صحابہ کرامؓ اور اہل ِبیت عظام کے درمیان قابلِ رشک برادرانہ تعلقات
تیسرامبحث : دلالة الثناء
آپ نے اپنے گھر اور خاندان کے افراد، بلکہ اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ پردیس میں زندگی بسر کی ہے یااپنے احباب کے ساتھ کسی فوجی چھائونی میں دن گزارے ہیں یا اپنے ان ساتھیوں جن سے آ پ کا عقیدہ کا رشتہ استوار ہے،کے ساتھ فقر و فاقہ اور ظلم و ستم کے سائے میں وقت گزارا ہے تو آپ خود ہی بتائیے کہ ان کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہو گی ؟
اوریہ حقیقت ہے کہ اصحابِ رسولﷺ اور خصوصاً سابقون الاوّلونؓنے ان تمام مواقع میں مل جل کر زندگی بسر کی۔ وہ سارے کے سارے تنگیوں اور خوشحالیوں میں ایک دوسرے کے ساتھی اور غم گسار تھے بلکہ ان کے ساتھ خیرالبشر حضرت محمدﷺ بھی ہرموقع پر شریک ِکار تھے۔ ان کی معاشرتی زندگی جو تاریخ اسلامی کا ایک روشن باب ہے، اسے ہر تاریخ خواں یا سیرتِ طیبہؐ کا ذوق رکھنے والا جانتا ہے۔
تاریخ اسلامی پر ایک نظر دوڑائیے کہ جب حضرت رسول کریمﷺ مکہ میں دارِ ارقم کے اندرموجودتھے اور ڈرتے چھپتے دعوت ِایمان دیا کرتے، پھر اسلام کو قوت حاصل ہوئی، صحابہ کرامؓ نے حبشہ کے پردیس کی طرف ہجرت کی اور اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف کوچ کرگئے، انہوں نے اپنا گھر بار، مال و دولت، وطن اور ملک چھوڑا۔
ان پرمشقت اور دور دراز سفروں میں ان کے اونٹوں پر بیٹھنے اور پیدل چلنے پر غور کیجئے۔ انہوں نے غزوئہ خندق کے موقع پر مدینہ میں محصور ہوکر خوف کی حالت میں اکٹھی زندگی بسر کی اور غزوئہ تبوک میں لق ودق ریگستانوں اور بے آب و گیاہ میدانوں کو عبور کیا اور بدر وخندق، خیبر و حنین اور ان سے قبل مکہ وغیرہ مقامات میں فتوحات کے مواقع اکٹھے بسر کئے۔اس دوران تاریخ نے اُن کی باہمی محبت واُخوت کے وہ مظاہر دیکھے کہ دنیا آج تک اسکی مثال پیش نہیں کر سکی۔
یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ حضرت رسولِ کریمﷺ ان کے ساتھ تھے اور وہ ان کے قائد، مربی اور معلم تھے۔جن پر رب السماوات والارض کی طرف سے قرآن نازل ہورہا تھااور رسول اللہ ﷺکی ذات ان کی زندگی کا مرجع ومحور بن گئی تھی۔ تاریخ اسلامی کے ان واقعات ومواقع کو ذرا تصور میں لائیں اور اس کے بعد دیکھیں کہ آپ صحابہ کرام کی مبارک ہستیوں کے بارے میں کیارائے قائم کرتے ہیں۔
پہلی قسط میں صحابہ کرامؓ کی باہمی محبت کے مظاہر آپ پڑھ چکے ہیں، جن کا ذکر اللہ نے ان الفاظ میں کیاہے :
﴿وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا...﴿١٠٣﴾... سورة آل عمران''اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یادکرو جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔''
اوس اور خزرج کے درمیان عداوت بھڑک رہی تھی، لیکن اللہ نے اس عداوت کو مٹا دیا اور اس کے بدلے اُنہیں محبت اور اتفاق عطاکردیا۔
قارئین کرام! اگر آپ اس حقیقت کو مان لیں اور اصحابِ رسولؐ کے ساتھ حسن ظن رکھ لیں تو اس میں آپ کا کیانقصان ہے؟ ان کا ربّ ان کے لئے شہادت دے رہا ہے اور ان پر اپنے فضل کا تذکرہ کررہا ہے کہ وہ بھائی بھائی بن گئے تھے، ان کے دل صاف و شفاف تھے ان میں اُلفت، محبت، اتفاق رچ بس گیا تھا۔ مشہور اُصول ہے کہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، خصوصی سبب کانہیں۔ اس عموم پر درج ذیل آیت دلالت کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن يُريدوا أَن يَخدَعوكَ فَإِنَّ حَسبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذى أَيَّدَكَ بِنَصرِهِ وَبِالمُؤمِنينَ ﴿
٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِهِم لَو أَنفَقتَ ما فِى الأَرضِ جَميعًا ما أَلَّفتَ بَينَ قُلوبِهِم وَلـٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَينَهُم إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿
٦٣﴾... سورة الانفال
''اور اگر وہ تجھے دھوکہ دینے کا ارادہ کریں تو تجھے اللہ کافی ہے ،وہی اللہ جس نے اپنی نصرت اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد فرمائی اور ان کے دلوں کو باہم جوڑ دیا اگر تو زمین میں جو کچھ ہے وہ سارے کا سارا خرچ کرڈالتا تو بھی ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتا، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا ہے، بے شک وہ غالب حکمت والا ہے۔''
قارئین کرام! اس آیت کو پڑھیں اور بار بار اس میں غور فرمائیں۔یہاںجو چیز ہمارے لئے قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ اگر حضرت رسولِ کریمﷺ زمین کا سارا مال بھی خرچ کردیتے تو مقصود حاصل نہ ہوتا، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ صاحب ِفضل ہے۔ اس روشن حقیقت کے باوجود کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کی نفسانیت انہیں نصوص کی مخالفت اور اصحابِ رسولؐ کے درمیان عداوت کے بلادلیل دعویٰ کے سوا کچھ تسلیم کرنے نہیں دیتی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیںخبر دیتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا اور انہیں بھائی بھائی اور باہم رحم دل بنا دیالیکن اس کے باوجود وہ داستانیں اور کہانیاں دہرائی جاتی ہیں کہ ان کے درمیان عداوت قائم تھی۔ حالانکہ بے شمار آیاتِ قرآنیہ ان خود ساختہ داستانوں کو جھٹلا رہی ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿لِلفُقَراءِ المُهـٰجِرينَ الَّذينَ أُخرِجوا مِن دِيـٰرِهِم وَأَموٰلِهِم يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا وَيَنصُرونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ هُمُ الصّـٰدِقونَ ﴿
٨﴾ وَالَّذينَ تَبَوَّءُو الدّارَ وَالإيمـٰنَ مِن قَبلِهِم يُحِبّونَ مَن هاجَرَ إِلَيهِم وَلا يَجِدونَ فى صُدورِهِم حاجَةً مِمّا أوتوا وَيُؤثِرونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ وَمَن يوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿
٩﴾... سورة الحشر
''(مال فئے سے) ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کردیے گئے ۔وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کرتے ہیں وہی لوگ سچے ہیں اور جن لوگوں نے ان سے پہلے دارِ ہجرت اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے آئے اور جب ان(مہاجرین) کو کچھ دیا جائے تو وہ اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے، اگرچہ انہیں خود بھی ضرورت ہو اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔''
اس کے علاوہ متعدد قرآنی آیات ہیں جو اصحابِ رسولﷺاورمہاجرین وانصار کے باہمی ایثار،اُخوت ،معاملات اور الفت ومحبت کی توثیق کرتی ہیں۔
اس کے بعد آپ کے سامنے ایک قصہ پیش کرتے ہیں جسے علی الاربلی نے کشف الغمۃ(ج۲؍۲۸،ط ایران) میں حضرت علی بن حسین بن زین العابدین کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ عراقیوں کا ایک گروہ حضرت زین العابدینؒ کے پاس آیا اور حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کے متعلق نامناسب باتیں کرنے لگا۔جب وہ اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو آپؒ نے فرمایا: ''میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم ان اوّلین مہاجروں میں ہو جن کا اس آیت میں ذکر ہے؟''
﴿الَّذينَ أُخرِجوا مِن دِيـٰرِهِم وَأَموٰلِهِم يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا وَيَنصُرونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ هُمُ الصّـٰدِقونَ ﴿
٨﴾... سورة الحشر
''جو اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کردیے گئے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کرتے ہیں، وہی لوگ سچے ہیں۔''
انہوں نے کہا: نہیں... فرمایا: کیا تم ان لوگوں میں سے ہو جنہوں نے
﴿وَالَّذينَ تَبَوَّءُو الدّارَ وَالإيمـٰنَ مِن قَبلِهِم يُحِبّونَ مَن هاجَرَ إِلَيهِم وَلا يَجِدونَ فى صُدورِهِم حاجَةً مِمّا أوتوا وَيُؤثِرونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ ...﴿
٩﴾... سورة الحشر
''دارِہجرت اور ایمان کو ان سے پہلے ٹھکانابنایاتھا، وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنیوالوں سے محبت کرتے ہیں اور ان مہاجرین کو جو کچھ دیا جائے اس سے اپنے سینوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے اور وہ انہیں اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ انہیں خود بھی اس کی احتیاج ہو؟''
انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم بذاتِ خود اس بات کے اقراری ہوگئے ہو کہ تم ان دونوں فریقوں میں سے نہیں ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہو جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا ...﴿١٠﴾... سورة الحشر ''جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ !ہمیں بخش دے او رہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ پیدا نہ فرما جو ایمان لائے۔''
لہٰذامیرے پاس سے نکل جاؤ، اللہ تمہارا برا کرے۔''
یہ ہے حضرت زین العابدین علی بن حسین ؒ کی مبارک فہم، آپؒ تابعین میں سے ہیں۔ درحقیقت اہل السنہ بلکہ شیعہ کی کتابیں بھی صحابہ کرامؓ کی باہمی تعریف سے بھری پڑی ہیں اور نہج البلاغۃکا مطالعہ کرنے والے کو بہت سے خطبے اور ایسے صریح اشارات ملیں گے جو تمام کے تمام اصحابِ رسولؐ کی تعریف و ثنا سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن میں نے ایک کا انتخاب کیا ہے کیونکہ اس میں قرآنِ کریم کا اقتباس ہے۔نیزحضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں:
''میں نے اصحابؓ ِ محمدؐ کو دیکھا ہے ، میں تم میں کوئی ایسا فرد نہیں دیکھ رہا جو ان کے مشابہ ہو۔ وہ پراگندہ حالت میں صبح کرتے تھے، کیونکہ وہ قیام اور سجدوں میں رات بسر کرتے تھے۔ وہ تھکاوٹ کی وجہ سے سجدوں میں اپنی پیشانیوں اور رخساروں پر ٹیک لگاکر راحت حاصل کرتے تھے او راپنے یومِ حساب کو یاد کرکے یوں کھڑے ہوتے تھے جیسے وہ انگاروں پر کھڑے ہوں اورلمبے سجدوں کی وجہ سے گویا ان کی آنکھوں کے درمیان بکری کے گھٹنے جیسے نشان ہوں۔ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ پڑتے، یہاںتک کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے اورعذاب کے خوف اور ثواب کی امید سے وہ یوں لرزتے کانپتے جھک جاتے جیسے آندھی کے طوفان سے درخت جھک جاتے ہیں... الخ''
صحابہؓ کی تعریف میں آپؓ کا کلام کافی طویل ہے۔ اور آپ کے پوتے حضرت زین العابدین کا ایک رسالہ ان کے لئے دعا اور ان کی ثنا پر مشتمل ہے اور آپ کو صحابہ کرامؓ کی تعریف میں تمام ائمہ شیعہ کے بہت سے اقوال ملیں گے اور خلفاے راشدین و اُمہات المومنینؓ وغیرہم کے بارے میں ان سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں ان پر ثنا کی تصریح ہے، اگر انہیں جمع کیا جائے تو بہت سی جلدیں بن سکتی ہیں۔
اس کے بعد اہل السنۃ والجماعہ کے ہاں اہل بیت کے مرتبہ و مقام کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے ،تاکہ آپ کو علم ہوسکے کہ اہل السنہ قرآن کریم پر تمسک اور عمل کی مکمل حرص رکھتے ہیں اور بعینہٖ اسی طرح وہ عترتِ رسولؐ کومضبوطی سے تھامنے والے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم علما اہل سنت ؒکے اقوال کی روشنی میں اہل بیت کے ہاں انکے مقام کی وضاحت کریں گے :
اہل بیت کے متعلق أہل السنۃ کا موقف
'اہل بیت' کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
خلیل بن احمد کہتے ہیں کہ آل البیت کا معنی ہے أھل الرجل اور التأھل کا معنی ہے تزویج (شادی)
أھل البیت کا معنی ہے، اس گھر میں رہنے والے اورأھل الاسلام جبکہ الآل کے متعلق معجم مقاییس اللغۃمیں ہے: قولہ آل الرجل،اَھْلُ الرَّجُلِ کا معنی ہے: اسلام کو بطورِ دین اپنانے والے
ابن منظور کہتے ہیں کہ آلُ الرَّجُلِ سے مراد اس کے اہل ہیں اور آلَ اﷲ وَرَسُوْلُہٗ سے مراد ان کے اطاعت گزار بندے ہیں۔ اس کا اصل أھل ہے پھر ہاء کو ہمزہ سے بدل دیا گیا تو وہ مقدر طور پر أأل ہوگیا پھرجب دو ہمزے اکٹھے ہوگئے تو دوسرے ہمزہ کوالف سے بدل دیا گیا اور یہ کلمہ غالباً اشرف مخلوق کی طرف مضاف ہوتا ہے اس لئے آل الحائک (جولاہے کی آل) نہیں کیاجاتا جبکہ أھل الحائک کہا جاسکتا ہے۔
بیت الرجل سے مراد آدمی کا گھر اور اس کا شرف و وقارہےj اور جب البیت کہا جاتا ہے تواس سے مرادبیت اللہ کعبہ شریف ہوتا ہے اورجب جاہلیت میں اہل البیت کہا جاتا تو اس سے مراد خصوصی طور پر اس کے باشندے ہوتے تھے اور اسلام کے بعد جب اہل البیت کہا جاتاہے تو اس سے مراد آلِ رسول ہوتی ہے۔
آلِ رسولﷺ سے مراد کیا ہے؟
علمائے کرام نے آلِ بیت رسولﷺ کی حد بندی میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے کئی اقوال ہیں۔ ان میں سے مشہور یہ ہیں :
1. جمہور علما کے نزدیک آلِ بیت رسولؐ وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔
2. بعض کے نزدیک اس سے مراد حضرت نبی کریمﷺ کی اولاد اور آپ کی بیویاں ہیں۔ اسے امام ابوبکر ابن العربی مالکی نے احکام القرآن میں ذکر کیا ہے اور دلائل سے ثابت کرکے اس قول کی تائید کی ہے جبکہ اس قول سے اتفاق کرنے والے بعض علما نے آپؐ کی بیویوں کو اس شرف سے خارج کردیا ہے۔
3. بعض کے نزدیک آل النبیﷺ سے مراد ان کے قیامت تک کے متبعین ہیں۔امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی نے شرح صحیح مسلم میں اسے تقویت دی ہے اور صاحب 'الانصاف' نے ان کی موافقت کی ہے اور بعض علما نے آنحضرتﷺ کے متبعین میں سے متقین کوآلِ بیت شمار کیا ہے۔ سوال: جن پر صدقہ حرام ٹھہرایا گیا، وہ کون ہیں؟
جواب: وہ ہیں بنو ہاشم اور بنو مطلب اور یہی قول راجح ہے اور جمہور علما کرام نے اسی قول کی تائید کی ہے اور بعض علما نے (صدقہ کی حرمت کو ) بنوہاشم تک محدود کیا ہے اور بنو مطلب کو اس میں شامل نہیں کیا۔
شیعہ امامیہ (اثنا عشریہ) کے نزدیک آلِ رسولؐ سے مراد فقط بارہ امام ہیں، دوسرے اس میں شامل نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی تفصیلات اور تفریعات ہیں جن کے بیان کا یہاں موقع نہیں ہے، کیونکہ اس مسئلے میںان کے فرقوں کے درمیان بڑا اختلاف اور اسی اختلاف کی وجہ سے تفرقہ ظہور پذیر ہوا۔ (دیکھئے کتاب فِرَق الشیعۃمؤلفہ نو بختی)
آلِ رسولؐ کے متعلق اہل السنہ کا عقیدہ
عقیدہ کی کتابوں میں آپ کو کوئی کتاب ایسی نہ ملے گی جو اعتقاد کے ہمہ جہت مسائل پر مشتمل ہو اور اس میں اس مسئلہ پر بات نہ کی گئی ہو، کیونکہ اس کی خاص اہمیت ہے اور علما نے اسے مسائل اعتقاد میںشامل کیا ہے اور اس کی اہمیت کی وجہ سے اس پرمستقل رسائل لکھے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے عقیدہ واسطیہ میں اور اپنے مختصر سے رسالے میں اہل السنہ کا عقیدہ بیان کیا ہے اور اختصار کے باوجود انہوںنے جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل بیت رسولؐ سے محبت کرتے ہیں اور ان سے وابستگی رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں حضرت رسول کریمﷺ کی وصیت کو یاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے غدیر خم کے روز فرمایا تھا:
«أذکرکم اﷲ في أهل بیتي، أذکرکم اﷲ في أهل بیتي»
''میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں،میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں۔''
اور جب حضرت عباسؓ نے آپؐ سے بعض قریشیوں کی بے رُخی اور سرد مہری کی شکایت کی تو آپ نے ان سے فرمایا:
«والله لا یدخل قلب إمرءٔ إیمان حتی یحبکم ﷲ عزوجل ولقرابتی»
''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میںمیری جان ہے، کسی دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو گا جب تک وہ تم سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کریں۔''
اور آپؐ نے فرمایا:«إن اﷲ اصطفی بنی اسماعیل واصطفی من بني اسماعیل کنانة واصطفی من کنانة قریشا واصطفی من قریش بنی هاشم واصطفانی من بني هاشم»
'' اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل کو پسند کیا اور بنو اسماعیل سے کنانہ کوپسندکیا اور کنانہ سے قریش کو پسند کیا اور قریش سے بنوہاشم کو پسند کیا اور مجھے بنو ہاشم سے پسند کیا...الخ''
امام ابن تیمیہؒ کی یہ بات اہل تشیع کی اس بات کا ردّ کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شدید عداوت رکھتے تھے،کیونکہ اُنہوں نے ابن مطھر الحلی کے رد میں منہاج السنۃلکھی ہے... آلِ رسولؐ کے حقوق کی تفصیل درج ذیل ہے :
اوّلاً : حق محبت و نصرت
قارئین کرام! آپ پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ہر مسلمان مردو عورت سے محبت رکھنا شرعی فریضہ ہے اور آلِ رسولؐ سے جس طرح کی محبت و نصرت کا ذکر گزر چکا ہے، وہ خاص محبت ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ آپﷺ نے اس کے متعلق لقرابتي کالفظ ارشاد فرمایا ہے جبکہ پہلی محبت جو اللہ کے لئے ہونی چاہئے وہ ایمانی اُخوت و نصرت ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے،کیونکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے لہٰذا یہ محبت تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے اور اس میں آلِ رسولؐ بھی شامل ہیں۔
حضرت رسولِ مقبولﷺ نے اپنے قرابت داروں کے لئے خاص محبت کاذکر کیاجو ان کی رسول اللہﷺ سے قرابت داری کی وجہ سے ان کے ساتھ ہی خاص ہے۔ اس کے متعلق اللہ کاارشاد ہے:
﴿قُل لا أَسـَٔلُكُم عَلَيهِ أَجرًا إِلَّا المَوَدَّةَ فِى القُربىٰ ...﴿٢٣﴾...سورةالشورىٰ''کہہ دیجئے میں تم سے اس پر اُجرت کا سوال نہیں کرتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے دوستی کرکے مجھ سے محبت کا ثبوت دو۔''
معنی کے اعتبار سے گذشتہ صحیح روایت کا مفہوم بھی یہی ہے جو اس آیت کا ہے، کیونکہ چند مفسرین نے اس کا معنی یہ بھی کیا ہے کہ مجھ سے اس بنا پر محبت کرو کہ میری تم میں قرابت داری ہے،کیونکہ حضرت رسول اللہﷺ کی قریش کے تمام قبائل کی شاخوں میں قرابت داری تھی۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی محبت اور نصرت اور توقیر، ان کی رسول کریمﷺ سے قرابت داری کی وجہ سے ہے اور یہ اس دوستی سے علاوہ ہے جو عام مسلمانوں کے لئے ہے۔
ثانیاً : ان پر درود و سلام کا حق
اس طرح ان پر درود پڑھنا بھی ان کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿
٥٦﴾... سورة الاحزاب
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو۔''
امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت کی ہے،ان کابیان ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ میرے پاس مجلس ِسعد بن عبادہ میں تشریف لائے۔ بشرؓ بن سعدؓ نے آپ سے سوال کیاکہ اے اللہ کے پیارے رسولؐ! اللہ نے ہمیں آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے، تو ہم کس طرح آپ پردرود پڑھیں،آپؐ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم خواہش کرنے لگے کہ کاش اس نے سوال نہ کیاہوتا۔ پھر رسول کریمﷺ نے فرمایا: کہو
اللهم صلّ علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراهیم وبارك علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علی إبراهیم فی العالمین إنك حمید مجید
اور سلام ایسے ہی ہے جیسے تم جانتے ہو۔
اور اس طرح ابوحمید ساعدی کی متفق علیہ حدیث بھی ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دلائل ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں۔امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ
''اس بات پر ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ درود ان کا خاص حق ہے، اس میں اُمت شامل نہیں۔'' اور اس سے مراد درود ِ ابراہیمی ہے۔
ثالثا ً: خمس کا حق
اس طرح خمس میں بھی ان کاحق ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَىءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسولِ وَلِذِى القُربىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَابنِ السَّبيلِ...﴿
٤١﴾... سورة الانفال
''اور جان لوجو چیز تم کوغنیمت میں ملے اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول کے لئے بھی اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے بھی۔''
اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں اور یہ حصہ آپ کے قرابت داروں کے لئے خاص ہے اور حضرت رسولِ کریمﷺ کی وفات کے بعد بھی ان کے لئے ثابت ہے۔ یہ جمہور علماکا قول ہے اور صحیح ہے۔
نوٹ: اہل بیت کے حقوق بہت سے ہیں لیکن ہم نے ان میں سے اہم حقوق کی طرف اشارہ کیاہے اور ان حقوق کا مستحق وہی ہے جس کا اسلام اور آپؐ تک نسب ثابت ہو، یہ شرط نہایت اہم ہے ، ایسے ہی اچھے عمل کا ہونا بھی ضروری ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے نسب پر ہی انحصار و اعتماد کرنے سے ڈرایا ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ کے مشہور واقعہ میں آپؐ کا فرمان منقول ہے کہ آپ نے فرمایا تھا
«یا معشر قریش! اشتروا انفسکم من اﷲ لا أغني عنکم من اﷲ شیئا۔ یا عباس بن عبد المطلب! لا أغنی عنک من اﷲ شیئا۔ یا صفیة عمة رسول اﷲ!! لا أغنی عنك من اﷲ شیئا۔ یا فاطمة بنت محمد ! سلینی من مالي ما شئتِ لا أغنی عنكِ من اﷲ شیئا» (بخاری؛۴۷۷۱)
''اے گروہِ قریش اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو ،میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہﷺ کی پھوپھی! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمدؐ میرے مال سے جو کچھ مانگنا چاہتی ہے مانگ لے، میں اللہ کے ہاں تجھے کفایت نہیں کروں گا۔''
اور آپ جانتے ہیں کہ ابولہب کے متعلق کیا نازل ہوا۔ حالانکہ وہ بھی ہاشمی قریشی تھا اور آپ کا سگا چچا تھا... اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں آگ کے عذاب سے پناہ عطا فرمائے۔
ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ والجماعہ کا موقف
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک آلِ رسولؐ کے مرتبہ و مقام کے بیان کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ کے موقف کی طرف اشارہ کردیاجائے۔
نَصَب کا لغوی معنی کسی چیز کو کھڑاکرنا اور اسے بلند کرنا ہے اور اس سے ناصبۃ الشر والحربکا جملہ وجود میں آیاہے۔ قاموس میں ہے: النواصب والناصبۃ وأھل النصب اس سے مراد حضرت علی المرتضیٰؓ سے بغض رکھنے والے متدین لوگ ہیں، کیونکہ انہوں نے آپ سے عداوت کھڑی کی، یعنی آپ سے دشمنی کی۔ یہ ہے ناصبیوں کے نام کا اصل۔ چنانچہ جو کوئی انسان، اہل بیت سے بغض رکھے گا وہ ناصبیوں میں سے ہے۔
قارئین کرام! علماء اسلام کا کلام حضرت علیؓ اور ان کے صاحبزادوں کی تعریف میں واضح اور صریح ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ اور حسنؓ و حسین ؓ نعمتوں کے باغات میں ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (وللہ الحمد)
یہاں ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ کا موقف اورناصبیوں سے ان کی لا تعلقی کو واضح کرنا ضروری ہے،کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور مفاد پرست ٹولہ بعض من گھڑت اور خیال قصوں کی بنیاد فرقہ پرستی کو ہوا دینا چاہتا ہے۔اہل السنہ نے حضرت علی ؓکے فضائل میں بہت سی روایات بیان کی ہیں اور حدیث کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں حضرت علیؓ کے فضائل ومناقب نہ ہوں۔میں ناصبیوں کے متعلق صرف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا قول پیش کرنے پر اکتفا کروں گا کہ جن کو شیعہ اپنا شدید دشمن سمجھتے ہیں، کیونکہ آپ نے شیعہ کے ردّ پر سب سے بڑا سنی انسائیکلو پیڈیا تصنیف کیا ہے۔فرماتے ہیں کہ
''حضرت علیؓ کو بُرا کہنے اور ان پر لعنت کرنے کی وجہ سے یہ گروہ اس بات کا مستحق ٹھہرا کہ اسے باغی گروہ کہا جائے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت خالد حذاء سے بحوالہ حضرت عکرمہ مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ان سے اور اپنے بیٹے علی سے کہا کہ تم حضرت ابوسعید کی طرف جاؤ اور ان سے حدیث سنو۔چنانچہ ہم گئے تو وہ اپنی دیوار درست کررہے تھے انہوں نے اپنی چادر لی اور گوٹھ مار کر بیٹھ گئے اور ہمیں حدیثیں سنانے لگے۔ جب وہ مسجد نبوی کی تعمیر کے ذکر پر پہنچے تو فرمایا:ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور حضرت عمارؓ دو دو اینٹیں اُٹھاتے تھے۔ جب حضرت رسول کریمﷺ نے دیکھا تو ان سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: افسوس اے عمار!تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، یہ انہیں جنت کی طرف دعوت دے گا اور وہ اسے آگ کی طرف دعوت دیں گے۔ حضرت عمار ؓنے فرمایا: أعوذ باﷲ من الفتن۔ اسے مسلم نے ابوسعید سے بھی روایت کیا ہے اور فرمایا:مجھے اس شخص نے خبر دی جو مجھ سے بہتر ہے۔''
ابوقتادہؓ کا بیان ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے حضرت عمارؓ سے خندق کھودتے وقت فرمایا اور اس وقت آپؐ اس کے سر سے مٹی جھاڑ رہے تھے : ابن سمیہؓ کی زبوں حالی!! اس کو باغی گروہ قتل کرے گا اور مسلم نے حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کیا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت علیؓ کی امامت و خلافت صحیح تھی اور ان کی اطاعت واجب تھی اور ان کی طرف دعوت دینے والے جنت کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے لڑائی کی دعوت دینے والے آگ کی طرف دعوت دینے والے تھے،اگرچہ وہ تاویل کرنیوالے تھے۔ اوراس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت علیؓ سے لڑنا جائز نہ تھا اور ان سے لڑنے والا خطاکار تھا اگرچہ وہ تاویلا ًلڑ رہا تھا یا بغیر تاویل کے وہ باغی تھا۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک یہ قول صحیح ترین ہے، یعنی یہ کہ حضرت علیؓ سے لڑنیوالے پر خطا کاری کا حکم لگایا جائے اوریہ ان فقہا کا بھی مذہب ہے جنہوں نے متاول باغیوں سے لڑائی کرنے کا موقف اپنایا ہے۔
ان کے درج ذیل قول پر غور کیجئے۔آپ نے یزید کے متعلق اہل السنہ کے کلام پر طویل تبصرہ کرنے اور مسئلہ تحریر کرنے، اور اس میں لوگوں کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
وأما من قتل الحسین أو أعان علی قتله أو رضی بذلك فعلیه لعنة اﷲ والملائکة والناس أجمعین
''لیکن جس نے حضرت حسینؓ کو قتل کیا یا ان کے قتل میں معاونت کی یاوہ آپ کے قتل پر خوش ہوا، اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔''
کیا اس کے بعد کسی خطیب، ذاکر یا خود کو عالم کہلانے والے کے لئے ممکن ہے کہ وہ اہل السنہ پر طعن کرے اور کہے کہ وہ ناصبی ہیں۔ مذکورہ بالا کلام، ائمہ سلف میں سے ایک امام کا ہے۔
میرے بھائیو! ممکن ہے کہ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل میںبہت سے سوالات اُبھرے ہوں۔ اس بنا پر کہ تاریخی طور پر صفین اور جمل میں صحابہ کرامؓ کے درمیان لڑائی کا وجود ثابت ہے۔ اور ان میں سے ہر فریق کے ساتھ صحابہ کا ایک گروہ موجود تھا یا ان میں سے عام یا اکثر حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھیوں میں اہل بیت بھی تھے۔
یہ بحث ایک مستقل رسالے کی محتاج ہے،میری دعا ہے کہ اللہ مجھے اس رسالے کو تالیف کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے تاکہ ایسے تنازعات وغیرہ کی حقیقت بیان ہوسکے۔ میں اپنی ذات اور آپ کو اللہ سبحانہ کا فرمان یاد دلاتا ہوں :
﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخرىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفىءَ إِلىٰ أَمرِ اللَّهِ فَإِن فاءَت فَأَصلِحوا بَينَهُما بِالعَدلِ وَأَقسِطوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿
٩﴾ إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ ...﴿
١٠﴾... سورة الحجرات
''اگر مؤمنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیاکرو۔ پھر اگر ایک جماعت دوسرے کے خلاف بغاوت کرے تو بغاوت کرنے والی جماعت سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل سے صلح کرا دو اور انصاف کرو۔بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔بے شک مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔''
اس آیت میں اللہ نے ان کی باہمی لڑائی کے باوجود ان کے لئے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں صریح ہے اور کسی تعلیق اور تفسیر کی محتاج نہیںہے۔ لہٰذا تمام صحابہؓ مؤمن ہیں، اگرچہ ان کے درمیان لڑائی ہوئی۔ اس طرح اللہ کا یہ قول :
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعروفِ...﴿
١٧٨﴾... سورة البقرة
''کہ جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی گئی ہو تو بھلائی کے ساتھ اس کی اتباع کرنا ہے۔''
یہ آیت قتل عمد کے متعلق ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قاتل اور مقتول کے سرپرستوں کے درمیان ایمانی اُخوت ثابت کی ہے۔ چنانچہ قتل کے شنیع جرم اور اس کی شدید سزا نے، جو اللہ نے بیان کی ہے،انہیں دائرئہ ایمان سے نہیں نکالا اور وہ مقتول کے اولیا کے ساتھ بھائی قرار پائے اور اللہ فرماتا ہے:
﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ ...﴿١٠﴾... سورة الحجرات''
مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔''اختتامیہ
گذشتہ اوراق میں ہم نے آلِ رسول اَطہارؓ اور آپ کے اخیار صحابہ کرام ؓکے ساتھ تصوراتی لمحات گزارے اور ان کے درمیان صلہ رحمی اور مصاہرت، دوستی اور اُخوت، تالیف ِقلبی اور ایثارِ نفسی کا مطالعہ کرلیا ہے اور ان کے درمیان اس شفقت و رحم دلی کا ادراک کرلیا ہے جسے اللہ نے قرآن میںبیان کیا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم ربّ العالمین سے دعا کرنے کی کوشش کریں کہ وہ ہمیں اس عمل کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتاہے اور وہ ہمیں ان لوگوں میں کردے جن کے متعلق اس نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے:
﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورة الحشر''
اور جو لوگ ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے ایمان قبول کرنے میں سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ پیدا نہ کر جو ایمان لائے۔ اے ہمارے رب! تو بلا شبہ شفقت کرنے والا مہربان ہے۔'' اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کی یہ دعا مہاجرین اور انصار کی تعریف کرنے کے بعد بیان کی ہے۔
دلائل و براہین خواہ کتنے ہی واضح اور آشکارا ہوں، پھر بھی انسان اپنے مولیٰ عزوجل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روشن معجزات کے ساتھ اپنے رسولؐ کی تائید فرمائی اور انہیں وہ قرآن عطا فرمایا جسے اس نے نورِ مبین کے ساتھ موصوف کیا ہے اور پھر اس کے ساتھ آپ کو حسن خلق، قو تِ بیان اور فصاحت عطا کی اور انہیں ظاہری و باطنی حسن عطا فرمایا اور اہل مکہ آپ کو بچپن سے لے کر بعثت تک جانتے بھی تھے۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بہت سے اہل مکہ اپنے کفر پر قائم رہے، حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔
لہٰذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم دعا کریں اور طلب ِتوفیق اور حق پر ثابت قدمی اور اس کی پیروی کی کوشش کریں،خواہ وہ کہیں بھی ہو، کیونکہ ہدایت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
یاد رکھیں! آپ اس حکم کے ذمہ دار ہیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے اور اللہ اس پر آپ کا حساب لینے والا ہے، لہٰذا کسی مخلوق کے کلام کو اللہ کے کلام پر برتر کرنے سے بچیں۔ اللہ نے آپ کے لئے قرآن کو صاف عربی زبان میں نازل فرمایا ہے اور اسے مؤمنوں کے لئے شفا بنایا ہے اور دوسروں کے لئے اندھاپن۔ چنانچہ اللہ سبحانہ نے فرمایا:
﴿قُل هُوَ لِلَّذينَ ءامَنوا هُدًى وَشِفاءٌ وَالَّذينَ لا يُؤمِنونَ فى ءاذانِهِم وَقرٌ وَهُوَ عَلَيهِم عَمًى...﴿٤٤﴾... سورة فصلت''کہہ دیجئے کہ وہ ایمان والوں کیلئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے کانوں میں بہرہ پن ہے اور وہ ان پر اندھاپا ہے۔'' آپ قرآن سے رہنمائی حاصل کریں اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں۔ اللہ آپ کو اپنی خوشنودی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ساری مخلوق کا حساب اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ہے، یہ کسی بشر کے ذمہ نہیں ہے،بلکہ نیک لوگ چند شروط کے ساتھ اللہ سے شفاعت کرسکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کریم سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے لمبی چھوڑنے اور ترنگ میں آنے سے باز رہیںاور اس کے بندوں کے متعلق فیصلہ دینے سے کنارہ کش رہیں۔ ہم اہل بیت رسول ﷺ اور آپ کے باقی صحابہ کرام ؓسے محبت کریں تو ہمیں کچھ نقصان نہیں ہوگا،بلکہ یہ عمل قرآن کے بھی موافق ہے اور صحیح روایات کے بھی۔
ہمیں چاہئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں سے ان کی نفرت کھینچ لے اور ہمیں حق پرکھنے کی بصیرت عطا فرمائے اور ہمارے نفسوں اور شیطان کے برخلاف ہماری مدد فرمائے، کیونکہ وہ اس پر قادر ہے اور اس کا حق دار ہے۔ واﷲ أعلم
حوالہ جات
2. دیکھئے کشف الغمۃ۲؍۲۳۴،الفصول المہمۃ۲۸۳ اس طرح تمام ائمہ اثنا عشرکی اولادوں میں آپ کو یہ نام ملیں گے۔علما شیعہ نے ان ناموں پر بحث کی ہے اور انہوں نے یوم الطُّفْ سے متعلق ۱۷تا ۱۸۵ نام ذکرکیے ہیں۔ دیکھئے: اعلام الوری طبرسی:۲۰۳، الارشاد للمفید: ۱۸۶ اور تاریخ یعقوبی : ۲؍۲۱۲
3.ان کی ماں اسما بنت عبد الرحمن بن ابی بکر تھی۔دیکھئے عمدۃ الطالبین ص ۱۹۵،طبع ایران الکافی ج ۱؍ص ۴۷۲
4.مسلم عن فاطمہ بنت قیسؓ
5.بخاری عن عائشہ
6.دیکھئے کتاب العیق: ۴؍۸۹
7.الصحاح۴؍۱۶۲۸، لسان العرب ۱۱؍۲۸
8.معجم مقاییس اللغۃ ۱؍۱۶۱،مفردات فی غریب القرآن اصفہانی۳۰
9.لسان العرب؛۲؍۱۵
10.مفردات فی غریب القرآن ۲۹
11. مسند احمد؛۱۷۰۶۱
12.مزید تفصیل دیکھنے کے لیے جلاء الافہام فی الصلوۃ علی خیر الانام ابن قیم کا مطالعہ کیجئے
13.مسلم ؛کتاب فضائل الصحابہ :ج۱۵؍ص ۱۸۸
14.احمد فی فضائل الصحابہ
15.مسلم؛کتاب الصلوۃ:۱؍۳۰۵
16.جلاء الافہام
17.دیکھئے مغنی؛ ۹؍۱۸۸
18.مزید برآں امام ابن تیمیہ کا مختصر رسالہ حقوق اہل بیت بھی دیکھئے جسے ابو تراب ظاہری نے شائع کیا ہے۔
19.مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۴؍۴۲۷
20.مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۴؍۴۸۷