علومِ اسلامیہ کی معیاری تعلیم؛ وقت کی اہم ضرورت

اسلام اللہ کا آخری دین ہے جس میں دین ودنیا کی تمام خوبیاں جمع کردی گئی ہیں۔دین کے بارے میں یہ تصور مغربی تہذیب نے دیا ہے کہ وہ صرف اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کا احاطہ کرتا ہے اور دنیا کے دیگر معاملات کو ہمیں انسانی عقل ودانش اور تجربے کی روشنی میں بروے کار لانا چاہئے۔ دین کا یہ محدود تصور ایک طرف سیکولر نظریہ کو پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے دین ودنیا کی ثنویت وجود میں آتی ہے۔ مغرب کے اس بنیادی نظریہ پر ایمان لے آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی تمام علوم کی تعلیم اس سیکولر سوچ کی بنا پر دی جاتی ہے اور اس سیکولر نظام تعلیم کے پروردہ آخرکار مسلم معاشرے کو بھی دو خانوں: دین ودنیا میں تقسیم کردیتے ہیں۔
مسلم معاشروں میں یہ مسئلہ مدارس دینیہ کے ذریعے پیدا نہیں ہوا کہ دین ودنیا کے دو خانے وجود میں آگئے اور مسٹر وملّا کی گہری خلیج حائل ہوئی، بلکہ استعمار کے دورِ حکومت میں جب سیکولر نظریۂ زندگی پر معاشرے کی تشکیل کی گئی اور مغرب نے سکول وکالج کا نظام قائم کرکے دنیاکی تعلیم کے ادارے علیحدہ کرلئے تو دین کی بنا پر تعلیم دینے والے مدارسِ دینیہ باقی رکھے جانے کے نتیجے میں از خود دین ودنیا کی ثنویت قائم ہوگئی۔ جبکہ ان مدارس دینیہ کی بنا پر صدیوں تک چلے آنے والے مسلم معاشروں میں دین ودنیا کی کوئی تقسیم نہیں تھی، اور ان کے ہاں تمام علوم ہی شریعتِ اسلامیہ کے وسیع اور جامع تر تصور کے تحت پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے، اور اسلام جس طرح ہماری آخرت کی اصلاح کرتا ہے، اسی طرح اس سے ہماری دنیا بھی سنورتی ہے۔ اسلام زندگی کی اُن بیش قیمت تفصیلات پر مشتمل ہے جس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان خیرالقرون میں ایک مثالی معاشرہ میں ڈھل گئے اور یہ اسلامی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ عرب کے جاہل بدو، اسلام کی تعلیمات سیکھ کر چند ہی سالوں میں دنیا کے قائد وامام بن گئے۔اُن کا دین بھی سنورا اور دنیا بھی نکھر گئی۔اسلام نے ان کو عظیم سیاسی اور اجتماعی قوت ہی نہیں بنایا بلکہ وعدہ قرآنی کے عین مصداق امن وامان کی دولت سے بھی یہ معاشرے مالا مال ہوگئے اور بشارتِ نبوی کے مطابق چشم فلک نے یہ دیکھا کہ زکوٰۃ لے کر نکلنے والوں کو زکوٰۃ وصول کرنے والا نہ ملتا تھا، گویا مسلم معاشروں سے غربت کا بھی خاتمہ ہوگیا جس کے خاتمے کے لئے آج کی مغربی تہذیب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کامیاب نہیں ہوپارہی ۔دورِعثمانیؓ میں زکوٰۃ کی تقسیم مشکل ہوجانے سے صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ خلافتِ اسلامیہ نے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ہر صاحبِ نصاب مسلمان کے ہی سپرد کردی۔ نبی کریمﷺ کے ارشادات اور قرآنِ کریم کے فرامین پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کی سپر پاورزقیصر وکسریٰ اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ گویا اسلامی نظریہ نے اُنہیں دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی ضمانت دی!!
یہ اسلام کی محض عسکری فتح ہی نہیں تھی، بلکہ اسلام کی نظریاتی قوت نے بھی ان قوموں کو زیر کیا اور اسلامی احکام وشرائع کو دل وجان سے مسلمانوں نے قبول کیا۔ظاہر ہے کہ قوم مسلم کی یہ دنیوی کامیابی انہی کتاب وسنت کو سیکھنے اور پھر اُن پرمخلصانہ عمل پیرا ہونے کا نتیجہ تھی جنہیں آج ہمارے نادان مسلمان بھائی صرف مسجد ومدرسہ تک محدود رکھنے پر اصرار کئے بیٹھے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سیاست وعدالت ، معاشرت ومعیشت، قانون وقضا اور تعلیم وابلاغ کی اس قدر لمبی چوڑی تفصیلات ہیں جن سے دنیا کے دیگر مذاہب یکسر محروم ہیں۔ اسلامی علمیت کا دیگر مذاہب کے علوم سے اگر مقابلہ کیا جائے تو اپنی جزئیات وتفصیلات کے لحاظ سے اسلامی علوم کا ظاہری حجم ہی اُن سے دسیوں گنا زیادہ ہے۔ اور اگر ان علوم کی گہرائی اور گیرائی کا بصیرت افروز جائزہ لیا جائے تو اسلام کو اللہ کا عطا فرمودہ دین اور انسانیت کے لئے عظیم الشان تحفہ مانے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
مسلم فرد اور اسلامی معاشرے کی کامیابی وکامرانی علومِ اسلامیہ میں رسوخ ، اس کے فروغ اور اس پر مخلصانہ عمل میں ہی مضمر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دیگر علوم کی طرح اسلام کو بھی جدید یونیورسٹیوں میں محض علم کی ایک شاخ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، اور جس طرح سیاسیات ومعاشیات میں دو سالوں میں طالب علم کے ہاتھوں میں سندِ فراغت تھما دی جاتی ہے، علوم اسلامیہ کو بھی اتنا یا اُس سے مختصر ہی وقت دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام تو علوم کا ایسا خزینہ ہے جس پر پوری زندگی بھی صرف کی جائے تو اس کے معانی ومفاہیم ختم ہونے میں نہ آئیں۔
نبی کریمﷺ نے نبوت کی دوعشروں پر محیط زندگی میں علوم ومعارف کے وہ خزانے ملت ِاسلامیہ کو بہم پہنچائے جس پر بعد کی چودہ صدیاں گزرجانے اور مسلم علما کی بھرپور کاوشوں کے بعد آج تک ان علوم میں تحقیق و تدقیق جاری ہے۔ قرآنِ کریم کی سینکڑوں تفسیریں لکھی گئیں، احادیثِ نبویہ کے ہزاروں مجموعے مرتب ہوئے، فقہی مسائل پر اَن گنت تفصیلات اور جزئیات موجود ہیں، جنہیں جان اور سمجھ کر انسانی دانش حیران رہ جاتی ہے۔مسلم ذخیرہ دانش میں لاکھوں لوگوں کے حالاتِ زندگی محفوظ ہوگئے۔تفسیر وعلوم قرآن، حدیث وعلوم حدیث ، عقیدہ وایمانیات، فلسفہ وکلام ، تاریخ وسیرت،جغرافیہ وبلدان، شعر وادب اورلغت وقوامیس کی وہ کتنی بیش بہا تفصیلات ہیں جو مسلمانوں کے ترویج کردہ علوم میں پائی جاتی ہیں۔معاشرت کے ہر پہلو پر اسلام کی تفصیل درتفصیل رہنمائی اور تحریری وعلمی ذخیرہ موجود ہے۔مسلم علما نے قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ کو اس طرح اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کا مخاطب بنایا کہ اسلامی علمی ذخیرہ میں دودرجن سے زائد جلدوں میں لکھی جانے والی کتب کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچتی ہے اور اُن کتب کو کسی ایک مسلم محقق ومصنف نے قلم بند کیا ہے۔ آج ترقی وتہذیب کے اس دور میں بھی ، مغرب کے اہل علم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ اُن کے ہاں درجنوں جلدوں میں کسی ایک فاضل کے ہاتھوں کوئی ایک کتاب تصنیف کی جائے۔ ان کے ہاں ایسے کام اجتماعی کاوش کے ہی مرہونِ منت رہے ہیں، جنہیں بھاری بھرکم مادی مفادات کے عوض حیطۂ تحریر میں لایا گیا ہے۔
اسلام ، انسان کی پوری زندگی کی تفصیلات پیش کرتا ہے۔ اسلام کی بنا پر کسی ریاست کا تشخص متعین ہوتا ہے، ایک فرد اپنی پوری زندگی کےاہداف کا تعین مسلم اور غیر مسلم ہونے کے ناطے کرتا ہے۔ اس کی زندگی کے آغاز واختتام اور زندگی کے اہم ترین مراحل ، حتیٰ کہ دیگر انسانوں سے روابط کی حد بندیاں اسلام کی رو سے متعین ہوتی ہیں۔ جرم وگناہ اور جزا وسزا کے فیصلے اسلام کی میزان پر ہوتے ہیں۔اس نظریہ کی بنا پر دنیا بھر میں مفادات کی کھینچا تانی ہوتی ہے اوردنیا اسی دینی نظریہ کی بنا پر تقسیم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی بنا پر بعض کو حزب اللہ اور بعض کو حزبِ شیطان قرار دیتا ہے۔ پوری دنیائے کفر ، نظریۂ اسلام کی بدولت اسلام کے مقابلے میں مجتمع ہوجاتی ہے۔ اس عظیم الشان مذہب کی تعلیم وتدریس سے غفلت برتنا اور اس کی معرفت میں کوتاہی کرنا ایک سنگین ملّی جرم ہے جس کا ارتکاب دورِ حاضر کے مسلم معاشروں میں بہ تکرار کیا جارہا ہے!!
آج مغرب کی پروردہ ، مسلم معاشروں کی سیکولر یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کی سب سے اعلیٰ ترین سند پی ایچ ڈی کے لئےدو سے تین سال کی براہ راست تعلیم کافی سمجھی جاتی ہے۔ جس تعلیمی دورانیہ کا نصف سے زائد وقت بھی خالص علوم اسلامیہ کے بجائے ، اس کے معاون علوم میں صرف ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل پرچوں میں قرآن وحدیث اور فقہ کو نکال کر، باقی پرچے یعنی اسلام اور سائنس، اسلام اور تحریکیں، تقابل ادیان، فلسفہ وعلم الکلام، معاصر اسلامی دنیا وغیرہ علوم اسلامیہ کے وہ پہلو ہیں جنہیں امدادی علوم قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد پی ایچ ڈی مرحلہ کی ایک سالہ تعلیم میں بھی انگریزی زبان، کمپیوٹراوراُصولِ تحقیق ایسے معاون مضامین کی تدریس جاری رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قوم کے مرکزی دھارے اور تعلیم کے مرکزی نظم میں علوم اسلامیہ کی محض ڈیڑھ دو سالہ تعلیم انتہائی ناکافی ہے، جس سے اسلامیات کی مہارت پیدا ہونے کا دعوٰی کیا جاسکے۔ ان مغربی یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم کا دائرہ عمل اس نوعیت کے ایک آدھ شعبہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل انہی جامعات میں سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے درجنوں شعبے سرگرم عمل ہوتےہیں، سائنس کی ایسی ایسی امکانی شاخیں یہاں پڑھائی جاتی ہیں جن کے موضوع کو سمجھ لینے بھی معقول صلاحیت درکار ہے ۔
دوسری طرف انہی مسلم ممالک میں سائنس وانجنیئرنگ کی صرف ایم اے تک اہلیت کے لئے 8 سال تک پڑھایا جاتا ہے ، اُس کے بعد کہیں جاکر اُنہیں سائنسز کا گریجویٹ سمجھا جاتا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سائنس وانجنیئرنگ کے لئے مڈل تک جنرل سائنس کے وقیع نصاب کے بعد، میٹرک سائنس مضامین کےساتھ، پھرپری میڈیکل اورپر ی انجنیئرنگ اور انٹر میڈیٹ کے بعد مزید چارچارسالہ کورسز ، تب کہیں جاکر کسی طالب علم کو سائنس کے کسی میدان میں فضیلت کا پہلا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر اس کے بعد پی ایچ ڈی تک وہ جانا چاہے تو ان 8سالوں پر مزید 5سال شامل کرلینے چاہئیں۔ہمارے ملک میں قانون کی تعلیم کے لئے بھی کم ازکم 5 سال کی تعلیم کے بعد سندِ فضیلت دی جاتی ہے لیکن اسلام ہی علم کی ایسی مظلوم شاخ ہے کہ روزِ اول سے نصاب کے کمزور ترین رسالے، کوئی بھی استادحتیٰ کہ بعض اوقات کسی غیرمسلم کے ذریعے اسلامیات کی بے روح لازمی تدریس کے بعدصرف ڈیڑھ دو سال میں اُس کو سندِ فضیلت تھما کر، یونیورسٹی کے سماجی اعتراف کے ذریعے اس 'فاضل' کو خدمتِ اسلام پر مامور کردیا جاتا ہے۔
بعض پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے تو اس پر حد ہی کردی ہے کہ ان کے ہاں اسلامیات کی پی ایچ ڈی مرحلہ کو عبور کرنے کے لئے ایم اے کے درجے کی کوئی بھی سند کافی خیال کی جاتی ہے۔یعنی جس طالبعلم نے تعلیم کے سولہ برسوں میں ایک بار بھی علوم اسلامیہ کو نہیں پڑھا، اور وہ بالفرض انجنیئرنگ کا طالبعلم ہے ، اگر وہ چاہے تو وہ بھی ایم فل میں محض 9 ماہ کی براہ راست تعلیم کے بعد ، محض ایک مقالہ لکھ لینے سے اسلام کا فاضل اجل بن سکتا ہے۔
اسلامیات کی اس درجہ سرسری تعلیم حاصل کرنے والے اساتذہ ہی بعد میں دیگر نونہالانِ وطن کو علوم اسلامیہ کی تعلیم وتربیت دینے پر مامور کئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک فاضل وقابل اُستاد چند ماہ میں ہی طالبِ علم کو شریعت اور اسلام کی گہری تفصیلات سے باخبر کرسکتا ہے، لیکن اگر اساتذہ کرام کی اپنی تعلیم بھی انہی سرسری مراحل سے گزر کر مکمل ہوئی ہو تو پھر وہاں علوم اسلامیہ کا کیا معیار ہوگا...؟
طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ بعض نامور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لئے ، جن پروفیسرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی علوم اسلامیہ میں خود پی ایچ ڈی کی رسمی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ یعنی اس نے زندگی بھر چند سال بھی اسلام کا مطالعہ نہیں کیا لیکن وہ اسلام کی تفصیلات سکھانے میں مگن ہے اور یہ ظلم قومی تعلیمی اداروں کے تعاون سے وطن عزیز پاکستان میں جاری وساری ہے۔ ایک ہی یونیورسٹی میں عربی زبان اور انگریزی زبان کے تعلیم کے معیار، مراحل اور اہداف کا مقابلہ کیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انگریزی میں ایم اے کرنے والا تو انگریزی زبان کی بیش بہا تفصیلات سے آگاہ ہوتا اور اس میں معیاری اہلیت رکھتا ہے ، جبکہ انہی یونیورسٹیوں میں عربی زبان کی مہارت کی سند لینے والا عربی میں چند جملے بھی درست نہیں لکھ سکتا۔ اس امتیاز کی اس کے سوا کیا وجہ ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار اور علم ووتدریس کے مسند نشینوں کے نظریات اور اہداف ہی مختلف علو م کےلئے جداگانہ ہیں۔ وہ مشرقی ومغربی علوم کے مابین شدید تعصب کا شکار ہیں، دونوں کی افادیت کے بارے میں ان کے نظریات میں واضح بُعد پایا جاتا ہے۔ اسلام نے علم کو مشرق ومغرب کی حدبندیوں سے نکال کر ہر مفید علم سیکھنے کی تلقین کی ہے اور شرعی علوم سیکھنے والوں کو بہترین مسلمان قرار دیا ہے لیکن مغرب کے اہل علم ودانش علوم اسلامیہ کے بارے میں انتہاپسندی کرتے ہوئے ، اِنہیں بہ مشکل گوارا کرنے پر ہی راضی ہیں، ان کا بس چلے تو وہ یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کے شعبے بند اور اس کی اعلیٰ اسناد کو منسوخ ہی کردیں،جس کا اظہارکئی بار تعلیمی مقتدرہ کی زبانوں سے بھی ہوچکاہے۔
اگر ان یونیورسٹیوں میں اربابِِ اختیار سے بات کی جائے کہ علوم اسلامیہ میں بھی پوری مہارت بہم پہنچائی جانا چاہئے، ان علوم کے لئے معیاری دورانیہ اور فاضل اساتذہ کی خدمات میسر آنا چاہئے تو اس کے جواب میں وہ اسلامیات کے امتحانات کے ذریعے حاصل ہونے والی بھاری آمدن کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ اگر ہم نے اسلامیات کےنصاب کو مشکل کیا تو یونیورسٹیوں کی آمدن متاثر ہوگی، لوگوں کو اسناد بڑی تعداد میں ملنی چاہئیں تاکہ معاشرے میں وہ ایم اے کے بعد ملازمت حاصل کرسکیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آمدن کا بوجھ بھی صرف علوم اسلامیہ پر ہی کیوں ہے؟ بے روزگاری کی یہ فکر مندی صرف یہاں سے کیوں پوری کی جاتی ہے۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں انجنیئرز پیدا کرنے شروع کردیے جائیں اور چندمہینوں میں اعلیٰ اسناد تھما کرپوری قوم کو انجنیئرز بنا دیا جائے تو اس سے کیا یونیورسٹیوں کے خزانے بھر نہیں جائیں گے...؟؟
آج علوم اسلامیہ سے بے اعتنائی اور بے پروائی کا وبال ہے کہ مسلم معاشرے اللہ کے دین سے محروم ہیں، ان میں اسلام کے ماہرین نظر نہیں آتے، شہروں کے شہر علما سے ویران پڑے ہیں، کوئی فاضل عالم نظر نہیں آتا اور علم سے بے بہرہ لوگ اسناد تھام کر، لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ کوئی اللہ کا عالم وعامل بندہ دنیا سے اُٹھ جاتا ہے تو اس کی جگہ پوری کرنے والا نہیں ملتا۔حکمرانوں اور معاشروں کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے یہ ذمہ داری اہل مدارس کے سپرد کرکے، اپنے حصہ کا کام یہ منتخب کرلیا ہے کہ ان کے ذرائع آمدن کو بھی ختم کردیا جائے، ان کے اوقاف قبضے میں لے لئے جائیں، ان کی اسناد کو بے اعتبار کردیا جائے، ان کے خلاف میڈیا کے سرکش اذہان کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ اسلام کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار دین کے فروغ کے ان اداروں کے خلاف بول کرکریں۔ اس پوری سماجی رویے کا وبال مسلم اُمہ پر اس حالت میں پڑ رہا ہے کہ دین روز بروز کمزور ہورہا ہے، اللہ سے تعلق ٹوٹ رہا ہے، اسلام کے تقاضے پامال ہورہے ہیں اور مسلم معاشرے مادہ پرست مغربیت کے پیچھے سرپٹ دوڑ کر دین ودنیا کی ذلت سمیٹ رہے ہیں۔
ایسے حالات میں جب سرکاری اداروں کو اپنے فرض کی فکر نہیں بلکہ وہ رہے سہے نصابات کو بھی ختم کردینے پر تلے بیٹھے ہیں تو عامۃ المسلمین کا ہی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے دین کی تعلیم وتعلّم کا معیاری انتظام کریں اور اس اہم ضرورت کی تکمیل کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپا دیں۔سوانہی حالات میں جامعہ لاہور اسلامیہ میں ایک اعلیٰ معیار کی اسلامی جامعہ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں علوم اسلامیہ کا دنیا میں موجود بہترین معیار پاکستان میں میسر کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے تاکہ پاکستان میں جامعہ ازہر اور مدینہ یونیورسٹی کے معیار کی اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو۔ اس میں علوم اسلامیہ کا اعلیٰ ترین نصابِ تعلیم پڑھایا جائے، اس کا سرکاری سطح پر اعتراف حاصل کیا جائے اور مثالی اساتذہ یہاں تدریس کے فرائض انجام دیں۔ یہاں علوم اسلامیہ کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے جمیع علوم کو اسلامی زاویۂ نظرسے پڑھا یا جائے۔ علم کو دین ودنیا کی ثنویت سے نکال کر، قرآن وسنت کی روشنی میں ہر علم کو سیکھا سکھایا جائے۔
خوش کن امر یہ ہے کہ تادم تحریر اس سمت بہت سی منازل طے ہوچکی ہیں۔ برصغیر میں مدارس کی دو صد سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی اسلامی مدرسہ کے نظام، روح اور ہدف ومقصد کو جدید یونیورسٹی کے انتظامی ماڈل میں سمودیا جائے۔ عملاً اس کے تفصیلی خدوخال کیا ہیں، اور اس کے نصاب ونظام کی جزئیات کیا تجویز کی گئی ہیں، اس کی تفصیلات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں۔ فی الحال یہ اطلاعات کافی ہیں کہ جامعہ ہذا میں دو سال سے نیا نصاب ونظام جاری ہوچکا ہے، پنجاب حکومت سے اس کی منظوری حاصل ہوئے 7 ماہ ہوچکے ہیں اور رمضان المبارک کے اس مبارک مہینے کے کسی لمحے مختلف میدانوں میں کلاسیں شروع کرنے اور اعلیٰ سرکاری اسناد عطا کرنے کی باضابطہ سرکاری اجازت میسر آنے والی ہے۔اگر اللہ کی مدد شامل حال رہی تو عظیم الشان اسلامی جامعہ قائم ہوکر رہے گا اور پاکستان میں علوم اسلامیہ کے رسوخ اور فروغ کا یہ قرض اپنے تئیں ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ... ظاہر ہے کہ یہ بڑا ہی عظیم الشان کام ہے جو قرض بھی ہے اور فرض بھی اور اس کے لئے ہم پرخلوص دعا کرکے، اس کو کامیاب کرنے کی مساعی میں عملاً شریک ہوسکتے ہیں۔

السعي منا والإتمام من اللہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭