جمہوریت اور حاکمیتِ الٰہیہ

درپیش حالات کے تناظر میں
اہلیانِ پاکستان کے دل ودماغ اورقومی اوقات وصلاحیتیں اس قدر بے مصرف کیوں ٹھہریں کہ تین برس ہونے کو آئے ہیں، آئے روز صدرِ پاکستان کی بددیانتی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان، حکومت کو حکم دیتی ہے کہ قوم کاپیسہ واپس لانے کا خط لکھا جائے لیکن وقت کا صدر اور پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین دستوری استثنا سے فائدہ اُٹھانے پرہی مصر ہے۔6؍اکتوبر 2007ءکوبدنام زمانہ این آر او(قومی مفاہمتی آرڈیننس) جاری ہوتا ہے،16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بنچ کا مختصر فیصلہ آتا ہے، پھر دسمبر2011ء میں مفصل فیصلہ بھی آجاتا ہے۔ بار بار حکومت سے اصرا رکیا جاتا ہے، وزیر اعظم پر توہین عدالت کا الزام بھی لگتا ہے۔ وزیر اعظم شہید ِعدالت بننے کا منتظر ہے، عدالت کے احترام اور اُس کے اپنے ہونے کے برملا دعوے کرتا ہے لیکن کبھی عدالت کے حکم پر عمل درآمد بالکل نہیں کرتا۔اب صاف اور برمَلا یہ کہتا ہے کہ پارٹی مفادات اور اپنے چیئرمین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کروں گا، چھ ماہ کی قید منظور ہے۔ سیاسی وفاداری اتنی اہم ٹھہری ہے کہ اب تو وزیر اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُس کے فرزند سیدموسٰی گیلانی نے بھی بلاول بھٹو کے منہ بولے بھائی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کہاں گئے عہدے اور منصب قبول کرتے وقت آئینی حلف نامے اور کہاں گیا قومی مفاد اور دین واخلاق؟ پھر بھی ہماری قوم نادان ہے کہ ایسے ہی سیاسی مہروں کو منتخب کرتی چلی آتی ہے۔ قوم کاپیسہ پہلے برباد کیا گیا، اب قوم کا وقت اور ذہن بے کار مصارف میں اُلجھایا جارہا ہے۔ کیا یہی حکومت کرنے کے طریقے ہیں، انہی طریقوں سے قومیں شادکام ہوتی ہیں؟
عدالت کی بھی مہربانی کہ پورے چار سال کے بعد خدا خدا کرکے فیصلہ تو سنادیا، صدشکر کہ ابھی اسی دورِ حکومت میں ہی فیصلہ آگیا، وگرنہ تو حکومتیں اور افراد گزر جاتے ہیں اور مغرب کے دئیے عدالتی نظاموں کے منصب دار گڑے مردے اُکھاڑنے لگ جاتے ہیں۔ آج اگر ہماری حکومت اتنی بے دھڑک ہوکر عدالتی فیصلے سننے کی منتظر بنی بیٹھی ہے کہ جو کرنا ہے، عدالت ہی کرے،ہم نے اپنی رَٹ نہیں چھوڑنی، تو اس کے پس پردہ عدالت کی بے جا تاخیر اور حکمرانوں کی یہی ٹائمنگ کارفرما ہے کہ انتخابات میں تھوڑا سا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم اور صدر پہلے ہی پاکستانی تاریخ کے طویل ترین وقت پانے والے صدر اور وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اُن کے حلیف کہتے ہیں کہ ان کی ٹرم تو پوری ہوہی چکی، اب عدالت اُنہیں معزول بھی کردے تو اس سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مستقبل میں دوبارہ ہمدردی کے ووٹ لے کرجاہل ووٹروں سے منتخب ہونے کے قوی امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ جب سوا دو سال قبل عدالت نے فیصلہ کرہی لیا تھا، تومکمل فیصلہ کو دوسال لٹکانے اور پھر اب توہین عدالت کی رٹ لگاکر، اس پورے عدالتی نظام کو رُسوا کرنے سے کیا حاصل؟ درپیش صورتِ حال کا ہماری جمہوریت میں کوئی حل ہے بھی یا نہیں ؟ ملک اور جمہوریت کے دو اہم ترین ستون ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہیں۔ عدلیہ اپنی پوری اجتماعیت کے ساتھ اور انتظامیہ اپنے سب سے بڑےعہدیدار وزیر اعظم کے ذریعے... یہ ہے وہ جمہوریت اور اس کی جانب 60 سالہ پیش قدمی جس کے تقدس کی مالا جپتے ہوئے ہم ہمیشہ خوبصورت خواب ہی آنکھوں میں سجاے رکھتے ہیں۔ اسی جمہوریت کا انعام اب اہل عرب کو بھی عطا کردیا گیا ہے کہ اُن کی قربانیوں اور اسلامی جذبات کا خون اب اِسی سے ہوگا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہمارے دکھوں کا مداوا بھی ہے اور کیا اسی سے اُمتِ اسلام، دنیا وآخرت کے ثمرات حاصل کرلے گی؟
عرب دنیا میں اسلامی تحریکیں آج جمہوریت مل جانے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔ ہر ملک جس میں عوامی انقلاب آیا ہے، وہاں جمہوریت کو مسلط کردیا گیا ہے۔ مصرہو یا تیونس، دونوں جگہ بڑی قربانیوں شہادتوں کے بعد ، اسلام پسندوں کو انتخابات میں بھاری بھرکم کامیابیاں ملی ہیں۔ جہاں ان ممالک میں اسلام پسندوں کے لئے انتخابات ایک بڑی نوید بن کر آئے ہیں، وہاں پاکستان میں جمہوریت کا فیضان یہ ہے کہ 62 سال جمہوری سائے تلے گزارنے کے بعد پاکستان میں اسلام، جمہوری کلچر کا ایک ناکام حوالہ بن چکا ہے۔اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی بھی نمایاں سیاسی جماعت کے نزدیک اسلام کا نعرہ ایسا اہم نہیں رہا کہ اس سے انتخابات میں کامیابی کا تصور وابستہ کیا جائے۔مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسندوں کے لئے یہاں کسی نمایاں کامیابی کا امکان بھی اب معدوم ہوتا جارہا ہے۔ جمہوریت کی یہ کارفرمائی بھی اہل اسلام کے لئے قابل غور ہے!!
جمہوریت کی ایک مہربانی یہ بھی ہے کہ دسیوں مقامات پر اسلام پسند کسی اتفاقی وجہ، ردعمل یا عوام کی اسلام سے بہتری کی اُمید کی بنا پر اقتدار میں تو آچکے ہیں لیکن اسلامی جماعتوں کے انتخابات میں ایسی کامیابیوں سے اسلام کو کبھی کوئی خاص فائدہ حاصل ہوا بھی ہے یا نہیں؟یہ اصل سوال ہے... ماضی میں الجزائر میں اسلامک فرنٹ، فلسطین میں حماس، ترکی میں رفاہ پارٹی اور پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے میں مجلس عمل کی صورت میں اسلام پسندوں کو کامیابیاں مل چکی ہیں، لیکن اسلام پسندوں کی اِن جمہوری حکومتوں کے کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ حال ہی میں تیونس میں تو 40 فیصد نشستیں حاصل کرنے کے بعد وہاں کی حركة النّهضة حکومت بنا کر اپنا وزیر اعظم بھی لا چکی اور مصر میں اخوانی اور سلفی جماعتیں بالترتیب 43 اور 24 فیصد نشستوں میں عظیم الشان کامیابی حاصل کرنے کے بعد دوتہائی سےبھی زیادہ اکثریت پاچکی ہیں اور عنقریب وہاں دورِحاضر کی مضبوط ترین اسلامی حکومت قائم ہوگی۔لیکن اسلامی جماعتوں پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوگی کہ کیا مستقبل میں بھی جمہوریت کے پودے پر برگ وبار لاکر وہ اسلام کی کوئی خدمت کرپاتی ہیں یا نہیں؟ ہمیں شدید خدشہ ہے کہ اگر وہاں کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی نہ آئی تو عالم عرب میں اسلامی جماعتوں کو اگلا موقع پھر کبھی نہ ملے گا او رپاکستان کی طرح وہاں بھی 'اسلام' انتخابات میں ناکام حوالہ بن کر رہ جائے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت اوربرکت سے اُمتِ اسلام کے دکھوں کا مداوا کرے، ربّ کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ایک مثالی فلاحی اسلامی ریاست وجود میں آسکے لیکن ماضی کے تجربے اور اندیشے کوئی اچھی خبر نہیں لاتے۔
ان ممالک میں جمہوری استحکام کے نام پر امریکہ نے ایک طرف اپنی گانگریس سے ملینوں ڈالرز1 کا مطالبہ کررکھا ہے تو دوسری طرف یہی امریکہ افغانستان میں بھی اسی جمہوریت پر طالبان کو آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ طالبان سے کئے جانے والے معاہدوں میں امریکہ کی طرف سے بنیادی شرط، کرزئی حکومت کی زیر نگرانی بنائے گئے دستور پر افغانی طالبان کا اتفاق کرنا ہے، جس سے تاحال دانش مند طالبان قیادت گریز ہی کرتی چلی آرہی ہے۔ دراصل دستور کے انجینئرڈ طریقے سے حکومت اور معاشرہ سازی کا میکنزم اتنا پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ عوام الناس اُس کے گورکھ دھندے سے غافل اور لاتعلق ہوجاتے، حکومتی عناصر اس میں جوہر دکھاتے اور نت نئے حیلے بہانے تراشتے اور عالمی قوتوں کو اپنے مہرے تلاش کرنے اور اپنا کھیل بنانے کی آزادی مل جاتی ہے، پھر اسلامی جماعتوں کو بھی اسی دستور کے زیر سایہ آئینی کامیابی حاصل کرنے کا راستہ دکھادیا جاتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی طرح دستور وجمہوریت کے تقاضے تو پورے رہتے ہیں، لیکن اسلام اور اہل اسلام کی کوئی مراد پوری نہیں ہوتی۔ پاکستان اس کی زندہ مثال ہے؛ یہ زرداری حکومت ہی نہیں ،پاکستان میں 88ء سے 99ء تک کی جمہوری حکومتوں کا بھی یہی نقشہ رہا ہے...!!
دوسری طرف حالیہ تاریخ میں تین اور اسلامی ممالک میں بھی تبدیلی آئی ہے: ایران، افغانستان اور سعودی عرب... ان تینوں ممالک کی تبدیلی مغربی طرزِ سیاست کے بجائے اس طرز پر آئی جو اُن ممالک کا اپنا اپنا سیاسی اسلامی تصور تھا۔ ایران نے شیعہ اسلام ، افغانستان نے حنفی اسلام اور سعودی عرب نے کتاب وسنت کی بالاتری کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ نتائج یہ رہے کہ ایران کے شیعہ انقلاب نے اپنی قوم کومتحد کرنے اور شیعیت سے مستفید ہونے میں کامیابی حاصل کی۔ایسے ہی افغانستان پرگنتی کے چند سالہ دورِحکومت میں طالبان نے ایک جنگجو اور منتشر قوم کو امن وامان اوراستحکام عطا کرنے میں کافی کامیابی حاصل کی اور اب ان طالبان کی یہ اہمیت ہے کہ آج امریکہ ان سے معاہدے کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے اور سعودی عرب بہر حال کتاب وسنت کے قانونی غلبہ کی بنا پر ملتِ اسلامیہ کا روشن ستارہ ہے جو اللہ کے نظام کی عظمت و بالاتری کی حجت وبرہان اُمتِ اسلام اور اہل کفر پر قائم کررہا ہے۔یہ تینوں ممالک جمہوری آزمائش سے نہیں گزرے لیکن وہاں اسلام کامیابی اور عوام کامرانی کے مراحل طے کرتے نظر آئے۔ان ممالک کو جمہوری کلچر کی آزادی بلکہ لعنت نصیب نہیں ہوئی اور قوم منتشر اور باہم دست وگریباں نہیں ہوئی ... کیا یہ دلائل وحقائق غور وفکرکرنے کے لئے کافی بنیاد نہیں ہیں۔مغرب کے نباض اور شاعر مشرق تو پہلے ہی جمہوریت کی حقیقت ان الفاظ میں کھول چکے ہیں:
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن ، اندرون چنگیز سے تاریک تر
دیو ِاستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے ،آزادی کی ہے نیلم پری
ہمارے حکمرانوں کو بھی اسی جمہوری نظام کے خانہ ساز دستور سے تحفظ لینے کے دعوے ہیں۔ ہم لوگ اس خانہ خراب جمہوریت سے پہلے ہی نالاں ہیں ، اوپر سے اس جمہوریت کے یہ برگ وبار... اللہ ہمارے اہل دانش کو سمجھائے کہ اَب تو اس سے باز آکر خالص اسلام کی طرح رجوع کرلیں...!!

----------------------

اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صورت میں جہاں انسانوں کو اپنی بندگی کا طریقہ سکھایا، وہاں اُنہیں اپنی معاشرتی و اجتماعی زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی واضح فرما دیے۔ اجتماعی نظاموں میں اہم ونمایاں ترین نظام سیاسی نظام ہوتا ہے جسے اسلام کے سیاسی نظام' خلافت وامارت' کے طورپر جانا جاتا ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ جمہوریت کے سحر میں کھوئی ہے اور ہرکوئی اسلام کے سیاسی نظام کے طورپر جمہوریت کے گن گاتا نظر آتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام کا شورائی نظام اور طریقہ انتخاب اہل مغرب نے جمہوریت کی شکل میں جذب کرلیا ہے۔ جبکہ اسلام کے شورائی نظام اور جمہوریت کے نظام فیصلہ وقانون سازی میں زمین وآسمان کا بُعد ہے، ایسے ہی اسلام کا مناصب پر تعین بھی جمہوریت کے نظام انتخاب سے بالکل مختلف ہے۔ ان دونوں پر پھر کبھی بات ہوگی....!
جمہوریت کے تصورِ مساوات کا بڑی شدت سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مساوات کا جو تصور دیا ہے، یہی تصور جمہوریت میں بھی موجودہے۔ ذیل میں ہم جمہوریت اور اسلام کے تصورِ مساوات کا ایک مختصر جائزہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:
جمہوریت جو اہل مغرب کا متعارف کردہ نظام ہے، اس میں مساوات کا تصور ایک خاص سطح پر آکے رک گیا ہے۔ جبکہ اسلام کاتصورِ مساوات ہی حقیقی اور کامل ہے۔ یوں تو مساوات کا نعرہ بذاتِ خود ایک مغربی نعرہ ہے اور اسلام نے اس کی جگہ 'عدل' کی اصطلاح استعمال کی ہےکہ مختلف النوع ذمہ داریوں اور صنفوں کے لحاظ سے حقوق وفرائض کا وہی تناسب ہونا چاہئے جو عین عدل وانصاف کا تقاضا ہے، نہ کہ تمام لوگوں کو مساوات کے نام پرایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیا جائے، تاہم جہاں ایک جیسے انسانوں کے باہمی حقوق کی بات آئے یا قانون پر عمل درآمد کی بات ہو تو اس میں اسلام مساوات کی عین پاسداری کرتا ہے جو جمہوریت کے تصورِ مساوات سے بہت بلند اور کامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام انسانیت پر بلااستثنا حاکمیتِ اعلیٰ
جمہوریت دراصل انسانوں کی اپنے جیسے انسانوں پر حاکمیت کا نام ہے جس میں ظاہری اور تقابلی اکثریت کی بنا پر بعض انسانوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنے قانون چلانے کا حق مل جاتا ہے۔ جبکہ اسلام انسانوں کی بجائے اللہ کی حاکمیت کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنے خالق کی عطا کردہ شریعت کے سامنے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں حاکمیت کے اس تصور کو دیکھا جائے تو وہاں انسانوں کا حاکم اعلیٰ اُصولی طورپر باز پرس سے بالا تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں جمہوری سربراہوں اوربعض اوقات صدر جمہوریہ کو قانونی باز پرس سے استنثا کا اُصولی استحقاق حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اسلامی جمہوری نظام میں قانون سے بالاتر ہونے کا یہ استحقاق صدر کے ساتھ صوبائی گورنروں کو بھی حاصل ہے جسے دستور پاکستان کی دفعہ 248 ب میں بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف اسلام کے سیاسی نظام 'خلافت' کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں اللہ کے احکام سے بالاہونے کا معمولی سا استحقاق بھی کسی کو حاصل نہیں۔ جمہوریت میں یہ حق کسی بھی ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کو حاصل ہے اور ریاست کے مختلف صوبوں کے گورنر حضرات کو بھی جبکہ اسلام میں خلیفہ راشد بھی اس استحقاق یعنی شرع سے بالاتری تو کجا، شریعت کی باز پرس سے بھی اپنے آپ کو بالا قرار نہیں دے سکتا۔یاد رہے کہ موجودہ وطنی ریاستوں کےبالمقابل خلافتِ اسلامیہ اپنی عظمت وسطوت اور دسعت وقوت کے لحاظ سے بہت عظیم ترہوتی ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ خلافت وامارت کے نظام میں تمام افراد پر اس طرح غالب ومستحکم ہوتی ہے کہ انسانیت کے عظیم ترین مقام 'نبوت' کو بھی حاکمیتِ الٰہیہ کے سامنے کسی استثنا کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوتا۔لاریب کہ سید المرسلین ، نبی الثقلین، پیغمبر آخرالزمان محمدﷺ اللہ کی مخلوقات سے بہتر واعلیٰ ترین ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو کسی بھی اسلامی اجتماعیت کی غیرمعمولی قیادت عطا کرتا ہے اور مسلمانوں کے دین وایمان کو نبی مرسل پر ایمانِ کامل لانے سے مشروط کرتا ہے، اس کے باوجود قرآن کریم انبیا سے یوں خطاب کرتا ہے:
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَ‌بّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُ‌سونَ ٧٩ ﴾... سورة آل عمران
''کسی بشرکے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب، حکومت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، لیکن اے انسانو! تمہارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ربانی بن جاؤ، کیونکہ تم اسی کی کتاب پڑھتےہو۔''
اس آیتِ کریمہ سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کو زیبا ہے اور اس حاکمیت میں کائنات کی عظیم ترین ہستی بھی معمولی سی شرکت نہیں رکھتی۔ حاکمیت کا یہ وصف قرآن کریم کی بہت سی آیت کی رو سے صرف اللہ تعالیٰ کو ہی لائق ہے۔ جب اسلام میں یہ حاکمیت صرف وحدہ لاشریک کا خاصہ ہے تو اس کے ماسوا سارے ربّ ذوالجلال کے محکوم ومطیع ہیں اور ان محکومین میں بجز اس کے کوئی فرق نہیں کہ اللہ خود کسی کو کسی حکم سے خصوصیت عطا فرما دیں، اگر یہ بات خود حاکم مطلق نے جاری نہیں فرمائی تو اللہ کی محکومیت واطاعت میں تمام انسان بلا استثنا بالکل مساوی ہیں اور ان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں حاکم اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور باقی سب محکوم ومطیع... اس سلسلے میں اُساریٰ بدر کے واقعے سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمانﷺ کے ساتھ ساتھ اُن کے تمام پیروکاروں کو سخت الفاظ میں وعید سنائی تھی:
﴿ما كانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكونَ لَهُ أَسر‌ىٰ حَتّىٰ يُثخِنَ فِى الأَر‌ضِ تُر‌يدونَ عَرَ‌ضَ الدُّنيا وَاللَّهُ يُر‌يدُ الءاخِرَ‌ةَ وَاللَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ٦٧ لَولا كِتـٰبٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُم فيما أَخَذتُم عَذابٌ عَظيمٌ ٦٨﴾... سورة الانفال
''کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ زمین میں خون ریزی کی جنگ نہ ہوجائے۔تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے معافی لکھ نہ دی گئی ہوتی تو تمہارے اس فیصلے کی پاداش میں بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا۔''
احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺکو وہ عذاب بھی دکھایا گیا۔ تفصیل کے طالب پورے واقعے کی تفصیلات ملاحظہ فرما لیں۔ الغرض کسی بھی سیاسی نظام میں اہم ترین تصور ، اس کا تصورِ حاکمیت ہوتا ہے اور اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ خلافت وامارت کا مرکز وجوہر ہے۔ اللہ کی یہ حاکمیتِ اعلیٰ اور اس کی شریعت کی پابندی اللہ کی تمام مخلوقات پر کامل مساوات سے نافذ ہوتی ہے، نہ کہ اس سے کسی کو معمولی سا استثنا بھی حاصل ہونے کی اُمید ہوتی ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے خود اپنے آپ کو قانونی باز پرس سے بڑھ کر بدلہ کے لئے پیش فرما دیا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اللہ کا محبوب وخلیلﷺ، اللہ کی شرع کی تعمیل میں اپنے اُمتیوں کے سامنے ہی اپنے آپ کو بدلہ لینے کے لئے پیش کررہا ہے۔سیرت کی کتب میں یہ واقعہ ایک اعرابی صحابی سیدنا اُسید انصاریؓ کے حوالے سے موجود ہے۔
دوسری طرف ہم جمہوری نظام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ انسانوں کی حاکمیت پر مبنی نظام میں،حکم کے مدار المہام پر فائز شخص اپنی ذات کے لئے اپنے جیسے انسانوں کے بنائے قانون سے استثنا کا متمنی وداعی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت میں ایک جیسے انسانوں کی مساوات کا تصور ایک خاص نکتے پر آکر رک گیا ہے اور تمام انسانوں کو مساواتِ کاملہ دینے کے دعوے میں جمہوریت سچی نہیں ہے۔
اسلام ہی انسانیت کی عظمت کا محافظ ہے!
یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانیت کو جو عظمت اسلام نے عطا کی ہے، وہ عظمت دنیا کا کوئی سیاسی نظام نہیں دیتا کہ اس پراپنے خالق کے سوا کسی عظیم ترین انسان کی اطاعت بھی اصلاً واجب نہیں ہے۔ اسلام صرف ایک اللہ کی اطاعت کا نام ہے۔اوپر انبیا کی اطاعت کا تذکرہ بھی اللہ کی شریعت سے مستنیر رہنمائی سے مشروط کردیا گیا ہے کہ کوئی نبی اللہ کی شریعت سے بڑھ کر کسی انسان کو اپنا مطیع نہیں بنا سکتا۔ ایسے ہی ہر مسلم حکمران بھی جب کسی مسلمان پر اپنے احکامات لاگو کرتا ہے تووہ مسلمان اسی بنا پر اس کے احکام کی اتباع کرتا ہے کہ اس کے ربّ نے اسے حکمران واُولی الامر کی اطاعت کا پابند کیا ہے۔ اور حکمران کی وہ اطاعت جو اللہ کے حکم کے مخالف ہو، اس کی اطاعت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو منع فرما دیا ہے۔ یہ اسلام کی آزادی اور انسانی عظمت ہے کہ اسلام کی رو سے تمام انسان براہِ راست اللہ کے احکام کے مخاطب ہیں، صرف ایک اللہ کے مطیع ہیں، اور اپنے جیسے کسی عظیم سے عظیم ترانسان کے بھی شخصی طورپر متبع نہیں۔ ہاں اگر اللہ نے کسی انسان کی اطاعت ، مثلاً بیوی پر شوہر کی اطاعت واجب قرار دی ہے تو بیوی بھی اپنے ربّ کے حکم کی اتباع میں اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔ دوسری طرف جمہوریت اپنے جیسے انسانوں کی محکومیت کا دوسرا نام ہے، جنہیں کسی بنا پر اپنے سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والوں کا تابع فرمان بن کررہنا پڑتا ہے۔
جمہوریت میں بعض انسان، قانون کو معطل کرسکتے ہیں!
جس طرح اسلام میں کوئی عظیم سے عظیم انسان ، خالق کی شریعت کے سامنے بالاتری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اسی طرح اسلام میں نظم اجتماعی کا عظیم ترین منصب دار بھی اللہ کے قانون سے کسی کو استثنا دلوا نہیں سکتا، جبکہ جمہوریت کی صورت حال اس سے مختلف ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جمہوریت میں صدر جمہوریہ، کسی بھی انسان کی سزا معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے بنائے قانون کا مرکز ومحور ہے اور اُسے اس قانون میں خصوصی اختیار ات دئیے گئے ہیں۔ پاکستان اور دیگر جمہوریاؤں کے بہت سے صدور نے اس بنا پر کئی مجرموں کی سزاے موت کو معاف کردیا ہے۔گویا جمہوریت میں انسانی قوانین کا مرکز، کسی شخص پر اس قانون کو معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسلام میں اس کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام یعنی خلافتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ہے اور اس نظام کو معطل کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔ کسی خلیفہ گورنر تو کجا، عظیم الشان سیاسی و دینی شخصیتﷺ، جن کے سیاسی منصب کی خلافت بعد میں تمام مسلم خلفا کو حاصل ہوتی ہے، نے بھی اس استحقاق کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہے اور آپؐ سے ایسا مطالبہ کرنے والوں سے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کتبِ حدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ قریش کے قبیلہ بنومخزوم کی عورت نے چوری کرلی، شرفاے قریش کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر اس عورت پر سزاے سرقہ نافذ کردی گئی توقبیلہ قریش کی سیادت ووجاہت خاک میں مل جائے گی۔ اُنہوں نے اسامہؓ بن زید کو آپؐ سے سفارش کے لئے آمادہ کیا اور سیدنا اُسامہ رسالت مآب سے ملتمس ہوئے، جس پر آپؐ غضب ناک ہوئے، منبر منگوایا اور یوں ارشاد فرمایا:
«أتشفع في حد من حدود الله؟»
''اے اُسامہ ! کیا تم اللہ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟''
پھر آپﷺ کھڑے ہوگئے اور آپﷺنے منبر نبوی پر خطبہ دیا ۔ فرمایا:
«إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا»2
''وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے ، اسی وجہ سے ہلاک ہوگئے کہ جب اُن میں سے کوئی معزز آدمی چوری کیا کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے تھے۔اور جب کوئی کمزوریا عام آدمی چوری کرتا تو اُس پر اللہ کی حد کو قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! اگر میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراؓ بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔''
اس واقعہ سے بخوبی علم ہوجاتاہے کہ اللہ کی شریعت کو کسی بھی انسان سے بالاتر کرنے کا اختیار نہ کسی نبی ولی کے پاس ہے اور خلیفہ وگورنر اور چھوٹے چھوٹے قطعوں پر پھیلی وطنی ریاستوں کے مسلم حکمران تو کسی قطار شمار میں بھی نہیں آتے۔ نظریہ وہی ایک ہے کہ خلافتِ اسلامیہ میں حاکمیتِ تامہ صرف باری تعالیٰ کو لائق ہے، اس میں کوئی شریک نہیں، اُسی کا قانون چلتا ہے اور اس قانون سے نہ کوئی خود مستثنیٰ ہوسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو مستثنیٰ کرواسکتا ہے۔ جبکہ پاکستانی کی اسلامی جمہوریت میں حاکمیتِ الٰہیہ کا نعرہ دستور مرتب کرنے والوں نے دستور کے سرنامہ میں بطورِ زیبائش تو درج کردیا ہے ، داخل میں اس حاکمیت کو کہیں کوئی تاثیرہی نہیں دی، اورپورا ڈھانچہ مغربی جمہوریت کا ہی رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے بھولے اسلام پسند دانشور بھی اسی پر مطمئن ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی مغربی جمہوریت تھوڑی ہے ، یہ تو اسلامی جمہوریت ہے ، اسلامی!! اس پر اسلامی کا سابقہ ہی بتارہا ہے کہ یہ دراصل کفار کا بنایانظام ہے جس کو اسلام کا لفظ لگا کر حلقہ بگوش اسلام کرنا پڑتا ہے۔
اس موضوع کی دیگر تفصیلات راقم نے اسی شمارہ محدث میں مطبوعہ اپنے انٹرویو میں پیش کردی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ خلفائے راشدین نے شرعِ اسلامی کے سامنے اپنے آپ کو سرنگوں کیا اور مسلم سپہ سالاروں نے اس کی غیرمشروط اتباع کی۔ (دیکھیں صفحہ نمبر70)
اسلام میں اللہ جل جلالہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کاتصور یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہرمقام پر اس کی کارفرمائی نظر آئے۔ اللہ کی حاکمیت شریعتِ الٰہیہ کےغلبے کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔حکمران بھی اس کے مطیع ہوں، عدالتیں بھی اللہ کی شرع کے مطابق ہی فیصلے کریں نہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین کے مطابق۔ ہر حکمران کے تعین کی اصل اساس شریعتِ اسلامیہ کی اپنے اور دوسروں پر نفاذ کی اہلیت قرار پائے۔جب کوئی حکمران اپنے اوپر حکم الٰہی کا نفاذ چھوڑ دے یعنی کفر بواح یا اقامت ِصلوٰۃ وغیرہ تو اُس کی اطاعت بھی مسلمانوں پر لازم نہ ٹھہرے۔ مسلم حکومت کا پورا کردار معاشرے کے ہر نظام میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے پر مرتکز ہو۔مسلم فوجیں اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ، دین کے تحفظ اور دین کے دفاع کے لئے میدانِ جہاد میں آئیں، اگر اُنہیں شریعتِ اسلامیہ کے خلاف حکم دیا جائے تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت ہرگز نہ کریں۔ تعلیم وابلاغ کے میدان میں حاکمیتِ الٰہیہ کی بنا پر تمام کلمہ پڑھنے والوں کو اُسی کی طرف بلایا جائے۔اللہ کے دین کی تعلیم اور عمل ہی معاشرے میں عظمت وسربلندی کی اساس ہو۔ مسلمانوں کا خزانہ یعنی بیت المال، اللہ کے احکامات کی اتباع میں ہی، شریعت کی ذکرکردہ ترجیحات میں خرچ کیا جائے۔ معیشت میں اسلام کا سکہ چلتا ہو، سود ٹیکس جوا ختم کرکے، شریعت کا نظام معیشت:زکوٰۃ، عشر، صدقات، خمس، مال فے، خراج وغیرہ کو لاگو کیا جائے۔مضاربت ومشارکت اور جائز کاروباروں کا رواج ہو۔یہ سب اللہ کی حاکمیت کے ہی تقاضے ہیں۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اللہ کو ماننے والے تمام مسلمان ایک اُمت، ایک ملت اور جسدِ واحد ہوں، خلافتِ اسلامیہ میں وطنی ریاستوں کی ایسی سرحدیں ختم کر دی جائیں جو اللہ کے فرمانبرداروں کو بانٹ اور تقسیم کرکے رکھ دیں۔
یہ ہیں خلافت کے وہ نظریات جن سے مغرب لرزہ براَندام ہے اور دنیا میں کہیں بھی نظام امارت کے کسی امکانی آغاز میں بھی اس کو اپنی موت نظر آتی ہے۔نظام خلافت کا اصل جوہر ہرمرحلۂ زندگی میں شریعتِ اسلامیہ کے غلبہ کی صورت میں حاکمیتِ الٰہیہ کاقیام ہے، جس کو بلاوجہ ہیبت ناک آمریت یا پاپائیت وتھیاکریسی سے جوڑ کراس کے بالمقابل جمہوریت کو انسانی آزادی کے علم بردار نظام کے طورپر پیش کردیا جاتا ہے۔مغرب کے سب سے بڑے نظریاتی مخالف وہ مسلمان ہیں جو خلافت کا احیا چاہتے، اس کی تفصیلات جاننے اور سمجھنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ جمہوریت نوازوں سے مغرب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ جمہوریت وطنیت پرستی ہے، ریاستوں میں تقسیم ہوکر ملت کو قوموں(نیشنز) میں منقسم کر دینا ہے، پھرایک نظریہ رکھنے والی قوم کو سیاسی جماعتوں میں بانٹ کر باہم صف آرا کرنا ہے۔ یہ مقابل ومخالف صف آرا جماعتیں دورِ نبوی اور دور خلافتِ راشدہ میں کہاں نظر آتی ہیں، یہ صرف اس جمہوریت کا ہی حسن ہیں، جس میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار ، سیاسی کشمکش سے عوام کو اُلجھائے رکھتی ہیں۔مغربی افواج وطن کی مٹی پر قربان ہوتیں، اس کے تقدس کے لئے لڑتی ہیں اور ان کے کردار کا تعین شریعت کی بجائے انسانوں کا بنایا دستور کرتا ہے۔
دستور کے نام پر قرآن وسنت کے مقابل ایک دستاویز کو وہی تقدس دیا جاتا ہے جو دراصل شریعتِ الٰہیہ کا حق ہے۔پھردستور کے نام پرغالب انسانوں کی دوسروں پر حاکمیت بروے کار لائی جاتی ہے، پھر یہ حاکمیت قانون سازی کے ذریعے پورے عدالتی نظام کی صورت میں مسلمانوں پر قائم ونافذ کردی جاتی ہے۔ مغرب کا تعلیمی نظام ، مادہ پرست معاشرے کے قیام اور دنیا سے استمتاع پر استوار ہے۔اس تعلیمی نظام کی حامل یونیورسٹیوں میں یا تو علوم اسلامیہ کے شعبے ہوتے ہی نہیں ، اگر ہوں تو برائے نام اور دنیا سے تمتع کے لئے متعارف ہونے والی علوم وسائنسز سے یہ یونیورسٹیاں بھری پڑی ہوتی ہیں۔ سائنس وانجنیئرنگ اور میڈیکل کی آئے روز نت نئی شاخوں میں ریسرچ کی اور تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامیات کا ایک کمزور سا شعبہ بھی ملحدانہ نگاہوں میں کھٹکتا ہے۔جمہوریت کا ابلاغی نظام فلم وڈرامہ، موسیقی اور فحاشی کی صورت میں خواہشاتِ نفس کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے جس میں کبھی طنز وتمسخراورکبھی جستجووتجسس کو ہی پورا آرٹ بنا دیا گیا ہے۔
الغرض نظام خلافت اللہ کی حاکمیت ، زندگی کے ہر طبقے میں قائم کرنے کا نام ہے تو جمہوریت انسانی خواہشات کی حاکمیت کو زندگی کے ہر طبقے میں لانے کا سیاسی آلہ ہے اور دونوں کے نتائج کبھی ایک سے نہیں ہوسکتے۔ایک اللہ کی حاکمیت ہے تو دوسری انسانوں کی !... پھر کیوں کر اسلام،جمہوریت کے درخت پر ثمر آور ہوسکتا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کے ذریعے اسلامی برکات کا حصول بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ہمارا رخ مخالف سمت ہو اور ہم منزل پر پہنچنے کا دھوکہ کھائے بیٹھے ہوں۔یا تو جمہوریت کی روح یعنی خواہش نفس کی حاکمیت کو بدل کر، اسلام کی روح یعنی اللہ کی بندگی اور حاکمیتِ الٰہیہ میں تبدیل کردیا جائے اور جمہوریت صرف برائے نام رہ جائے، وگرنہ محض اسلامی نام رکھ دینے سے جمہوری نظاموں سے کبھی اسلام کی برکات نصیب نہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو عقل وبصیرت عطا فرمائے۔ آمین! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)

 


حوالہ جات
1روزنامہ جنگ لاہور کی خبر كا متن:''واشنگٹن(جنگ نیوز)امریکا کے صدربارک اوباما کی انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ اورشمالی افریقہ کے عرب ممالک[کویت، مصر ، تیونس اور فلسطین وغیرہ] میں زیرعمل جمہوریت نواز انقلابی تحریکوں کی سرپرستی کرتے ہوئے سیاسی اوردیگراصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کے لئے 77کروڑڈالرفنڈزجاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نیا فنڈ امریکی محکمہ خارجہ اوریوایس ایڈکے 2013ءکے بجٹ کے لئے درخواست کردہ 51اعشاریہ 6بلین ڈالر رقم کا حصہ ہے۔جو مجموعی امریکی حکومتی بجٹ کی تقریباًایک اعشاریہ4فیصدرقم بنتی ہے۔ ''

2صحیح بخاری: 3216