جتنی بھی اشکال اور اسالیب کے اندر موجود ہو، اللہ کے نور کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس نے اپنے پیغمبر عظیم ﷺکو قرانِ مجید جیسی نورانی شریعت کے ساتھ اس طرح سے بھیجا کہ دنیا کے اندر یہ دین باقی مذاہب ، نظاموں او ر معاشروں کے اوپر اور باقی دساتیرکے اوپر اس طرح غالب ہو جائے کہ دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی اور نقشہ دکھائی نہ دے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں اللہ کا پیغا م صرف اور صرف مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے، وہ پیغام لوحِ محفوظ سے جبریلِ امین کے ذریعے جس طریق پر محمد رسول اللہ ﷺکو عطا کیا گیا اسی طریق پر وہ پیغام آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ صحابہ کرام اور خلافتِ راشدہ نے عہد ِصدیقی کے اندر اس پیغام اورنظام ِ خلافت کو علی منہاج النبوۃ پورے طور پر قائم کیا اور دنیا کے اندر ٢٢ لاکھ مربع میل پر خلافتِ فاروقی میں مسلمانوں کی جو فلاحی ریاست اور اس ریاستِ اسلامیہ میں ان کے رفاہی کارنامے سامنے آئے۔ دنیا کے اند ر پہلی دفعہ ایک ایسی ریاست جو ٢٢ لاکھ مربع میل پر دنیا کےکئی بر اعظموں کی مرکزیت کو چھوتی ہوئی اپنے پورے کمالات اورصفات کے ساتھ اپنی پوری قوت اور خصائص کے ساتھ، اپنے پورے امتیازات کے ساتھ دنیا کے اندر قائم ہوئی اور دنیا کے غیر مسلموں نے اعتراف کیاکہ اگر مسلمانوں کی تاریخ میں ایک عمر اور پیدا ہو جاتا تو تاریخِ عالم کا نقشہ تبدیل ہو جاتا۔
خلفاے راشدین کا متفقہ تعین
تاریخ انسانی کے اندر یہ وہ صورتِ حال ہے جسے مسلمانوں نے قائم کیا اور پھر آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اقتدار کے لئے رسّہ کشی ہوتی ہے، اختیارات کے حصول کے لئے قتل وغارت ہوتی ہے، لیکن یہ خلافت ایک ایسی قوت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام کے ذریعہ سے سیرت وتاریخ کی جو روایات ہم تک منتقل ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں یہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور پورے اجماعِ اُمت کی دلیل بن کر ہمارے سامنے آئی ہے اور رسول اللہﷺکے بعد جناب صدیق کی ٢٧ مہینے کی خلافت،خلافة على منهاج النبوة کا عظیم الشان مظہر تھی۔
تاریخ انسانی کے اندر صدیق ِاکبرؓ کو رسول اللہ ﷺ کے فوراً بعد جن مسائل،مشکلات ، مہمات اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ خلافت کا گہرا شعور تھا کہ جس کے نتیجہ میں ٢٧ مہینہ کی مختصر مدت کے اندر خلافت کایہ نظام علیٰ منہاج النبوّہ محمد رسول اللہ ﷺکے کھینچے ہوئے نقشے کے عین مطابق قائم ہو گیا اور ان ٢٧ مہینوں کے اند ر ارتداد اور مانعینِ زکوٰۃ کے فتنے ختم ہو گئے۔ اسامہ بن زید کا لشکر جس سمت روانہ ہو رہا تھا، عراق و شام کی طرف فتوحات کے باب کھلنے لگے، جعلی نبوتوں کا استحصال ہونے لگا، اُمت کو قرآن جیسی نعمت،اور اجماع اُمت کی بے نظیر دلیل پر جمع کر دیا گیا ،عدل و انصاف کا ایک ایسا پرچم بلند کیا گیا کہ انسانیت نے پہلی دفعہ یہ بات دیکھی کہ اللہ کی حکمرانی اور خلافت کے نظام میں،آقا و مولا کے مابین،خلیفہ اور راعی کے بیچ ایک ایسا امتزاج اور حسن پیدا ہو گیا کہ یہ امتزاج یہ تعلق یہ ارتباط یہ محبت یہ موالات اور یہ یگانگت اس قدر پختہ تھی کہ تاریخ انسانی نے اس سے پہلے کبھی یہ منظر نہ دیکھا ہو گا۔
صاحبان ِگرامی! ٢٧ مہینوں کے بعد صدیق اکبر اپنے اللہ کے پاس جاتے ہیں اور عمرِ فاروق کا دور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جناب محمد رسولﷺ کے بعد صدیق اکبر کی خلافت مسلمانوں کے اہل حل وعقد کے ذریعے منعقد ہوئی تھی جس پر بعد ازاں تمام مسلمانوں نے بھی اتفاق کیا تھا۔گویا آپ کی خلافت پر اجماع اُمت تھا، آج کی سیاستوں کی طرح آپ کی خلافت محض کسی ایک اکثریت کے غلبہ کا نتیجہ نہ تھی۔ اس معاشرے کے اندر قریش ، اوس اور خزرج تھے ۔ مہاجرین اور انصار تھے، اس معاشرے کے اندر ایک سے بڑھ کر ایک صحابہ موجود تھے، بدری صحابہ بھی موجود تھے، دیگر جلیل المرتبت صحابہ بھی موجود تھے۔ اس معاشرہ میں ابھی قبائلیت کا عنصر باقی تھا ، عصبیت کی بحثیں باقی تھیں مگریہ اسی خلافت کی برکت تھی کہ جناب صدیق اکبر جن کی نامزدگی عمرِ فاروق نے کی اور اُمت نے پورے اجماعی طور پر پورے شعور کے ساتھ اور شورائیت کے ذریعہ سے نظامِ بیعت کو اس طرح قائم کیاکہ ٢٧ مہینوں کے اندر پوری ١٣ لاکھ مربع میل کی ریاست کے اندر کوئی ایک فرد ایسا نہیں تھا جس کا اختلاف صدیق اکبر ؓ کی خلافت پر ہو۔
صدیق اکبر ؓ کے بعد عمر فاروق ؓ کا عہد آتا ہے، شوری کی صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے قرآن میں ایک مستقل نظام مشاورت کو ﴿وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ﴾﴿ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ ﴾كو اس نظام کا حصہ بنایا۔ اسی طریقہ سے شورائیت کی روح صاحب الرائے لوگوں كو گردانا گیا ہے۔ اور یہ صحابہ کی عظمت تھی کہ ان عظیم ہستیوں نے شورائیت کے حسن کو برقرار رکھا اور شورائیت کا حسن اتنا اس قدرتھا کہ مسلمانوں کے نظام خلافت کے اندر جس چیز نے سب سے زیادہ خوبصورتی پیدا کی وہ شورائیت ہے اور دوسری چیز مسئولیت اور احتساب کا نظام ہے۔ ان دو قوتوں نے اسلامی خلافت کو اتنا مستحکم کر دیا کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ ( باوجود اس کے کہ نبوت اس بات کی محتاج نہیں ہو تی ہے کہ وہ انسانوں سے مشورہ کرے) نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک مرتبہ نہیں بیسیوں مرتبہ مشاورت کی اور یہ مشاورت کئی شکلوں میں موجود رہی ۔ بدر و اُحد اور خندق میں اس مشاورت کی شکلیں ہمیں ملتی ہیں ۔جب ضرورت ہوئی، مشاورت کی گئی اور جب یہ سمجھاگیا کہ مشاورت کی ضرورت نہیں تومشورہ نہیں لیا گیا۔ انتظامی اور تدبیری اُمور کے اندر مشاورت ہوتی رہی۔ مشاورت کا ایک ایسا نظام جناب محمد رسول اللہﷺ نے قائم کیا کہ اس مشاورت کے ذریعہ سے مشورہ طلب امور کے اندر یہ معاملات بڑھتے گئے اور اس مشاورت کے لئے کوئی بڑی اسمبلیوں کی ضرورت نہیں تھی، ملک کا سارا خزانہ ان اسمبلیوں کے ذریعے سدھارنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، مسلمانوں کی شوریٰ اتنی محدود تھی کہ بعض اوقات ایک یا دو صحابہ کے ساتھ اور بعض اوقات سیدنا عمر کی شہادت کے موقع پر صرف ٦ افراد کے اندر مشاورت کمیٹی تشکیل دی گئی۔٢٢ لاکھ مربع میل کے نئے حکمران کے انتخاب کے لئے ٦ لوگوں میں وہ بصیرت اورایثار موجود تھا کہ پہلے ہی مرحلہ پر ایک دوسرے کے مقابلے پر تیسرا چوتھے کے مقابلے میں پانچواں چھٹے کے مقابلے میں اپنے آپ کو سبک دوش کرتا ہے۔ تا ریخ نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا تھا کہ خود اپنی رضا مندی کے ساتھ سیدنا طلحہ کہے کہ میں فلاں کے حق دستبردار ہوتا ہوں، سیدنا زبیر کہے کہ میں فلاں کے حق میں دستبردار ہوتا ہوں، اور سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف کہے کہ میں فلاں کے حق میں دستبردار ہوتا ہواور جب تین باقی رہ جائےتو اُن میں سے ایک کہے کہ اے عثمان اور علی ! میں آپ دونوں کے مقابلے میں دستبردار ہوتا ہوں ۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں کم سے کم فرصت کے اندر مختصر مشاورت کے ذریعے کسی فیصلہ تک پہنچوں اور وہ ساراوقت مشاورت میں صرف کرتے ہیں اور نتیجتاً خلافتِ عثمانی کا آغاز ہوتا ہے ۔خلافتِ عثمانی بھی ١٣ سال تک اُمت کے اندر ایک اجتماع کے حسن اور وقار کی علامت بنتی ہے۔ اسی اعتبار سے بعض مؤرخین نے( اور ہمیں معلوم ہے کہ مؤرخین کی عصبیتیں کہاں کہاں چھپی رہیں، اُنہوں نے ملوکیت کے زمانہ میں تاریخ کے ذخیرہ کو کیسے نظر انداز کرنے کی کو شش کی )لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سیدنا عثمان کی بصیرت اور آپ کی خلافت کا کمال یہ تھا کہ صرف اٹھارا ،انیس سو بلوائی مدینہ کے اندر محاصرہ کرتے ہیں، سات سوکے قریب محافظ اور گارڈ موجود ہیں وہ اجازت طلب کرتے ہیں کہ اجازت دیجئے ہم گھنٹوں میں بلوائیوں کے اس فتنہ کو ختم کرتے ہیں، لیکن فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اُمت کے اندر میری ذات کے دفاع کے لئے اورمحض میری ذات کو بچانے کیلئے خون کا بازار گرم کیا جائے ۔ اُنہوں نے شہادت پیش کر دی، لیکن اُمت کے اندر کشت و خون کا بازار گر م ہونے نہیں دیا۔ یہ ان لوگوں کے کمالات تھے۔
خلفاے راشدین کے معاشی حالات
یاد رکھئے کہ محمد رسول اللہﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں اور صدیق اکبر رسول اللہﷺ کے خلیفہ ہیں، نبی ﷺ نے اللہ سے ملنے والا نظام خلافت اپنی امت میں یوں جاری وساری کردیا کہ قرآن نے اس پر گو اہی دی کہ
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ٢١ ﴾...سورة الاحزاب
''یقیناً تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں عمدہ نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کو یاد کرتا ہے۔''
یہ ماڈل اور اُسوۂ حسنہ ہے کہ تمہارا معاشرہ تمہاری معیشت اور عقائد، تمہارا تمدن اورسیاستیں، تمہاری ریاستیں ، تجارتیں اور زراعتیں ، داخلی اور خارجی، بین الاقوامی قوانین کس طریقہ سے سلجھ سکتے ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺنے سارا منظر اُن کے سامنے پیش کیا تھا پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسی تناظر میں یہ نظامِ خلافت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس درجہ بڑھتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کا جو آخری دن مدینہ میں بسر کیا، اس رات آپﷺ کے گھر میں جو چراغ روشن ہوا اس چراغ کا تیل کسی گھر سے اُدھار آیا ہوا تھا۔یہ نظام ِخلافت اور اس کی عظمتیں ہیں اور جب خلافت سنبھالنے کے بعد سیدنا ابوبکر دوسرے دن اپنے کپڑے کا کارو بار کرنے کے لئے نکلتے ہیں تو عمر فاروق پوچھتے ہیں کہ میاں یہ کہاں چل دئیے؟ فرمایا کہ بال بچوں کا پیٹ کہاں سے پالوں گا توعمر فاروق نے فرمایا کہ اب اُمت کی نگہبانی آپ کے سپر دکی جارہی ہے لہذا اُمّت کا بیت المال آپ کی کفالت کرے گا ،اورپھر وہ کفالت کس درجہ میں موجود تھی۔ تاریخ کے اندر ایسی مثال کہیں موجود نہیں ہے ۔اتنا سیر چشم تاجر جس کی تجارت کے ذریعہ سے مکہ کے غلاموں کو رہائی ملتی ہے اورجس کے ذریعہ سے غزوات کے اندر نصرت اور قوت کے سامان فراہم ہوتے تھے، وہ جب دنیا سے جاتا ہے تو کوئی بہت بڑا ساز و سامان موجود نہیں ۔عمر فاروق جب دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں تو مال و دولت نام کی کوئی چیزآپ کے گھر میں موجود نہیں تھی بلکہ محدثین نے لکھا ہے کہ کچھ قرضہ آپ کے ذمہ تھا جسے ادا کرنے لئے مکہ میں بنو عدی کے وراثتی خاندانی مکانا ت کے حصوں سے جو حصہ اُن کے پاس آتا تھا اس کو فروخت کرنے کے بعد ٢٢ لاکھ مربع میل کے حکمران شہادت اور نزع کے عالم میں اپنا قرضہ ادا کرنےکے لیے اپنا مکان اس کودے جانا پڑتا ہے۔ عثمان غنی شہید ہوتے ہیں جس نے دس ہزاراو نٹ غزوہ تبوک کے موقعہ پر پیش کیے اور اس موقع پر ایک تہائی فوج کے خرچ اُٹھائے ،جس نے اپنے گھر کے ساز و سامان کو دفاعی کاموں کے لئے وقف کیا۔ کنویں خریدے جارہے ہیں، زرہیں خریدی جا رہی ہیں۔مساکین اور یتامیٰ کے لئے رفاہی کام ہو رہے ہیں ۔لیکن خود اپنی حالت یہ ہے کہ چالیس دن تک کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو اُن کے گھر تک پہنچنے دی جار ہی ہو، اور وہ اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔سیدنا علی جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ٧٠٠ درہم کا اثاثہ اُن کے گھر کے اندر دکھائی دیتا ہے اور یہ اثاثہ کئی سالوں تک سینچ سینچ کر اُنہوں نے جمع کیا کہ اس کے ذریعے سے کوئی ایک غلام وہ اپنے لئے رکھ سکیں۔ اس اعتبار سے یہ چاروں خلیفہ دنیا سے اسی حالت میں نکلے ہیں۔
مسجد: خلافتِ اسلامیہ کا مرکز
لیکن آج کی مملکتیں جو دنیا سے قرض پر پلی ہوئی اور پوری قوم کو قرضوں کے شکنجوں کے اندر جکڑے ہوئی ہیں،وہ یہ بات سوچنے کی کوشش کریں کہ یہ محلا ت ،یہ ایوان صدر تین تین سو کمروں پر مشتمل ہیں، اسی طرح یہ وزیر اعظم کے ایوان اور وزیر اعظم ہاؤس یہ سب اس بات کی نشانی ہیں کہ قوم کے اندر لوٹ مار کا ایک بڑا نظام قائم ہے۔ذرا اس خلافتِ راشدہ کا سیکرٹریٹ دیکھئے کہ وہ خلافتِ راشدہ جو ٣٦ لاکھ مربع میل پراور عہدِ اُموی میں٤٥ لاکھ مربع میل پر محیط تھی، اس خلافت راشدہ کے ابتدائی ٤٠ سالوں میں محمد رسول اللہ ﷺ سمیت سب نے کس جگہ کو سیکرٹریٹ بنایا ہواتھا۔ بھائیو! مسجد ِنبوی ہی مسلمانوں کا سیکرٹریٹ تھا، سارے فیصلے اسی میں ہوتے تھے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا مرکزی خزانہ دفتر بھی تھا۔ مسلمانوں کی عدالت عظمیٰ بھی مسجد نبوی کے اندر قائم تھی اور مدینہ سے باہر جب یہ ریاست ١٢ لاکھ مربع میل میں پھیل گئی تو آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں گورنر بنائے جو دوسرے علاقوں میں جاتے تھے اور جب اُن کے کئے ہوئے فیصلوں پر ہائی کورٹ کے اندر کوئی کیس آتا تو وہ کورٹ بھی مسجدِ نبوی کے اندر ہی قائم تھی۔ یہ مسجد اس نظام خلافت کا مرکز تھی ، مسلمانوں کی حکومت کا سول سیکرٹریٹ تھا اور یہ مسجد مسلمانوں کا جی ایچ کیو تھا ،٢٨ غزوات جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اور اُن سے دوگنے تعداد کے اندر وہ جنگیں اور سرایا جن کی کمان دوسروں کے سپرد کی گئی تھی۔وہ سارے کے سارے اسی مسجد سے روانہ کئے جاتے تھے۔یہ مسجد مسلمانوں کی یونیورسٹی، ان کی جامعۃ العلوم اور ان کی درسگاہ تھی جس کے اندر صفہ کے لوگ باقاعدہ اور ہمہ وقتی پڑھتے تھے ۔ یہ مسجد مسلمانوں کے باہر سے آنے والے وفود کو قبول کرنے ،ان کے ساتھ گفتگو کرنے اور ان کے رہن سہن کی جگہ تھی ،یہ مسجد مسلمانوں کا ایک ایساسماجی مرکز بن گئی کہ جہاں مسلمانوں کے نکاح ہوتے تھے اوراسی مسجد کے اندر دوسرے قبائل سے معاہدے ہوا کرتے تھے، عیسائیوں سے دس معاہدے اسی مسجد کے اندر ہوئے تھے۔ یہی مسجد مسلمانوں کا سیکرٹریٹ تھا۔ یہ ان کا ریکارڈ روم اور ریکارڈ آفس تھا اور یہ مسجد ہی مسلمانوں کا پروٹوکول اورچیف گیسٹ ہاؤس تھا جہاں مہمانوں کو لا کر ٹھہرایا جاتا تھا اور آ ج یہ مسجد کیا ہے؟ اس نظام خلافت کے اُجڑ نے اور مسجد سے اس نظام خلافت کو جدا کرنے کے بعد اور عیسائیت ومغربیت کی طرز پر دین اور دنیا کو جدا کرنے کے نتیجہ میں جب ہم نے اس دین کو مسجد سے جداکیا تو خلافت کی روح مجروح ہوئی ۔ اور اس خلافت کی ردا مجروح ہونے کے نتیجے میں یہ اُمتِ مسلمہ دلدل کے اندر دھنستی چلی گئی۔
میں علمائے اُمت کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب تک مسجد کا یہ گم شدہ وقار اسے واپس نہیں دلایا جائے گا ،جب تک نظام مملکت کو اسی صورت میں استوار نہیں کیا جائے گا کہ مملکت کا سب سے بڑا عہدیدار اس مملکت کی سب سے بڑی مسجد کا امام بھی ہو گا اس کا خطبہ بھی اسی میں پیش کرے گا، اس وقت تک یہ راستہ ہمارے درمیان کھلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں یہ ضرورت ہے کہ آج دنیا کے اندر جتنی جمہوری حکومتیں اورپیغامات ہیں، وہ ایک ایک کر کے ٹوٹ چکے ہیں ستر سال پہلے روس سے ایک نظام نکلا جسے ہماری آنکھوں نے دیکھا، ہمارے سامنے روس کا وہ عالمی پردہ ٹوٹ گیا ،شکست و ریخت کا شکار ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بطن سے چھ ریاستیں پیدا کر دیں۔ اور اب وہ ریاستیں نظامِ خلافت کی طرف پلٹ رہی ہیں۔اس مملکت کو جسے پاکستان کہتے ہیں جسے ٢٧ رمضان کی پاکیزہ ساعتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا۔ اور ٥٤ سال پہلے ایک قوم جو شکستہ تھی ، برطانوی عیاریوں کی ستائی ہوئی تھی اور ہندو کی مکاریوں سے تنگ آچکی تھی، وہ قوم اپنے نظریئے اور اپنی خلافت کے تصورات کے لئے ایک ملک ڈھونڈ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ مملکت دے جسے ہم نظام خلافت کا ماڈل بنائیں گے، جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ مملکت عطا کر دی اب ٥٤ سال سے ملک اس قوم کو ڈھونڈ رہا ہے، کو وہ قوم کہا ں چلی گئی جس نے میرے ساتھ یہ عہد کیا تھا ،یہ وعدہ میرے ساتھ نبھانے کا عزم کیا تھا کہ وہ مملکت ملے گی تو اسے اسلام کا ماڈل بنائیں گے۔آج ہم لوگ ترس گئے ہیں کہ یہ مملکت قر ضوں،مغربی تہذیب اورذرائع ابلاغ کی فحاشی کے اندر لتھڑی ہوئی ہے،ہمارے ہاں اس قوم کے اندر جشن بہاراں اور بسنت کے نام پر ایک ایسی تہذیب کو جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں پروان چڑھاتے ہیں۔ اور یہ بات یاد رکھئے کہ مسلمانوں کا عقیدہ مر جاتا ہے اگر اس عقیدہ کی بنیاد پر کوئی صحت مند ثقافت نہ اُٹھائی جائے اور مسلمانوں کی ثقافت بھی مر جاتی اگر اس کے پشتیبان کے طور پر کوئی تہذیب نہ اٹھائی جائے اور مسلمانوں کی تہذیب بھی مر جاتی ہے اگر اس کی بنیاد پر کوئی صحت مند تمدن قائم نہ کیا جائے اور مسلمانوں کا تمدن بھی مر جاتا ہے اگر اس کی پشتیبا ن کے طور پر کوئی ریاست قائم نہ کی جائے اور مسلمانوں کی ریاست بھی مر جاتی ہے اگر اس کا پشتیبان کوئی اُمت موجود نہ ہو اور وہ کون سی اُمت کہ
﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلَو ءامَنَ أَهلُ الكِتـٰبِ لَكانَ خَيرًا لَهُم مِنهُمُ المُؤمِنونَ وَأَكثَرُهُمُ الفـٰسِقونَ ١١٠ ﴾... سورة آل عمران
''تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کیلئے بہتر تھا۔ ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر فاسق ہیں۔''
آج یہ اُمت اس خلافت کی نگہبان ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا جو پرچم ہمارے سپرد کیا تھا، آج اس کو تھامنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا اس وقت انتشار کا شکار ہے ،مغرب خاندانی نظام کے اعتبار سے بکھر چکا ہے، وہاں کے سات ملکوں کے شہریوں کے پاسپورٹ پرباپ کی بجائے ماں کا نام لکھا جاتا ہے، ٣٧ فیصد بچے اپنے باپ کا چہرہ پہچاننے سے قاصر ہیں۔ وہ مغرب جس کی تہذیب کٹ چکی ہے جو آبرو باختہ ہو چکی ہے جو ایک فاحشہ اور طائفہ کی طرح بدنام دنیا میں پھرتی ہے،آج اس فاحشہ تہذیب کو اپنے گلے سے لگانے کے لئے ہمارے بھی چند لوگ تیار ہیں ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی قرار دادِ مقاصداور اس کے آئین کے سیکشن ٢٢٧، اسلامی نظریاتی کونسل کے تحفظات اس کی رپورٹیں اور یہ سارے شرعی ادارے اس کو نظام خلافت کی طرف لے جانے والے ہیں۔ افسوس ہے کہ ملک کا دستور اس ملک کو نظام خلافت کی طرف لے جانا چاہتا اور اسے کتاب وسنت کی سچی تصویر بنانا چاہتا ہے، لیکن ایک ایسی تصویر جو جاگیر داروں اور مغربی تہذیب کے رسیا لوگوں کی شکل میں اس نظام خلافت کا علیٰ منہاج النبوہ راستہ روکے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اندر یہ روح بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ پھر اُٹھیں اور دنیا جس پیغام سے محروم ہے وہ نوید اُنہیں سنائیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ آج مشرق و مغرب میں مسلمانوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ تاریخ کے اور اق کو توجہ کے ساتھ دیکھئے، دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے والا ہے اور دنیا کے اس نقشے پر آپ غور کریں، وہ لوگ جنہوں نے ایک گول رنگ کا کرّہ دیکھا ہے جس پر تین حصے سمندر اور ایک حصہ خشکی ہے، اس کے اوپر کچھ خط اوپر سے نیچے کو آتے کچھ دائیں سے بائیں چلتے ہیں۔ ان خطوں کو دیکھئے، مسلمان مراکش سے لے کر ملائیشیا تک اس کرے میں ایسے حصے پر موجود ہیں کہ جسے خط استوا کہتے ہیں۔ اس حصے کے اندر موسم بہترین، اجناس بہترین، فصلیں اور معدنیات بہترین اور اس حصے کے اندر افرادی قوت کی پوری توانائیاں موجود ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس اُمتِ مسلمہ کی ان ساری قوتوں کو جو اللہ کا عطیہ ہیں ،اس لئے دے رکھا ہے کہ یہ اُمت اس پیغام کو کہ جسے یہ بھول چکی ہے، اس سنت کو جسے یہ فراموش کر چکی ہے، وہ اُسوہ جو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا ہے پھر سے اُٹھائے اپنے سامنے رکھے اور اس عزم کے ساتھ آگے بڑھے کہ جو پیغام آپ کو دیا گیا ہے، اس کو بجا لائے:
﴿هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ٣٣ ﴾...سورة التوبة
''وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے، اگرچہ مشرکوں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔''
آج دنیا کے کافر خواہ کچھ کہیں لیکن یہ نظام آگے بڑھ رہا ہے یہ نظام یورپ کے وسط میں آگے بڑھ رہا ہے اور شیشان و چیچنیا کے منجمد شہروں کے اندر ایک حرکت پیدا کر رہا ہے۔ یہ پیغام دنیا کے کونے کونے کے اندر پیوست ہورہا ہے۔ اس پیغام کے خوف سے امریکہ کی یونیورسٹیوں کے اندر فنڈامینٹل ازم اور ٹرائیبل ازم کی تحقیقات جاری ہیں، وہ سو چ رہے ہیں کہ یہ کیاقوم ہے کہ جن کی مائیں اپنے شہیدوں کے جنازوں کا استقبال کرتی ہیں، یہ کیسی قوم ہے کہ جس کی مائیں خنسا ؓکی طرح اپنے بیٹوں کی شہادت کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔اُنہوں نے وہ کون سی زرہیں پہنی ہیں کہ ہمارے ایٹم بم سے بھی خوف زدہ نہیں ۔اگر چہ یہ قوت بھی دین کی عطا کردہ قوتوں میں سے ایک ہے لیکن وہ قوت جس سے وہ خوف زدہ ہيں،وہ یہ ہے کہ اس اُمت کے اندر ایمان اور جہاد کی قوت پھر نہ اُٹھ جائے کہ دنیا پر پھر سے غالب آنے کا سامان وہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہی بات سورۂ نور کے اندر فرمائی اور سورہ صف کے اندر تو یہ وعدہ کر رکھا ہے، آیتِ استخلاف میں مسلمانوں کو یہی برہان عطا کر رکھی ہے کہ تجاهدون اگرتم جہا د اختیار کروگے، اپنے اَموال اور اپنے انفس سے تو پھر کائنات میں کوئی بھی تمہا راستہ نہیں روک سکے گا اور یہ راستہ روس کی آہنی قوت نہیں روک سکی ،یہ راستہ امریکہ کی قوت بھی نہیں روک سکے گی، یہ راستہ کوئی سازش بھی نہیں روک سکے گی۔ان شاء اللہ
جس اُمت کو فقر اور اقتصاد کا تصور دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ "الاقتصاد نصف المعيشة" تمہاری معیشت میانہ روی کی معیشت ہونی چاہئے، آج ہم افراط و تفریط کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ خلافت کا نظام"الإقتصاد نصف المعيشة" کی تصویر تھی، ٢٢ لاکھ مربع میل کا تاجدار اپنے جسم پر پیوند پہنے ہوئے ہے۔ اپنی پشت پر رات کو گشت کرتے ہوئے خوراک کا سامان اُٹھائے ہوئے راتوں کو پہرا دے رہا ہے،امر بالمعروف کے ایک ایک پہلو کی نگہبانی کر رہا ہے اور نہی عن المنکر کی صورتیں وضع کر رہا ہے، عالم کے اندر پیدا کی ہوئی خرابیوں کو دیکھ رہا ہے، اُصولِ مشاورت کو اپنی انتہاؤں تک پہنچا رہا ہے۔محمد رسول اللہﷺ نے وقتی مصالح کے تحت مالِ غنیمت تقسیم کیا تھا، لیکن عراق کی یہ جو زرخیز زمینیں ہیں، اب تقسیم کی بجائے اسلامی مملکت کا حصہ ہیں تاکہ ریاست کا سازو سامان پیدا کیا جائے ،مشاورت آگے سے آگے بڑھتی ہے اور اس طریقہ سے خلافت کا نظام پوری قوت کے ساتھ انسانیت کے سامنے روشن ہوجاتا ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے اپنے خلافت کے نظام کے ذریعے سے انسانیت کو جو حکمرانی کے اُصول عطا فرمائے ہیں اس میں انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کو ختم کرکے انسانیت پر لا الٰہ الا اللہ کی حکمرانی کو قائم کیا گیا ،معاشرے میں عدل بین الناس کا ایک عدیم المثل نظام قائم کیا۔جبکہ آج کے معاشرے میں افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ وکیل کرنے کی بجائے جج کر لیا جائے۔اور ایک ایک ہائی کورٹ کے اند ر ہزاروں مقدمات انسانیت کے منہ پر طمانچہ بنے ہوئے ہیں۔ آج انسان معاشرے کی خرابیوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ خلافت کا نظام ہے جو عدالتوں کے نظام کو درست کرے گا، انصاف کے میزان اور ترازو کو قسطاس کے ساتھ قائم کرےگا ۔
جب تک خلافت کا نظام قائم نہیں ہو گا، معاشرے میں عدالتوں اور کچہریوں میں یہ ظلم جاری رہے گا،اس معاشرے میں موجود ایکسپورٹیشن کا ہرملازم اس بات کو سنے،عوام الناس، تاجراورکاشتکار اس بات کو سنیں کہ جب تک یہ نظام خلافت اپنے عدل اور عمل اجتماعی کو یہاں پر نافذ نہیں کرے گا تب تلک تمہاری عدالتیں انصاف کی بجائے ظلم کاشت کرتی رہیں گی تمہارے ہاں عدل کی بجائے لوٹ کھسوٹ جنم لیتی چلی جائے گی ۔سعودیہ میں دیکھ لیجئے جہاں یہ نظامِ خلافت آیا، سوڈان کے اندر ایک قوت بخش نظام کے طور پر اُبھر رہا ہے اور شکست خوردہ حالات اور اُجڑے ہوئے منظر میں کہ افغانستان میں ( شریعت کی جس تعبیر کو بھی وہ اپنائے ہوئے ہیں )ایک امن کی کیفیت کو پیدا کر رہا ہے اس ہلاکت خیز دور اور انتشار کے اندر اپنے ہاں عدلِ اجتماعی کے اس نظام کو لانے کے لئے نظام خلافت کے پرچم تلے آجائیں، یہ نظام خلافت کتاب وسنت کا داعی ہے ۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نظام خلافت کو نقب لگانے کے لئے یہودیوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ یونانیوں کے علوم کو کتاب و سنت کے علو م کے ساتھ پیوست کیا جائے۔ بغداد کے اندر پہلا فکری انتشار پیدا کیا گیا کہ مسلمانوں کو جو کتاب و سنت کی حجت اور برہان عطا کیا گیا تھا، اس کے اندر یونانی فکر کا پیوند لگانے کے بعد اعتدال کے فتنے پیدا کئے گئے۔اشاعرہ اور معتزلہ کی بحثیں چھیڑی گئیں پھر ہم نے دیکھا کہ اس دین اورپیغام کے اندر، دین کے اس ماڈل اور آفرینش میں اُسوۂ حسنہ میں سب سے پہلا داغ ایران اور خراسان کی سرزمیں کے اندر لگایا گیا، ایرانیوں نے اپنی مجوسیت اور اس کے باطل عقائد کو اس دین اور پیغام کے ساتھ پیوست کر کے اس دین کی روح کو مجروح کیا اور اس دین کے ساتھ تیسرا پیوند برصغیر کے ہندو مت اور ہندو مذہب کی جو معاشرت اور عقائد تھے اس کا اضمحلال اس کے اندر داخل کیا گیا اور اب وہ دین الخالص، وہ دین جسے دنیا کے اندر غالب ہو نا تھا، اس کے کئی ایڈیشن ہم نے بنا ڈالے۔ ایک وہ ایڈیشن جو معتزلہ کے ذریعے سے یونانی فکر کے ساتھ ملا ہوا تھا اور دوسرا وہ جو ایران اور خراسان کے ساتھ ملکر عجمی اور متصوّفانہ عقائد کے ذریعے سے پیوست تھا اور تیسرا وہ جو ہندوستان کی صنمیّت اور علم اصنام کے حوالے سے ہمارے دین میں ایک نیا ملغوبہ پیداکرتا چلا گیا۔
ضرورت ہے کہ اس نظام خلافت کے لئے کتاب و سنت کی سچی اور سُچّی تعلیمات کو بلند کیا جائے۔ ١١ ہجری تک نبی اکرم ﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ کاجنگ کا آخری پرچم جو اسامہ بن زید کے ہاتھوں میں دیااور جب یہ مرحلہ آیا اور سوچا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف فرما نہیں ہیں اور ایک غلام زادے کے سپر د اتنے بڑے لشکر کی قیادت جو ہم سونپ رہے ہیں کسی اور قریشی النسل اور نام و نسب والے کے پاس ہونی چاہئے تو صدیق اکبر نے فرمایا (اور یہ روح خلافت کا کمال تھا )کہ جس لشکر کی قیادت جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اُسامہ کے ہاتھ میں رکھی ہو، کسی کے اندر یہ قوت نہیں ہو سکتی کہ وہ ان ہاتھو ں کو یا اس علم کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ پھر اس طرح سے جواب دہی کا ایک ایسا احساس پیدا کیا گیا کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سے چھوٹی عورت ایک بڑھیا بھی سر عام خلیفہ وقت کا احتساب کر سکتی ہے، وہ اس کے معاملے میں پوچھ سکتی ہے اور سیدنا عمر فاروق یروشلم کے علاقہ سے واپس آرہے ہیں۔ راستے میں ایک بڑھیا کا شکستہ خیمہ دیکھتے ہیں بڑھیا سے ا س کی حالت پوچھتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ خلیفہ کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ تو عمر نے فرمایا:معافی چاہئے کہ میرے پاس اُمور سلطنت بہت زیادہ ہیں ۔تو وہ کہتی ہے کہ اگر اُمورِ سلطنت زیادہ ہو گئے ہیں اور تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو بہتر ہے کہ منصب ِخلافت سے الگ ہو جاؤ ورنہ اس کی ذمہ داریا ں نبھاؤ۔ خلیفۃ المسلمین اس بات سے ناراض نہیں ہوتا بلکہ درخواست کرتا ہے کہ میں خدمت کے سارے تقاضے پورے کروں گا، مجھے معافی دے دو اور پھر معافی نامہ لکھنے کے لئے درخواست کر تے ہیں۔ ٢٢ لاکھ مربع میل کے حکمران عمر فاروق ؓبڑھیا سے وہ معافی نامہ لکھواتے ہیں اور پھر یہ وصیت کرتے ہیں کہ میں جب مروں تو میرے ساتھ میرے اس معافی نامہ کو بھی دفن کر دیا جائے اور پھر نزع کے عالم میں اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ اُمت کی ماں سید ہ عائشہ ؓ کے پاس جاؤ اور یہ درخواست کرو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی صدیق اکبر ؓ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے، اُمت کی ماں نے اس کی اجازت دے دی تو اس کے باوجود فرمایاکہ بیٹے ابھی میرے سانس باقی ہیں اور میں خلیفۃ المسلمین ہوں جب میرے سانس اُکھڑ جائیں اجل مسمیٰ آجائے، میں اللہ کے پاس پہنچ چلاجاؤں تو تدفین سے پہلے ایک مرتبہ پھر اُمت کی ماں سے میرے لئے تدفین کی اجازت چاہنا۔ خلافت اسلامیہ میں جواب دہی اور مسؤلیت کے ایسے واقعات سے کتب تاریخ بھری پڑی ہیں، اطاعت بالمعروف کا ایسا نمونہ اوراقتدار کی حرص و ہوس سے الگ رہنے کی ایسی نظیراور کہیں نہیں ملتی۔
چاروں خلفا نے جب خلافت کا حلف اُٹھایا توابتدائی خطبات اور تقریرمیں ان کا کیا موضوع تھا ؟کتاب و سنت سے تمسک کا کیا معاملہ تھا ؟اپنی سمع و طاعت کو معروف کے ساتھ کیسا مخصوص رکھا ہے، یہ اس نظام خلافت کی وہ قوت ہے جو اس خلافتِ راشدہ کے اندر پوری قوت کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے!
پھرہم دیکھتے ہیں کہ یہ خلافت پوری قوت کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ شورائیت اپنی پوری قوت ، اہل الرائے اور قانون کی بالاتری کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ بیت المال میں امانت کے تصور کے ساتھ تصرف کیا جاتا ہے ،حکومتوں کا یہ تصور ہے کہ کتاب و سنت کی بالا تری ہے اور خلیفہ بھی اس کتاب و سنت کی بالا تری کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے او ر اقتدارِ اعلیٰ انسانوں کی بجائے الله أحکم الحکمین کے پاس ہے۔ ہمارے ہاں یہ جو عوام الناس کے اقتدار کا نعرہ لگایا جاتا ہے،گمراہ کن اور شرکیہ ہے۔ إن الحکم إلا لله کہ حاکمیت واختیار تو صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ اقتدار خلفاے امت کے پاس ایک امانت کے طور پر موجود ہے اور پھر یہ دین ایک عالمگیر دین ہے ۔آج لوگ گلوبل ولیج اور یونیورسل ازم کی بات کرتے ہیں جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے اندر پہلا عالمگیر نظام دیا،اس سے پہلے دنیا کے اندر پیغام وقتی ہوا کرتے تھے۔ علاقائی طبقاتی اور لسانی بنیادوں پراستوار تھے جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام ایک عالمگیر پیغام تھا جسے صحابہ کرام نے خلافتِ راشدہ کے دور میں اپنے زمانہ میں تین بر اعظموں کے مختلف حصوں پر قائم کر کے انسانوں کو یہ بتلایاکہ یہ پیغام صرف حجاز ، خراسان اور ایران کے لئے نہیں تھا بلکہ سمندروں سے پار اور خشکیوں سے پرے جہاں جہاں بھی دنیا کے حصے موجود ہیں، وہاں تک پہنچے گا۔یہ نظام ایک عالمگیری نظام ہے۔١٤٢٢ سال پہلے یہ نظام،صحابہ کرام کا یہ اثاثہ ایک عالمگیر، یونیورسل اور گلوبل اثاثہ تھا اور آج ١٤٢٢ سال گزرنے کے بعد یہ صرف ایک عالمگیر پیغام ہے۔دوسری طرف امریکہ کا پیغام عالمگیر نہیں، اس کے پیغام کو توخود امریکہ میں نہیں مانا جاتا ،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کے انتخابا ت ہوئے اور آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ ڈیڑ ھ مہینہ تک فیصلہ نہ ہو سکا،ان کی کرپشن اور خرابیوں کی داستانیں دنیا بھر کے انٹر نیٹ اور مختلف میڈیا کے ذریعہ سے ان کی تفصیلات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ جو لوگ اپنے گھر کا نظام نہیں سنبھال سکتے، وہ عالمگیر نظام کی نوید کیسے سنائیں گے؟ عالمگیر نظام کی نوید تو جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر منشورِ انسانیت پیش کرتے ہوئے بتا دی تھی ۔
میں مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہوں گا کہ ١٢١٥ء میں ہک جاؤن کے زمانہ میں انگلستان میں عالمگیر یا بنیادی حقوق کا تصور بھی نہیں تھا، عالمگیر تصور انقلابِ فرانس بھی نہیں ہے، عالمگیر تصور تو اقوام متحدہ کے ١٩٤٨ میں فنڈا مینٹل رائٹس اور بنیادی حقوق کا چارٹر بھی نہیں ہے۔ دنیا کا پہلا عالمگیر تصور محمد رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پیش کیا اور قیامت تک کے لئے یہ منشور ایک عالمگیر تصور پیش کرتا ہے ۔لیکن آج ہم علاقائی ہیں محمد رسول اللہﷺ نے انسانیت کو ایک عقیدہ کی بنیاد پر قائم کیا
؏ اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے !
دنیا کے اندر اسلام وہ پہلا دین تھا جس نے قومیتوں کو لسانی، علاقائی اور جغرافیائی تصورات ختم کر کے ایک عقیدے کے تصورات میں پرو دیا۔ ایک ملت ملة أبیکم إبراهیم کا تصور پیش کیا۔ دنیا کے اندر یہ خلافت کا تصور آج اس عالمگیر حوالہ سے ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ وہ نظام ہے کہ جس کے اندر کسی اپوزیشن یا اصحابِ اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ خلافتِ راشدہ ایک منظم جماعت کا نام تھا، وہ نظام یا جماعت ایک کتاب و سنت کے نظام کے ساتھ منسلک تھی۔یہ بات کون نہیں جانتا کہ صحابہ ایک جماعت اور ایک حزب اللہ کے اندر شامل ومنحصر تھے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب و سنت کی بنیاد پر اُن تعصبات کو ختم کریں۔
آج اگر ہم دیکھیں کہ وہ کون سی رکاوٹیں ہیں کہ دنیا کے اندر خلافت جیسا نظام اور شریعت جیسا قانون، حجۃ الوداع جیسا منشور انسانیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔
اس کی تین وجوہات سامنے آتی ہیں: سب سے پہلے یہ کہ جب تک ہم اپنے علوم کو ہر قسم کے یونانی ، مجوسی ایرانی اور ہندی تصور سے پاک کر کے اس دین کو الدین الخالص نہیں بنائیں گے اس وقت تک یہ پیغام 'پیغامِ خالص' نہیں بن سکتا۔ہم اپنےدین کے تقاضوں کے مطابق قران و سنت پر جمع ہوجائیں اور یہ اُمت اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت کہلوانے کے لئے کتاب و سنت پر جمع ہو جائے۔ یہ عصبیتیں اور فرقہ وارانہ تصورات چھوڑ دیں۔ صحابہ ایک تھے ،صدیق اکبرؓ نبی اکر م ﷺ کے سسر تھے، آپ ؓ کی بیٹی سیدہ عائشہ ؓ ان کے گھر میں ہیں،عمر فاروق ؓ کی بیٹی آپ ﷺ کے گھر میں تھی، سیدنا علی ؓ کی صاحبزادی عمر فاروقؓ کے گھر میں تھیں، اسی طرح حضرت ام عمیسؓ کبھی وہ سیدنا جعفر ؓکے گھر میں ہیں اور کبھی صدیق اکبر ؓ کے گھروالی ہیں اور کبھی علی ؓ کے گھر میں ہیں۔ ان کے بچوں کے نام ایک جیسے ہیں۔ آپس میں﴿رُحَماءُ بَينَهُم﴾ کی تصویر بنے ہیں ۔قران کہتا ہے کہ وہ لوگ ﴿رُحَماءُ بَينَهُم﴾﴿لَّهِ أُولـٰئِكَ هُمُ الصّـٰدِقونَ﴾ اور ﴿وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ﴾ ہیں اور کبھی ﴿رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ﴾ یعنی آسمان والا ان سے راضی ہو گیا اور یہ آسمان والے سے راضی ہو گئے ۔لیکن وہ کون ہیں جو آسمان والے کے فیصلے سے راضی ہو گئے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس اُمت کی تاریخ ایک ہے،اس کا پیغام اور نظام بھی ایک ہے افسوس کہ یہ اُمت ایک نہیں۔ جب تک اس خلافت کے راستہ میں پہلی اور آخری رکاوٹ یعنی اس اُمت کے انتشار کو وحدانیت سے نہ بدلا جائے گا، ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ علمائے اُمت اس بات کو سوچ لیں اور قیامت کے دن اپنے احتساب اور مسئولیت کےلئے تیار ہو جائیں کہ ان کے ایسے فقہی اختلافات کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ جس کتاب و سنت پر لوگو ں کو قائم کر کے گئے تھے اور جسے قران نے کہا تھا کہ
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ..... ٧ ﴾... سورة الحشر
تم نے یہ معیار چھوڑ کر اپنی ذہنی علاقائی اور طرح طر ح کے تعصبات اور یہ پیغام کیوں اختیار کر لئے ،سوچ لیجئے کہ اس دن آ پ کے پاس کیا جواب ہو گا،اگر آپ اس جواب دہی کے لئے تیار ہو جائیں تو آج ہمارے زمانے میں انسان پھر انسانی غلامی سے نجات پا لے گااور انسانوں کے لئے کائنات کے اندر ایک ایسا نظام پیدا ہو جائے گا، خلافت کے ذریعہ ایک ایسی قوت اور مساوات کی بنیاد پڑ جائے گی کہ زمیں خزانوں کو اُگل دے گی ۔آسمان برکات نازل کر دے گااور اُمت ایک دفعہ پھر( جیسا کہ قران مجید میں کہا گیا کہ )خوف کے بعد امن کی حالت میں تبدیل ہو جائے گی۔سورۂ نور کے اندر ایمان اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ جس استخلاف فی الأرض کا وعدہ کیا گیا ہے، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اس نظام کو اپنانے کے بعد جو پہلا انعام انسانیت کو ملے گا،وہ یہی ہے کہ جس خوف میں آج ہم مبتلا ہیں اس سے نجات مل جائے گی اور امن کی حالت آجائے گی۔ صنعاء سے حضر موت تک ایک بڑھیا سونا اٹھائے آئے گی کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے والا نہیں ہو گا جب کہ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ایک دکان سے گھر تک جانے کا راستہ بھی محفوظ نہیں۔ آج ہمیں اپنی اس شکستہ حالی پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔اور یہ ملک پاکستان اس خلافت کا سب سے بڑا مرکز ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہﷺ کی قائم کردہ مدینہ کی اسلامی ریاست کے بعد، ہم نے اللہ سے ایک عہد کیا ہے کہ اس ملک کے اندر کتاب و سنت کے نظام کو قائم کریں گے ۔ایک نفاق ،تضاد اور تناقض ہے جس میں ٥٤ سال سے ہم گرفتار ہیں،آئیے اُٹھیں اور اس نظام خلافت کو قائم کر دیں۔ سارے طبقات، سارے مسالک، ساری قوتیں اور سارے حصے جب ایک اُمت کے جھنڈے تلے آجا ئیں گے تو یقین جانئے کہ یہ خشک سالی ختم ہو جائے گی۔قحط کے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے، عدالتوں کے اندر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی رسوائی کا باب بند ہو جائے گا،یہ عزتوں کا نیلام ختم ہو جائے گا، یہ فحاشی اور بےحیائی کے سامان ختم ہو جائیں گے ،گھروں کے اندر امن ہو گا، محبتوں کا پرچارہو گا، دنیا بھی سنورے گی اور اس کے نتیجے میں آخرت کا نظام بھی سنورے گا اور پھر﴿ يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ﴾اقوامِ عالم خواہ اس چراغِ خلافت کو کتنا ہی بجھانے کی کوشش کریں ،ایسا ہر گز نہیں کر سکیں گے۔
بوسنیا ، چیچنیا اور افغانستان میں تم نے دیکھ لیا ،یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان ، اعمالِ صالحہ، جہاد مالی، اور جہادِ نفسی کرنے والوں کے ساتھ اس وعدہ کو برقرار رکھا ہے، آئیے خلافتِ راشدہ کی کانفرنس میں یہ پیام لے کر جائیں، ایک عزم لیکر جائیں کہ ہماری نمازیں، ہمارے روزے، زکوٰۃ اور دیگر تمام اعمال کی برکات پوری طرح اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتیں جب تک ان کا مقصود کتاب و سنت پر مبنی نظام خلافت جسے الخلافۃ علی منہاج النبوّہ بھی قائم نہ کردیا جائے۔ سیدنا نعمان بن بشیر نے اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث پیش کی، وہ حدیث بڑی طویل ہے اور اس کی تشریح اس سے طویل تر ، لیکن اس حدیث میں محمد رسول اللہ ﷺ نے پانچ مراحل گنوائے کہ یہ خلافت کیسے قائم ہو گی اس میں زوال کیسے آئے گا اور پھر اس زوال سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا اور پھر خلافت علی منہاج النبوّہ کیسے قائم ہو گی ۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کا سٹیج تیار ہو چکا ہے ،طاغوتی قوتیں مجتمع ہو چکی ہیں اور عالم اسلام جو کہ ایک ذہنی غلامی کی شکار قیادت کے پنجے میں جھکڑا ہوا تھا، اب انگڑائیاں لے رہا ہے۔ آئیے اپنے اوپر اللہ کے دین کو قائم کریں، معاشرے سے شرک وبدعات کا خاتمہ کریں، اللہ کی توحید کو قائم کریں اور زندگی کے ہر میدان میں کتاب و سنت کو لیکر نکلیں اور اس ملک کے اندر اللہ سے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کریں اور کتاب و سنت، خلافتِ راشدہ اور اُسوہ حسنہ کا یہ پیغام لے کرزمانے کے اندر آگے بڑھیں۔ ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور ہماری نسلیں بھی سدھر جائیں گی۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!
٭٭٭٭٭