فروری 1999ء

ستر و حجاب ، دینی و تہذیبی تصورات

(((ملک میں نفاذ شریعت کے حوالے سے بعض اسلام دشمن لابیوں کے پردہ کے بارے میں کیے جانے والے پروپیگنڈہ کے تناظر میں روزنامہ جنگ نے گذشتہ دنوں چند سوالات ترتیب دیے اور ادارہ محدث سے ان کی بابت شرعی رائے طلب کی۔ان سوالات کی نوعیت ان سے مختلف ہے۔جن میں شرعی رائے معلوم کرنے کا مقصد عموماً اس پر عمل کرنا ہوتا ہے ۔بلکہ یہ سوالات اس مغرب ذدہ ذہن کی عکاسی کرتے ہیں جن سے بعض اوقات تو اسلام پر تنفیذ کے نئے دروازے کھولنا اور بعض اوقات صرف نظری بحث تک ہی کفایت کرنا مقصود ہوتاہے۔پردہ اور اسلامی ستر وحجاب کی حقیقت اور نوعیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔سوال صرف اس ایمانی غیرت وجذبے کاہے جس کی بنا پر مسلمان کے لیے اس صریح حکم اسلامی کی بجالائے بنا چارہ نہ رہے۔۔۔علاوہ ازیں ان سوالات کا زیادہ تر تعلق اصل موضوع کی بجائے دعوت دین کی حکمت عملی سے بھی ہے جس کو بجالانا دور جدید کے مخصوص تناظر میں ازحد ضروری بلکہ دینی تقاضاہے ۔اسی کے پیش نظر در ج ذیل جوابات دئے گئے ہیں۔(ادارہ)))
سوال۔1۔ستروحجاب کااسلام میں کیامقام ہے؟
1۔ستر وحجاب اسلام میں نسوانی تہذیب کاایک شعار ہے۔اسلام کا نام آتے ہی عورت کے بارے میں جو تاثر قائم ہوتاہے۔وہ حیادار ،پردہ میں لپٹی ہوئی خاتون کاہے۔اسی لیے مشرقی ممالک میں عورتوں کو مستورات کہتے ہیں۔عربی زبان میں عورت کا لفظ پردے والی اور حیادار چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔قرآن مجید میں تین اوقات جن میں بچوں اور خادموں کو بھی بغیر اجازت خلوت خانوں میں داخل ہونے کی ممانعت کی گئی ہے۔ان اوقات کے لیے عورت کالفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"ثَلَٰثُ عَوْرَٰتٍۢ لَّكُمْ" ۚ (سورہ نور 24۔58)
یعنی عشاء کی نماز کے بعد،صبح کی نماز سے قبل اور دوپہر کے آرام کے وقت،یہ تین اوقات تمہارے لیے عورت ہیں۔
سوال۔نمبر2۔کیامشرقی اور اسلامی تہذیب میں کوئی فرق ہے؟
چونکہ اسلام زیادہ تر مشرق میں پھیلاؤ اور وہیں اس کی معاشرتی اقدار قائم ہوئیں۔اس لیے عام طور پرمشرق اور اسلام کو ایک ہی سمجھا جاتاہے۔حالانکہ اسلام الہامی تعلیمات کا نام ہے خواہ وہ مشرق میں رائج ہوں یا مغرب میں۔البتہ مشرقی علاقوں میں مسلمانوں کی عمومی بودوباش کی وجہ سے اسلامی اقدار بچی کچھی صورت میں زیادہ تر یہیں موجود ہیں۔جبکہ مغرب عمومی طور پر حیا باختہ تہذیب کا حامل ہے۔اس میں نہ صرف مردوعورت کی جنس کا کوئی امتیاز نہیں بلکہ ماں بہن کے رشتوں کاتقدس بھی موجود نہیں۔
صرف اپنے سائنسی اور تکنیکی ترقی کی بدولت مغرب جہاں مشرقی ممالک پر سامراج کی صورت چھایا رہا وہاں وہ اپنی ثقافتی یلغار قائم کیے ہوئے ہیں۔صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے۔کہ ترقی کے نام پر مشرقی ممالک میں ستروحجاب کامسئلہ تہذیبی تصادم کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
البتہ یہ کہنا مناسب ہوگاکہ مشرقی معاشروں میں اسلامی تہذیب کی چند بنیادی قدریں موجود ہیں جبکہ مغرب ان سے بالکل عاری ہے۔تاہم اسلام کو مشرق ومغرب سے کوئی خصوصی علاقائی تعلق نہیں۔اس کی تعلیمات آفاقی ہیں اور عملی طور پر اسلام کا رویہ معاشروں سے ایساہوتاہے۔کہ معاشروں کی ایسی قدریں جن میں خیر وشر یا حسن وقبح کاسوال پیدا نہیں ہوتا،اسلام ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔
اسلام نے مرد وعورت کے صنفی صلاحتیوں اور امتیازات کی بنا پر دونوں کے مختلف دائرہ کار متعین کیے ہیں۔چونکہ اللہ رب العالمین بنی نوع انسان کی دونوں صنفوں مرد اور عورت کاخالق ہے اس لیے اسے دونوں کی خصوصیات کابخوبی علم ہے لہذا اس نے دونوں کی صلاحیتوں کے مناسب دائرہ کار رکھے ہیں۔اور ان کے مطابق ہی ان کے شعار نمایاں کیے ہیں۔گویا اسلامی تعلیمات میں عورت حیا کی پتلی،گھر کی زینت اورحرمت کی حامل(محترم شخصیت) ہے ۔اس لیے اسلام نے جہاں مرد کو اس کامحافظ بنایاہے وہاں اسی حفاظتی ضرورت کے پیش نظر عورت کو چند قدروں کا پابند بھی کیاہے جس میں ایک ستروحجاب بھی ہے۔
سوال۔نمبر3۔ستروحجاب کی کیا حدود ہیں؟
اسلام میں عورت سر سے پاؤں تک مستور ہے جس میں صرف اس کاچہرہ،ہاتھ اور پاؤذں کا کچھ حصہ ظاہر کیا جاسکتا ہے۔لیکن غیروں کے لیے زینت ہونے کی بنا پر یہ چیزیں بھی کشش کاباعث ہوتی ہیں۔اس لیے عورت کو حجاب کا بھی حکم دیا ہے۔تاہم علاقائی اور موسمی تقاضوں کے پیش نظر سائر ہونے کے علاوہ جس طرح لباس کے لیے کوئی مخصوص وضع قطع متعین نہیں کی گئی۔اسی طرح حجاب کے لیے بھی پردہ کے علاوہ برقعوں کی کوئی خاص صورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں تاریخی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ستروحجاب کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے جاتے رہے ہیں جس سے مقصود عورت کو غیر محرم کی نظر سے کلی طور پر مستور رکھنا رہا۔اسلام عورت کو غیر محرم کے ساتھ خلوت سے اجتناب کرنے کے علاوہ گفتار میں لوچ اور رفتار میں بے باکی سے بچنے کی تلقین بھی کرتاہے۔قرآن مجید نے ان دونوں باتوں کا واضح الفاظ میں حکم دیا ہے۔عورتوں کے لیے ارشاد ہے:
"فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ"(احزاب۔32۔33)تم نرم لہجے میں بات مت کرو کہ جس سے بیمار دل میں کوئی غلط خیال پیدا ہو۔
"وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ"
(سورہ نور 24۔31)اور زور زور سے پاؤں مارکر مت چلو کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔
ان ہدایات کے باوجود شریعت سے بے بہرہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پردہ صرف دل کا ہوتا ہے۔وہ مغرب زدگی کی بنا پر پردے کے شرعی احکام سے رخصت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ایسی باتیں اسلامی مقاصد سے کس طرح ہم آہنگ ہوسکتی ہیں۔البتہ یہ درست ہے کہ اسلام کےتہذیبی مظاہر کے پیچھے مقاصد کی روح نظر انداز نہیں ہونی چاہیے جس طرح آج کل ہماری عبادات بھی اس سے خالی ہورہی ہیں۔جس کو نوحہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا ۔
ع۔۔۔رہ گئی رسم اذان ،روح بلالی نہ رہی۔
لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ روح کے نام سے ہم مظاہر تہذیب بھی کھوبیٹھیں۔اسلام عبادت اور تہذیب دونوں کاحامل ہے۔جن کی بنیادیں ہمارے عقیدے اور ثقافتی افکار کی صورت میں قائم ہیں۔مغرب کی سائنسی ترقی سے استفادے کی دوڑ میں کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم وہ سائنسی ترقی تو پانہ سکیں لیکن مغرب اپنے جس اخلاقی اور خاندانی نظام کی ابتری پر نوحہ کناں ہے ہم بھی اس سے دو چار ہوکر اپنے تہذیبی جواہر پاروں سے محروم ہوکر رہ جائیں۔
سوال نمبر4۔کیاسڑکوں پر بے پردہ نظر آنے والی خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کی جاسکتی ہے؟
جواب۔اصل سوال یہ نہیں کہ سڑکوں پر بے پردہ نظر آنے والی خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کی جاسکتی ہے یا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا تلقین کے ذریعے آپ کسی کو پردہ کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں؟جس کاجواب یقیناً نفی میں ہوگا۔
اسلام کااپنا مکمل نظام حیات ہے ۔جب تک افراد کو ایسا موافق ماحول نہ دیاجائے اور اسی نقطہ نظر سے ان کی ذہنی اور عملی تربیت نہ ہو۔اس وقت تک معاشرے کے افراد سے یہ توقع کرنا بیکار ہوگا کہ وہ اسلامی تہذیب میں رنگے جائیں۔ہمیں پہلے ایسے معاشرتی نظام کو تدریجی مراحل سے گزارتے ہوئے اس میعار تک لانا ہوگا کہ معاشرے کے لیے ہماری تلقین قابل قبول ہوسکے۔گویا افراد کی ذہنی تربیت پہلے ہوگی پھر تلقین کا فائدہ۔۔۔لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک اہم فریضہ ہے۔جسے مسلمانوں کو ہر صورت انجام دیتا ہے۔
اس کی بعض صورتیں حکومت کے ساتھ خاص ہوں گی کیونکہ اس کے لیے طاقت کی ضرورت ہے جس کااہتمام حکومت کی طرف سے ہی ممکن ہے۔ چنانچہ صورت مسئولہ میں بھی حکومتی انتظام کیاجاسکتاہے اور حکومت کے کارندے ہی سرعام بے پردہ عورتوں کو کہہ اور ٹوک سکتے ہیں جیسے قانون شکنی پرداروگیر کا اہتمام ہوتاہے تاہم جہاں مسئلہ صرف وعظ ونصیحت کا ہو،وہاں مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پابند ہے۔
سوال۔نمبر5۔گھر کی چاردیواری کے اندر کس کس سے پردہ کرنا چاہیے؟
جواب۔اسلام کے معاشرتی نظام میں ایک گھر کی چار دیواری کے اندر عموماً وہی لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں جن سے حرمت کا مقدس رشتہ قائم ہو۔مثلا میاں بیوی ،والدین،بہن بھائی اور اولاد وغیرہ۔لیکن اگر کسی مشترکہ خاندانی سسٹم میں غیر محرم افراد بھی موجود ہوں جیسے دیور،جیٹھ وغیرہ تو ان سے مناسب پردہ ضروری ہوگا۔اسی طرح تمام کزنز خواہ چچا زاد ہوں یا ماموں یا خالہ کے بیٹوں سے بھی واضح رہے کہ بہنوئی،خالو اور پھوپھا بھی غیر محرم کی فہرست میں شامل ہیں۔
سوال ۔نمبر6۔جس گھر کی خواتین پردہ نہیں کرتیں اس گھر کے مرد حضرات کی کیا ذمہ داری ہے؟
جواب۔مرد مکمل طور پر اپنے زیر اہتمام افرادخانہ کے ذمہ دار ہیں۔وہ قرآن کی رو سے عورتوں کے قوام ہیں۔یقیناً ایک باپ بیٹی کے ،بھائی بہن کے اور شوہر بیوی کے معاملات میں کوتاہی کے ذمہ دار ہیں۔کیونکہ اسلام کے تصور معاشرت میں یہ تمام افراد مل کر خاندان بنتے ہیں۔بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
ع۔۔۔نسوانیت زن کامحافظ ہے فقط مرد
سوال۔نمبر7۔مخلوط تعلیمی اداروں میں بے پردہ بچیوں کے لیے کیا اسلامی احکامات ہیں؟
جواب۔اسلام میں عورت اور مرد کے اختلاط کاکوئی تصور نہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ دور میں بھی ازواج مطہرات اور عام مسلمان عورتوں کو مر دوں سے اختلاط کرنے سے روکاگیا۔جب اسلام نے معاملات حیات میں عورت اور مرد کا دائرہ کار الگ کردیا ہے تو آپ یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں مین مخلوط معاشرت پروان چڑھ سکے؟یہ بات تو اسلام کی بنیاد سے ہی ہم آہنگ نہیں ہے۔