محمد  بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد

اصطلاحاً 'وہابی' نام رکھنا، نسبت و اعتقاد کے لحاظ سے اسی طرح غلط ہے جس طرح شیخ محمد اور ان کے متبعین کی طرف منسوب نظریات غلط تھے اور اُن لوگوں نے اس سے برات ظاہر کی۔سلفی عقیدے کے متلاشی دین اسلام کے دونوں سرچشموں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا مقصد زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے یہ لقب ان لوگوں کے لیے ناگوارِ خاطر نہیں ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس لقب سے انہیں ملقب کیا گیاہے، وہ محض ایک بہتان ہے جو بحث و مناظرے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لوگ اس روشن راہ کے راہی ہیں جس پر سیدنا رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو چھوڑا جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، ہلاک ہونے والا ہی اس راہ سے بہکے گا، یہ راہ آپﷺ کے قول و فعل اور تقریر سے صحت وسند پر اطمینان کے بعد اِختیار کی گئی ہے۔
یہ عمران بن رضوان1 ہیں، جو بیرونِ جزیرہ کے مسلمان اور اپنے شہر'لنجہ'کے علما میں سے ہیں۔ جب اُنہیں یہ دعوت پہنچی اور اِس کی سچائی پر اُنہیں یقین ہوگیا تو ایک قصیدے میں اس کی مدح سرائی کی جس میں ذیل کا شعر بھی آیا ہے:

إن کان تابع أحمد متوهّبا         فأنا المقر  بأنني وهّابي

''اگر احمد مصطفیﷺ کی پیروی کرنے والا وہابی ہے تو مجھے اپنے وہابی ہونے کا اعتراف ہے۔''
اور یہ شعر اُنہوں نے صرف اس لیے کہا ہے کہ'وہابی' کا لقب بقول عراقی عالم محمد بہجت اَثری دشمنانِ اسلام کی خواہش پر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ عالم اسلام ایک بے جان ڈھانچہ ہوگیا ہے، یقیناً سامراجی طاقتیں اس کی سرزمین ، خزانوں، کانوں اور دیگر قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گی، پس اس نئی دعوت کو جس کی گونج وسط جزیرہ نما عرب سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اُنہیں ہلاکتوں سے بچانے کے لیے اُٹھی تھی، ایک فرقے کی شکل میں پیش کیا گیا تاکہ فرقوں کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوجائے۔ اسی لیے اسے'وہابیت' کا لقب دیا گیا اورشہرت یافتہ ذرائع ابلاغ نے اس لقب کی اشاعت کی جس سے یہ لقب لوگوں میں زبان زدِ عام ہوگیا۔ حکومتِ عثمانیہ کو بھی یہ لقب بھلا لگا، چنانچہ اس نے اسے درویشوں اور شاہی خاندان کی درگاہوں اور خانقاہوں کے دستر خوان پر پلنے والوں کی زبان پر چالو کردیا اور اس پر شبہات ڈالنے اور اس کی صورت مسخ کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، بالخصوص اُس وقت جب اس کی اَہمیت بڑھ گئی اور اس کی بنیاد پر جزیرہ نمائے عرب میں مضبوط عربی اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔2
وہابی تحریک کی نوعیت، دعوت اور اہمیت کو جاننے اور اُس کے خلاف اُٹھائے جانے والے شکوک وشبہات اور الزامات کے ازالے کے لئے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دو خطوط کو یہاں پیش کرنا مناسب ہوگا.
ایک شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کا اہل قصیم کے نام خط اور دوسرا وہ خط جو شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نے علماے مجمعہ میں سے تین کے نام بھیجا تھا، مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دونوں خطوں کی حتمی تاریخ واضح نہیں ہے۔اس خط میں شیخ محمد احمد سلفی﷫دعوت کے سلسلے میں اپنا منہج واضح کرتے ہیں:
''جب میں شعبان 1407ھ میں موریتانیا گیا تو وہاں کے بعض علما نے اِفادہ عام کے لیے ان دونوں خطوں کا اضافہ کرنے کی درخواست کی تاکہ پڑھنے والے خود اپنی بصیرت کی روشنی میں حقیقتِ حال جان لیں اور صحیح نتیجے تک پہنچ سکیں۔''
ضروری وضاحت: شیخ محمد﷫ کے خطوط کے مطالعے سے پہلے یہاں شیخ کے ایک خط کی وضاحت ضروری ہے تاکہ قارئین کرام پر اصل حقیقت روشن ہوجائے۔ یہ خط اہل قصیم کے نام ہے۔ ان لوگوں نے شیخ محمد﷫ سے ان کا عقیدہ دریافت کیا تھا تو اس استفسار کے جواب میں شیخ  نے یہ مکتوب ارسال کیا۔ اسے اہل قصیم نے مقامی علماے کرام کی خدمت میں اُن کی رائے جاننے کے لیے پیش کردیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مقامی علماے کرام شیخ محمد﷫ کی دعوت کی تائید کردیں گے تو وہ اسے قبول کرلیں گے، بصورتِ دیگر کنارہ کش رہیں گے۔
چنانچہ علماے کرام نے شیخ  کے خط کا بڑی احتیاط اور باریک بینی سے مطالعہ کیا اور شیخ محمد﷫ کی نسبت اعلان کردیا کہ وہ راہِ صواب پر ہیں۔ اس جانچ پرکھ اور تحقیق و تفتیش کے بعد اہل قصیم نے شیخ کی دعوت حق قبول کرلی۔ راہِ حق کے مسافروں کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔ یہی شان اور ذمے داری علماے کرام کی بھی ہے کہ وہ معاملے کو علم و بصیرت اور دلیل و برہان کی روشنی میں دیکھیں اورملامت گر کی ملامت سے بے خوف ہوکر سچائی کا اعلان کردیں۔
اَب شیخ کے مکتوبِ گرامی کا مطالعہ فرمائیے۔ شیخ کے دوسرے خطوط بھی اسی طرح کے ہیں جو اِستفسار کرنے والوں کے جواب میں لکھے گئے۔ جس نے جب کبھی اپنے شک و شبے کا اظہار کیا اور شیخ سے سوال کرکے راہِ حق جاننی چاہی تو شیخ نے فوراً جوابِ باصواب مرحمت فرمایا۔ جس کے نتیجے میں لوگوں پر حقیقتِ حال کھل گئی اور اُنہوں نے شیخ کی دعوت قبول کر لی۔ انہوں نے شیخ کے ہاں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو یا ان مسلّمہ عقائد کے منافی ہو جن پر اُمتِ اسلامیہ کی بڑی شخصیات اعتقاد رکھتی ہیں۔
شیخ ﷫ کا اہل قصیم کے نام خط3
1- جب اہل قصیم نے شیخ سے اُن کے عقیدے کے بارے میں دریافت کیا تو تحریر فرمایا:

بسم الله الرحمٰن الرحیم

میں اللہ کو، میرے پاس جو فرشتے حاضر ہیں ،اُنہیں اور آپ لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں وہی اعتقاد رکھتا ہوں جو فرقہ ناجیہ اہل السنّۃ والجماعۃ عقیدہ رکھتا ہے، یعنی اللہ پر،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اُٹھنے پر اور اچھی یا بُری تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں اورایمان باللہ ہی میں سے ان تمام صفات پر بغیر حک و اضافہ، ایمان لانابھی شامل ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں یا اپنے رسولﷺ کی زبان پر متصف کیا ہے۔میرا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مثل کوئی بھی نہیں۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جن صفات سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا، ان میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا، نہ اس کے کلمات کو اُن کی ٹھیک جگہ سے تبدیل کرتا ہوں۔ اس کے ناموں اور آیات میں کج روی نہیں کرتا۔ اس کی کیفیت بیان کرتا ہوں، نہ اس کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسی قرار دیتا ہوں کیونکہ وہ بلند و بالا ہے۔ اس کا کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی ہم سر ہے اورنہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مخلوق پر اسے قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اپنے آپ کو غیر سے زیادہ جانتا ہے۔ اپنی بات میں سب سے زیادہ سچا ہے اور اس کی بات سب سے زیادہ بہتر ہے، اس کی ذاتِ عالی ان تمام صفات سے پاکیزہ ہے جن سے کیفیت بیان کرنے والے اورتشبیہ دینے والے مخالفین اسے متصف کرتے ہیں، اس نے ان صفات سے بھی خود کو منزہ قرار دیاہے جن کا ردّوبدل اور حک و اضافہ کرنے والے منکرین انکار کرتے ہیں، اس کا ارشاد ہے:
﴿سُبحـنَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمّا يَصِفونَ ١٨٠ وَسَلـمٌ عَلَى المُرسَلينَ ١٨١ ﴾..... سورة صافات
''پاک ہے آپ کا ربّ، جو بہت بڑی عزت والا ہے، ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں اورپیغمبروں پر سلامتی ہے۔''
اور فرقہ ناجیہ'نجات پانے والا گروہ' اللہ تعالیٰ کےاَفعال کے بارے میں قدریہ اور جبریہ کے مابین معتدل ہے اور اللہ کی وعید کے بارے میں وہ لوگ فرقہ مرجئہ و جہمیہ کے مابین معتدل ہیں اور اصحابِ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شیعہ اور خوارج کے مابین معتدل ہیں۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اسی سے اس کی اِبتدا ہوئی اور اُسی کی طرف وہ لوٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اس کے ذریعے سے کلام کیا اوراپنے بندے، اپنے رسول، اس کی وحی کے اَمین، اس کے اور اس کے بندوں کے درمیان اپنے سفیر، ہمارے نبی محمدﷺ پر اسے نازل فرمایا اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے، اسے کر گزرنے والا ہے۔ اس کے چاہے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی اورکوئی چیز اس کی مشیت سے خارج نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں کوئی چیز اس کی تقدیر سے باہر نہیں ہے، نہ اس کی تدبیر کے بغیر پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو متعین تقدیر سے مُفرنہیں۔ لوحِ مکتوب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔
میں موت کے بعد پیش آنے والی ہر اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جس کی خبر نبی ﷺ نے دی ہے۔ قبر کی آزمائش اور اس کی نعمتوں پر ، اجسام میں رُوحیں لوٹانے پر ایمان رکھتا ہوں اورلوگ ربّ العالمین کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کھڑے ہوں گے۔ آفتاب اُن سے قریب ہوگا، ترازو قائم کی جائے گی اور اس سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا جن کے ترازو کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ تو نجات پانے والے ہوں گے اور جن کے ترازو کا پلڑا ہلکا ہوگیا، یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا اور ہمیشہ کے لیے واصل جہنم ہوئے۔ دفاتر پھیلا دیے جائیں گے ، کوئی اپنا نامۂ اَعمال اپنے داہنے ہاتھ میں لے گا اورکوئی اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا، ان سب باتوں پر میرا ایمان ہے۔
میدانِ حشر میں ہمارے نبیﷺ کے حوض پر میرا یقین ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کے ساغر آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے ، جو اس حوض سے ایک بار پانی پی لے گا اس کے بعد کبھی پیاس نہیں محسوس کرے گا، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ پل صراطِ جہنم کے کنارے پر رکھا جاچکا ہے ، لوگ اس سے اپنے اپنے اَعمال کی حیثیت کے مطابق گزریں گے۔
میں نبیﷺ کی شفاعت پر ایمان رکھتا ہوں اور اس بات پر بھی کہ آپ سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپﷺ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ صرف اہل بدعت اور گمراہ لوگ نبی ﷺ کی شفاعت کے منکر ہیں لیکن شفاعت اللہ کی اِجازت اور رضا مندی کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلا يَشفَعونَ إِلّا لِمَنِ ار‌تَضىٰ..... ٢٨ ﴾.... سورة الانبياء
''وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کریں گے بجز اُن کے جن سے اللہ خوش ہو۔''
اور اِرشاد ہے: ﴿مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ..... ٢٥٥ ﴾..... سورة البقرة
''کون ہے جو اس کی اِجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔''
نیز اِرشاد فرمایا: ﴿وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمـٰو‌ٰتِ لا تُغنى شَفـٰعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَر‌ضىٰ ٢٦ ﴾..... سورة النجم
''اور کتنےہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش ذرا بھی کام آنے والی نہیں، مگریہ اوربات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اِجازت عطا کردے۔''
اللہ تعالیٰ توحید ہی سےراضی ہوگا اور اہل توحید ہی کو اہل توحید کی سفارش کرنے کی اِجازت دے گا۔ رہے مشرکین تو شفاعت میں ان کا کوئی حصہ نہیں جیساکہ اِرشاد ربانی ہے:
﴿فَما تَنفَعُهُم شَفـٰعَةُ الشّـٰفِعينَ ٤٨ ﴾..... سورة المدثر
''انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی نفع نہ دے گی۔''
میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں۔ دونوں اس وقت موجود ہیں اور دونوں فنا نہیں ہوں گے۔اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اُسی طرح اپنی نگاہوں سے دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہیں ، اس کی دید سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔
میں یہ بھی ایمان رکھتاہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ سارے نبیوں اورپیغمبروں پر مہر ہیں۔ کسی بندے کا ایمان، جب تک وہ آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لائے اور آپﷺ کی نبوت کی گواہی نہ دے، صحیح نہ ہوسکتا۔ آپﷺ کی اُمت میں سب سے اَفضل اَبوبکر صدیق، پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، پھر علی مرتضیٰ ، پھر باقی عشرہ مبشرہ، پھر اَہل بدر، پھر درخت والے اَصحابِ بیعتِ رضوان ، پھر باقی صحابہ ہیں۔
میں اَصحابِ رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں، اُن کی خوبیاں دل میں یاد رکھتا ہوں اور زبان سے چرچا کرتا ہوں، اُنہیں راضی کرتا ہوں اور اُن کے لیے دعاے مغفرت کرتا ہوں، ان کی بُرائی کرنے سے باز رہتا ہوں، ان کے مابین جو نزاع ہوا، اس پر خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَ‌بَّنَا اغفِر‌ لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَ‌بَّنا إِنَّكَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ١٠..... سورة الحشر
''اور جو ان کے بعد آئے، وہ دُعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں بخش دے اورہمارے ان بھائیوں کوبھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کےلیے کینہ نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! بے شک تو نہایت شفیق اورمہربان ہے۔''
اس اِرشاد باری پر عمل کرتے ہوئے میں صحابہ کرام کی فضیلت کو مانتا ہوں۔ہر بُرائی سے پاک اُمہات المؤمنین کےحق میں'رضی اللہ عنہن' کہتا ہوں، اَولیا کی کرامت و کشف کا معترف ہوں، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حق کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ جس چیز پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ اُن سے نہیں مانگی جائے گی، بجز اس کے جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے گواہی دی ہے۔ میں مسلمانوں میں سے کسی اور کے لیے جنت و جہنم کی گواہی نہیں دیتا لیکن نیکو کار کے لیے رحمت کا اُمیدوار ہوں اورگناہ گار پر عذاب سے خائف ہوں۔ میں مسلمانوں میں سے کسی گناہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتا، نہ اسے دائرۂ اسلام سے خارج مانتاہوں۔ ہر نیک و بد امام کے ساتھ جہاد کو جاری سمجھتا ہوں، ان کے پیچھے نماز باجماعت مباح جانتا ہوں اور جہاد محمدﷺ کی بعثت سے لے کر اس اُمت کے آخری فرد کی دجال سے جنگ کرنے تک باقی ہے۔ کسی ظالم کا ظلم اسے منسوخ کرے گا، نہ کسی انصاف پر ست کا انصاف۔
نیک و بد اَئمہ مسلمین کی اِطاعت کو میں واجب سمجھتا ہوں جب تک وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں اور جسے خلیفہ مقرر کردیا گیا اور لوگ اس سے متفق اور راضی ہوگئے یا بزورِ طاقت اُن پر غالب ہوکر خلیفہ بن گیا،اس کی اِطاعت واجب ہے، اس کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ اہل بدعت سے قطع تعلق اور جدائی مناسب سمجھتا ہوں یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں، اُنہیں مسلمان مانتا ہوں اور ان کا باطن اللہ کے حوالے کرتاہوں۔ میں اسلام میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز کو بدعت مانتاہوں۔
اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ایمان زبان کے قول، اعضا و جوارح کے عمل اور دل کی تصدیق کو کہتے ہیں۔ ایمان اطاعت و فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے۔ اس کے ستّر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں۔ سب سے بلند شعبہ"لا إلٰه إلا الله" کی گواہی دینا ہے اور سب سے نچلا راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے، اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کا شریعتِ محمدیہﷺ کے تقاضے کے مطابق قائل ہوں۔
یہی میرا مختصر عقیدہ ہے جسے پریشان حالی میں تحریر کردیاہے تاکہ آپ لوگوں کو میرے خیالات سے آگاہی ہوجائے اور جو کچھ میں کہتا ہوں، اس پر اللہ میرا کارساز ہے۔
آپ لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ لوگوں کو سلیمان بن سحیم کا خط پہنچا ہے اورآپ کے ہاں بعض کم علم اَشخاص نے اسے درست سمجھ لیا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے جبکہ اللہ جانتا ہے کہ اس شخص نے مجھ پر ایسی باتوں کا اِلزام لگایا ہے جو میری زبان تو کجا میرے وہم و گمان سے بھی نہیں گزریں، جیسے : اُن کا یہ کہنا کہ میں مذاہب اَربعہ کی کتابوں کو منسوخ قرار دیتا ہوں اورکہتا ہوں کہ لوگ چھ سو سال سے کسی مذہب پر نہیں ہیں اور اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہوں، تقلید کی مجھے ضرورت نہیں اورکہتا ہوں کہ علما کا اختلاف مصیبت ہے اور جو بزرگوں کا وسیلہ پکڑے، اسے کافر کہتا ہوں۔ بوصیری کو اس کے "یا أکرم الخلق"کہنے کی وجہ سے کافر گردانتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا قبہ ڈھانا میرے بس میں ہوتا تو میں اسے ڈھا دیتا اور میں قبر نبیﷺ کی زیارت کو حرام کہتا ہوں اور آپ کے والدین وغیرہ کی قبر کی زیارت کا منکر ہوں۔ جو غیر اللہ کی قسم کھائے اسے کافر کہتا ہوں، ابن فارض اور ابن عربی کو کافر گردانتا ہوں۔'دلائل الخیرات' اور'روض الریاحین' جیسی کتابیں جلا دیتا ہوں اور آخر الذکر کتاب کو روض الشیاطین کے عنوان سے موسوم کرتا ہوں۔ ان تمام مسائل کے بارے میں میرا جواب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں: ﴿سُبحـٰنَكَ هـٰذا بُهتـٰنٌ عَظيمٌ ١٦ ''یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔'' ان سے پہلے لوگوں نے محمدﷺ پر بہتان لگایا تھا کہ آپﷺ عیسیٰ بن مریم ﷩ اور بزرگوں کو گالی دیتے ہیں، ان لوگوں کے اور اُن لوگوں کے دل اِلزام لگانے اور جھوٹ بولنے میں یکساں ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : ﴿إِنَّما يَفتَرِ‌ى الكَذِبَ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ..... ١٠٥﴾.... سورة النحل
''جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا۔''
یہی لوگ جھوٹے ہیں۔کذابوں نے رسالت مآبﷺ پر بہتان لگایا کہ آپؐ کہتے ہیں:
فرشتے ، عیسیٰ اورعزیر جہنم میں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اِرشاد نازل فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذينَ سَبَقَت لَهُم مِنَّا الحُسنىٰ أُولـٰئِكَ عَنها مُبعَدونَ ١٠١ ﴾..... سورة الانبياء
'' بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی نیکی اوربھلائی مقدر ہوچکی ہے وہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔''
رہ گئے دوسرے مسائل تو بے شک میں یہ ضرور کہتا ہوں: انسان جب تک "لا إله إلا الله" کے معنی سمجھ نہ لے، کامل طور پر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جو میرے پاس آئے گا، میں اسے اس کے معنی سمجھا دوں گا۔ جب نذر سے غیر اللہ کے تقرب کی نیت ہو تو نذر ماننے والے اور نذرانہ قبول کرنے والے دونوں کو کافر کہتا ہوں۔ اوریہ کہ غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا کفر ہے اور وہ ذبیحہ حرام ہے۔ یہ مسائل یقیناً برحق ہیں۔ میں ان کا قائل ہوں اورمیرے پاس اُن پر کلام اللہ اور کلام رسول اللہ ﷺ اورجن علما کی اتباع کی جاتی ہے جیسے اَئمہ اربعہ، ان کے اَقوال سے دلائل موجود ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ آسانی فرمائے گا، ان شاء اللہ ان سب کا تفصیلی جواب ایک مستقل رسالے کی شکل میں لکھوں گا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے اِرشاد کو سمجھیں اور غور کریں:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـلَةٍ......  ٦ ﴾..... سورة الحجرات
''اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو۔''
محمد بن عبدالوہاب کے بھائی سلیمان کا اپنے بھائی کی دعوت قبول
کرتے ہوئے ، اس سلفی دعوت کے اوصاف کا تذکرہ کرنا
2.  مصباح الظلام کے مصنف نے سلیمان بن عبدالوہاب﷫ کی طرف منسوب اپنے بھائی کے ردّ پر اعتراض کے بعد کہا:
اللہ کا احسان ہے کہ اس کتاب کا مسوّدہ تیار کرتے ہوئے سلیمان کے ایک ایسے خط کا پتہ چلا جس سے اُنہوں نے اپنے پہلے مذہب سے توبہ کرنے کی خوش خبری دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ حقیقتِ توحید و ایمان ان پر ظاہر ہوگئی اور جو گمراہی و سرکشی پہلے سرزد ہوچکی ہے، اس پر وہ نادم ہیں۔اس خط کا مضمون یہ ہے :

بسم الله الرحمٰن الرحیم

سلیمان بن عبدالوہاب کا برادرانِ احمد بن محمدتویجری اوراحمد و محمد اولادِ عثمان بن شبانہ کے نام خط4
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته وبعد!
اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ ہم پر اور تم پر اللہ نے اپنے دین اوررسول اللہ ﷺ کے ذریعے بھیجی ہوئی شریعت کی معرفت کا جو اِحسان کیااوراس کے ذریعے اندھے پن سے نکال کر بصیرت عطا فرمائی اور گمراہی سے نجات دلائی، یہ ساری باتیں تمہیں یاد دلاتا ہوں۔ ہمارے پاس درعیہ آجانے کے بعد تمہاری معرفتِ حق، اس پر تمہاری مسّرت اور اللہ رب العزّت کی حمد و ثنا جس نے تمہیں بچایا۔ یہ اُمور بھی تمہیں یاد دلاتا ہوں، الحمد للہ! جو بھی ہمارے ہاں آتا ہے ، تمہاری تعریف کرتا ہے، اس پر اللہ کا شکر ہے۔ تمہیں دو خط بطورِ یاددہانی لکھ چکا ہوں۔
میرے بھائیو! حق کی مخالفت ، شیطان کے راستے کی پیروی اورراہِ ہدایت کی اتباع سے روکنے کی جو کوشش ہم سے سرزد ہوئی تھی، وہ تمہیں معلوم ہے۔ اب یاد رکھو! ہماری زندگی کا تھوڑا حصہ باقی ہے، گنتی کے گنے چنے دن ہیں، سانس گنے جارہے ہیں۔ گمراہی کے لیے جو کچھ ہم نے کیا تھا، ضرورت ہے کہ اَب اس سےزیادہ ہدایت کے لیے کام کریں، وہ بھی صرف اللہ وحدہ لا شریک کی رَضا کے لیے، نہ کہ ا س کے ماسوا کےلیے؛ شاید اللہ تعالیٰ ہمارے اگلے پچھلے گناہ مٹا دیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت جو ہاتھ زبان، دل اور مال سے ہوتا ہے ، اس سے گناہوں کا جو کفارہ ہوتا ہے، وہ تم سے مخفی نہیں اورجس کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے، اس کا اَجر تم جانتے ہو، اس وقت جتنا کارِ خیر تم کرتے ہو، اس سے زیادہ کرنا اور اللہ کیلئےسچائی کےساتھ کھڑے ہونا، حق کو بطورِ حق لوگوں سے بیان کرنا اور پہلے تم جس ضلالت و گمراہی پر تھے، اسے صراحت سے بیان کرنا مطلوب ہے۔
اے میرے بھائیو! اللہ سے ڈرو، اللہ کا خوف کرو، اگر ہم ویرانوں میں نکل جائیں، اللہ کے آگے گڑگڑائیں، اس کے سامنے دستِ دعا بلند کریں اور لوگ ہمیں پاگل ٹھہرائیں تو یہ بھی ہمارے لیے کم ہے کیونکہ ہمارا گناہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
تم اپنی جگہ پر دین و دنیا کے سردار ہو، شیوخِ قبائل سے زیادہ باعزت ہو اورسارے عوام تمہارے پیروکار ہیں، اس پر اللہ کا شکر اَدا کرو۔ ممنوعاتِ شریعت میں سے کسی چیز کا اِرتکاب نہ کرو۔ تم جانتے ہو کہ فریضہ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر اَدا کرنے والوں کو ناپسندیدہ اُمور ضرور پیش آتے ہیں۔میں ا س پر تمہیں صبر کی نصیحت کرتا ہوں جس طرح اللہ کے نیک بندے لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی، اللہ ہی کے لیے محبت کرنے اوراللہ ہی کے لیے بغض رکھنے سے بڑھ کر کوئی حق نہیں، اللہ کے لیے دوستی کرو اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کرو۔
اس راہِ میں تمہیں کچھ شیطانی خیالات پیش آئیں گے، مثلاً یہ کہ بعض لوگ خود کو اس دین کی طرف منسوب کریں اور شیطان آپ کے دل میں ڈالے کہ یہ سچا نہیں ہے بلکہ دنیا کا خواہش مند ہے، حالانکہ یہ ایسی بات ہے جس سے صرف اللہ تعالیٰ باخبر ہے، لہٰذا جب کسی کا ظاہر اچھا ہو تو اسے تسلیم کرو اور اس سے دوستی رکھو۔ جب کسی کا ظاہر بُرا ہو اوروہ دین سے پیٹھ پھیر رہا ہو تو اس سے دشمنی رکھو اور اس سے نفرت کرو، اگرچہ وہ تمہارا بڑا محبوب ہی ہو۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلا شرکت غیرے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اپنی رحمت سے ہمارے لیے ایک رسولﷺ بھیجا جس نے ہمیں ہمارے اصل مقصد سے روشناس کرایا اورہمیں اللہ تعالیٰ کا راستہ بتایا۔
سب سے بڑی بات جس سے اس نے ہمیں منع کیا، وہ اللہ کےساتھ شرک کرنا اور اللہ والوں سے دشمنی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حق بیان کرنے اور باطل ظاہر کرنے کا حکم دیا۔ جو شخص ہدایت پکڑے، وہ تمہارا بھائی ہے، اگرچہ وہ بہت بڑا دشمن ہی ہو اور جوصراطِ مستقیم سے پیٹھ پھیرے، وہ تمہارا دشمن ہے، چاہے وہ تمہارا بیٹا یا بھائی ہو۔
الحمدللہ! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے تم لوگوں سے کہا ہے، اسے تم جانتے ہو، پھر بھی یہ بات تمہیں اَز سر نو یاد دلائی ہے، اس لیے اَب اسے مکمل طور پر بیان کرنے سے جس میں کوئی التباس نہ ہو، تمہارے پاس کوئی عذر نہیں۔ ہاں تمہاری مجلسوں میں ہم نے اور تم نے پہلے جو کچھ کہا، اسے برابر یاد رکھنا۔ باطل کا ساتھ چھوڑدینے اورحق کا بھرپور ساتھ دینے سے زیادہ کوئی برحق نہیں ، نہ اس سے تمہیں کوئی عذر مانع ہے کیونکہ آج دین و دنیا دونوں الحمدللہ اس سے متفق ہیں۔
ذرا یاد کرو، پہلے تم دنیاوی معاملات میں کس قدر خوف زدہ تھے۔ طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا تھے، ظالموں اور فاسقوں کی زیادتیاں سہہ رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے دین کے ذریعے یہ ساری مصیبت دور فرمائی اور تمہیں سیادت و قیادت کا رتبہ عطا فرمایا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کا احسان اور عالی قدر شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی دعوتِ حق کا اثر ہے۔ ایک مسئلے پر غور کرو جس سے ہم ناواقف ہیں کہ اس اسلامی دعوت کے پھیلنے سے قبل فاسد عقائد والے بدؤوں پر اسلامی احکام کے حاملین ہونے کا اطلاق کیا جاتا تھا جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صحابہ نے مرتد ہوجانے والے بدوؤں سے جنگ کی، حالانکہ ان میں اکثر اسلام کے نام لیوا تھے بلکہ بعض اسلام کے ارکان بھی بجا لاتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ جو قرآن کے ایک حرف کوبھی جھٹلائے گا، اسے کافرکہا جائے گا، اگرچہ وہ عابد و پارسا ہی ہو۔ اور جو دین یا دین کی کسی چیز کا مذاق اُڑائے، وہ کافر ہے اور جو کسی متفق علیہ حکم کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے خارج کرنے والے دیگر احکام جو سب بدؤوں میں اکٹھے موجود تھے، اس کے باوجود ہم اُن پر اپنے سے پہلے لوگوں کی تقلید کرتے ہوئے بلا دلیل اسلام پر عمل پیرا ہونے کا حکم لگاتے تھے۔
میرے بھائیو! غور کرو اوراس اصل کو یاد رکھو تو تمہیں اس سے کہیں زیادہ رہبری کی روشنی ملے گی۔ میں نے بات لمبی کردی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جن باتوں کی تنبیہ کی ہے، اس میں سے کسی پربھی تم شک نہیں کرو گے۔میری اس سلسلے میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خصوصی نصیحت یہ ہے کہ رات دن اللہ کے سامنے گڑگڑانے کو اپنی عادت بنا لو کہ وہ تمہیں نفس کی برائیوں اور اعمال کی خرابیوں سے بچائے۔ صراط ِمستقیم کی ہدایت دے، جس پر اس کے انبیا، پیغمبر اور نیک بندے گامزن تھے اورگمراہ کن فتنوں سے تمہیں محفوظ رکھے۔ حق واضح اور روشن ہے اورحق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ سے ڈرو اور اسے ہردم یاد رکھو۔ جو لوگ تمہارے علاقے میں ہیں، وہ خیر و شر میں تمہارے تابع ہیں۔ جو کچھ میں نے تم سے بیان کیا ہے، اگر اسے کرتے رہے تو تمہیں کوئی بُرا نہیں کہہ سکے گا اورتم بڑے لوگوں کی طرح پریشان حال لوگوں کے لیے مشعل راہ بن جاؤ گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں سب کو راہِ راست پر چلائے۔
شیخ، ان کی آل و اولاد اورہمارے اہل خانہ سب الحمد للہ اچھے اور تمہیں سلام عرض کررہے ہیں۔ اپنے عزیزوں کو ہمارا سلام پہنچا دو۔ والسلام وصلى الله علىٰ محمد وآلہٖ وصحبہٖ
اے اللہ! خط لکھنے والے، اس کے والدین، اس کی ذریت، خط پڑھ کر کاتب کے لیے مغفرت کی دعا کرنے والے اور جملہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔
محمد بن عبدالوہاب کی دعوت اور ان کے عقائد ونظریات کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ سعودی حکومت کے بانی شاہ عبد العزیز کے عقائد کا بھی تذکرہ کیا جائے ، تاکہ معلوم ہو کہ ان کی طرف جن الزامات کی نسبت کی جاتی ہے، اس کی کتنی حقیقت ہے؟
شاہ عبدالعزیز کا اصلاحی کردار
سقوط خلافت اِسلامیہ عثمانیہ کے بعد 1343ھ؍بمطابق1926ء میں شاہ عبدالعزیز مکہ میں داخل ہوئے۔ جب مدینہ اورجدہ کے علاقے ان کی قیادت میں نئی حکومت کے حدود میں آگئے تو ان کے خلاف کئی غیرملکی آوازیں اٹھیں اور اُنہوں نے ان پر کئی باتوں کی تہمت لگائی جن سے وہ بری ہیں۔ کسی نے کہاکہ وہ وہابی مذہب کے ماننے والے ہیں جوپانچواں مذہب ہے۔ اُنہوں نے حرمین شریفین کا تقدس پامال کیا، مسجد نبوی پر بم برسائے اور عزتیں لوٹیں۔ وہ نبی ﷺ سے محبت نہیں رکھتے اور آپ ﷺ پر درود نہیں بھیجتے۔ اس کے علاوہ دیگر کذب بیانیاں بھی کیں جو پہلے دہرائی جاچکی ہیں۔ اسی دوران علماے اہل حدیث کاایک گروپ آیا جس نے حج کیا، مسجد ِنبویؐ کی زیارت کی اور ان الزامات کو یکسر غلط پایا جو اُن پر لگائے جارہے تھے اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا۔ یہ لوگ اپنے اطمینان کے بعد ہندوستان واپس آگئے تاکہ اتہامات کی تردید کریں اورآنکھوں دیکھی حقیقت حال بیان کریں۔ اُنہوں نے لکھنؤ اور دلّی کانفرنس کی تردید کے لئے دو کانفرنسیں منعقد کیں۔ اخباروں نے جن میں اخبار اہل حدیث، اخبار ِمحمدی اورروزنامہ زمیندار پیش پیش تھے، شاہ عبدالعزیز کی حقیقی کارگزاری بیان کی۔ اُنہوں نے حرمین شریفین میں جواصلاحات کیں اورحجاج کے آرام و راحت اور امن و سکون کے لیے جو اَقدامات کیے، ان کی تفصیلات شائع کیں۔ مزید برآں اُن کے عقیدے کی سلامتی اور اللہ کے دین کے لیے ان کی غیرت و حمیت کے جذبات کا حال لکھا۔ شاہ عبد العزیز﷫ جس عقیدے پر مضبوطی سے قائم تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے اُنہوں نے خطوط بھی لکھے اورہر سال حجاج کے وفود کے روبرو اپنےفکر و عمل کے اَحوال بھی بیان کرتے رہے۔
3. اس دوران شاہ عبد العزیز نے یکم ذی الحجہ 1347ھ بمطابق 11 مئی 1929ء کومکہ میں شاہی محل میں'یہ ہمارا عقیدہ ہے!' کے زیر عنوان ایک جامع تقریر کی۔ اس میں اُنہوں نے وضاحت سے کہا: لوگ ہمارا نام'وہابی' رکھتے ہیں اورہمارے مذہب کو پانچواں مذہب ٹھہرا کر'وہابی' کہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک فاش غلطی ہے جو جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی اِشاعت خود غرض لوگ کیا کرتے تھے۔ ہم کسی نئے مذہب یا نئے عقیدے کے ماننے والے نہیں۔ اورمحمد بن عبدالوہاب﷫ کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ ہمارا عقیدہ سلف صالحین ہی کا عقیدہ ہے ، ٹھیک وہی عقیدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے اورجس پر سلف صالحین کاربند تھے۔
ہم اَئمہ اربعہ کا احترام کرتے ہیں ،امام مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ ﷭ کے مابین ہم کوئی تفریق نہیں کرتے، یہ سب ہماری نظر میں محترم و معظم ہیں۔ ہم فقہ میں مذہب حنبلی کو ترجیح دیتےہیں۔
یہ وہ عقیدہ ہے جس کی دعوت دینے کے لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫اُٹھے اور یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ اللہ عزوجل کی توحید پر مبنی ہے۔ ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہے۔ ہر بدعت سے منزہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ توحید ہے جس کی ہم دعوت دیتے ہیں اوریہی عقیدہ ہمیں آزمائش و مصائب سے نجات دے گا۔
رہا وہ تجدد جس کا بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں اورمسلمانوں کو فریب دیتے ہیں کہ اس تجدد میں ہمارے دکھوں کا علاج موجود ہے تو میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تجدّد دنیاوی اوراُخروی دونوں لحاظ سے ہر سعادت سے خالی ہے۔
یقیناً مسلمان جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے۔ خالص کلمہ توحید کے بغیر ہم سعادتِ دارین حاصل نہیں کرسکتے۔ہمیں وہ تجدد ہرگز نہیں چاہیے جو ہمارا عقیدہ اوردین ضائع کردے۔ ہمیں اللہ عزوجل کی رضا چاہیے اور جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے گا، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ وہ اس کا مددگار ہوگا۔ مسلمانوں کو ماڈرن بننے کی ضرورت نہیں، اُنہیں صرف سلف صالحین کے منہج کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ جو چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آئی، اس پر مسلمانوں نے عمل نہیں کیا تو وہ گناہوں کی کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ اللہ جل شانہ نے اُنہیں ذلیل و خوار کیا۔ وہ ذلت و رسوائی کی اس حد کو پہنچ گئے جس پر آج آپ انہیں دیکھ رہے ہیں، اگر وہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو جن آزمائشوں اور گناہوں میں آج مبتلا ہیں، وہ اُنہیں لاحق نہ ہوتے ، نہ وہ اپنی عزت و سربلندی کو ضائع کرپاتے۔میرے پاس بے سروسامانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اسی حالت میں نکلا، میرے پاس افرادی قوت بھی نہیں تھی۔ دشمن میرے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے لیکن اللہ کے فضل اور اس کی قوت سے مجھے غلبہ حاصل ہوا اور یہ سارا ملک فتح ہوگیا۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج مسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ غیر مسلم پردیسی ہماری مصیبت کا سبب ہیں۔ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے۔ اپنی مصیبتوں کا سبب ہم خود ہیں، غور فرمائیے ! ایک غیر مسلم پردیسی کسی ایسے ملک میں جاتاہے جہاں کروڑوں مسلمان ہوتے ہیں اوروہ تنہا اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو کیا ایسا تن تنہا شخص لاکھوں کروڑوں اَفراد پر اَثرا انداز ہوسکتا ہے جب تک کہ مقامی لوگوں میں سے کچھ لوگ اپنے افکار و کردار سےاس سے تعاون نہ کریں؟
نہیں، ہرگز نہیں، غیروں کے یہی معاونین ہماری مصیبتوں اور آزمائشوں کا سبب ہیں۔ ایسے مددگار ہی دراصل اللہ کے اور خود اپنے نفس کے دشمن ہیں، لہٰذا قابل ملامت وہ کروڑوں مسلمان ہیں ، نہ کہ غیر مسلم پردیسی۔ کوئی تخریب کار ایک مضبوط محکم عمارت میں تخریب کاری کی جتنی چاہے کوشش کرلے جب تک عمارت میں شگاف نہ پڑے اور کدال گھسنے کی راہ ہموار نہ ہو، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اگر وہ متفق و متحد اوریک جان رہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ ان کی صفوں میں سوراخ کردے اوران کا کلمہ منتشر کردے۔
اس ملک میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی جزیرہ نمائے عرب کو نقصان پہنچانے، اَندر ہی اَندر اس پر ضرب لگانے اور ہمیں تکلیف دینے کے لیے غیر مسلم تارکین وطن کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ جب تک ہماری نبض چل رہی ہے، ان کی یہ مذموم خواہش پوری نہیں ہوگی۔
مسلمان متفق ہوجائیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کریں، اس طرح وہ یقیناً کامیاب اور بہ عافیت رہیں گے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ آگے بڑھیں، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی محمدﷺ کی سنت میں جو کچھ آیاہے، اس پر عمل کرنے اور توحید خالص کی دعوت دینے کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو میں بھی اُن کی طرف قدم بڑھاؤں گا اور جو کام وہ کریں گے اور جو تحریک لے کر وہ اُٹھیں گے، میں ان کےدوش و بدوش رہ کر ان کا ساتھ دوں گا۔
اللہ کی قسم! مجھے حکومت پسند نہیں۔ یہ اَچانک میرے ہاتھ آگئی ہے۔ میں صرف رضائے اِلٰہی کا آرزو مند ہوں اور توحید کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ مسلمان اسے مضبوطی سے پکڑنے کا عہد کریں اور متحد ہوجائیں۔ یوں میں ایک بادشاہ، لیڈریا ایک امیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے ان کے شانہ بہ شانہ چلوں گا۔5
4. 23 محرم 1348ھ بمطابق یکم جولائی 1929ء کو ایک تقریر میں اُنہوں نے فرمایا:
آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ بعض لوگ راہِ ہدایت سے الگ ہوگئے ہیں، صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے ہیں اوران چالوں کی وجہ سے جو بعض مدعیانِ اسلام چلتےہیں اوراسلامی غیرت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، شیطان کے پھندے میں پڑگئے ہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ دین ان سے اور اُن کی کارستانیوں سے بَری ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور برابر کہتا رہوں گا کہ جتنا خطرہ مجھے بعض مسلمانوں سے لاحق ہے، اتنا غیر مسلم تارکین وطن سے نہیں، کیونکہ ان کا معاملہ عیاں ہے، ان سے بچنا ممکن ہے، ان کےحملوں کو روکنے، ان کی چال بازیوں کا ناکام بنانے کے لیے تیاری ممکن ہے، یہ لوگ اسلام کے نام پر ہم سے جنگ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے۔ رہے بعض مسلمان تو یہ لوگ اب تک نجد اور اہل نجد کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کے نام پر چالیں چلتے ہیں اور اسلام کا نام لے کر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہیں۔
حکومتِ عثمانیہ اسلامی حکومت کے دعویدار ہونے کی بنا پر لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشانے قطیف اوراحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز اوریمن کی طرف سے لشکرِ جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اُڑائی گئی۔ دعوت جس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا، اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب﷫ پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے اورکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اوردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔
دانائے قلوب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ توحید نے صرف ہماری ہڈیوں اور جسموں ہی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمارے دلوں اور اعضاء و جوارح پر بھی اس کا قبضہ اور غلبہ ہوگیا ہے۔ ہم نے توحید کو شخصی مقاصد پورا کرنے اورمال غنیمت کے حصول کا آلہ کار نہیں بنایا بلکہ ہم اسے مضبوط عقیدے اور قوی ایمان کےساتھ تھامے ہوئے ہیں تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رکھا جائے۔6 یہ ہماری حقیر سی کوشش ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے التجا ہے کہ وہ اس عمل کو اپنی ذات کریم کے لیے خالص بنائے اور اس کے ذریعے طالبانِ علم و معرفت کو ہمیشہ نفع پہنچائے۔والحمد لله رب العٰلمین وصلى الله وسلم علىٰ سیدنا ونبینا محمد وعلى آله وصحبه أجمعین

..................................

اَب تک جو معروضات کی گئی ہیں، اُن کے مطالعے کے بعد درج ذیل حقائق پر پھر توجہ فرمائیے اور اس پورے معاملے پر حتمی نظر ڈالیے۔
زندگی ربّ ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے اور نہایت عظیم الشان مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس زندگی کو خودغرضی، ہیرا پھیری، الزام و دشنام، عیش و عشرت اور جسم و جنس کے مطالبوں پر ضائع کیا، وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں پھینک دیے گئے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو زندگی کو اللہ ربّ العزت کی امانت سمجھتے تھے، وہ ہر عیش سے منہ موڑ کر اور ہر صعوبت برداشت کرکے آخر دم تک مقاصدِ حسنہ کے لیے کام کرتے رہے اور تاریخ کے ایوان میں شہیدوں کی طرح سرخرو ہوکر لازوال ہوگئے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب﷫ ایسے ہی منفرد انسانوں میں سے تھے۔وہ احیاے دین ہی کے لیے جیے۔ اِسمی اور رسمی مسلمانوں کو سچا اور کھرا مسلمان بنانے کے لیے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے رہے اور اسی مقدس جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ رحمه الله تعالىٰ رحمة واسعة.
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ﷫ اور شیخ عبدالقادر جیلانی﷫، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔
ایک موقع پر شیخ محمد﷫ مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی﷫ جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ هـٰؤُلاءِ مُتَبَّرٌ‌ ما هُم فيهِ وَبـٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ١٣٩ ﴾..... سورة الاعراف
''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :
1. عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔
2. نماز، روزہ، حج اور اداے زکوٰۃ کا التزام کیا جائے۔
3. اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذاتِ عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
4. ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔
5. پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔
6. شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔
شیخ ﷫ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب﷫ اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ ﷫ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔
جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
«وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار»7
یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔
عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔
لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
جو لوگ اللہ رب العزّت کو اپنا دل دے دیتے ہیں، ان کےلیے اپنے وطن کے مالوفات بھی کوئی کشش نہیں رکھتے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، نیکی کے بیج بوتے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی فصلیں تیار کرنے لگتے ہیں۔ شیخ نےجلا وطنی کا حکم صبر اور سکون سے سنا۔ وہ بڑی بے بسی اور تہی دامنی کی حالت میں عیینہ سےنکلے۔ درعیہ کا قصد کیا۔ بے آب و گیاہ صحرا کی وسعتیں تھیں، شدید گرمی تھی، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور شیخ  تنہا بہ تقدیر پیدل چلے جارہے تھے ؎

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب       جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو

پیچھے پیچھے عثمان بن معمر کا فرستادہ سپاہی فرید طفیری گھوڑے پرسوار چلا آتاتھا۔ اس نے ویرانے میں شیخ کو قتل کرنےکے لیےہاتھ اُٹھانا چاہا مگر اللہ کی ایسی زبردست نصرت آئی کہ وہ اس مذموم ارادے سے خود ہی ڈر گیا اور الٹے پاؤں عیینہ بھاگ گیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ درعیہ پہنچے ۔ امیر درعیہ محمد بن سعود اور ان کےبھائیوں نے شیخ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ موصوف نے محمد بن سعود کو بھی دعوتِ حق کی ترغیب دی جو اس نیک بخت انسان نے قبول کرلی۔ یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب اورخاندانِ سعود میں باطل عقائد کے خاتمے اوراللہ کے دین کے نفاذ کے لیے ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی برکت سے وہ عظیم الشان انقلاب ظہور میں آیا کہ خاندانِ سعود کو اللہ تعالیٰ نے پورے ملک کی فرمانروائی عطا کردی۔ اور سارے جزیرہ نمائے عرب سے شرک و بدعت اور مکروہات و خرافات کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہاں توحید کے زبردست حسنات و برکات کا کھلے عام مشاہدہ ہورہا ہے۔ الحمدللہ! دنیابھر میں کہیں اتنا امن و استحکام اورعدل و انصاف موجود نہیں جتنا سعودی عرب میں ہے۔ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے خاتمے اور دین قیم کے نفاذ کا فیضان ہے۔
کسی دعوے یا دعوت کی سچائی پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے داعی کا عمل دیکھا جائے اور یہ جانچا جائے کہ وہ دنیاوی شان و شوکت ، مال و زر،اونچے عہدے اور نفسانی مطلوبات و مرغوبات کا دل دادہ تو نہیں ہے؟ اگر وہ ان چیزوں سے دور ہے تو یقیناً سچا ہے۔ اس کسوٹی پر شیخ محمد کو پرکھا جائے تو وہ کامل معنوں میں سچے، کھرے، مخلص، بےلوث اورمثالی مسلمان نظر آتے ہیں۔ بے داغ صداقت کی وجہ سے تمام اہل نجد شیخ محمد کے فدائی بن گئے تھے اورشیخ کےکردار کی بلندی اور دعوت کی سچائی کی بدولت سارا نجد شیخ کی زندگی ہی میں خاندانِ سعود کے زیر نگیں آگیاتھا۔ امیر محمد بن سعود اور ان کے جانشین امیر عبدالعزیز شیخ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے اور اُن سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر شیخ نے اپنے اس عالی رتبے سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ دعوت الیٰ اللہ ہی کے فروغ کی دھن میں سرگرمِ عمل رہے۔ کسی اونچے منصب، عیش و راحت یا دنیاوی مال و دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم و تربیت دی اوردنیاوی جاہ و حشم اور مال و زر کی طمع سے دور رکھا۔ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج بھی ان کی اولاد و احفاد سعودی عرب میں عظیم دینی خدمات انجام دے رہی ہے اورکسی دنیاوی منصب یا منفعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ شیخ کی اولاد سعودی عرب میں'آل شیخ' کے نام سے معروف ہے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جب بھی دعوتِ حق کا ظہور ہواہے، اس کا واسطہ تین طرح کے لوگوں سے پڑا ہے:
1. وہ لوگ جنہوں نےد عوت قبول کرلی۔
2. وہ لوگ جنہوں نےقبول نہیں کی اورچُپ چاپ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
3. اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف دعوت قبول نہیں کی بلکہ وہ داعی اور دعوت کے دشمن بن گئے اور آخر دم تک دعوت حق کا چراغ بجھانے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔
ہر داعی حق کی طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بھی یہی ماجرا گزرا۔ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ اُن کی ساری دعوت، تمنا اور تڑپ صرف یہ تھی کہ مسلمان فضول باتیں ترک کردیں۔ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں اور سچّے عملی مسلمان بن جائیں۔ بنابریں بارہویں صدی ہجری کی اتنی سچی، اتنی پاکیزہ اور اس قدر دل رُبا انقلابی دعوت کو دوسری صدی ہجری کی خارجی وہابیت8 سے منسوب کرنا حق و صداقت کی آخری توہین اور عہدِ جدید کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔
فرنگی سامراج، ترکی اورمصری مدتوں شیخ  پر رکیک حملےکرتے رہے۔ ان کی کمک پر مامور یا مجبور علما مزاروں کی آمدنی سے مالا مال پیر فقیر، ان کے مرید اور متوسلین بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سےالزام و دشنام کے تیر برساتے آرہے ہیں۔ اگر ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے تو شیخ محمد کی دعوتِ حق پر جھوٹے الزامات لگانے اورسچائی کا خون کرنے والوں کو کیاکہاجائے گا؟ ؎

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے          تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!

(ماخوذ از کتاب: 'تاریخ وہابیت؛ حقائق کے آئینے میں' ، طبع دارالسلام، لاہور)


حوالہ جات

1. موصوف خلیج عربی کے ساحل پر واقع ایرانی شہر'لنجہ'کے علما و معززین میں سے تھے۔

2. دیکھیےكتاب : محمد بن عبد الوهاب: داعیة التوحید والتجدید في العصر الحدیث 'عصر حاضر میں توحید و تجدید کے داعی محمد بن عبدالوہاب﷫': ص16،17

3. یہ خط شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کے شخصی خطوط کی خصوصی قسم میں شائع کیا گیاہے، جو ڈاکٹر محمد بلتاجی، ڈاکٹر سید حجاب اورشیخ عبدالعزیز رومی کی تالیف ہے اوریہ پہلا خط ہے جو الدرر السنیۃ :1؍28تا31 سے منقول ہے۔

4. دیکھیے مصباح الظلام از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن، ص : 104تا 108

5. دیکھیے المصحف والسیف ...جمع وترتیب: مجد الدین القابسی، ص :55، 56

6. دیکھیے المصحف والسیف، ص : 58، 59

7. الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨

8. دوسری صدی ہجر ی میں خوارج كے اباضی فرقے کی ایک تحریک جو خارجی فرقے کے ایک شخص عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن بن رستم سے منسوب تھی، اس تحریک کے بارے میں مغربِ اقصےٰ اور اندلس کے بعض علماء کے شدید فتاوٰی بھی شمالی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔یہ ایک گمراہ فرقہ تھا جس سے محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کو متہم کرکےبدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کی وضاحت اور مزید تفصیلات کے لئے محولہ بالا کتاب کا صفحہ 18، اور 19 ملاحظہ ہو۔ ح م