اکتوبر 2004ء

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا

محترم و مکرم جناب مفتی دارالعلوم دیوبند السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ'
آپ کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ اور مسجد ِنبوی میں نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کے افتاء سے متعلق علماء ِکبار کی ایک مستقل کمیٹی کافتویٰ ہفت روزہ 'اہلحدیث' لاہور میں ۷ ؍فروری ۱۹۸۶ء کو چھپا تھا، اس کا اقتباس حاشیہ میں ملاحظہ کریں۔
(فتویٰ کی اصل عبارت یہ ہے:''عبادات کی تمام اقسام توقیفی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہیئات و کیفیات اور ان کا طریق کار کتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہئے۔ سوالِ مذکورہ میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کی جو صورت ہے، اس کا ثبوت نبی اکرمﷺ کے قول و عمل اور تقریر سے نہیں ملتا ... سلام پھیرنے کے بعد جو امام ہاتھ اٹھا کر دُعا کرتا ہے اور مقتدی بھی ہاتھ اٹھا کر اس کے پیچھے آمین کہتے جاتے ہیں ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے اس عمل کا ثبوت کتاب و سنت سے پیش کریں بصورتِ دیگر اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ ناقابل قبول اور مردود ہے۔ ''(ہفت روزہ اہلحدیث: ص۴، ترجمہ از حافظ عبدالستار حماد)
( ٭محمد سرور صاحب سفید ریش بزرگ آدمی ہیں، مسلکی اعتبار سے حنفی ہیں مگر متعصب نہیں بلکہ جو بات قرآن وسنت سے اَقرب ثابت ہو جائے اسی کو حق سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔موصوف کا مذکورہ موضوع پر ایک مضمون بعنوان 'دعا بعد الفرائض میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں' ماہنامہ 'القاسم' (نوشہرہ) کے مارچ ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں بھی شائع ہوا تھا۔ اس پر مولانا عبد المعبود صاحب نے تنقیدی مضمون لکھا جو القاسم ہی کے اپریل۲۰۰۳ء کے شمارہ میں شائع ہوا،پھر اس کے جواب میں سرور صاحب نے ایک اور مضمون یکم مئی ۲۰۰۳ء کو'القاسم' کو بھجوایا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس مضمون کی اشاعت سے معذرت کر لی کہ ''ماہنامہ 'القاسم' کی اشاعتی کمیٹی اور ممبرانِ شوری نے 'دعا بعد الفرائض' پر بحث کو مزید آگے بڑھانے سے روک دیا ہے۔'' پھر موصوف نے ماہنامہ 'القاسم' نوشہرہ کے ساتھ مذکورہ بالا خط وکتابت اور دارالعلوم دیوبند کو ۱۵؍فروری ۲۰۰۳ء کوتحریر کردہ خط کی ایک کاپی ہمیں بھجوائی ، اس خط کو یہاں قارئین محدث کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔ اس مسئلہ پر حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ محدث کے مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ ادارہ)
پاکستان میں اہلحدیث کی اکثرو بیشتر مساجد میں بھی نماز کے بعداجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ دعاء بعد الفرائض انفراداً، سراً اور بلارفع ِیدین ہوتی ہے۔اس سلسلے میں ایک اہلحدیث عالم جناب شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات ؒ گوجرانوالہ کے فتویٰ (جو ہفت روزہ 'الاسلام' لاہور میں ۳۱؍جنوری ۱۹۸۶ء کوچھپا تھا) کی فوٹو کاپی بھی ارسالِ خدمت ہے۔
جہاں تک پاکستانی حنفی دیوبندی علما کا تعلق ہے؛ شیخ الہند مولانا محمودالحسن ؒکے تلمیذ مولانا ابوالقاسم رفیق دلاوری ؒ اپنی مسائل نماز پر مستند کتاب 'عمادالدین' جو انہوں نے ۲؍شعبان ۱۳۷۴ھ کو لاہور سے شائع کرائی تھی، اس کے صفحہ ۳۶۵ پرطویل بحث کے بعد فرماتے ہیں:
''الغرض نماز کے سلام کے بعد امام اور اس کے مقتدیوں کا مل کر دعاء مانگنا بدعت ِسیئہ ہے۔''
ان کی اس کتاب کے صفحہ ۳۶۴ اور ۳۶۵ کی فوٹو کاپی بھی پیش خدمت ہے۔
(1.مولانا کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں : ''صحابہ کرامؓ نے نماز کے اندر اور باہر کے تمام مسائل ہم تک پہنچا دیے اور اگر سیدالانبیاء سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دُعا کرتے اور مقتدی آمین کہتے تو یہ ایک اہم مسئلہ انہوں نے ہم تک کیوں نہیں پہنچایا۔ اگر آپؐ دُعا کرتے تو ہم تک تواتر کے ساتھ بات پہنچتی حالانکہ احادیث کی اوّل سے لے کر آخر کتاب تک کا مطالعہ کرکے دیکھیں کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ کے ہر شعبہ زندگی کے آداب حتیٰ کہ بیت الخلا میں بیٹھنے اور زندگی میں اَزواج سے تعلقات تک کے آداب ہم تک پہنچائے۔ نیز نماز فرض کے بعد انفرادی قسم کے تمام آداب بتائے ہیں۔ اجتماعی دُعا کی تو ان تمام سے زیادہ اہمیت ہے، اگر سید الانبیاءؐ نے فرض نماز کے بعد اجتماعی دُعا کی اور مقتدی صحابہ کرامؓ نے آمین کہی تو صحابہ ؓ نے یہ مسئلہ کیوں پوشیدہ رکھا۔ آیا صحابہ ؓ کو اسی دعا سے نعوذ باللہ دشمنی تھی، حاشا و کلاہرگز ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدالانبیاءؐ نے نما زکے بعد دُعا نہیں کی ... صحیح بات یہ ہے کہ فر ض نماز کے بعد مروّجہ دُعا نہ نبی ؐسے ثابت ہے اور نہ خلفاء راشدین سے اور نہ ائمہ اربعہ کے متبعین سے۔'' ( ہفت روزہ 'الاسلام' لاہور،ص۸)
2. مولانا دلاوریؒ ''یہ بدعت کیونکر رائج ہوئی؟'' کے جواب میں لکھتے ہیں :
''حسب ِروایت ترمذی و نسائی فرض نماز کے سلام کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ چونکہ سلام کے بعد امام اور مقتدی سب ہی اپنی اپنی حاجات کے لئے دست بدعا ہوجاتے تھے۔ اس انفرادی دعا نے اجتماعی دعا کا رنگ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ یہ بدعت لوگوں پر ہر جگہ مسلط ومحیط ہوگئی۔''
ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ''میں امام کے ساتھ دعا نہیں مانگتا۔ بلکہ امام سے پہلے یا پیچھے یا کبھی ساتھ ہی اپنی الگ دُعا شروع کرتا اور امام سے پہلے یا پیچھے ختم کردیتا ہوں ۔ یہی میرا معمول ہے اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح امام سے علیحدہ ایسی دعائیں مانگیں تو وہ بھی بدعت کے خوفناک چنگل سے نجات پاسکتے ہیں۔'')
٭مشہور ومعروف پاکستانی دیوبندی عالم فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ بانی ہفت روزہ 'ضربِ مؤمن' اور روزنامہ 'اسلام' اپنی تالیف 'نمازوں کے بعد دعا، یعنی زبدۃ الکلمات في حکم الدعاء بعد الصلوۃ میں احادیث، عباراتِ فقہ، الروایات المزیدۃ اور العبارات المزیدۃ کے تحت پوری تحقیقات کے بعد صفحات ۱۹ اور ۲۰ پر مندرجہ ذیل فتویٰ جاری فرما چکے ہیں :
''حاصل کلام: زبدۃ الکلمات مع ضمیمہ میں مندرجہ تحقیقات کا حاصل یہ ہے:
1. نماز کے بعد دعا کا مروّجہ طریقہ بالاجماع بدعت ِقبیحہ ہے۔
2. دعا بعد الفرائض میں رفع یدین نہیں، إلا أن یدعو أحیانا لحاجۃ خاصۃ
3. امام مالک و امام طرطوشی اور ان دونوں کے احباب رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی فوراً امام کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا لازم ہے۔
4.عندالاحناف رحمہم اللہ تعالیٰ بھی امام کا فجر و عصر کے سوا، نماز کے بعد تین بار استغفار اور دعا اللھم أنت السلام...الخ سے زیادہ دیر بیٹھنا مکروہ ہے، اس دعا میں نہ رفع یدین ہے نہ اجتماعیت، امام اور مقتدی ہرشخص بلا رفع یدین، سراً وانفراداً یہ مختصر سی دعا مانگ کر سنتوں میں مشغول ہوجائے۔
فجروعصر کے بعد بیٹھنا اس شرط سے جائز ہے کہ اوراد واَدعیہ میں امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہے، نماز کے بعد کی دعا میں اجتماعیت بدعت ہے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص اپنے طور پر انفراداً سراً بلا رفع یدین دعا مانگے، فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین نہیں، البتہ کبھی کبھار کسی خاص ضرورت سے کوئی دعا مانگنا چاہے تو رفع یدین کرسکتا ہے۔ مگر دوسروں کے سامنے التزام نہ کرے تاکہ کسی کو فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین کے مسنون ہونے کا شبہ نہ ہو۔
5. نوافل کے بعد انفراداً ہاتھ اٹھا کر طویل دعا مسنون ہے۔
6. دعا کے لئے اجتماع بدعت ہے، البتہ کسی دوسرے مقصد کے لئے اجتماع ہو تو اس میں اجتماعی دعا جائز ہے۔ واﷲ الهادي إلی سبیل الرشاد وهو العاصم من المحدثات في الدین والبدع والضلال'' (۹؍ ربیع الاول ۱۴۰۹ھ)
اس تالیف کے صفحات ۲۰ تا ۲۴ پر مذکورہ بالا فتویٰ کی تائید و موافقت میں عصر حاضر اور ماضی قریب کے اکابر کی تحریرات بھی کلمۃ الجامع کے زیرعنوان پیش کی گئی ہیں۔
یہ فتویٰ مندرجہ ذیل آیات ِمبارکہ کے بھی عین موافق معلوم ہوتا ہے :
﴿ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورة الاعراف
''تم اپنے رب سے دعا کیاکرو تذلل ظاہر کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
﴿وَاذكُر رَبَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّعًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغـٰفِلينَ ﴿٢٠٥﴾... سورة الاعراف
''اور اے شخص! اپنے ربّ کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام ۔ اور اہل غفلت میں شمار مت ہونا۔''
مذکورہ بالا تالیف کا ایک نسخہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
اگرچہ پاکستان میں حنفی دیوبندی مساجد میں بھی یہ نماز کے بعد اجتماعی دعا اور دعا بعد الفرائض میں رفع یدین کی بدعت آہستہ آہستہ ترک ہورہی ہے، لیکن چونکہ احناف میں یہ بدعت چھا چکی ہے، اسلئے اس کے ترک کرنے کی رفتار بہت سست ہے۔ حنفی لوگ اس بدعت کو سنت سمجھنے لگ گئے تھے۔ مذکورہ بالا فتویٰ کی بھی مناسب تشہیر نہیں ہوسکی کیونکہ یہ فتویٰ اس تالیف کے اَوراق میں ہی دب کر رہ گیا اور حنفی حضرات کے علم میں آہی نہیں سکا۔ لہٰذا یہ بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس فتویٰ کی خوب تشہیر ہو تا کہ عوام اس پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔
اُمید ہے کہ آپ بھی مذکورہ بالا فتویٰ سے پوری طرح متفق ہوں گے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس فتویٰ کو اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ ماہنامہ 'دارالعلوم دیوبند' کی اگلی اشاعت میں شائع کروا کراس بدعت سے حنفی مسلمانوں کے نجات پانے میں مدد و رہنمائی فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں کیونکہ آپ کا ادارہ دنیا میں حنفی علماکا قدیم مرکز ہے اگر آپ براہِ کرم عریضہ ہذا کی وصولی سے مطلع فرما سکیں تو آپ کا احسان ہوگا۔
آپ کا دعاگو اور خیر اندیش
چوہدری محمد سرور مکان نمبر۱۱،ای ون، حاجی چنن دین روڈ، جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان