وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اس مضمون میں قرآن کریم اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایمان افروز قرآنی طرز عمل کی بعض جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔مسلمانوں کی دین ودنیاکی کامیابی قرآن پرعمل کرنے سے ہی مشروط ہے۔گذشتہ ماہ جورمضان المبارک کامقدس اور بابرکت مہینہ تھا،قرآن کریم کی تلاوت اور قیام اللیل میں اُس کی سماعت کا خاص اہتمام کیاجاتاہےاور قرآن کے فیوض وبرکات سے (؟) وافر اٹھایا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اسی طرح قرآنی احکام اور تعلیمات کو بھی حرز جان بنائے اور اس پر عمل کے تقاضے پورے کرے تاکہ ہم اللہ کے دیئے گئے وعدوں کے حق دار بن سکیں۔قرآن پر عمل بجالانے کی اسی ضرورت واہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ مقالہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
یہ عنوان در اصل علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے۔جو ان کی طویل نظم"جواب شکوہ" سے لیا گیا ہے۔اس شعر میں علامہ اقبال مسلمانوں کوبڑی دلسوزی سے قرآن کریم جیسی عظیم اور مبارک کتاب کی طرف از سر نو رجوع کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔کیونکہ دور اول میں بھی مسلمانوں نے تاریخ عالم میں جو عظیم الشان کارہائے نمایاں انجام دیے اور تہذیب انسانی کی تعمیر وتشکیل میں جوقابل قدر حصہ ادا کیا،قرآن و سنت کے ساتھ خصوصی تعلق اور قلبی شغف ہی کا نتیجہ تھا۔
قرآن پاک انسانیت کے لیے تاقیامت ہدایت نامہ ہے۔یہ شریعت اسلامیہ کا ماخذ اول اور اسلامی تعلیمات کا منبع ہے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قرآن کریم کو دوسرے تمام کلاموں پر وہی فضیلت حاصل ہے۔جو خود اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنی مخلوق پر۔خود قرآن پاک اپنا تعارف ان الفاظ میں کرواتا ہے:
﴿ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾
یعنی یہ کتاب ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے اور یہ پرہیز گاروں کے لیےہدایت ہے ۔
دوسری جگہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:
﴿إِنَّّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ﴾
بے شک یہ قرآن پاک سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
یہ قرآن پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ کی جانب سے حضر ت جبرئیل علیہ السلام امین کے ذریعہ نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن پاک کے ہر ایک حکم پرعمل کرکے لوگوں کے سامنے منشائے الٰہی مکمل اور اکمل صورت میں واضح فرمادیا،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے،ایک قرآن وہ تھا جو کتاب کی شکل میں صحیفوں میں موجودتھا اور اس کی چلتی پھرتی تصویر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۃ حسنہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:
﴿لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ﴾
کہ جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر یقین رکھتاہے اس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ زندگی موجود ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نعمت اسلام کے صحیح قدر دان تھے وہ قرآن کے ایک ایک حکم پر دل وجان سے برضا ورغبت عمل کرتے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانثار اور وفادارتھے۔
اسلام کی بنیادی تعلیم:۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ا س کی تعلیم ابدی ہے،تاقیامت محفوظ رہے گی۔یہ قابل عمل ہے۔خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہر حکم پر پہلے خود عمل کرکے دکھایا اسلامی تعلیم ہمہ گیرہے اور جامع ہے ہرہر انسان کے لیے یکساں فیض بخش ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں یہ ہدایت وراہنمائی فراہم کر تی ہے۔نظام اسلام کابنیادی نکتہ کلمہ طیبہ کا اقرار ہے۔یعنی جو شخص لاالٰہ الا اللہ پڑھتاہے وہ اس کاممبر بن جاتا ہے۔یہ کلمہ لاالٰہ الا اللہ بذات خود ایک انقلابی کلمہ ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ ہی کاہے۔وہی اصل حاکم ہے باقی سب بندے ہیں۔ اس کے غلام اور اس کےفرمانبردار ۔چنانچہ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں اسی کی بندگی اختیار کرو۔یہی راستہ سیدھا ہے اسی سے تم دنیا میں کامیابی وسرخروئی اور آخرت میں نجات حاصل کرسکتے ہو۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قُولُوا : لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا " .
اے لوگو! تم لا الٰہ الا اللہ کہوتم فلاح پاجاؤ گے۔ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں"اے لوگو تم مجھ سے ایک کلمہ قبول کرلو،اس سے تم عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے"چنانچہ کلمہ طیبہ ایک انقلابی کلمہ ہے۔اور قرآن کا پیغام دلوں کی دنیا بدل کر رکھ دینے والاہے۔یہی وجہ ہے کہ ادھر یہ عقیدہ دل میں اترا ادھر خارج میں اس کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ جب لوگوں نے اپنے خالق کو پہچان لیا اور اسی کی عبادت کرنے لگے تو وہ بندوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے اور خواہشات نفسانی کی بندگی انہوں نے آزادی پالی،ان کےاخلاق سدھر گئے۔اور کردار سنور گئے ۔ہر ایک کو ایک ہی فکر تھی کہ میں اپنے ایک ایک کام کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے روز قیامت جوابدہ ہوں۔لہذا اپنے تمام فرائض نیک نیتی اور خلوص سے انجام دوں۔ دوسروں کے حقوق برضا ورغبت ادا کروں تاکہ اللہ کے ہاں سرخروئی حاصل کرسکوں۔اوامرونواہی کو کما حقہ ادا کرنے کی کوشش کروں،تاکہ اللہ جو ہر جگہ حاضر ناظر ہے جو عالم الغیب والشھادۃ ہے،مجھ سے راضی ہوجائے۔
قرآن اور اسلام نے کس طرح دنیا میں انقلاب برپا کیا:۔
یہ سمجھنے کے لیے ہمیں اس عہد پر طائرانہ نگاہ ڈالنی لازمی ہے۔بعثت نبوی کے وقت یعنی چھٹی صدی عیسوی تاریخ کا وہ دور ہے۔ جب انسانیت پر ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾
"کانقشہ تھا یعنی لوگوں کے کرتوتوں کی بناپر خشکی اور سمندر میں فساد رونما ہوچکا تھا۔مصر کے اہرام اپنے تابناک تمدن کے مٹ جانے پر حیران وششدر تھے۔حمورابی جیسے عظیم قانون دان کے قوانین داستان پارینہ بن چکے تھے ۔یونانی علم ودانش کی وارث رومی تہذیب بھی اب دم توڑ رہی تھی۔عیسائیت زوال پذیر تھی۔ہندوستان نے برہمنوں نے مذہب اور سماج دونوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا ۔غرض دنیا کے ہر خطے میں جہالت اور تاریکی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔خود عرب کے حالات اس وقت بڑے دگر گوں تھے۔ڈاکہ زنی،قتل وغارت،لوٹ کھسوٹ ان کا پسندیدہ پیشہ تھا۔شراب وزنا ان کی گھٹی میں پڑے تھے۔عورتوں کا مقام ومرتبہ بہت پست تھا۔لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگورکردیاجاتا۔باپ کی وفات پر سوتیلے بیٹے دیگر جائیداد کی طرح باپ کی بیویوں پر بھی قبضہ جمابیٹھتے۔شرک اور بت پرستی اتنی عام تھی کہ خود مرکز توحید یعنی خانہ کعبہ کے اندرانھوں نے360 بت رکھے ہوئے تھے۔پوری دنیا معاشی،سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے مختلف ہلاکوں میں بٹی ہوئی اور باہم برسرپیکار تھی۔غریب عوام ان بلاکوں کی چکی کے پاٹوں میں پس کر سسک رہے تھے۔اوردم توڑنے کے قریب تھے کہ رحمت الٰہی نے جوش مارا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر قرآن حکیم جیسا نسخہ کیمیا دے کر مبعوث فرمایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تئیس سال تک حسن وخوبی کے ساتھ اپنا مشن ادا کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دس لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی۔عرب کے جاہل بدو اب اپنے دور کے بہترین انسانی نمونے بن چکے تھے اب وہ زمانے کی زمام کار کو کنٹرول کر رہے تھے۔وہ اپنی دھن اور اپنے عزم میں اتنے پختہ تھے کہ"جان جائے مگر دولت ایمان نہ جائے"کا عزم صمیم رکھتے تھے۔بڑی بڑی مضبوط ومستحکم حکومتوں کو انہوں نے آناً فاناً تہہ وبالا کرڈالا۔جسم ان کے گو نحیف وناتواں تھے مگر خیالات اور عزائم ٹھوس اور غیر متزلزل تھے۔ہاتھوں میں ٹوٹی پھوٹی تلواریں،بدن پر پھٹے پُرانے کپڑے مگر آداب شاہانہ کو پائے حقارت سے ٹھکراتے تھے وہ اپنے دور کے بڑے بڑے عالم اورتہذیب وتمدن کے بڑے علمبردار بن چکے تھے۔
قرآن پاک اس اسلامی معاشرے کی تصویر یوں کھینچتاہے۔سورہ فتح میں ارشاد ہوتا ہے"محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔اور آپ کے ساتھی حق کی مخالفت کرنے والوں کے مقابلے میں مضبوط ہیں اور آپس میں نرم خو۔تو انہیں خدا کے حضور رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔یہ لوگ اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔ان کی پیشانیوں پر سجدے کےنشان نمایاں ہیں۔ان کا یہی نقشہ توراۃ میں پیش کیا گیا ہے۔اور یہی نقشہ انجیل میں بھی ہے۔جیسے کوئی پودا اپنی کونیل نکالے پھر وہ مضبوط اور موٹا ہو۔پھر تن آور درخت بن جائے اور کسانوں کو بھلا معلوم ہونے لگے"
قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ان قدسی نفوس کو اللہ نے یوں اپنی رضا کی سندعطا فرمائی۔
رضی اللہ عنھہم ورضواعنہ۔اللہ ا ن سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس معاشرہ کی تصویر یوں کھینچتے ہیں:وہ یعنی "اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سے پاکیزہ ترین دل رکھنے والے عمیق ترین علم رکھنے والے،اور کم سے کم تکلف کرنے والے تھے"شہنشاہ روم کے سپہ سالار نے ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یوں رپورٹ دی :
"كانوا رهبانا بالليل فرسانا بالنهار"
کہ وہ لوگ رات کو شب زندہ دار عابد ہوتے ہیں اور دن کو گھوڑے کی ننگی پشت پر شہادت کے خواہاں" یہی وجہ ہے کہ قلت تعداد اور کمی اسلحہ کے باوجود تھوڑے عرصے میں وہ روم اور ایران کے مالک بن گئے۔
لمحہ فکریہ:۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے،کہ عرب کے لوگوں میں یہ حیران کن اور سریع الاثر انقلاب کس طرح رونما ہوا تو اس کا ایک جواب ہے،قرآن وسنت سے گہرا تعلق۔قرآن کریم تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی زندگی کا محورتھا۔کوئی قرآن کریم کی تلاوت کررہا ہے۔کوئی اس کو خط لکھ رہا ہے،کوئی اس کو حفظ کررہا ہے،کوئی اس کو نماز میں پڑھ رہا ہے۔کوئی اس کے مفہوم ومطالب سیکھ رہاہے۔کوئی اس کی تفسیر دوسروں کو سمجھارہا ہے۔کوئی تجوید وترتیل سے پڑھ رہا ہے۔حضرت سعید بن جبیر ایک دفعہ ساری رات ایک آیت بار بار تلاوت کرتے رہے حتیٰ کہ صبح ہوگئی،اس طرح کے واقعات روایات میں بکثرت ملتے ہیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ"
یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کو اپنی ہدایت کے لیے سیکھتا ہے پھر آگے دوسروں کوسکھاتاہے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے۔ایک وہ شخص ہے جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا ہو پھر وہ شب ورز اس کی تبلیغ وتلقین کرنے اور اس کی اشاعت کرنے میں مصروف ہوا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ شب وروز اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو۔"
چنانچہ قرآن کریم ان کی زندگی کامرکز ومحور بن چکا تھا۔وہ پڑھتے تھے تو دل اللہ کے رعب سے بھر جاتے،جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف طریقوں سے اور مختلف مثالوں سے سمجھاتے تھے کہ قرآن کریم کی ایک آیت دنیا جہاں کی بڑی سے بڑی دولت سے بڑھ کر باعث برکت اور باعث رحمت ہے۔اسی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قرآن کریم کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا ان کے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت وجلالت جاگزین ہوگئی۔وہ صفائی اور پاکیزگی کی حالت میں نہایت ادب واحترام سے اسے چھوتے تھے،تلاوت ومطالعہ کے وقت کسی سے بات نہ کرتے۔ایک دفعہ کسی نے قرآن مجید ہاتھوں میں پکڑے ہوئے اپنا جسم کھجایا تو حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ناراض ہوئے اور تادیباً وضو کرنے کا حکم دیا۔
عمل بالقرآن:۔
اس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اپنی نظیر آپ تھے۔وہ ہر آیت اور ہرحکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔تحویل قبلہ کاحکم سنتے ہی فوراً نماز کے اندر ہی چہرے نئےقبلے کی طرف پھیرلیے۔شراب کی حرمت کا حکم آیا تو ہونٹوں تک آئے جام واپس چلے گئے اور مدینہ کی تمام گلیاں شراب سے گلرنگ ہوگئیں اور اس کے برتن تک توڑ دیے گئے ۔چار سے زائد بیویاں رکھنے کی ممانعت آئی تو لوگوں نے اپنی پیاری بیویوں کو فوراً رخصت کردیا۔
اسی طرح حکم آتے ہی مشرک بیویوں کو چھوڑ دیا گیا۔جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ﴾
یعنی"تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز راہ خدا میں خرچ نہ کرو"تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا عزیز ترین باغ راہ خدا میں دے دیا۔جب پردے کا حکم آیا تو سب عورتوں نے اپنی چادریں لے لیں اور اگلے دن مدینہ میں کوئی خاتون پردہ کے بغیر نظر نہ آتی تھی۔جب قرآن میں حکم آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھو تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز اتنی پست کرلی کہ لوگ سن نہ سکتے۔ایک اور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز اونچی تھی،وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے اس ڈر سے کہ میں آپ کے سامنے اونچی آواز سے نہ بول انھوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کچھ دن ان کو نہ دیکھا تو پوچھا کہیں وہ بیمار تو نہیں۔تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ وہ آواز اونچی ہونے کی بنا پر خانہ نشین ہوگئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ تم جنتی ہو۔
اصحاب صفہ:۔
اسی طرف اصحاب صفہ کا تو کام ہی دن رات قرآن کریم پڑھنا ،پڑھانا،اس کو سیکھنا،اس میں غوروتدبر کرنا پھر آگے لوگوں کو سکھانا تھا،غرض یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے تعلق بالقرآن کاحال۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر ترین عرصے میں وسیع اسلامی سلطنت قائم کی اور دنیا کو درخشاں تہذیب وتمدن سے ہمکنار کیا۔اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی وامامت کا حق ادا کردیا۔
خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں اور بعد میں اموی وعباسی دور میں مسلمان شمع قرآن ہاتھ میں لے کر اقصائے عالم تک چھا گئے۔اسلامی سلطنت کی حدود جتنی وسیع ہوئیں،اتنا ہی قرآن کا پیغام عام ہوا،اس کی تعلیم کو فروغ ملا اس پر عمل کرکے دنیا سکون واطمینان اور فوزوفلاح سے دو چار ہوتی رہی۔مسلمانوں نے فکری،معاشی،اخلاقی،سیاسی اور معاشرتی نظام میں اتنی پیش رفت کی اور جدید دنیا کو اس انداز سے متاثر کیا کہ یہ کہنا بالکل بجا ہوا کہ یہ مسلمان کا تعلق بالقرآن ہی جدید یورپ کی نشاۃ ثانیہ کاباعث اور محرک بنا۔خصوصاً علم وادب کے میدان میں وہ بنی نوع انسان کو تحقیق وتفتیش کی نئی راہیں سجھا گئے۔
حاملین قرآن کے لیے قرآن پر عمل نہ کرنے کی سزا:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسلمانوں کو قرآن پر عمل کرنے پر بیش قیمت خوش خبریاں سنائیں۔
وہاں ترک قرآن پر زبردست وعید بھی سنائی۔ارشاد ہوتا ہے۔
"إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا, وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ"
یعنی"اللہ تعالیٰ اس قرآن کریم کے ذریعے کچھ اقوام کو سربلند فرماتاہے۔(یعنی ماننے والوں کو) اور(نہ ماننے والوں) کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیتاہے"
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ"
"قرآن تیرے حق میں حجت ہے(اگر تو اس پر عمل کرے) اور تیرے خلاف بھی حجت ہے(جب تو اس پر عمل نہ کرے)"
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾
"کیا یہ لوگ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ کے قانون سے بڑھ کرکس کا قانون ہوسکتاہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
"جو لوگ قرآن قر آن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ کافر ہیں"
"جو لوگ قرآن قر آن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ ظالم ہیں"
"جو لوگ قرآن قر آن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ فاسقون ہیں"
مزید ارشاد ہوتا ہے"کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو جو شخص تم سے ایسا کرے اس کی بھلا کیا سزا ہوسکتی ہے۔بجز اس کے کہ وہ دنیا میں ذلیل وخوار ہو اور آخرت میں سخت عذاب کی طرف لوٹایا جائے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے"(سورۃ البقرۃ)
قابل غورامر:۔
غیر مسلم جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے،ان کا معاملہ دوسرا ہے مگر جو مسلم لوگ قرآن کریم پر ایمان بھی رکھیں اس کی عظمت کادم بھی بھریں مگر اس پر عمل نہ کریں۔انہوں نے گویا خدا سے کیاہوا عہد فراموش کردیا ہے۔اللہ کی غلامی کا عہد کرنے کے باوجود اس کی فرمانبرداری سے روگردانی کرتے ہیں۔لہذا ان کو یہ سزا ملنی چاہیے کہ وہ قرآن پر عمل نہ کرنے کی صورت میں دنیا میں ذلیل وخوار ہوں کیونکہ مسلمان بہر صورت اس بات کے پاپند ہیں کہ وہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوں۔اللہ کے قانون کو اپنی انفرادی اور اجتماعی معاملات میں بالاتر حیثیت دیں۔اپنے گھروں،بازاروں،دفتروں،ایوان سیاست میں،معیشت میں،تعلیمی اداروں میں ہرجگہ قرآن کے نظام کو جاری وساری کریں ۔اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو خدائی وعید کے مطابق دنیا میں ذلت وروائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔اور زوال وانحطاط کے انجام بد سے وہ نہیں بچ سکتے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قرآن وسنت کے پابند رہے وہ دنیا میں سربلند رہے۔اور دوسری قومیں ان سے دبتی تھیں۔ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتی تھیں۔وہ خیر امت ہونے کی حیثیت سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے تھے تو ہندوستان میں ،سپین میں ،بلکہ تمام اقصائے عالم میں ان کی حکومت تھی۔مگر جب مسلمانوں کا تعلق قرآن سے کمزور ہواان میں عقیدہ وعمل کی بہت سی خرابیوں نے راہ پائی،بدعات اور رسوم کو فروغ حاصل ہوا،کردار کھوکھلا ہوا،ایمانی قوت زائل ہوئی اور مسلمانوں کا تمام رعب ودبدبہ جاتا رہا تو آہستہ آہستہ دنیا کی سیاست پر ان کی گرفت ڈھیلی ہونی شروع ہوئی۔سپین اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ سے گیا کہ آج وہاں مرثیہ خوانی کے لیے بھی کوئی مسلمان نہ رہا۔اسی طرح ہندوستان ہاتھ سے گیا۔ترکی مسلمان حکومت آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہوئی اور اسے یورپ کا مرد بیمار کہا جانے لگا۔مختلف لارنس آف عریبیہ وجود میں آئے،جنھوں نے حیلوں بہانوں سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا۔مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہرجگہ یورپی قوتیں غالب وفاتح بن گئیں۔اور مسلمان ہر جگہ مفتوح ومغلوب ہوگئے۔
قرآن کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک بھی افسوسناک ہے،یوں تو ہر محفل اور ہر جلسہ کی کاروائی کا آغاز قرآن پاک سے ہوتاہے مگر عمل سراسر اس کے مخالف ہوتاہے۔قرآن کریم کو صرف ناظرہ پڑھنے والے انگلیوں پر گنے جاتے ہیں پوری عمر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گزارنے والے لوگ قرآن کو پڑھنے اس کا ترجمہ وتفسیر سیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ عربی زبان بہت مشکل ہے۔اس لیے قرآن سمجھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں وہ بے چارے قرآن وحدیث کو اگر پڑھنا بھی چاہیں تو انگریزی ترجموں کی مدد سے پڑھتے ہیں۔اس طرح وہ قرآن واسلام کی روح کوکیسے اخذ کرسکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جگہ جگہ تفہیم قرآن کے حلقے قائم کیے جائیں۔نصاب تعلیم میں اس کو بنیادی اہمیت دی جائے۔سوشلسٹ ممالک کمیونزم کی تعلیم کو اپنی تعلیمی پالیسی میں نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔اسرائیلی اپنی تعلیمی پالیسی میں صیہونیت کو نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔مگر مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے۔کہ بس اس کے وقتاً فوقتاً ختم کروادیے جائیں۔اور ہر محفل وجلسہ کی کاروائی کا آغاز اس سے کرلیاجائے،اس کے تعویز بنالیے جائیں،عدالتوں میں اس کی ذریعہ قسمیں اور شہادتیں بھگتائی جائیں ،بس یہی اس کا مصرف ہے۔
ماہر القادری مرحوم نے اپنی نظم"قرآن کی فریاد" میں رقم کیا ہے:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں آنکھوں سے لگایا جاتاہوں
تعویز بنایا جاتا ہوں دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
ایک بار ہنسایا جاتا ہوں سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے قانون یہ راضی غیروں کے
جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول وقسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں میں اٹھایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
ہمارے مایوس کن اور ناقابل بیان حالات کی اصلاح کا اب بھی وہی علاج ہے جو علاج بعثت نبوی کے وقت کے خراب وشکستہ اور پسماندہ معاشروں کاہوا تھا۔آج بھی اگر مسلمان خلوص اور دیہانت داری سے قرآن کی طرف رجوع کریں تو مسلمانوں کی حالت زاربدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔یہ نکتہ ہے جس کی طرف علامہ اقبال مسلمانوں کو مسلسل دعوت دیتے رہے وہ کبھی تو فرماتے ہیں۔
ولایت،بادشاہی،علم اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہے فقط نکتہ ایماں کی تفسیریں
کبھی وہ فرماتے ہیں:
سبق پھر پڑھ صداقت کا،شجاعت کا،عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
کبھی وہ مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیاتو نے
وہ کیا گردوں تھاتو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
اگر ہم اب بھی قرآن کی طرف رجوع کرلیں تو دنیا کو کبھی یقین دہانی نہ کرانا پڑے کہ ہم ملک میں طالبان کا اسلام نافذ نہیں کریں گے یا سعودی عرب کا قانون رائج نہیں کریں گے۔قرآن پاک تو فرماتاہے:
"فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ" (آل عمران)
"دشمنوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو"
دوسرے مقام پر قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:
﴿وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾
اگر تم مخلص مومن ہوتو تمہی دنیا میں سربلند ہوگے۔اور آج واقعی ہم نے چشم سر سے مشاہدہ کرلیاکہ کس طرح کمزور نہتے افغانستان کے مجاہدین نے اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور شمع قرآن ہاتھ میں لے کر سپر پاور کے سامنے ڈٹ گئے تو اللہ ن ان کو کس طرح سرخرو اور کامیاب کیا۔
اے اللہ اپنے خاص فضل ورحمت سے ہمیں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کی توفیق دے اور ہمیں گذشتہ دور کی سطوت وشوکت از سر نو حاصل کرنے کے قابل بنا تاکہ ہم"وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر"کے مصداق بن سکیں۔