ماہِ رمضان کے فضائل ومسائل
سال کے تمام مہینوں میں ماہِ رمضان کو جوفضیلت و برتری اور تفوق وامتیاز حاصل ہے وہ کسی دوسرے مہینے کو نہیں۔ یہ مہینہ نزولِ سعادت کی یادگارہے۔صبر وتحمل اور ایثارِ نفس کا معلم ہے ۔ اس میں جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔جہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے اورشیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔ مغفرت ورحمت کی برسات ہوتی ہے، عصیاں کاروں کو راہِ نجات ملتی ہے۔فسق و فجور میں کمی اور اعمالِ صالحہ میں کثرت ہوتی ہے ۔تلاوتِ قرآن، ذکر واذکاراور شب وروز مجالس تبلیغ ہوتی ہیں ۔اہل ثروت و دولت حضرات رضاے الٰہی کے لیے فرض زکوٰۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لوگ قیام اللیل یعنی نمازِ تراویح میں شرکت کرتے ہیں۔ بارگاہِ الٰہی میں سربسجود ہو کر دعا ومناجات کرتے ہیں، توبہ واستغفار کرتے ہیں اور اپنی بد کرداریوں اور سیاہ کاریوں کو معاف کرا کے جنت ِنعیم کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔
لیکن ماہِ رمضان کے اس روح پرور موسم میں بھی کچھ بدنصیب شر پسند ایسے ہوتے ہیں جن کے شیطانی اعمال اور افعالِ خبیثہ میں رائی برابر بھی تبدیلی نہیں آتی ۔انوار وتجلیات کے اس مہینے میں بھی فسق و فجور کی تاریکی میں مستغرق اور بہیمی خواہشات کی تکمیل میں منہمک نظر آتے ہیں۔ رمضان کے دوران شربِ خمر اور زنا وبدکاری جیسے حرام افعال سر انجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگ عبادتِ الٰہی سے یوں تہی دامن ہو چکتے ہیں کہ انہیں اگر ایک لمحہ بھی انابت ورجوع الی اللہ میں گزارنے کے لیے کہا جائے تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کسی سخت عذاب میں گرفتار کر دیے گئے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر رمضا ن جیسے بابرکت مہینے میں بھی رحمتیں نہیں بلکہ لعنتیں برستی ہیں۔ان کے لیے برکت و جنت کے نہیں بلکہ غضب و عذاب کے دروازے سدا کھلے رہتے ہیں۔
یہ تواُن لوگوں کاحال تھا جو رمضان میں روزوں کے حکم کو کلی طور پر پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔اور جو روزہ دارہوتے ہیں ان میں سے بھی شاید ہی کچھ لوگ مراد کو پہنچتے ہوں، وگرنہ اکثر تو دورانِ روزہ بھی ماہِ رمضان کی قدروں کو پامال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کھانے پینے سے روزہ رکھا ہے لیکن غیبت جیسی لعنت کے ذریعے اپنے مردہ بھائیوں کا خون اور گوشت کھایا جارہا ہے۔ روزہ رکھا ہے لیکن جھوٹ، فریب، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ دورانِ روزہ فلمیں، ڈرامے اور بے ہودہ وفحش قسم کے پروگرام دیکھ کر ٹائم پاس کیا جارہا ہے ۔سگریٹ نوشی اور نسوار کے ذریعے روزہ پکا کیا جارہاہے ۔خواتین روزے کی حالت میں بے حجاب، میک اَپ کرکے،خوشبو لگا کر سڑکوں، بازاروں اور شاپنگ سنٹروں میں غیر محرموں کے ساتھ برسرعام شعائر ِاسلام کا مذاق اُڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ایسے روزے کا کوئی فائدہ نہیں جو ہمیں پرہیز گاری کا سبق نہ دے؛ جو ہمارے اندر تقویٰ وطہارت پیدا نہ کرے؛ جو ہمیں صبر وپرہیز اور تکالیف ومصائب میں تحمل وبرداشت کا عادی نہ بنائے؛ جو ہمارے اندر نیکیوں کا جوش اور گناہوں سے بچنے کی قوت و صلاحیت پیدا نہ کرے اور جو ہماری بہیمی خواہشات کو کچلنے میں ممد ومعاون ثابت نہ ہو۔ بلکہ ایسا روزہ محض بھوک پیاس کا عذاب ہی ہے،اس کے سوا اس کا کچھ فائدہ نہیں ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ
''کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔''
فرضیت ِصیام کی اصل حکمت انسانوں کو صبر وپرہیز کی مشق کرانا ہے جیسا کہ روزوں کے حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خود جامع مانع انداز میں فرما دیا کہ ﴿لَعَلَّكُم تَتَّقونَ﴾ یعنی روزوں کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ تم تقوی وپرہیز اور صبر وتحمل کے خوگر بن جاؤکیونکہ یہی پرہیز تمہاری نجات کا باعث ہے ۔ڈاکٹر حضرات کا یہ قول کہ ''پرہیز علاج سے بہتر ہے''ہم سب نے سنا ہے اور جو پر ہیز ڈاکٹر بتلاتے ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اس سے احتراز کریں۔ اور اگر کوئی پرہیز نہ کرے اور پھر بیمار ہو جائے تو اسے نہ صرف بدمزہ وکڑوی ادویات اپنے حلق سے نیچے اُتارنی پڑتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو علاج کی غرض سے اس کے اعضاے بدن کو چیرا پھاڑا تک جاتا ہے ۔
بعینہٖ رمضان بھی ہمیں پرہیز سکھانے آیا ہے ۔جیسے ہم اللہ تعالیٰ کے منع کرنے پر حلال وپاک اشیا سے دن بھر قطع تعلق و بیزار رہتے ہیں، اسی طرح اس کے منع کردہ تمام برے اَعمال وسیئات سے اجتناب کریں۔لیکن اگر ہم اس پرہیز کی پالیسی کو نہیں اپنائیں گے تو جنت میں داخلے کے لیے علاج کروانا پڑے گا اور تصور کیجیے، کیا وہ علاج کوئی برداشت کر پائے گا ؟کہ نرم ونازک انسان کواپنی بدپرہیزی کا انجام بھگتنے کے لیے اُس آگ میں ڈبو دیا جائے گا جو درجہ حرارت میں دنیاوی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے ۔کھانے کے لیے گندا خون،زخموں سے نکلنے والی پیپ، کانٹے دار جھاڑیاں اور پینے کو اُبلتا کھولتا ہوا پانی پیش کیا جائے گا۔علاج کے بطور سب سے ہلکی سزا یہ ہوگی کہ انسان کو آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن کی حرارت اس قدر شدید ہوگی کہ ان کی وجہ سے اس شخص کا دماغ یوں جوش مارے گا جیسے ہنڈیا چولہے پر جوش مارتی ہے ۔ یہ وہ علاج ہے جس کے بعد دنیا میں بدپرہیز ی کرنے والا انسان جنت میں داخل ہو سکے گا بشرطیکہ مشرک نہ ہو۔اب خود ہی سوچئے کہ پرہیز بہتر ہے یا علاج!!
روزے کی فرضیت و مشروعیت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے' تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔'' (البقرۃ : ۱۸۴)
اگلی آیت میں ہے کہ ''جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔''
حدیث ہے کہ '' جب تم اسے ( ہلالِ رمضان کو) دیکھ لوتو روزے رکھو۔''(بخاری ؛۱۹۰۰)
ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے ۔(بخاری؛۸)
فضائل ِروزہ ورمضان
٭ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں ۔قیامت کے دن اس دروازے سے جنت میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔ان کے سوا اور کوئی اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری ؛۱۸۹۶)
٭جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔(بخاری ؛۱۹۰۱)
٭جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (بخاری؛۱۸۹۸)
ایک روایت میں ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ (بخاری ؛۱۸۹۹)
٭ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی:(ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے )جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گاتو اپنے روزے کا ثواب حاصل کرکے خوش ہوگا۔ (بخاری ؛۱۹۰۴)
٭ روزہ قیامت کے دن مومن بندے کی سفارش کرے گا ۔(صحیح الترغیب؛۹۸۴)
٭ رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہو جاتا ہے ۔(مسلم :۱۲۵۶)
٭ روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔(ترمذی ؛۳۵۹۸)
٭ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں ۔(ابن ماجۃ؛۱۶۴۳)
روزہ کے فوائد
حدیث ِنبوی ہے کہ ''روزے رکھو صحت مند ہو جاؤگے ۔''(الترغیب والترہیب ؛۲؍۸۳)
عصرحاضر کی جدید سائنسی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جسم انسانی پر سال بھر میں لازماً کچھ وقت ایسا آنا چاہیے جس میں اس کا معدہ کچھ دیر فارغ رہے،کیونکہ مسلسل کھاتے رہنے سے معدے میں مختلف قسم کی رطوبتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں لیکن روزے سے یہ رطوبتیں اور ان سے پیدا ہونے والے کئی مہلک امراض ختم ہو جاتے ہیں اور نظامِ انہضام پہلے سے قوی تر ہو جاتا ہے ۔روزہ شوگر،دل اور معدے کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے اور مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ نرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے: سنت ِنبوی اور جدید سائنس: ۱؍۱۶۲
چاند دیکھنے کے مسائل
٭ ماہِ رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے اور (عید کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنا چاہیے۔(بخاری ؛۱۹۰۶)
٭رسو ل اللہ ﷺ جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :
«اَللّٰهُ أَکْبَرُ اَللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ رَبَّنَا وَیَرْضٰی رَبُّنَا وَرَبُّكَ اللّٰهُ » (ترمذی ؛۳۴۵۱)
٭ ہلالِ رمضان کے متعلق ایک دیانتدار مسلما ن کی گواہی کافی ہے۔(ابو داود ؛۲۳۴۲)
٭چاند نظر نہ آسکے تو ماہ ِشعبان مکمل ہونے پر روزے رکھنے چاہئیں۔ (بخاری؛۱۹۰۹)
٭مشکوک دن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔(ابو داود؛۱۳۳۴)
مشکوک دن سے مراد ماہِ شعبا ن کا تیسواں روز ہے یعنی جب اس رات ابرآلودگی کے باعث چاند نظر نہ آئے اور یہ شک ہوجائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟
٭ جب ایک علاقے والے چاند دیکھ لیں تو اس کے گردونواح میں رہائش پذیر لوگوں پر بھی روزے فرض ہوجائیں گے۔البتہ دوسرے مطلع والوں کی رویت مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
٭ اگر رمضان کے تیس دنوں تک شوال کا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے رکھ لینے چاہئیں۔ (بخاری ؛۱۹۰۶)
آدابِ روزہ
٭ روزہ رکھنے والے پر فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے۔ (ابو داود؛۲۴۵۴)
٭نفلی روزے کے لیے زوال سے پہلے بھی نیت کی جاسکتی ہے۔ (مسلم؛۱۱۵۴)
٭ ہر روزے کے لیے الگ نیت کرنا ضروری ہے۔اور نیت محض دل کے ارادے کانام ہے، الفاظ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
٭ سحری کھانے میں برکت ہے اور اس میں اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
(بخاری؛۱۹۲۳ومسلم ؛۱۰۹۶)
٭صبح سحری کے لیے بیدار ہو جانے کے بعد صبح صادق کے خوب نمایاں ہو جانے تک سحری کا وقت ہے۔(البقرۃ ؛ ۱۸۷)
٭مومن کی بہترین سحری کھجور ہے ۔(ابو داود؛۲۳۴۵)
٭تاخیر سے سحری کھانا اورافطاری کا وقت ہو جانے کے بعد جلد افطاری کرنا مستحب ہے۔(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۴؍۳۷۶)
٭جب سورج غروب ہو جائے تو افطاری کر لینی چاہیے، اس کے لیے اذان کا انتظار نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔(بخاری ؛۱۹۵۴)
٭اگر کوئی لاعلمی کے باعث وقت سے پہلے روزہ افطار کر لے تو اس پر نہ قضا ہے اور نہ کفارہ کیونکہ بھول چوک کو معاف کیا گیا ہے۔
٭ رسول اللہؐ کا معمول تھا کہ نمازِ مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ کھولتے۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔(ابو داود؛۲۳۵۶)
٭''نبی کریم ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعاپڑھتے :
«ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ»(ابو دواد؛۲۳۵۷)
٭ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ کثرت کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کے کام سرانجام دے اور ہر قسم کے ممنوع کام سے پرہیز کرے ۔اور اس پر واجب ہے کہ وہ فرائض کی پابندی کرے اور حرام کاموں سے دور رہے۔ پانچوں نمازیں وقت پر باجماعت ادا کر ے اور جھوٹ، غیبت،دھوکہ، سودی معاملات اور ہر حرام قول وفعل چھوڑ دے ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ
''جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل اور جہالت کے کاموں کو نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا اور پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔''
روزہ دار کے لیے مباح اُمور
٭مبالغے کے بغیر کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا۔)ابو داود؛۲۳۸۵)
٭تیل لگانااور کنگھی کرنا۔(بخاری :کتاب الصوم، باب اغتسال الصائم)
٭گرمی کی وجہ سے غسل کرنا۔ (ابو داود؛۲۳۶۵)
٭حالت جنابت میں روزہ رکھنااور بعد میں غسل کرنا۔(بخاری ؛۱۹۲۶)
٭سینگی یا پچھنے لگوانا۔(بخاری ؛۱۹۳۸،۱۹۳۹)
٭سرمہ لگانا ۔(ابن ماجۃ؛۱۶۷۸)
٭ بیوی کو بوسہ دینا اور لپٹنا،اُس کے لیے جو ضبط ِنفس کی طاقت رکھتا ہو۔ (بخاری ؛۱۹۲۷)
٭مسواک کرنا۔(ابو داود؛۲۳۶۴)
٭ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا۔(بخاری :کتاب الصوم ، باب اغتسال الصوم)
٭اپناتھو ک نگلنا۔(بخاری :کتاب الصوم ، باب اغتسال الصائم)
٭مہندی لگانااور میک اَپ کرنا۔(مجموع الفتاویٰ لابن باز ؛۱؍۳۴۹)
روزہ دار کے لیے ممنوع افعال
٭روزے میں وصال کرنا ۔(بخاری ؛۱۹۶۱)
'وصال' سے مراد یہ ہے کہ آدمی ارادی طور پر دو یااس سے زیادہ دن تک روزہ افطار نہ کرے اور مسلسل روزہ رکھے، نہ رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کے وقت۔
٭جھوٹ بولنا'غیبت کرنا اور لڑائی جھگڑا کرنا۔(بخاری ؛۱۹۰۳)
٭لغو، رفث اور جہالت کی باتیں کرنا۔(بخاری؛۱۸۹۴)
٭مبالغہ سے ناک میں پانی چڑھانا۔(ابن ماجۃ؛۴۰۷)
٭جو ضبط ِنفس کی طاقت نہ رکھتا ہو اُس کیلئے بیوی کو بوسہ دینا یالپٹنا۔ (بخاری ؛۱۹۲۷)
روزہ توڑنے والی اشیا
٭جان بوجھ کر کھانے، پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(مسلم ؛۱۱۵۱)اگر کوئی بھول کر کھاپی لے تو اس پر نہ کفارہ ہے نہ قضا کیو نکہ اس کا روزہ بر قرار ہے۔ (بخاری ؛۱۹۳۳)
٭ جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(بخاری ؛۱۹۳۶)
یاد رہے کہ جماع کی صورت میں قضا کے ساتھ کفارہ بھی فرض ہے یعنی ایک غلام آزاد کرنایا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ۶۰مساکین کو کھانا کھلانا۔ (بخاری؛ ۱۹۳۶)
٭ عمداًقے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(ابو داود؛۲۳۸۰)
٭ حیض یا نفاس شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(بخاری؛۱۹۵۱)
٭ سعودی مجلس افتاء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ روزہ دار کے لیے عضلات اور رگ میں ٹیکے سے علاج کرانا جائز ہے لیکن روزہ دار کے لیے قوت بخش ٹیکے لگوانا جائز نہیں کیونکہ یہ کھانے پینے کے معنی میں شامل ہوتے ہیں ۔( فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ :۱۰؍۲۵۲)
٭ روزے کی حالت میں اگر احتلام ہو جائے یا مذی وغیرہ خارج ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ بچے کو دودھ پلانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ۔
٭ شیخ ابن باز ؒنے یہ فتوی دیا ہے کہ ٹیسٹ وغیرہ کے لیے خون دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ (مجموع الفتاویٰ لابن باز ؛ ۱۵؍۲۷۴)
روزوں کی قضا کا بیان
٭ جو شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑدے اس کے لیے قضا دینا ضروری ہے۔ (البقرۃ : ۱۸۴)
٭مسافر اور مریض وغیرہ کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ۔(ایضاً)
٭ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی مسافر کی طرح ہی ہے۔ (ابو داود ؛۲۳۰۸)
٭ جو شخص ایسی حالت میں فوت ہوکہ اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی (یعنی وارث) اس کی طرف سے روزے رکھے۔(بخاری ؛۱۹۵۲)
٭ ورثا کو چاہیے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھیں۔ (مسلم؛۱۱۴۸)
٭ ایسا بوڑھا شخص جو نہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ قضا دینے کی، اُسے چاہیے کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا کر کفارہ ادا کردے ۔(دار قطنی ؛۲؍۲۰۵)
٭ رمضان کی قضا پے در پے روزوں کے ساتھ اور الگ الگ دونوں طرح درست ہے۔ (بخاری تعلیقا :کتاب الصوم، باب متی یقضی قضاء رمضان)
٭ شعبان تک رمضان کی قضا کو مؤخر کرنا جائز ہے ۔(بخاری ؛۱۹۵۰)
é اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہ رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہیں ہوسکتے ۔ (بخاری تعلیقا :کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان)
٭ حائضہ اور نفاس والی عورت روزے نہ رکھے لیکن بعد میں قضا دے۔ (مسلم ؛۳۳۵)
٭ نفلی روزوں کی قضا ادا کرنا ضروری نہیں۔(ابو داود ؛۲۴۵۶)
نمازِ تراویح
٭ نمازِ تراویح فرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بالجزم حکم تو نہیں دیتے تھے البتہ قیامِ رمضان کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور فرماتے تھے :
''جس نے حالت ایمان میں اور اجر و ثواب کی غرض سے قیام رمضان میں شرکت کی اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔''(ترمذی ؛۸۰۸)
٭ نمازِ تراویح مسجد میں باجماعت افضل ہے کیونکہ سنت ِنبوی سے یہی عمل ثابت ہے ۔
٭ رسول اللہ ﷺ نے صرف تین روز باجماعت نماز تراویح پڑھائی اور پھر اس اندیشے کی وجہ سے اسے ترک کر دیا کہ کہیں تراویح فرض نہ کر دی جائے لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمرؓ نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا۔
(بخاری ؛۱۱۲۹ ، ۲۰۱۲...بخاری ؛۲۰۱۰)
٭ عورتیں مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت تراویح میں شرکت کر سکتی ہیں۔(ترمذی ؛۸۰۶)
٭ نمازِ تراویح کا وقت عشا کے بعد سے لے کر طلوعِ فجر تک ہے ۔ (مسلم ؛۷۳۶)
٭ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں نبیﷺ (رات کی نماز) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
(بخاری ؛۱۱۴۷)
٭ نماز تراویح دودو رکعت پڑھنی چاہیے ۔(مسلم ؛۷۳۶)
٭ حضرت عائشہ ؓ کا غلام ذکوان مصحف یعنی قرآن سے دیکھ کر ان کی امامت کرایا کرتا تھا۔ ٭(بخاری:کتاب الأذان : باب إمامۃ العبد والمولی)
٭ تین راتوں سے کم میں قرآن ختم کرنا درست نہیں۔(ابو داود؛۱۳۹۰)
اعتکاف کے مسائل
لغوی اعتبار سے لفظِ اعتکاف باب اعْتَکَفَ یَعْتَکِفُ(افتعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ''بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا ''مستعمل ہے ۔اور شرعی اعتبار سے ''ایک خاص کیفیت سے کسی شخص کا خود کو مسجد میں روک لینا'' اعتکاف ہے۔
٭ ہر عبادت کے لیے نیت ضروری ہے اور چونکہ اعتکاف بھی عبادت ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی نیت لازمی ہے ۔
٭ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص اسے نذر کے ذریعے اپنے اوپر لازم کر لے تو اسے بجا لانا واجب ہوگا۔(فتح الباری ؛۴؍۲۷۱)
٭ ماہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف زیادہ مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے مداومت کے لیے ان ایام کو اختیار کیا تھا ۔
(بخاری ؛۲۰۲۶)
٭ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے رات کو اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی توآپ ﷺنے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔معلوم ہوا کہ رات کو اعتکاف درست ہے اور یہ بات دلیل کی محتاج نہیں کہ رات کو روزہ نہیں ہوتا۔
٭ اعتکاف صرف مساجدمیں ہی کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ قرآن میں اعتکاف کے لیے صرف مساجد کا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ (البقرۃ ؛ ۱۸۷)
٭ اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہے۔ البتہ بعض علما نے جامع مسجد میں افضل قرار دیا ہے۔ (نیل الاوطار ؛۳؍۲۵۵، فتح الباری ؛۴؍۸۰۶)
٭ خواتین بھی مساجد میں ہی اعتکاف کریں گی کیونکہ ان کے لیے اعتکاف کے متعلق کوئی الگ حکم شریعت میں موجود نہیں بلکہ ازواجِ مطہرات بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں۔
٭ بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف بیٹھے۔ (المغنی ؛۴؍۴۸۵)
٭ ۲۰ رمضان المبارک کی شام کو اعتکاف کرنے والا مسجد میں پہنچ جائے اور اگلے روز صبح فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجائے۔ جمہورعلما اور ائمہ اربعہ اسی کے قائل ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی ؛۳؍۵۸۴، فیض القدیر ؛۵؍۹۶، فتح الباری ؛۴؍۳۲۳)
٭ اعتکاف بیٹھنے والا کسی سخت حاجت کے وقت ہی باہر نکل سکتا ہے۔(بخاری ؛۲۰۲۹)امام ابن کثیر ؒفرماتے ہیں کہ اگر کوئی اعتکاف بیٹھنے والا کسی سخت حاجت کے لیے اپنے گھر جائے تو وہاں صرف اُتنی دیر ہی ٹھہرے جتنی دیر اسے وہاں وہ ضروری کام ہے۔(تفسیر ابن کثیر؛۱؍۴۵۹)
٭ اعتکاف کی کم از کم کوئی مدت متعین نہیں ۔ امام شوکانی ؒنے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (السیل الجرار؛۲؍۱۳۶)
٭اعتکاف کی جگہ میں چارپائی اور بستر بھی رکھا جاسکتا ہے۔
(ابن ماجۃ ؛۱۷۷۴)
٭ شوہر کی زیارت کے لیے بیوی کا مسجد میں آنا، اس کے سر میں کنگھی کرنا اور اس کا سر دھونا درست ہے ۔(بخاری ؛۲۰۳۸،۲۰۲۹،۲۰۳۱)
٭ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسجد میں کھانا جائز ہے ۔
٭ استحاضہ کی بیماری میں مبتلا خواتین کے لیے اعتکاف بیٹھنا درست ہے۔ (بخاری ؛۲۰۳۷)
٭ اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگانا درست ہے ۔(بخاری؛۲۰۳۳)
دوران اعتکاف ممنوع افعال
1.کبائر کا ارتکاب 2. جماع وہم بستری کرنا
3. بغیر ضرورت کے مسجد سے باہر نکلنا
4. مریض کی عیادت ،جنازے میں شرکت اوربیوی سے مباشرت
5. عورت کا ایام ماہواری میں اعتکاف
6. شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف
اعتکاف باطل کردینے والے افعال
1. دین اسلام سے مرتد ہو جانا 2. کبیر ہ گناہوں کا ارتکاب کرنا
3. مباشرت وہم بستری کرنا 4. بغیر ضرورت کے مسجد سے باہر جانا
لیلۃ القدر کی فضیلت ومسائل
٭ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
''شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینوں (کی عبادت)سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام) سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح(جبرئیل علیہ السلام ) اتر تے ہیں۔یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔'' (القدر ؛ ۳ تا ۵)
٭حدیث نبوی ہے کہ ''بلاشبہ یہ (بابرکت) مہینہ تمہارے پاس آیا ہے (اسے غنیمت سمجھو)۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔جو شخص اس رات کی خیر وبرکت سے محروم رہا وہ ہر طرح کی خیر وبرکت سے محروم رہا اور اس کی خیر وبرکت سے صرف وہی محروم رہتا ہے جو (ہر قسم کی خیر سے )محروم ہو۔''(ابن ماجہ؛۱۶۴۴)
٭ ایک اور حدیث میں ہے کہ ''جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرتا ہے۔ اس کے پہلے گنا ہ معاف کردیے جاتے ہیں۔''
(بخاری ؛۲۰۱۴)
٭قدر کی رات کونسی ہے؟ اس میں بے حد اختلاف ہے لیکن راجح اور قوی تر قول یہ ہے کہ شب ِقدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
''شب قدر رمضان کے آخری دھاکے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔'' (بخاری ؛۲۰۱۷)
٭شب قدر نامعلوم ہونے کا سبب لڑائی جھگڑا ہے ۔(بخاری ؛۲۰۲۳)
٭فرمان نبویؐ ہے کہ قدر کی رات زمین میں فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ؛ ۲۲۰۵)
٭جسے قدر کی رات نصیب ہو جائے وہ یہ دعا پڑھے
«اللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا» یعنی اے اللہ تعالیٰ !تو بہت معاف کرنے والا ہے'معاف کرنا تجھے پسند ہے۔پس تو مجھے معاف فرما دے۔ (ترمذی ؛۳۵۱۳)
شب قدر کی علامات
1.شب قدر کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہوتا ہے جیسے تھالی۔ (ابو داود؛۱۳۷۸)
2. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کون اسے (یعنی شب قدر کو) یاد رکھتا ہے۔(اس میں)جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ۔(مسلم ؛۱۱۷۰)
3.ایک حدیث میں ہے کہ
''شب قدر آسان اور معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔ اس صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہوتی ہے۔''(مسند بزار ؛۶؍۴۸۶)
صدقہ فطر کے مسائل
٭ صدقہ فطر سے مراد ماہ رمضان کے اختتام پر نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ہے۔
٭ اس صدقے کو رسول اللہﷺ نے فرض قرار دیا ہے ۔
٭ صدقہ فطر کا مقصد خود کو دوران روزہ کیے گئے گناہوں سے پاک کرنا ہے ۔
٭ صدقہ فطر صرف مسلمانوں کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔
٭ صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے اور جدید وزن کے مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے قریب ہوتا ہے۔
٭ صدقہ فطر میں افضل یہ ہے کہ گندم ' چاول ' جو' کھجور 'منقی 'پنیر یا جو اجناس بھی بطور خوراک زیر استعمال ہوں ان سے صدقہ ادا کیا جائے ۔
٭ کسی عذر کی وجہ سے مذکورہ اجناس کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔
٭ سرپرست کو چاہیے کہ اپنے تمام اہل وعیال اور غلاموں کی طرف سے صدقہ ادا کرے ۔
٭ صدقہ فطر کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا جائے ۔
٭ عید سے ایک دو روز قبل بھی صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے ۔
٭ جس کے پاس ایک دن و رات کے لیے اپنی خوراک سے زیادہ اناج نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔
٭ صدقہ فطر کے مستحق صرف مساکین ہیں ۔
نوٹ : مندرجہ بالا تمام مسائل ِروزہ کی مزید تفصیل کے لیے راقم کی کتاب
فقہ الحدیث: کتاب الصیام یا 'مسائل ِروزہ کی کتاب' کا مطالعہ کیجئے۔