جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مہینہ تقریبات
اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت کام کرنے والے اداروں؛جامعہ لاہور الاسلامیہ ،مجلس التحقیق الاسلامی اور اسلامک انسٹیٹیوٹ کے علمی مذاکروں، ورکشاپوں اور دیگر پروگراموں کی رپورٹیں وقتاً فوقتاً محدث کے صفحات میں جگہ پاتی رہتی ہیں۔ جامعہ کے تعلیمی سال کے اختتام کے موقع پر گذشتہ دنوں جامعہ میں تقریبات کا سلسلہ زوروں پر رہا اور ۵؍ اہم تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا۔ افادیت کے پیش نظر ان کی روداد ہم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
جامعہ کے طلبہ کی فکری وروحانی تربیت کے لئے جہاں سال بھر علمی موضوعات پر طلبہ کے درمیان مذاکرے اور مباحثے منعقد ہوتے ہیں ، وہاں جامعہ کے مختلف شعبہ جات کی تقریبات بھی سال کے اختتام پر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ جامعہ ہذا میں دو تعلیمی نصاب بیک وقت زیر تعلیم ہیں: عام دینی مدارس کے نصاب کی ترقی یافتہ شکل جو کلیۃ الشریعۃ میں پڑھائی جاتی ہے اور اس کے طلبہ کے لئے مڈل تا ایم اے کی کلاسیں بھی شام کے اوقات میں ہوتی ہے۔ ایسے ہی علومِ قرآن کی خصوصی تعلیم کے لئے جامعہ میں ۱۵ سال سے ایک مستقل ۸ سالہ نصاب کلیۃ القرآن الکریم میں پڑھایا جارہا ہے اور اس نصابِ تعلیم کی تدریس جامعہ کا ہند وپاک کے تمام مدارس سے ایسا امتیاز ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں، اس شعبہ میں داخلہ صرف حافظ ِقرآن طلبہ کو دیا جاتا ہے۔
ہر دو شعبہ جات کی اختتامی تقریبات بھی بالترتیب 'محفل ختم بخاری' اور 'محفل اختتام عشرہ قراء ات' کے نام سے ہر سال منعقد ہوتی ہیں۔جن کی تفصیلات پیش خدمت ہیں :
(۱) تقریب تکمیل عشرہ قراءات
۳۱؍اگست ۲۰۰۴ء بروز منگل بعد نمازِ مغرب جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شعبہ کلیۃ القران الکریم کے زیر اہتمام یہ محفل منعقد کی گئی۔ اس کا پروگرام تین نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا :
پہلی نشست : تکمیل عشرہ قراء ات اور آخری سبق کی سماعت
دوسری نشست: حجیت ِقراء ات اور کلیہ القرآن کے مقصد ِقیام پر خطابات
تیسری نشست: مہمانانِ گرامی اور نامور قراء کی تلاوتیں
پروگرام کا آغاز قاری محمد ریاض کی تلاوت سے ہوا، بعد ازاں قاری محمد داؤد منشاوی اور قاری محمد اکمل شاہین نے نعت ِرسول مقبولؐ پڑھی اور قاری فیض اللہ ناصر نے نظم پڑھی۔
پہلی نشست
٭مغرب کے بعد عشرہ قراء ات کی تکمیل کرنے والے طلبہ نے حلقہ درس قائم کرکے عشرہ قراء ا ت کا آخری سبق (جو قرآن کریم کی آخری سورتوں پر مشتمل تھا) مہمانِ گرامی استاذ القراء قاری محمدیحییٰ رسول نگری (مدیر جامعہ عزیزیہ، ساہیوال) کو سنایا۔ہر طالب علم نے ایک ایک سورہ کو مختلف قراء ا ت میں تلاوت کیا۔ محترم قاری صاحب نے سبق کے اختتام پر طلبہ کیلئے علم وعمل میں برکت کی دعا کی۔ اسی دوران تقریب کے دیگر مہمانانِ گرامی تشریف لا چکے تھے۔
دوسری نشست
٭ اس کے بعد پروگرام کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ اور بعد ازاں مدینہ یونیورسٹی سے سند ِفضیلت حاصل کرنے والے قاری صہیب احمد میرمحمدی کا خطاب تھا جس میں اُنہوں نے قراء اتِ قرآنیہ کے حوالہ سے اُٹھائے جانے والے مستشرقین اور متجددین کے شکوک و شبہات کا ردّ کرتے ہوئے قراء اتِ متواترہ کی حجیت کو ثابت کیا۔انہوں نے کہا کہ اعداء ِاسلام جب مسلمانوں کومیدانِ حرب میں زیر نہ کرسکے تو انہوںنے اُمت ِمسلمہ کو جادئہ مستقیم سے ہٹانے اور دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے ان کے مرکز قرآن وسنت سے ان کا تعلق منقطع کرنا ضروری سمجھاکیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی چیز اپنے مرکز سے تعلق منقطع کرلیتی ہے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتی ہیـ۔انہوں نے کہا کہ اعداء اسلام تمام کاوشوں کے باوجود اپنے ان گھناؤنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور تاریخ نے قرآن مجید کی آیت
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾اور
﴿لا يَأتيهِ البـٰطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ﴿٤٢﴾کی حقانیت کو ثابت کردیا اور آج تک ادنیٰ سی تحریف بھی قرآن مجید میں ثابت نہیں کی جاسکی۔
انہوں نے لفظ 'قراء ۃ' کے مختلف لغوی معانی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا ایک معروف معنی، جمع کرنا یا جمع ہونا ہے، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کناں ہے کہ مسلمانوں کے لئے جادئہ مستقیم پر گامزن رہنے کا ایک ہی کلیہ ہے کہ وہ سب قرآنِ مجید پرجمع ہوجائیں۔
اس کے بعد انہوں نے بیسیوں صحابہ کرامؓ سے مروی حدیث :«أنزل القرآن علی سبعة أحرف» جسے علماء ِامت نے متواتر قرار دیا ہے، سے استدلال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت کی آسانی اور دیگر بیش بہا حکمتوں کے پیش نظر قرآنِ کریم کو سات حروف پر نازل کیا ہے اور قراء اتِ سبعہ عشرہ اُنہی سبعۃ أحرف پر مشتمل ہیں، لہٰذا تمام قراء اتِ متواترہ منزل من اﷲاور وحی ہیں اور قراء ات کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں،بلکہ تنوع کااختلاف ہے۔ انہوں نے ہر دور میں قراء ات پر لکھی جانے والی کتب اور فن قراء ۃ کی خدمت کرنے والے ائمہ کرام کے اسماء گرامی پیش کیے :
نام مصنف وفات نام کتاب
یحییٰ بن یعمر ۹۰ھ القراء ات
ابان بن تغلب الکوفی ۱۴۱ھ القراء ات
ابو عبید قاسم بن سلام ۲۲۴ھ القراء ات
ابو بکر محمد بن احمد بن عمر الداحوانی ۳۲۴ھ التیسیر في القراء ات السبع
مکی بن ابی طالب ۴۳۶ھ الکشف
ابی القاسم بن فیرۃ الاندلسی الشاطبی ۵۹۰ھ حرز الاماني ووجہ التہاني
ابو القاسم عیسیٰ بن عبد العزیز الاسکندری ۶۲۹ھ التذکرۃ
ابو محمد عبد اللہ بن عبد المومن الواسطی ۷۴۰ھ الکنز في القراء ات العشر
امام ابن الجزری ۸۳۳ھ النشر في القراء ات العشر
جمال الدین الموصلی ۹۶۳ھ الشفعۃ فی القراء ات السبعۃ
امام صفاقسی ۱۰۳۰ھ غیث النفع
دکتور فضلی نے ان کا تذکرہ القرآء ات القرآنیۃ میں کیا ہے،اس کے بعد انہوں نے مختلف علما کے اقوال کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ قراء اتِ قرآنیہ کا انکار کفر ہے۔
٭ پہلا خطاب چونکہ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ کی حفاظت کے موضوع پر تھا، چنانچہ دوسرے مقررجامعہ کے نائب شیخ الحدیث اور کلیۃ الشریعۃ کے رئیس مولانا محمد رمضان سلفی نے قرآنِ کریم کے معنوی پہلو کی حفاظت (جو حدیث ِنبوی کے ذریعے ہی ممکن ہے) کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قرآن و حدیث کو شریعت ِاسلامیہ کا ماخذ اور قوانین الٰہیہ کا مرجع قرار دیا۔ اُنہوں نے قرآن و حدیث پر مبنی شریعت ِاسلامیہ کاامتیاز ثابت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانونِ الٰہی دائمی، اٹل، ناقابل تغیر اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، اس کے بالمقابل انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین، خاص وقت کے لئے اور قابل تغیر ہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ قرآنی الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کا بیان اور تفسیر جو نبیﷺ نے بیان کی ہے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حدیث سے صرفِ نظر کرکے وقت کے تقاضوں کے مطابق قرآن کی تشریح و تفسیر کرسکتا ہے ، وہ منصب ِنبوت پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔
برصغیر میں شریعت سے نابلد بعض حضرات؛ عبداللہ چکڑالوی، اسلم جیراجپوری ، مولوی چراغ علی اور سرسید احمد خان نے فتنہ انکارِ حدیث کو جنم دیا اور مسٹر غلام احمد پرویز نے اسے نکتہ عروج تک پہنچایا،جبکہ قرآنِ کریم کے الفاظ کے ساتھ اس کے معنوی پہلو کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے لی ہے:
﴿إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورة القيامة"اور نبی کریمﷺکا بنیادی فریضہ بھی قرآن کی وضاحت ہی بتایا گیا ہے:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ...﴿٤٤﴾ ... سورة النحل"چنانچہ قرآنِ کریم کا یہ بیان اور وضاحت فرامین ِرسولﷺکی صورت میں آج تک محفوظ ہے، خیرالقرون میں اور اس کے بعد ہر دور میں اُمت نے قرآن کے ساتھ حدیث کو وحی کی حیثیت سے شرعی حجت سمجھا ہے اور اسے عمل کی بنیاد بنایا ہے۔
اس کے بعد اُنہوں نے متعدد واقعات اور دلائل سے ثابت کیاکہ خلفاء راشدین اور ان کے بعد صحابہؓ اور تابعینؒ کا طرزِعمل یہی تھا کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں حدیث ِنبویؐ کی طرف رجوع کرتے اورقرآن کی طرح حدیث وسنت کو بھی وحی تصور کرتے ہوئے مستند ترین مقام دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے کسی کے گھرمیں داخل ہونے سے پہلے تین دفعہ اجازت مانگنے کے بارے میںحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکی حدیث، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دادی کی وراثت کے بارے میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی حدیث، حضرت عثمانؓ نے متوفی عنہا زوجہاکی عدت کے بارے میں حضرت فریعہ ؓکی حدیث اور حضرت علیؓ نے آگ کا عذاب دینے سے ممانعت کے متعلق حضرت ابن عباس ؓکی حدیث کو شرعی حجت تسلیم کیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خلفاے راشدین قرآن کے ساتھ حدیث ِنبوی پر ہی اپنے عمل کی بنیاد رکھتے تھے۔
اُنہوں نے بتایا
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم"اور رسولﷺکا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کو یہ فرمانا: ما یخرج من هذا إلا حق کہ ''زبانِ نبوت سے حق کے علاوہ کچھ صادر نہیں ہوتا۔'' اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ سفر و حضر میں ہوں، رات کے اندھیرے یا دن کے اجالے میں ؛ مسجد کے اندر ہوں یا باہر، آپؐ کا ہر قول و فعل اور تقریر خواہ وہ سیاست کے متعلق ہو یا معیشت اور معاشرت کے متعلق اُمت کے لئے ٹھوس بنیاد رکھتا ہے اور دین میں حجت ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ صحیح بخاری کو احادیث کا آغاز قرار دینا نری جہالت ہے کیونکہ صحیح بخاری سے پہلے مسند احمد، اس سے پہلے امام احمد کے استاد امام شافعی کی 'الام' ان کے استاد امام مالک کی موطا، اس سے پہلے صحیفہ صادقہ، صحیفہ ہمام بن منبہ اور ان سے پہلے نبی کریم کی متعدد تحریریں موجود تھیں۔ انہوں نے کہا نبی کریم ؐکے فرامین کی بنیاد پر ہی ہم آپ کے دہن مبارک سے ادا ہونے والے بعض الفاظ کو قرآن کریم کا درجہ دیتے ہیں او آپؐ کے بعض فرامین کو سنت ِنبویؐ قرار دیتے ہیں۔
آخر میں اُنہوں نے طلبا کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین کا تمہیں دین کے لئے وقف کرنا اور ادارہ کا آپ کے لئے یہ تعلیمی انتظام کرنا اور اس کے لئے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کرنا اس امر کا متقاضی ہے کہ تم اپنے اندر وقت کی قدر اور اپنے فرض کا احساس پیدا کرو ، دنیا کے بدلتے حالات اور دین کے خلاف اُٹھنے اولے فتنوں پر نظر رکھو۔ قرآن وسنت کو سمجھنے میں اپنی پوری قوت صرف کردو، اور قراء اتِ قرآنیہ کے ساتھ حدیث و سنت پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت پیدا کرو۔
٭اس کے بعد قاری عزیر صاحب (مدیر مدرسۃ الاصلاح، گلشن راوی)نے فرمانِ الٰہی
﴿لَولا نُزِّلَ عَلَيهِ القُرءانُ جُملَةً وٰحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤادَكَ وَرَتَّلنـٰهُ تَرتيلًا ﴿٣٢﴾... سورة الفرقان"سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے 'تجوید کی اہمیت' پر اپنے خیالات پیش کیے۔اُنہوں نے فرمایا کہ تجوید کا لغوی معنی'کسی چیز کو عمدہ اور خوبصورت بنانا' ہے اور دنیا کے ہر کام اور شعبہ میں تجوید، یعنی اس کو عمدہ طریقہ سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گویا جب دنیا کے ادنیٰ سے ادنیٰ کام میں'تجوید ' کا اہتمام کیا جاتا ہے تو احکام و شریعت کی منبع اللہ کی کتاب قرآنِ کریم میں تجوید کا اہتمام تو زیادہ ضروری ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہر عبادت کی ادائیگی میں ا س کے آداب کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ، ایسے ہی تلاوت قرآن کی عبادت کے بھی مخصوص آداب ہیں جن میں خشیت وانابت کے ساتھ تلاوت قرآن کے قواعد کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور انہی کو تجوید کہا جاتا ہے۔
اُنہوں نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی تجوید یہ ہے کہ''ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیا جائے ،اس کی صفاتِ لازمہ و عارضہ کو پورا پورا ادا کیا جائے۔'' نیز قرآن کریم کو آہستہ آہستہ نازل کرنے میں حکمت بھی تجوید ہی تھی۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَقُرءانًا فَرَقنـٰهُ لِتَقرَأَهُ عَلَى النّاسِ عَلىٰ مُكثٍ وَنَزَّلنـٰهُ تَنزيلًا ﴿١٠٦﴾... سورة الإسراء''ہم نے قرآنِ کریم کو جدا جدا کرکے نازل کیا ، تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ اسی لئے ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔'' اُنہوں نے واضح کیا کہ کفارکے اس اعتراض کہ ''قرآن کو سابقہ کتب کی طرح ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہ کیا گیا، کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ حکمت کی نشاندہی کی ہے اور قرآن کریم میں جا بج
ا نُزِّلَ، نَزَّلْنَا، نُنَزِّلُ کے الفاظ جس کے معانی (بقول صاحب ِتفسیر جلالین) تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے ہیں، بھی اسی حکمت کو نمایاں کرتے ہیں۔نیز اُنہوں نے کہا کہ کوئی شخص قرآنِ مجید میں اپنی مرضی کی تجوید اختیار نہیں کرسکتا بلکہ وہی قواعد او رلہجہ اختیار کرنے کا پابند ہے جس پر قرآنِ کریم نازل ہوا اور جو انداز رسول ﷺکو ان الفاظ میں سکھایا گیا :
﴿لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ﴿
١٦﴾ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿
١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿
١٨﴾... سورة القيامة
گویا اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو سکھایا، اُنہوں نے رسول اللہﷺ کو سنایا اور نبی کریم کو اس تلاوت کی پابندی کا کہا گیا۔ اس کے مطابق ہی آپؐ نے صحابہ کو پڑھایا اور ہمیں بھی اس کے مطابق پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علما کی اکثریت قرآن کو مجہول پڑھتی ہے ، جس سے قرآن کے معانی کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں، انہوں نے سیدبدیع الدین شاہ راشدی کے بارے میں بتایا کہ وہ نہایت خوبصورت قرآن پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں کلیۃ الشریعۃ اور کلیۃ القرآن سے بہتر استفادہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں شعبے ایک دوسرے کی مہارت سے فائدہ اُٹھائیں، اور دونوں شعبوں سے فارغ ہونے والا طالب ِعلم شریعت ِاسلامیہ کا عالم ہونے کے ساتھ کم از کم قراء تِ حفص کا قاری بھی ہو۔ تجوید وقراء ت کے فروغ کے سلسلہ میں انہوں نے جامعہ کی عظیم خدمات کو سراہا اور اس کام کو روایت ساز قرار دیا جس سے قرآن کو علومِ اسلامیہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔
خطاب رئیس الجامعہ
٭آخر میں رئیس الجامعہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی۔ اُنہوں نے قراء اتِ قرآنیہ کے حوالے سے مسلمانوں میں پائے جانے والے افراط و تفریط کے رویہ اور قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں یہ نظریہ کہ حضرت عثمانؓ نے 'سبعہ احرف' میں سے چھ حروف ختم کردیے تھے، پر کڑی تنقید کی اور اس موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ حضرت عثمانؓ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اس رخصت کو بھلا کیسے ختم کرنے کی جرأت کرسکتے تھے، دنیا بھر کے لوگ بھی اگر اس کو ختم کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اٹھایا ہے:
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجردو افسوسناک امر :انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے قاری محمد طاہرنے پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ۱۹۹۵ء میں پیش کیاجس میں انہوں نے قراءاتِ سبعہ اورپاکستان میں تجوید و قراء ت کے مدارس کو موضوع بنایا ہے۔ رئیس الجامعہ نے بیان کیا کہ مجھے اس میں دو چیزیں پڑھ کر نہایت افسوس ہوا؛ ایک یہ کہ ایسا شخص جو معروف قاری ہونے کے علاوہ 'قراء ت' پر ایک مجلہ کا ایڈیٹر بھی ہے اور اسی موضوع پر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہا ہے۔ لیکن وہ سبعہ احرف کے بارے میں ایسا موقف پیش کرتا ہے جو انتہائی مرجوح ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چھ حروف ختم کردیے تھے اور اس وقت جو قراء ات ہیں، وہ صرف ایک حرف ہیں۔
دوسرا افسوسناک امر یہ ہے کہ مقالہ نگار نے خصوصاً پاکستان میں تجوید و قراء ت کے مدارس کا تعارف پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تمام مدارس کا احاطہ کیا ہے اور پورے پاکستان کادورہ کرکے ایک ایک ادارہ میں خود پہنچے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس میں سب اداروں کا تذکرہ ہے، لیکن جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شعبہ کلیۃ القرآن جو فن تجوید وقراء ت کی خدمت میں کارہائے نمایاں کا حامل ہے، کا نام اس میں کہیں جگہ نہیں پاسکا جبکہ یہ شعبہ ۱۵ سال سے پاکستان کے معروف قاری اُستاذ القراء محمد ابراہیم میرمحمدی کی زیر ادارت تجوید اور قراء اتِ سبعہ عشرہ کی تعلیم میںنمایاں خدمات انجام دے رہا۔ خصوصاً آغازِ کار میں اس شعبہ کے تعارف کے لئے۱۹۹۲ء تا۱۹۹۶ء میں پررونق محافل قراء ات کا انعقاد کیا جاتا تھا اور بلاتفریق مسلک پاکستان بھر کے قراء ان محافل کی رونق بنتے تھے۔
حیرانگی ہے کہ ایک شخص پورے پاکستان کے مدارس کا دورہ کرتا ہے اور لاہور میں تجوید وقراء ت کے سب سے بڑے ادارہ پر اس کی نظر نہیں پڑتی، اسے ہم تجاہل عارفانہ نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے ادارہ کو اس لئے نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ خدمات کا اعتراف نہ ہوجائے، تنگ نظری کایہ رویہ علما کو زیب نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ میرے زیرنگرانی ادار وں میں اس قسم کے تعصب کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ابھی حال ہی میں محدث میں دینی مدارس میں تحقیق وصحافت کے موضوع پر لکھا جانے والا مقالہ اُٹھا کر دیکھ لیں، اس میں کسی مخصوص مکتبہ فکر کے اداروں کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔
کلیہ القرآن کے قیام کا مقصد:اس کے بعد انہوں نے کلیۃ القرآن کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اس کا مقصد محض ظاہری تلاوت میں حسن اور سنوار پیدا کرنا نہ تھا،بلکہ مقصد یہ تھاکہ معاشرہ میں قاری عالم کا تصور اُجاگر کیا جائے، سبعہ احرف اور قراء اتِ قرآنیہ کے حوالہ سے جو فتنے اور گمراہ کن نظریات سراُٹھا رہے ہیں، ان کی سرکوبی کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واحد ادارہ ہے جہاں۱۰ قراء ات، ان کی ۲۰ روایات اور ۸۰ وجوہ کی طلبہ کو تعلیم دی جاتی ہے ، دنیا میں یہ تعلیم اساتذہ کے انفرادی حلقات میں تو اب بھی دی جاتی ہے، لیکن ادارہ جاتی سطح پر یہ ادارہ اس کی واحد مثال ہے، حتیٰ کہ مدینہ منورہ یونیورسٹی جس کے کلیہ القرآن کو سامنے رکھ کر یہ شعبہ تشکیل دیا گیا، وہاں بھی یہ تعلیمی وسعت موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کے باوجود مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں ہے کہ ابھی ہم اپنے مقاصد کےحصول میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے۔قراء اتِ قرآنیہ کی تدریس میں تو ہم نے کامیابی حاصل کی ہے ،لیکن قراء اتِ قرآنیہ کے حوالہ سے پائے جانے والے گمراہ کن نظریات اور شکوک و شبہات کے ازالہ میں ہم کوئی اہم کردار ابھی تک ادا نہیں کرسکے۔لاہور میں ایک طبقہ (غامدی گروہ) مستشرقین کے پھیلائے ہوئے گمراہ کن نظریات کا حامل ہے اور شکوک و شبہات کو ہوا دینے میں مصروفِ کار ہے اور یونیورسٹیوں کا جدید طبقہ اس سے متاثر ہورہا ہے۔
چند سال قبل لاہور کی ایک بہت فاضل شخصیت کو جامعہ میں لیکچرکی دعوت دی گئی اور اُنہوں نے حفاظت ِقرآن کے موضوع پر بہت علمی لیکچر دیا، لیکن افسوس کہ قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں اُنہوں نے بھی یہ کہا کہ ''قراء اتِ قرآنیہ گہری سازش کانتیجہ ہیں اور ایک سازش کے تحت اُنہیں مسلمانوں میں رائج کیا گیا۔''اگر اس سے ان کی مراد موضوع اور ضعیف قراء ات ہیں، تو اسے درست قرار دیا جاسکتا ہے ،لیکن اگر اس سے ان کی مراد قراء اتِ متواترہ ہیں تو ان کی یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم نے مختلف قراء ات پر مشتمل مصاحف ان کو دکھائے اور واضح کیا کہ قراء اتِ متواترہ دراصل اختلاف نہیں، بلکہ تنوع ہے۔
ان حالات میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں غلط نظریات اور شکوک و شبہات کو سمجھیں اور ان کی سرکوبی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لئے ہماری یہ کوشش ہے کہ ایسے ماہرین علما کو ڈھونڈ کر اس ادارہ کے ساتھ منسلک کیا جائے جو میرے عزیز رفیق قاری محمد ابراہیم میر محمدی کے ہم رکاب ہوکر قرآء اتِ قرآنیہ کے اس تشنہ تکمیل منصوبے کو بطریق احسن مکمل کرسکیں۔
یہاں انہوں نے قراء کرم کو یہ توجہ دلائی کہ ہمیں کسی عالم کا تلاوتِ قرآن میں مذاق نہیں اُڑانا چاہئے وگرنہ وہ ہمارے فہم قرآن کا مذاق اُڑائے گا۔ ہمیں قاری اور عالم میں باہمی تناؤ اور کشمکش سے قطع نظر افہام و تفہیم اور اعتراف و حوصلہ افزائی کی روایت قائم کرکے اس کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔اور ہمارا یہ شعبہ در اصل عالم قاری ہی تیار کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے جہاں طلبہ کو مکمل دینی نصاب کے علاوہ علوم قرآن میں بھی مہارت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کلیۃ الشریعہ اور کلیۃ القرآن الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ آخر میں انہوں نے تمام حضرات سے ادارہ کے لئے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ اس اِدارہ کو تمام فتنوں سے محفوظ رکھے۔
تیسرا مرحلہ
٭اس کے بعد پروگرام کے تیسرے مرحلہ محفل قراء ات کا آغاز ہوا۔ اس مرحلہ میں تلاوت کے لئے جناب قاری عبد الماجد بن قاری نور محمد بطورِ خاص تشریف لائے۔ قاری صاحب موصوف نے محترم قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ سے ہی سبعہ قراء ت کی تعلیم مکمل کی اور اس سال رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام عالمی مقابلہ قراء ت میں دنیا بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔جس کے اعزاز میں انہیں بیت اللہ شریف کا دروازہ کھولنے کی عظیم سعادت نصیب ہوئی۔ قاری عبد الماجد صاحب نے سورۃ القیامہ، سورۃ البلد اورسورۃ العلق کی تلاوت کرکے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔
محفل قراء ت میں شرکت کرنے والے دیگر قراء کرام کے نام حسب ِذیل ہیں :
قاری حافظ حمزہ مدنی (مدیر کلیۃ القرآ ن الکریم، جامعہ ہذا)
قاری احمد یار حقانی (سابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ)
قاری عبدالخالق
قاری یحییٰ خالد قاری سلمان محمود قاری محمد داؤد منشاوی
قاری عبدالسلام عزیزی (مدرّس جامعہ لاہورالاسلامیہ)
قاری عارف بشیر (مدرّس جامعہ لاہورالاسلامیہ)
قاری سلمان احمد میرمحمدی (سابق مدرّس جامعہ لاہور الاسلامیہ)
قاری صہیب احمد میرمحمدی (ادارۃ الاصلاح ، بونگہ بلوچاں)
آخر میں استاذ القراء قاری محمدابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ رئیس کلیۃ القرآن الکریم (جامعہ لاہور الاسلامیہ) کی پرکیف تلاوت سے یہ پروقار مجلس اختتام پذیر ہوئی۔ کا
(۲) تقریب ِتکمیل ِصحیح بخاری
۱۸؍ ستمبر ۲۰۰۴ء بروز ہفتہ جامعہ کی مسجد کے وسیع صحن میں تقریب ِتکمیل صحیح بخاری کا انعقاد ہوا۔ لاہوربھر سے تشریف لانے والے مہمانانِ گرامی اور مدارس کے اساتذہ کرام کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے اساتذہ وانتظامیہ، مجلس التحقیق الاسلامی کے اراکین اور سند ِتکمیل بخاری حاصل کرنے والے طلبا کے والدین نے ا س تقریب میں شرکت کی۔ مسجد کا صحن جامعہ کے طلبا اور دیگر سامعین سے بھرا ہوا تھا، اطراف میں آویزاں مختلف شعبہ جات کے تعارفی بینرز عجب سماں پیدا کررہے تھے۔
٭قاری محمد سلمان صاحب کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ جامعہ کے طالب علم عمرفاروق نے نظم پڑھی۔ اسی روز مغرب سے قبل استخفافِ حدیث کے موضوع پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں پہلی پانچ پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلبا کے درمیان فائنل مقابلہ ہوا، ان طلبہ کے خطابات کے لئے آئندہ صفحات میں اس مذاکرہ کی مکمل روداد ملاحظہ کیجئے۔
٭ بعد ازنمازِ مغرب قاری عارف بشیر صاحب کی رقت آمیز تلاوت سے تقریب ِبخاری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
٭ بعدازاں جامعہ ہذا کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ صحیح بخاری کی آخری حدیث پر درس ارشاد فرمانے کے لئے تشریف لائے۔ ان کے ارد گرد سند تکمیل بخاری حاصل کرنے والے طلبا سروں پر سرخ رومال سجائے، صحیح بخاری اپنے سامنے کھولے موجود تھے۔ سامعین کی نظریں علومِ نبوت کے ان حاملین پر مرکوز تھیں جوکچھ روز بعد نبیﷺ کی وراثت کو اپنے دامن میں سنبھالے، اللہ کے بندوں کو، بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کرنے کے دشوارگزارسفر پر روانہ ہونے والے تھے۔ آنکھوں کی بینائی سے محروم مگر قرآن و سنت کے نور سے منوردل ودماغ رکھنے والے سبعہ عشرہ کے قاری محمد اجمل صحیح بخاری کی آخری حدیث بمع سند پڑھ رہے تھے۔ قراء ت کے حسن سے ہم آغوش ان کی پراثر آواز نے رقت و کیف کا ایک عجیب سماں پیدا کردیا تھا۔ اس کے بعد شیخ الحدیث حفظہ اللہ کے درس کا آغاز ہوا جونماز عشاء تک جاری رہا۔
حضرت حافظ صاحب ۳۰ برس سے صحیح بخاری کی تدریس فرما رہے ہیں، البتہ کمزوری کے سبب کئی سالوں سے آپ نے اختتام بخاری شریف کا درس نہیں دیا، اس بار انتظامیہ کے پرزوراصرار اور طلبہ کی دیرینہ خواہش کی بنا پر آپ نے یہ درس منظورفرمایا۔حضرت حافظ صاحب کے اس درس کو سامعین نے بڑی دلچسپی اور ذوق شوق سے سماعت کیا۔اس درس میں آپ نے صحیح بخاری اور امام بخاریؒ کے بارے میں نادر معلومات کو حسن ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہوئے بخاری کی آخری حدیث کی تفصیلی شرح فرمائی۔ آپ کا خطاب ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا۔
آخری حدیث کی شرح وبسط کے علاوہ آپ کا خطاب ذیل میں پیش خدمت ہے، مکمل خطاب سے استفادہ کے شائقین اس پروگرام کی سی ڈی طلب فرمائیں۔
شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی کا درسِ اختتام صحیح بخاری
صحیح بخاری کے عظیم مؤلف کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ جعفی۔آپؒ کے جد امجد بردزبہ مسلمان نہیں ہوسکے تھے ، جیسا کہ امام خطیب نے الکفایۃمیں اس کی صراحت کی ہے کہ إنہ کان مجوسیا ''یہ مجوسی المسلک تھے۔'' یہ بھی پتہ چلا کہ امام بخاریؒ اصل کے اعتبار سے عربی نہیں بلکہ عجمی تھے بلکہ اُصولِ ستہ کے تمام مصنّفین عجمی ہیں سوائے امام مسلم کے۔٭
امام بخاریؒ کے پڑدادا مغیرہ سب سے پہلے حاکم بخارا یمان بن اخنس جعفی کے ہاتھ پر اسلام لائے ، پھر ا ن کے بیٹے ابراہیم مسلمان ہوئے۔ حافظ ابن حجرؒ ہدي الساري میں فرماتے ہیں کہ مجھے ابراہیم کے حالات کا علم نہ ہوسکا ۔ ان کے بیٹے کانام اسماعیل ہے جو اپنے وقت کے عظیم محدث ہیں۔ آپ امام مالک اور حماد بن سلمہ کے شاگردوں میں سے تھے اور بہت سے عراقیوں نے آپ سے سماع کیا ہے۔امام بخاریؒ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نجیب الطرفین ہیں۔ ان کے والد بھی محدث اور والدہ بھی عابدہ، زاہدہ اور شب بیدار تھیں۔امام بخاری ابھی صغر سنی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے یتیمی کی حالت میں والدہ کی گود میں پرورش پائی۔ امام بخاری جعفی کی کنیت ابوعبداللہ اور لقب سید الفقہاء والمحدثین ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں امام بخاریؒ کو ان القاب میں یاد کیا ہے :
جبل الحفظ وإمام الدنیا، ثقة الحدیث
''قوتِ حافظہ کے پہاڑ، دنیا بھر کے امام اور حدیث میں پختہ کار''
ابتدائی علم انہوں نے اپنے علاقہ سے ہی حاصل کیا۔ اور آپ کے مشہور اساتذہ میں احمد بن حنبلؒ، علی بن مدینیؒ، مکی بن ابراہیمؒ ، محمد بن یوسف بیکندیؒ اور ابراہیم اشعثؒ ہیں۔
عبد اللہ بن محمد مسندیؒ امام بخاریؒ کے استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی، کیونکہ آپؒ کا مشہور مقولہ ہے کہ ''کوئی انسان اس وقت تک محدث کامل نہیں بن سکتا جن تک وہ اپنے سے بڑے اور چھوٹے سے علم حاصل نہ کرلے۔''
علی بن مدینیؒ امام بخاریؒ کے عظیم شیخ ہیں جن کے بارے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں ''میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی کے سامنے چھوٹا نہیں سمجھا لیکن جب علی بن مدینیؒ کے سامنے بیٹھتا ہوں تو میں اپنے آپ کو بچہ ہی سمجھتاہوں۔''جب علی بن مدینیؒ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا ''بخاریؒ کی بات کو چھوڑیے اس جیسا تو دنیا جہاں میں کوئی موجود نہیں۔''اور یہ دعا دی جعلک اﷲ زینۃ ہذہ الأمۃکہ ''اللہ تجھے اس دنیا کی زینت بنائے۔'' اور یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔
صحیح بخاری
محمد بن اسمٰعیل البخاری نے اپنی عظیم تالیف صحیح بخاری کو ۲۱۶ یا ۲۱۷ ہجری میں شروع کیا اور اس کا اختتام ۱۶ سال کے عرصہ میں ہوا ہے۔ تالیف کے بعد امام بخاریؒ نے اس عظیم کتاب کو اپنے ان کبار شیوخ پر پیش کیا :امام احمد بن حنبلؒ،علی بن مدینیؒ اور یحییٰ بن معینؒ۔
امام احمدؒ کا انتقال ۲۴۱ھ میںہواہے جبکہ علی بن مدینیؒ اور یحییٰ بن معینؒ کا انتقال سن ۲۳۴ھ میںہوا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ سن ۲۳۴ھ سے پہلے صحیح بخاری مکمل ہوچکی تھی۔ آپؒ نے اپنے ان شیوخ پر جب بخاری کو پیش کیا تو تہذیب التہذیب میں ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ فاستحسنوہ ان تمام محدثین نے اس عظیم کتاب کو بنظر استحسان دیکھا، کوئی شے قابل اعتراض نہ تھی ماسوائے چار احادیث کے لیکن عقیلیؒ فرماتے ہیں کہ ان چار احادیث میں بھی امام بخاریؒ کا موقف مضبوط تھا۔یہی کتاب عرفِ عام میں 'بخاری شریف' کے نام سے مشہور ہے۔
کتاب کا مکمل نام ہے : الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اﷲ وسننہ وأیامہ یہ نام ابن حجرؒ نے الہدي الساري میں ذکر کیاہے جبکہ امام ابن صلاحؒ نے معمولی فرق کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے:الجامع المختصر المسند من أمور رسول اﷲ سننہ وأیامہ اُردو زبان میں اس کا ترجمہ یوں سمجھئے کہ ''صورت اور سیرت کے اعتبار سے عکس ِنبویؐ '' کا نام صحیح بخاری ہے۔یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کتاب کے بعد دنیا میں اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہ کرسکا اور نہ قیامت تک ایسی کتاب کی تالیف ہوگی کیونکہ اس کی صحت پر اُمت کا اجماع ہوچکا ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے :
مضت الدهور وما أتین بمثله ولقد أتی فعجزن عن نظرائه
''زمانے گزر چکے ہیں لیکن آج تک صحیح بخاری جیسی تالیف معرضِ وجود میں نہیں آسکی۔ ''
صحیح بخاری کی اسناد ایسی ہیں کہ ان پر بحث کی ضرورت نہیں ۔امام شوکانی ؒ بعض ائمہ سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ فکل رواتہ قد جاوزوا القنطرۃ وارتفعوا قیل وقال وصاروا أکبر من أن یتکلم فیہم بکلام أو یطعن طاعن أو توہین موہن
بخاری کے راوی تمام پرکھ کے تمام پل پار کر چکے ہیں، اب ان میں طعن و تشنیع کی کوئی گنجائش نہیں۔شاہ ولی اللہ ؒ حجۃ اﷲ البالغۃمیں فرماتے ہیں: ''جو شخص بخاری اور مسلم کے راویوں میں کیڑے نکالتا ہے، وہ شخص بدعتی اور مسلمانوں کے طریقہ سے خارج ہے۔''
مشہور مؤلف و مؤرخ امام ابن خلدون فرماتے ہیں کہ شرح صحیح البخاری دین علی ہذہ الامۃ ''صحیح بخاری کی شرح اُمت کے ذمہ قرض ہے۔ ''
ابوالخیر نے اپنی کتاب التبر المسبوق في ذیل السلوک میں لکھا ہے کہ ابن خلدون فتح الباری کی تالیف سے پہلے وفات پاگئے تھے، فتح الباری کی تالیف کے بعد آج اگر وہ دنیا میں زندہ ہوتے تو لقرت عینہ بالوفاء والاستیفاء توفتح الباری کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اور وہ خوش ہوجاتے، کیونکہ اس کتاب کے ذریعے اُمت نے اس کی شرح کا حق ادا کردیا ہے۔ حافظ عبداللہ غازی پوریؒ فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ابن خلدون کا مقصد یہ ہو کہ یزیدک وجہہہ حسنا إذا ما زرتہ ''بخاری ایسی کتاب ہے جتنی دفعہ آپ اس کا مطالعہ کریں گے نئے نئے نکات سامنے آئیں گے۔''
وہ استاد جس کی زندگی صحیح بخاری کی تدریس کرتے ہوئے گزر گئی، جب وہ صحیح بخاری کو پڑھتا ہے تو ہر سال نئی نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں۔اس عظیم کتاب میں ۹۷ کتابیں اور چار ہزار سے زائد ابواب ہیں اور بخاری میں مختلف ابواب سے ثابت ہونے والے مسائل ۳۰ ہزار سے زیادہ ہیں۔
جس ماحول میں امام صاحب پیدا ہوئے تھے، اس میں طرح طرح کے فتنے موجود تھے۔ اہل رائے کے اقوال پورے ماحول میں منتشر تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قاضی ابویوسف کو قربِ سلطانی حاصل تھا۔ چنانچہ جتنے بھی قاضی مقرر ہوتے تھے وہ فقہ حنفی کے پیروکار ہوتے تھے۔ کسی مذہب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسی بنا پر ابن حجرؒ نے کہا ہے:
''مذهبان فی مبدء أمرهما انتشر بالدولة والسلطان:الحنفیة في المشرق والمالکیة في المغرب'' ''دو مذاہب ایسے ہیں جو ابتدا میں حکومت اور اختیارات کے ذریعے پھیلے: مشرق میں حنفی مذہب اور مغرب میں مالکی مذہب۔''
اسی زمانہ میں منکرین تقدیر، منکرین صفاتِ الٰہی اور منکرین عذابِ قبر، معتزلہ، مجسمہ، رافضہ، امامیہ اور خوارج اپنے غلط نظریات کی اشاعت میں کمربستہ تھے۔ اسی ماحول میں امام بخاری نے ۱۶ سال کے عرصہ میں اپنی یہ تالیف مکمل فرمائی اور جملہ فتنوں کا توڑ کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کیا، لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ مخالف کا نام لے کر صحیح بخاری میں اس کی تردید نہیں کی اور ایسا ظرف بھی بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔
مثال کے طور پرکتاب الایمان میں تقریباً ۷۰ دلائل کے ساتھ آپ نے مخالفین کی تردید فرمائی ہے: باب المعاصي من أمر الجاهلیة لا یکفر صاحبها بارتکابها إلا بالشرك لقول النبي ﷺ لأبی ذر: إنك امرء فیك جاهلیة ولقوله تعالی ﴿إن اﷲ لا یغفر أن یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشائ﴾ اس باب سے امام بخاری کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو مرتکب ِکبیرہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور وہ ہیں خوارج جبکہ انجامِ کار کے اعتبار سے معتزلہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
دوسرا باب الکفر دون الکفر،اسی طرح الظلم دون الظلماس باب سے مقصود یہ ہے کہ اطاعت کے ذریعے ایمان میں اضافہ اور معاصی کے ذریعے اس میں کمی ہوتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ معصیت نقصان دہ نہیں ہے اور وہ ہیں مرجئۃ۔اسی طرح باب ہے ﴿وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما﴾ فسمّاھم المؤمنین یہاں بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو مرتکب ِکبیرہ کی تکفیر کے قائل ہیں۔ ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ صحیح بخاری ایک عظیم خزانہ ہے جس میںتقریباً ۵۵علوم کو سمو دیا گیا ہے۔ اس سے امام بخاریؒ کی ذہانت و فطانت کا اظہار ہوتا ہے اور اسی بنا پر ان کی اس عظیم تالیف کو اُمت میں عظیم ترین مقام ومرتبہ حاصل ہے۔
بخاری کا مروّ جہ نسخہ امام فربری کی روایت سے ہے:محمد بن یوسف بن مطیر بن صالح الفربری۔ نسبت ہے مقام 'فربر' کی طرف جو کہ بخارا میں دریائے جیہون کے کنارے پر واقع ہے۔ امام فربری کا سن ولادت ۲۳۱ھ اور وفات ۳۳۰ھ ہے۔ انہوں نے امام بخاری سے صحیح بخاری دو بارپڑھی ہے۔ ایک دفعہ ۲۴۸ھ میں 'فربر' میں اور ایک دفعہ بخارا میں ۲۵۲ھ میں اور اس کے چار سال بعد امام صاحب کا انتقال ہوگیا۔ امام فربریؒ نے کہا کہ اس وقت بخاری کے شاگردوں میںسے روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں تھا ،لیکن ان کا یہ کہنا درست نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ہدی الساری (مقدمہ فتح الباری) میں فرمایا کہ ابوطلحہ منصور کا انتقال فربری کے ۹سال بعد ہوا ہے اور فربری کا بیان ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی کل تعداد ۹۰ ہزار ہے اور ان کے اساتذہ کی تعداد ۱۰۸۰ ہے اور ان کے شیوخ کے پانچ طبقات ہیں۔
امام صاحب کے شیوخ میں قدرِ مشترک یہ ہے، جیسا کہ امام صاحب فرماتے ہیںکہ میں نے صرف ان اساتذہ سے حدیث لی ہے جن کا عقیدہ یہ تھا کہ الایمان قول وعمل ویزید وینقصاور اسی پرامام صاحب نے کتاب التوحید کی بنیاد رکھی۔ صحیح بخاری کی تین کتابوں کی قدرِ مشترک یہی ہے اور وہ یہ ہیں:کتاب الایمان، کتاب الاعتصام والسنہ اور کتاب التوحید۔ امام صاحب کا بیان ہے کہ ''مجھے یقین ہے کہ قیامت کے روز جب میں اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے کسی کی غیبت کے بارے سوال نہیں کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخاری نے جن راویوں پر جرح کی ہے، وہ خالصتاً روایات کی اصلاح کے نکتہ نظر سے ہے۔
امام بخاری کے مختصر تذکرہ او رصحیح بخاری کی عظمت وفضیلت پر مندرجہ بالا ارشادات کے بعد محترم حافظ صاحب نے صحیح بخاری کی آخری حدیث پر بڑا جامع مانع درس دیا جس میں آپ نے اس حدیث کے مختلف پہلووں کو نکھار نکھار کربیان فرمایا۔ آپ کا یہ درس آپ کے وسعت علم، قوتِ حافظہ اور دلائل کے استحضار میں اپنی مثال آپ تھا۔صفحات کی قلت کی بنا پر ہم اس درس کی مکمل اشاعت نہ کرنے پر حضرۃ حافظ صاحب اور قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔
رئیس الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی کا خطاب
٭ نمازِ عشاء کے بعد رئیس الجامعہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے دنیا وآخرت کا صحیح تصور ، کتاب و سنت کو نظر انداز کرنے کے نتائج، تقلیدی جمود کو ختم کرنے میں شاہ ولی اللہ کی تحریک کے اثرات، فتنۂ استخفافِ حدیث میں تقلیدی جمود کا کردار اور صحیح بخاری کے اُسلوب اور اہمیت ایسے اہم پہلوؤں پر نہایت فکرانگیز گفتگو کی۔
اُنہوں نے دنیا و آخرت کاتصورواضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام دنیا کو چھوڑنے کا نہیں، بلکہ اسے آخرت کی کھیتی بنانے کی ترغیب دیتا ہے، اس حوالہ سے اسلامی تصور یہ ہے کہ دنیا کو تعلیماتِ الٰہی کے مطابق اس طرح ڈھال دو کہ تمہاری آخرت سنور جائے۔
عبداللہ جدعان روایت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میںلوگوں نے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد رفاہِ عامہ کے کام کرنا، لوگوں کوعدل و انصاف مہیا کر نا اور اُنہیں ظلم سے بچانا تھاتو رسول اللہﷺ نے اس تنظیم میںشرکت کو اپنے لئے باعث ِسعادت سمجھا اور اپنے طرزِ عمل سے بتا دیا کہ دنیا کی بھلائی کے اُمور کو اس طرح انجام دینا کہ وہ آخرت کے لئے زادِ راہ بن سکیں اور اس کے پیچھے توحید اور ایمان کی دولت بھی موجود ہو، یہ مقاصد ِاسلام میں شامل ہے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔لیکن دنیاوی اور رفاہِ عامہ کے اُمور کے پیچھے اگر ایمان کی متاعِ گراں نہ ہو تو دنیا میں تو اس کا فائدہ ملے گا، لیکن آخرت تاریک ہوگی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـٰلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ ﴿١٥﴾... سورة هودمحترم مدیر الجامعہ نے یہ بات حضرت شیخ الحدیث کے خطاب کے تناظر میں کہی جس میں کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت میزانِ عدل قائم کریں گے، اور اس دن کسی پر ذرہ بھر ظلم نہ ہوگا۔ روزِ قیامت دو کلمے میزان میں بہت بھاری ہوں گے جو زبان پر بہت ہلکے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا وآخرت میں کیسے اعمال کو انسان کو ترجیح دینا چاہئے اور کس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریری مقابلہ کے موضوع 'استخفافِ حدیث 'کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنۂ انکار حدیث یا استخفافِ حدیث کے پس پردہ اصل وجہ یہ کار فرما تھی کہ رسو ل اللہﷺ کا فرمان« ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بهما؛ کتاب اﷲ وسنة رسوله»کو نظر انداز کیا گیا،ایسے ہی فقہی جمود کے پیچھے بھی یہی سبب کارفرما تھا۔ اس کے بعد انہوں نے استخفافِ حدیث اور فقہی جمود کو توڑنے میں شاہ ولی اللہ کی فروغِ حدیث کی تحریک نے جو کردار ادا کیا تھا،اس کا اختصار سے تذکرہ کیا ۔اس کے بعد اسی مسند کے جانشین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒان کے بعد شاہ اسحق دہلوی اور خصوصاًسید نذیر حسین محدث دہلوی جن کی زندگی کا ۵۰ سالہ عرصہ شاہ ولی اللہ کی تحریک کو فروغ دینے میں گزرا، ان کی خدمات کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے مدرسہ میں حدیث کے علاوہ دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے تھے، اسی وجہ سے انہیں شیخ الکل فی الکل کا خطاب ملا تھا اوران کی یہ درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے ۲۵ سال پہلے ۱۸۴۲ء میں قائم ہوچکی تھی۔
اُنہوں نے بیان کیا کہ اس تحریک کے نتیجہ میں ایک کشمکش پید اہوئی۔ ایک طرف یہ مکتبہ فکر تھا کہ فقہی آرا کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور جو جو رائے کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو اُسے اختیار کرلیا جائے اور یہی رویہ شاہ صاحب اور ان کے حلقہ احباب کا تھا اوران سے پہلے علامہ ابن تیمیہؒ نے بھی اسی نکتہ نظر کی آبیاری کی تھی۔ دوسری طرف وہ مکتبہ فکر تھا کہ فقہی جمود بھی ٹوٹنے نہ پائے اور کتاب و سنت بھی ہمارے ہاتھ سے نہ جائے، اس نے کتاب و سنت کو مروّجہ فقہ کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں شروع کردیں کہ کتاب و سنت حنفی فقہ کے مطابق بن جائے۔لیکن یہ رویہ ان میں سے مخلص لوگوں کو مطمئن نہ کرسکا اوراس فکر کے علمبرداروں میں سے بعض نے اپنے اس رویہ کو ضیاعِ حیات کے مترادف قرا ردیا، جیسا کہ دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری کا مشہور واقعہ ہے جسے مفتی محمد شفیع صاحب نے بیان کیا ہے۔
مولانامدنی نے کہا کہ بہرحال شاہ ولی اللہ کی تحریک کے ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اور دیگر اہم فوائد کے ساتھ ساتھ ایک فائدہ یہ ہوا کہ فقہی جمود ٹوٹا اور حدیث کی روشنی عام ہوئی۔اس کے بعد اُنہوں نے ثابت کیا کہ امام بخاری ؒکسی مذہب کے مقلد نہیں،بلکہ وہ خود مجتہد تھے اور صحیح بخاری کے ابواب ان کی فقہ کامنہ بولتا ثبوت ہیں،نیز فقہی مذاہب کو تو بقول شاہ ولی اللہ ؒ چوتھی صدی ہجری کے بعد فروغ ملا،جبکہ امام بخاری ۲۵۶ــــ ہجری میں وفات پاگئے تھے۔ اور انہوں نے بطور دلیل مولانا انور شاہ کشمیری کا قول بھی نقل کیا، جنہوں نے امام بخاری کو مجتہد تسلیم کیا ہے۔
انہوں نے فقہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ صحیح فکر یہ ہے کہ فقہی آرا کو کتا ب و سنت کی نصوص کے سانچے میں رکھ کر گہرے غور وفکر، صحابہ وائمہ اسلاف کے منہج تحقیق اور ان کے اُصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے اورجو رائے کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو اُسے اختیار کرلیا جائے، امام ابوحنیفہؒ کی یہ بات کہ لا یجوز لأحد أن یفتی بکلامی حتی یعرف دلیلیبھی اسی طرف اشارہ کررہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ درایت کے نام پر پیدا ہونے والے فتنہ میں انحراف کی راہوں کا توڑ حدیث و سیرت کے گہرے مطالعہ سے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ آپ صحیح بخاری کو سمجھنے میں اپنی تمام تر مساعی صرف کردیں، ان تمام فتنوں کا حل صحیح بخاری میں موجود ہے۔
صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ۵۵ سے زائد علوم کو سمو دیا ہے اور صحیح بخاری ہمیں وہی اُسلوب عطا کرتی ہے جوبعد میں ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہؒ نے متعارف کرایا کہ فقہا محدثین کا انداز اختیار کیاجائے، یعنی فقہ و حدیث دونوں کو اپنے سامنے رکھا جائے اور ابن تیمیہؒنے اپنے رسالہ 'فی علوم الظاہر والباطن 'میں یہی فکر پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیلے فقہ کے نام پر بدنما داغ ہیں اور امام بخاریؒ نے 'کتاب الحیل' کے نام سے ایک مستقل باب قائم کرکے اجتہاد کے نام پر حیلوں کو فروغ دینے کے رویہ کی جابجا تردید کی ہے۔
اس کے بعد اُنہوں نے حدیث و سیرت کا فرق واضح کیا کہ سنت سے مراد وہ راستہ ہے جس کے مطابق رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی گزاری، اس طریقہ کو جب صحابہ کرامؓ نے بیان کردیا تو اسے ہی حدیث کا نام دیا گیا، اس لحاظ سے حدیث و سنت میںکوئی فرق نہیں ہے اور سیرت سے مراد وہ اُمور ہیں جو ایک حکمران اور منتظم کی حیثیت سے اس خاص عربی تہذیب کے زیراثر آپؐ سے صادر ہوئے، مثلاً آپ کا لباس ، کھانا ، وغیرہ یعنی آپؐ کی وہ شخصی زندگی جسے آپؐ نے بطورِ انسان کے اختیار کیا۔
اس کے بعد ان اداروں کے قیام کی مشکلات اور ان کے مقاصد کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ کو خلوص دل سے محنت کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے فاضل ساتھی حافظ ثناء اللہ مدنی ایک چراغِ سحری کی مانند ہیں، لیکن اس ادارہ کو جس محنت سے ہم نے سینچا ہے، اس کا اجر ان شاء اللہ اس کے پاس محفوظ ہے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ہماری محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔اس ادارے سے فیض پانے والے طلبہ اسلام کی خدمت میں ضرور اہم کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے دل سوز انداز میں طلبہ سے کہا کہ ہم اور آپ آپس میں حقوق وفرائض میں بندھے ہوئے ہیں۔ میرا فرض یہ ہے کہ میں آ پ کے لئے بہترین اساتذہ کا انتظام کروں، معیار ی انتظامات اور مناسب سہولیات وافر پہنچائوں جن کی فراہمی میں، میں نے اپنی زندگی صرف کر دی ہے اور اپنے علم وذوق کی قربانی دے کر ان اداروں کی خدمت کی ہے۔ میرا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ میرے اوراس ادارے کے حق میں دعاے خیر کریں کہ اللہ اسے تادیر قائم ودائم رکھے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اپنی صحت کے لئے انہوں نے طلبہ اور اساتذہ سے دعا کی درخواست کی اور اور اس دعا پر انہوں نے اپنا خطاب ختم کیاکہ اللہ تعالیٰ ادارہ کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور فتنوں کے محفوظ رکھے، اس کی مشکلات کوحل کرے...
اللهم لا سهل إلا ما جعلته سهلاً وأنت تجعل الحزن إذا شئت سهلاً
٭اس کے بعد امسال جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کو شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کی طرف سے صحیح بخاری کی سند الاجازۃ عطا کی گئی۔ اُنہیں قیمتی کتب ہدیہ کی گئیں اور جامعہ کی قدیم روایت کے مطابق رئیس الجامعہ نے ان کی دستار بندی کی۔ اس مبارک کام میں شیخین کی معاونت مولانا عبد السلام ملتانی، مولانا محمد رمضان سلفی( رئیس کلیہ الشریعہ)، قاری محمد ابراہیم میرمحمدی ( رئیس کلیۃ القرآن) اور حافظ حسن مدنی( مدیر مجلس التحقیق الاسلامی) نے کی۔ اس موقع پر شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی نے اپنے ۳۰ سالہ درسِ بخاری میں شریک ہونے والے فاضل طلبہ کو 'سند اجازۃ'دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ میرے تمام قدیم طلبہ مجھ سے رابطہ کرکے یہ اسناد حاصل کرسکتے ہیں۔
بعد ازاں مغرب سے قبل ہونے والے تقریری مقابلہ میں شریک طلبہ کو قیمتی کتب کے ساتھ نقدی کے انعامات تقسیم کئے گئے۔پروگرام کی نظامت حسب ِسابق مرزا عمران حیدر (مدرّس جامعہ ہذا) کررہے تھے۔پروفیسر مزمل احسن شیخ نے اس موقعہ پر سند ِفضیلت حاصل کرنے والے ۲۴ طلبہ کو آئندہ سال بھر کے لئے جیب خاص سے محدث جاری کرنے کا اعلان کیا ، یہی انعام تقریری مقابلہ 'استخفافِ حدیث ' میں شرکت کرنے والے ۱۴ طلبہ کو بھی دیا گیا۔
مولانا محمد شفیق مدنی (مدیر ادارۃ المساجد والمشاریع الخیریہ، لاہور اور مدرّس جامعہ ہذا) کی دعا سے یہ مبارک مجلس اختتام پذیر ہوئی ۔
جامعہ کی مذکورہ بالا دونوں تقریبات کا انتظام وانصرام انہی شعبہ جات کے طلبہ نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں انجام دیا۔ پہلی تقریب یعنی 'تقریب تکمیل عشرہ قراء ات' کے منتظم کلیۃ القرآن کے مدیر قاری حافظ حمزہ مدنی تھے جبکہ دوسری 'تقریب تکمیل بخاری' کا انتظام مولانا شفیع طاہر (مدیر کلیۃ الشریعہ) نے مکمل کیا۔ 'تکمیل عشرہ قراء ات' امسال ۱۸ طلبہ نے کی، جبکہ تکمیل صحیح بخاری کرنیوالے طلبہ کی تعداد ۲۴ رہی۔مجموعی طور پر ۴۲ طلبہ نے یہ امتیاز حاصل کیا۔
(۳) تقریری مقابلہ برموضوع'استخفافِ حدیث
اور مولانافراہی ، اصلاحی و غامدی نظریات کا ناقدانہ جائزہ'
اس سال جامعہ میں 'تقریب ِتکمیل بخاری' قدرے سادگی سے منعقد کی گئی کیونکہ ماہ بھر میں کئی پروگرام تسلسل سے منعقد ہورہے تھے اورشان وشوکت سے یہ تقریب منعقد کرنے میں امتحانات کے قریب ہونے کی وجہ سے طلبہ کے تعلیمی حرج کا خدشہ تھا۔
تقریب ِبخاری سے ۳ روز قبل، یعنی ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۴ء بروز بدھ بعد نمازِ مغرب طلبہ میں سالِ رواں کا آخری علمی مذاکرہ منعقد کیا گیاجس کی تفصیل حسب ِذیل ہے :
قاری نعیم الرحمن (ثانیہ کلیہ) کی تلاوت ِکلام مجید سے اس پروگرام کا آغاز ہوا، قاری محمد اکمل شاہین نے نظم پڑھی۔مذاکرہ کے مہمانِ خصوصی مدیر ماہنامہ محدث حافظ حسن مدنی تھے، جبکہ جامعہ کے تمام اساتذہ سٹیج پر موجود تھے۔ تقریری مقابلہ کے مُنصفین مولانا محمد رمضان سلفی(رئیس کلیۃ الشریعہ)، حافظ مبشر حسین لاہوری (رکن مجلس التحقیق الاسلامی) اور محمد اسلم صدیق (رکن مجلس التحقیق الاسلامی) سٹیج کے بالمقابل کرسیوں پر براجمان ہوئے اور اس کے بعد تقریری مقابلہ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
مقابلہ میں شرکت کرنے والے کل ۱۴ مقررین تھے۔ تمام مقررین کے خیالات کو یہاں پیش کرنے کے یہ صفحات کی متحمل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ہم مقررین کی فہرست ذکر کرنے کے بعد پہلی پانچ پوزیشنیں حاصل کرنے والے مقررین کے خیالات پیش کرنے پر اکتفا کریں گے، طلبہ کی تمام تقاریر سننے کے شائقین د فتر محدث سے سی ڈی طلب کریں :
محمد احمد طور (رابعہ کلیہ ،ش) قاری کلیم اللہ (رابعہ ثانوی،ق)
محمد ارشد (ثانیہ کلیہ ،ش) قاری عبدالصمد ساجد (اولیٰ کلیہ،ق)
قاری ظفر اللہ سلفی (ثالثہ کلیہ ،ش) محمد آصف صدیقی (رابعہ کلیہ ،ش)
قاری محمد علی (ثانیہ کلیہ ،ق) حافظ محمد ارشد (رابعہ کلیہ ،ش)
عبدالحنان (اولیٰ کلیہ ،ش) عمر فاروق (اولیٰ کلیہ،ق)
حافظ طاہر الاسلام (ثانیہ کلیہ ،ش) قاری عبدالحنان رحیمی (ثالثہ کلیہ،ق)
محمد یونس ظہیر (اولی کلیہ ،ش) قاری فہد اللہ (ثانیہ کلیہ ،ق)
نوٹ: ق سے مراد کلیۃ القرآن اور ش سے مراد کلیۃ الشریعۃ کے طلبہ ہیں۔
٭ پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والے جناب قاری فہد اللہ نے قرآنِ کریم کی آیت
﴿ائتونى بِكِتـٰبٍ مِن قَبلِ هـٰذا أَو أَثـٰرَةٍ مِن عِلمٍ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٤﴾... سورة الاحقاف" سے اپنی تقریرکا آغاز کیا۔ انہوں نے انکارِ حدیث کی مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے ادارئہ طلوعِ اسلام کے بانی مسٹر غلام احمد پرویز کو فتنۂ انکار حدیث کا نقطہ عروج قرار دیا اور کہا کہ آج اس فتنے کا سرخیل مسٹر جاوید احمد غامدی ہے۔اس کے بعد انہو ں نے علمی انداز میں جناب پرویز اور جاوید احمد غامدی میں فکری ہم آہنگی اور مماثلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز اس کشتی کاملاحِ اوّل تھا تو آج غامدی ملاحِ ثانی ہے۔ پرویز قرآنِ کریم کو شریعت کی بجائے فلسفہ شریعت قرار دیتا ہے تو جناب غامدی اسے مکمل شریعت کی بجائے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والی شریعت کا تکملہ قرار دیتے ہیں۔پرویز رسول اللہﷺکو ایک حاکم اور احادیث کو ایک حاکم کی زندگی کا تحریری ریکارڈ کہہ کر شرعی حجت ماننے سے انکار کرتا ہے تو غامدی نے ظنی الثبوت کہہ کر عقیدہ و عمل میں حدیث کی شرعی حجیت کو ٹھکرا دیا ہے۔پرویز نے حدیث کو چھوڑ کر صرف لغت ِعربی سے قرآن کی تفسیر کی ہے تو غامدی ادبِ جاہلی کے حامل زہیر اور امرؤ القیس کو پیغمبرؐ آخر الزماں کی حدیث پر فوقیت دیتا ہے۔ اسی طرح دونوں اجماعِ اُمت کی حجیت کے قائل نہیں نیز غامدی صاحب پرویز کو منکر ِحدیث ماننے سے بھی گریزاں ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے بعض تفردات مثلاً انکارِ جہاد، نزول عیسی ؑ وغیرہ میں ان کی فکری مماثلت کو بیان کرتے ہوئے ثابت کیا کہ پرویز اور غامدی میں کوئی فرق نہیں ہے۔انہوں نے تمام تر فکری انحراف کا بنیادی مرض مغرب سے مرعوبیت اور دین اسلام سے جہالت قرار دیا۔
٭ چوتھے نمبر پر آنے والے عبدالحنان نے فرمانِ الٰہی:
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورة النور"سے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور عقیدہ، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث اور اُصولِ فقہ کے حوالہ سے فکر ِفراہی، اصلاحی اور غامدی کے تفردات مثلاً فطرت کو شرع پر ترجیح دینا، تفسیر قرآن کے مصادرکی ترتیب کا ائمہ سلف سے مختلف ہونا، حدیث و سنت میں فرق کرتے ہوئے انہیں وحی نہ ماننا، درایت کے نام پر خلافِ ِعقل احادیث کو ردّ کرنا، احادیث سے قرآن کی تفسیر کرنے والوں کو روایت پسند قرار دینا، احادیث ِمتواترہ کے وجود سے انکار اوران کے اجماع مخالف دیگرنظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ناقدانہ جائزہ لیا اور ان کا بطلان واضح کیا۔
٭تیسرا انعام حاصل کرنے والے جناب قاری کلیم اللہ تونسوی تھے۔ انہوں نے انکارِ حدیث کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے معتزلہ، خوارج، روافض اور اہل رائے کا انکارِ حدیث میںکردار ذکر کیا اور بتایا کہ سابقہ ادوارمیں حدیث کا کلیتاً انکار کسی نے بھی نہیں کیا۔ سب سے پہلے حدیث کا کلیتاً انکار کرنے والے عبداللہ چکڑالوی اور اس کی معنوی اولاد ہے۔انہوں نے فراہی، اصلاحی اور غامدی کو بھی انکارِ حدیث کی راہ کھولنے والے قرار دیاکیونکہ ان لوگوں نے چکڑالوی اور پرویز کی طرح کلیتاً احادیث کا انکار تو نہیں کیا لیکن ایسے اصول اور رجحانات اختیار کئے ہیں جن کا نتیجہ احادیث سے بے اعتنائی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
مقرر نے واضح کیا کہ ان تین شخصیات نے انکارِ حدیث کے رجحانات تدریجاً اختیار کئے ہیں، اور مسلماتِ اسلامیہ سے انحراف کی جو شدت غامدی کے ہاں ملتی ہے، اصلاحی کے ہاں موجود نہیں۔ایسے ہی مولانا فراہی مولانا اصلاحی کی نسبت زیادہ محتاط تھے۔مولانا فراہی اپنے ان خیالات میں سرسید سے متاثر ہوئے، سرسید کے خیالات کا یہی اثر مولانا فراہی کے چچا زاد بھائی مولانا شبلی نعمانی کے ہاں بھی ملتا ہے۔ جب انہوں نے مقدمہ سیرۃ النبی میں حدیث کے درایتی فلسفہ کی بنیاد رکھی جو انکارِ حدیث کا بڑا چور دروازہ ہے۔اس درایتی فلسفہ کو باقاعدہ اُصول وقوانین کی شکل میں بعد میں مولانا اصلاحی نے 'مبادیٔ تدبر حدیث' میں مدوّن کیا۔یہ درایتی فلسفہ اس سے قبل معتزلہ کے علاوہ اُمت میں سے کسی نے اختیار نہ کیا تھا لیکن دورِ جدید میں اس کو زندہ کرنے کا سہرا انہی حضرات کے سرہے۔
انہوں نے کہا کہ جاوید غامدی معتزلہ کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھتے ہیں اور ان سے اپنی نسبت کو الزام کے بجائے اعزاز تصور کرتے ہیں۔ اس کے بعد اُنہوں نے غامدی اور اصلاحی کے بعض اُصولی تفردات مثلاً حدیث سے عقیدہ اور عمل میں کوئی اضافہ ہونے کا انکار اور احادیث کو ظنی قرار دینے کا تذکرہ کیا۔ اورحدیث کے ظنی ہونے کا مفہوم واضح کیا، اور اس کے بعد اجماعِ امت سے منحرف غامدی گروہ کے بعض تفردات کا تذکرہ کیا مثلاً اسلام کے قانونِ شہادت کا انکار ، حد ِرجم کا انکار، قراء اتِ قرآنیہ کا انکار، وراثت کے مسئلہ عول کا انکار، قتل مرتد کا انکار، دجال اور یاجوج ماجوج کے خروج کا انکار ،چہرہ کے پردہ کا انکار، حدیث کو وحی ماننے سے انکار وغیرہ
٭ دوسرے نمبر پر آنے والے علی القاری نے اس فکر کو پاپائیت اور کلیسا کے خلاف اُٹھنے والی مغربی اور سیکولر سوچ کا شاخسانہ قرا ردیتے ہوئے جاوید احمد غامدی کو مغربی تہذیب کا پرچارک قرار دیا اور بتایا کہ غامدی اپنے خود ساختہ اُصولوں سے قرآن و سنت کی بنیادیں منہدم کررہا ہے۔ یہ قرآن کریم کو دین کامل کی بجائے آسمانی کتب کا تتمہ اور فلسفہ شریعت کی آخری کتاب کہتا ہے اور قراء اتِ متواترہ کا انکار کرکے گویا نصوصِ قرآن کا انکار کررہا ہے۔ انہوں نے جناب غامدی کی اس فکر کہ حدیث اگر قرآن سے متصادم ہو تو اسے قبول نہ کیا جائے گا، کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے، لہٰذا صحیح حدیث اور آیت قرآنی میں کوئی تصادم اور منافات ہونا ممکن نہیں۔یہ انسانی عقلوں کا واہمہ تو ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک بات دوسری سے متصادم نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جناب غامدی نے خطیب بغدادی کی کتاب الکفایۃ کی عبارت سے جو استدلال کیا ہے، وہ محض تلبیس ہے کیونکہ وہاں مصنف نے یہ عبارت بطورِ اُصول پیش نہیں کی بلکہ ضعیف حدیث کو پہنچاننے کی علامت کے طور پر ذکر کی ہے۔انہوں نے فرقہ فراہیہ کے ایک اعتراض کہ ''محدثین نے حدیث کو خبر سے تعبیر کیا ہے اور خبر میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، لہٰذا حدیث ظنی ہے۔'' کا جواب دیتے ہوئے کہا :یہ اس وقت ہے جب خبر کی تحقیق نہ ہوئی ہو، خبر دینے والے کا علم نہ ہو، لیکن صحیح احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔ان احادیث کے تمام راویوں کے حالات محفوظ ہیں اور محدثین نے تحقیق کے بعد ان کی صحت کوثابت کیا ہے اور بخاری و مسلم کی تمام احادیث کی صحت پر بقول شاہ ولی اللہ ؒ پوری اُمت کا اتفاق و اجماع ہے۔یوں بھی محدثین حدیث کو مطلقاً خبر قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک خبر کا لفظ سیاسی یا معاشرتی نوعیت کی روایات پر بولا جاتا ہے، اس لئے حدیث اور خبر کا کلیتاً مترادف سمجھنا درست نہیں ہے۔
انہوں نے جناب اصلاحی کے اعتراض کہ ''حدیث ِمتواتر کااسم تو موجود ہے،مسمیٰ موجود نہیں ہے۔'' کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ محدثین نے متعدد احادیث کے تواتر کو ثابت کیاہے، امام سیوطیؒ اور امام کتانی ؒنے احادیث ِمتواترہ پر خصوصیکتب تالیف کی ہیں جن میں تمام اخبارِ متواترہ کو درج کیا گیا ہے۔اس کے بعد انہوں نے غامدی اور اصلاحی کے چند تفردات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ردّ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غامدی کا پردہ کے انکار سے مقصود مخلوط معاشرہ روا ج دینا اور اسلامی روایات کو مسخ کرنا ہے اور جناب اصلاحی کا صحابی رسولؐ ماعز اسلمی ؓ کو(نعوذ باللہ) غنڈہ قرا ردینا ا ن کے بارے میں رسول اللہﷺ کے فرمان:«لقد تاب توبة لو قسمت بین أمتي لوسعته»پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔ اوروہ اللہ کا بندہ جس نے گناہ کے شدید احساس سے اپنے آپ کو رجم کیلئے پیش کردیا تھا ،اسکے بارے میں یہ الفاظ انتہائی ظلم ہیں۔ ایک مسلمان ایک صحابی رسول کے ساتھ ایسا ظلم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
٭ اس کے بعد اس بز م کے آخری مقرر جنہوں نے پہلا انعام حاصل کیا وہ جناب طاہر الاسلام عسکری تھے۔ انہوں نے دھیمے مگر انتہائی پراثر لہجہ میں فرقہ فراہیہ کے گمراہ کن نظریات ، ان کے دلائل، بنیادیں اور منہج سلف کی روشنی میں ان کی غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے نہایت خوبصورت انداز سے ان کا ردّ کیا۔
انہوں نے بیان کیا کہ فرقہ فراہیہ احادیث کو وحی تسلیم نہیںکرتا، مئی ۱۹۹۵ء کے شمارہ محدث میں جناب غامدی سے اُمّ عبدالربّ کی طویل خط و کتابت، جن میں بار بار ان سے یہ سوال دہرایا گیا کہ آیا احادیث ِرسولؐ وحی ہیں یا نہیں؟ لیکن ان کی شاطرانہ ذہانت بار بار اس سوال کو گول کرتی رہی، معلوم ہوا یہ فرقہ صرف قرآن کو وحی تسلیم کرتا ہے ،احادیث کو وحی تسلیم نہیں کرتا، حالانکہ قرآن کی آیت:
﴿وَإِذ أَسَرَّ النَّبِىُّ إِلىٰ بَعضِ أَزوٰجِهِ حَديثًا فَلَمّا نَبَّأَت بِهِ وَأَظهَرَهُ اللَّهُ عَلَيهِ عَرَّفَ بَعضَهُ وَأَعرَضَ عَن بَعضٍ فَلَمّا نَبَّأَها بِهِ قالَت مَن أَنبَأَكَ هـٰذا قالَ نَبَّأَنِىَ العَليمُ الخَبيرُ ﴿٣﴾... سورة التحريم"یہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیؐ کوایک خبر بتلانے کا ذکر ہے ،لیکن وہ خبر قرآن مجید میں موجود نہیں ہے، تو اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپؐ پر وحی نازل ہوتی تھی۔نیز
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ﴾ میں علماء نے الحکمۃ سے متفقہ طو رپر سنت مراد لی ہے ۔ابن حجرؒکا قول ہے:
فالکتاب ما یتلی والحکمة السنة وهو ینزل به بغیر التلاوة
''کتاب وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور حکمت سے مراد سنت ہے، وہ منزل من اللہ ہوتی ہے، لیکن اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔''
ایسے ہی حدیث ِنبوی کے وحی ہونے پر قرآن کریم کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں۔ یہ فرقہ عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے حدیث کے حجت ہونے کا بظاہردعویٰ کرتا ہے لیکن اوّل تو یہ حدیث کے حجت ہونے کا بھی قائل نہیں، مزید برآں ایک شے کا حجت ہونا اور شے ہے اور اس کا وحی ہونا اور چیز۔ مثلاً قاضی کا فیصلہ بھی حجت ہے، اور امیر و والدین کاحکم بھی، لیکن انہیں وحی نہیں کہا جاسکتا۔
فرقہ فراہیہ کے خود ساختہ اُصول' حدیث و سنت میں فرق' کا ردّ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُصولِ حدیث کی کتب اس پر شاہد ہیں کہ سلف نے یہ فرق نہیں کیا اور صحاحِ ستہ میں حدیثوں پر مبنی کتب کو ہی سنن ابو داوداور سنن ترمذی کا نام دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کا یہ اُصول اجماعِ امت کے خلاف ہے۔
انہوں نے فرقہ فراہیہ کی حدیث سے بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر قرآن میں جاہلی شعرا کے سینکڑوں اشعار تو جابجا دیکھے جاسکتے ہیں لیکن اس پانچ ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر میں صرف ۴۰؍ احادیث سے استفادہ کیاگیاہے۔ کیا وجہ ہے کہ احادیث پر تو بے اعتمادی ہے لیکن جاہلی اشعار جن کی کوئی سند نہ ہے اور وہ سینہ بسینہ چلے آتے ہیں ، ان پر اندھا اعتماد ہے۔ جس لغت ِعربی کے لئے حدیث ِنبوی کو چھوڑا جاتا ہے ، اس لغت عربی میں ہر نحوی کا قول دوسرے سے علیحدہ ہے ، جبکہ شاذاَقو ال کی بھی بھرمارہے، ہر عرب قبیلہ کے اپنے لسانی رجحانات ہیں، یہ باتیں عربی لغت کا ہر طالبعلم بخوبی جانتا ہے۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ان احادیث کی سند جس کی صحت پر اُمت کا اجماع ہے ، کو تو نہ مانا جائے او رجاہلی اشعاریا عربی لغت جس کی سرے سے سند ہی نہیں، پر دل وجان سے ایمان لایا جائے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے شریعت میں من مانی کا راستہ کھل جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'تفسیر قرآن کے اُصول' میں حمید الدین فراہی کا یہ قول کہ ''تفسیر قرآن کے غلط اُصولوں میں سب سے پہلا اُصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جائے۔'' ان کے حدیث کے بارے میں رویہ کی واضح نشاندہی کرتا ہے، حالانکہ ان کا یہ اصول اجماعِ اُمت کے خلاف ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : ''علما مفسرین کا اتفاق ہے کہ قرآن کی تفسیر اگر رسول ﷺ سے مل جائے تو وہ سب پر مقدم ہے۔'' ایسے ہی یہ رویہ نبی ﷺکے مقصد ِبعثت سے بھی متصادم ہے کیونکہ قرآن ان کا مقصد ِبعثت بیان وشرح قرآن قرار دیتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے درایت کے نام پر وضع کردہ 'فرقہ فراہیہ' کے اُصولوں کا تذکرہ کیا۔ جن کی بنیاد پر انہوں نے رہی سہی احادیث کا بھی انکار کردیا ہے۔مثلاً اصلاحی صاحب نے صحیح بخاری و مسلم کی روایت «من قال لا اله إلا اﷲ دخل الجنة» کے بارے میں کہا کہ اس حدیث میں اقرارِ رسالت کا تذکرہ نہیں، لہٰذا یہ درایت کی رو سے قابل ردّ ہے۔ انہوں نے کہا میرا اصلاحی صاحب کے بارے میں حسن ظن تھا ،لیکن ان کی کتب کے مطالعے کے دوران وہ سب تارِ عنکبوت کی طرح بکھر گیا کہ اتنا بڑا عالم اور اس قدر سطحی باتیں کرتا ہے۔ ان کے یہ تمام نظریات جادئہ مستقیم سے منحرف اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں۔ ابراہیم بن ابی عبلہؒ کا قول ہے
من حمل شاذ العلماء حمل شرًا کبیرًا
''جس نے علماکی شاذ آرا کو اختیار کیا، اس نے بہت بڑی شر کو اٹھا لیا۔''
اور امام شافعی ﴿وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
''اس آیت پر تین دن غور کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو امت کے اجماعی دھارے کو چھوڑ کر شواذ آرا کو اختیار کرتے ہیں۔''
٭ مقابلہ کے خاتمہ کے بعد مدیر کلیہ القرآن حافظ حمزہ مدنی کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عزیز طلبہ نے اپنے خطابات میں غامدی گروہ کی متعدد غلطیوں کی نشاندہی تو کی ہے لیکن کسی مکتب ِفکر کی بنیاد دراصل اس کے اُصول ہوتے ہیں، جس پر اس فکر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔خود غامدی صاحب نے بھی پرویز کے اُصول تفسیر پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ادارئہ اشراق کی روش قرار دیا ہے کہ ہم دوسروں پر اُصولی تنقید کرتے ہیں۔ (دیکھئے کتابچہ 'پرویزکا فہم قرآن')
چنانچہ ضروری ہے کہ غامدی مکتب ِفکر پر بھی اُصولی تنقید کی جائے...
اُنہوں نے کہا کہ غامدی گروہ نے ائمہ اسلاف کو چھوڑ کر بالکل نئے اُصول وضع کرلئے ہیں۔ائمہ اسلام کے ہاں اسلام کی بنیاد قرآنِ کریم، احادیث ِنبویہ پر ہے اور انہی سے اجماع اور قیاس کا بھی اسلامی مصدر ہونا ثابت ہوتا ہے۔(مجلہ 'الحدیث' حضرو جون ۲۰۰۴ئ، ص ۴) جبکہ جاوید غامدی 'میزان' کے صفحہ ۴۸ پر بنیادی مآخذ ِدین ترتیب وار یوں بیان کرتے ہیں:
(۱) دین فطرت کے حقائق (۲) سنت ِابراہیم (۳) نبیوں کے صحائف
ان کے نزدیک دین اسلام کی اصل بنیاد فطرت پر ہے، اس کے بعد سنت، پھر صحائف یعنی تورات، زبور اور قرآن وغیرہ۔ گویاان کی نظر میں دین و شریعت کے بارے میں سنت کو بھی جو اہمیت حاصل ہے، وہ قرآن کو نہیں اور ان دونوں سے قبل فطرت، 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ
''جس سنت کو وہ مانتے ہیں، اس کا درجہ ان کی نظر میں قران کے بعد نہیں بلکہ پہلے ہے۔ '' (المیزاناز جاوید احمدغامدی: ص۴۸پر 'مآخذ دین کی ترتیب' اور ص۵۲ )
یعنی سنت ِابراہیمی شریعت کا اہم مصدرہے، جبکہ اس شرع کے مختص اُصولوں کا بیان قرآن میں ہے۔فطرت کو اہمیت دینے کی وجہ سے غامدی گروہ فلاسفہ سے غیرمعمولی عقیدت رکھتا ہے۔ فلسفہ کے تین ادوار میں اوّلین دور فلاسفہ مُنشّئین کاہے جن میں افلاطون، سقراط، بقراط اور ارسطو جیسے فلسفی آتے ہیں۔فلاسفہ سے ان کی عقید ت ملاحظہ فرمائیے کہ فکر اصلاحی کے ترجمان سہ ماہی 'تدبر' میں چندماہ قبل یہ سوال جواب شائع ہوا :
سوال: کردار کے لئے سقراط کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟ مسلمانوں میں سے امام مالک یا امام احمد بن حنبل وغیرہ کی مثال بھی تو جاسکتی تھی، مگر کافر کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟
جواب از مولانا اصلاحی : سقراط کو کافر کہنا بڑی زیادتی ہے،میں اس کو کامل موحد مانتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دوسری قوموں میں بھی انبیا پیدا ہوئے، سقراط کے متعلق ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وہ نبی ہیں لیکن دوسری بہت سی قوموں میں بھی نبی بھیجے گئے، اس لئے ہم اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے۔فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے۔'' مختصراً (تدبر:مارچ ۲۰۰۴ء ص ۸۳)
فلاسفہ کا تیسرا دور 'فلاسفہ اسلامیین' یعنی معتزلہ کا ہے۔ انکے بارے میں جناب غامدی کی رائے یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مساعی جمیلہ کی بدولت آج ہم دین و شریعت سے فیض یاب ہورہے ہیں اور ان کے بالمقابل محدثین کے طبقہ کو 'روایت پسندوں اور قدامت پرستوں کا ٹولہ' قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فرقہ اعتزال کے طعنہ کو اپنے لئے گالی نہیں بلکہ اعزاز سمجھتا ہے ۔
حافظ حمزہ مدنی نے اس فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ سترہویں صدی عیسوی میںصنعتی انقلاب کے آنے کے بعد فلسفہ یونان نے منطق استخراجی کے بجائے منطق استقرائی کی صورت اختیار کرتے ہوئے سائنس کی شکل اختیار کی۔ پہلے جہاں مابعد الطبیعاتی اُمور کا مطالعہ اہم تھا، اب طبیعاتی اُمور اہم قرار پائے۔ عموماً سائنس کا موضوع مظاہر فطرت ہیں۔ فطرت کو انگریزی میں نیچربھی کہتے ہیں۔ برصغیر میں اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے سرسید خان نے نیچرکی بنیاد پر ہر اس تصور کا انکار کردیا جو اس کے خلاف تھا۔ سرسید سے یہ خیالات انکے رفیق کار مولانا حمید الدین فراہی میں منتقل ہوئے، وہاں سے مولانا اصلاحی اور پھر جاوید غامدی تک پہنچے۔
انہوں نے کہاکہ یہ لوگ دین کی بنیاد فطرت پر سمجھتے ہیں اور اس فطرت کو وحی سے برتر قرار دیتے ہیں، اس سلسلے میں مولانا اصلاحی کا ایک واقعہ بیان کیا کہ سورئہ نور میں 'نور علیٰ نور' کی تفسیر میں اصلاحی صاحب نے تمام مفسرین کے برخلاف پہلے 'نور' سے مراد 'نورِ فطرت' اور دوسرے نور سے مراد 'نورِ شریعت' لیا ہے۔ یعنی وہ نورِ شریعت کو نورِ فطرت و فلسفہ کے تابع سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں نورِ فطرت ہی اصل شرع ہے جب کہ وحی اس نور کا محض بیان ہے۔ یہ وہی بات ہے جو معتزلہ کئی برس سے کہتے آرہے ہیں کہ احکاماتِ دین پہچاننے اور جاننے کا اصل ذریعہ عقل و فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی قوم تک رسول نہ بھی پہنچے تو وہ پھر بھی احکاماتِ الٰہیہ کی مکلف ٹھہرے گی۔ اسی طرح اگر اس 'اصل شریعت' (فلسفہ و عقل) کا ٹکراؤ وحی الٰہی سے ہوجائے تو ترجیح 'اصل' کو ہوگی۔ (الوجیزفی أصول الفقہ مترجم:ص ۹۰ تا۹۴)
اُنہوں نے کہا کہ غامدی مکتب ِفکر کے نزدیک قرآن وحدیث کا تصور اور عقیدہ اُمت سے مختلف ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب 'اُصول و مبادی' میں بار بارلوگوں کی یہ غلطی پیش کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو کل شریعت کی کتاب سمجھ کر اس کا مطالعہ کرتے ہیں حالانکہ یہ شریعت کا محض آخری ایڈیشن ہے، جبکہ شریعت اس کے علاوہ بھی ہے۔(میزان:ص۴۷) اس باقی شریعت کو حدیث کی بجائے یہ ماقبل شریعتوں میں تلاش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس مکتب ِفکر کے ہاں حدیث ِنبوی کی بجائے اسرائیلیات کو کثرت سے دلیل بنایا جاتا ہے۔ ایسے ہی باربار 'مباحات ِ فطرت'کی اصطلاح بول کریہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں اصل ہی سے جائز ہیں۔ ایسے ہی مولانا اصلاحی اپنی تفسیر میں آیت ﴿واذکر في الکتاب إبراہیم﴾کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ''کتاب سے مراد 'قرآن سمیت کتب ِسابقہ' ہیں۔'' (ج۴ ؍ ص۶۵۷)
مزید برآں سنت ِنبوی کے بارے میں بھی ان کاعقیدہ وتصور عامۃ المسلمین سے مختلف ہے،ان کی نظر میں سنت 'محمدی' نہیں بلکہ 'ابراہیمی' ہوتی ہے، جس کا تصور یہ ہے کہ ''سنت ملت ِابراہیمی کے ایسے تسلسل کو کہتے ہیں جو کہ قانونِ فطرت کی بنیاد پر آگے چلتا ہے اور اس کو نبی کریمؐ اخذ کرکے اس اُمت میں عملی تواتر کے ساتھ جاری فرماتے ہیں۔'' یہاں اُنہوں نے ان سنتوں کی ایک فہرست بھی دی ہے جس میں ۱۰ بنیادی فطرتیں وہی ہیں جو حدیث ِنبوی میں بیان ہوئی ہیں۔ (میزان:ص۱۰) جہاں تک حدیث ِنبوی کا تعلق ہے تو خبرمتواتر کے بارے میں مولانا اصلاحی کا کہنا ہے کہ ''یہ محض اسم ہی ہے جس کا محدثین کے پاس کوئی مسمی نہیں۔'' (مبادیٔ تدبر حدیث:ص۲۰) رہیں اخبار احاد تو وہ مجموعہ رطب و یابس ہیں۔ غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' کے صفحہ ۱۰ پر لکھتے ہیں:''ان اخبار کے بارے میں ہمارانقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے عقیدہ و عمل کی کسی شے کا دین میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔''
یہ مکتب ِفکر سنت کو وحی تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ یہ فطرت کی بنیاد پر اس اُمت میں جاری ہوئی ہیں نہ کہ وحی کے ذریعے۔ محدث جولائی ۱۹۹۵ء میں وہ مکمل خط وکتابت چھپی ہے جس میں غامدی صاحب نے سنت کو وحی ماننے سے آخردم تک گریز کیا ہے۔
سنت کے بارے میں ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ''قرآن کی تفسیر میں یہ سنت نظم قرآن یا قرآن کی عربی معلی سے ٹکرا جائے تو ترجیح لغت عرب کو اور نظم قرآن کو ہوگی، نہ کہ سنت کو۔''
دیکھئے( 'مبادیٔ تدبر قرآن' از مولانا امین احسن اصلاحی:ص ۱۹۱ تا ۲۱۷)
خطاب مہمانِ خصوصی
٭آخر میں مذاکرہ کے مہمانِ خصوصی مدیر محدث حافظ حسن مدنی صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے طلبہ کے جذبات اور انتظامیہ کی اس عمدہ کاوش کو سراہا اور افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج لوگوں کی مرعوبیت و جہالت کا سب سے زیادہ تختۂ مشق دین اسلام ہے۔ فرقہ غامدیہ نے احادیث کے بارے میں ایسی نئی نئی اصطلاحات وضع کی ہیں جن کا سلف کے ہاں وجود نہیں ہے اور پرانی اصطلاحات کو ایسے معانی پہنائے ہیں جو ان کے وضع کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے ۔ یہ فرقہ عملاًاسلام پر فکری اور ثقافتی یلغار میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہا ہے ۔اور اسلام کو ایسا لباس پہنانے پر تلا ہوا کہ جس سے مغربی مفادات بھی پورے ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس گروہ نے اصطلاحات سے کھیل کر عوام الناس کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ان کی وضع کردہ اصطلاحوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہاں دینی مدرسہ کے طلبہ فزکس یا ریاضی کی اصطلاحات مقرر کرنا شروع کردیں۔ جس طرح ہماری مقرر کردہ اصطلاحات کا ان علوم کے ماہرین کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، ایسے ہی ان کی وضع کردہ اصطلاحات علما کے ہاں پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ لیکن افسو س کہ ان کی اصطلاحات کو وزن دینے والے عوام الناس ہیں، جبکہ کوئی اصطلاح عوام الناس کے بجائے اس فن کے ماہرین کی طے کرد ہ ہوتی ہے۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ عوام الناس کو یہ کہہ کرمطمئن کرتے ہیں کہ ہم سنت ِرسول کو مانتے ہیں لیکن یہ ان کا صریح دھوکہ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے ہاں سنت نبی کریم سے منسوب ہوتی ہے جبکہ ان کے ہاں سنت کا تصور حضرت ابراہیم ؑسے چلتاہے۔ انہیں سنت ِرسول کا نام لینے کے بجائے یہ کہنا چاہئے کہ ہم سنت ِابراہیمی کو مانتے ہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کے ہاں سنت کتب ِحدیث مثلاً صحاحِ ستہ وغیرہ میں پائی جاتی ہے لیکن یہ سنت کا لفظ بول کر اس کا وجود مسلم معاشرہ کی عادات میں تلاش کرتے ہیں۔ سنت کی معرفت کا ذریعہ ان کے ہاں تعامل اُمت ہے، یاد رہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے مستشرقین نے پیش کیا اور اسے اُنہوں نے وہاں سے اختیار کیا ہے۔ گویا جن احادیث کو اُمت سنت کہتی ہے یہ وہی لفظ بول کرا س سے مراد بالکل اور لیتے ہیں۔اصطلاحات کے پردے میں یہ دین سے انحراف ہے۔
مدیر محدث نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں اور ملائیت کی پیش کردہ آرا کی گرد اسلام سے صاف کرتے ہیں۔ عوام ان باریک اصطلاحات کو نہیں سمجھتے لیکن اگر ان کے فکر کا معمولی سا چہرہ دیکھنا ہو تو ان کے نتائج فکر کو دیکھ لیا جائے، کیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔
اسلامی مسلمات سے انحراف ان کا طرئہ امتیاز ہے جس کی مختصر فہرست حسب ِذیل ہے:
اُصولوں میں انحراف: سنت نبی کریمؐ کی بجائے حضرت ابراہیم سے مربوط ہے، سنت کا مصدر تعامل اُمت ہے، اجماع کا انکار، صحابہ کرامؓ چند ایک ہیں، سنت وحدیث میں زمین آسمان کا فرق، محدثین کے اُصول سند ی پرکھ تک کافی ہیں اور صحیح، حسن ضعیف اسی کی قسمیں ہیں۔ متن کی تحقیق کے نئے اُصول کی دریافت اور اس کی بنیاد پر احادیث کا فیصلہ ، حدیث ِمتواترکا وجود نہیں اورقرآن قطعی الدلالہ ہے، صحیح بخاری ایک مرجوح کتاب، تفسیر قرآن میں اوّلین ترجیح لغت ِعربی کو حاصل ہے وغیرہ وغیرہ
عقائد میں انحراف : حیاتِ مسیح کا انکار، یاجوج ماجوج کا انکار، دجال کا انکار اور ملائکہ کا جداگانہ تصور وغیرہ ، حدیث ِنبوی وحی نہیں، بعض بلادِ اسلامیہ میں غلط قرآن مروّج ہیں، فطرت شریعت کا اہم ماخذ اورشریعت میں کسوٹی کا مقام عقل کو حاصل ہے۔
مسائل میں انحراف: ارتداد کی سزا کا انکار، سبعہ قراء ات کا انکار، روایت ِحفص کا انکار، جہاد وقتال دورِنبوی کے بعد ختم ہوگیا، نیا علم وراثت(مسئلہ عول، کلالہ کی نئی تعبیر)، عورت کی نصف گواہی، رجم کا انکار،اسبالِ ازار میں کوئی مضائقہ نہیں،علما کو فتاویٰ دینے سے روکا جائے۔
عالمی موقف: بیت المقدس یہودیوں کو دے دیا جائے، کشمیر میں جہاد دہشت گرد ی ہے، افغانستان میں امریکی جارحیت مبنی بر انصاف ہے او راسامہ بن لادن دہشت گردہے، فلسطین میں مسلمان دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
ثقافتی ایجنڈا : پردہ ضروری نہیں، نبی کریم اور صحابہ کرام موسیقی سنتے اور رقص دیکھا کرتے تھے ، تصویر میں کوئی مضائقہ نہیں، مجسمہ سازی میں کوئی قباحت نہیں، داڑھی بڑھانا اسلامی تقاضا نہیں، بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانا غیر اسلامی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ
یہ اور اس جیسے کئی انحراف ایسے ہیں جواس گروہ کا اصل چہرہ واضح کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ کس قسم کے اسلام کو یہاں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ ان کے انحرافات کامدار حدیث سے گریز پر ہے۔ جناب حسن مدنی نے اہل حدیث کی حدیث کے دفاع سے بے اعتنائی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وہ وقت تھا کہ حدیث ِنبویؐ کے خلاف کوئی آواز اُٹھتی تو اہل حدیث زعما مثلاً حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ، مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ اور مولانا محمد محدث گوندلویؒ کا قلم اپنی پوری تابناکی کے ساتھ حرکت میں آجاتا۔ مولانا عطاء اللہ حنیف نے دفاعِ حدیث کے لئے مخصوص رسالہ ماہنامہ 'رحیق' نکالا جو ملک بھر میں حدیث پر ہونے والے کسی بھی حملہ کے خلاف شمشیر بے نیام تھا لیکن آج ہم اس فرقہ کے انحرافات کاتو رونا روتے ہیں ، لیکن اس کے جواب میں ابھی تک کوئی مؤثر آواز کہیں سے سنائی نہیں دے رہی ۔آج اگر اس مذاکرہ سے ہمارے اندر حدیث کے دفاع کا احساس پیدا ہوجائے تو یہ بہت غنیمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس گروہ کے انحرافات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں او راس کا اصل چہرہ نکھرتا جارہا ہے لیکن ان کے جواب میں کافی وشافی علمی کام نظر نہیں آتا۔ اس گروہ سے اہل حدیث نوجوا ن بھی بکثرت متاثر ہورہے ہیں کیونکہ وہ کوئی تعصب نہیں رکھتے۔ دوسری طرف فرقہ غامدیہ کے گمراہ خیالات کو بعض حنفی علما نے اختیار کرکے اپنے عوام میں بھی پھیلانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے نامور علما قدیم حنفیت کے دفاع میں جس طرح اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں کاش کہ وہ حنفیت کے اس جدید پہلو پر بھی اپنے قلم کو حرکت میں لائیں۔
کسی دینی مدرسہ کے چند طلبہ ہی اگر یہ عزم کرلیں کہ وہ ا س گروہ کے افکار کا مطالعہ کرکے دلیل وبرہان کی بنا پر ان کا جوا ب دینے کی اہلیت پیدا کریں گے اور میدانِ عمل میں اُترنے کے بعد اس کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں گے تو یہ کام چنداں مشکل نہیں۔ گذشتہ دور میں مسٹر پرویز نے اسلام کو جس طرح نقصان پہنچایا ، اس دور میں غامدی گروہ یہی کام اس سے زیادہ منظم اور محتاط انداز میں کررہا ہے او را س کا دفاع کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ حدیث کے دفاع کی سعادت ہمیشہ سے اہل حدیث علما کے حصے میں آئی ہے اور آج بھی یہ فرض ہم ہی کو نبھانا ہوگا۔آخر میں اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس وقت اسلام سے عین وہی مقابلہ درپیش ہے جو ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سوشلزم سے تھا۔ آئندہ ۱۰، ۱۵برس تمام امریکی مغربی ادارے اسلام کا سامنا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ کوایسے اسلامی دانشوروں کی اشد ضرورت ہے جو اسلام کو اس کے اصل مصادر کی بجائے امریکی مفادات کی عینک سے پیش کریں اورایسے دانشوروں کے لئے امریکہ اپنے تمامتر وسائل استعمال کرنے کے لئے تیارہے۔
۱۱؍ستمبر کے حادثہ کی تحقیقی رپورٹ کی روشنی میں بھی امریکہ اسلامی تہذیب وثقافت کو اپنے لئے شدید خطرہ خیال کرتا ہے اور مغربی ثقافت کو اسلامی معاشروں میں رواج دینا اس کا اوّلین مشن ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں غامدی گروہ کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے جو ثقافتی اور عالمی میدان میں امریکی مفادات کی تکمیل کررہا ہے، جیسا کہ پیچھے اس کی فہرست گزر چکی ہے۔ اس گروہ کو ملک کے ذرائع ابلاغ میں ملنے والی پذیر ائی بھی اس پروگرام کا حصہ ہے، جس کے دفاع کے لئے علما کو حرکت میں آنا چاہئے۔
٭مغرب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام نصف شب تک پہنچ چکا تھا۔ منصفین کرام طلبہ کے رزلٹ تیارکرچکے تھے اور سٹیج سیکرٹری نے مقابلہ کے نتائج کااعلان کیا۔
تمام شرکاء مقابلہ کے لئے انعامات کا انتظامات تھا، جن میں نمایاں ترین پانچ طلبہ کو خصوصی انعام جس میں نقد رقم بھی شامل تھی سے نوازا گیا۔ مہمانِ خصوصی حافظ حسن مدنی کے ہاتھوں طلبہ کو یہ انعامات عطا کئے گئے۔ تاخیر کی وجہ سے منصفین حضرات کا خطاب نہ ہوسکا، البتہ انہیں بھی کتب کا تحفہ دیا گیا اور دعائیہ کلمات سے یہ بزمِ علمی اختتام پذیر ہوئی۔
مذاکرہ کا انتظام وانصرام مدیران مولانا شفیع طاہر اور حافظ حمزہ مدنی نے مشترکہ طور پر کیا ۔
(۴) تقریری مقابلہ
'تحریک ِپاکستان میں اہل ِحدیث کا کردار'
اس مذاکرہ کا انعقاد ۸؍اگست ۲۰۰۴ء بروز بدھ کو ہوا۔مقابلہ میں کل ۱۳ طلبہ نے حصہ لیا۔ وکیل الجامعہ حافظ عبدالسلام فتح پوری، مدیر کلیہ الشریعہ مولانا محمد رمضان سلفی اور مولانا شفیق مدنی (سابق ناظم جامعہ) نے منصفی کے فرائض انجام دیے۔ رئیس کلیۃ القرآن الکریم قاری محمدابراہیم میرمحمدی اس بزم کے مہمانِ خصوصی تھے اور مرزا عمران حیدر سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
٭قاری محمد اکمل کی تلاوت سے اس بزم کا آغاز ہوا، اس کے بعد باقاعدہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں ہم صرف نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے مقررین کے خیالات ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے، باقی تقاریر کے لئے سی ڈی حاصل کریں۔
٭ پہلا انعام حاصل کرنیوالے جناب محمد ابراہیم نے اپنی تقریر کا آغاز ان اشعار سے کیا:
کون کہتا ہے میرے اسلاف کا خونِ جگر
اس وطن کی خاک میں مل کر ہوا ہے بے نشان
کون کہتا ہے میری محفل کی رونق کا لہو
ان رقیبوں کی سازشوں نے کر دیا ہے رائیگاں
انہوں نے مختلف واقعات سے واضح کیاکہ ہندوستان میں غلبہ دین کی ہر کوشش خصوصاً تحریک ِپاکستان میں اہل حدیث نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اہل حدیثوں نے صحراؤں کو گلشن بننے کا عزم دیا، دریاؤں کو رخ بدلنے پر مجبور کیا، مسلمانوں کی ذہانت عروج پر تھی تو کردار اہل حدیث کا تھا، برصغیر میں مسلمانوں کی ثقافت ثمر بار ہوئی تو کردار اہل حدیث کا تھا، مسلمانوں کی سوئی ہوئی قسمت جاگی تو کردار اہل حدیث کا تھا، اقبال کی شاعری انقلاب میں ڈھلی توکردار اہل حدیث کاتھا اور پھر مملکت خداداد وجود میں آئی تو کردار اہل حدیث کا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے کالے پانی اور مالٹا کی اسیر اہل حدیث کی ان تاریخ ساز ہستیوں کی آزمائشوں کا بڑے دردناک انداز سے تذکرہ کیا۔درحقیت یہی خون سے رنگی ہوئی بنیادیں تھی جوبعد میں تحریک ِپاکستان کا باعث ہوئیں۔ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے کہا تھا کہ اگر ہمیں کسی جماعت سے خطرہ ہے تو وہ تحریک ِاہل حدیث اوروہابیوں کی جماعت ہے۔ قائد اعظم نے راغب احسن کوپاکستان کا زندہ ضمیر قرار دیا تھا، عثمانی ؒنے کہاتھا کہ اہل حدیث کی خدمات سے ملت ِاسلامیہ کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہیں گی۔ اس کے بعد انہوں نے تحریک ِپاکستان میں راشدی خاندان، غزنوی خاندان، لکھوی خاندان اور روپڑی خاندان کی خدمات کا تذکرہ کیا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ، تحریک ِاہل حدیث کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ۱۸۵۷ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک اُنہوں نے ان قربانیوں کا تذکرہ کیا جو اہل حدیث نے غلبہ دین اور قیامِ پاکستان کے لئے دی تھیں۔
ان کی تقریر میں لفاظی کا زور تھا، خطابت کا طنطنہ اور سلاست وروانی بخوبی موجود تھی۔
٭دوسرا انعام حاصل کرنے والے جناب شفیق الرحمن صاحب نے تحریک ِپاکستان وآزادیٔ ہند میںکباراہل حدیث شخصیات کی خدمات کا یکے بعد دیگرے اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جن میں سر فہرست شاہ اسماعیل شہید،مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا محمد علی قصوری، مولانا ولایت علی ،مولانا عنایت علی، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی،مولانا عبد الحلیم شرر، مولانا غلام رسول مہر،مولانا داود غزنوی،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا اسمٰعیل سلفی ودیگر علما ے اہل حدیث جنہوں نے علمی حلقوں،سیاست کے ایوانوں ،تقاریر ومناظرے کی فضاؤں اور تحریک ِپاکستان اور آزادیٔ ہند کی کڑی منازل طے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
٭تیسراانعام حاصل کرنے والے محمد آصف جاوید صاحب کی تقریر مواد اور اندازِ خطابت دونوں کے اعتبار سے پراثر تھی۔انہوں نے اکثر مقررین کے برعکس تحریک ِشہیدین کو تحریک پاکستان کی خشت ِاوّل قرار دیتے ہوئے اس کی خدمات کا بڑے انوکھے انداز سے تذکرہ کیا اور تاریخ کے دلائل و براہین سے ثابت کیاکہ شہیدین نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں جو نظامِ قائم کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا صحیح مصداق تھا۔انہوں نے اس اعتراض کہ''اہل حدیث کانگرس میں شامل تھے جہاں قرآن و سنت کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔'' کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ قائداعظمؒ سمیت متعدد مسلم لیگی لیڈر بھی پہلے کانگرس میں شامل تھے اور بوجوہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ایسے ہی اہل حدیث علما نے بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس سلسلہ میں حافظ عبد القادر روپڑی کی مثال دی جاسکتی ہے جو روپڑ کی مسلم لیگ کے صدر تھے۔
انہوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ تحریک ِپاکستان جس کے پیچھے علمی، جہادی اور سیاسی کئی اہم عوامل کارفرما تھے، ان سب میں اہل حدیث نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ سب سے پہلے فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے والے سید نذیر حسین محدث دہلوی تھے۔ اورعلم جہاد بلند کرنے والے سرخیل اہل حدیث نواب صدیق حسن خان کے نانا تھے جبکہ سب سے پہلے الگ وطن کا تصور پیش کرنے والے مولانا عبدالحلیم شرر تھے۔ قرار دادِ مقاصد کامتن تیارکرنے والے رہنما معروف اہل حدیث عالم مولانا غلام رسول مہر تھے، قراردادِ مقاصد کو پڑھ کر سنانے والے مولوی فضل حق تھے اور اس کے حق میں تائیدی کلمات کہنے والے مولانا ظفر علی خان تھے۔
قائد اعظمؒ نے جس شخصیت کو پاکستان کا زندہ ضمیر قرار دیا تھا وہ مولانا راغب احسن تھے۔ مولانا ابراہیم میرسیالکوٹی کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ غیر مسلم لیگی اہلحدیثوں کے جلسوں میں شرکت نہیں کرتے۔ یہ سب لوگ اہل حدیث تھے اور ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے حق میں بل پاس کرنے والی واحد جماعت بھی اہل حدیث تھی۔
٭ان کے علاوہ تقریباً ۱۰ مقررین نے مختلف انداز سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں جذبات کا سیل ِبلا تو تھا لیکن تحریک ِپاکستان میں اہل حدیث کا کردار، اس کی نوعیت اور دلائل سے اس کا صحیح حصہ متعین کرنے پر زیادہ دلائل نہیں تھے بلکہ اکثر نے دعووں پر زیادہ زور رکھا اوریہی الفاظ دہرائے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جانیں قربان کر دیں، جان کی بازی لگا دی اورایسے لگ رہا تھا جیسے تحریک ِاہلحدیث میں خون کے چھینٹوں کے سواکچھ موجود نہیں ہے۔ بہرحال مجموعی اعتبار سے طلبہ کی کاوش قابل تحسین تھی،لیکن ضروت اس بات کی ہے کہ طلبا اپنی تقاریر میں جوشِ خطابت کے ساتھ واقعات ، اعداد وشمار اور ٹھوس دلائل پیش کریں۔
خطاب رئیس الجامعہ
٭آخر میں رئیس الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے مقررین کے اندازِ خطابت میں جذبات کی فراوانی کو ایک درس گاہ کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ یہ اندازِ خطابت تو سیاست کا تقاضا ہے جو سیاسی یا عوامی جلسوں میں ہی چلتا ہے، لیکن افسوس کہ آج کٹ مرو، جان کی بازی لگا دو، بھڑ جاؤ کی پالیسی کو جہادِ اسلامی سے تعبیر کیا جارہا ہے اور لڑنے بھڑنے کو ہی ہم نے اصل جہاد قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ اسلام لڑنے مرنے کو کوئی اچھا فعل قرار نہیں دیتا کہ انسان کی ہیبت ناک وضع قطع ہو، ہاتھ میں تلوار ہو اور گھوڑے پر سوارہو، اسلام کا تصورِ جہاد صرف یہی نہیں ہے، بلکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: «لا تتمنوا لقاء العدو، فاسئلو اﷲ العافیة»کہ ''للہ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور دشمن سے بھڑنے کی خواہش نہ کرو۔'' لیکن اگر مڈبھیڑ ہوجائے تو پھر چوڑیاں پہن کر بیٹھ جانا بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حدیث ہے کہ فإذا لقیتموهم فاصبروا واسئلوا التثبیت کہ جب فتنہ کی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ لڑائی کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو پھر اسلام مقابلہ میں ڈٹ جانے اور ثابت قدمی دکھانے کی تعلیم دیتا ہے۔
رئیس الجامعہ نے اسلام کا صحیح تصورِ جہاد واضح کرتے ہوئے جہادِ اسلامی پر انسا ئیکلوپیڈیا کے دعوے کے ساتھ لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جہاد اسلامی کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ اسلامی تعلیمات کی درست ترجمانی نہیں ہے۔ مصنف نے محض لڑنے بھڑنے کو ہی جہادِ اسلامی کا نام دے دیا ہے، انہوں نے اس کتاب میںنقل کردہ ایک حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جہاد اس وقت سے ہے جب سے مجھے نبی بناکر بھیجا گیاہے۔'' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر جہاد محض لڑنے بھڑنے اور قتال کا نام ہے تو پھر رسول اللہﷺ نے مکہ میں ۱۳ سال تک لڑائی کیوں نہیں کی ؟ کیا آپ تیرہ سال اس حکم کی مخالفت کرتے رہے۔مولانا مدنی نے واضح کیا کہ مکہ میں جتنی بھی جہاد کی آیات نازل ہوئیں، ان سے مراد لڑنا نہیں ہے۔
اس کے بعد انہو ں نے تحریک ِپاکستان میںروپڑی خاندان کے کردار، ان کی فکر اورنکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پہل میرے والد مولانامحمد حسین روپڑیؒ (شیخ الحدیث مدرسہ غزنویہ تقویہ الاسلام، لاہور) تحریک ِمسلم لیگ کو جمہوری سیاست قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کو جمہوری سیاستدانوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے مترادف سمجھتے تھے اور ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ قتال کو جہاد کا تقاضا سمجھتے تھے لیکن بعد میں ان کویہ سوچ تبدیل کرنا پڑی۔ البتہ ان کے بڑے بھائی حافظ عبداللہ محدث روپڑی کی رائے یہ تھی کہ محض قتال کانام ہی جہادنہیں ہے بلکہ جہاد یہ ہے کہ دین کو غالب کس طرح کیا جائے؟ لہٰذا انہوں نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت مسلم لیگ کی حمایت کو اسلام کے حق میں صحیح قرار دیا۔
محدث روپڑی مسلم لیگ کے حامی تھے، لیکن خود سیاسی طور پر سرگرم نہیں تھے۔ البتہ ان کے بھتیجے حافظ عبدالقادر روپڑی نے مسلم لیگ کی حمایت میں بڑا فعال کردار ادا کیا تھا ، وہ روپڑ میں مسلم لیگ کے صدر تھے۔عبد اللہ محدث روپڑیؒ کی فکری رائے یہ تھی کہ کفر و اسلام کی کشمکش میں غلبہ اسلام کی جو بھی راہیں نکلتی ہیں، ان کو اختیار کرلیناچاہئے۔
انہوں نے عسکری تنظیموں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے جہاد کا صحیح تصور واضح نہیں ہے اور وہ جہاد کرنے کی بجائے ایجنسیوں اور گندی سیاست کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں جہاد توخود مقصود ہے ،لیکن قتال حسن لغیرہ ہے، جیسے انسان کا خراب ہاتھ یا ٹانگ کاٹنا، قصاص لینا اور حدود قائم کرنا اصل مقصد نہیں ہے ،بلکہ ایک مجبوری ہے کہ کہیں یہ بدبودار ہاتھ یا پاؤں پورے جسم اور یہ خراب فرد پورے معاشرے کو بدبودار نہ کردے۔ ایسے ہی اُستاد اپنے شاگرد اور والد اپنے بیٹے کو سزا دے کر کبھی خوش نہیں ہوتا، اسلام میں قتال کی مثال ایسی ہی ہے۔ لہٰذا قتال کا اصل مقصد بھی غلبہ دین کے سامنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ اُنہوں نے طلبا کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت اسلامی معاشرہ جہاد کے حوالہ سے افراط و تفریط کا شکار ہے۔ آپ لوگوں نے ہی حصولِ دین کے بعد معاشرہ کو راہ اعتدال پر گامزن کرنا ہے۔ اہل حدیث قربانی دیتا ہے، قربانی کا بکرا نہیں بنتا، جذبات کی رو سے نکل کر ہوش اور غوروفکر کی ضرورت ہے:
﴿إِذا ذُكِّروا بِـٔايـٰتِ رَبِّهِم لَم يَخِرّوا عَلَيها صُمًّا وَعُميانًا ﴿٧٣﴾... سورة الفرقان"برصغیر میں ہمارے اسلاف: غزنوی خاندان، روپڑی خاندان او رلکھوی خاندان کے زعما کی یہی فکر تھی۔
انہوں نے طلبا کو وصیت کی کہ وہ جذباتی تقاریر کے ساتھ ساتھ فکری تقاریر بھی تیار کریں اور فکری موضوعات پر اندازِ تقریر بھی فکری او ردلائل سے پُر ہونا چاہئے۔
٭اس کے بعد مرزا عمران حیدرصاحب نے مقابلہ کے نتائج کا اعلان کیا:
اوّل: محمد ابراہیم رابعہ کلیہ،ق %89.00 بمع کتب نقد1000روپے
دوم: شفیق الرحمن ثانیہ کلیہ،ق % 87.00 بمع کتب نقد750 روپے
سوم: آصف جاوید ثالثہ ثانوی،ش %86.00 بمع کتب نقد 500روپے
باقی۱۰؍انعامات (کتب بمعہ نقد انعام) کی ترتیب یہ رہی : نعیم الرحمن، نجم الثاقب، قاری کلیم اللہ،احمد طور، محمداحمد بھٹی،عاشق حسین،سمیع اللہ،ساجد الرحمن، بلال مشتاق،نصیر الرحمن
(۵) اسلامک انسٹیٹیوٹ میں چوتھے فہم قرآن کورس کی تکمیل
اسلامک ویلفیئرٹرسٹ کے زیر اہتمام دینی علوم کے ماہرین تیار کرنے والے ادارے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے علاوہ عوام الناس کو مختصر دینی کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ یہ کورسز سال، ۶ماہ اور ۲،۴ ماہ کے دورانیہ پر مختلف مقاصد ونصاب کے ساتھ اسلامک انسٹیٹیوٹ میں منعقد ہوتے ہیں۔یہ ادارہ لاہور میں ۴ مختلف مقامات پر خواتین کے لئے عرصہ ۱۵ سال سے کام کررہا ہے، جس میں اس سال کی ابتدا سے مردوں کے شعبہ کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔ اس ادارہ کا مرکزی دفتر کلمہ چوک فیروز پور روڈ کے ساتھ۱۶۴؍ علی بلاک میں سرگرمی سے کام کررہا ہے، جس میں مردانہ شعبہ کے انچارج حافظ انس مدنی (فاضل مدینہ یونیورسٹی) ہیں۔
یہ پروگرام گذشتہ دنوں اسلامک انسٹیٹیوٹ کی مرکزی عمارت میں منعقد ہوا، حافظ حمزہ مدنی صاحب کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا اور فہم قرآن کورس مکمل کرنے والی کلاس کے طالب علم محمد وقاص صاحب نے نظم پڑھی۔ اس کے بعد سٹیج سیکرٹری مرزا عمران حیدر نے مدعو مہمانانِ گرامی رئیس جامعہ لاہور الاسلامیہ حافظ عبدالرحمن مدنی، مہمانِ خصوصی حافظ عبدالوحید صاحب، پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ ، مولانا عبدالسلام فتح پوری ، قاری محمد ابراہیم میر محمدی، حافظ حسن مدنی اور دیگر مہمانوں کا تعارف کروایا۔
٭سب سے پہلے فہم قرآن کورس مکمل کرنے والے نمائندہ طلبہ نے فہم قرآن کی اس مختصر کلاس کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے۔
بھائی محمد عثمان نے تعلیم قرآن اور علومِ دینیہ کے حصول کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے معاشرہ کا دنیاوی علوم میں غیرمعمولی توجہ دینا اور علومِ دین سے بے اعتنائی کا شکوہ کیا۔ انہوں نے فہم قرآن کے ایسے کورسوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ قرآنِ کریم کو صحیح تلفظ سے پڑھ سکیں، اس کے معانی کو سمجھ سکیں او راپنی نمازوں کو صحیح اور پابندی کے ساتھ پڑھ سکیں۔
٭اس کے بعد محمد عاصم ، محمد طاہر ، مقبول اصغر صاحب نے عربی زبان اور قرآن کو سیکھنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے قرآن سے روگردانی کو اُمت کے زوال کا سب سے بڑا سبب قرار دیا اور خواہش کی کہ ان مختصر کورسوں سے فارغ ہونے والے طلبا کے لئے دو تین سال کا ایک کورس بھی ادارہ کو متعارف کروانا چاہئے۔
ان طلبہ نے اس کورس سے اپنے مستفید ہونے کی نشاندہی مختلف مثالوں اور واقعات سے کی اور انہوں نے انسٹیٹیوٹ کا یہ ان پر احسان عظیم قرار دیا جس نے ان کا قرآن کریم سے بلاواسطہ تعلق جوڑدیا۔انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ایسے کورسز کو زیادہ بڑے پیمانے پر اور مختلف مقامات پر ہونا چاہئے اور ہم اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔
٭اس کے بعد استاذ القرا محمد ابراہیم میرمحمدی نے انتہائی پرسوز لہجہ میں قرآ نِ کریم کی تلاوت فرمائی۔ بعدازاں مدیر ماہنامہ محدث حافظ حسن مدنی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے قرآن کی تعلیم، اس کا فہم حاصل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں پر نافذ کرنے پر زور دیا اور قرآن سے دوری کے انجامِ بد کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے حاضرین کے سامنے اسلامک ویلفیئرٹرسٹ کے ذیلی اداروں کا تعارف کروایا، ان اداروں کے دائرہ عمل اور ان کے پیش نظر مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا۔انہوں نے ٹرسٹ کے اداروں کی کارکردگی کو تعلیم ، تحقیق اور رفاہ عامہ تین اقسام میں پیش کرکے ان کی خصوصیات پیش کیں۔
٭مہمانِ خصوصی حافظ عبدالوحید صاحب(برادرِ اصغر حافظ عبد الرحمن مدنی) نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے اسلامک انسٹیٹیوٹ کے تحت کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہا، اس کے بعد اُمت ِمسلمہ کو درپیش چیلنجز، اس کے اسباب اور حل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آج کفر نہ صرف ہم پر حملہ آور ہے اور ہمارے علاقوں پر قبضہ کررہا ہے بلکہ وہ ہمارے دین، تہذیب، عقیدہ اور دعوت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں بھی کوشاں ہے۔ اس نے اپنا لاؤ لشکر، تمام مالی وسائل، میڈیا کے تمام اداروں کو کسی نہ کسی طرح میدان میں اُتار دیا ہے اور مسلمان دشمن کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والے کبوتر کی طرح اس کا تر نوالہ بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اب ہر میدان میں دشمن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے اور یہ مقابلہ یقینا ایمانی قوت، علم اور عمل پیہم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایمان اور عمل کی قوتیں اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتیں جب تک علم نبوی کو زندگی کا مقصد نہیں بنایا جاتا، اسی سے ہم اللہ اس کے رسولؐ اور خود اپنے آپ کو پہچان کر زمانے کے تقاضوں کو سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹری، انجینئرنگ اور سائنس جو فنی علوم ہیں، ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اسے علم دین کے تابع لے کر چلنا ہوگا۔ آج ہم دنیا کمانے کے علوم توحاصل کرتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں، لیکن دینی علوم نظر انداز ہوچکے ہیں جو رسول اللہﷺکی سیرت اور صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کے سراسر خلاف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی اولادوں کو دینی علوم سکھائیں، اس کے بغیر کفر کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔
٭ رئیس جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے دو اہم امور کی طرف توجہ مبذول کروائی :
1. اسلام میں دین و دنیا کی تفریق کا تصور غلط ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر دنیا کو اطاعت الٰہی کے اندر رہ کر گزار جائے تو یہی اصل دین ہے اور اگر دنیا اطاعت ِالٰہی کے دائرہ سے نکل جائے تو یہ دنیا ہے۔اس لئے ایک مسلمان دنیا کے تمام امور دین کے دائرہ میں رہتے ہوئے بخوبی انجام دے سکتا ہے۔
2. اسلام میں ملائیت کا تصور نہیں کہ چند لوگ پیشہ کے طور پر دین کے اس کام کو سنبھال لیں۔ پاپائیت او رملائیت کا یہ تصور عیسائیت میں پایا جاتا ہے، اسلام ہر شخص کو دین کی بنیادی تعلیمات سیکھنے اور اسے آگے پہچانے کا حکم دیتا ہے:«طلب العلم فریضه علی کل مسلم»ہاں اُمت ِمسلمہ میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو اسلا م کی جزئیات کا علم حاصل کرنے اور نئے پیش آمدہ مسائل اور چیلنجز کا حل تلاش کرکے اُمت کو بتائے۔ ہر آدمی پر یہ فرض نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:﴿فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ﴾یعنی تمام شعبوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو دین کی گہری فہم حاصل کرکے اپنے اپنے شعبے کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
٭آخر میں پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، قرآن کریم کو تمام علوم کا اصل مرجع و منبع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کا بہترین ہتھیار دعا ہے جس سے آج ہم غافل ہیں۔ اس کے بعد اُنہوں نے علم کی فضیلت بیان کی ۔ طلبا اور مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا اور امت ِ مسلمہ کی کامیابی کے لئے دُعا فرمائی۔
اعلان: مجلس التحقیق الاسلامی کے کمپیوٹر سیکشن میں ان ۵ پروگراموں کی مکمل ریکارڈنگ اور تفصیلی کاروائی پر مشتمل ایک سی ڈی تیار کی گئی ہے جس میں تمام خطابات اور پروگرام کی جملہ تفصیلات موجود ہیں۔ یہ سی ڈی دفتر محدث سے ۵۰ روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزید برآں جامعہ میں گذشتہ دنوں سعودی طلبہ کیلئے ہونے والی ورکشاپ ۲۰۰۴ء اور ورکشاپ ۲۰۰۲ء کی ۲ سی ڈیز بھی تیار کرلی گئی ہیں۔ تینوں سی ڈیز کی یکمشت قیمت ۱۰۰ روپے