قرآن جلتا رہا اور قوم کرکٹ کھیلتی رہی!

قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت اور قوم کا رویہ
بارِ الٰہ! یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مسلمان اس قدر مجبور و لا چار بنا کے رکھ دئیے جائیں گے یا خود ہی اس قدر بے حس ہو جائیں گے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا میں موجود ہوں اور ایسے ایسے واقعات پیش آئیں کہ دل کی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہو۔ یہ تیسری ہزاری کیا شروع ہوئی ہے کہ یکے بعد دیگرے فتنے اور بلائیں نازل ہوتی جا رہی ہیں کہ غالب کے الفاظ میں: حیران ہوں روؤں دل کو، کہ پیٹوں جگر کو میں
۱۹۹۸ء، ۱۹۹۹ء میں دنیا بھر میں اک شور برپا تھا کہ اب ہم تیسری ہزاری میں داخل ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا استقبال ہم کس طرح کریں گے؟ دنیا کی تمام قومیں اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے لیے اپنے اپنے انداز میں تیاریاں کر رہی تھیں۔ مگر کیا معلوم تھا کہ ان تیاریوں کا مقصد دراصل اسلام اور اہلِ اسلام کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنا تھا۔ چنانچہ یہ اکیسویں صدی اپنے پہلے سال ہی سے مسلمانوں کے لیے انتہائی خون آشام ثابت ہوئی ہے۔ پے در پے حادثے اور ان حادثوں میں اہلِ اسلام کے لیے اتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں پنہاں ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عقل حیران ہے کہ کس کس کا ماتم کرے!
1۔ مسلمانوں ملکوں کو ویزے اور پاسپورٹوں کے چکروں میں ڈال کر ایک دوسرے سے بے انتہا دور کر دیا گیا ہے تا کہ ان کے مالی وسائل پر امریکہ کا قبضہ رہے۔ ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی پالیسیاں سب کچھ امریکی احکام کی روشنی میں ان کی منشا کے مطابق طے پاتی رہیں۔ اب تمام مسلمان ممالک اللہ اور رسول کی بجائے اپنے آپ کو یواین او اور امریکہ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔
2۔ ۲۰۰۱ء کا آغاز ہوتے ہی نائن الیون کا ڈرامہ خود ہی امریکی یہودیوں نے رچایا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مسلمان سر نہیں اُٹھا سکے۔ پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اس کے بھر پور تعاون سے افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ بعد ازاں مختلف جھوٹے خود ساختہ حیلوں بہانوں سے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ دونوں ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اور سارے مسلمان صرف تماشا دیکھنے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔
3۔ مشرف دور میں پاکستان پر بے انتہا ثقافتی یلغار کی گئی۔ اس پر مختلف معاشی پابندیاں بھی لگائیں گئیں۔ اس کے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرنے کی بھر پور تیاریوں کے ساتھ امریکی فوج دندناتی ہوئی پاکستان میں گھس آئی۔ پاکستان پر ڈرون حملے، قبائلی علاقوں پر مسلسل بمباری،سوات، باجوڑ ایجنسیوں میں مختلف آپریشن ہوئے۔ اور پھر اخباروں میں سرخیاں لگتی رہیں: ''اہل پاکستان نے سوات سے آنے والے مہاجرین کی مدد کرتے ہوئے انصار کی یاد تازہ کر دی۔ ''
دل یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ قتل کرنیو الے مسلمان، جن کو وہاں سے نکالا گیا وہ ان سے بہت اچھے پابندِ شریعت مسلمان، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، پھر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی پاکستانی فوج کے ہاتھوں زخم کھاکر مہاجر کیسے بنے؟ ان کے لیے مظلوموں کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا پاکستانی فوج نے ان پر ظلم نہیں کیا کہ امریکہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے بھائی بندوں پر اسلحہ اُٹھایا۔ اور اُن کو بری طرح سے دربدر کر کے امریکہ کو خوشخبریاں سنائیں کہ شدت پسندوں سے ہم نے اچھی طرح نبٹ لیا ہے۔ حالانکہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے نزدیک جو شدت پسند تھے دراصل ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ اپنے علاقے میں اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
4۔ اس کے بعد پاکستانی فوج اسلام آباد کی مسجدوں کو'فتح' کرنے لگی کہ یہ شاہراہِ عام پر واقع ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بنتی ہیں۔ حالانکہ مسجدوں کو گرا کر ان کی زمینوں کو کسی اور کام میں لانا شرعاً ممنوع ہے۔ چار ہزار دین کا علم حاصل کرنے والی، حافظِ قرآن اور طالباتِ قرآن و سنت، فاسفورس بموں کے ذریعے قتل کر دی گئیں، ان کی لاشوں کو پگھلایا اور پھر اجتماعی قبروں میں ان کو نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ لواحقین مطالبہ کرتے ہی رہ گئے کہ ہمارے بچوں کی میت ہی ہمیں دکھادو۔ مگر وہاں کون جواب دینے والا تھا؟ ۱۹۹۲ء میں جب ہندوستان میں جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد گرائی تھی، تو اہل پاکستان نے اس پر کتنا احتجاج کیا تھا؟ لیکن اب پاکستان کی اسلامی ریاست کا صدر خود اسلام آباد کی مساجد کو اور قرآن و حدیث کی طالبات کو امریکہ کی خوشنودی کے لیے تہ تیغ کر رہا تھا اور اسے عین وطن کی خدمت باور کرایا جانے لگا۔
5۔ پاکستان میں پاکستانی حکومت کی سرکردگی میں میڈیا کے شور و غل میں ویلنٹائن ڈے، میراتھن دوڑ اور بسنت جیسے مغربی اور ہندوانہ تہوار اس جوش و خروش سے منائے گئے کہ خود ہندو اور اہلِ مغرب عش عش کر اُٹھے۔ اپنی عیدیں پاکستان کی نوجوان نسل کو پھیکی اوربور لگنے لگیں۔ محرم و غیر محرم اور حلال و حرام سے بے نیاز نو خیز طلبہ و طالبات اب مخلوط طور پر نیکریں پہن کر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ وہ 14 فروری کو یومِ محبت منا کر اپنے 'دوستوں'کو پھول پیش کرتے نظر آنے لگے۔
6۔ وہ پاکستان جو 'لا الہ الا اللہ'کے نام پر وجود میں آیا تھا، وہاں اب ۲۰۰۹ء میں کراچی میں این جی اوز نے 'سیکس ورکرز کی کامیاب ورکشاپ' منعقد کر کے مطالبہ کیا کہ طوائفوں کی آمدنی کو جائز اور قانونی سمجھ کر اُنہیں ' باقاعدہ اپنا پیشہ اختیار کر کے روزی کمانے کا حق' دیا جائے۔ اور پھر اسلام آباد میں خود امریکی سفارتخانہ میں ۲۶ جون ۲۰۱۱ء کو اس نے ہم جنس پرستوں کا پروگرام بھی کروا ڈالا۔ اور پھر ان کے حقوق کی انہیں یقین دہانی کروائی تھی۔ کیا ایسے لچر اور فضول پروگرام پاکستان ہی میں ہونا تھے؟
7۔ مغربی نیو ورلڈ آرڈر کے ناخداؤں کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے محبتِ رسول نکالنا ضروری ہے۔ اس غرض کے لیے وہ منظم طور پر سازش کے تحت ۲۰۰۵ء سے ہمارے پیارے پیغمبرﷺ کی کردار کشی کرنے کے لیے غلیظ اور گستاخانہ خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ وہ اس کو اپنی 'رائے کا ظہار'کہتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اور مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تمام مغربی ممالک یکے بعد دیگرے دل پسند مشغلے کے طور پر خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق:
''۸ جنوری ۲۰۱۰ء کو ناروے کے اخبار آفتن پوسٹن (Afton Poston) نے رسول پاک کے توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع کر دئیے۔ ساتھ ہی اخبار کی چیف ایڈیٹر Hilde Haugrjerd نے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ''مجھے یقین ہے کہ خاکوں کی اشاعت سے کوئی مضبوط ردِ عمل سامنے نہیں آئے گا۔'' (گویا نعوذ باللہ اس کے نزدیک مسلمانوں نے ناموسِ رسول کی کوئی خاص قدر نہیں کی۔ وہ اب اس توہینِ رسالت کے عادی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب جو چاہو، کرو ) تو پھر اے مسلمانو! اٹھو اور اب اپنا بھر پور ردِ عمل دو۔''1
پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون 295؍سی سے اہلِ مغرب کو بہت پرخاش ہے۔ وہ ہر وقت پاکستانی حکمرانوں کو اس قانون کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور خود ہر وقت ہمارے رسول مقبول کی توہین کرنے کو اپنا دل پسند مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اپنی زبانوں کو وہ لگام ڈالنے کو تیار نہیں اور ہمیں حکم دیتے ہیں کہ 295؍سی والا قانون دہشت گردی والا قانون ہے، اس کو ختم کرو۔
چنانچہ پاکستان میں آسیہ مسیح کو اسی قانون کے تحت عدالت نے سزا کا حکم سنا کر جیل میں بھیج دیا تو پورے مغرب میں آگ لگ گئی کہ آسیہ کو فوری رہا کرو اور اس قانون کو ختم کرو۔ خود پوپ بینی ڈکٹ نے پاکستان کی حکومت کو اپنا 'حکم دینا' لازمی سمجھا اور پاکستان کی حکومت تعمیل کو تیار ہو گئی۔ اسی دوران گورنر لاہور ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہوا تو پاکستانی قوم نے اس خبر کا خیر مقدم کیا۔ وکیلوں نے جیل میں قاتل کو پھولوں کے ہار پہنائے مگر اسی گرد میں امریکہ آسیہ مسیح کو رہا کروا کے لے گیا۔ جبکہ ممتاز قادری ابھی تک پاکستانی عدالتوں کا تختۂ ستم بنا ہوا ہے۔
8۔ اَمریکہ کا بدمعاش 'ریمنڈ ڈیوس'جو پاکستان میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر اور بلیک واٹر جیسی تنظیم کا ممبر ہے،جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا مکمل طو رپر ذمہ دار ہے، جس کا مشن پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرنا تھا۔ وہ قتل کی گھناؤنی تین وارداتوں میں ملوث تھا۔ 'خوش قسمتی' سے پاکستان کے ہاں گرفتار ہو ہی گیا تو پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ پنجاب حکومت، وفاقی حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ غرض ہر ایک کو امریکہ نے خوب ڈرایا دھمکایا اور بالآخر وہ اسلام کے اصولِ دیت کو ڈھال بنا کر (حالانکہ امریکہ کو اِسلام کے شرعی قوانین سے سخت پرخاش ہے) رہا کر دیا گیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ یہ دیت کی رقم بھی پاکستانی حکومت نے خود اَدا کی۔ آج تک دنیا میں اتنی تذلیل شاید کسی قوم کی نہ ہوئی ہو جتنی پاکستان کے حصے میں آئی کہ ۱۶ مارچ کو اس کو رہا کر دیا گیا۔ مگر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا شکریہ امریکہ نے اس طرح ادا کیا کہ اگلے دن ہی بہت بڑا ڈرون حملہ کر کے ۱۰۰ کے قریب اَفراد، جس میں بڑے بڑے قبائلی معزز سردار شامل تھے، شہید کر ڈالے۔ یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ آرمی چیف نے اس کی شدید مذمت کی اور ساتھ پاکستانی فضائیہ کو بھی الرٹ کر دیا۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی واقعہ کی شدید مذمت کی اور ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
9۔ مگر اس ڈرون حملے سے بھی کروڑ ہا گنا بڑا حملہ وہ تھا جو امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں ایک جنونی پادری،ملعون ٹیری جونز کی نگرانی میں قران پاک کو (ہاں جی، اللہ کی مقدس ترین کتاب، جو ناموسِ عیسیٰ اور ناموسِ مریم علیہا السلام کی بھی اصل محافظ ہے) کو دہشت گردی کے الزام میں، نذرِ آتش کر کے اہلِ اسلام پر کیا گیا۔
دراصل یہاں قرآن اور صاحبِ قرآن کی بے حرمتی کی ایک طویل دل خراش داستان ہے، جو بالا ختصار ملاحظہ فرمائیے:
قرآنِ پاک کی بے حرمتی: یہودی عیسائی ابتداے اسلام ہی سے اسلام کے خلاف جل بھن رہے تھے مگر ان کو شاید تاریخ میں پہلی بار خوب کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ چونکہ آج تمام مسلمان حکمران ان کے بے دام غلام بنے ہوئے ہیں، اورمؤثر احتجاج کرنے والا کوئی رہ نہیں گیا۔ ویسے بھی مسلمانوں کا آپس میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں۔ لہٰذا دشمن آج اپنے جلے دل کے پھپھولے خوب نکال رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد منظم انداز میں قرآن ذی شان کی بے حرمتی کے واقعات اوپر تلے پیش آ رہے ہیں۔ گوانتانا موبے او ربگرام کے عقوبت خانوں میں قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے ان کے سامنے متعدد بار قرآن پاک کے اوراق پر فوجی چڑھ کرنا چتے رہے، ان کو فلش میں بہاتے رہے، ان پر کتے دوڑاتے رہے، یہ واقعات میڈیا میں چھپے، مگر کوئی احتجاج نہ ہوا۔ پھر ۲۰۰۵ء میں ان ملعونوں نے قرآن پاک کا ایک جعلی ایڈیشن 'فرقان الحق' The True Quran کے نام سے چھاپ کر سارے میڈیا میں پھیلا دیا مگر وہ بھی مؤثر نہ ہوا۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر کوئی مؤثر احتجاج نہ ہونے سے ان کو مزید شہہ ملی اور ایک ملعون پادری ٹیری جونز نے آگے بڑھ کر نائن الیون کی برسی کے موقع پر قرآن پاک کو جلانے کی دعوتِ عام دے ڈالی۔ فیس بک پر ایک پیج بنا دیا گیا:
"Every body burn the Quran Day" اور ساتھ ہی پیغام دیا کہ
''آزادئ اظہارِ رائے زندہ باد... انتہا پرستی مردہ باد! ''
آخر اہلِ مغرب کے اس طرح کے توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے پروگرام کے خلاف اسلامک لائرز فورم نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی تھی کہ فیس بک پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ اس میں جان بوجھ کر پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد رکھا گیا ہے اور دیگر لوگوں کو بھی ایسے مواد کی اشاعت کی دعوت دی گئی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اعجاز چودھری نے پاکستان میں ۳۱ مئی 2010ء تک فیس بک پر پابندی لگا دی تو عدالت میں موجود تمام لوگ یک دم خوشی سے اُچھل پڑے۔ پھر پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے اس عدالتی حکم کے اگلے ہی دن 450 ویب سائٹس بلاک کر دیں کیونکہ ان میں قابل اعتراض اور اشتعال انگیز مواد پایا گیا تھا۔ لوگوں نے امریکی سازش کی شدید مذمت کی اور عدالت کے حکم کی تعریف کی۔ پھر ہزاروں غیور طلبہ نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ صرف چند دن کی اس پابندی نے دشمن کے حواس مختل کر دئیے۔ امریکی میڈیا فیس بک پر پابندی سے بہت پریشان ہوا، ان کی آمدنی میں یک دم کمی جو آ گئی تھی۔ یہ بد بخت صرف معاشی بائیکاٹ ہی کو سمجھتے ہیں اور تو کوئی احتجاج اور مظاہرہ وغیرہ ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں سی این این کی ایک رپورٹ تھی: ''پاکستان انتہا پسندی پر پابندی لگائے، فیس بک پر نہیں۔'' آخر یہ آزادیٴ اظہار کا پرچار کرنے والے کیوں دوسروں کے جذبات واحساسات سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔2
اپنا معاشی نقصان دیکھ کر وہ وقتی طور پر اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے باز آ گیا۔ لیکن کچھ دیر بعد ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو اس نے پھر اعلان کر دیا کہ اب تو وہ لازماً ۲۰ مارچ کو اپنے چرچ میں قرآن پر مقدمہ چلائے گا اور اپنی جیوری کے فیصلے کے مطابق قرآن کو سزا دے گا۔ قرآن پر مقدمہ یہ ہے کہ نعوذ بالله یہ'دہشت گردی'کی کتاب ہے۔ یہی دنیا میں دہشت گردی پھیلاتی ہے۔ اور پھر ...... وہ کچھ ہوا۔ جس کا کوئی سچا مسلمان کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ۲۲ مارچ کو روزنامہ نوائے وقت میں خبر شائع ہوئی:
''ملعون پادری ٹیری جونز کی نگرانی میں قرآن پاک کو ایک گھنٹہ مٹی کے تیل میں ڈبو کر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ یہ 30؍افراد کی جیوری کافیصلہ تھا کہ قرآن واقعی دہشت گردی کی کتاب ہے اور ساتھ اُس نے کہا کہ ''مسلمانوں نے اپنی کتاب کا دفاع نہیں کیا، اسلئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔'' جلتے قرآن پاک کے نسخے کے فوٹو بھی بنائے۔ فلوریڈا کے چھوٹے سے چرچ گینز ولی میں پادری وین سلیپ نے یہ قبیح فعل انجام دیا۔''3
خبر پڑھتے ہی میرے دل پر آرا چل گیا۔ یا اللہ! کیا میری زندگی میں یہ منحوس دن بھی آنا تھا۔ کیا میرے کانوں نے اتنی مذموم اور ناپاک جسارت کی خبر سننا تھی۔ میں اس سے پہلے دنیا سے کیوں نہ اُٹھا لی گئی؟ کیا مجھے اب دنیا میں زندہ رہنے کا حق ہے؟ جس کے رسول کی بار بار توہین کی جاتی ہو اور پھر اس کی مقدس کتاب کو دشمن یوں جلا ڈالے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون. أستغفر الله ثم أستغفر الله! یا اللہ! صرف اور صرف آپ سے فریاد ہے۔ ان فاسق و فاجر حکمرانوں نے جنونی ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کو یہ جرأت و حوصلہ دیا کہ اب وہ براہِ راست ہمارے رسول پاک اور قرآنِ مجید کی ناموس پر حملے کرتے جا رہے ہیں اور پھر یہ سب کچھ علیٰ الاعلان کر رہے ہیں۔ اظہارِ رائے کا حق استعمال کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں اور ہم صر ف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ''قرآن پاک جلے گا تو کیا امریکہ نہ جلے گا؟''...''قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے خود لیا ہوا ہے لہٰذا وہ خود ہی ان سے نبٹ لے گا۔'' سوال یہ ہے کہ کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے یا نہیں؟
پھر نہ ہمارا کھانا چھوٹا، نہ پینا چھوٹا، نہ آرام و نیند میں کوئی فرق آیا۔ ہم تو صرف ایک دن کے لیے بھی ان ظالموں اور سرکشوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہ کر سکے۔ گویا قرآن جلتا رہا اور ہمارا ایمان سوتا رہا۔
یہ خبر ۲۲ مارچ 2011ء کے صرف چند اخباروں میں چھپی۔ روزنامہ نوائے وقت نے ابتدا سے ہی اس میں مؤثر کردار ادا کیا تھا۔ ۲۳ مارچ کو عوام نے اپنی سطح پر ممکن بھر احتجاج کیا، ملک بھر میں مظاہرے ہوئے او رریلیاں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی میں شدید احتجاج ہوا۔ تحریکِ حرمتِ رسول نے ملعون پادری کو قتل کرنے والے کے لیے۱۰ کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ حمید نظامی ہال میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں ٹیری جونز کو واجب القتل قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مسلم ممالک احتجاجاً امریکی سفیروں کو نکال دیں۔ ایران، ترکی وغیرہ میں بھی احتجاج ہوا مگر ایک انوکھا احتجاج افغانستان میں ہوا کہ مظاہرین نے یو این او کا دفتر نذرِ آتش کر دیا۔ ۸ غیر ملکیوں سمیت۲۰ لوگ ہلاک ہو گئے۔4 پھر اس میں تین مظاہرین بھی ہلاک ہوئے۔ تحریک حزب اللہ نے بھی اس موقع پر ٹیری جونز کو قتل کرنے والے کے لیے ۲۴ ملین ڈالرز کا اعلان کیاتھا۔
ہمارے حکمرانوں نے احتجاج تو کیا کرنا تھا ان کو یہ گلہ ہی رہا کہ

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

تحریک حرمتِ رسول نے بھی اس موقع پر ممکن بھر سعی کی۔ تحریک حرمتِ رسول کے کنوینرصاحب نے ٹیری جونز کو دعوتِ مباہلہ دے ڈالی مگر اس نے جواب تک نہ دیا۔
۲۰ مئی۲۰۱۱ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ایک بار پھر وفاقی حکومت کو کہا کہ پاکستان کی حکومت فیس بک کے گستاخانہ خاکوں اور قرآن جلانے کے مناظر وغیرہ کے خلاف اقوام متحدہ اور او آئی سی میں معاملہ اُٹھائے اور ان کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائے۔ مگر دنیا بھر کا میڈیا بھی اس خبر کو چھپارہا تھا او رمسلم حکمران بھی تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے تھے۔ ایک اور انوکھا ردِ عمل جو پنجاب میں عوام کی سطح پر سامنے آیا۔وہ یہ تھا کہ ''نئے تعلیمی سیشن کے شروع ہونے پر سکولوں اور مساجد میں داخلے...پچپن ہزار طلبہ نے حفظِ قرآن کے لیے مدارس میں داخلہ لے لیا، وہ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کریں گے۔''5
10۔ پاک بھارت ورلڈ کپ سیمی فائنل کرکٹ میچ ۳۰؍مارچ ۲۰۱۱ء
اصل مسئلہ یہ تھا کہ ۳۰ مارچ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہونے والا تھا اور پوری دنیا کا میڈیا اسی کو اجاگر کر رہا تھا۔ اسی گرد میں ریمنڈ کیس کو بھی دبا دیا گیا اور اسی میں قرآنِ پاک کے نذر آتش کیے جانے کا مسئلہ بھی گول کر دیا گیا۔ یہ میچ صرف کرکٹ ٹیم نے نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم نے کھیلا، جس کی لمبے عرصے سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہر جگہ لوگ ورلڈ کپ میں مست تھے۔ لوگ پاکستان کی فتح کے لیے نفل اور تسبیح پڑھتے اور دعائیں مانگتے نظر آ رہے تھے۔ مساجد میں طلبہ کو خصوصاً دعائیں مانگنے کے لیے متعین کر دیا گیا تھا۔ پھر میچ کے موقع پر لوگ ہر چوکے اور چھکے پر تتلیوں کی طرح تھرکتے اور ناچتے تھے مگر سرفرازی پھر بھی نصیب نہ ہو سکی۔ وہ 'شاندار طریقے'سے ہار گئی۔ اس کے بعد خبر آئی:
کرکٹ میچ میں بھارت سے شکست: 5 شائقین صدمے سے چل بسے۔ دوسری طرف شکست کے باوجود واپسی پر پاکستانی ٹیم کا شاندار استقبال ہوا اور اس کو گرانقدر انعامات سے نوازا گیا۔ بس یہ ہے ہم جیسے مسلمانوں کے 'اسلام' کی حقیقت کہ قران جلے تو کوئی صدمے سے جان نہ ہارے۔ مگر کرکٹ میچ میں شکست سے 5 لوگ صدمے سے جان کی بازی ہار جائیں۔ ہم نے تو قرآن سے محبت کے اظہار کے لیے ایک دن بھی ٹی وی پر انڈیاکے ڈرامے اور انگریزوں کی بے ہودہ فلمیں نہ چھوڑیں، نہ اُن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوراً امریکی سفیر کو طلب کر کے زبردست احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا۔ اور ہر شخص اس موقع پر غم میں ڈوبا ہوتا، دشمن کو پتہ چلتا کہ اس نے کس غیور قوم کو للکارا ہے۔سعودی حكومت اس پر زبردست احتجاج ریکارڈ کراتی اور حرمین شریفین سے اس ظلم کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد وجمع کیا جاتا۔ او آئی سی اگر اس موقع پر بھی احتجاج نہ کر سکی تو وہ پھر آخر کس مرض کا علاج ہے!
دوسری طرف یہ جو کرکٹ کا اتنا بخار قوم کو چڑھایا گیا،اس کی کیا وجہ ہے۔یہ کرکٹ میچ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ نہیں۔ یہ تو شاہانہ مزاج اقوام کا کھیل ہے۔ جس قوم کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو وہ ایسی عیاشی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہماری ثقافت یہ بھنگڑے، لہو ولعب، کرکٹ اور رقص و سرود نہیں بلکہ نشانہ بازی، شہ سواری اور جہاد ہے۔
سابق کرکٹر ظہیر عباس نے ایک موقع پر کہا تھا كہ
'' پاکستانی قوم بھی کتنی عجیب ہے۔ہم کھیل میں حقیقت پسند بن کر سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ مگر سنجیدہ واقعات کو کھیل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔''
کہاں گئیں دنیا بھر کی این جی اوز، ہر ایک کے حقوق کی محافظ بننے کا دعویٰ رکھنے والی این جی اوز؟ کہاں گئے انسانیت کے نام نہاد رکھوالے، امن قائم کرنے کے ٹھیکیدار، بزعم خود تہذیب یافتہ اور دنیا کے بین الاقوامی ماحول کو پر امن رکھنے کا دعویٰ کرنے والے؟ بلکہ اُنہوں نے ٹیری جونز کو خوب تحفظ دیا۔ کسی پادری پوپ یا حکمران نے اس کی سرزنش نہ کی۔ تو پھر ٹیری جونز نے مزید دیدہ دلیری سے 'فاکس نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ناپاک منصوبوں کا اعلان کیا کہ ''مرتے دم تک اسلام کا راستہ روکتا رہوں گا۔ ۲۲؍اپریل سے مسلمانوں کے نبی کا فرضی ٹرائل کروں گا۔ اور وقتاً فوقتاً ایسے پروگرام کرتا ہی رہوں گا ، اب تک مجھے قتل کی ۴۰۰ کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔''6
اَمریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ اس کو امن عامہ کے پامال کرنے کے جرم میں پابند سلاسل کر دیتا، پوپ بینی ڈکٹ کو (جس نے توہینِ رسالت کے کیس میں پاکستانی حکومت کو آسیہ مسیح کی رہائی کا حکم دینا ضروری سمجھا تھا) اس موقع پر انجیل میں دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس کو سزائے موت دلوانا چاہیے تھی۔
مگر کیا ان کے قرآن کو نذر آتش کر دینے سے قرآن پاک دنیا سے ختم ہو گیا۔ وہ تو اسی آب و تاب سے، اسی تسلسل کے ساتھ پوری دنیا میں جگمگا تا رہا ہے اور تا ابد جگمگاتا رہے گا۔ ان شاء اللہ کہ اس کا محافظ خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ دراصل یہ ہمارا امتحان ہے کہ آج دنیا میں بیسیوں شاتمِ رسول اور قران کی بے حرمتی کرنے والے دندنا رہے ہیں ،للکار رہے ہیں مگرنبی پاک ﷺ کی حرمت کا بدلہ لینے کے لیے صرف ایک دو ممتاز قادری اور عامر چیمہ ہی کیوں؟ انتظار ہے کہ کون اب شمعِ قرآن پر اپنے آپ کو نثار کرے گا؟ کون حرمت رسول کے لیے جان قربان کرے گا؟
اسی طرح پاکستان کی خوش قسمتی ہندوستان سے میچ ہارنے یا جیتنے میں نہیں بلکہ کشمیر پر اور اپنے دریاؤں پر سے بھارتی قبضہ چھڑوانے میں ہے۔ پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر پھر اپنے مفاد پورے کرنے میں مگن ہو جانے میں نہیں، بلکہ قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑنے اور دامنِ محمدﷺ سے وابستہ ہو کر اپنے رب کو منا لینے میں مضمر ہے کہ اللہ بھی انہی کی مدد فرماتا ہے جو اس کے دین کومضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔
مسلمان حکمرانوں کی غیرت و حمیت
11۔ اب میرے دل و دماغ نے تاریخ اسلام سے بے شمار بڑی بڑی مثالیں میرے سامنے لا کر رکھ دیں:
1۔ مجھے حجاج بن یوسف یاد آنے لگا جس نے دور دراز دیبل کے ساحل پر موجود مظلوم عورتوں کی ظالم راجہ داہر کے خلاف فریاد سنی تو تڑپ اُٹھا اور پھر پے در پے دو مہمات بھیجیں۔ آخر میں اپنے سترہ سالہ داماد محمد بن قاسم ﷫ کو ظالم راجہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا اور آخر ان مظلوم عورتوں اور بچوں کو عراق منگوا کر ہی سکون لیا۔ سندھ کا پورا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہو گیا اور سندھ 'باب الاسلام' بن گیا۔
2۔ مجھے عباسی خلیفہ معتصم یاد آنے لگا۔ جب اس کو اطلاع ملی کہ عموریہ کے بادشاہ نے ایک مسلمان خاتون کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں اورجب اس مظلوم و بے بس خاتون نے چلّا چلّا کر کہا۔ وامعتصماہ! تو اس ظالم نے طعنہ دیا:''ہاں بلا لے اپنے معتصم کو، وہ تو اسی وقت ابلق گھوڑے پر سوار ہو کر آئے گا اور تجھے میرے پنجے سے چھڑا کر لے جائے گا۔'' امیر المومنین خلیفہ معتصم کو جب یہ خبر ملی تو ایک دم حالت غیر ہو گئی۔ آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ رندھی ہوئی آواز میں بولا ''لبیک اے بڑھیا !میں جب تک تیرا بدلہ نہ لے لوں، مجھ پر کسی قسم کا آرام او رلذت حرام ہے۔ پھر اس نے غلام کو حکم دیا کہ یہ شربت کا پیالہ فی الحال رکھ دو۔ میرے لیے حرام ہے کہ ایک بوڑھی مسلم خاتون قید کی حالت میں مجھے مدد کے لیے پکار رہی ہو او رمیں یہاں لذیذ شربت سے شاد کام ہوتا رہوں۔ جیتا رہا تو پھر وہاں سے آنے کے بعد یہ شربت پی لوں گا۔ نجومیوں نے اس کو روکنے کی کوشش کہ ''امیر المومنین! عموریہ کے متعلق ستاروں کا اشارہ ہے کہ اس پر جنگ کے ذریعے قبضہ نہیں ہو سکتا۔''
معتصم نے ان نجومیوں کو ڈانٹا (بعض روایات کے مطابق ان کو قتل کروا دیا) اور چار ہزار تیز رفتار ابلق گھوڑے لے کر اگلی صبح ہی روانہ ہو گیا۔ وہ آندھی کی سی تیزی کے ساتھ عموریہ روانہ ہو گیا۔ شدید سردی تھی، فوجی لڑنے سے گریز کر رہے تھے کہ انتہائی سردی میں کمانیں بھی اکڑ گئیں ہیں۔ اس پر معتصم خود آگے بڑھا، اس نے اسی وقت ۲۰۰ کمانیں یکے بعد دیگرے سپاہیوں کو خود کھینچ کر دکھا دیں۔ تو سپاہی آگے بڑھے، عموریہ پر حملہ کیا گیا تو چند گھنٹوں بعد عموریہ فتح ہو چکا تھا۔ جس قلعے کو نجومیوں کے ستارے فتح نہ کر سکے تھے،ا سے معتصم کے سپاہیوں نے پامال کر دکھایا۔ فتح حاصل ہوتے ہی معتصم اس کنوئیں پر پہنچا جہاں وہ مسلمان خاتون قید تھی۔ اسے کنوئیں سے باہر نکالا اور اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: ''تو نے اللہ کو پکارا اور مجھے آواز دی۔ میں اب حاضر ہو گیا ہوں۔'' اس دن دشمن کے نوے ہزار آدمی اس جنگ میں کام آئے تھے اور مظلوم مسلمان بڑھیا سرخرو ہو گئی تھی۔
3۔ مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی﷫ یاد آنے لگا۔ اس نے اپنے اوپر چارپائی پہ سونا اور آرام و چین سے بیٹھنا حرام قرار دے دیا تھا۔ کہ جب تک اہلِ صلیب سے فلسطین اور یروشلم واپس نہ لے لوں گا، چین سے نہ بیٹھوں گا۔ میری عید تو اسی دن ہو گی جب فلسطین ہمارے ہاتھ آئے گا۔ اس نے اپنا ارادۂ حج تک ملتوی کر دیا۔ بالآخر ۵۸۳ھ (۱۱۸۷ء میں) اس نے فلسطین کو معرکہٴ حطین میں کامیابی حاصل کر کے واگزار کروا کر اپنی غیرتِ ایمانی کا ثبوت دیا۔
4۔ مجھے شہاب الدین غوری بھی یاد آنے لگا۔ وہ خاندانِ غلاماں کا ہندوستان میں دوسرا بادشاہ تھا، اُس نے ۱۱۹۱ء میں تراوڑی کی جنگ میں پرتھوی راج سے شکست کھائی تو قسم کھائی کہ جب تک اس شکست کا بدلہ نہ لے لوں، سر میں تیل لگاؤں گا، نہ چارپائی پر سوؤں گا۔ بالآخر ۱۱۹۲ء میں اس نے تراوڑی کی دوسری جنگ میں پرتھوی راج کو شکست دے کر بدلہ لے لیا۔
یہ سارے حکمران تو مخلص مؤمن غیور اور حق کے سپاہی تھے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ ہمارے قیمتی مسلمان مجاہد اور پاکستان کے بہی خواہ نیک دل و پاکباز لوگوں کو ہمارے حکمران اپنے اقتدار اور دولت کی ہوس کی خاطر چند ڈالروں میں امریکہ کو فروخت کر رہے ہیں۔ اور امریکی ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ پاکستانی تو صرف دس ڈالر میں اپنی ماں کو بھی فروخت کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ایمل کا نسی کو امریکہ کس طرح ہمارے ہاں سے چھین کر لے گیا۔ ہماری نیک اور قابل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ ہمارے بد بخت حکمرانوں نے فروخت کر دیا۔ وی آنا کنونشن کا حوالہ دینے والوں نے ہمارے ہاں سے افغانستان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو کس طرح گرفتار کر کے گوانتا نا موبے کے تعذیب خانے میں پہنچا دیا۔ اپنے کتنے ہیرے موتیوں کو اور افغانستان کے بے شمار مجاہدین کو جو عالمِ اسلام کا بجا طور پر مکھن کہلانے کے مستحق تھے،ان کو گوانتا نا مو بے جزیرے کا ایندھن بنانے کے لیے ہم نے خود بندوبست کر دیا۔ افسوس امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کو مکمل طور پر ایندھن پاکستان نے فراہم کر کے دیا۔ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں!؟ کیا ہم حاملِ قرآن و سنت ہیں؟ کیا ہم محبِ رسولِ مقبول ہیں؟ کیا ہم آزاد پاکستان کے آزاد شہری ہیں؟
12۔ اہلِ پاکستان کی ذمہ داری: پاکستان حرمتِ قرآن اور حرمتِ رسول کا محافظ ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کی شہ رگ ہے۔ یہ عالمِ اسلام کا وہ قلعہ ہے جہاں کے فکر و عمل کا ہر زاویہ پورے عالمِ اسلام کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اسی لیے عالمِ اسلام کے خلاف ہر طرح کی سازش اور شورش کا اولین ہدف پاکستان ہوتا ہے۔ اور پھر یہ سازش بعد ازاں پورے عالم اسلام میں پھیل جاتی ہے۔
حرمتِ قرآن اور حرمتِ رسول کی پامالی کا درست جواب تو یہی تھا کہ او آئی سی کا اس غرض کے لیے اجتماع منعقد ہوتا اور سب مسلم حکمران مل کر اہلِ مغرب سے مطالبہ کرتے کہ تمام شاتمانِ رسول کو اور گستاخانِ قرآن کو ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم ان کو اصل سزا دیں۔ شریعت کے مطابق ان کو سزائے موت دیں۔ کم از کم سرکاری سطح پر ان تمام قصور وار ممالک کا بائیکاٹ کیا جاتا۔ لیکن جب مسلمان حکمرانوں کو اپنی دولت اور اقتدار کے علاوہ کچھ ہوش نہیں توپھر عوام کو ہی کام کرنا ہو گا۔ اسلامی تحریکیں اور عوام پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔ اہل مغرب کی اس دریدہ دہنی اور فاشزم پہ کڑھتے ہیں تو پھر پاکستان کے عوام خود آگے بڑھیں۔ اسلام، قران اور نبی آخر الزمان کے پروانے اپنی زبان اور اپنے قلم کو کیوں روکے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی ہر زہ سرائی کا اُنہیں جواب دینا ہو گا، ان کی زبانوں کو لگام دینا ہو گا۔ خصوصاً جب کہ ہمارے پاس انسانیت کے لیے حیات بخش پیغام بھی ہے او رمغرب کی کھوکھلی تہذیب کے ڈسے ہوئے لوگ اس پیغام کی تلاش میں بھی ہیں۔ عالمِ انسانیت اسلام کے امن بخش پیغام کو سننے کے لیے بے قرار بھی ہے۔
باطل کی یہ خاصیت ہے کہ وہ حق آنے پر دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔ آخر روشنی کے سامنے اندھیرا کیسے ٹھہر سکتا ہے۔ جہالت اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جبکہ اسلام کو جتنا زیادہ دبا دیا جائے،یہ اتنا اُبھرتا ہے۔
۲۰ مارچ ۲۰۱۱ء والے سانحے کے بعد مغرب میں قران پاک کی بہت زیادہ مانگ ہو گئی ہے۔ عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمِ اسلام میں بیداری کی لہر آگے بڑھ رہی ہے۔ مغرب کافر سودہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی بساط لپیٹ رہا ہے۔ ایسے میں یہ ہمارا فرض ہے کہ جہاد کو دہشت گردی کہنے والوں کا فساد دنیا پر عیاں کریں۔ ہمارا قرآن اور ہمارے نبی دونوں عالم انسانیت کے لیے باعثِ رحمت ہیں۔ تو ان دونوں کی رحمتِ عامہ دینا پر واضح کر کے نیو ورلڈ آرڈر والوں کی دہشت گردی دنیا پر واضح کریں۔ رب کی شفقت و رحمت سے، قرآن پاک کی زندگی بخش تعلیم سے، لفظ لفظ محبت سے، حرف حرف پیار سے، سکون دل بخشنے والی کتاب سے، دنیا کو واقف کروائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، شریعت کی طرف سے ہم پر فرض ہے۔ ہمارے دین کی طرف سے ہم پر قرض ہے!!
ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب امریکہ کی فرعونیت حد سے بڑھنے لگی ہے تو اب اللہ تعالیٰ بھی فرعون کے اپنے آنگن میں کوئی موسیٰ ضرور پیدا فرمائے گا۔
1۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ بڑی محبت سے ہم اس قرآن کو سینے سے لگائیں، اس کے مطابق اپنے رویوں کو تبدیل کریں۔ اپنی نسل نو کو قرآن سے آشنا کریں۔ مغربی نظام تعلیم کے بجائے ان کو قرآن و حدیث سے جوڑیں تا کہ ہم بھی اور ہماری آنے والی نو خیز نسل بھی دجالی فتنے سے محفوظ رہے اور ابلیسی چالوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔
لہٰذا قرآن فہمی کی کلاسوں کو بہت زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ کام قرآن پاک کو حرزِ جاں بنانے اور اس کے ہر حکم کے مطابق اپنی زندگی کو تبدیل کیے بغیر نہیں ہو گا۔ اگر ہم یہ کام کر گزریں، تو کسی ٹیری جونز کو اس درندگی کی جرأت نہ ہو سکے گی۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم نے اس انقلاب کی کتاب کو صرف ثواب کی کتاب سمجھ کر اسے صرف مسجد و مدرسہ تک محدود کر دیا ہے اور اس کو اپنا دستورِ زندگی بنانے سے بے پروائی برتی۔
پہاڑی کا چراغ تو یہی لوگ ہیں ناں جو خیرکم من تعلم القرآن و علمه کے مطابق: ''تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو خود قرآن سیکھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھاتے ہیں۔'' اور خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور پھر اس کاپیغام پوری دنیا تک پہنچانے میں لگ جاتے ہیں۔ یا اللہ! ہمیں ایسے ہی لوگوں میں شامل فرما دے۔ آمین!
2۔ ہماری ساری قوت ہمارے اتحاد و اتفاق میں ہے۔ وحدتِ اُمّت ہی شاتمین رسول وگستاخانِ قرآن مجید کا اصل جواب ہے۔
3۔ دوسری طرف امت مسلمہ کو اپنی عسکری قوت بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے باہم بر سرپیکار رہنے سے ماند پڑ گئی ہے۔ پاکستان میں ہر مرد کو فوجی تربیت لازمی کر دی جائے۔ NCC کو دوبارہ تعلیمی اداروں میں بحال کیا جائے۔ نبی کریمﷺ کی وراثت یہ بھنگڑے، کرکٹ میچ اور لہو و لعب نہیں ہیں، نہ ہی درہم و دینار ہیں۔ آپ کے آخری لمحات میں گھر میں جلانے کو چراغ کے لیے تیل نہ تھا مگر گھر میں گیارہ تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ لہٰذا لہو و لعب کو خیر باد کہہ کر قرآن پاک اور رسول اکرم کی طرف رجوع کریں۔ اتفاق و اتحاد اختیار کر کے ہی اہل باطل کو دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔
4۔ اور اپنے میڈیا کو بھی ہم نے خود کنٹرول کر کے اسے لبرل ازم کے سیلاب سے بچانا ہے، اسے یہ پیغام دینا ہے کہ شمشیر و سنان اوّل، طاؤس و رباب آخر!


حوالہ جات

1. ماہنامہ 'الصفت' لاہور: آخری صفحہ مارچ ۲۰۱۰ء

2. تلخیص 'میڈیا واچ' از ابو العین، ہفت روزہ ایشیا، لاہور... ۲۷ مئی تا ۲؍ جون ۲۰۱۰ء

3. روزنامہ نوائے وقت ۲۲ مارچ ۲۰۱۱ء بروز منگل... ۱۶ ربیع الثانی 1۴۳۲ھ

4. روزنامہنوائے وقت، لاہور:30 اپریل 2011ء

5. روزنامہ 'نوائے وقت 'لاہور: مؤرخہ ۱۱؍ اپریل ۲۰۱۱ء

6. روزنامہ' نوائے وقت' لاہور: ۸ اپریل ۲۰۱۱ء