ترجمان القرآن

آیت نمبر۔137،138۔
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚ وَهُوَالسَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾﴿صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ﴾...البقرة
" اگر وه تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وه صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وه خوب سننے اور جاننے والا ہے(137) اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں”

اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر اہل کتاب اور کفار تمہاری سب کتب انبیاء علیہ السلام  پر بلا تفریق ایمان لائیں تو سمجھ لیجئے کہ وہ سیدھے رستے پر آ گئے،حق بات کو  پاگئے اور اگر دلیل کے آجانے کے بعد باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف نہیں آتے تو جان لیجئے:وہ ہٹ دھرم ہیں ضد پر قائم ہیں،اللہ خود ان سےنپٹ لے گا اورتمھیں فتح عطا کرے گا۔یہی حال مقلدین کا ہے کہ اگر وہ   اہل سنت کی طرح قرآن وحدیث کو جان لیں تو سمجھ لیجئے وہ رستے پر آگئے۔اور نہ مانیں تو جان لو کہ اپنی ضد پر جمے ہوئے ہیں،غرض اللہ متبعین کو کفایت کرتا ہے۔

لفظ"شقاق" شق سے مشتق ہے۔اس کا معنی ہے"طرف" کیونکہ ہر فریق دوسرے فریق سے مخاصمت کیوجہ سے ایک جانب ہوتاہے یا اس کا مفہوم صعوبت ہے ۔کیونکہ ہر فریق ایسا کام کرتا ہے۔جو د وسرے پر شاق  ودشوار گزرتا ہے۔آیت کا مفہوم دونوں طرح درست ہے۔ابو العالیہ نے شقاق  کے معنی فراق کہے ہیں۔کسی نے اختلاف ومخالفت،کسی نے عداوت  ومحاربت اور کسی نے  گمراہی(وغیرہ) مراد لیا ہے۔اس آیت میں معجز ہ ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا کہ جو خبر اللہ کے کفایت کرنے میں بطور غائب دی گئی تھی وہ پوری ہوئی۔اللہ نے ا پنا وعدہ وفا کیا،اللہ نے بنی قریظہ ،بنی نضیر اور قینقاع پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فتح عطا کی۔یہود ونصاریٰ کو ذلیل ورسوا کیا۔

نافع رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:میں نے آنکھ سے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا خون،شہادت کے وقت اسی آیت پر گرا تھا۔(ابن ابی حاتم)

"صِبْغَةَ اللَّـهِ "

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:اللہ کے رنگ سے اللہ کا دین مراد ہے۔ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   اور تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی قول ہے۔بعض نے کہا"تطہیر" ہےبعض نے ایمان کہا یعنی اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر بندوں کو پید اکیا گیا۔عیسائیوں کے گھر جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں اس کورنگتے تھے۔اس کو"معمودیہ" کہتے ہیں،اسی کو تطہیر اولاد ٹھہراتے تھے۔جب اس پر رنگ چڑھ جاتا تو کہتے:اب سے سچ مچ نصرانی ہوگیا۔اللہ نے اس بات کا رد فرمایا کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔یعنی دین اسلام جس کو آدم علیہ السلام   سے لے کر عیسیٰ  علیہ السلام  تک سارے پیغمبر لائے ہیں۔اس رنگ سے بڑھ کر کسی رنگ میں تطہیر وطہارت نہیں ہے۔یہ رنگ خاص اللہ کا لباس ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:بنی اسرائیل نے کہا؛"اے موسیٰ علیہ السلام  کیا تیرا رنگ اللہ رنگتا ہے۔؟موسیٰ  علیہ السلام  نے فرمایا:اللہ سے ڈرو۔اللہ نے موسیٰ علیہ السلام  کو فرمایا:"تو کہہ"ہاں میں سرخ ،سیاہ،سفید رگ د یتا ہوں،یہ سارے رنگ میرے ہی رنگ ہیں۔"

پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر یہ آیت نازل ہوئی(اسے ابن ابی حاتم نے موقوفاً ابن مردودیہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے موقوف کو بشرط صحت اسناد مشکوک بتایا ہے)

بعض نے کہا: رنگ سے مراد"ختنہ" ہے۔اس لئے ختان سے خون نکلتا ہے اور ختنے والا اس میں رنگا جاتا ہے مگر پہلا قول"اولیٰ" ہے۔

آیت نمبر 139۔140۔141۔

﴿ قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّـهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ﴿١٣٩﴾ أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّـهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٠﴾ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ  ﴾...البقرة

" آپ کہہ دیجیئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں (139) کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کہ کیا تم زیاده جانتے ہو، یا اللہ تعالیٰ؟ اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیاده ظالم اور کون ہے؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں (140) یہ امت ہے جو گزرچکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے، تم ان کےاعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے "

اللہ نے اسی جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان مشرکوں کے ساتھ بحث وتمحیص کو چھوڑ دیجئے اور کہہ دیجئے کہ تم  میرے ساتھ توحید ،اخلاص،اتباع اور امرونواہی اور زجرو توبیخ کے ترک کرنے میں مناظرہ کرتے ہو؟ حالانکہ ہمارے درمیا ن متصرف ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ۔جو اخلاص الوہیت کا مستحق ہے۔وہ وحدہ لا شریک ہے ۔ہم تمہارے کام سے بری ہیں اور تم ہمارے کام سے بیزار،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٤١﴾...يونس

"اور ا گر یہ آپ کی تکزیب کریں تو کہہ دیجئے کہ مجھے میرے اعمال کا بدلہ ملے گا اور تمھیں تمہارے اعمال کا،تم میرے اعمال کے لئے جوابدہ نہیں ہو اور میں تمہارے اعمال کا جوابدہ نہیں ہوں"

دوسری جگہ فرمایا:۔

﴿فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ...﴿٢٠﴾...آل عمران

"اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں تو کہہ دیجئے کہ میں اور میرے ماننے والے تو اللہ کے فرمانبردار ہوچکے ہیں"(آل عمران:20)

اور اللہ نے فرمایا: أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّـهِ ۔۔۔ یہ ابراہیم علیہ السلام  نے اپنی قوم سےجھگڑے کے وقت فرمایا تھا۔اللہ نے فرمایا،( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ)۔۔۔اسی طرح اس آیت میں یہ ارشاد کیا کہ ہم تم سے بری  تم ہم سے بری،ہم تو اسی ایک اکیلے اللہ کے پوجنے والے ہیں۔ پھر اللہ نے ان کے اس دعویٰ کہ ابراہیم علیہ السلام  وغیرہ انبیاء علیہ السلام  واسباط ملت یہودیت ونصرانیت  پر تھے،کاردفرمایا کہ تمھیں اللہ سے بھی زیادہ خبر ہے؟ جوتم ایسا دعویٰ کرتے ہو،حالانکہ اللہ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ نہ یہودی تھے نہ نصرانی،جیسے اللہ نے فرمایا:

﴿ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾...آل عمران

" ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وه تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وه مشرک بھی نہیں تھے"

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: جوکتاب ان کے پاس آئی تھی،اس میں وہ پڑھتے تھے کہ دین یہی اسلام ہے،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں،ابراہیم علیہ السلام  ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام  اور ان کی اولاد یہودیت نصرانیت سے بری بیزار اور الگ تھلگ تھے۔ گویا انہوں نے اس بات کا اقرار کرلیا تھا۔ لیکن عین وقت پر  اس گواہی کو چھپا گئے۔اللہ نے کہا:تمہارے اس چھپانے سے کچھ نہیں ہوتا،ہم تمہارے کام سے اچھی طرح باخبر ہیں۔اس کلمہ میں بڑی سخت وعید اور تحدید ہے۔یہود ونصاریٰ کے لئے کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے،وہ تمھیں ضرور تمہارے اعمال کی جزا وسزا دے گا۔پھر فرمایا کہ تمہارا ابراہیم علیہ السلام  کی طرف نسبت کرنا تمھیں کچھ کام نہ دے گا جب تک اتباع نہیں کرو گے۔جس نے ایک نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا انکار کیا اس نے گویا سارے انبیا علیہ السلام  کا انکار کیا۔خصوصاً جس نے سید الانبیاء علیہ السلام  خاتم الرسل،رسول رب العالمین، کا انکار کیا ،وہ سارے انبیاء علیہ السلام  کا منکر ہوا۔(ان سطور پر پہلا پارہ اختتام کوپہنچا۔فالحمدللہ)