فحاشی کی اشاعت ، عذاب الہی کو دعوت!
آج امت مسلمہ ہر طرف مصائب ومشکلات کا شکار ہے ۔دشمن ان پر مسلط ہوچکا ہے۔ان کی خواتین کی عزت تک محفوظ نہیں رہی بلکہ انہیں برسرعام ننگا کرکے اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا جارہاہے۔نوجوان بوڑھوں اور معصوم بچوں تک قتل کیاجارہاہے۔کہیں یہی مسلمان آپس میں دست بہ گریبان ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔
یہ امت جو کبھی دنیا میں سربلند تھی اور اس کی ہیبت اور دبدبہ دشمن پر چھایا ہوا تھا اور ہر کوئی اس کی عظمت کامعترف تھا۔لیکن آہستہ آہستہ اس کی عظمت کا چراغ گل ہونے لگا۔دشمن کی دلوں سے اس کی ہیبت اور دبدبہ ختم ہوگیا۔اور اب یہ عالم ہوچکا ہے کہ یہ امت ہر طرف ذلیل وخوار ہورہی ہے بلکہ ذلت ان کامقدر بن چکی ہے۔اور اس کے ساتھ ہی یہ دنیامیں انتہائی کمزور اور غیر محفوظ بھی ہوچکی ہے۔اوردشمن کا ترنوالہ بن چکی ہے۔
غور وفکر کا مقام ہے کہ یہ امت آخر دنیا میں اس قدر ذلیل وخوار اور غیر محفوظ کیوں ہوگئی؟اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس نے اپنے رب کو فراموش کردیا۔اور اپنے مالک حقیقی کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی عبادت وبندگی اور اطاعت کے لیے پیدا کیا تھا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الزاریات:56)
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔"
انسان اللہ تعالیٰ کا عبد یعنی غلام ہے اور غلام کا کام اپنے آقا کی اطاعت کرنا ہوتا ہے۔لیکن آج اس انسان نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اور زندگی کا مقصد کھیل تماشے کو بنا لیاہے:
﴿وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ﴾
"اور جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنارکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے،ان سے کچھ کام نہ رکھو۔"(الانعام:70)
﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ﴾(المومنون:115)
"کیا تم خیال کرتے ہوکہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طر ف لوٹ کر نہیں آؤ گے"
افسوس کہ ان کے شب وروز اب گناہوں ،نافرمانیوں اور کھیل تماشوں میں بسر ہونے لگے ہیں۔یہ امت اب اس قدر نافرمان ہوچکی ہے۔ کہ اس نے گناہوں کو سمجھنا بھی چھوڑ دیاہے۔بلکہ اب یہ گناہ ان کے روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔حیا باختہ گانے سننا،ٹی وی ،وی سی آر اور ڈش انٹینا کا استعمال اب ہر گھر کی ضرورت بن گیا ہے اور یوں ہر گھر سینما گھر بن چکا ہے۔مراثی ،ڈھوم،کنجر اور فاحشہ عورتوں نے اب فنکار ،گلوکار اور آرٹسٹ کے نام اختیار کرلیے ہیں۔
فلمی گانوں اور ٹی وی میں عشق ومحبت کے نام سے مسلمانوں کو بے شرم وبے حیا بنانے کاکام تیزی سے جاری ہے۔نوجوان بہن،نوجوان بھائی اور ماں باپ ایک ساتھ بیٹھ کر فحش مناظر دیکھتے ہیں۔اورذرا بھی نہیں شرماتے کیونکہ ان میں اب حیاء نام کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان بہن اور بھائی کی آنکھوں سے شرم وحیا کا پانی خشک ہوچکاہے۔والدین جو اس جرم کے اصل مجرم ہیں اور اپنی اولاد کو بے حیا بنانے کا بڑا سبب ہیں۔ان کےدل بھی اللہ کے خوف سے بالکل خالی ہوچکے ہیں۔
حالانکہ حیا امت مسلمہ کا اصل زیورتھا اور غیر مسلم اقوام یہود ونصاریٰ ان سے یہ زیور چھیننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
"وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ""حياء ايمان کی شاخ ہے"(بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان)
جناب عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"الحياء لا يأْتي إلاَّ بخير، وأنَّه خيرٌ كلّه؟"(بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الادب ،باب الرفق والحیاء وحسن الخلق)
"شرم وحیاء خیر وبھلائی کے علاوہ کوئی چیز لے کر نہیں آتی۔"(یعنی حیاء سے ہمیشہ بھلائی ہی پیداہوتی ہے) اور ایک روایت میں ہے۔"حیاء ساری کی ساری خیروبھلائی اور خوبی ہی ہے۔"
جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"پہلے انبیاء کرام علیہ السلام کے کلام میں سے جو بات لوگوں نے پائی(یعنی ان کے کلام میں جوبات موجود تھی) وہ یہ ہے:
"إذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْت" (صحیح بخاری)
"جب تم میں شرم وحیا ختم ہوجائے تو پھر کر جو تیراجی چاہے"
شرم وحیا ہی انسان کو ہر قسم کی بُرائی اور بدکاری سے ر وکتی ہے اور جب انسان میں یہ جو ہر ہی ختم ہوجائے تو پھر اسے برائی اور بدکاری سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ وَالإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ , وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ " .
(رواہ احمد(501/2) والترمذی وقال الترمذی :ہذا حدیث حسن صحیح ورواہ الحاکم(52/1) وقال صحیح علی شرطہما واقرہ الذہبی)
"حیاء ایمان کاایک حصہ ہے اور ایمان جنت میں ہے اور بے شرمی وبےحیائی ظلم کا ایک حصہ ہے اور ظلم جہنم میں ہے۔"
ثابت ہواکہ حیا دار مومن کاانجام جنت ہے جب کہ بے شرم وبےحیاء انسان کاانجام جہنم ہے۔اسی طرح جو لوگ اہل ایمان میں بے شرمی وبے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے کے محرک ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اسلامی معاشرے میں سے شرم وحیا کاجنازہ اٹھ جائے ایسے لوگ دنیا میں بھی درد ناک عذاب سے دو چار ہوں گے اور آخرت میں بھی انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔اور جہنم کاعذاب انتہائی سخت اذیت ناک اور ناقابل برداشت عذاب ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النور:19)
"جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا میں اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔اللہ(عذاب کی شدت کو) جانتاہے اور تم نہیں جانتے۔"
جولوگ اپنے گھروں میں فلمی گانے،ٹی وی،وی سی آر اور ڈش انٹینا خرید کر لاچکے ہیں،یہ چیزیں ان کے دین وایمان کو کس قدر نقصان پہنچارہی ہیں،اس کا اندازہ اس آیت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (6) وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾(لقمان:6۔7)
"اور لوگوں میں بعض وہ بھی ہیں کہ جو خریدار ہیں کھیل تماشے کی باتوں کے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیربھٹکادیں اور اسے(اسلام کو) ہنسی مذاق بناڈالیں ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتاہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں پس مژدہ سنادواسے درد ناک عذاب کا۔"
سعد اے مفلحین کے مقابلہ میں یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور عاقبت نا اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ،کھیل تماشے یا دوسری واہیات وخرافات(جیسے ٹی وی ،وی سی آر،ڈش وغیرہ) میں مستغرق ہیں اور چاہتے ہیں اور کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل وتفریحات میں لگا کر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کردیں اور دین کی باتوں پر خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔
حضرت حسن"لہوالحدیث" کے متعلق فرماتے ہیں:
"كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها." (روح المعانی)
یعنی"لہوالحدیث"ہر وہ چیزہے جو اللہ کی عبادت اور یاد سے ہٹانے والی ہو۔مثلاً فضول قصہ گوئی،ہنسی مذاق کی باتیں ،واہیات مشغلے(جیسے ڈرامے،فلمیں اور گانا بجانا وغیرہ)(تفسیر عثمانی)
ان آیات میں ان کفار کا ذکر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پیش کرنے کے مقابلے میں گانے اور ناچنے والی عورتیں لوگوں کے سامنے پیش کر تے تھے۔بالکل یہی حالت آج کل مسلم قوم کی ہوگئی ہے کہ وہ قرآن کریم کو چھوڑ کر گانے،موسیقی،ٹی وی اور ناچ رنگ کی دلدادہ اور انہی چیزوں کی خریدار بن چکی ہے ۔بلکہ اب وہ اس معاملے میں ان کفار سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکی ہے۔
بے شرمی وبے حیائی کے کام حرام ہیں:۔
﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.﴾(الاعراف:33)
"اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں :بے شرمی کے کام،خواہ کھلے ہوں یا چھپے،اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کےساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے۔"
﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ...﴾ (الانعام:151)
"اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ آ ؤمیں تمھیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا کیا چیزیں حرام کی ہیں:
1۔یہ کہ اس کے ساتھ شریک کسی کو شریک نہ کرو۔
2۔اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
3۔اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو،ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں اوران کو بھی دیں گے۔
4۔اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی۔۔۔"
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (168) إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (البقرہ:168۔169)
"لوگو!زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں!انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔تمھیں بدی اور فحش کا حکم دیتاہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں۔"
جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غیرت کرتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"والله إني لأغار والله أغير مني ومن غيرته نهى عن الفواحش"(مسند احمد:ج2 ص326 وقال الہشیمی ر واہ احمد ورجالہ ثقات)(مجمع الزوائد :ج6ص 254)
"اللہ کی قسم بے شک میں غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے۔ اور اللہ کی غیرت کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس نے فحش(بے شرمی وبے حیائی اور بدکاری) سے منع فرمایا ہے"
ایک حدیث میں ہے:
"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ : " لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلا اللَّعَّانِ وَلا الْفَاحِشِ وَلا الْبَذِيءِ " .
"مومن نہ تو طعنے دینے والا،نہ لعنت وملامت کرنے والا،نہ فاحش(یعنی نہ بے شرم وبے حیاوبدکار) اور نہ زبان دراز ہوتا ہے۔"
(رواہ الترمذی والبیہقی فی شعب الایمان(مشکوٰۃ المصابیح ج3 ص1362)وکتاب الایمان لاب ابی شیبۃ وقال الالبانی والحدیث صحیح الاسناد ص36 طبع کویت )
قوموں کے عروج زوال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہم سب کے غوروفکر اور آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:
﴿فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59) إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا﴾(سورہ مریم:59۔60)
"پھر اس کے بعد ایسے نالائق پیدا ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور دلی خواہشات میں لگ گئے،تو ان کی گمراہی ضرور ان کے سامنے آئے گی،مگر جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے کام کرے تو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔"
امت مسلمہ آج دنیا میں ذلیل وخوار اور انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور آخرت کاشدید ترین اور ابدی عذاب بھی ان کے سروں پر منڈلارہاہے۔کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے بھی آیت کے مصداق ترک اعمال صالحہ کو اپنا شیوہ اور فحاشی وبے حیائی کو اپنی فطرت ثانیہ بنا لیاہے۔اور اہم اللہ کی وعید کا مصداق بن رہے ہیں۔یہ امر ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ہمارےمخلصانہ رائے ہے کہ امت مسلمہ اگر ذلت وخواری کے اس عمیق غار سے نکلنا چاہتی ہے اور آخرت کے عذاب سے بچنا چاہتی ہے تو دین اسلام کی طرف سچے دل سے پلٹ آئے۔اور شریعت اسلامیہ یعنی قرآن وحدیث کو اپنے جسم ،گھر اور اپنے وطن پر عملاً نافذ کرے تو جہاں آخرت کی کامیابی و کامرانی اس کا مقدر ہوگی وہاں دنیا میں بھی عزت ووقار سے جی سکے گی۔
ہم سود اگر ان فحاشی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈر جائیں اور اللہ کا خوف اختیار کرتے ہوئے فوراً اس حیا سوز کاروبار کو ختم کردیں۔اور حکومت وقت کو بھی دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ اس دن کے آنے سے پہلے کہ جب وہ سب سے زیادہ کمزور اور بے اختیار ہوں گے آج اپنے اختیار کو استعمال کرکے فحاشی کے اس تمام کاروبار کو فوری طور پر بند کرنے کے واضح اور ٹھوس اقدامات کرے،کیا عجب ہے کہ انکا یہ عمل انہیں آخرت کے شدید عذاب سے بچالے۔آمین!وما علینا الا البلاغ المبین۔