مدارس دینیہ عربیہ غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ

گزشتہ شمارہ میں ہم نے مدارس دینیہ عربیہ کے اغراض ومقاصد،ان کے تاریخی پس منظر اور ان کی خدمات  پرمختصرا روشنی ڈالی تھی،جس سے ان کے بارے میں پائی جانے و الی یا پھیلائی جانے و الی بعض غلط فہیموں کا بھی ازالہ ہوجاتاہے۔بشرط یہ کہ کوئی چشم بصیرت سے اسے پڑھے اور دل بینا سے اسے سمجھے۔ورنہ۔ع۔
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ¿ آفتاب را چہ گناہ
تاہم اتمام حجت کے نقطہ نظر سے زیر نظر سطور میں بطور خاص ان اعتراضات اورغلط  فہمیوں کےبارے میں ضروری گزارشات پیش کیاجاتی ہیں جو ان پرکئے جاتے ہیں اور پھیلائے جاتے ہیں:
مدارس دینیہ کےنصاب میں تبدیلی کا مسئلہ:۔
ان میں سب سے اہم مسئلہ نصاب تعلیم کا ہے۔اس پر گفتگو کرنے و الے اپنےاور بیگانے دوست اور دشمن دونوں قسم کے لوگ ہیں۔بعض لوگ بڑے اخلاص سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مشورہ دیتے اور اس میں تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔لیکن ہم عرض کریں گے کہ نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے چاہے کتنے ہی مخلصانہ جذبات ہوں تاہم وہ دینی مدارس کے اصل مقاصد سے (جس کی وضاحت گزشتہ مضمون میں کی جاچکی ہے) مناسبت نہیں رکھتی۔بلکہ وہ ان کے نصاب میں تبدیلی کی دو صورتیں ہیں:۔
ایک  تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ مدارس دینیہ عرب کا نصاب معمولی سے فرق کے ساتھ سکول،کالج اور یونیورسٹی والا کردیا جائے۔ان کی ڈگریاں بھی میٹرک ،ایف ۔اے،بی اے اور ایم اے کے برابر ہوں اور ان کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کرسکیں۔
دوسری تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ عصرحاضر کے فتنوں،تحریکوں کو سمجھنے کے لئے دینی مدارس کی صرف آخری کلاسوں میں بعض ضروری جدیدعلوم کی تدریس کا انتظام بھی کیا جائے تاکہ ایک طرف دینی علوم کی تحصیل میں کوئی رخنہ نہ پڑے (جو کہ پہلی صورت میں متوقع ہی نہیں ،یقینی ہے)اور دوسری  طرف علماء زیادہ موثر انداز اور زیادہ بہتر طریقے سے عصر حاضر کے فتنوں کامقابلہ اوراسلام کا دفاع کرسکیں۔

پہلی تبدیلی کا مقصد اورنتیجہ علماء کے دینی کردار کا خاتمہ اور دینی مدارس کے مقصد وجود کی نفی ہے۔اس سے دینی مدارس سے امام وخطیب مصنف ومدرس اور دین کے مبلغ وداعی بننے بند ہوجائیں گے۔جو دینی مدارس کا اصل مقصد ہے۔اور یہاں سے بھی کلرک ،بابو،اور زندگی کے دوسرے کھپ جانے والے افراد ہی پیدا ہوں گے۔ جیسے دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہورہے ہیں۔جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کامقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اوردینی ضروریات کے لئے کام کرنے والے رجال کار پیدا کرنا ہے۔اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیص شعبوں کی طرح ہے۔ جیسے میڈیکل ،انجینئرنگ،معاشیات،اور دیگر کسی علم کا شعبہ ہے ۔ان میں سے ہر شعبے میں صرف اسی شعبے سے  تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے ۔دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت نہیں سمجھی جاتی ۔بلکہ اسے اصل تعلیم کے لئے سخت نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ دین کی مخصوص تعلیم کے  اداروں کے لئے دنیا بھر کے علوم کی تعلیم کو ضروری سمجھا  جارہا ہے۔"إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ!

اوراگر مقصد دوسری قسم کی تبدیلی ہے۔تو اس سے یقیناً  علمائے کرام کردار کو زیادہ موثر اور مفید بنایا جاسکتاہے۔جس کے علماء اور اصحاب مدارس قطعاً مخالف نہیں ہیں،بلکہ حسب  استطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے مدارس دینیہ کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا۔بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے۔اور اس سے دین اور اسلام کی برتری کا وہ مقصد ہی حاصل ہوتاہے جو مدارس دینیہ کا اصل مقصد ہے۔

تبدیلی کی ایک بڑی "حسین صورت" یہ بھی تجویز کی جا تی ہے کہ جدید و قدیم کا ایک ملغوبہ تیار کیا جا ئے تا کہ ایسے افراد پیدا ہوں جن میں قدیم و جدیدکا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو یہ تصور یقیناً بڑا خوش کن اور مسرت آگیں ہے ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مقصد حاصل نہیں ہو سکا ۔اس طرح کے اداروں سے فارغ ہو نے والے نہ دین کے رہیں نہ دنیا کےعلوم  شریعت میں بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اور علمی حلقوں میں درخور اعتنا نہیں سمجھے جا ئیں گے اور دنیا وی تعلیم میں بھی وہ ادھورے اور ناقص ہو ں گے اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کی کھیت مشکوک رہے گی۔وہ "آدھےتیتر اور آدھے بیٹر "یا" نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان "ہی کا مصداق ہوں گے ۔

علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دینی مدارس تو اپنے مقاصد اور طاقت کے مطابق نو نہالان قوم کی دینی تعلیم و تر بیت اپنے اپنے دائروں میں کر رہے ہیں ۔جس سے قوم کی دینی ضروریات پوری ہو رہی  ہیں اور جس سے معاشرے میں اقدار وروایات کا شعور اور احترا م اور بھی مو جود ہے۔(گو عمل میں کو تا ہی کا سلسلہ بہت وسیع ہےجس کے دیگر عوامل و اسباب ہیں) گو یا دینی مدارس سے وہ مقاصد حاصل ہو رہےہیں جو ان کے قیام و وجود سے وابستہ ہیں اس کے بر عکس سکول و کالج اور یونیورسٹیاں ہیں کیا ان میں تعلیم پانے والے بچے اور بچیاں اپنے مذہب کا صحیح شعوررکھتی ہیں ؟ان سے فارغ ہو نے والی نسل کے ذہن میں اسلامی تہذیب و تمدن سے کو ئی وابستگی ہے؟ وہ عملی اور نظریاتی کے اعتبار سے صحیح مسلمان ہے؟اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہے تو کیا بحیثیت مسلمان ہو نے کے ہماری حکومتوں  کی اولین ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ سب سے پہلے ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلی کریں کہ ان میں تعلیم پانے والے بچے مذہب کا تو صحیح شعور حاصل کر سکیں انجینئر ڈاکٹر صحا فی ماہر معیشت جو بھی بنیں ۔وہ ساتھ ساتھ مسلمان بھی رہیں اسلام پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان میں توانا ہو یہ ادارے تو اس کے بر عکس مسلمانوں کی نوجوان نسل کو نامسلمان بنا رہے ہیں ۔انگریزی تہذیب کا شید ا بنا رہے ہیں اور مائیکل بیکسن اور میڈونا کے پرستار پیدا کر رہے ہیں نصاب تعلیم میں تبدیلی کی زیادہ ضرورت تو ان اداروں میں ہے جہاں تعلیم کے نام پر مسلمانوں کی نسل نو کو اخلا ق و کردار سے حیاء و عفت سے اور ایمان و تقویٰ سے محروم کیا جا رہا ہے نہ کہ ان مدارس دینیہ کے نصاب میں جہاں کے فارغین بہت سی کوتاہیوں کے باوجود بہر حا ل اسلام کے احکا م و فرا ئض کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں اخلا ق و کردار کے زیور سے آراستہ اور معاشرے کی ظلمتوں میں دین کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔

2۔فرقہ وارانہ تصادم نصاب کا نہیں :۔

حکومت کی مصلحتوں یا اس کی مجرمانہ چشم پو شی کا نتیجہ ہے! :۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کا نصاب فرقہ وارانہ ہے اور ان سے فرقہ وارانہ تصادم میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے اس کے نصاب میں تبدیلی ضروری ہے اس سلسلہ میں ہماری گزارش یہ ہے نصاب صدیوں سے دینی  مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے اور علماءپڑھتے آرہے ہیں ۔لیکن ان کے مابین اس طرح فرقہ وارانہ تصادم کسی دور میں نہیں ہوا جس طرح چند سالوں سے دیکھنے میں آرہاہے ۔اگر یہ قصور نصاب تعلیم کا ہو تا تو یہ تصادم ہر دور میں ہو نا چا ہیے تھا پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی ہو تا اور پاکستان میں چند سال قبل بھی ہو تا ۔لیکن اگر ایسا نہیں ہے دیگر اسلامی ملکوں میں یہ تصادم نہیں ہے جب کہ دینی مدارس وہاں بھی ہیں ان کا نصاب بھی تقریباً وہی ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی اس تصادم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ چند سالوں سے یہ  المنا ک صورت حال سامنے آرہی ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس کا تعلق مدارس دینیہ کے نصاب سے سے نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر اسباب ہیں جو باخبرحضرا ت سے مخفی نہیں ہیں ۔

حکومت اگر اس تصادم کے روکنے اور اس کے سدباب میں مخلص ہو تی تو یقیناً وہ اس کو روک سکتی تھی جو دو گروہ آپس میں متصادم ہیں اور اس تصادم کے جو اسباب ہیں حکومت ان دونوں باتوں سے آگا ہ ہے لیکن باخبر لو گوں کا کہنا تو یہ ہے کہ اس کے پس پردہ بھی اصل ہاتھ حکومت کا ہے یہ متحارب گروہ حکومت کے زیر اثر ہیں لیکن حکومت نے ان کو باہم کشت و خون ریزی کی چھوٹ دے رکھی ہے شاید اس میں کارفرما مقصد یہ ہو کہ حکومت اس طرح تمام دینی طبقوں کو متشدداور متحارب و متصادم باور کراکر ان سب کی آزادی و خود مختاری کو سلب کر لینا چا ہتی ہے یا عوام الناس کے سامنے ان کی بری تصویرپیش کرکے ان کے معاشرتی کردار کو ختم کردینا چا ہتی ہے ورنہ حکومت کے لیے دو فریقوں کو خونی تصادم سے روک دینا اور ان سے تمام اسلحہ برآمد کرلینا کو ئی مشکل معاملہ نہیں ہے۔اس لیے ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ مدارس دینیہ کا نصاب تعلیم فرقہ وارانہ تصادم کا اصل سبب ہے ۔

تا ہم اس حقیقت کا ہمیں اعترا ف ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے نصاب اصلا ح اور نظر ثانی کا محتا ج ہے یہ فرقے قرآن کریم کیوَلَا تَفَرَّقُوا ۚ تعلیم کے خلا ف ہیں اس لیے ان اسباب وعوامل کا تجزیہ کر کے جو ان فرقوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب ہیں ان کے سد باب کے لیے مخلصانہ مساعی ہو نی چا ہئیں جن میں نصاب پر نظر ثانی بھی شامل ہے تا ہم یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیلات کا یہ مو قع نہیں ۔

یہاں اس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے یقیناً اصلا ح گنجائش ہے جس پر علماء کو ضرور سوچنا چا ہئے اور اس کے سدباب کے لیے جو ممکن تدابیر ہوں ،انہیں پورے اخلا ص سے بروئے کا ر لا نے کی سعی کرنی چا ہئے ،تاکہ حکومت کو اس بہانے سے مدارس دینیہ میں مداخلت کا موقع نہ ملے ۔

گو اس نصاب سے تصادم و تحارب نہیں ہو تا جیسا کہ عرض کیا گیا ہے تا ہم فرقہ وارانہ ذہنیت ضرور فروغ پا تی ہے۔جب کہ اسلام کا مطلوب اتحاد امت ہے نہ کہ افترا ق امت ان فرقوں کو تقدس کا درجہ دے کر ان کی اصلا ح کے لیے کو شش نہ کرنا اور باہم اتحاد و قربت کی را ہیں تلا ش نہ کرنا شرع عی لحا ظ سے پسندید ہ امر نہیں ہے اس محاذ پر علماء کا جمود ایک مجرمانہ فعل ہے جس کا ارتکا ب گو صدیوں سے ہو تا آرہا ہے لیکن بہر حال جرم ہے جس کی اصلا ح علماء کا فریضہ اور اس سنے اعراض و گریز ان کی کو تا ہی ہے۔

3۔تشددکی تربیت اور اسلحہ کی ٹریننگ ۔۔۔ایک خلط مبحث :۔

بعض لو گ کہتے ہیں کہ مدارس میں تشدد کی تر بیت اور اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی جا تی ہے ،یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں اگر کسی مدرسے میں ایسا ہو تا ہے تو حکومت کا آہنی پنجہ اس کو اپنی گرفت میں کیوں نہیں لیتا ؟اور حکومت اگر تمام تر وسائل کے باوجود کسی ایک مدرسے کا بھی سراغ نہیں لگا سکی جس میں اس قسم کی ٹریننگ دی جا تی ہو۔تو تسلیم کرلینا چا ہیے کہ کسی بھی مدرسے میں ایسا نہیں ہو تا ۔

تا ہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنا چا ہئےکہ افغا نستا ن میں روس کی جارحیت اور مدا خلت کے بعد جو جہاد افغا نستان کی دینی جماعتوں نے شروع کیا اس میں پاکستان کی دینی جماعتوں نے بھی حصہ لیا دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء نے اس جہا د میں حصہ لیا اور بہت سے دین دار لوگوں نے بھی حصہ لیا ۔یہ حصہ مالی بھی تھا اور جانی بھی ۔یعنی پاکستان کی دینی جماعتوں اور دین دار لوگوں نے اپنا مال بھی جہاد افغانستان میں خرچ کیا اور اپنی جا نیں بھی پیش کیں اور جہاد میں حصہ لینے کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ ناگزر ہے ۔چنانچہ  علماء و طلبا ء مدارس دینیہ نے یہ ٹریننگ لی۔لیکن کہاں؟ مدرسوں میں نہیں بلکہ افغانستان کے محاذوں پر مورچہ زن ہو کر اور وہاں قائم تربیتی کیمپوں میں جہاں ہر وقت جان کا خطرہ رہتاتھا چنانچہ جہاد سے سر شار ان علماء و طلباء و اہل دین نے ٹریننگ کے ساتھ اور ٹریننگ کے بعد افغانستا ن میں حصہ لیا اوربہت سے علماء و طلباء اور نو جوان عروس شہادت سے ہم کنار ہو ئے اور افغانستا ن میں ان جہادی قوتوں کی حکومت کے قیام اور ان آپس میں خا نہ جنگی کے بعد پاکستان کے یہ اہل دین اور جذبہ جہاد سے سر شار نو جوان کشمیر کے مجاہدین اور حریت پسندوں کے ساتھ داد شجاعت دے رہے ہیں اور وہاں بھی متعدد پاکستانی جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔

ظاہر با ت ہے کہ جنگی تربیت اور پھر عملاً اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جہاد میں حصہ لینا یہ بالکل الگ مسئلہ ہے جو اگر چہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے مگر اس کا کو ئی تعلق مدارس دینیہ میں اسلحے کی یا تشدد کی ٹریننگ سے نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی مدرسے میں بھی ایسی ٹریننگ نہیں دی جا تی ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاد میں سر گرم یہ دینی طلباء اور نو جوان ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور تصادم میں قطعاً ملوث نہیں ہیں ۔ان میں ان کا ایک فیصد حصہ نھی ثابت نہیں کیا جا سکتا جوگروہ اس تصادم کا باعث ہیں حکومت انہیں اچھی طرح جانتی ہے لیکن اس کی مصلحتیں اسے ان پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہو ئے ہیں بلکہ حکومت ان کی محافظ اور پشتیان بنی ہوئی ہے۔ تا کہ ان کی آڑ میں تمام دینی قوتوں پروار کرنے کا جواز مہیا کیا جا سکے ۔ان متصادم گروہوں کو بنیاد بنا کر اگر محا ذ جنگ پر قائم جنگی کیمپوں تربیتی اداروں کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تو یہ دراصل جہاد سے مسلمانوں کو ہٹانے کی مذموم کو شش ہو گی جو امریکہ بہادر کو خوش کرنے کی ایک بد ترین حرکت ہو گی اس سے کشمیر کا مو جو دہ جہاد سخت متاثر ہو گا اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم عظیم جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جہاد کے عظیم  مشن کو زندہ رکھے ہو ئے ہیں ۔یہ نو جوان دہشت گرد اور تشدد پسند نہیں بلکہ اسلام کا عظیم سر ما یہ  ہیں جنہوں نے اپنی قربانیوں سے جہاد کے اس فراموش شدہ جذبے کو زندہ کیا ہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحا لی اور ان کی عزت و سر فرا زی کا واحد ذریعہ ہے اسی  سے مظلوم مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلا ئی جا سکتی ہے اور اسی جہاد سے ہی امریکہ کے استعماری عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ اسی جہاد سے سودیت یو نین کو پیوند خاک کیا گیا ہے۔

4۔ بیرونی امداد اور اس کی حقیقت :۔

جہاں تک "بیرونی امداد" کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی اصل حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت کے تینوں مکا تب فکر کے کسی مدرسے کو بھی اس طرح بیرونی امداد نہیں ملتی جو اس کا متبادر (عمومی) مفہوم ہے یعنی کو ئی حکومت اپنے مخصوص مقاصد کے لیے انہیں امداد دے اور ان سے وہ کا م لے جووہ لینا چاہتی ہو اس طرح کا بیرونی سہارا کسی بھی سنی مدرسے کو حاصل نہیں ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ دینی مدرسوں کو "بیرونی امداد"ملتی ہے اور وہ اسے لیتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بیرونی امداد بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملک کے بہت سے رفاہی اداروں کو بیرونی امداد یقیناً ملتی ہےلیکن کسی بھی دنیاوی یا سیاسی مصلحت کے لیے نہیں بلکہ صرف دینی نشرواشاعت اور اس کی تعلیم و تدریس کی غرض سے ملتی ہے۔

رفاہی اداروں کو تو پھر بھی بعض حکومتوں کی طرف سے بھی امداد ملتی ہے جو پاکستان ہی کے باشندے ہیں اوروہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی زکوۃ و صدقات کا مصرف پاکستان میں تلا ش کرتے ہیں ۔اور اپنی معلومات کے مطا بق مستحق اداروں کو اپنی امدادسے نوازتے ہیں اسی طرح بعض عرب ملکوں کے دین دار لو گ بھی پاکستان کے دینی اداروں کی محض اس بنیا د پر امداد کرتے ہیں ۔کہ پاکستان ہماری نسبت غریب ملک ہے اور وہاں دینی ادارے کسمپرسی کا شکار ہیں اور اپنی تعلیمی و تبلیغی مقاصدکی تکمیل کے لیے بجا طور پر امداد کے مستحق ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پوری طرح تصدیق کرنے کے بعد تعاون کرتے ہیں اور بعض عرب اہل دین تو خاص طورپر خود پاکستان آتے ہیں ادارے کی کار کردگی کو دیکھنے اور مختلف ذرائع سے اس کی بابت تحقیق کرتے ہیں اور مطمئن ہو نے کے بعد محض اللہ کی رضاکے لیے ان کی امداد کرتے ہیں اس میں ایک فیصد بھی کو ئی دوسری غرض شامل نہیں ہو تی دینے والوں کے دل میں نہ لینے والوں کے دل میں اس طرح کی "بیرونی امداد"سے یقیناً پاکستان کے دینی ادارے فیض یاب ہو رہے ہیں اور اس سے خیر اور بھلا ئی کے بہت سے کام ہو رہے ہیں یتیموں کی سر پرستی اور کفالت ہو رہی ہے بہت سی جگہوں پر ہسپتال قائم ہیں جہاں غریبوں اور ناداروں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں اور دین کی تعلیم و تدریس اور تبلیغ و دعوت کاکام ہو رہا ہے۔

خود حکومت کے زیر سایہ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کیا ہے ؟ کیا اس کے بیشتر اخراجات عرب حکومتیں مہیا نہیں کررہی ہیں ؟ فیصل مسجد کی تعمیر میں جس میں یہ یونیورسٹی قائم ہے جواربوں روپیہ خرچ ہوا ہے وہ کس نے مہیا کیا ہے ؟ کیا وہ سعودی حکومت نے مہیانہیں کیا ؟کیا سعودی حکومت نے اس سے کو ئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کبھی کو شش کی ہے؟بعض ہسپتال حکومت کی سر پرستی میں عرب حکومتوں کے تعاون سے  چل رہے ہیں کیا انھوں نے کبھی کو ئی سیاسی یاکسی اور قسم کا مفاد حاصل کیا ہے؟نہیں یقیناً نہیں وہ سارے کا م اسلامی اخوت کی بنیاد پر کر رہے ہیں پھر آخر "بیرونی امداد"کے نام پر اس شور و غوغا کا کیا جواز ہے؟ جس کی حقیقت اس کے سوا کو ئی نہیں جو ابھی مذکورہو ئی ہے۔

الحمد اللہ اہل سنت کے مدارس  نے اس بیرونی امداد کو جو حکومت کی بجا ئے صرف افراد سے وصول ہو تی ہے دینے والوں کی نیت کے مطابق دینی مقاصد پر ہی خرچ کیا ہے اور کرتے ہیں اس سے نہ اسلحہ خرید ا جا تا ہے نہ طلبا کو تشدد کی ٹریننگ دی جا تی ہے نہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جا تا ہےاس امداد کو انھوں نے استعمال کیا ہے تو صرف اور صرف دین اور دینی مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا ہے ۔

5۔آمدو خرچ کا حساب و کتاب اور اس کا آڈٹ:۔

جہاں تک دینی مدارس کی آمد و خرچ کے حساب و کتاب کا تعلق ہے اس کی بابت عرض ہے کہ تمام بڑے بڑے دینی مدرسے اور ادارے اپنا مکمل حساب رکھتے ہیں بلکہ سالانہ آڈٹ کا اہتمام کیا جا تا ہے حکومت کا منظور شدہ کو ئی چار ٹرڈاکاؤٹنٹ یہ کا م سر انجامدیتا ہے وہ اپنے آڈٹ کی رپورٹ دیتا ہے اس اعتبار سے بھی ان کا کردار صاف اور بے غبار ہے اگر ایسا نہ ہو تو لو گ انہیں کبھی ا پنا  تعا ون پیش نہ کریں ۔لوگ اس اعتماد کے بعد ہی ان سے تعاون کرتے ہیں کہ ان کی دی ہو ئی رقم صحیح مصرف ہر ہی خرچ ہو رہی ہے اور ایک ایک پائی کا حساب ان کے ہاں مو جو د ہے۔لیکن یہ دینی ادارے حساب کتاب میں حکومت کی مداخلت کے اس لیے خلا ف ہیں کہ جس حکومت کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں انہیں دوسروں کا حساب کتاب دیکھنے کا حق کیوں کر دیا جا سکتا ہے؟

حکومت پہلے زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی صحیح کا ر کردگی پیش کرے اہل ملک کے بارے میں اپنی خیر خواہی کا ثبوت مہیا کرے اور اپنی غیر جانبداری تسلیم کرائے تو پھر دینی مدارس بھی یقیناً ع"آن راکہ حساب پاک است ،از محاسبہ چہ باک" کے مصداق حکومت کا حق احتساب تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

6۔مدارس دینیہ کے خلا ف عالمی استعمار کی شازش :۔

مو جود حالات  میں تو وہ کسی طرح اپنے معاملا ت میں حکومت کو دخل اندازی کاحق دینا پسند نہیں کرتے اور واقعۃًحکومت اسی حق کی اہل بھی نہیں ہے کیونکہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کی ہاہاکا ر یہ کسی کے اشارہ ابرو کا نتیجہ ہے حکومت صرف اداکار ہے ہدایت کا ر کو ئی اور ہے یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کے کارندوں کا شور و غوغا صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ چونکہ یہ بین الاقوامی استعمار کی سازش کا ایک حصہ ہے اس لیے بیشتر ملکوں میں ان کے خلا ف سر گرمیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔

پاکستان کے ساتھ ہی ہندستان ہے ،جہاں پکستان ہی کی طرح وہاں کے ہر شہر اور قصبے میں دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے اور وہاں بھی پاکستان کی طرح دینی مدارس ہی دین کی نشرواشاعت اور اس کے تحفظ و بقا کا واحد ذریعہ ہیں اس لیے وہاں متشدد ہندو تنظیمیں ان کے خلا ف سر گرم ہو گئی ہیں چنانچہ 24دسمبر 1994ءکو لکھنؤ میں "وشوہند پرلیشد "اور تشدد پسند ہندو تنظیموں کے تعاون سے ایک عظیم اجتماع ہوا جس میں اشتعال انگیز  تقریروں کے ساتھ شعلہ بار پمفلٹ فولڈر اور ہینڈبل تقسیم کئے گئےاس میں تقسیم کئے گئے ایک فولڈر میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ "مدارس دینیہ" جو دہشت گرد ی تشدد پسندی اور بنیاد پرستی کا گڑھ ہیں جو قومی یکجہتی میں مانع ہیں حکومت ان کے ساتھ کو ئی نرمی کا معاملہ نہ کرے اور وہاں سے ان سر گرمیوں کو موقوف کرے جو مسلم قومیت کی انفرادایت کی بقا اور استحکام میں اہم کردار ادا کر رہی ہے"اس قسم کے نعرے بھی لگا ئے گئے کہ اگر ان مدارس سے حکومت نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو دیش کی کھنڈتا اور مریادا کے لیے خود یہ فریضہ سر انجام دیں گے۔(ماہنامہ "بانگ دارا"لکھنؤ جنوری 1995ءص3)

دیکھ لیجئے !اس میں ان مدارس دینیہ کا "قصور " یہ بتلا یا گیا ہے کہ یہ "مسلم  قومیت کی انفرادیت کی بقا اور استحکام کے ضامن ہیں " ان کا یہی "جرم "ہے جو عالمی استعمار کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اپنی پھٹو حکومتوں کے ذریعےسے ان پر کا ری ضرب لگوانا چا ہتا ہے ۔قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ.