تسوية الصفوف کے احکام و مسائل
تسویۃ الصفوف کا معنی:۔
"تسویۃ الصفوف"کا معنی امام نووی رحمۃ اللہ علیہ یو ں فرما تے ہیں ۔
"تسویۃالصفوف،یعنی صفوں کو برا بر اور سیدھی کرنے سے مراد "اتمام الاول فالاول " صفوں میں جو خلا یا شگا ف ہوں،انہیں بند کرنا اور نماز کے لیے صف میں کھڑے ہو نے والوں کی اس طرح محاذات (برا بری)ہے کہ کسی فرد کا سینہ یا کو ئی دوسرا عضو اس کے پہلو میں کھڑے دوسرے نمازی سے آگے نہ بڑھنے پا ئے۔اسی طرح جب تک پہلی صف پوری نہ ہو ،دوسری صف بنانا غیر مشروع ہے اور جب تک اگلی صف مکمل نہ ہو جائے کسی نمازی کا پچھلی صف میں کھڑے ہو نا بھی درست نہیں ہے۔(5)حافظ بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"تسو یۃ الصفوف سے مراد صف میں نمازیوں کا ایک ہی سمت علی الاعتدال کھڑے ہو نا نیز صف میں جو خلل واقع ہوا سےبند کرنا ہے"(6)
تسویۃ الصفوف کی فضیلت :۔
تسویۃ الصفوف کی فضیلت میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن میں سے چند احادیث ذیل میں پیش خدمت ہیں ۔
1۔جو مسلم اپنی صف کو پوری کرتا ہے، اللہ تعا لیٰ اور اس کے فرشتے اس شخص پر صلوٰۃوسلام (رحمت ) بھیجتے ہیں ،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
"إنّ الله وملائكته يصلّون على الذين يَصِلُون الصفوف"
"بیشک اللہ تعا لیٰ اور اس کے فرشتے ان نمازیوں پر صلوٰۃ وسلام (رحمت) بھیجتے ہیں جو صفوں کو جوڑتے یا ملا تے ہیں۔"اس حدیث کی تخریج امام حاکم اور ابن ماجہ (8) نے بھی کی ہے ۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں ۔صحیح علی شرط مسلم"اور ابن ماجہ نے اس میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ ومن سد فرجة رفعه الله بها درجة یعنی جس نے صف میں چھوٹی ہوئی جگہ بندکی ،اللہ تعا لیٰ اس سے اس کا درجہ بلند فر ما تا ہے۔لیکن یہ زیادت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرنے میں محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا حدیث کی صحت بیان کی ہے۔(9)بعض روایا ت میں على الذين يَصِلُون الصفوف"کی بجا ئے" علي میا من الصفوف " (یعنی اللہ تعا لیٰ اور اس کے فرشتےصفوں میں داہنی جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں) بھی وارد ہے(10)اگرچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تحسین فر ما ئی ہے لیکن علامہ ناصر الدین الالبا نی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"اخطا في متنه بعض رواته فقال علي ميامن الصفوف وخالفه جماعة من الثقات فرووه بلفظ علي الذين يصلون الصفوف وهو الصواب"(11)
واضح رہے کہ اس حدیث میں اللہ تعا لیٰ کے اپنے بندوں پر صلوٰۃ وسلام سے مراد ملاءالاعلی پر ان بندوں کا ذکر فرمانا نیز ان پر رحمت بھیجنا ہے اور فرشتوں کے صلوٰۃ وسلام بھیجنے سے مراد اللہ کے ان بندوں کے لیے دعاء (رحمت) و استغفار کرنا ہے، جیسا کہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ (اي يستغفرون لاهله)(12)
2۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
(وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ)(13)
"جو صف ملا ئے گا،اللہ تعا لیٰ بھی اسے (اپنی رحمت سے) ملا ئے گا اورجو صف کو کا ٹے گا ۔اللہ تعا لیٰ بھی اس کو اپنی رحمت سے) کا ٹے گا "
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو " صحیح علی شرط مسلم" قرار دیا ہے ۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی را ئے سے اتفاق کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے المجموع" (14)میں اور علامہ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے " صحیح الترغیب والترہیب "(15)میں اس کو" صحیح" قراردیا ہے۔
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فر ما تے ہیں۔"وصلہ اللہ "سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل اس کی نیکی میں زیادتی فر ما تا ہے اسے دوست رکھتا ہے اور اسے اپنی رحمت میں داخل فر ما تا ہے ۔اور (قَطَعَهُ اللَّهُ)سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ اس شخص پر سے مزید نیکی کو قطع فر ما دیتا ہے۔"(16)
اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں"وصل صفا"کا مطلب یہ ہے کہ اگر صف میں خلا تھا تو اس کو بند کر دیا یا اگر صف پوری نہ تھی تو اسے مکمل کر دیا اور "قطع " کا مطلب یہ ہے کہ صفوں کے درمیان کو ئی شخص بلا نماز بیٹھ گیا یا صف کے درمیان خلا میں کسی داخل ہو نے والے کو دخول سے روکا واللہ تعا لیٰ اعلم "(17)
3۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
(ومامن خطوط اعظم اجرا من خطوة مشاها رجل الي فرجه في الصف فسدها)(18)
"کو ئی قدم اٹھا نا اتنا بڑا اجر والا نہیں ہے جتنا وہ قدم ہے کہ جس کو اٹھا کر کو ئی شخص صف میں خلا کی طرف جا ئے اور اسے بند کر دے۔"
علامہ محمد ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو "حسن "(19)قراردیاہے۔
4۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔
(مَنْ سَدَّ فُرْجَةً فِي صَفٍّ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً أَوْ بَنَى لَهُ بِهَا بَيْتًا فِي الْجنَّة)(20)
اس حدیث کا شطر اول سنن ابن ماجہ میں بھی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو "صحیح (21)"قراردیا ہے۔
5۔حضرت ابی جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
(من سد فرجة في الصف غفر له.)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی اسناد کو" حسن(23)"قراردیاہے۔
صف اول کی فضیلت :۔
صف اول کی فضیلت میں بطور خاص جو احادیث وارد ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں ۔
1۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : (إن الله وملائكته يصلون على الصف الأول)
"بیشک اللہ تعا لیٰ اور اس کے فرشتے صف اول پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں "
اس حدیث کی تخریج ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ (24)اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے ۔علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صحیح "(25)قرار دیا ہے ۔یہی حدیث حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے "مسند احمد"(26)میں حضرت براءبن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے "شرح السنۃ (27)" میں اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے" مسند احمد "اور مسند البراز " میں بھی مروی ہے۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ "اس کے رجال ثقات ہیں (28)"شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "حسن (29)"قراردیا ہے۔
2۔حضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فر ما یا :
"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَغْفِرُ لِلصَّفِّ الأَوَّلِ ثَلاثًا , وَلِلثَّانِي مَرَّةً "
"بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلی صف کے لیے تین بار اور دوسری صف کے لیے ایک بار دعاء مغفرت فر ما تے تھے۔(30)
اس حدیث کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ ،احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،ابن حزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے، امام حاکم فر ما تے ہیں :
"صحيح على شرطهما ولم يخرجا للعرباض"
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر صحت کا حکم لگا یا ہے۔(31)
3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا................)(32)
"اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جا ئے کہ اذان اور پہلی صف میں شامل ہو نے میں کتنا اجر ہے تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے ہو ئے پا ئے جا ئیں گے"مسلم کی ایک روایت میں یہ الفا ظ بھی مروی ہیں۔
"لَوْ تَعْلَمُونَ أَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ ، لَكَانَتْ قُرْعَةً" (33)
حضرت عامر بن مسعود القرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کی صحابیت مختلف فیہ ہے ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : (34)
"لو يعلم الناس ما في الصف الأول ما صفوا فيه إلا قرعة أو سهمة "
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ " اس کے رجال ثقات ہیں(35)علامہ ابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"اس امر پر علماء کا اتفاق ہے کہ صف اول مرغب فیہ ہے"(36)
لیکن"صف اول" کی تعبیر میں بعض علماء نے اختلا ف کیا ہے چنانچہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ "الصف الاول" نماز کے لیے مسجد میں جلد آنے سے تعبیر ہے خواہ کو ئی آخری صف ہی میں نماز پڑھے ،چنانچہ بشیر بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پو چھا گیا کہ "آپ مسجد میں تو جلدی آتے ہیں لیکن نماز آخری صف میں کیوں پڑھتے ہیں ؟"تو انھوں نے جواب دیا کہ " یہاں قرب القلوب مقصود ہے،قرب الاجساد مقصود نہیں ہے۔"لیکن یہ ایک غریب قول ہے ،احادیث اس تاویل کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ہیں بلکہ صریحاًتردید کرتی ہیں ۔امام ابن حزم الطاہری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
"قرعہ اندازی اس جگہ ہو تی ہے جس میں سب کے لیے گنجائش نہ ہو اور اس کے باعث باہمی اختلا ف ہو۔پس اگر الصف الاول سے مراد مسجد میں جلدی آنا ہو۔ جیسا کہ بعض لاحاصل کلا م کرنے والوں کا قول ہے ۔تو قرعہ اندازی فضول اور بیکا رہو گی کیونکہ جلد آنے میں تو کو ئی ایسا امر مانع نہیں ہو تا کہ جس کے لیے قرعہ اندازی کی حاجت ہو۔"(37)
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (نے "نیل الاوطار(38)"میں )امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس تاویل کو نقل کرنے کے بعد اس کی تر دید فر ما ئی ہے۔حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ" جو شخص مسجد میں اول وقت آئے لیکن صف اول میں دا خل نہ ہو وہ اس شخص سے افضل ہے جو آخر میں تو آئے لیکن صف اول میں داخل ہو نے کے لیے مزاحمت کرے"۔۔۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فر ما تے ہیں:
"اس بارے میں ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کو ئی دلیل نہیں ،جیسا کہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔"(39)امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکور ہ بالا دونوں اقوال کو"صریحاً غلط" قراردیاہے۔(40)
پس معلوم ہوا کہ "الصف الاول " سے مراد مطلقاًاور بلا تاویل وہ صف ہے جو کہ امام سے ملی ہو تی ہے۔ بعض علماء نے امام کے پیچھےپہلی صف کوصف اول قرار دیا ہے ۔(41)امام نووی رحمۃ اللہ علیہ و ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی "صحیح مختار"اور "محققین کا مصرح"قول ہے۔(42۔)صف اول کے بعض دیگر فضائل و مزایابیان کرتے ہو ئے علماء فر ما تے ہیں :
" المسارعة إلى خلاص الذمة ، والسبق لدخول المسجد ، والقرب من الإمام ، واستماع قراءته والتعلم منه ، والفتح عليه ، والتبليغ عنه ، والسلامة من اختراق المارة بين يديه ، وسلامة البال من رؤية من يكون قدامه ، وسلامة موضع سجوده من أذيال المصلين ." (43)
تسویۃ الصفوف کی اہمیت:۔
علامہ ابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ثبوت کی بنا پر صف اول کی طرح تراص الصفوف اور تسویۃ الصفوف کے مرغب فیہ ہو نے پر علماء کا اتفاق ہے"(44)
جن امور کے باعث تسویۃ الصفوف کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے وہ حسب ذائل ہیں:
1۔تسویۃ الصفوف اقامت نماز میں سے ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
( سَوُّوا صُفُوفَكُمْ , فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاةِ ) (45)
(اپنی صفوں کو برابر کر لو کیونکہ صفوں کا برابرکرنا بھی اقامت نماز میں سے ہے"بعض روایات میں(مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاةِ)کی بجا ئے (مِنْ تمامَةِ الصَّلاةِ) کے الفا ظ بھی وارد ہیں (46)ان احادیث اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ (باب إِقَامَةِ الصف مِنْ تمامَةِ الصَّلاةِ)(47)"سے مستفادہو تا ہے کہ صفیں برابر اور سیدھی کرنا نماز کے قائم کرنے اور اس کے اتمام میں داخل ہے، پس صفوں کا ٹیڑھا ہو نا نقصان نماز کا مو جب ہوا۔ واللہ اعلم ۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے(مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاةِ)کے الفاظ سے صفوں کی درستگی اور برابرکے وجوب پر اس طرح استدلال فرما یا ہے:
( لِأَنَّ إِقَامَةَ الصَّلَاةِ وَاجِبَةٌ وَكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الْوَاجِبِ وَاجِبٌ)(48)
"(صف کا سیدھا کرنا اقامت نماز میں سے ہے لہٰذایہ بھی فرض ہے) کیونکہ اقامت نماز فرض ہے اور جو فرض کا جزء ہو وہ بھی فرض ہو تا ہے۔"
لیکن حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے اس استدلال پر یوں تعاقب فرماتے ہیں "ولا يخفي ما فيه ولا سيما وقد بينا ان الرواة لم يتفقوا علي هذه العبارة"(49)
"اس استدلال کا ضعف مخفی نہیں ہے خصوصاً جبکہ ہم نے یہ بیان کیا ہے رواۃاس عبارت پر متفق نہیں ہیں "لیکن علامہ احمد محمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ پر نقد کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں :
"ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں عبارتوں سے استدلال کیا ہے اور آپ کی دلیل صحیح اور قوی ہے"پس واضح ہوا کہ اللہ عزوجل کے ارشاد (وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ)(50)سے مراد یہ ہے کہ تمام ارکان و سنن کی تعدیل و رعایت کے ساتھ نما ز قائم کرو۔ اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تسویۃ الصفوف کی اقامت نماز میں سے قرار دیا ہے لہٰذاجو شخص صف کو برابر سیدھی نہیں کرتا تووہ نماز کو اس طرح قائم نہیں کرتا جس طرح کہ اس کی اقامت کا حق ہے۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ تسویۃ الصفوف سے متعلق بعض احادیث نقل کرنے کے بعد فر ما تے ہیں :"ان احادیث میں تسویۃالصفوف کے اہتمام کی واضح دلیل مو جو د ہے اور اس بات کی تھی کہ تسویۃالصفوف اتمام الصلوٰۃ میں سے ہے اور اس بات کی بھی کہ صف میں کو ئی نمازی دوسرے نمازیوں سے آگے پیچھےنہ ہو اور اس بات کی بھی کہ ہر نمازی کو چا ہیے کہ وہ اپنا کندھا ،بازو ،قدم اور ٹخنہ اپنے قریبی ساتھی کے بازو، کندھے ،قدم اور ٹخنے سے ملا لے۔لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے یہ سنت ترک کر دی ہے اور اگر آج کو ئی ایسا کرے تو لوگ جنگلی گدھے کی طرح بدک اٹھتے ہیں ۔فان لله وانا اليه راجعون (51)
2۔ تسویۃالصفوف مسلمانوں کے ایک دوسرے کو دوست رکھنے نیز ایک دوسرےکے ساتھ مہر بانی اور صلہ رحمی کرنے کی عظیم ترین دلیل ہے۔چنانچہ اگر آپ نمازیوں کو ایک سیدھی اور استوار شدہ صف میں خوب مل جل کر اور گتھی ہوئی حالت میں کھڑا ہوا دیکھیں حتیٰ کہ ہر نمازی کا بازو اور کندھا اس کے ساتھ والے دوسرے نمازی کے بازواور کندھے سے نیز اس کا قدم اس کے ساتھی نمازی کے قدم سے ملا ہوا ہو تو بلاشبہ ان کی یہ حالت ان کے درمیان باہمی الفت و محبت ،اتحاد و اتفاق اور مودت صلہ رحمی پر ہی دلالت کرتی ہے۔برخلاف اس کے اگر آپ انہیں ایک دوسرے سے دور اور بکھری ہو ئی حالت میں کھڑا ہوا دیکھیں تو ان کی یہ حالت ان کے دلوں میں نفرت ،بغض و عنا اور اختلافات پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے عین مصداق ہے جو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یو ں مروی ہے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُسَوِّي صُفُوفَنَا ، فَخَرَجَ يَوْمًا فَرَأَى رَجُلا خَارِجًا صَدْرُهُ عَنِ الْقَوْمِ ، فَقَالَ : " لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ " .
"فرما یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں برابر کرتے رہتےتھے۔پھر ایک دن آپ تشریف لا ئے اور آپ نے ایک شخص کا سینہ دوسرے لوگوں سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ تم ضرور ہی اپنی صفیں برابر کر لو ورنہ اللہ تمھارےچہروں کو بدل دے گا ۔"(52)
سنن ابی داؤد (53)میں(أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلوبكُمْ)"یعنی ورنہ اللہ تعا لیٰ تمھا رے دلوں میں مخالفت پیدا کردے گا ۔"اور سنن الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (54)میں(فوالله لتتمن صفوفكم اولتختلفن قلوبكم)کے الفاظ بھی مروی ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں : "اس وعید (شدید) کے متعلق علماء کاا ختلا ف ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس وعید سے مراد حقیقتاًتشویۃ الوجہ اور تحویل خلق ہے، یعنی اللہ تعا لیٰ ان کی صورتوں کو مسخ کر دے گا ۔جیسا کہ نماز میں امام سے قبل متقدی کے سر اٹھا نے کے بارے میں ایک دوسری وعید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں مروی ہے۔(ان يجعل الله راسه راس الحمار)اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ وعید مجاز پر محمول ہے۔ جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا خیال ہے۔"(55)آگے چل کر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ،شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول یو ں نقل فر ما یا ہے۔
"امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اسے کے معنی یہ بتا ئے ہیں کہ تمھا رے درمیان بغض و عداوت باطنی کدورت اور دلوں میں اختلا ف واقع ہو جا تا ہے جس طرح کہ تم کہتے ہو کہ فلاں کا چہرہ مجھے دیکھ کر متغیر ہو گیاتو اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ میرے لیے اس کے چہرہ پر کراہیت کے آثار نمودار ہو گئے ۔صفوں میں نمازیوں کی باہمی مخالفت ان کے ظواہر میں بھی مخالفت پر منج ہو تی ہے اور ظاہری اختلا ف کا سبب باطنی اختلاف ہی ہو تا ہے۔اس امر کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی اس حدیث سے بھی ہو تی ہے ۔ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلوبكُمْ (56)پس معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیوں کے دلوں میں اختلا ف اور ان کے درمیان بغض و عداوت نیز انتشار کا سبب صف میں ان کے اختلاف کو قرار دیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو کہ مسلمانوں کے بارے میں شیطان اور اس کے اعوان کو حددرجہ محبوب ہے۔ اللہ عز وجل ہم سب کو ان تمام امور سے دور رکھے جو کسی مسلمان کو اس کے دوسرے مسلم بھا ئی سے دوری کا سبب بنیں آمین۔
3۔تسویۃ الصفوف ہماری اس امت کو سابقہ تمام امتوں سے ممتاز کرتی ہے
اللہ عزوجل نے اس کے ذریعہ ہمیں دوسری تمام امتوں پر فضیلت بخشی ہے۔چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا:
" فُضِّلْنا عَلَى النَّاسِ بِثَلاثٍ : جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلائِكَةِ "(57)
"ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت بخشی گئی ہے (جن میں سے ایک یہ ہے کہ کہ) ہماری صفوں کو فرشتوں کی صفوں کی مانند قرار دیا ہے۔۔۔الخ
اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،مسلم رحمۃ اللہ علیہ ،بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور بقول سیوطی رحمۃ اللہ علیہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ حفظ اللہ نے اس پر "صحیح "(58)کا حکم لگایا ہے۔پس تسویۃالصفوف ہمارے امتیازی فضائل میں سے ایک ہے ،چنانچہ ہمیں اس بات کی ہر ممکن کو شش کرنی چا ہیے کہ اس کا م کو ہر گز ترک نہ کریں جس کے باعث اللہ عزوجل نے ہمیں تمام امتوں پر فضیلت بخشی ہے۔
(4)تسویۃ الصفوف نماز میں نمازیوں کے لیے شیطان کی مدا خلت اور تشویش و وساوس پیدا کرنے کے جملہ وسائل کو مسدود کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے:
پس جو نمازی صفوں میں ایک دوسرے سے خوب مل کر نماز اداکرتے ہیں ،اور اگر اس میں کو ئی خلا ہو تو اسے بند کرتے ہیں ،درحقیقت وہ اپنے درمیان شیطان کے لیے کو ئی جگہ نہیں چھوڑ تے کہ وہ ان کے درمیان داخل ہو کران کی نمازوں میں خلل اندازی کر سکے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے۔
سووا صفوفكم وحاذوا بَين مناكبكم ولينوا فِي أَيدي إخْوَانكُمْ وسدوا الْخلَل فَإِن الشَّيْطَان يدْخل فِيمَا بَيْنكُم بِمَنْزِلَة الْحَذف (59)
"اپنی صفوں کو برابر کر لو اپنے کندھے برابر رکھو اور اپنے بھا ئیوں میں نرم ہو جا ؤاور درمیانی خلاء کو بند کر دو کیونکہ شیطان بھیڑ کے بچے کی مانند تمھا رے درمیان داخل ہوتا ہے۔اس کی تخریج امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "مسند "میں کی ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ صحیح الترغیب والترہیب "میں فر ما تے ہیں ۔
رواه احمد باسناد لاباس به والطبراني وغيره(60)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں : (رجال احمد موثقون)(61)لیکن علامہ الالبانی نے تحقیق المشکاۃ"میں اس حدیث کو فرج ابن فضالہ کی مو جو دگی کے باعث معلول کیا ہے ،فر ما تے ہیں (فقد سئل الدارقطني عنها فقال هذا كله غريب)(62)
اس حدیث کا راوی فرج ابن فضالہ اکثر محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ یحییٰ بن معین اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "ضعیف الحددیث "اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے " منکر الحدیث " بتا یا ہے ۔امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں "اسانید کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا اور واہیات متون کو صحیح اسانید کے ساتھ جو ڑدیتا تھا اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے ۔"حافظ ابن حجر نے اس کو "ضعیف "قرار دیا ہے ۔لیکن "فتح الباری " میں لکھتے ہیں کہ "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس کی تو ثیق بھی کی ہے "ابن فضالہ کے تفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ (63)کے تحت مذکورہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔اس بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں یہ الفا ظ مروی ہیں ۔
رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالأعناق فوالذي نفس.. ... بالأعناق فوالذي نفسي بيده إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف (64)
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک موقوف حدیث میں مروی ہے۔
سووا صفوفكم فإن الشيطان يتخللها كالحذف. (65)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ " اس کے رجال ثقات ہیں ۔"(66)
پس معلوم ہوا کہ جب تک شیطان نمازیوں سے دور رہتا ہے ،ان کی نمازوں میں خشوع و حضوع کی زیادتی رہتی ہے،اور خشیت الٰہی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے لیے اللہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (67)
"تحقیق ان مومنوں نے فلا ح پائی جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں ۔"
تسویۃ الصفوف کا حکم :۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
احسنوااقامة الصفوف في الصلاة(68)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں "(69)
ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : اياكم والفرج بمعني في الصلاة(70)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ" اس کے رجال ثقات ہیں "(71)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "الجامع الصحیح "میں ایک باب اس عنوان کے ساتھ قائم کیا ہے بَابُ إثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصَّفَّ. "یعنی جو شخص صفیں پوری نہ کرے اس کے گناہ کاباب"۔۔۔اس ترجمہ الباب سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فقہی مسئلہ نکالا ہے تسویۃ الصفوف واجب ہے اور اس کا تارک گناہگار اور کیوں نہ ہو جبکہ احادیث نبوی کے مطابق اس کو تسویۃ الصفوف کا حکم دیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"یہاں اس بات کا احتمال پا یا جا تا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد (سووا صفوفكم)میں پا ئے جا نے والے صیغہ امرااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم (صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي،)(نماز ٹھیک اسی طرح پڑھو جس طرح کہ تم نے مجھے پڑھتے ہو ئے )کے عموم اور تسویۃ کے ترک کرنے کے بارے میں جو وعید وارد ہے، ان سب کے پیش نظر تسویۃ الصفوف کے وجوب کا حکم اخذ کیا ہو"
(72)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ)(یعنی تم ضروری اپنی صفیں برابر کر لو ورنہ اللہ تعا لیٰ تمھا رے چہرے بدل دے گا ")کی شرح میں مزید فر ما تے ہیں : (73)
"اس میں مخالفت پر گناہ کی جنس کی وعید کے وقوع کا لطیف نکتہ موجود ہے۔لہٰذا تسویۃ الصفوف واجب ہے اور اس بارے میں کسی بھی طرح کی افراط و تفریط حرام ہے۔"امام ابن حزم الظاہری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ:
"یہ شدید قسم کی وعید ہے اور وعید کسی گناہ کبیر ہ پر ہی ہوا کرتی ہے"(74)
جولوگ تسویۃ الصفوف کے مستحب ہو نے کے قائل ہیں ،ان کی تر دید فرماتے ہو ئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"
"۔۔۔بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز یوں کو صفوں کی تعدیل و تقویم نیز صفوں میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گتھ کر کھڑے ہونے اور درمیان کے شگافوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔جو شخص صفوں کے خلل بند کرنے میں پہل کرے وہی اول ہے۔یہ تمام چیزیں حسب امکا ن نمازیوں کے بطریقہ احسن اجتماع میں تحقیق مبا لغہ سے عبارت ہیں اگر اصطغاف واجب نہ ہو تا تو ایک شخص کا دوسرے شخص کے آگے پیچھے کھڑا ہو نا اور نماز میں اپنی جگہ سے حرکت کرنا بھی جائز ہو گا ۔لیکن ہر وہ شخص جس کو کچھ بھی علم ہے بخوبی جا نتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی نماز کا طریقہ نہیں ہے ۔اگر یہ چیز جا ئز ہو تی تو کم از کم ایک مرتبہ مسلمانوں نے ضرور ایسا کیا ہو تا ،بلکہ اگر اسی طرح صف بلا تر تیب اور بلا نظم و ضبط ہو تو اس چیز کی مخالفت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مطلع فرما یا ہے اور ممانعت تو تحریم کی متقاضی ہو تی ہے۔۔۔الخ "(75)
شارخ ترمذی علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
"حدیث بظاہر تسویۃ الصفوف کے وجوب پر دلالت کرتی ہے "(76)
علامہ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ بھی فر ما تے ہیں :
"حق یہ ہے کہ صفوں کے خلل کو بند کرنا واجب ہے"(77)
تسویۃ الصفوف کی کیفیت :۔
بعض لو گ یہ سوال کرتے ہیں کہ نمازی صفیں کس طرح پوری کریں؟ اس کا تفصیلی جواب ہم ان شا ء اللہ ذرا آگے چل کر دیں گے۔ اس سلسلہ میں پہلے چند احادیث پیش خدمت ہیں :
1۔حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انھوں نے فرما یا :
(ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : " أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ " ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : " يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ)(78)
"ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لا ئے اور دریافت فر ما یا :کیا تم اس طرح صف بندی نہیں کرتے جس طرح کہ فرشتے اپنے رب کے حضور صفیں باندھتے ہیں ؟ ہم نے پو چھا کہ فرشتے اپنے رب کے حضور کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : پہلے اگلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے خوب گتھ کر (سیسہ پلائی ہو ئی دیوار کی طرح ) کھڑے ہو تے ہیں ۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔"اس حدیث میں "عندر بہم" سے مراد یہ ہے کہ جب ملا ئکہ اپنے رب کی اطاعت کے لیے یا پنے رب کے حضور عرش کے پاس کھڑے ہو تے ہیں ۔( يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ المتقدمة)سے مراد یہ ہے کہ وہ پہلے اگلی صف کو مکمل کرتے ہیں اور جب تک پہلی صف مکمل نہ ہو جا ئے دوسری صف میں کھڑے ہو نا شروع نہیں کرتے اور جب تک دوسری صف مکمل نہ ہو تیسری میں اسی طرح جب تک تیسری مکمل نہ ہو چوتھی صف میں نہیں کھڑے ہو تے ۔(وهكذا الي أخرة)(79)
لہٰذا تمام نمازیوں کو چا ہیے کہ پہلی صف کی عظیم فضیلت کے پیش نظر اس میں کھڑے ہو نے کے لیے سبقت کی کو شش کریں ،پھر اس کے بعد اس کے بعد والی صفوں کو پورا کریں اور اول تو اول ہی ہے ۔
2۔اسی طرح نمازیوں کا پہلی صف کی تکمیل اور اتمام کے دورا ن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو بھی پیش نظر رکھنا چا ہیے۔ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :
ليليني منكم أولو الأحلام والنهى ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ولا تختلفوا فتختلف قلوبكم وإياكم وهيشات الأسواق (80)
(صف میں ) وہ لو گ میرے قریب رہیں جو مانع اور عقلمند نیز صاحب تمیز ہیں پھر جو ان سے قریب ہیں پھر جو ان سے قریب ہیں الگ ہو جا ئے گے اور بازاری اختلاط منازعت ،خصومات اور شور و غوغا سے اپنے آپ کو بچاؤ"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔(81)
"اس حدیث کے مطا بق امام کے قریب افاضل کی تقدیم افضل ہے کیونکہ وہ اکرام کے زیادہ مستحق ہیں اور اس لیے بھی کہ کبھی امام کو استخلاف کی ضرورت پیش آجا تی ہے،پس وہ استخلاف کے بھی زیادہ مستحق ہو سکتے ہیں اور اس لیے بھی وہ دوسرے نمازیوں کے مقابلہ میں باریک بینی سے اور اچھی طرح امام کے سہو پر اسے متنبہ کر سکیں ،صفت صلوٰۃ کو اچھی طرح ضبط کر سکیں (لفظ مٹا ہوا ہے)کو دوسروں تک منتقل کر سکیں ،لوگوں کو اس کی تعلیم دے سکیں اور امام کے پیچھے ان کے افعال کی اقتداء کر سکیں "علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں ۔
"بالغ اور عقلمند لوگ اپنے شرف کی بنا ء پر میرے قریب رہیں ،اور اس کے لیے بھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر مزید احتیاط و اہتمام اور ضبط کی نگا ہ رکھ سکیں اور اگر کو ئی حادثہ یا عارضہ پیش آجا ئے تو امامت میں وہ آپ کے قائم مقام بن سکیں "(82)امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حدیث زیر مطا لعہ کی تقریباً یہی توجیہ فرما ئی ہے(83)اس حدیث سے یہ واضح ہو تا ہے کہ امام کے عین پیچھے ان نماز یوں کو کھڑے ہو نا چا ہیے جو عقلمند دین کا زیادہ علم رکھنے والے اور صاحب تمیز ہوں، پھر جو ان اوصاف میں ان کے قریب تر ہوں ۔احتیاط ایسا اس لیے کہ اگر امام سے کو ئی خطا ہو جا ئے تو وہ اس کو لقمہ دے سکیں یا اچانک اگر کوئی حادثہ یا مصیبت پیش آجا ئے تو امام کے قائم مقام بن سکیں ۔
جہاں تک تسویۃ الصفوف کی کیفیت کا تعلق ہے تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ (84)
"اپنی صفیں سیدھی کرو کیونکہ میں تم کو پس پشت بھی دیکھ لیتا ہوں۔(حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ) کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا دوسرے کے کندھے سے اور اتنا قدم دوسرے کے قدم سے ملا دیتا تھا ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں ۔
إني لأنظر إلى من ورائي كما أنظر إلى من بين يدي ، فسووا صفوفكم ، وأحسنوا ركوعكم وسجودكم (85)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ "اس کے رجال ثقات ہیں ۔(86)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفا ظ مروی ہیں : (87)
"اسْتَوُوا اسْتَوُوا اسْتَوُوا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لأَرَاكُمْ مِنْ خَلْفِي كَمَا أَرَاكُمْ مِنْ بَيْنِ يَدَىَّ"
اوپر جس طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا۔ اسی طرح نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے بیان کیا:
فرأيت الرجل يلصِق منكبه بمنكب صاحبه، وركبته بركبة صاحبه، وكعبه بكعبه (88)
"پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے اور اپنا گھٹنہ اس کے کے گھٹنے سے اوپر اپنا ٹخنہ اس ٹخنے سے ملا دیتا تھا "علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصحیح فرما ئی ہے۔(89)
دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں یہ الفا ظ بھی ملتے ہیں ۔
(فرأيت الرجل منا يلزق وكعبه بكعب صاحبه، وركبته بركبة ومنكبه بمنكبه )(90)
افسوس کہ ہمارے علماء حنفیہ اپنی کتابوں میں وہ حدیثیں تو بیان کرتے ہیں جن میں صفیں سیدھی اور برابر کرنے کاحکم مذکورہے لیکن وہ حدیثیں بیان نہیں کرتے جن میں خوب مل کرکھڑے ہو نے کا حکم مروی ہے ۔فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
3۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا :
اقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدواالخلل وليتوا بايدي اخوانكم ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفاوصله الله ومن قطع صفا قطعه الله(91)
"صفوں کو قائم کرو اپنے کندھوں اور بازووں کو برابر کرو اور (صفوں کے اندر کے) شگاف کو بند کرو ۔اور اپنے بھا ئیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جا ؤ اور (صفوں کے بیچ میں ) شیطان کے لیے جگہ نہ چھوڑو۔جو شخص صف کو ملا ئے گا اللہ تعا لیٰ بھی اسے (اپنی رحمت اور عنا یت کاملہ سے) ملا ئے گا اور جو شخص صف کو کا ٹے گا، اللہ تعا لیٰ بھی اس کو(اپنی رحمت سے) کا ٹے گا۔"
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ : (وليتوابايدي اخوانكم)(اور اپنے بھا ئیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جا ؤ) کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ:
"اگر کو ئی شخص آکر (شگاف ہو نے کے باعث ) صف میں داخل ہو نا چا ہے تو ہرنمازی کو چا ہئے کہ اس کے لیے اپنے کندھوں اور بازووں کو نرم کر دے حتیٰ کہ وہ شخص صف میں داخل ہو جا ئے "(92)
اس بارے میں صاحب "عون المعبود "فر ما تے ہیں ۔کہ:
اگر کو ئی شخص صف کو سیدھی اور برابر کرنے کے لیے تمھیں آگے پیچھے کرے تو اس نیکی اور تقویٰ کے کام میں اس کے ساتھ بڑھ چڑھ کر معاونت کرو (خواہ مخواہ اڑ نہیں جاؤ)"(93)لیکن اس کے آگے آپ رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ لکھتے ہیں بلا شبہ وہ مرجوح قول ہے، فرماتے ہیں "
"اس کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس شخص کے ہاتھوں میں نرم ہو جا ؤ جو تمہیں (اکیلا ہو نے کے باعث) صف سے پیچھے کھینچ رہا ہو یعنی اس کے ساتھ موافقت کرتے ہو ئے اس کے ساتھ پیچھے ہٹ جاؤ تا کہ اس سے انفراد کا عیب زائل ہو جا ئے کہ بعض آئمہ نے اس آئمہ نے اس حدیث کے باعث اس کی نماز کو باطل ٹھہرا یا ہے ،(پھر آپ ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مرسل حدیث سے اس پر استدلال کرتے ہیں ) فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ (94)بہر حال ان تمام احادیث کی روشنی میں تسویۃ الصفوف کی جو کیفیت واضح ہو تی ہے وہ حسب ذیل ہے۔
(الف )اقامت صفوف :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔(اقيموا الصفوف)(صفوں کو قائم کرو) یعنی صفیں برابر کرلو حتیٰ کہ اس میں کو ئی کجی اور خم باقی نہ رہے اور کو ئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے آگے پیچھے یاٹیڑھا میڑھا کھڑا نہ ہو ۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ ۔(اقيموا الصفوف) کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ "عدلوهاوسووها"(95)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں نماز کے دوران اقامت صفوف کی تحسین کا حکم یوں مروی ہے ،(احسنوا اقامة الصفوف في الصلاة) (96)
شیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ "اس کے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں (97)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ایک دوسری حدیث میں اقامت صف کو حسن صلاۃ سے عبارت بتایا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہو تا ہے ۔
واقيمواالصف في الصلاة فان اقامة الصف من حسن الصلاة(98)
(ب)بازو اور کندھوں میں محاذات (برابری):۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (وحاذوابين المناكب)(اور کندھوں اور بازووں کو برابر کر لو ) اس حکم نبوی کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
"یعنی صف میں بعض نمازی کی بعض نمازیوں کے ساتھ اس طرح محاذات برا بری ہو کہ ان میں سے ہر نمازی کے بازو اور کندھے دوسرے نمازیوں کے بازو اور کندھوں کے موازی اور مسامت ہوں تا کہ صف میں کھڑے ہر نمازی کے بازو کندھے گردنیں اور قدم غرض کہ سب ہی چیزیں (علی الاعتدال ) ایک ہی سمت میں ہوں"(99)
(ج)خلل اور شگافوں کو بند کرنا :۔
تسویۃ الصفوف کےلئے صف میں پا ئے جا نے والے خلل اور شگا فوں کو بند کرنا بھی ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ قدم سے قدم ملا لیے جا ئیں اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہو اجا ئے۔جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سابقہ حدیث میں گزر چکا ہے ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ:
"صف کے خلل کو بند کرنے کا حکم اور اس کی تر غیب بہت ساری احادیث میں وارد ہے۔(100)
(د)نمازی بھا ئیوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (وليتوا بايدي اخوانكم)(یعنی اپنے بھا ئیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جا ؤ )اس صفت کے حامل شخص کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدح فر ما ئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا
خياركم الينكم مناكب في الصلاة(101)
"تم میں سے بہترین لو گ ہیں جن کے کندھے اور زیادہ (حالت نماز میں)نرم رہتے ہیں "یہ حدیث "مسند البزار"میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مرفوعاً مروی ہے اور بقول علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ "اس کی اسناد حسن ہے"(102)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نمازیوں کو بہترین مسلمان قرار دیا ہے۔جن کے بازو اور کندھے حالت نمازمیں نرم رہتے ہیں یعنی جب کو ئی صف کی درستگی کے لیے انہیں آگے پیچھے کرنا چا ہے تو بڑی نرمی اور محبت کے ساتھ آگے پیچھے ہو جا تے ہیں ،سختی کے ساتھ اڑ نہیں جا تے ۔یہاں "الانة المنكب"یعنی کندھے اور بازو کی نرمی سے مراد بقول علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہے کہ:
"اپنا بازو اور کندھے اپنے ساتھی نمازی کے بازو اور کندھے کے ساتھ اس سختی کے ساتھ جو ڑ کر کھڑ نہیں ہو تے کہ اس پر کہنی مارنے کا گمان ہو نے لگے اسی طرح اگر کو ئی شخص صف میں داخل ہو نا چاہتا ہوتو اسے جگہ کی تنگی کے باعث یا فراخی اور کشادگی کے پیش نظر داخل ہو نے سے نہیں روکتے "(103)علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فر ما تے ہیں کہ:
"اس کےمعنی نماز میں لزوم سکینت و طمانیت کے ہیں ،یعنی نمازی کسی طرف ملتفت نہ ہواور نہ اپنے بازوؤںاور کندھوں سے اپنے ساتھی کو دھکا دے ۔اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ صف کے اندر خلل کو بند کرنے کے لیے یا جگہ کی تنگی کے باعث اگر کوئی صفوں کے بیچ میں دا خل ہو نا چاہتا ہو تو اسے نہ روکےبلکہ اس کے دخول کو ممکن بنا ئے صفوں کو اپنے بازوؤں سے سختی کے ساتھ ملا ہوا اور کثیف نہ بنا دے "(104)
(ھ)بازو سے بازو،کندھے سے کندھا ، قدم سے قدماور ٹخنے سے ٹخنہ ملا نا
اس کی غرض وغایت یہ ہے کہ صف میں ادنیٰ سابھی خلل اور شگاف باقی نہ رہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سابقہ حدیث میں گزر چکا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں ایک باب یوں مقرر فرما یا ہے (باب الزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف)(105)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ:
"اس باب سے صف کی تعدیل اور اس کے خلل کو بند کرنے میں مبالغہ مراد ہے۔
تسویۃ الصفوف کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کا طریقہ ہدایت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ہمارے لیے تسویۃ الصفوف کے ضمن میں اپنے خصوصی اہتمام کی حیرت انگیز مثالیں چھوڑی ہیں خواہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین امام رہے ہوں یا کہ متقدی چنانچہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فر ما یا :
(كان النبي صلي الله عليه وسلم بسوبنا في الصفوف كما يقوم القدح)(107)
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صفوں میں اس طرح برابر کرتے تھے جس طرح تیروں کو سیدھا کرتے ہیں ۔"
ہم سبھی لوگ جا نتے ہیں کہ عہد رسالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی مسلمانوں کے امام تھے،آپ تسویۃ الصفوف کے بارے میں کسی قدر فکر مند رہتے تھے۔اس کا اندازہ اوپر بیان کی گئی حدیث سے کیا جا سکتا ہے، یہاں تیر کی مثال اس لیے دی گئی ہے کیونکہ تیر کی صفت یہ ہو تی ہے کہ وہ بالکل سید ھا اور سوفیصد مستقیم ہو تا ہے تا کہ نشانہ خطاء نہ ہونے پا ئے ۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "القدح" تیر کی وہ لکڑی ہو تی ہے جس کے آگے تیر کا پھل اور پیچھے پر وغیرہ لگا نے سے قبل اسے چھیل کر سید ھا اور درست کیا جا تا ہے ،انتھی ۔یعنی اسے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو برا بر سید ھا کرنے کا اجتہاد درجہ اہتمام فرماتے تھے حتیٰ کہ ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ان صفوں کے اعتدال سیدھے پن اور برا بری سے تیروں کو سیدھا کر کے چھوڑ اجا سکتا ہے"(108)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے اندر ادھر اُدھر سے داخل ہو تے اور صفوں کو ازاول تا آخر برا بر کیا کرتے تھےچنانچہ حضرت براءبن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے بیان کیا ۔
(يتخلل الصف من ناحية إلى ناحية يمسح صدورنا، ومناكبنا، ويقول: لا تختلفوا فتختلف قلوبكم،)(109)
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر ادھر اُدھر آتے تھے اور ہمارے سینوں ،بازوؤں اور کندھوں کو برا بر کرتے تھے۔اور فر ما تے تھے کہ صفوں سے آگے پیچھے مت ہو ورنہ تمھا رے دل بھی مختلف ہو جا ئیں گے" ایک اور حدیث میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
(كان النبي صلي الله عليه وسلم بسوي منا منا كينا في الصلاة)(110)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ" اس کی اسناد متصل اور اس کے رجال موثقون ہیں (111)یہ تو تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اہتمام کا تعلق ہے تو ان میں سے بھی جو امام ہوا کرتا تھا اس کا تسویۃ الصفوف کے بارے میں شدید الحرص ہو نا دیدنی ہوتا تھا چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ:
"جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تے تو لوگوں کے شانوں اور قدموں کی طرف نظر یں کرتے تھے "(112)حضرت عثمان النہدی سے مروی ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفیں درست کرنے کی تا کید فر ما تے اور کہتے کہ فلاں تم آگے آؤ اور فلا ں تم پیچھے جاؤ"(1213)
اور عثمان النہدی سے ہی مروی ایک دوسری روایت میں ہے وہ فر ما تے ہیں کہ:"میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازمیں صف درست رکھنے کے لیے لات ماری تھی"(114)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کی صحت بیان کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
(صح عن عمر رضي الله عنه أنه ضرب قدم أبي عثمان النهدي لإقامة الصف)(115)
امام ابن حزم ظاہری ابو عثمان نہدی کے اس واقعہ کی روایت کے بعد لکھتے ہیں ۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ض کے علاوہ کسی اور بات پر کسی کو لا ت نہیں ما ر سکتے تھے اور نہ ہی ناجائز طور پر کسی کو سزا دے سکتے تھے"(116)
تسویۃ الصفوف کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خصوصی اہتمام کا اندازہ حضرت نافع کی اس ر وایت سے بھی ہو سکتا ہےفرما تے ہیں ۔
(أن عمر بن الخطاب كان يأمر بتسوية الصفوف فإذا جاءوه فأخبروه أن قد استوت كبر)(117)
"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صفوں کو برا بر کرنے کے لیے آدمی مقرر کر رکھے تھے ۔جب وہ آکر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلا ع دیتے کہ صفیں درست ہو گئیں ہیں تو آپ تکبیر کہتے "امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بارے میں یوں روایت کی ہے۔
(انه كان يوكل رجلا باقامة الصفوف ولايكبر حتي بخبر ان الصفوف قد استوت)(118)
ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں کہ:
"میں بھی ان لوگوں میں سے ایک ہوں جنہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صفیں سیدھی کرنے کے آگے بڑھایا تھا "(119)
اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ:
"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے جب تک کہ ان کے مامورکردہ لوگ انہیں صفوں کے سیدھےہو جا نے کی اطلا ع نہیں دیتے تھے "(120)
ابو سہل بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فر ما یا :
"میں حضرت بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا اتنے میں نماز کی اقامت ہو ئی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سلسلہ میں گفتگو کر رہا تھا کہ وہ مجھے مال میں سے کچھ حصہ دیں میں نے اپنی گفتگوجاری رکھی ،وہ اپنی جوتیوں سے کنکریوں کو ادھر اُدھر برا بر کر رہے تھے حتیٰ کہ وہ لو گ آئے جنہیں آپ نے تسویۃ الصفوف کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور انھوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی کہ صفیں برا بر ہو گئی ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرما یا کہ تم بھی برا بر صف میں کھڑے ہو جا ؤ ،پھر آپ نے تکبیر پڑھی (121)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی مروی ہے کہ :
(انهما كانا يتعاهدان ذلك ويقولان استووا كان علي يقول تقدم يا فلان تاخر يا فلان)(122)
یہ تھا خلفا ئے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل کہ جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ،چنانچہ ارشاد نبوی ہے۔(عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ بَعْدِي عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذ " .)(123)
"تم پر میری اور میرے ہدایت یا فتہ خلفا ئے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کی سنت کو پکڑ نا لا زم ہے۔ان کے ساتھ چمٹے رہو اور سختی کے ساتھ انہیں دانتوں سے دبائے رہو۔
خلفائے را شدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھی تسویۃ الصفوف کی شدت حرص منقول ہے چنانچہ سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ:
(كان بلال بسوي مناكبنا ويضرب اقدامنا في الصلاة)(124)
"حضرت بلال ) نماز میں ہمارے پاؤں پر لا ت مارتے تھے اور ہمارے کندھوں کو سیدھا کرواتے تھے"
حافظابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "فتح الباری" (125)میں اس روایت کی صحت بیان کی علاء ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس اثر کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔"حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرض کے ترک کے علاوہ اورکسی وجہ سے لوگوں کو نہیں مار سکتے تھے"(126)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مدعیان وجوب تسویۃ کا یہ قول نقل کیا ہے۔(ما كان عمر وبلال يضربان احدا علي ترك غير الواجب)(127)
شارح ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان واقعات سے ان کے نزدیک تسویۃ الصفوف کے وجوب کا فا ئدہ اخذ کیا ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں ۔( وروي عن عمر وبلال ما يدل على الوجوب عندهما لأنهما كانا يضربان الأقدام على ذلك )(128)
لیکن حافظ ابن عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان واقعات سے وجوب تسویۃ پر استدلال کو محل نظر بتا یا ہے اور فر ما تے ہیں کہ:"یہاں اس بات کا جواز موجود ہے کہ ان دونوں حضرات نے ترک سنت کے باعث یہ تعزیری ہو"(129)
مشہور صحابی رسول حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ فر ما تے ہیں کہ:
"صفوں کا درست کرنا اتمام صلوٰۃ سے ہے۔ مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جا ئیں اگر میں صف میں کو ئی خلل دیکھوں اور اسے بند نہ کروں "(130)امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس قول کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں (131)"جس چیز کا ترک مباح ہوا اس پر کو ئی شخص اس طرح کی تمنا کا اظہار نہیں کرسکتا "اس سلسلہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث تو اوپر گزرچکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
"أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ "
اس کے علاوہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی روایت بھی اوپر پیش کی جا چکی ہیں لہٰذا یہاں تکرار کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
مشہور صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
قد رأيتنا وما تقام الصلاة حتى تكامل بنا الصفوف (132)
"ہم نے دیکھا ہے کہ اقامت نماز اس وقت تک نہیں کہی جا تی تھی جب تک ہماری صفیں مکمل نہ ہو جا تی تھیں ۔
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں "(133)
صف پوری نہ کرنے والے گناہ :۔صف پو ری نہ کرنے کے سلسلے میں جو وعید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے وہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بالترتیب مندرجہ ذیل روایا ت کی صورت میں اوپر گزر چکی ہے۔
لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ
أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قلوبكم اور
(وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس بارے میں ایک باب مقرر فر ما یا ہے۔
بَابُ إثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصَّفَّ. (134)
سلف وصالحین کاصف پوری نہ کرنے والے کی مذمت فر ما نا :۔
ہمارے سلف وصالحین نے صفوں کو پوری نہ کرنے والے نمازیوں کی شدیدمذمت فرمائی ہے چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مدینہ تشریف لے گئے تو کسی شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی نسبت کیا آپ ہم لوگوں میں کو ئی منکر چیز دیکھتے ہیں ؟"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا :
مَا أَنْكَرْتُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّكُمْ لَا تُقِيمُونَ الصُّفُوفَ (135)
"میں تم میں اس کے سو اکو ئی منکر چیز نہیں پاتا کہ تم صفوں کو قائم نہیں کرتے"اسی طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فر ما یا :
"پس میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اور بازو دوسرے ساتھی کے کندھےاور بازو سے اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا تھا۔ لیکن اگر آج یہی کام میں کسی نمازی کے ساتھ کروں تو وہ اس طرح بدکتا ہے جس طرح کوئی سر کش خچرہو۔
ولو فعلت ذلك بأحدهم اليوم لنفر كأنه بغل شموس " ....اخرجه الاسماعيلي من رواية معمر عن حمد عن انس بن مالك (136)
علامہ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ جو اگرچہ وجوب تسویۃ الصفوف کے قائل نہیں ہیں بلکہ اسے سنت مندوب قرار دیتے ہیں ۔ بھی فرماتے ہیں کہ:
" تسویۃ الصفوف کا فعل اپنے اس فاعل پر مدح کا مستحق ہے اور یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا تارک مذمت کا مستحق ہے"(137)
تسویۃ الصفوف سے متعلق چند اہم مسائل :۔
ذیل میں ہم ان چند اہم مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی ہمارے نمازی بھائیوں کو اکثر و بیشتر ضرورت پیش آتی ہے۔
دوشخصوں کا باجماعت نماز ادا کرنا :۔
اگر دو شخص باجماعت نماز ادا کر رہے ہوں تو مقتدی امام کے برابر اس کی داہنی جانب کھڑا ہو، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت اور واضح ہو تا ہے۔ فرماتے ہیں :
" بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، ثُمَّ نَامَ ، ثُمَّ قَامَ ، ثُمَّ قَالَ : ( نَامَ الغُلَيِّمُ )، أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا ، ثُمَّ قَامَ ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ ، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ نَامَ ، حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ " رواه البخاري (117)(138)
"میں ایک مرتبہ اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر رہ گیا (میں نے دیکھا کہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء ادا فر ما ئی پھر تشریف لا ئے اور چار رکعات مزید پڑھیں پھر سو گئے۔پھر اُٹھے ،میں آپ کے بائیں جانب آکر کھڑا ہو گیا (ایک دوسری روایت میں ہے کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو گیا )پس آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کر دیا اور پا نچ رکعات پڑھیں ۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں ایک باب یوں قائم کیا ہے۔
باب يقوم عن يمين الامام بحذائه سواءاذاكانا اثنين(139)
(یعنی امام کی داہنی جانب اس کے برا بر کھڑے ہو نے کے بارے میں باب جبکہ صرف دو ہی نمازی ہوں) ۔۔۔امام رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی کے مطابق مقتدی امام کے برابر اس کی داہنی جانب کھڑا ہو۔ امام سے نہ پیچھے ہو،نہ اس کی طرف جھکے اور نہ ہی اس سے دور ہٹ کر کھڑا ہو۔بلکہ اسی طرح قیام کرے۔ جس طرح کہ صف میں دونمازی ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے ہو تے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا ہے کہ "میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہوا ۔اور یہ چیز مساوات پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "فتح الباری" (140)میں تحریرفر ما یا ہے۔
امام لغوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس بارے میں یوں ابواب مقررکئے ہیں:
۔(باب اذا كان مع الامام رجل واحد يقوم علي يمينه)
(شرح السنۃ ج3ص383)
اور علامہ ابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کی حدیث کے ثبوت کی بنا پر جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر مقتدی اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ امام کی داہنی جانب کھڑا ہو۔"(141)
2۔صف کے پیچھے اکیلے نمازی کا کھڑا ہو نا :۔
اگر کو ئی شخص مسجد میں اس وقت داخل ہو، جبکہ جماعت کھڑی ہو چکی اور اسے آخری صف میں بھی کھڑے ہونے کی جگہ نہ ملے تو ایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہیے؟۔۔۔اس بارے میں پہلی بات تو یہ جان لینی چا ہیے کہ کسی شخص کا صف کے پیچھے تنہا پڑھنا جا ئز نہیں ہے کیونکہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھتے ہو ئے دیکھا تو اس سے فر ما یا کہ اپنی نماز لوٹاؤ (دہراؤ)جیسا کہ حضرت وابصہ بن معبد کی اس حدیث میں مذکور ہے۔فر ما تے ہیں (142)
(أن النبي -صلى الله عليه وسلم-: «رأى رجلا يصلي خلف الصف وحده، فأمره أن يعيد)
"تحقیق کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہو ئے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز لوٹا نے کا حکم فر ما یا :امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "حسن " امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ اور محمد نا صر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "صحیح " قرار دیا ہے چنانچہ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں : (صححه ا حمد وجماعة غيره)(143)
بو صیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔(144)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔(صححه احمد وابن خزيمة وغيرها)(145)امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔(قال ابن المنذر ثبت هذا الحديث احمد واسحاق)پھر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تحسین فر ما ئی ہے (146)علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی تصحیح کی بجا ئے تحسین کے قول کو ترجیح دی ہے چنانچہ لکھتے ہیں (حديث وابصة حسن)(147)اس بارے میں بعض اور احادیث یوں مروی ہیں ۔
(روى أحمد وابن ماجه عن علي بن شيبان، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يصلي خلف الصف، فوقف حتى انصرف الرجل (يعني أتم صلاته) فقال له: (استقبل صلاتك، فلا صلاة لمنفرد خلف الصف) (148)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھتے ہو ئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ اس نے سلام پھیرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فر ما یا کہ اپنی نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہو تی "علی بن شیبان سے مروی اس حدیث کی اسناد حسن ہے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صحت بیان کی ہے۔ امام اثرم رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا :"حدیث حسن "ابن سعید الناس رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
رواته ثقات معروفون(150)
اس کے لیے طلق بن علی کی یہ مرفوع حدیث بھی شاہد ہے۔
لاصلوة لمنفرد خلف الصف(151)
شارح ترمذی علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"حدیث وابصہ میں اس بات پر دلالت پا ئی جا تی ہے کہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے تو اس پر نماز کو دہراناضروری ہے"(152)
لیکن یہ حکم اس صورت پر محمول ہے کہ جب آخری صف میں اس نمازی کے شامل ہو سکنے کی گنجا ئش باقی ہوا ور وہ اس کی استطاعت بھی رکھتا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم اس لیے فر ما یا تھا کہ اس نے اس بارےمیں افراط سے کام لیا تھا حالانکہ وہ صف میں داخل ہو کر اس کے خلل کو بند کرنے اور دوسرے نمازیوں کے ساتھ صف بند ہو نے پر مامورتھا واللہ اعلم
اگر کو ئی نمازی صف میں جگہ باقی نہ ہو نے کے سبب شامل صف ہو نے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ صف کے پیچھے تنہا ہی نماز پڑھ لے یا اس دوسری صورت کو اختیار کرے جس کا تذکرہ آگے آئے گا چونکہ ایسا شخص صف بندی سے معذور ہے۔ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (153)
یعنی "اللہ تعا لیٰ اپنے کسی بندے کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا " لہٰذا ان شاء اللہ صف کے پیچھے اس کی تنہا ادا کی ہو ئی نماز بھی ہو جائے گی۔ جیسا کہ امام ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا قول ہے (154)واللہ اعلم
لیکن علامہ ابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ بلا تفصیل فر ما تے ہیں ۔
"اگر کو ئی انسان صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے تو اس بارے میں علماء کے در میان اختلاف پا یا جا تا ہے جمہور کا قول ہے کہ اس کی نماز جا ئز ہے لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ابو ثور اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس کی نماز فاسد ہے۔(155)
واضح رہے کہ یہاں "جمہور"سے ابن رشد کی مراد فقط امام مالک ،امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں جیسا کہ خود انھوں نے صراحت فر ما ئی ہے کہ "جمہور " سے میری مراد یہی تین فقہاء ہو تے ہیں ۔(156)جو علماء صف کے پیچھے نماز منفرد کی نماز کے جواز یا عدم جواز کے قائل ہیں ان کی تفصیل حسب تصریحات امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ و ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ و ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ و شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ و عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کچھ اس طرح ہے۔
"امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ حکم ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ بعض محدثین شافعیہ مثلاً ابن حزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نخعی رحمۃ اللہ علیہ ،حسن بن صالح رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کی ایک جماعت مثلاً حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور وکیع رحمۃ اللہ علیہ وغیرہیم عدم جوار کے قائل ہیں جبکہ حسن بصری اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سفیان ثور ی رحمۃ اللہ علیہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل الرائے یعنی حنیفہ کا قول جواز کا ہے ۔(157)
امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے
(158)
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"جس شخص نے صف کے پیچھے تنہا ایک رکعت پڑھی اس کی نماز درست نہیں ہے"(159)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فریقین کے تمام دلائل کا تفصیلی جائز ہ لینے کے بعد صف کے پیچھے منفرد کی بلا عذر نماز کو غیر صحیح قرار دیا ہے (160)لیکن یہ مختصر رسالہ ان تمام دلائل کو یہاں جمع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
ایک ضروری تنبیہ :۔
بعض لو گ کہتے ہیں کہ اس شخص کو چا ہیے کہ اگلی صف میں سے کسی نمازی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے اور اس کے ساتھ صف بندی کرے۔اگرچہ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی اس طریقہ کو اختیار کیا ہے لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ نمازی اگلی صف کی فضیلت سے محروم ہو جا تا ہے اور جس صف سے کسی نمازی کو کھنچا جا ئے اس میں بھی خلل اور نقص واقع ہو جا تا ہے۔(161)حالانکہ ہر نمازی نقص و خلل کو دور کرنے پر مامورہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ابو طیب الطبری رحمۃ اللہ علیہ کسی نمازی کو صف سے کھنچنے کے قائل نہیں ہیں جبکہ اکثر اصحاب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "وہ شخص کسی نمازی کو اگلی صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے اور جس نمازی کو کھنچا جا ئے اس کے لیے مساعدت مستحب ہے۔"لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ عمل (یعنی نمازی کو اگلی صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا نا ) چونکہ ایک فعل شرعی ہے اور کو ئی بھی فعل شرعی بغیر شرعی دلیل کے جا ئز نہیں ہوتا ،لہٰذا اس فعل کے لیے بھی کسی قابل حجت شرعی دلیل کا موجود ہو نا ضروری ہے۔ جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ اس بارے میں کو ئی بھی ایسی حدیث وارد نہیں ہے کہ جو صحیح اور قابل اعتماد ۔۔۔پس استحباب تو کجا ،اس کا جوازثابت کرنا بھی ممکن نہیں ہے ۔اس بارے میں جو احادیث وارد ہیں اور عام طور پر جن سے استدالال کیا جا تا ہے ذیل میں بمع تبصرہ پیش کی جا تی ہیں ۔
اذا انتهي احدكم اي الصف وقدتم فليجبذ اليه رجلا يقيمه الي بجنبه (162)
اس حدیث کو امام طبرا نی رحمۃ اللہ علیہ نے "الاوسط " میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس کو روایت کرنے کے بعد خود فر ما تے ہیں :
(لايروي عن النبي صلي الله عليه وسلم الا بهذا الاسناد)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ" اس کی سند میں بشر بن ابرا ہیم ہے جو کہ سخت ضعیف ہے"(163)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اور محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سند کو نہایت ضعیف (164)قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے مجروح راوی بشیر بن ابر ہیم کے متعلق امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ "امام اوزاعی سے منسوب کر کے غیر متابع موضوع احا دیث روایت کرتا ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"منکر الحدیث ہے ۔اس کے پاس آئمہ سے منسوب باطل احادیث ہیں ۔میرے نزدیک وہ ثقات پر حدیث گھڑنے والوں میں سے ہے"امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں کہ " وہ ثقات کی طرف منسوب کر کے گھڑا کرتا تھا " علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر اسے "ضعیف جدا"اور دوسرے مقام پر "وضاع"لکھا ہے مزید تفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ(165)کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
2۔اس بارے میں وابصہ بن معبد سے بطریق السری بن اسماعیل بھی ایک روایت آئی ہے جو اس طرح ہے۔
انصرف رسول اللهصلى الله عليه وسلم ورجل يصلي خلف القوم فقال : . " يا أيها المصلي وحده ألا تكون وصلت صفاً فدخلت معهم أو اجتررت إليك رجلاً إن ضاق بكم المكان اعد صلاتك فانه لا صلوة لك. (166)
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے۔
رأى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - رجلاً صلى خلف الصفوف وحده، فقال: أيها المصلي وحده ألا وصلت إلى الصف، أوجررت إليك رجلاً فقام معك؟اعد الصلوة"(167)
لیکن علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس کی سند میں السری بن اسماعیل ہے اور وہ ضعیف ہے" (168)السری بن اسماعیل کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "متروک الحدیث"اور یحییٰ بن معین نے "ليس بشئي یعنی وھیلہ برا بر بھی نہیں ہے کہا ہے ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ" اس کی حدیث نہ لکھی جا ئے "یحییٰ القطان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے"استبان لي كذوبه في مجلس واحد "علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ "متروک "اور دوسری جگہ "ضعیف "لکھا ہے ۔حافظ ابن حجر اور علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے "متروک " قرار دیا ہےتفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ (169)کے تحت درج شدہ کتب کی طرف رجوع فر ما ئیں ۔3۔"تا ریخ اصبہان "میں یہ حدیث ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ،اس کے الفاظ ہیں :
ان رجلا صلي خلف الصف وحده وكان النبي صلي الله عليه وسلم يري من خلقه كما يري من بين يديه فقال له النبي صلي الله عليه وسلم الا دخلت في الصف اوجذبت رجلا صلي معك اعد الصلاة"(170)
لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ"اس کی سند میں قیس بن الربیع ہے جو کہ ضعیف ہے" ۔۔۔(171)علامہ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند میں قیس بن الربیع کے علاوہ ابن عبد ویہ کو بھی اس کے ضعف کی علت قراردیا ہے (172)قیس بن الربیع کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "متروک الحدیث " دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف الحدیث "ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ نے "ضعیف مختلف فیہ " سعدی" نے "ساقط " اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے" غیر محتج بہ " قرار دیا ہے ۔یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ "وھیلہ برابر بھی نہیں ہے" آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دوسرا قول ہے کہ "ضعیف " ہے ایک اور قول ہے (لايكتب حديثه) امام المدینی رحمۃ اللہ علیہ اور وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس کی تضعیف منقول ہے لیکن شعبہ اور سفیان وغیرھا نے اس کی تو ثیق کی ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"صدوق ضعیف من قبل حفظہ " تفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ (173)کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔اس کے دوسرے مجروح راوی یحییٰ بن عبد ویہ کو امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے کذاب اور رجل سوء (یعنی بہت ہی برا آدمی) " بتا یا ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا دوسراقول ہے کہ (ليس بشئي)(وھیلہ برابر بھی نہیں ہے) رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "مجہول "قراردیا ہے لیکن ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔" (ارجوانه لاباس به)تفصیل کے لیے حاشیہ (174)کے تحت مذکورہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
4۔مراسیل ابی داؤد میں مقاتل بن حبان کی ایک حدیث میں مروی ہے ۔
إنْ جَاءَرَجُل فَلَمْ يَجِد أَحَدًا فَلْيَخْتَلِجْ إلَيْهِ رَجُلًا مِنْ الصَّفّ فَلْيَقُمْ مَعَهُ فَمَا أَعْظَمَ ا جر المختلج (175)
اس کی سند میں اگر چہ کو ئی حرج نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ مرسل ہے اور مرسل ہے اور مرسل بھی ضعیف حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔ اس باب میں چونکہ وابصہ اور ابن عباس کی احادیث انتہائی ضعیف ہیں لہٰذا ان سے تقویت کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے ۔پس یہ حدیث بھی اپنی اصلی حالت(یعنی ضعف ) پر باقی رہے گی۔ افسوس کہ صاحب "عون المعبود " نے اس کی یہ توجیہ بیان فرمائی ہے۔(176)
"ایسا اس لیے ہے کہ اس کو اپنی نیت کے باعث وہ فضیلت بھی مل جا ئے گی جو کہ اس کو اگلی صف میں کھڑے ہو نے کے باعث حاصل تھی اور پیچھے آنے سے جا تی رہی اس کے علاوہ اس کو غیرکے لیے فضیلت کی تحصیل کے سبب اضافی اجر بھی ملے گا "انااللہ واناالیہ راجعون"چونکہ اس تو جیہ کا بطلا ن خود ظاہر ہے لہٰذا ہم اس پر مزید کلا م کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔خلا صہ یہ کہ صف سے آدمی پیچھے کھینچ لا نے پر ان احادیث سے استدلال قطعاً درست نہیں ہے۔ بعض جن دوسری احادیث سے اس پر استدلال کیا جا تا ہے وہ اگر چہ صحیح ہیں لیکن ان سے استدلال محض کھینچا تا نی ہی ہے ۔غیر ضروری طوالت کے خوف سے ہم یہاں اس پہلو پر بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔خواہشمند حضرات فتح الباری المحلی،عون المعبود،اور تحفۃ الاحوذی وغیرہ کی طرف رجوع فر ما ئیں ۔
اس بار میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں :"عذر ہو نے کی صورت میں صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز درست ہے حنفیہ کا قول ہے کہ اگر صف کے پیچھے کھڑےہو نے کے سوا کو ئی جگہ نہ پا ئے تو افضل یہ ہے کہ تنہا ہی کھڑا ہو جا ئے ۔کسی کو اپنے ساتھ صف میں ملا نے کی غرض سے آگے سے نہ کھینچے کیونکہ ایسا کرنا اس مجذوب (کھینچ کر اپنے ساتھ ملا ئے گئے شخص ) کے حق میں تصرف کے مترادف ہے" (177)
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ فر ما تے ہیں :۔
"جب حدیث کا ضعف ثابت ہو چکا ہے تو اگلی صف سے کسی شخص کو کھینچ کر اس کے ساتھ صف بندی کرنے کی مشروعیت کا قول درست نہیں ہے ،کیونکہ ایسا کرنا صحیح نص کے بغیر شریعت سازی کے مترادف ہے جو کہ قطعاً ناجا ئز ہے۔ پس اگر صف میں ضم ہو نا ممکن ہو تو ایسا کرنا واجب ہے ورنہ تنہا ہی نماز پڑھ لینی چا ہیے ۔صف کے پیچھے ایسے منفرد شخص کی نماز بھی درست ہے کیونکہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے:لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اور جن احادیث میں نماز کو دھرا نےکا حکم مذکورہے تو وہ اس پر محمول ہیں کہ جب واجب (یعنی صف ہیں انضمام اور خلل کو بند کرنا) ترک کیا گیا ہو۔ لیکن اگر صف میں خلل یا شگا ف نہ ملے تو ایسا نمازی تارک واجب متصور نہ ہو گا"(178)
واضح رہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ غیرہم کا مذہب بھی یہی ہے ،کہ صف سے آدمی کو نہ کھینچا جا ئے ۔(179)امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ البانی کے اقوال اوپرگزر چکے ہیں ،سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل تھے(180)کہ صف سے آدمی کو نہ کھینچا جائے ۔
3۔عمداً پہلی صف سے پیچھے ہٹنے کا وبال :۔
جگہ ہو تے ہو ئے عمداًپہلی صف کو چھوڑ کر پچھلی صف میں کھڑے ہو نے کی کو شش کرنا صف اول کی فضیلت اور اللہ تعا لیٰ کی رحمت سے محروم ہو نا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
لا يزال قوم يتأخرون عن الصف الأول حتى يؤخرهم الله في النار" (181)
"ہمیشہ لوگ پہلی صف سے پیچھے ہٹتےرہیں گے۔حتیٰ کہ اللہ تعا لیٰ بھی ان کو (اپنی رحمت) سے جہنم میں پیچھے دھکیل دے گا"
حتى يؤخرهم الله في النار" کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں "وہ جہنم سے نکلنے والوں میں سے اولین میں شامل نہ ہو ں گے اسی طرح جنت میں داخل ہو نے والوں میں اواخرین میں سے ہوں گے اور جہنم میں سزا کے لیے داخل کئے جا نے والوں میں اولین میں سے ہوں گے جیسا کہ "فتح الودود" میں مذکور ہے"(182)اور حضرت ابو سعید الخدری رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں یہ الفا ظ مروی ہیں۔
ولا يزال قوم يتأخرون حتى يؤخرهم الله عزوجل" (183)
یہاں يؤخرهم الله عزوجل" سے مرادبقولعلامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہے کہ "اللہ تعا لیٰ انہیں اپنی رحمت فضل عظیم ،رفعت منزل اور علم سے پیچھے اور موخر کر دے گا "(184)
4۔اقامت سے قبل امام کا صفوں کو درست کروانا :۔
امام کے لیے مسنون ہے کہ تکبیر سے قبل وہ مقتدیوں کو صحیح طریقہ پر صف بندی کرنے کی تلقین کریں بلکہ بالفعل خود یا بعض دوسرے نمازیوں کی مدد سے صف کو برابر اور درست کروائیں ۔صفوں کی درستگی سے قبل تکبیر تحریمہ کہنا سنت نبوی کے خلاف ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ فرمایا :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلميسوي صفوفنا إذا قمنا للصلاة فإذا استوينا كبر (185)
"جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہو تے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کوبرابرکرتے تھے۔جب صفیں برابر ہو جا تیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے تھے۔علامہ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو " علی شرط مسلم صحیح " قرار دیا ہے (186)علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
5۔مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف صفوں کی فضیلت :۔
اگر مرد اور عورتیں ایک ساتھ باجماعت نماز ادا کررہے ہوں تو مردوں کو صف اول میں اور عورتوں کو آخری صف میں شامل ہو نے کی جستجو کرنی چا ہیے ،کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا (188)
"مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے اور سب سے بری آخری صف ہے اور عورتوں میں سب سے بری پہلی صف ہے اور سب سے بہتر آخری صف ہے۔یہ حدیث "مسند ابو یعلیٰ " میں حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے "مسند البزار رضی اللہ تعالیٰ عنہ "اور صحیح ابن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رحمۃ اللہ علیہ "میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور بعض دوسری کتب میں حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے بقول علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ "مسند ابو یعلیٰ " کی روایت کے رجال" ثقات " "البزار "اور طبرانی الکبیر والاوسط کے رجال "موثقون " اور مسندالبزار "کے رجال بھی "ثقات"ہیں (189)امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو "حسن صحیح " قرار دیا ہے ۔(190)
6۔جماعت میں عورتوں کی صف کہاں ہو؟:۔
اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوں تو ان کو چا ہیے کہ اپنی صفیں مردوں کی صفوں سے پیچھے بنا ئیں ۔عورتوں کا مردوں کی صف میں یا مردوں کا عورتوں کا صف میں کھڑا ہو نا قطعاً جا ئز نہیں ہے۔ خواہ ان میں سے کسی کی صف میں خلل ہی باقی ہو۔ اگر مسجد میں جگہ باقی نہ رہ گئی ہو تو بھی اس اختلاط کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے واضح رہے کہ اس میں محرم و غیر محرم یا نوجوان اور بوڑھی عورت کی بھی کو ئی تخصیص نہیں ہے ۔اگرعورتیں کسی مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کے لیے جا تی ہوں تو ان کے لیے مردوں کی صفوں کے پیچھے کسی ایک گو شہ کو مخصوص کر لینا مستحسن ہے تا کہ بعد میں آنے والے مرد نمازیوں کو آگے صف تک جا نے میں کو ئی دشواری نہ ہو۔عورتوں کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہی ہو، اس بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث قطعی نص کی حیثیت رکھتی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ له , فَأَكَلَ مِنْهُ , ثُمَّ قَالَ : قُومُوا فَلأُصَلِّ لَكُمْ .قَالَ أَنَسٌ : فَقُمْتُ إلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ , فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ , فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّه صلى الله عليه وسلم وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ , وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا . فَصَلَّى لَنَا رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ انْصَرَفَ . (191)
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دادی حضرت ملیکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کی آپ نے کھا نا تناول فر ما یا اور ارشاد فر ما یا کہ نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ ۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں میں نے چٹا ئی کو جو اکثر استعمال کے باعث کا لی پڑگئی تھی ،اٹھا دھویا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہو ئے ۔میں اور ایک یتیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور بوڑھی دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دورکعات پڑھا ئیں اور سلام پھیرا"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ:
"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے اور اہل علم حضرات کے نزدیک اسی پر عمل ہے"(192)
ایک اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فر ما یا : (193)
صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ لَنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا
" "میں نے اور یتیم نے اپنے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پیچھے تھیں ۔"
7۔امام کے ساتھ اکیلا مرد اور اکیلی عورت کہاں کھڑی ہو؟:۔
اگر امام کے ساتھ صرف ایک مرد اور صرف ایک ہی عورت ہو تو مرد امام کی داہنی جانب کھڑا ہو گا اور عورت ان دونوں کے پیچھے اکیلی کھڑی ہو گی ۔اس طرح باجماعت نماز میں عورت کا پچھلی صف میں منفرد ہو نا اس کے لیے باعث مضرت نہیں ہے کیونکہ تنہا عورت بھی ایک صف ہو تی ہے۔چنانچہ امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ : (المراة وحده الصف)(194)اسی باعث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی "صحیح " میں ایک باب یوں مقرر فر ما یا ہے: (باب المراة وحدهاتكون صفا)(195)(یعنی اکیلی عورت بھی صف کے حکم میں ہے )
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں :
"اس ترجمہ الباب سے بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو یہ ظا ہر کرنا مقصود ہے کہ حدیث لاصلاة لمنفرد خلف الصف کے عمومی حکم سے عورت مستثنیٰ ہے اور یہ مذکورہ حدیث صرف مردوں کے لیے ہی خاص ہے"(196)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اہل علم حضرات سے نقل فر ما تے ہیں :
أكثر أهل العلم قالواإذاكان مع الإمام رجل وامرأة قام الرجل عن يمين الإمام والمرأة خلفهما (197)
یہی چیز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی منقول ہے ( 198)امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں :
فإن كان معهمارجل وقف عن يمينه ، ووقفت المرأة خلفهما . وإن كان معهما رجلان وقفا خلفه ، ووقفت المرأة خلفهما . (199)
علامہ ابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"سنت یہ ہے کہ عورت تنہا یا مردوں کے پیچھے کھڑی ہو ،اگر چہ وہاں امام کے سواصرف ایک ہی مرد ہو ۔اگر امام کے سوا کو ئی دوسرا مرد نہ ہو تو تنہا عورت امام کے پیچھے کھڑی ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے ثبوت کی بنا پر اس بارے میں مجھے کسی اختلا ف کا کوئی علم نہیں ہے "(200)
امام لغوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارےمیں ایک باب یو ں باندھا ہے۔
إذا كانوا ثلاثة تقدم الإمام، ووقف الآخران خلفه صفا، والمرأة تقف خلف الرجال وحدها . (201)
لیکن اگر ایک سے زیادہ عورتیں ہو ں تو وہ مردوں کے پیچھے صف بنا کر ہی کھڑی ہوں گی ۔جیساکہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوی سے ظاہر ہے۔
لوكان معها في الصلاة امراة لكان من حقهاان تقوم معها(202)
8۔ ستونوں کے درمیان صفیں باندھ کر کھڑاہو نا مکروہ ہے، چنانچہ عبد الحمید بن محمود سے مروی ہے انھوں نے کہا کہ: (203)
صلينا خلف أمير من الأمراء فأضطرنا الناس فصلينا بين الساريتين [ فجعل أنس بن مالك يتأخر ] فلما صلينا قال أنس : كنا نتقي هذا على عهد رسول الله" صلى الله عليه وعلى آله وسلم "
ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی ۔لوگوں پر جگہ کی تنگی کے باعث ہم نے مجبور اً ستون کے درمیان نماز پڑھی جب ہم نماز پڑ ھ چکے تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ہم عہد رسالت میں اس سے بچا کرتے تھے۔"امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ" یہ حدیث حسن صحیح ہے"اور معاویہ بن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :
( كنا ننهى أن نصف بين السواري على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ونطرد عنها طردا) (204)
"ہمیں عہد رسالت میں ستونوں کے درمیان صفیں باندھ کر نماز پڑھنے سے روکا جا تا تھا اور ہمیں وہاں سے ہٹادیا جا تا تھا ۔"حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فر ما یا :
لاتسطفوا بين السواري ولا تاتموا بقوم وهم يتحدثون
اسی طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ فر ما یا :
انما كرهت الصلاة بين السواري للواحد والاثنين
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دونوں روایتوں کو امام طبرا نی نے "معجم الکبیر " میں روایا ت کیا ہے اور بقول علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ "ان کی اسناد حسن ہیں " (205)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی بعض دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں :
(206)"ستونوں کے درمیان کی جگہ سے اپنے آپ کو بچاؤ اور پہلی صف کو اختیار کرو"(مزید تفصیل کے لیے حاشیہ (207)کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی )سعید بن منصور کی روایت کے مطا بق "حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی نہی منقول ہے" جبکہ امام احمد بن حنبل امام اسحاق بن راہویہ اور امام نخعی اس کی کراہت کے قائل ہیں ۔ ابن سید الناس رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین درمیان اس امر پر کسی اختلا ف کا علم نہیں ہے ۔"امام ابن سیر ین رحمۃ اللہ علیہ امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ اور امام ابن منذر نے امام اور منفرد پر قیاساً اس کی رخصت بیان کی ہے مگر امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے قیاس الموتمین علی الامام والمنفرد کو احادیث الباب کے ساتھ مصادمت کے باعث فاسد الاعتبار قرار دیا ہے ۔(208)
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں دا خل ہو ئے تو آپ نے ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی لہٰذا امام یا منفرد کا ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا تو درست ہے لیکن مقتدیوں کا ستونوں کے درمیان صفیں بنانا مکروہ ہے ۔بقول ابن رسلان :" حسن ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ ،سعید بن جیر ابرا ہیم تیمی رحمۃ اللہ علیہ اور سوید بن غفلہ ستونوں کے درمیان امامت کیا کرتے تھے"(209)
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔"امام کے لیے ستونوں کے درمیان کھڑا ہو نا مکروہ نہیں ہے لیکن مقتدیوں کے لیے ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے سے صف کٹتی ہے"(210)ابو بکر بن العربی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کراہت کے یہ توجیہ فرما ئی ہے کہ :
"ستون انقطاع صف کا باعث ہو تا ہے یا پھر یہ جوتوں کے رکھنے کی جگہ ہے"لیکن ابن سید الناس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ "پہلی علت زیادہ قرین قیاس ہے ،دوسری تو نو ایجاد ہے"اور علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
وروي ان سبب كراهة ذلك انه مصلي جن المومنين(211)
مختصراً یہ کہ سبب کراہت خواہ کچھ بھی ہو مقتدیوں کے لیے ستونوں کے مابین صفیں بنانا عبد الحمید بن محمود کی مذکورہ با لا حدیث کے پیش نظر بہر حال مکروہ ہے جیسا کہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فر ما یا ہے فرماتے ہیں ۔"عبد الحمید بن محمود کی یہ حدیث ستونوں کے درمیان(باجماعت ) نماز کی کراہت پر دلالت کرتی ہے ۔"(212)
9۔امام اور صفوں کے مابین نہر یا دیوار وغیرہ کا حائل ہو نا :۔
اگر امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار ،نہر یا رستہ وغیر حا ئل ہو جس کی وجہ سے مقتدیوں پر امام کی حرکا ت مشتبہ ہو جا ئیں تو ایسی صورت میں حضرت عمر بن الخطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطا بق مقتدی امام کے ساتھ نہیں سمجھے جا ئیں گے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں :
"اگر امام اور مقتدیوں کے مابین رستہ یا نہر یا دیوار حائل ہو تو مقتدی امام کے ساتھ نہیں ہیں ۔"(213)
10۔اگلی صف میں خلا ہو تو آنے والا مقتدی اس میں دا خل ہو:۔
اگر کو ئی مقتدی صفیں درست ہو نے کے بعد یا نماز شروع ہو نے کے بعد مسجد میں آئے اور اسے اگلی کسی صف میں کو ئی خلا نظر آئے تو اس میں داخل ہو نے کی کو شش کرے۔
عبید اللہ بن یزید روایت کرتے ہیں کہ: "میں نے مسور بن مخرمہ کو دیکھا ہے کہ آپ صفوں کے درمیان گھس کر پہلی یا دوسری صف میں کھڑے ہو جا یا کرتے تھے "(214)
اگر کو ئی شخص پچھلی صف میں کھڑا ہو گیا دریں حالیکہ اگلی صف میں اس کے داخل ہو جانے کی گنجا ئش موجود تھی ،وہ اس کو جانتا تھا اور دخول کی قدرت بھی رکھتا تھا تو ایسی حالت میں بقول امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ :" اس کی نماز باطل ہو جا ئے گی۔"(215)
11۔اگر مقتدی کو ئی جگہ نہ پا ئے تو امام کی داہنی جا نب کھڑا ہو جا ئے :۔
اگر کو ئی مقتدی کسی صف میں اپنے لیے کو ئی جگہ نہ پا ئے یا ضیق المکان کی صورت و پیش ہوتو اسے چا ہیے کہ صفوں سے گزرتا اندر جا ئے اور امام کی داہنی جانب جا کھڑا ہو۔امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"اگر مقتدی داخل ہو اور صف میں شگاف پا ئے تو اس میں داخل ہو جا ئے ۔اگر شگاف نظر نہ آئے تو امام کی داہنی جانب کھڑا ہو جا ئے ۔اس لیے اگلی صف سے کسی شخص کو کھنچ کر اس کے ساتھ کھڑا ہو نا مستحب نہیں ہے "(216)شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
"کسی مقتدی کو اگلی صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا نے کا جواز محل نظر ہے کیونکہ اس بارے میں وارد حدیث ضعیف ہے اور اس لیے بھی کہ مقتدی کو صف سے کھینچنا صف میں شگاف پیدا کرنے کا باعث ہے حالانکہ خلل کو بند کرنا مشروع ہے ۔پس اولیٰ یہ ہے کہ مقتدی کے کھینچنے کو ترک کر کے صف میں اپنے لیے گنجا ئش تلا ش کرے ،یا پھر امام کی داہنی جانب کھڑا ہو جا ئے ۔واللہ اعلم "(217)
12۔دومقتدیوں میں سے اگر ایک مقتدی نماز ترک کر دے تو دوسرا مقتدی کیا کرے ؟
اگر صرف دوشخص کسی امام کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کر رہے ہوں اور ان میں سے کو ئی ایک مقتدی کسی عذر کی بنا پر نماز چھوڑ کر چلا جا ئے تو دوسرے شخص کو چا ہیے کہ اپنی جگہ سے بڑھ کر امام کی داہنی جانب کھڑا ہوجا ئے ۔جیسا کہ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے "المغنی "(218)میں فر ما یا ہے لیکن اگر امام کے پیچھے کئی صفیں ہوں مگر آخری صف میں دو ہی مقتدی ہوں اور ان میں سے بھی کو ئی مقتدی نماز چھوڑ کر چلا جا ئے تو جو شخص تنہا رہ گیا ہے، اگر وہ اگلی صف میں خلا پا ئے تو اس میں داخل ہو جا ئے۔اگر خلا نہ پا ئے تو امام کی داہنی جانب جا کر کھڑا ہو جا ئے ۔اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنی جگہ پر تنہا ہی نماز پڑھ لے۔ ان شاء اللہ اس کی نماز ہو جا ئے گی۔کیونکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :
أَتِمُّواالصَّفَّ الْمُقَدَّمَ ، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ ،
فَمَا كَانَ مِنْ نَقْصٍ ، فَلْيَكُنْفِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ " ، (219)
"پہلے اگلی صفیں پوری کرو ،پھر اس کو جو اس کے بعد ہوں ۔ اگر کو ئی کمی ہو تو وہ پچھلی صف ہی میں رہنی چا ہیے۔۔۔اس حدیث کی اسناد "صحیح " ہے ۔
13۔اگر امام تنہا مقتدی کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرا آنے والا شخص کسی طرح جماعت میں شا مل ہو؟
اگر کو ئی تنہا شخص امام کے برا بر کھڑا ہو کر باجماعت نماز ادا کر رہا ہو اور کو ئی دوسرا شخص آکر نماز میں شامل ہو نا چا ہتا ہو تو اسے چا ہے کہ حسب سہولت یا تو مقتدی کو اشارہ کر کے اپنے ساتھ پیچھے لے آئے اور اس کے ساتھ صف بنا لے یا پھر امام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کر کے اس مقتدی کے برابر کھڑا ہو جا ئے ۔
14۔عورت کی امامت :۔
عورت عورتوں کی امامت کر سکتی ہے ۔اس بارے میں قرآن و سنت میں ممانعت کی کوئی دلیل مو جود نہیں ہے بلکہ بعض اھادیث کی روشنی میں ایسا کرنا مسنون و ماثور اور باعث اجر و خیر ہے، جیسا کہ آگے بیان کیا جا ئے گا ۔۔۔سلف صالحین میں سے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عطاء رحمۃ اللہ علیہ ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،ثوری رحمۃ اللہ علیہ ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ، طبری رحمۃ اللہ علیہ اور ثور رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کی امامت"مستحب " ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "غیر مستحب" اور اصحاب الرائے بالخصوص حنفیہ کے نزدیک "مکروہ " لیکن اگر امام بن جائے تو جا ئز ہے شعبی رحمۃ اللہ علیہ ،نخعی رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نوافل میں تو درست لیکن فرض نمازوں میں غیر درست ہے۔۔حسن اور سلیم بن یسار کے نزدیک فرض اور نوافل دونوں میں عورت کی امامت نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے عورتوں کی امامت سے مطلقاً منع کیا ہے چنانچہ فر ما تے ہیں کہ " عورت کو کسی دوسری عورت کی امامت نہیں کرنی چا ہیے کیونکہ اس کے لیے اذان دینا مکروہ ہے۔( 220)
میسرہ بن حبیب النہدی نے روایت کی ہے کہ:
"المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرض نمازوں میں عورتوں کی امامت کے فرائض انجام دئیے "(221)تمیمہ بنت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کی ہے کہ: "حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مغرب کی نماز میں عورتوں کی امامت کے فرا ئض انجام دئیے پس عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو ئیں اور جہری قراءت فر ما ئی "(222)حسن بن حسن بیان کرتے ہیں کہ: "ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رمضان المبارک میں عورتوں کی امامت کے فرائض انجا م دیتی تھیں اور عورتوں کی صف کے بیچ میں کھڑی ہو تی تھیں "(223)امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق فر ما تے ہیں :
"یہ بہترین سلسلہ سند ہے اس کے سب راوی ثقۃ الثقات ہیں ۔یہ سند کیا ہے سونے کی ایک لڑی ہے "(224)
حجیرہ بنت حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ: "ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز عصر میں عورتوں کی امامت کے فرا ئض انجام دئیے اور آپ وسط صف میں کھڑی ہو ئی تھیں "(225)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فر ما یا :
"عورت ،عورت کی امامت کراسکتی ہے ،لیکن امامت کے وقت وہ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو گی۔"(226)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی مروی ہے کہ:
"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ایک باندی کو حکم دیتےتھے ،پس وہ رمضان المبارک میں عورتوں کو باجماعت نماز پڑھاتی تھی۔"(227)
ان تمام روایا ت کو دیکھنے سے یہ واضح ہو تا ہے کہ عورت دوسری عورتوں کو فرض اور نفل ہر دوطرح کی نمازوں میں بلا کراہت امامت کر سکتی ہے۔ جن نمازوں میں جہری قرآءت کی جا تی ہے ان میں بالجہر قرآءت بھی کر سکتی ہے۔ اگر آس پاس غیر محرم مرد ہو ں تو قرآءت بالجہر نہ کرے لیکن اگر اس امام عورت کے محرم مرد ہو تو قرآءت بالجہر میں کو ئی حرج نہیں ہے۔(228)جہاں تک جماعت کے لیے عورت کے اذان دینےاور اقامت کہنے کا مسئلہ ہے تو عورت کے لیے پشت آواز میں اذان دینا اوراقامت کہنا بھی جا ئز ہے جیسا کہ طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے واضح ہو تا ہے فر ما تے ہیں "ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اذان و اقامت خود کہہ دیا کرتی تھیں "(229)جہاں تک امام عورت کے کھڑے ہو نے کی جگہ کا سوال ہے تو اس کے لیے اگلی صف کے وسط میں کھڑا ہو نا مستحب ہے علامہ ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں ۔"جو علماء عورت کی امامت کی امامت کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس بارے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کو ئی عورت دوسری عورتوں کی امامت کر رہی ہو تو وہ ان کے وسط میں کھڑی ہو کیونکہ عورت کے لیے مستور رہنا زیادہ پسندیدہ ہے اور جب وہ صف کے وسط میں کھڑی ہو تو مستور ہو تی ہے کیونکہ اسے دونوں جانب سے دوسری عورتوں نے چھپا رکھا ہو تا ہے اور یہ مستحب ہے ۔۔۔۔الخ ۔"(230)لیکن امام ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
"امام عورت کے صف کے آگے کھڑے ہو نے کے ممانعت کی بھی کو ئی دلیل نہیں ہے۔ہمارے نزدیک وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہو کر بھی امامت کے فرا ئض انجا م دے سکتی ہے ۔۔۔الخ "(231)(واللہ اعلم بالصواب )
آخری تنبیہ :۔
ہمارے سبھی نمازی بھا ئیوں کو اچھی طرح علم ہے کہ کہ ہمارا دین حنیف ایک ایسا دین ہے کہ جس میں نہ افرا ط ہے اور نہ تفریط لہٰذا ہم سب کو چا ہیے کہ باجماعت نماز کے دورا ن ہم اپنی صفوں کی برا بر ی درستگی کے مرغوب عمل کو ہر گزترک نہ کریں ۔بلا شبہ نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنا ہی اس عبادت کی روح ہے اور جس نے ہم سب کو نماز میں خشوع اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔اسی نے تسویۃ الصفوف کا حکم بھی دیا ہے مگر باوجود اس اہمیت اور تاکید کے جو اس رسالہ میں مذکور ہے ،کسی نمازی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ تسویۃ الصفوف میں اس قدر مشغول و منہمک ہو کر رہ جا ئے کہ اس سے خشوع و خضوع قطعاًرخصت ہو جا ئے یا قرآءت و سماع میں خلل واقع ہو نے لگے ۔پس ضروری ہے کہ ہر نماز اقامت صفوف کے وقت ہی اپنی صف کو بہرا عتبار درست کر لےاور اپنا قدم ٹھیک اسی جگہ پر رکھے جو کہ منا سب ہو اور دوسرے نمازیوں کے اہمال کے سبب استقامت صف کے لیے باربار اپنی توجہ نماز سے نہ ہٹائے ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام علي اشرف الانبياء والمرسلين
1۔آل عمرا ن ۔102۔
2۔النساء 1۔
3۔الاحزاب ۔17،70،
4۔صحیح البخاری مع فتح الباری ج2ص13،"الابداع فی مضار الابتداع "للشیخ علی محفوظ ص62(تبصرف یسیر۔
5۔المجموع،ج4ص226،
6۔فتح الباری ج2 ص207،عون المعبود ج1ص250۔
7۔مسند احمد ج6ص160،67۔صحیح ابن خزیمہ ،155،صحیح ابن حبان ،394۔
8۔سنن ابن ماجہ 995۔
9۔صحیح الترغیب والترہیب ص200۔
10۔سنن ابی داؤد ج 1ص253،سنن ابن ماجہ 1005۔صحیح ابن حبان 393،سنن الکبری للبیہقی ج3ص103،شرح السنہ للبغوی ج3 ص 374۔
11۔المشکاۃتحقیق الالبانی ج1ص 242۔
12۔فیض القدیر ص2ص269۔
13۔سنن النسائی ج2ص 93،المستدرک للحاکم ج1 ص213،سنن ابی داؤد مع عون ج1 ص251۔صحیح ابن خزیمہ 1549۔
14۔المجموع ج4ص301،227۔
15۔ صحیح الترغیب والترہیب ص200۔
16۔فیض القدیر ج2ص236۔
17۔زھرالربی علی المجتبی ج2 ص93۔
18۔راوہ البزار کمافی مجمع الزوائد ج2ص90۔
19۔ صحیح الترغیب والترہیب ص200۔
20۔رواالطبرانی فی الاوسط ۔
21۔ صحیح الترغیب والترہیب ص201۔
22۔روا ہ البزار ۔
23۔مجمع الزوائد ج2 ص91۔
24۔ سنن ابی داؤد مع عون ج1 ص250۔
25۔صحیح الجامع الصغیر ج1 ص376۔
26۔مسند احمد ج4 ص304،296،185۔
27۔شرح السنہ ج3 ص372۔
28۔مجمع الزوائد ج2 ص91۔
29۔ صحیح الترغیب والترہیب ص197۔
30۔رواہ ابن ماجہ جامع الترمذی مع تحفۃ ج1 ص 192،شرح السنہ ج3ص370۔
31۔ صحیح الترغیب والترہیب ص196۔
32۔صحیح البخاری ج2 ص208۔صحیح مسلم 437۔جامع الترمذی مع تحفۃ ج1ص192شرح السنہ ج3 ص 370۔
33۔کذافی صحیح الترغیب والترہیب ص196۔
34۔رواہ الطبرانی فی الکبیر ۔
35۔مجمع الزوائد ج2ص92۔
36۔بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصدج1 ص149۔
37۔المحلی ج3 ص78(مترجم)۔
38۔نیل الاوطار ج3 ص232۔
39۔فتح الباری ج2 ص208۔
40۔نفس مصدر ج2 ص208۔
41۔ایضاً۔
42۔ایضاً۔
43۔ایضاً۔
44۔بدایۃ المجتہد ج1 ص149۔
45۔صحیح البخاری ج2 ص209صحیح مسلم ج 4 ص156،سنن ابی داؤد ج 1ص251،سنن ابن ماجہ 993،صحیح ابو عوانہ ج2 ص38،الداری ج1ص289۔
46۔سنن ابی داؤد ج1 ص251جا مع الترمذی ج1 ص193۔شرح السنہ ج3ص368،مسند ابو یعلی ،طبرانی الکبیر والاوسط ۔
47۔ صحیح البخاری ج 2 ص208۔
48المحلی ج3 ص77(مترجم) ۔
49۔فتح الباری ج2 ص209۔
50۔النور :56البقرہ :43وغیرہ ۔
51۔التعلیق المغنی ج1 ص283۔عون المعبود ج 1ص250۔
52۔ صحیح البخاری ج2 ص207،صحیح مسلم ج4 ص157سنن ابی داؤد ج1 ص250،جامع الترمذی ج1ص193(وقال الترمذی "حدیث حسن صحیح ")سنن ابن ما جہ 994،مسند احمد ج4 ص272،سنن النسائی ج2 ص89مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 351،مصنف عبدالرزاق 2429۔
53۔سنن ابی داؤد ج1 ص250۔
54۔سنن الدارقطنی۔
55۔ فتح الباری ج2 ص207عون المعبود ج1 ص250،(ملخصا)۔
56۔ فتح الباری ج2 ص207۔ عون المعبود ج1 ص250،تحفۃ الاحوذی ج1 ص193۔92۔
57۔مسند احمد ج5ص383۔سنن الکبری للبیہقی ج1ص213۔
58۔صحیح الجامع الصغیر ج2 ص778،ارواءالغلیل ج1 ص316۔
59۔مسند احمد ج5 ص262۔
60۔الترغیب والترہیب ص197۔
61۔مجمع الزوائد ج2 ص91۔
62۔تحقیق المشکاۃ ج1ص344۔
63۔الضعفاء والمتروکین للنسائی نمبر 491،الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3 ص462۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3 ص4،الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم ج7ص85۔المجروحین لا بن حبان ج2 ص260،التاریخ الکبیر للبخاری ج7ص134،میزان الاعتدال للذھبی ج3ص 343،تہذیب التہذیب ج8ص260تقریب ج2ص 108۔ فتح الباری ج2 ص418،سنن الدارقطنی ج1 ص144،49۔ج4ص266مجمع الزوائد للہیثمی ج5 ص100،ج 8ص111،نص الرایہ للزیلعی ج1ص119ج2ص218ج4 ص311تحفۃ الاحوزی للمبار کفوری ج3 ص224۔
64۔سنن ابی داؤد ج1 ص251،شرح السنہ ج3 ص369،صحیح ابن حبان نمبر 387۔
65۔رواہ الطبرا نی فی الکبیر ۔
66۔مجمع الزوئد ج2 ص90،19۔
67۔المومنون ۔1،2۔
68۔رواہ احمد ۔
69۔مجمع الزوائد ج2 ص89۔
70۔ رواہ الطبرا نی فی الکبیر ۔
71۔ مجمع الزوائد ج2 ص91۔
72۔فتح الباری ج2ص210۔
73۔نفس مصدر ج2ص207۔
74۔المحلی ج3 ص76(مترجم)۔
75۔مجمو ع الفتاوی ج23ص394۔
76۔تحفۃ الاحوذی ج1 ص193۔
77۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج2 ص323۔
78۔صحیح مسلم نمبر 430۔سنن ابی داؤد ج1 ص249شرح السنہ ج3 ص326 سنن نسائی سنن ابن ماجہ ۔
79۔عون المعبود ج1 ص349۔
80۔صحیح مسلم ج4ص154،سنن ابی داؤد ج1 ص253،جامع الترمذی ج1ص193،سنن النسائی ج2 ص87،88،90،سنن ابن ماجہ نمبر 976۔صحیح ابوعوانہ ج2 ص42،41،مصنف عبد الرزاق نمبر2430،2456،شرح السنہ ج3 ص375،الداری ج1 ص290۔
81۔کذافی عون المعبود ج1 ص253۔
82۔نفس مصدر ج1 ص253۔
83شرح السنہ ج3 ص376۔
84۔ صحیح البخاری ج2 ص208،211،شرح السنہ ج3ص365،مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص351۔
85۔رواہ البزار۔
86۔ مجمع الزوائد ج2 ص89۔
87۔شرح السنہ ج3 ص366۔مسند احمد ج3 ص268،286۔سنن النسائی ج2 ص91۔
88۔سنن ابی داؤد ج1ص250۔
89۔صحیح الترغیب والترہیب ص203۔
90۔سنن الدار قطنی ج1 ص283۔
91۔سنن ابی داؤد ج1 ص251،صحیح ابن خزیمہ نمبر 1549،المستدرک للحاکم ج1 ص213،سنن النسائی ج2 ص93،سنن الکبری ج3 ص101،مسند احمد (وصححہ الالبانی فی صحیح الترغیب والترہیب ص198)۔
92۔سنن ابی داؤد ج1 ص251۔
93۔عون المعبود ج1 ص251۔
94۔عون المعبود ج1 ص251۔
95۔عون المعبود ج1 ص251۔
96۔رواہ احمد ۔
97۔ صحیح الترغیب والترہیب ص199۔
98۔صحیح البخاری ج2 ص209۔
99۔عون المعبود ج1 ص251۔
100۔فتح الباری ج2 ص211۔
101۔سنن ابی داؤد ج1 ص252۔(وصححہ الالبانی فی صحیح الترغیب والترہیب ص199۔)
102۔ مجمع الزوائد ج2 ص90۔
103۔فیض القدیر ج3۔ص466۔
104۔ عون المعبود ج1 ص252۔
105۔صحیح البخاری ج2 ص211۔
106۔ فتح الباری ج2 ص211۔
107۔صحیح مسلم ج4 ص157مصنف عبد الرزاق نمبر 2429،سنن ابی داؤد ج1ص250 سنن النسائی ج2 ص89،شرح السنہ ج3 ص364،سنن ابن ماجہ نمبر 994،مسند احمد ج4 ص270،271،272،276،277،مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص351۔
108۔ عون المعبود ج1 ص250۔
109۔ سنن ابی داؤد ج1 ص250۔ سنن النسائی ج2 ص90،،سنن ابن ماجہ نمبر997،،شرح السنہ ج3 ص373۔ صحیح ابن خزیمہ نمبر1551،1552،1556،1557، صحیح ابن حبان نمبر386۔سنن الکبری للبیہقی ج3 ص103۔ مصنف عبد الرزاق نمبر2431۔
110۔ رواہ الطبرا نی فی الصغیر ۔
111۔ مجمع الزوائد ج2 ص90۔
112۔مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص54۔
113۔ مصنف عبد الرزاق ج2ص453۔
114۔المحلی ج3 ص81۔
115۔ فتح الباری ج2 ص211210۔
116۔المحلی ج 3ص82۔
117۔موطا امام مالک ج1 ص195، مصنف عبد الرزاق ج2ص47،تحفۃ الاحوذی ج1 ص193۔
118۔جامع الترمذی ج1 ص193۔
119۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص352۔
120۔ موطا امام مالک ج1 ص104۔سنن الکبری للبیہقی ج3 ص220 مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص352، مصنف عبد الرزاق ج2ص49المحلی ج4ص115،59،کنز العمال ج8ص 272ج9ص197۔
121۔ موطا امام مالک ج1 ص 158، مصنف عبد الرزاق ج2ص 40
سنن الکبری للبیہقی ج2ص22 تحفۃ الاحوذی ج1 ص193،کنز العمال ج8ص298،
122۔جا مع الترمذی ج1 ص193۔
123۔روا ہ احمد ۔
124۔ مصنف عبد الرزاق ج2ص47، مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص352،المحلی ج3 83،فتح الباری ج2 ص210۔
125۔ فتح الباری ج2 ص210۔
126۔المحلی ج3 ص83۔
127۔ فتح الباری ج2 ص210۔
128۔ عون المعبود ج1 ص251،
129۔ فتح الباری ج2 ص210۔
130۔ مصنف عبد الرزاق ج2ص57، مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص380،المحلی ج3ص83۔
131۔ المحلی ج3ص83۔
132۔ روا ہ احمد ۔
133۔ مجمع الزوائد ج2 ص90۔
134۔صحیح البخاری ج2ص209۔
135۔ صحیح البخاری ج2ص210۔المحلی ج3ص83۔
136۔ فتح الباری ج2 ص211۔ تعلیق المغنی ج1 ص عون المعبود ج1ص250
137۔ فتح الباری ج2 ص210۔
138۔ صحیح البخاری ج2ص190۔صحیح مسلم نمبر 763،سنن ابی داؤد ج1 ص236،جامع الترمذی ج1ص195،شرح السنہ ج3ص383۔
139۔ صحیح البخاری ج2ص190۔
140۔ فتح الباری ج2 ص190۔
141۔بدایۃ المجتہد ج1 ص2148۔
142۔،سنن ابی داؤد ج1 ص254،جامع الترمذی ج1ص195 ۔194۔مسند احمد ج4 ص228،سنن ابن ماجہ نمبر1004،مسند الشافعی نمبر 176 مصنف عبد الرزاق ج2ص59۔مسند الطیا لسی ص166، مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص192۔صحیح ابن حبان نمبر 403۔الدارمی ج1 ص295۔294۔ سنن الکبری للبیہقی ج2ص 302۔ شرح السنہ ج3ص379۔شرح معانی الامار للبخاری ج1 ص 229،المحلی ج4 ص52،صحیح ابن خزیمہ نمبر 1569۔ابن عساکر ج17/2ص349۔موار انضمان ص116نصب الرایہ ج2 ص38،مسائل الامام احمد لابی داؤد ص35۔
143۔تحقیق المشکاۃ ج1 ص 345،ارواء الغلیل ج2 ص323،
144۔مصباح الزجاجۃ ج1 ص 122۔
145۔فتح الباری ج2ص268۔تلخیص الحیر ج2 ص37،تحفۃ الاحوذی ج1 ص194۔
146۔المجموع ج4 ص298۔
147۔المغنی ج2 ص212۔
148۔مسند احمد ج4 ص23۔ سنن ابن ماجہ ص70،شرح معانی الاثار للبخاری ص 229۔ سنن الکبری للبیہقی ج3ص105۔المحلی ج4 ص53۔ صحیح ابن حبان نمبر401، صحیح ابن خزیمہ ج3ص30۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص193،موارانضمان ص116۔
149۔المغنی ج2 ص212۔
150۔ تحفۃ الاحوذی ج1 ص194۔
151۔اخرجہ ابن حباب کذافی النیل و تحفہ الاحوذی ج1 ص194۔بلوغ المرام ص154،و فتح الباری ج2ص268،
152۔ تحفہ الاحوذی ج1 ص194۔
153۔البقرہ :286۔
154۔المحلی ج3 ص73،(مترجم)
155۔بدایۃ المجتہد ج1 ص156۔
156۔نفس مصدر ج1 ص 70۔
157۔شرح السنہ ج3 ص378۔المغنی ج2 ص211 عون المعبود ج1 ص254،
فتح الباری ج2 ص268۔ تحفہ الاحوذی ج1 ص194۔
158۔ جامع الترمذی ج1ص195۔
159۔ المغنی ج2 ص211
160۔مجموع فتاویٰ ٰج23 ص393۔397۔
161۔ تحفہ الاحوذی ج1 ص194۔
162۔رواہ الطبرا نی فی الاوسط۔
163۔ مجمع الزوائد ج2 ص96۔
164۔ تلخیص الحیر ج2 ص37،تحفۃ الاحوذی ج1 ص195۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج2 ص322،323۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1 ص142،المجروحین لا بن حبان ج1 ص189۔میزان الاعتدال ج1 ص311،الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج1 ص140ج2ص96،
166۔مسند ابو یعلی ی2 ص445،
167۔مفاریدابو یعلی ج 3 /1ص15،مسند ابو یعلی ج1 ص96،سنن الکبری للبیہقی ج3 ص105،
168۔ مجمع الزوائد ج2 ص96۔ تحفہ الاحوذی ج1 ص195۔
169۔ الضعفاء والمتروکین للنسائی نمبر 262۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج1 ص310۔تاریخ یحییٰ بن معین ج3 ص449،523،العلل لا بن حنبل ج1 ص 50۔التاریخ الکبیر للبخاری ج2 ص176،التاریخ الصغیر للبخاری ج2 ص87،الضعفاء الصغیر للبخاری نمبر 56۔المعرفۃ والتاریخ للبسو ی ج3 ص39، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2ص76،الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم ج2 ص282۔ المجروحین لا بن حبان ج1 ص355،الکامل فی الضعفاءلا بن عدی ج3 نمبر 1295، الضعفاء والمتروکین الدارقطنی نمبر 246،میزان الاعتدال الذھبی ج2 ص117،تقریب التہذیب لا بن حجر ج1 ص 285،مجمع الزوائد ج1 ص158،ج2 ص96۔
170۔تاریخ اصبہا ن لا بوالشیخ ابن حبان ص129،اخبار اصبہان لا بی نعیم ج2 ص364، المعجم لا بن الاعرابی ق1/122۔
171۔ تلخیص الحیر ج2 ص37،تحفۃ الاحوذی ج1 ص195۔
172۔ارواء الغلیل ج2 ص326۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج2 ص322،
173۔تاریخ یحییٰ بن معین ج2 ص490۔ التاریخ الکبیر للبخاری ج4ص 156، الضعفاء الکبیرالعقیلی ج3ص469۔الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم ج7ص96، المجروحین لا بن حبان ج1 ص218۔الکامل فی الضعفاءلا بن عدی ج6ص6063،
الضعفاء والمتروکین للنسائی 499،،میزان الاعتدال الذھبی ج 3ص393،،تہذیب التہذیب لا بن حجر ج8ص391۔،تقریب التہذی ج2ص 128،فتح الباری ج13ص285،سنن الکبری للبیہقی ج6ص136،ج7ص276،ج8ص42،344ج10،ص271،سنن الدرقطنی ج1 ص330،نصب الرایہ للزیلعی ج2 ص19،15،389،ج3ص414،ج4ص117،119،333، تحفۃ الاحوذی ج1ص28۔مجمع الزوائد ج1 ص158،ج3 ص27،112،290،ج4ص110،
283،ج5ص42،146،ج9ص166،170ج10ص95،
174۔ الضعفاء والمتروکین لا بن الجوزی ج3 ص199،میزان الاعتدال للذھبی ج4ص394۔
175۔سنن الکبری للبیہقی ج3 ص105۔نصب الرایہ ج2 ص39،عون المعبود ج1 ص251، تحفۃ الاحوذی ج1ص195۔
176۔ عون المعبود ج1 ص251،
177۔الاختیارات ص42۔
178۔ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج2 ص323،
179۔المجموع للنووی ج4ص299۔
180۔فتح الباری بتطیق ابن باز ج2 ص213،
181۔سنن ابی داؤد ج1 ص254، صحیح مسلم ج2 ص158،159،سنن النسائی ج2 ص83،سنن ابن ماجہ 978،سنن الکبری للبیہقی ج3 ص103،صحیح ابن خزیمہ 1560،صحیح ابو عوانہ ج2 ص42،شرح السنہ ج3 ص370۔
182۔ عون المعبود ج1 ص254۔
183۔ سنن ابی داؤد ج1 ص254، صحیح مسلم ج2 ص438،،سنن النسائی ج2 ص83 شرح السنہ ج3 ص370۔
184۔ عون المعبود ج1 ص254۔ صحیح ابو عوانہ ج2 ص40،41،
185۔ سنن ابی داؤد ج1 ص251، سنن الکبری للبیہقی ج2ص 21۔ شرح السنہ ج3 ص 367،
186۔تحقیق المشکاۃ ج1 ص342،
187۔ عون المعبود ج1 ص251 ،
188۔ صحیح مسلم ج4ص 159۔سنن ابی داؤد ج1 ص253،جامع الترمذی ج1 ص192،سنن النسائی ج2 ص93،سنن ابن ماجہ 1000،مسند احمد ج2 ص336،367،صحیح ابن خزیمہ 1561،1562،صحیح ابن حبان 385،صحیح ابو عوانہ ج2ص37،شر السنہ ج3ص371نصب الرایہ ج2 ص36۔
189۔ مجمع الزوائد ج2ص93۔
190۔جامع الترمذی ج1 ص192،
191۔صحیح مسلم ج2ص37،صحیح البخاری ج1ص211،212، جامع الترمذی ج1 ص196،سنن النسائی ج1 ص126، موطا ج1 ص153،مسند احمد ج3 ص164،سنن الکبری للبیہقی ج3 ص96۔الدارمی ج1 ص295،شرح السنہ ج3 ص386،387،
192۔جامع الترمذی ج1 ص196،
193۔صحیح البخاری ج2 ص212،مسند الشافعی ج1ص 137،شرح السنہ ج3 ص388۔
194۔فتح الباری ج2 ص212۔
195۔ صحیح البخاری ج2 ص212،
196۔ فتح الباری ج2 ص212۔
197۔ جامع الترمذی ج1 ص196،
198۔مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص74(ب)الروض النضیر ج2 ص137۔الاعتبار ص108۔
199۔المغنی ج2ص215۔
200۔بدایۃ المجتہد ج1ص148، 149۔
201۔شرح السنہ ج3 ص385،
202۔مجموع فتاویٰ ج23۔۔
203۔ جامع الترمذی ج1 ص194،سنن ابی داؤد ج1 ص252،
204۔رواہ ابن ماجہ باسنادفیہ مقال ۔
205۔مجمع الزوائد ج2 ص95۔
206۔معجم الکبیر للطبرانی ج11ص375مصنف عبد الرزاق ج2 ص58،المحلی ج3 ص83،کنزالعمال ج7ص635،
207۔ مصنف عبد الرزاق ج2 ص60،المغنی ج3،ص220کنزالعمال 22445۔
208،209،تحفۃ الاحوذی ج1 ص194،عون المعبود ج1 ص252۔
210۔المغنی ج2 ص220۔
211۔ تحفۃ الاحوذی ج1 ص194،عون المعبود ج1 ص252۔
212۔ عون المعبود ج1 ص252۔
213۔ مصنف عبد الرزاق ج3 ص82،مصنف ابن ابی شیبہ ج2 223،المحلی ج4ص58ج5 ص78،کنز العمال 22913،
214۔ مصنف عبد الرزاق ج2ص52المحلی ج3 ص83۔(مترجم)۔
215۔المحلی ج3 ص73۔
216۔المغنی ج2 ص216۔
217۔تعلیق علی فتح الباری ج2 ص213،
218۔المغنی ج2 ص206۔
219۔سنن ابی داؤد ج1 ص252۔شرح السنہ ج3 ص374۔
220۔ مصنف عبد الرزاق ج3ص140۔المغنی ج2 ص202۔المحلی ج3 ص307،308،بدایۃ المجتہد ج1 ص145،
221۔ مصنف عبد الرزاق ج3ص141۔سنن الکبری للبیہقی ج131،سنن الدارقطنی ج1ص440المحلی ج3 ص302۔
222۔المحلی ج3 ص307۔
223۔مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص88قیام اللیل ص207المحلی 207،ج3 ص307،
224۔المحلی ج3 ص307،
225۔ مصنف عبد الرزاق ج3ص140۔سنن الدار قطنی ج1 ص 405،مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص88المحلی ج3 ص307،
226۔ مصنف عبد الرزاق ج3ص 140۔سنن الکبری للبیہقی ج3 ص131 المحلی ج3 ص307،
227۔المحلی ج3 ص307،
228۔کمافی المغنی ج2ص202۔
229۔ مصنف عبد الرزاق ج3ص126۔المحلی ج3ص307۔
230۔المغنی ج2 ص202۔
231۔المحلی ج3 ص308۔