روزہ و زکوٰۃ کے بارے اہم فتاویٰ

كیامالِ تجارت كى زكاۃ قیمت خرید پر ہو گى یا قیمت فروخت پر ؟
سوال:تجارتى سامان كى زكاۃ كس طرح ادا ہو گى؟ آیا وہ قیمتِ خرید كے مطابق ہو گى یا قیمت فروخت كے مطابق ؟
جواب:تجارتى سامان كى زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ سال مكمل ہونے پر سامان كى ماركیٹ كے مطابق قیمت لگائى جائے گى۔(اور غالبًا دوكان میں وہى فروخت كى قیمت ہے) چاہے یہ قیمتِ خرید كے برابر ہو یا اس سے كم یا زیادہ اور پھر اس سے اڑھائى فیصد زكاۃ ادا كی جائے گی۔1 اور یہى كمالِ عدل ہے، كیونكہ سال مكمل ہونے كے وقت اس كى قیمت خریدارى كى قیمت سے مختلف ہو سكتى ہے یا كم یا زیادہ۔
پھر اگر تاجر تھوك یعنى ہول سیل كا كاروبار كرتا ہو تو وہ ہول سیل كى قیمت لگائے گا، اور اگر وہ پرچون كا كاروبار كرتا ہے تو وہ پرچون كى قیمت لگائے گا۔2 اور اگر وہ ہول سیل اور پرچون دونوں كاروبار اكٹھا كرتا ہے تو وہ قیمت متعین کرنے میں محنت سے کام لے اور ہول سیل فروخت كرنے والے مال كا اندازہ لگاکر اس كى قیمت ہول سیل ریٹ كے مطابق لگائےاور جو پرچون فروخت كرتا ہےاس كى قیمت پرچون ریٹ كے مطابق لگائے اور اس كى زكاۃ نكالے۔ اور اگر وہ اس حالت میں احتیاط كرتے ہوئے اتنى زكاۃ نكالے جو یقینى واجب كردہ زكاۃ سے زیادہ ہو تو یہ افضل ہے، كیونكہ ہو سكتا ہے وہ یہ اندازہ لگائے كہ وہ یہ سامان ہول سیل فروخت كرے گا اور پھر اسے وہ پرچون فروخت كر دے۔
افطاری کا کھانا حاضر ہو تو نمازِمغرب کا حکم؟
سوال:مسلمان شخص كیسے افطارى كرے، كیونكہ بہت سارے لوگ كھانے میں مشغول ہوتے ہیں اور نماز كا وقت گزر جاتا ہے اور جب آپ اُن سے دریافت كریں تو وہ كہتے ہیں كہ كھانے كى موجودگى میں نماز نہیں ہوتى۔ كیا اس قول سے استدلال جائز ہے، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب كا وقت كم ہوتا ہے۔ ان حالات میں برائے مہربانى یہ بتائیں كہ میں كیا كروں ؟ كیا كھجور كے ساتھ افطارى كر كے نماز مغرب كے لیے چلا جاؤں اور بعد میں آ كر كھانا كھاؤں، یا پہلے كھانا مكمل كروں اور بعد میں نماز ادا كر لوں؟
جواب: سنت یہى ہے كہ انسان افطارى جلدى كرے، اور جب سورج غروب ہو جائے تو وہ افطارى كر لے كیونكہ حدیث میں وارد ہے كہ
''جب تك لوگ افطارى میں جلدى كرتے‏ رہیں گے، ان میں خیر و بھلائى رہے گى۔''3
اور نبی کریم ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا»4
''میرے محبوب بندے وہ ہیں جو افطاری میں جلدی کرتے ہیں۔''
روزے دار كے حق میں زیادہ بہتر یہى ہے كہ وہ كھجور كے ساتھ افطارى كر كے نمازِ مغرب ادا كرے اور كھانا بعد میں كھائے تا كہ افطارى جلد كرنے اور نمازِ مغرب اوّل وقت میں ادا كرنے كى سنت جمع كر كے نبى كریمﷺ كى اقتدا اور پیروى كر سكے۔رہى یہ حدیث كہ
''كھانے كى موجودگى میں نماز نہیں ہوتى، اور دو خبیث اشیا (پیشاب اور پاخانہ) كو روك كر ركھنے كى حالت میں نماز نہیں ہوتى۔''5
اور حدیثِ نبویؐ:
''جب رات كا كھانا حاضر ہو جائے اور نماز كھڑی ہوجائے تو پہلے رات كا كھانا كھاؤ ۔''6
اس سے مراد یہ ہے كہ
جس كے سامنے كھانا پیش كر دیا جائے یا وہ كھانے میں حاضر ہو جائے تو وہ نماز سے قبل كھانا كھا لے تا كہ وہ نماز كے لیے آئے تو اس كا دل كھانے كى طرف نہ ہو اور وہ كھانے سے فارغ ہو چكا ہو، اور پورے خشوع كے ساتھ نماز ادا كرے۔لیكن اسے یہ حق حاصل نہیں كہ نماز سے قبل كھانا طلب كرے یا پھر كھانے میں خود حاضر ہو جائے، كیونكہ ایسا كرنے سے نماز باجماعت رہ جائیگى، اور وہ اوّل وقت میں نماز ادا نہیں كر سكے گا۔
(شیخ عبد العزیز بن بازکی سربراہی میں قائم دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودیہ)

رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دینا
سوال: رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دینا جائز ہے، یا یہ بدعت شمار ہوگا ؟
جواب: رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دینے میں كوئى حرج نہیں، نبى كریمﷺ اپنے صحابہ كرام كو رمضان المبارك آنے كى خوشخبرى دیتے اور اُنہیں اس كا خیال ركھنے پر اُبھارتے تھے۔ابو ہریرہ بیان كرتے ہیں كہ رسول كریم ﷺ نے فرمایا:
''تمہارے پاس بابركت مہینہ آیا ہے، اللہ تعالىٰ نے اس كے روزے تم پر فرض كیے ہیں، اس میں آسمان كے دروازے كھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم كے دروازے بند كر دیے جاتے ہیں، اور سركش شیاطین پابندسلاسل كر دیے جاتے ہیں، اس میں ایك رات ایسى ہے جو ایك ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس كى بھلائى اور خیر سے محروم كر دیا گیا تو وہ محروم ہے۔''7
روزے کی حالت میں بیوی سے خوش طبعی کرنے کا حکم
سوال: کیامیں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے آپ سے محبت ہے ؟ میری بیوی مجھ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ میں روزے کی حالت میں اس سے محبت کا اظہار کرتےہوئے کہوں کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، لیکن میں نے اسے کہا کہ روزے کی حالت میں ایسا کہنا جائز نہیں ، لیکن وہ کہتی ہے کہ جائز ہے ؟
جواب: مرد روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے خوش طبعی کرسکتا ہے ، اسی طرح بیوی کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند سے روزے کی حالت میں خوش طبعی کرلے ، لیکن ایک شرط ہے کہ وہ دونوں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ سکتے ہوں کہ انزال نہ ہونے پائے ، اوراگر انہیں اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کہ شدید قسم کی شہوت ہونے کی بنا پر اس کا انزال ہوجائے ، تومنی کے اخراج سے روزہ فاسد ہوجائے گا ۔ لہٰذا ایسے شخص کے لیے بیوی سے خوش طبعی کرنا جائز نہیں ،کیونکہ وہ ایسے کرنے سے اپنا روزہ فاسد کرلے گا ، اوراسی طرح مذی کے نکلنے کا خدشہ ہو ۔8 روزے کی حالت میں انزال ہونے سے محفوظ رہنے والے شخص کے لیے بیوی سے بوس وکنار کرنے کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ
''نبیﷺ ان سے روزہ کی حالت میں بوس وکنار کیا کرتے تھے ، اور اُنہیں اپنے آپ پرتم سے زیادہ کنٹرول تھا ۔''9
اور ایک حدیث میں ہے کہ عمرو بن سلمہؓ بیان کرتے ہیں :
''انہوں نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ کیا روزہ دار بوسہ لے سکتا ہے ؟ تورسول اکرم ﷺ فرمانے لگے:اس (ام سلمہ ؓ)سے پوچھ لو توام سلمہ ؓ نے انہیں بتایا کہ نبی ﷺ ایسا کیا کرتے تھے ۔10
شیخ ابن عثیمین﷫کہتے ہیں:
''بوسہ کے علاوہ معانقہ اوردوسرے ابتدائی کام کے حکم کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ اس کا حکم بھی بوسے کاحکم ہی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ ''11
لہٰذا اس بنا پر آپ کا صرف اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں، یا وہ آپ کو یہ کہے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں، روزے کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں دیتا ۔
وقت سے پہلے روزہ افطار کرنا
سوال: مؤذّن نے وقت سے سات منٹ قبل اذان كہہ دى تو لوگوں نے روزہ افطار كرلیا کہ محلّے كى مسجد كی اذان سن كر ہم نے روزہ افطار كرلیا، اور سات منٹ گزرنے كے بعد ہم نے ایك دوسرى مسجد كے مؤذن كى اذان سنى۔ جب ہم نے محلے كے مؤذن سے دریافت كیا تو اس نے ہمیں بتایا كہ اس سے غلطى ہو گئى كہ اذان كا وقت ہو گیا ہے، اب اس محلہ كے لوگوں پر كیا لازم آتا ہے؟
جواب: جس نے غروبِ شمس كا گمان كرتے ہوئے روزہ افطار كر لیا، اور پھر اسے علم ہوا كہ ابھى سورج غروب نہیں ہوا تو جمہور علماے كرام كے ہاں اس پر قضا ہے۔
ابن قدامہ﷫'المغنى' میں لكھتے ہیں:
''فقہا وغیرہ میں سے اكثر اہل علم كا قول یہى ہے۔''12
سعودی عرب کی دائمی فتوىٰ كمیٹى سے یہ سوال كیا گیا کہ ایك شخص نے اپنى بچیوں كے كہنے پر روزہ افطار كر لیا اور جب نماز كے لیے نكلا تو مؤذن مغرب كى اذان دے رہا تھا؟ تو كمیٹى كا جواب تھا:
''جب آپ نے افطارى واقعتاً غروبِِ آفتاب كے بعد كى ہے تو آپ پر كوئى قضا نہیں، اور اگر آپ نے یہ تحقیق كى یا آپ كے ظن پر غالب ہو گیا، یا آپ كو شك ہے كہ آپ نے غروبِ شمس سے قبل افطارى كرلى تو آپ اور جس نے بھى آپ كے ساتھ افطارى كى ،اس پر قضا ہے۔ كیونكہ اصل یہ ہے كہ دن باقى تھا، اور اس اصل سے بغیر كسى شرعى ناقل یعنى غروبِ شمس كے تبدیلی نہیں ہو سكتی۔''13
اور شیخ ابن باز﷫سے سوال كیا گیا کہ بعض لوگوں نے افطارى كر لى اور بعد میں اُنہیں علم ہوا كہ ابھى تو سورج غروب نہیں ہوا تو اس كا حكم كیا ہے؟ شیخ كا جواب تھا:
''جس سے ایسا ہو جائے تو اسے غروبِ آفتاب تك كھانے پینے وغیرہ سے رك جانا چاہیے، اور جمہور اہل علم كے ہاں اس پر قضا ہے، اور اگر اس نے اجتہاد اور غروب شمس كے متعلق پورى كوشش كے بعد افطارى كى ہو تو اس پر كوئى حرج نہیں۔ جس طرح كہ اگر وہ تیس شعبان كو صبح اُٹھے اور دن میں اسے علم ہوا كہ آج تو رمضان كى یكم ہے، تو اسے باقى دن كچھ نہیں كھانا پینا چاہیے، اور جمہور كے ہاں وہ اس دن كى قضا كرے گا، اور اس پر كوئى گناہ نہیں، كیونكہ جب اس نے كھایا پیا تھا تو اسے رمضان كا علم نہیں تھا، لہٰذا جہالت نے اس سے گناہ كو ساقط كر دیا ہے، لیكن قضا ساقط نہیں ہو گى، اُسے اس دن كى قضا میں روزہ ركھنا ہو گا۔''14
تاہم بعض اہل علم كہتے ہیں كہ روزہ صحیح ہے، اور اس پر قضالازم نہیں۔مجاہد اور حسن ﷭ سے یہى مروى ہے، اور اسحٰق اور امام احمد﷭سے ایك روایت بھى یہى ہے، اور مزنى اور ابن خزیمہ﷭ كا بھى یہى قول ہے اور شیخ الاسلام﷫نے بھى اسے ہى اختیار كیا ہے، اور شیخ ابن عثیمین﷫ نے بھى اسے ہى راجح قرار دیا ہے۔15
ان کا استدلال بخارى شریف كى مندرجہ ذیل روایت سے ہے:
ہشام بن عروہؓ فاطمہ ؓسے اور وہ اسما بنتِ ابى بكرؓ سے بیان كرتے ہیں كہ اسما بنت ابى بكر ؓ نے كہا: ہم نے نبى كریمﷺ كے دور میں ابرآلود موسم میں روزہ افطار كر لیا تو بعد میں سورج نكل آیا۔ ہشام سے پوچھا گیا کہ كیا اُنہیں قضا كرنے كا حكم دیاجائے؟ تو وہ كہنے لگے:قضا ضرورى ہے، اور معمر كہتے ہیں کہ میں نے ہشام كو یہ كہتے ہوئے سنا: مجھے نہیں علم كہ اُنہوں نے قضاكى یا نہیں۔اور ہشام كا یہ كہنا كہ قضا ضرورى ہے، ایسا اُنہوں نے اپنى سمجھ كے مطابق كہا ہے، اُنہوں نے یہ نہیں كہا كہ نبى كریمﷺنے انہیں قضا كرنے كا حكم دیا ہے۔ اور اسى لیے حافظ ابن حجر كہتے ہیں:
''اور اسماء ؓ كى حدیث میں نہ تو قضا كا ثبوت ہے اور نہ ہى اس كى نفى پائى جاتى ہے۔''
شیخ محمد بن عثیمین'الشرح الممتع' میں كہتے ہیں:
''اُنہوں نے دن میں اس بنا پر افطارى كرلى كہ سورج غروب ہو چكا ہے۔ وہ سورج غروب ہونے سے جاہل تھے، نہ كہ شرعى حكم سے، لیكن اُن كا یہ گمان نہیں تھا كہ ابھى دن ہے، اور نہ ہى نبى كریم ﷺ نے اُنہیں قضاكرنے كا حكم دیا، اور اگر قضا واجب ہوتى تو یہ اللہ كى شریعت سے ہوتى اور پھر یہ محفوظ بھى ہوتى،لہٰذا جب یہ محفوظ نہیں اور نہ ہى نبى كریمﷺ سے منقول ہے، تو اصل برى الذمہ ہے، اور قضا نہیں ہے۔''16
اور شیخ الاسلام ﷫كہتے ہیں:
''یہ قضا واجب نہ ہونے كى دلیل ہے، كیونكہ نبى كریمﷺ اگر اُنہیں قضا كا حكم دیتے تو یہ بھى عام ہوتا جیسا كہ ان كا افطارى كرنا نقل ہوا ہے، اور جب یہ منقول نہیں تو یہ اس كى دلیل ہے كہ نبى كریمﷺ نے اُنہیں اس كا حكم نہیں دیا۔
اور اگر یہ كہا جائے كہ بلكہ ہشام بن عروہ كو كہا بھى گیا کہ انہیں قضا كا حكم دیا گیا تھا؟ تو ان كا كہنا ہےکہ قضا ضرورى ہے، یہ ہشام نے اپنى رائے سے كہا ہے، اور حدیث میں یہ مروى نہیں۔اور یہ اس كى بھى دلیل ہے كہ ان كے پاس اس كا علم نہیں تھا۔معمر نے ان سے روایت كیا ہے كہ میں نے ہشام كو یہ كہتے ہوئے سنا: مجھے علم نہیں كہ انہوں نے قضا كی یا نہیں ؟ امام بخارى﷫نے ان سے یہ بیان كیا ہے، اور ہشام نے اپنے والد عروہ سے بیان كیا ہے كہ اُنہیں قضاكا حكم نہیں دیا گیا تھا، اور عروہ كو اپنے بیٹے سے زیادہ علم ہے۔''17
اور اگر آپ احتیاط كرتے ہوئے اِس كے بدلے ایك دن كى قضا میں روزہ ركھ لیں تو یہ بہتر ہے، اور الحمد للہ ایك دن كى قضا كرنا آسان ہے۔ اور جو كچھ ہوا، اس سے آپ پر كوئى گناہ نہیں۔واللہ اعلم


حوالہ جات
1. رسالة في الزکاة از شیخ ابن باز: (11) رسالة زکاة العقار از شیخ بکر ابو زید:(8)

2. الشرح الممتع از شیخ محمد بن عثیمین: 6؍ 146

3. سنن ابن ماجہ : 1688

4. سنن ترمذی: 636 ... ضعیف کما صرح الألباني

5. صحیح مسلم: 869

6. جامع ترمذی: 353

7. سنن نسائی: ج؍ 129، صحیح ترغیب وترہیب : 1؍ 490

8. الشرح الممتع: 6؍ 390

9. صحیح بخاری: 1927؛ صحیح مسلم: 1106

10. صحیح مسلم: 1108

11. الشرح الممتع: 6؍ 434

12. المغنی از ابن قدامہ مقدسی: 4؍ 389

13. فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والإفتاء: 10؍ 288

14. مجموع فتاویٰ ابن باز: 15؍ 288

15. فتح الباری: 4؍ 200؛ مجموع الفتاویٰ از شیخ الاسلام بن تیمیہ: 25؍ 231

16. الشرح الممتع: 6؍ 402

17. مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 25؍ 231