پندرہویں صدی اور شرک و جہالت کے اندھیرے

روزنامہ 'پاکستان' میں شائع ہونے والے شرک پرور مضامین کا ناقدانہ جائزہ
دین اسلام، دنیا کے تمام مذاہب سے منفرد اور ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور ا ُس کی اساس و بنیاد بڑی ٹھوس اورمحکم ہے اور وہ 'توحیدِخالص' ہے۔ اس سے ہم کنار ہوئے بغیر سرخ روئی ناممکن ہے ۔تمام انبیا کی تبلیغ و مساعی کا مرکزی نکتہ توحید ہی رہا اور اُنہوں نے شرک کی خوب خوب مذمت کی ۔ رسول اکرم،شفیع معظم، خاتم النّبیین، رحمۃ للعالمین محمدﷺنے بھی شرک میں ڈوبی ہوئی عرب کی تاریک بستی میں شمع توحید روشن کی اور اس کی روشنی نے معاشرے کے ظلمات کو مٹا کر اسے بقعہ نور بنا دیا۔ لوگ شرک کی خاردار وادیوں سے نکل کر توحید کے مہکتے گلستان میں پہنچے۔
دوسری طرف شیطان انسان کاازلی دشمن ہے جو اسےراہِ حق اور توحیدِ خالص سے ہٹانے کے لئے گھناؤنے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور ذہنوں میں ایسی تلبیس کرتا ہے کہ ایک طرف شرک کو عقیدہ توحید کے نام سے متعارف کرواتا اور دوسری طرف توحید کے صافی چشمے کو متعفن کرنے کے لیے بزرگانِ دین ، اولیا و شہدا کے متعلق شرکیہ عقائد کو مزین کرکے پیش کرتا ہے۔ اس گھمبیر صورت حال میں توحیدِ خالص سے ہر مسلمان کو روشناس کروانا اور شکوک و شبہات کا اِزالہ کرنا اہل توحید کی اہم ذمہ داری ہے۔
آج بہت سے عناصر غلط راہنمائی کے ذریعے سادہ لوح عوام کو اس دلدل میں دوبارہ دھکیل رہے ہیں جس سے نکالنے کے لیے نبئ رحمتﷺ نے طائف کی وادیوں میں بھی تکالیف اُٹھائی تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی روزنامہ'پاکستان'میں7؍اپریل سے 10؍اپریل2012ء تک چھپنے والا ایک مضمون'اُمتِ توحید اور پندرہویں صدی'ہے۔ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کا 'عقیدہ توحید اور اُمتِ توحید' کے نام سے یہ مضمون انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔یہ مضمون کئی ایک مغالطوں اورتلبیسات کا مجموعہ ہے۔ اس میں اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ
1.  اُمتِ محمدیہ میں شرک نہیں ہوسکتا، لہٰذا ہمیں اس کی فکر سے آزادہوجانا چاہئے۔
2.  اس مضمون میں شرک کی تعریف اس انداز سے کی گئی کہ یہود و نصاریٰ، عرب کے مشرکین اور باطل نظریات کے حامل لوگوں کا شرک بھی توحید نظر آنے لگے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے عمومی باشندے بھی ایسے ہی اوہام کا شکار نظر آتے ہیں۔
3. ان مضامین میں الفاظ کی ظاہری مشابہت اور قیاسات کے ذریعے بزرگوں اوراولیا کو ایسی من مانی صفات کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے جن کی کوئی حقیقی دلیل نہیں ہے۔
4.  ضعیف اورکمزور روایات سے بزعم خویش عقیدہ توحید کی عمارت قائم کرنے کی کوشش کئی گئی ہے اور خود ساختہ تعبیرات سے احادیثِ صحیحہ اور قرآنی مفہوم کو تبدیل کیاگیا۔
5.  قبروں کی زیارت اور بعض ضعیف قصوں سے تبرکات و توسل کا استدلال کرکے اُمت کے صحیح عقائد میں انتشار کی کوشش کی گئی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طلبِ حق کی نیت سے قرآن مجید اور فرامین نبویؐ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ان مغالطات کی خوب تردید ہوتی نظر آتی ہے اور کسی مخصوص سوچ سے آزاد ہوکر شرعی نصوص کا مطالعہ کیا جائے تو عقیدۂ توحید کی عظمت اور شرک کی مذمت نکھر کر سامنے آجاتی ہےاوریہ بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ جس طرح صدیوں قبل خالص توحید کا عقیدہ موجود تھا، آج بھی وارثانِ توحید و سنت اور اہل حق اسی پر قائم ہیں، اسی طرح اُمت محمدیؐہ میں شرک کے وجود کا ثبوت بھی صدیوں پہلے آشکار تھا اور آج بھی واضح ہے۔ذیل میں مذکورہ اشکالات اور ان کی تائید میں پیش کیے جانے والے دلائل کا تجزیہ پیش خدمت ہے جس سے حقیقتِ حال کو سمجھنا آسان ہوگا۔
اُمت ِمحمدیہ میں شرک کا وجود
اُمتِ اسلامیہ میں شرک کا وجود ایک بدترین لعنت ہے اور جب اس کے ازالے یا خاتمے کی جدوجہد کی جاتی ہے ، تو بعض لوگ ایسی تمام کوششوں کو یہ کہہ کرردّ کردیتے ہیں کہ اس دور میں اُمتِ محمدیہ میں شرک کا وجود ناممکنات میں سے ہے۔پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے بعض خودساختہ دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دلائل بالکل بودے اور اٹکل پچو کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا اُمتِ اسلامیہ کو شرک جیسی لعنت کے بارے میں انتہائی حساس اورہرلمحہ فکر مند رہنا چاہئے۔ مضمون نگار کے ذکر کردہ دلائل وشبہات اور ان ازالے سے پہلے اُمتِ اسلامیہ میں شرک کے وجود پر چند دلائل بالاختصار ملاحظہ فرمائیں:
1.  فرمانِ الٰہی ہے:
﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ٨٢1
''وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، انہی کے لیے امان اور وہی راہ پر ہیں۔''
اس آیتِ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ''جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا...'' تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: ''ہم میں سے کون شخص ہے جو ظلم نہیں کرتا؟'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے (جو تم سمجھے) بلکہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ''اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ،یقیناً شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔''2
یہ آیت ایمان والوں سے متعلق ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسے اپنے متعلق سمجھ کر پریشانی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ظلم کے مفہوم کو واضح کیا اور اُمت میں شرک کے وجود کو ردّ نہیں فرمایا بلکہ باقی رکھا اورنہ ہی اسے قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا ۔لہٰذا اس آیت میں شرکِ اکبر کی بات ہے اوراُمت میں اس کے وجود کا اثبات بھی۔
2-  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَر‌يَمَ وَما أُمِر‌وا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا و‌ٰحِدًا لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ سُبحـٰنَهُ عَمّا يُشرِ‌كونَ ٣١3
''اُنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما کو اور پیروں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی ، حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیاتھا کہ یہ صرف ایک خدا کی عبادت کریں۔''
مولانا غلام رسول سعیدی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
''قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے ارشاد کے مقابلے میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کوترجیح دینا اوراس پر اصرار کرنا [دراصل] اُس دینی پیشوا کو خدا بنا لیناہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی صریح حدیث کے مقابلے میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔''
مزید فرماتے ہیں:
''لیکن اس زمانے میں ہم نے دیکھا، اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے، وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث اُن کو معلوم نہ تھی؟... اور وہ قرآن و حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔''4
مولانا سعیدی کے بیان کے مطابق آج بھی لوگ دینی پیشواؤں کو ربّ بنائے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض حضرات جو اُمت میں شرک کی نفی کا ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں، اُنہیں سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہیں ہے؟
3. سیدنا ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتى تعبد قبائل من أمتي بالأوثان»5
''قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔''
اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ہے اور اس کو قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دینا حدیث میں معنوی تحریف کے مترادف ہے۔
4. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لکل نبي دعوة مستجابة، فتعجل کل نبي دعوته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي یوم القیمة نائلة إن شاء الله من مات من أمتي لا یشرك بالله شیئًا»6
''ہر نبی کی ایک دُعا (ضرور) قبول کی جاتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی (اس)دُعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دُعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے بچا رکھی ہے اور میری دُعا ان شاء اللہ میری اُمّت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتاتھا۔''
ان احادیث سے اُمت میں شرک کے وجود کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ وگرنہ ان احادیث میں شرک نہ کرنے کی قید بے معنیٰ ہوگی اورہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام بے معنیٰ نہیں بلکہ شرک کے عدم وجود کا نظریہ ہی بے معنیٰ و بے فائدہ ہے۔
اُمتِ محمدیہ میں عدم شرک کے دلائل کا ناقدانہ جائزہ
شرک کے وجود پر آپ تین شرعی دلائل ملاحظہ فرما چکے ہیں، اب ذیل میں اُمت مسلمہ میں شرکِ اکبر کے وجود کی نفی پر مضمون نگار کے بیان کردہ دلائل جن سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اُمت محمدیہ ﷺمیں شرک کا امکان نہیں ہے، کا تجزیہ پیش خدمت ہے:
1.  صاحبِ مضمون کی پہلی دلیل یہ ہے کہ پہلی قوموں کی طرح اس اُمت میں شرک نہیں آیا۔ اس کے لیے اُنہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ قوم موسیٰ نے نجات پانے کے بعد موسیٰ سے کہا:
﴿قالوا يـٰموسَى اجعَل لَنا إِلـٰهًا كَما لَهُم ءالِهَةٌ قالَ إِنَّكُم قَومٌ تَجهَلونَ ١٣٨7
''اے موسیٰ ! ہمارے لیے ایک ایسا الٰہ بنا دے جیسے ان کے اتنے خُدا ہیں۔''
اس آیت پر اُن کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اُمتِ محمدیہ میں قوم موسیٰ کی مشابہت نہیں ملتی، چنانچہ اُن میں شرک بھی نہیں۔
تبصرہ : یہ دعویٰ درست نہیں کہ اُمتِ محمدیہ میں قوم موسیٰ سے کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ نے درختوں کو متبرک سمجھ کر اسلحہ لٹکانے کو قوم موسیٰ کی بت پرستی سے تشبیہ دی تھی۔ جیساکہ ابوواقد لیثی سے روایت ہے کہ
''بلا شبہ رسول اللہ ﷺ جب حنین کی طرف نکلے تو ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے جسے ذات أنواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس پر اسلحہ لٹکاتے تھے۔چند نومسلم لوگوں نے نبی کریمﷺ سے گزارش کی کہ:''جس طرح ان کے لیے ذات انواط ہے ہمارے لیے بھی اسی قسم کا ذات انواط بنا دیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: «الله أکبر هٰذا کما قالت بنو إسرائیل اجعل لنا إلهٰا کما لهم اٰلهة لترکبن سنن من کان قبلکم»8
''اللہ اکبر! یہ تو اسی طرح ہے جیسے بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں جیسے اُن کے معبود ہیں ، واقعی تم پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔''
آج بھی اُمت میں آپ کو اس کی مثالیں ملیں گی کہ مزاروں پر موجود درختوں کے ساتھ اسی تبرک کا معاملہ کرتے ہوئے دھاگے، کپڑے اور سامان باندھے جاتے ہیں اور اُنہیں مختلف حاجات براری کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔جیسا کہ سلطان باہو کے مزار پر موجود بیری کے درخت کو اولادکےحصول کے لیےمتبرک سمجھنا بلکہ چکر گن کر طواف کرنا وغیرہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ کیا اس کو بھی صاحب مضمون 'لذتِ توحید' سے گردانیں گے اورعقیدہ توحید کی پہرہ داری سے تعبیر کریں گے؟
2.  اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ توحید یقیناً اُمت میں باقی ہے۔ جو لوگ خالص توحید پر قائم ہیں، وہی خالص اسلامی عقیدے کے بھی وارث ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں میں شرک بھی پایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری اُمت شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتی بلکہ کچھ لوگ ہر دور میں توحیدِ خالص کے علم بردار ہوں گے۔ اسی حقیقت کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں واضح کیا تھا:
''مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں اوراللہ کی قسم! بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم [سب] میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے تم پر یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔''9
غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
''آپﷺ نے فرمایا: مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے، اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے۔''10
صحیح بخاری کے شارحین:حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی حنفی اوراحمد بن محمد قسطلانی ﷭ نے بھی اس سے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔11
یہ تواس کا صحیح مفہوم ہوا۔ لیکن روزنامہ پاکستان کے مضمون نگار کے مطابق
'' مذکورہ حدیث کو شرک کے خاتمے پر دلیل تسلیم کرلیا جائے تو پھر اسی طرح کی احادیث کی بنا پر اُمت سے فقر و فاقے کے خاتمے کا بھی دعویٰ کرنا چاہیے جیساکہ صحیح بخاری میں آپﷺ کا فرمان ہے:«فو الله لا الفقر أخشٰی علیکم»12
''اللہ کی قسم میں تم پر فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا۔'' لیکن اُمتِ محمدیہﷺ کےلوگوں میں آج فقروفاقہ کی جو صورتحال ہے، ہر آدمی اس سے بخوبی واقف ہے جس سے معلوم ہوا کہ شر ک کے وجود والی حدیث کا جو مفہوم آج کچھ لوگ جو پیش کررہے ہیں، وہ درست نہیں۔''
تبصرہ : احادیث کا غلط مفہوم لے کر اُمت کو شرک پر جری کرنا اور شرک جیسے ناسور سے بے پروا کرنے کی کوشش کرنا اُمت کی خیر خواہی نہیں بلکہ ملّت دشمنی ہے۔يوں بھی عقائد کے بارے میں احادیث آحاد سے استدلال کرنا کم از کم بریلوی مکتبِ فکر کو روا نہیں کیونکہ مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے تو عقائد کے معاملے میں لکھا ہے کہ عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہوں کافی نہیں، مزید شرح عقائد نسفی کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
''حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہوں ظن ہی کا فائدہ دیتی ہیں اور معاملہ اعتقاد میں ظنّیات کا کچھ اعتبار نہیں۔''13
اس پیمانہ پرمضمون نگار کی پیش کردہ روایات کا پورا اُترنا تو دور کی بات ہے، اُنہوں نے تو بہت سی ضعیف روایات کا بھی سہارا لیا ہے جن پر مختصر تبصرہ آگے آئے گا۔
3.  مضمون میں سیدنا شداد بن اوس کی روایت بھی پیش کی گئی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کواپنی اُمت پر شرک اور شہوتِ خفیہ کا خطرہ تھا جس کی خاطر آپ رنجیدہ خاطر تھے اور آپ نے فرمایا تھا:
''میری اُمّت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی، نہ کسی بت کی عبادت کریں گے، نہ پتھر کی، لیکن ریاکاری کریں گے اور یہ شرک ہے اور شہوتِ خفیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھے گا، لیکن کسی شہوت کی وجہ سے توڑ دے گا۔''14
اس روایت سے بھی شرکِ اکبر کی نفی پر استدلال کیاگیا ہے لیکن جناب کی یہ کمزور ترین دلیل تارِعنکبوت کی حیثیت بھی نہیں رکھتی کیونکہ امام ذہبی﷫ نے مستدرک حاکم کی مذکورہ روایت کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا ایک راوی عبدالواحد متروک الحدیث ہے، مسنداحمد کے محقق شعیب ارناؤوط اوران کی زیر نگرانی تحقیقی کمیٹی نے اس روایت کے متعلق یہ فیصلہ دیاہےکہ اسناده ضعیف جدًا اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ عبدالواحد بن زید کے متعلق ابن عبدالبر﷫ نے فرمایا ہے کہ اسکے ضعیف ہونےپر اجماع و اتفاق ہے۔15
یہ روایت سنن ابن ماجہ میں بھی مروی ہے جس کی سند میں روّادنامی راوی ہے جس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا اورایک راوی عامر بن عبداللہ مجہول ہے اور بھی کئی خرابیاں ہیں۔
اب فاضل بریلوی کا عقائد کی بابت اوپر بیان کردہ معیار ذہن میں رکھیں اوراس قسم کی ضعیف روایات سے شرک کی نفی بھی دیکھیں تو ایسی روایات پر خود ساختہ عقیدہ توحیدکی بنیاد رکھنا ہی مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔
4.  اسی مفہوم کی ایک اور روایت سیر اعلام النبلاء سے بھی پیش کی گئی جو مسنداحمد:17140 پر موجود ہے۔اس کے تحت بھی فاضل محقق شعیب ارناؤوط کا فیصلہ یہی ہے کہ یہ ضعیف روایت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شرکِ اصغر یعنی ریا کاری بھی اُمت میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ا س سے شرکِ اکبر کے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔
5.  مضمون نگارنے اُمتِ محمدیہﷺ میں شرک اکبر کے وجود کی نفی پر اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ»16
'' نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ نمازی ، جزیرۂ عرب میں اس کی عبادت کریں گے۔''
اس حدیث سے اُمت میں شرک کی نفی کرتے ہوئے مضمون نگار کہتے ہیں کہ یہ صرف جزیرۃ العرب کے لحاظ سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہے۔ حالانکہ موصوف کو عام اور خاص میں فرق کرنا چاہئے۔ کتنی سادہ بات ہے کہ المصلّون میں نمازی عام تھا اور جزیرۃ العرب کے الفاظ سے تخصیص ہوگئی اور اعتبار تو خاص کا ہوگا، نہ کہ عام کا، لیکن افسوس کہ خود ساختہ نظریات کی خاطر سب کچھ جائزکردیا جاتا ہے۔
یوں بھی اس حدیث مبارکہ میں جزیرہ عرب میں بھی صرف اس کی عبادت کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک شیطان کی اطاعت کا معاملہ ہے جو عبادت کا مجازی مفہوم ہے، تویہ فتنہ اب بھی جزیرۃ العرب سمیت پوری دنیا میں موجود ہے۔ کتنے لوگ رحمٰن کی بجائے شیطان کی اطاعت کررہے ہیں۔ مزید برآں جزیرۃ العرب میں بھی اجتماعی طورپر شیطان کی عبادت کی نفی کی گئی ہے کہ سب نمازی شیطان کی شرک والی اطاعت و عبادت نہیں کریں گےالبتہ بعض اس بیماری میں مبتلا ہوں گے۔
6.  مذکورہ مضمون میں شرک کی نفی پر یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ جب نماز، روزہ بھی باقی نہیں رہے گا تو یہ کلمہ اُس وقت بھی معتبر ہوگا۔ چنانچہ اس اُمت میں پہلے بدعملی آئے گی اور اب اس وقت یہ اُمت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے، یہ مرحلہ شرکِ جلی میں مبتلا ہونے کا نہیں ہے۔اور اس کے لیے حذیفہ سے مروی اسی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
''اسلام بوسیدہ ہوجائے گا اور بوڑھے مرد اور عورتیں رہ جائیں گے۔ وہ کہیں گے ہم نے اپنے آباو اجداد کو اس کلمے پر پایا، ہم نےبھی یہ کلمہ کہہ دیا اور اُنہیں یہ لا إلٰه إلا الله فائدہ دے گا۔''17
تبصرہ : اس روایت کی سند پر تبصرے سے قطع نظر اس کے متن پر غور و فکر کرنے سے ہر ذی شعور یہ فیصلہ کرے گا کہ اس حدیث میں صرف بدعملی کی بات ہوئی ہے اوربدعملی کے دور میں بھی کچھ لوگ کلمے پر قائم ہوں گے اور شرک میں مبتلا نہ ہونے کی وجہ سے کلمہ اُنہیں فائدہ دے گا۔لیکن یہ تو صاحبِ مضمون کی اپنی اختراع ہے کہ اس دور تک کبھی شرکِ جلی نہیں ہوا ہوگا اورکبھی شرک کا دور دورہ نہیں ہوا ہوگا۔ مذکورہ حدیث میں کہیں کوئی ادنیٰ اشارہ بھی اُن کے مدعا کو ثابت نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ خالص کلمہ توحید جو شرک کی آمیزش سے پاک ہو، وہ ہر دور میں فائدہ دیتا ہے حتیٰ کہ بدعملی کے تاریک دور میں بھی خالص کلمہ توحید فائدہ دے گا اور اس میں کوئی اختلاف کی بات نہیں۔ لیکن اس سے یہ مفہوم کشید کیا جائے کہ اس وقت تک اُمت میں شرک نہیں ہوگا، من چاہا استدلال اور مطلب کی بات ہے!
مفہوم حدیث میں تحریف: انتہائی قابل افسوس بات ہے کہ اُمت میں بدعقیدگی پھیلانے کی خاطر نام نہاد مفکر اَحادیث کے مفہوم کو اپنی من چاہی آرا کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔18 انہی میں سے ایک بات زیرِ نظر مضمون 'پندرھویں صدی اور اُمتِ توحید'19 میں ہے کہ ''ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہوجانے کا ذکر ہے تو وہ بعد کا معاملہ ہے۔'' اس کے لئے بعض احادیث میں «لاتقوم الساعة»کے الفاظ کے ساتھ شرک کے بیان سے من مانا مفہوم نکالا گیا ہے۔
قارئؔین ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں کیسے بے جا طورپر مفہوم حدیث میں تحریف کی گئی ہے۔
دراصل «لاتقوم الساعة»کے الفاظ کی بنا پر اس کو قربِ قیامت سے ہی خاص کرلینا عربی اُسلوب اورمفہوم احادیث سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ مضمون نگار نے «لاتقوم الساعة» کےالفاظ سے یہ باور کرایا کہ شاید یہ بعد کا معاملہ ہے اور قربِ قیامت ایسا ہوگا۔ جبکہ احادیث میں غوروفکر کرنےسے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے معاملات میں یہ الفاظ «لاتقوم الساعة» استعمال کیے ہیں لیکن وہ معاملات قربِ قیامت کےساتھ خاص نہیں، بعد کے معاملے نہیں بلکہ کچھ واقع ہوچکے اور کچھ ہورہے ہیں حتی ٰکہ بعض تو آپ کے بعد قریبی زمانے میں ہی وقوع پذیرہوگئے تھے۔ لہٰذا ان الفاظ کو شرک کے متعلق بھی اسی طرح سمجھا جائے کہ نبیﷺ کا یہ فرمان سچ ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا، کتنا پہلے ہوگا، اس کی کوئی قید نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے صحیح بخاری کی ایک روایت پر غور کریں، جس کے راوی حضرت ابوہریرہ ہيں:
«لاتقوم الساعة حتى تقتل فئتان عظیمتان تکون بینهما مقتلة دعوتهما واحدة وحتى یبعث دجالون کذابون قریب من ثلثین کلهم یزعم أنه رسول الله وحتى یقبض العلم وتکثر الزلازل»20
''قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ دو عظیم جماعتیں لڑائی کریں گی۔ ان کے درمیان بڑی جنگ ہوگی اور اُن کی دعوت ایک ہوگی اور قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ تیس کے قریب جھوٹے دجّال آئیں گے اور ہر کوئی دعوے دار ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ علم قبض کرلیاجائے گا اور زلزلے بکثرت ہوں گے۔''
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آپﷺ کے بعد، قریبی زمانے میں حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگیں ہوئیں اور اُن دونوں کی دعوت بھی ایک تھی پھر جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی اس دور سے ہی جاری ہیں اورآج قحط الرجال کے دور میں اور علما کی وفیات کے ذریعے علم بھی اُٹھ رہا ہے، زلزلوں کا سلسلہ بھی کچھ عرصہ سے مخفی امر نہیں۔
اب اگر «لاتقوم الساعة» سے مراد قرب ِقیامت والی 'صاحب مضمون ' كی منطق تسلیم کرلی جائے تو اس صحیح حدیث میں مذکور تمام چیزوں کے اب تک وقوع کی نفی کرنے پڑے گی حالانکہ یہ واقع ہو چکی ہیں اور بعض مزید بھی ہوں گی۔ جبکہ صحیح انداز پراحادیث کو سمجھنے سے کسی حدیث کا انکار لازم نہیں آتا۔
الغرض یہ بات واضح ہے کہ جس طرح اس حدیث میں مذکورہ واقعات بعد کے معاملے نہیں، اسی طرح قبائل کا مشرک ہوجانا یااُمت میں شرک کا وجود بھی بعد کا معاملہ نہیں۔ بعض لوگوں نے آج بھی جس طرح نبی اکرمﷺ کے حقوقِ اطاعت و اتباع اپنے ائمہ کو دے رکھے ہیں، اسی طرح حقوقِ الٰہی کو بھی بعض دوسرے لوگ تقسیم کرکے شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اُمت کا عظیم طبقہ توحیدِ خالص پر کل بھی قائم تھا ، آج بھی قائم ہے اورقائم رہے گا۔ ان شاء اللہ!
جس پیغمبر نے شرک کی جڑیں کاٹی تھیں، اس متبع وحی پیغمبرﷺ نے ہی پیش گوئی فرمائی تھی۔ «لترکبن سنن من کان قبلکم» تم ضرور پہلے لوگوں کے طریقوں پرچلو گے۔21
اس حدیث کے سیاق میں ذاتِ انواط یعنی درختوں کو متبرک سمجھ کر اسلحہ لٹکانے کا ذکر ہے اور اس کو رسول اللہ ﷺ نے "إله" معبود بنانے سےتعبیر کیا اور وہ معبود بنانا پہلی اُمتوں کا شرک تھا جس کے متعلق واضح کیا کہ تم شرک میں پہلی اُمتوں کی پیروی کرو گے اورآج اس طرح کے معاملات کرنے والےبہت سے لوگ ہیں جن پر فتویٰ شرک صادر ہوتاہے۔ لیکن تعجب ہے ایسے نام نہاد مفکرین پر جو کہتے ہیں کہ پہلی اُمتوں جیسی شرک کی بیماری اس اُمت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔
توحید و شرک کے پیمانوں میں تعریف کے ذریعے تبدیلی
شرک کی مذمت سے بچنے اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنے کی بجائے پیش نظر مضمون میں توحید وشرک کی تعریف ہی اس انداز سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بے شمار شرکیہ اعمال ، شرک کے دائرے سے خارج ہوجائیں۔
چنانچہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ''اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفاتِ مخصوصہ اورحقوق و اختیارات میں یکتا و بے مثل مانا جائے۔'' جبکہ مضمون نگار کے بیان کے مطابق ''توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت میں کسی کو شریک نہ مانا جائے۔''
واضح رہے کہ یہ صرف توحید اُلوہیت کی تعریف ہے جبکہ توحیدِ ربوبیت اور توحید اسماء و صفات اس تعریف سے خارج نظر آرہے ہیں، لہٰذا یہ تعریف ناقص ہے۔ پھر اس پر ہی بس نہیں بلکہ معیارِ اُلوہیت بھی یہ مقرر کیا گیا ہے کہ کسی کو واجب الوجود اورمستحق عبادت سمجھا جائے ، اور واجب الوجود وہ ذات ہے جس پر کبھی نہ عدم آیا ہے ، نہ آسکتا ہے۔اور شرک تب ہی ہوگاجب کسی کو واجب الوجود یا مستحق عبادت سمجھا جائے۔22
حقیقتِ حال:یہ ہے کہ توحید کی یہ تعریف انتہائی ناقص اورناکافی ہے۔اگر اس تعریف کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر علما اور پیروں کو ربّ بنانے والے بھی موحد ثابت ہوں گے، جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں: ﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ ..... ٣١﴾..... سورة التوبة
''اُنہوں نے اپنے علما اور پیروں کو اللہ کے سوا ربّ بنا لیا ہے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کو ربّ بنا لینا شرک ہے اور عیسائی لوگ اپنے علما اور پیروں کو نہ واجب الوجود سمجھتے تھے اور نہ مستحق عبادت بلکہ محض ان کی خلافِ شریعت اطاعت کرتے تھے ،لیکن قرآنِ مجید نے اسے ربّ بنانے سے تعبیرکیا ہے۔اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس خود ساختہ تعریف کے مطابق تو غیر اللہ کو ربّ بنانے والے بھی موحد ہی قرار پائے۔
کیا مددگار ہونا معیار اُلوہیت نہیں ؟
اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو کمزور دلائل کی بیساکھی دیتے ہوئے مضمون نگار نے یہ بھی کہا کہ''معیارِ اُلوہیت مددگار ہونا نہیں''23 یعنی توحید کے تقاضوں میں یہ بات شامل نہیں کہ اللہ کو اکیلے اور یکتا مشکل کشا سمجھا جائے۔
تبصرہ: یہ بھی مفہوم قرآن سے عدم دلچسپی یا چشم پوشی کا نتیجہ ہے وگرنہ بیسویں پارے کی ابتدائی آیات میں واضح طورپر خالقیت، مدبر الامور ہونا، لاچاروں کی پکار سن کر مشکل کشائی اور خشکی و پانی کی تاریکیوں میں راہنمائی اور قیامت کے دن دوبارہ جمع کرنے اور آسمان و زمین کے رزاق ہونے کو ہی معیار ِاُلوہیت قرار دیا گیا ہے۔
ایک حنفی عالم طاہر چشتی لکھتے ہیں:
«إن العبادة وطلب الحوائج والاستعانة حق الله تعالىٰ وحده»24
''بیشک عبادت کرنا، حاجات طلب کرنا اور مدد طلب کرنا صرف اللہ کا حق ہے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ مشکل کشا اورمددگار ہونا معیا رِاُلوہیت ہے۔ لیکن روزنامہ 'پاکستان' کے مضمون نگار نے مافوق الاسباب اور تحت الاسباب مددلینے کی مثالیں پیش کرکے مشکل کشائی اور دستگیری کے مسئلے کو الجھانے اور خلط ملط کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ تحت الاسباب اور فوق الاسباب مدد لینے کی تقسیم قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ تحت الاسباب کسی سے تعاون لینا تو شریعت میں مطلوب ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ..... ٢ ﴾.... سورة المائده
''اور تم نیکی کرو اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ۔''
اور مافوق الاسباب تو ربّ کے سوا کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿أَيُشرِ‌كونَ ما لا يَخلُقُ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ ١٩١ وَلا يَستَطيعونَ لَهُم نَصرً‌ا وَلا أَنفُسَهُم يَنصُر‌ونَ ١٩٢ ﴾..... سورة الاعراف
''کیا ایسے لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو اُن کی مددکرسکتے اور نہ اپنے آپ کی مدد پر قادر ہیں۔''
رہا بدر میں فرشتوں کا مدد کے لیے آنا تو وہ بھی اللہ کی مدد تھی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَقَد نَصَرَ‌كُمُ اللَّهُ بِبَدرٍ‌ وَأَنتُم أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تَشكُر‌ونَ ١٢٣ ﴾..... سورة آل عمران
''اور تحقیق اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی۔''
سورۂ انفال میں واضح فرمایا کہ مؤمنوں نے اللہ کے سوا رسولوں یا ولیوں یا فرشتوں سے مدد نہیں مانگی تھی۔ جبکہ آج کل ان ہستیوں سے مدد کے لیے بہ کثرت نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا:
﴿إِذ تَستَغيثونَ رَ‌بَّكُم فَاستَجابَ لَكُم أَنّى مُمِدُّكُم بِأَلفٍ مِنَ المَلـٰئِكَةِ مُر‌دِفينَ ٩ ﴾..... سورة الانفال
''جب تم اپنے رب ّسے مدد مانگ رہے تھے اس نے قبول کیا کہ بیشک میں ایک ہزار یکے بعد دیگرے آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔''
اور اس سے اگلی آیت میں واضح کردیا کہ مدد صرف اللہ کی طرف سے تھی۔ جب مد د اللہ کی تھی تو فرشتوں کا آنا تحت الاسباب تھا، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فرشتوں کو مددگار سمجھ کر انہیں پکارنا شروع کردیا جائے۔
ایک لمحے کے لیے اگر جلالی صاحب کی بیان کردہ توحید کی تعریف تسلیم بھی کرلی جائے تو تب بھی آج بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہیں۔ آج مزارات کے متعلق یہ اشعار لکھے جاتے ہیں: ''ہمیں سجدے روا ہیں خواجہ اجمیر کے'' (دیوانِ محمدی)
مزاروں کے طواف ہوتے ہیں، اُنہیں نذر و نیاز کے لائق سمجھا جاتا ہے، حج آستانوں پر ہوتے ہیں، جوافراد ان خرافات میں مبتلا ہیں وہ اولیا و اکابرین کو اُن کا مستحق سمجھ کر یہ کام کررہے ہیں۔ جب مستحق سمجھ لیا تو ان کی تعریف کے مطابق وہ مشرک ہوگئے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ شرکِ اکبر اس اُمت کا پرابلم نہیں، باطل ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں شرک ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے جس کی فکر ضروری ہے!!
دیگر شبہات اوران کا ازالہ
پیچھے اُمتِ مسلمہ میں شرک کے وجود پر پیش کردہ دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ شرک ایک بڑا خوف ناک مسئلہ ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے پیشر نظر مضمون کے قلم کار جناب ڈاکٹر آصف اشرف جلالی صاحب نے پہلے تو اُمت محمدیہ میں شرک کے عدم امکان کے خود ساختہ دلائل پیش کئے، پھر شرک کی تعریف اس طرح پیش کی جس سے اکثر وبیشتر شرک کی صورتیں از خود ہی توحید قرار پانے لگیں۔ اپنے مضامین میں اُنہوں نے پھر شرک کی بعض پائی جانے والی صورتوں کی نت نئی توجیہات پیش کی ہیں تاکہ شرک کی مروّجہ صورتوں کے متعلق حساسیت ختم ہوکررہ جائے اور اُمت اسی گمراہی کا ہی شکار رہے۔ ذیل میں ایسی صورتوں کو ایک ایک کرکے پیش کیا جاتا ہے:
1۔ برابری سے شرک: ان مضامین میں یہ شبہ بھی پیدا کیا گیا کہ شرک اسی وقت لازم آتا جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرح محتاج نہ مانا جائے یا پھر اللہ تعالیٰ کو اللہ کے بندوں کی طرح مشکل کشائی میں کسی کا محتاج مانا جاتا۔25
تبصرہ:اگر مذکورہ بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر مکے کے مشرک بھی پکے موحد ثابت ہوجائیں گے کیونکہ مشرکین مکہ بھی جن بندوں، فرشتوں یا جنات کو پکارتے تھے، اُن کی نذرونیاز کرتے تھے۔ وہ بھی ان کو اللہ کی طرح غیر محتاج یا اللہ کو ان کی طرح محتاج نہیں مانتے تھے ۔ درج ذیل آیات اس بات کی وضاحت کر تی ہیں۔ فرمانِ خداوندی ہے:
﴿إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمثالُكُم ......  ١٩٤ ﴾...... سورة الاعراف
''بے شک اللہ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری مثل بندے ہیں۔''
﴿أَفَرَ‌ءَيتُمُ اللّـٰتَ وَالعُزّىٰ  ١٩  وَمَنو‌ٰةَ الثّالِثَةَ الأُخر‌ىٰ ٢٠ ﴾..... سورة النجم
''اب تم ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات، اس عزیٰ اور تیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور کیا۔''
عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ '' لات ایک آدمی تھا جو حاجیوں کو ستو پلاتا تھا۔''26
یہ حقیقت تھی ان بتوں کی جن پر فتواے شرک لگانے پرتو ڈاکٹر آصف جلالی (مضمون نگار) بھی متفق ہے۔27 اُن کے پیچھے بھی تصور نیک ہستیوں کا تھا اور بعض مقربین بھی تھے ۔ اگر ان پر فتویٰ شرک لگتا ہے تو اِن پربھی لگے گا لہٰذاموصوف کا اُن کو بت کا نام دے کر اللہ کے دشمن قرار دینا کوئی قرین انصاف نہیں بلکہ قرآن و سنت سے روگردانی ہے۔
2۔ حقیقی اور مجازی کی تعریف:یہ شبہ بھی پیش کیا گیاکہ اُلوہیت مجازی نہیں ہوتی کسی کو مجازی طور پر اللہ نہیں کہہ سکتے لیکن مددگار کہہ سکتے ہیں اورمشکل کشائی کا مجازاً بندے کو مظہر بنایا جاسکتا ہے۔
تبصرہ: اگر آج کے جدید مفکر صاحب کی یہ حقیقی اورمجازی کی تقسیم مان لی جائے تب تو ان کے نزدیک عرب کے مشرکوں کوبھی عقیدہ توحید کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔﴿ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ اوپر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ بھی بزرگ ہستیوں کو مافوق الاسباب نہیں پکارتے تھے اوراُن کی عبادت کرتے تھے، ان کی نذر و نیاز کرتے تھے وہ انہیں غیر مستقل اورمجازی سمجھتے تھے جبکہ حقیقی اللہ کو باقیوں کو ماتحت سمجھتے تھے اوریہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ نے انہیں اِذن اوراختیارات دے رکھے ہیں۔
عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ
''مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے: "لبیك لا شریك لك" نبیﷺ فرماتے تھے تمہاری ہلاکت ہو، اسی پر کفایت کرو؛ لیکن وہ کہتے "إلا شریکًا هولك تملکه وما ملك" اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔''28
اس سے واضح ہوا کہ جو عقیدہ جلالی صاحب پیش کررہے ہیں کہ اللہ بزرگانِ دین کو مشکل کشائی کا مظہر بنا دیتا ہے، وہی عرب کے مشرکین کا تھا کہ یہ حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجازاً اُن کو اس بات کا مظہر بنا دیا ہے۔ اگر وہ مشرک تھے تو یہ عقیدہ رکھ کر آج کیسی توحید باقی رہے گی؟
3۔  بتوں اور بزرگوں میں فرق:ایک شبہ یہ بھی ڈالا گیا ہے کہ ''قرآن مجید میں بتوں کو وسیلہ بنانے والے بتوں کے پجاریوں کی مذمت کی گئی ہے۔ بت اللہ کے دشمن ہیں اوران کی عبادت کرکے ربّ کے قرب کا ذریعہ سمجھنا شرک ہی شرک ہے جبكہ مقبولانِ بارگاہِ ایزدی یعنی پیر واولیا تو اللہ کے محبوب و مقرب ہیں، یہ اللہ کے دشمن بتوں کی طرح نہیں۔
حالانکہ پہلے واضح ہوچکا ہے کہ مشرکین عرب بتوں کے علاوہ بھی نیک ہستیوں کو پکارتے تھے اور اُن کو وسیلہ بناتے تھے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ فَلا يَملِكونَ كَشفَ الضُّرِّ‌ عَنكُم وَلا تَحويلًا ٥٦ أُولـٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَ‌بِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَ‌بُ وَيَر‌جونَ رَ‌حمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ إِنَّ عَذابَ رَ‌بِّكَ كانَ مَحذورً‌ا ٥٧ ﴾..... سورة الاسراء
''آپ فرما دیں! اُنہیں پکارو جن کو اللہ کے سوا گمان کرتے ہو تو وہ تم سے تکالیف دور کرنے اورپھیرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ تو خود ربّ کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے۔ اس کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں اوراس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔''
اس آیت سے واضح ہوا کہ مشرکین مقبول بندوں کو پکارتے تھے اور اسی آیت کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے وضاحت کردی ہے کہ مقبول بندوں سےان کی مراد ملائکہ، عزیر ، عیسیٰ وغیرہ تھے۔لہٰذا مضمون نگار کا بتوں اورمقبولان بارگاہ ایزدی کا فرق کرکے دونوں میں جُدائی کرنا بےمعنیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ بزرگوں کو وسیلہ بنانے اور فوت شدگان کو قربت خداوندی کا ذریعہ سمجھنے کی وجہ سے مشرک تھے تو یہ شرک آج بھی موجود ہے۔اور رہا یہ مسئلہ کہ وہ عبادت کرتے تھے، تو آج بھی نذرو نیاز ہوتی ہے اور دیگر عبادات والے افعال بزرگوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔
مولانا غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:'' اکثر عوام فوت شدہ لوگوں کی نذر مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اُن کے مزارات پر روپے پیسے،موم بتیاں اور تیل لے جاتے ہیں۔ یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے۔''29
مزید علامہ ابن عابدین شامی حنفی کے حوالے سے نذر کےحرام ہونے پر اُنہوں نے دلائل دیتے ہوئےلکھا ہے: ''کیونکہ نذر ایک عبادت ہے اورمخلوق کی عبادت جائز نہیں۔''30
اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ یہ عبادت بھی آج بزرگوں کی ہورہی ہے ، لہٰذا مضمون نگار کے نزدیک ایسے افراد پر فتویٰ صادر ہوگا جب یہ فتویٰ شرک صادر ہوا تو شرک کی نفی چے معنی دارد!
4۔  وسیلہ کی عدم ممانعت سے دلائل: یہ شبہ بھی بڑا عجیب ہے کہ قرآنِ مجید کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں مقبولانِ بارگاہ ایزدی کو اللہ کے درمیان وسیلہ بنانے سے روکا گیا ہو اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کردیا گیا کہ کسی آیت یا حدیث میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ وسیلہ بنانے کا حکم اور اجازت ہے۔31
تبصرہ: جب یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن میں مشرکوں کے وسیلے کی مذمت ہے تو جب وہ بزرگوں کو وسیلہ بناتے تھے توگویا اس طرح ممانعت خود بخود تسلیم کرلی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دلیل منع کی نہیں بلکہ ثبوت کی چاہیے اوراُنہوں نے جو حکم کا دعویٰ کیا کہ ہمیں اولیا و فوت شدگان کو وسیلہ بنانے کے حکم پر کوئی آیت یا حدیث نہیں ملی تویہ دعویٰ بلا دلیل ہے جو کسی صاحبِ علم کو زیب نہیں دیتا۔
5۔  بت اور قبر میں فرق کی کوشش: زیرِ نظر مضمون میں بت اور قبر میں فرق کی بات کی گئی لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر قبر پر بھی عبادت والے کام ہوں تو وہ بھی بت بن جاتی ہے اور اس میں اور مورتی میں حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رہتا جیساکہ نبی اکرمﷺ نے دعا کی تھی: «اللهم لا تجعل قبري وثنًا یعبد»32
''اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی عبادت کی جائے ''
اس سے واضح ہوا کہ قبر بھی بت بن جاتی ہے۔
6۔  صفات میں مشابہت: تیسری قسط میں یہ کہا گیا کہ تقریباً ساٹھ آیات ایسی ہیں کہ جن میں ایک ہی وصف اللہ کے بارے میں اوراللہ کے بندوں کے بارے میں بھی موجود ہے اور اللہ کے بارے میں اورلحاظ سے اور بندوں کے بارے میں اورلحاظ سے ہے۔ گویا بندوں میں بھی اللہ کے اوصاف پائے جاسکتے ہیں اور اس سے شرک لازم نہیں آتا۔
تبصرہ:لفظی مشابہت سے دونوں میں برابری نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اپنے لحاظ سے علیحدہ استعمال ہے۔ اللہ کاسمیع ہونا اور مخلوق کا سمیع ہونا برابر نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک وقت میں دنیا جہاں کی سنتا ہے، دور ونزدیک سے سنتا اور سمجھتا ہےاور کوئی مخلوق انسان ، بہ یک وقت دو انسانوں کی گفتگو کو سن کر سمجھنے پر قادر نہیں، کجا یہ کہ وہ تمام مخلوقات کی التجائیں سنے۔ معلوم ہوا کہ خالق ومخلوق کی صفات میں کوئی مشابہت نہیں۔
در اصل قیاسات کرکے اللہ کی قدرت کو انسانوں کی محدود صلاحیتوں پر قیاس کرلیا جاتا ہے جو کسی عالم کو زیب نہیں اور پھر عقیدے کے مسئلے میں قیاسات کرنا بھی اُصولِ دین سے بے خبری ہے۔مزید برآں اس سے زیادہ افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ جن خدائی صفات کا مظہر اور حامل آج بزرگانِ دین واولیا کو سمجھا جاتا ہے، ان کی لفظی مشابہت پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں مثلاً غوث، دستگیر، لجپال، داتا، گنج بخش، غریب نواز وغیرہ تو ان صفات کے بزرگوں کی طرف انتساب کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہی تھی۔
سید علی ہجویری تو اس کی تردید کرتے ہیں کہ
''خلقت تجھے گنج بخش اور داتا کہتی ہے جبکہ رنج بخش اور گنج بخش ذاتِ حق ہی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ ''شرک مت کر جب تک زندگی بسر کرے۔'' وحده لا شریك له ''یعنی وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے کوئی بھی اس کا شریک نہیں''33
واضح ہواکہ بزرگانِ دین بھی سمجھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کوان اَوصاف کا حامل سمجھنا درست نہیں اور وہ شرک پر جری کرنے کی بجائے اُمت کو شرک سے ڈراتے تھے۔
7۔  آثار ِمقدسہ پر حاضری اور تبرک کے لیے سفر:ان مضامین میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کے آثارِ مقدسہ پر حاضری برکت کے حصول کے لیے جانا صحابہ کا عقیدہ تھا۔ اسلئے آج بھی آثار مقدسہ کا تبرک کیلئے سفر درست ہے۔
تبصرہ: ان دلائل پر ذرا غور کیا جائے تو وہ ﴿ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ﴾ کا مصداق ہیں۔کسی سفر پر جاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں محبتِ رسولﷺ کا اظہار کرنا اورچیز ہے اور بالخصوص اسی مقصد کے لیے سفر کرنا اور دعاؤں کی قبولیت کے لیے وہاں جانا اور بات ہے۔رسول اللہ ﷺ کے آثار و تبرکات میں سے جن زیارات کا ثبوت مل جائے، اُن کا انکار نہیں، لیکن ضعیف روایات کے ذریعےاتنے حساس مسائل میں کمزور استدلال کرنا کسی صاحب علم کورَوا نہیں۔
اس حوالے سے پیش کئے گئے دلائل میں نابینا صحابیؓ عتبان بن مالک کا واقعہ پیش کیا گیا ہے کہ اُنہوں نے آپﷺ کو گھر بلا کر نماز کی درخواست کی تاکہ اس جگہ کو جائے نماز بنا لوں تو اس میں کوئی عیب کی بات نہیں۔اور عبداللہ بن عمرؓجن آثارِ نبویہ پر نماز پڑھتے تھے، وہ خاص اس مقصد کے لیے سفر کرکے نہیں جاتے تھے بلکہ عمل حج اورسفر مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع کا حق ادا کرتے تھے۔
اورجس دلیل سے دعاؤں کی قبولیت کے لیے بزرگوں اورنیک ہستیوں کے آثار والی جگہ کی طرف سفر کا استدلال کیا گیا ہے وہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اس روایت کا خلاصہ یہ ہےکہ جابر فرماتے ہیں:
''غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہﷺ نے مسجد فتح میں پیر، منگل اور بدھ کو دعا مانگی ، جوبدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان قبول ہوئی اور جب بھی مجھ پر کوئی مشکل مرحلہ آیا، میں نے بدھ کے دن اسی وقت میں دو نمازوں کے درمیان مسجد فتح میں جاکر دُعا کی، ہر بار میری دعا قبول ہوئی اور مجھے پتہ چل گیا۔''34
اس روایت کی سند میں کثیر بن زید راوی ہے جس کے متعلق امام ابوحاتم نے لکھا ہے:
''یہ راوی قوی نہیں ۔''35
اور مسنداحمد کے محققین کی جماعت نے بھی راوی کثیر بن زید کی وجہ سے اس کو روایت ضعیف قرا ردیا ہے۔36 جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو مزارات کے لیے رخت ِسفر باندھ کر وہاں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ بھی بے بنیاد ہے۔
صحابہ کرام سے لے کر آج تک اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے جن واقعات کا سہارا لیا گیا یا تو وہ ضعیف قصے ہیں یا اس موضوع سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ بے جا تکلّف کرتے ہوئے ان سے مطلب کی باتیں نکالی گئی ہیں۔ اس قسم کے دلائل پر عقیدہ کی پختہ عمارت کبھی قائم نہیں ہو سکتی۔ ان روایات کے بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ ہو:
1۔  بلال بن حارث کے حوالے سے بیان کیاگیا کہ اُنہوں نے دورِ فاروقی میں روضۂ رسولﷺ پر جاکر مدد چاہی۔37
اس کی سند میں اعمش راوی مدلّس ہے اورعن سے بیان کررہا ہے۔ اورمولانا احمد رضا خاں بریلوی لکھتے ہیں کہ مدلس کا عنعنہ جمہور محدثین کے مذہبِ مختار و معتمد میں مردود و نامستند ہے۔38
2۔  محمد بن منکدر تابعی کے متعلق لکھا ہے کہ اُنہوں نے کہا :مجھ پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو میں رسول اللہ ﷺ کی قبر سے استعانت کرتا ہوں۔39
یہ قصہ بھی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں اسماعیل بن یعقوب تیمی راوی ہے۔ سیر اعلام النبلا کے مؤلف امام ذہبی﷫ نے میزان الاعتدال40 پر اس راوی کے متعلق لکھا ہے کہ ابوحاتم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ امام مالک سے ایک منکر حکایت بیان کرتا ہے اور سیر اعلام النبلا کے محقق شعیب ارناؤط نے لکھا ہے کہ اس قصے کی سند ضعیف ہے۔41
3۔  امام ابن خزیمہ﷫ محدثین کی جماعت کے ساتھ علی الرضا کی قبر پر گئے اورتواضع سے کھڑے رہے۔42
اس سے تو قبر کی زیارت کا ثبوت ملتا ہے ،اس واقعے میں نہ خاص سفر کا تذکرہ ہے اورنہ کوئی خرافات ...لہٰذا یہ مدعا کے مطابق نہیں۔
4۔  چوتھی صدی میں ابن حبان﷫ نے امام علی الرضا کی قبر شریف کی حاضری کو ہر مشکل کا حل قرار دیا ہے۔43
یہ بہت بڑا دھوکہ ہے اورامام ابن حبان﷫ پر الزام ہے کہ انہوں نے قبر کی حاضری کو ہر مشکل کا حل قرار دیا۔ بلکہ اُنہوں نے تو یوں فرمایا:
«دعوت الله عزوجل إزالتها عني إلا استجیب لي وزالت عني تلك الشدّة»44
''میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی میری دعا قبول کی گئی اور میری تکلیف دور ہوگئی۔''
اُنہوں نے تو اللہ سے دعاکو مشکلات کے حل کا ذریعہ بنایا ہے۔
5۔  ابن تیمیہ﷫ کی وفات پر بعض لوگوں کا تبرک لینے والا عمل45 کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ نہ ابن تیمیہ﷫ کا عقیدہ تھا، نہ ان کا حکم تھا اور نہ ہی ان کا عمل تھا۔ اگر بعض الناس کے عمل سے کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے تو جو کچھ جاہل عوام مزارات پر اس دور میں کررہے ہیں کیا اُنہیں بھی آپ کے عقائد میں شمار کرلیا جائے؟
دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت بھی اُمت کا بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن ثوبان کی حدیث میں صرف اس کو ہی اُمت کا مسئلہ نہیں بتایا گیا ۔ہاں آج اُمت میں یہ بیماری بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ شرکِ اکبر اور شرکِ اصغر کی سنگین بیماری بھی ہے۔ لہٰذا اُمت کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہر اس بیماری سے بچا جائے جو عقیدہ توحیدکی خالص عمارت کو نقصان پہنچا رہی ہے اوردعوتِ توحید پر اثر انداز ہورہی ہے اور اس کے ساتھ آخرت کی فکر بھی ضروری ہے۔
مضمون کے بعض داخلی تضادات
آخری گزارش ہے کہ آدمی کو اپنے عقیدہ و عمل میں کتاب و سنت سے تمسک کرنا چاہیے وگرنہ آدمی تضادات کی قلا بازیاں کھاتا ہے جس کے نمونے جلالی صاحب کے ان زیر نظر مضامین میں جابجا ہیں۔ آخر میں مضمون کے ان داخلی تضادات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔مضمون نگار ایک جگہ لکھتے ہیں:
1۔  شرک ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ (قسط نمبر 1 ،کالم نمبر 3)
اور دوسری جگہ اس کے برعکس راقم ہیں:
''اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرکِ جلی کا امکان نہیں۔'' (قسط نمبر، کالم نمبر 2)
اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں:
''قبائل کے مشرک ہوجانے کا ذکر بعد کا معاملہ ہے۔'' (قسط نمبر 2، کالم نمبر 1)
2۔  آگے جا کر اس کے برخلاف لکھتے ہیں:
3۔  اگر بنده الله كے علاوہ کسی اورکو واجب الوجود یا مستحق عبادت مانتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ (قسط نمبر 2، کالم نمبر 3)
4۔  محبوبان الٰہی کو معبود بنا کر قرب ِایزدی کا وسیلہ بنانے والے پر فتویٰ لگے گا۔ ( قسط نمبر 3، کالم نمبر 2)
نتیجہ یہ نکلا کہ شرک کے عدم وجود کا دعویٰ انہی کی تحریر سے ردّ ہوتا نظر آتا ہے۔


حوالہ جات
1. سورۃ الانعام :81، 82... ترجمہ 'کنز الایمان' از احمدرضا خاں بریلوی

2. ترجمہ از غلام رسول سعیدی، شرح مسلم، جلد ؍صفحہ 586

3. التوبۃ: 31، ترجمہ تبیان القرآن از غلام رسول سعیدی، شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ، کراچی

4. تبیان القرآن: 5؍133

5. سنن ابوداؤد:4252، مسنداحمد:5؍278، سنن ابن ماجہ: 3952

6. صحیح مسلم :338، شرح السنۃ : 1237، مسندابو عوانۃ: 90

7. سورۃ الاعراف:138...بحوالہ روزنامہ پاکستان مجریہ7؍اپریل، قسط نمبر 1؍ص 5

8. مسندحمیدی:848،ترمذی :2180،مسنداحمد:5؍21،مصنف عبدالرزاق:11؍369،ابن حبان:9؍248، 6667

9. صحیح بخاری:1344، صحیح مسلم :2296

10. نعمۃ الباری : 3 ؍514

11. فتح الباری:3؍2111، عمدۃ القاری:8؍157، ارشاد الباری:2؍440

12. صحیح بخاری:3158

13. فتاویٰ رضویہ:5؍477

14. مستدرک حاکم:5؍470، 8010، مسند احمد :5؍538، 17250، سنن ابن ماجہ:4205، شعب الایمان از بیہقی : 5؍333 وغیرہ، بحوالہ روزنامہ پاکستان: 7 اپریل 2012ء، قسط نمبر 1 زیر تبصرہ مضمون

15. الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند احمد:28؍347۔اس روایت پر تفصیلی بحث محدث جون 2011ء میں ملاحظہ فرمائیں۔

16. صحیح مسلم: رقم 5030

17. مستدرک حاکم :5؍666، 8508، سنن ابن ماجہ: 4049، النهایة في الفتن لابن کثیر:1؍30

18. جس کی مثالیں مضمون ''اُمتِ توحید اورپندرہویں صدی'' میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

19. قسط نمبر 2، کالم نمبر1: روزنامہ پاکستان: 7؍اپریل 2012ء

20. صحیح بخاری:7131

21. مسندحمیدی:848، مسند احمد:5؍21،سنن ترمذی :2180

22. زیر نظر مضمون :اُمتِ توحید اور پندرھویں صدی، روزنامہ پاکستان 7؍ اپریل 2012، قسط نمبر 2

23. حوالہ نمبر 1،کالم نمبر 3

24. مجمع بحار الانوار:2؍448

25. زیر نظر مضمون: قسط نمبر 2؍ کالم نمبر 3

26. ابن کثیر:4؍267

27. زیر نظر مضمون: قسط نمبر 3 ،کالم نمبر 2

28. صحيح مسلم: 1185

29. شرح صحیح مسلم :4؍539

30. شرح مسلم :4؍539

31. مضمون اُمت ِتوحید اور پندرھویں صدی ، قسط نمبر 3، کالم نمبر 2

32. مسندحمیدی:1025، مسنداحمد:2؍246، عبدالرزاق:8؍464، موطا مالک:419

33. کشف الاسرار: صفحہ 9 ...تصوف ایڈیشن

34. الأدب ا المفرداز امام بخاری :558،مسنداحمد:14617،وفاء الوفا:3؍39

35. الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم:7؍204

36. الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد بن حنبل :23؍425

37. البدایۃ والنہایۃ:8؍98

38. فتاویٰ رضویہ: 5؍245، 266

39. سیر اعلام النبلاء :6؍159

40. 1؍254، 969

41. سیر أعلام النبلاء، محقق:5؍359

42. تہذیب التہذیب: 4؍ 657 بحوالہ مضمون قسط نمبر 4

43. کتاب الثقات:5؍325

44. الثقات:8؍457 طبع فاروق الحدیثہ

45. البدایة والنهایة: 14؍ 552،553، بحوالہ مضمون قسط نمبر 4